جس طرح وہی پر رات کا اندھیرا چھایا ہوا تھا، اسی طرح سیدن شاہ کی حویلی پر بھی رات اتری ہوئی تھی۔ فرق یہ تھا کہ صحرا میں روشنی کہیں نہیں تھی لیکن حویلی میں برقی قمقمے روشن تھے۔ اس رات حویلی میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ وہ سیدن شاہ جس نے ہمیشہ جیت دیکھی تھی۔ ہارنے کا مزہ جس نے چکھا ہی نہیں تھا، وہ کسی زخمی شیر کی مانند اپنے کمرہ خاص میں، اپنے بستر پر پڑا بے چین ہو رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہاتھا کہ اس سے کہاں غلطی ہوئی ہے جس کی بنا پراتنی بڑی ہزیمت اٹھانا پڑی۔ وہ شخص جو ووٹوں کے حصول میں الیکشن کے میدان اور طاقت کے لحاظ سے کسی بھی طرح اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا، اس نے بہت چالاکی ا ور ہوشیاری کے ساتھ اس سے استعفیٰ لے لیاتھا۔ یہاں تک کہ اس نے آئندہ الیکشن نہ لڑنے کا وعدہ بھی لے لیاتھا۔ اس کی طاقت، اس کے تعلقات اور اس کی رسائیاں کسی کام نہیں آ سکی تھیں۔ کیا اس نے خان محمد کے قتل کا حکم دے کر غلطی کی تھی ؟اس غلطی کو نہ سیدن شاہ کا دماغ مان رہاتھااورنہ دل۔ کچھا یسا ہوا تھا جس کی وجہ سے اس کی قسمت ہار رہی تھی۔ ورنہ جب وہ پچھلی بار اپنی حویلی میں آیا تھا تو اسے آتے ہی یہ خبر مل تھی کہ رب نواز اپنی بہن مہرو کو لے جاچکا ہے۔ اس نے چوکیدار کوبھی زخمی کیااورفائرنگ کرتاہوا بھاگ گیا۔
حویلی کے سارے ملازمین یہ توقع کر رہے تھے کہ سیدن شاہ ایک طوفان کھڑا کر دے گا، نجانے کس کس پر ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹیں گے۔ ڈرامائی خوف سے تھر تھر کانپ رہی تھی۔ چوکیدار اپنے انجام کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔ اس نے یہ خبر سنی اور خاموش ہو گیا۔ اس نے اپنے آپ کو کمرے میں بند کر لیاتھا۔ پھر پوری رات گزر گئی۔ اگلا دن بھی گزر گیا۔ سیدن شاہ کمرے سے باہر نہیں نکلا۔ خاص ملازمائیں جوکھانے پینے کا سامان لے کر جاتی تھیں، ویسے ہی واپس لے آتی تھیں۔ یہ دوسری رات تھی۔ شاید اس نے اپنی شکست کو ابھی تک قبول نہیں کیا تھااور اگر قبول کرلیاتھا تو برداشت کے لئے اسے وقت چاہیے تھا۔ وہ بے چین تھااور اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ایسا کیوں ہو گیا۔
’’سائیں۔۔۔ پیراں دتہ آپ سے ملنے کی اجازت چاہ رہا ہے۔‘‘ اس ملازمہ نے اسکے قریب آ کر ڈرتے ڈرتے ڈھیمی سی آواز میں کہاتو سیدن شاہ چونک گیا۔ چند لمحے اس کی جانب دیکھتا رہا اورپھر دھیرے سے کہا۔
’’ہاں۔۔۔ بلاؤ اسے۔‘‘
اس کاا تنا ہی کہنا تھا کہ ملازمہ تیزی سے باہر چلی گئی۔ پھر چند لمحے ہی گزرے ہوں گے کہ پیراں دتہ اندرآ گیا۔ جیسے وہ باہر دروازے پر ہی کھڑاتھا۔ وہ سیدن شاہ کے بیڈ کی پائینتی کیجانب آکر کھڑا ہو گیا۔ سیدن شاہ نے اسے غورسے دیکھااور کہا۔
’’ہاں پیراں دتہ۔۔۔ بولو، کس لئے آئے ہو؟‘‘
’’پیر سائیں۔۔۔ آپ کی یہ حالت نہیں دیکھی جاتی۔ خدا کے لئے آپ۔۔۔‘‘
’’میں مر تو نہیں گیا پیراں دتہ، ابھی زندہ ہوں۔ آج تک ہم ہی ان پر راج کرتے آئے ہیں۔ کیا ہوا جو انہوں نے ہماری غلطی ہی کی و جہ سے ہمیں شکست دینے کی کوشش کی۔ ہم ہی ان پر راج کریں گے اور کرتے رہیں گے۔ ان کی یہ وقتی کامیابی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔‘‘
’’تو پھریوں پیر سائیں۔۔۔‘‘ پیراں دتہ کہتے کہتے رک گیا۔
’’دیکھو میں سیاست دان نہیں ہوں۔ اس پورے علاقہ کا مالک ہوں اور جس و جہ سے میری ان پر ملکیت ہے وہ بنیاد ہے میرے پاس۔ بس کسی طرح یہ عرس گزر جانے دو۔ اس کے بعد میں اپنے دشمنوں کو یوں بھگا بھگاکر ماروں گا۔ جیسے کوئی شکاری کسی ہرن کو بھگا کر تھکا کر شکار کرتا ہے۔‘‘ اس نے یہ کہا اور پھر چونکتے ہوئے بولا۔ ’’رب نواز کا پتہ چلا، پکڑ لیا ہے اسے؟‘‘
’’نہیں سائیں۔۔۔‘‘ پیراں دتے نے لرزتے ہوئے کہا۔ ’’وہ مہرو کے ساتھ اس طرح غائب ہوا ہے کہ اس کا پتہ ہی نہیں چل رہا ہے۔ روہی کا ہر کونا چھان مارا ہے۔ لگتا ہے وہ روہی چھوڑ کر نکل گیا ہے۔‘‘
’’ہوں۔۔۔ سیدن شاہ نے ہنکارہ بھرا اور پھر چند لمحے توقف کے بعد بولا۔ ’’رب نواز کو جب دیکھو اور جہاں دیکھو اسے گولی مار دو۔ ا س کی یہی سزا ہے۔ پہلی بار ا س حویلی سے کوئی لڑکی میرے بستر پر آنے سے پہلے بھاگ گئی ہے۔ جب تک وہ دوبارہ واپس نہیں آ جاتی۔ مجھے چین نہیں آئے گا۔ وہ ہرحال میں واپس آنے چاہیے۔ میرے خلاف بولنے کی یہی سزا ہے۔ میرا ہی کتا مجھ بپر بھونکا۔‘‘
’’سائیں۔۔۔ میں اس معاملے کو اچھی طرح سمجھتا ہوں کل رات سے لے کر آج تک روہی چھان ماری ہے لیکن دونوں کا پتہ نہیں مل رہا۔ کوئی سراغ نہیں ملا ان کا، نجانے انہیں زمین نگل گئی ہے یا آسمان۔ وہ دونوں بچ کر نہیں جا سکتے۔ میں انہیں تلاش کر کے لاؤں گا، چاہے مجھے ان کے پیچھے کہیں بھی جانا پڑے۔ سیدو نے مجھے ساری بات بتا دی ہے کہ اس ے ہی باجوہ کو بیان دیا تھا۔‘‘
’’یہ بہت ضروری ہے۔‘‘ سیدن شاہ نے غراتے ہوئے کہا۔ ’’دیکھو پیراں دتہ۔۔۔ اس پورے علاقے میں جو بھی ہمارا دشمن ہے یا تو اسے ختم کر دو یا پھر یہاں سے بھگا دو۔ عرس کی تقریبات پر میں کسی قسم کی کوئی حرکت برداشت نہیں کروں گا۔‘‘
’’پیر سائیں۔۔۔ اس پورے علاقے میں ایک خان محمد مضبوط آدمی تھا، جسے آپ نے ختم کروا دیا۔ اب کئی برسوں تک وہ لوگ نہیں اٹھ سکیں گے۔ آپ بھی ان پر ہاتھ رکھ دیجئے گا۔ اب صرف ایک شخص یہاں موجود ہے اور وہ ہے علی۔۔۔‘‘
ہوں۔۔۔‘‘ اس نے سوچتے ہوئے کہا۔ ’’میں نے آج تک اسے اہمیت نہیں دی۔ اسے صرف اس لئے نظر انداز کرتا رہا ہوں کہ وہ خود ہی یہاں سے چلا جائے گا، یا پھر اگر وہ کسی کے لئے کام کر رہا ہے وہ سامنے آجائے گا۔ تم نے کوئی ایسی بات دیکھی۔‘‘
’’ایسا تو کچھ نہیں ہے پیر سائیں۔ مگر۔۔۔‘‘
’’مگر کیا۔۔۔‘‘ سیدن شاہ نے چونکتے ہوئے کہا۔
’’ہمیں آج تک احساس ہی نہیں ہوا تھاکہ میاں جی کتنی بڑی ہستی ہیں۔ ہم انہیں یونہی فقیر درویش سمجھتے رہے ہیں۔ وہ جاتے ہوئے علی کو بہت کچھ دے گئے ہیں۔ اس کی کرامات۔۔۔‘‘پیراں دتہ کہتا کہتا رک گیا۔
’’اس کی کرامات کو بے نقاب کرنے کا وقت نہیں ہے پیراں دتہ۔۔۔ وہ ہماری طرح لوگوں کو بے وقوف نہیں بنا سکتا۔ نہ اس کے پاس طاقت ہے اور نہ وسائل۔ تم کوشش کرو کہ وہ یہاں سے چلا جائے۔ اگر نہیں مانتا ہے تو اسے بھی گولی مار دو۔۔۔ اوریاد رکھو، اس بار نشانہ چوکنا نہیں چاہیے۔ ورنہ میں تمہیں ختم کر دوں گا۔‘‘ سیدن شاہ کے لہجے میں کچھ ایسی خفگی تھی کہ پیراں دتہ پوری جان سے لرز گیا۔ وہ ایک لفظ بھی نہیں کہہ سکا تھا۔ خاموش رہا۔ تبھی وہ بولا۔ ’’یہ سب کچھ غیر محسوس انداز میں ہونا چاہیے اور کل صبح سے عرس کے انتظامات بھی شروع ہو جانے چاہیں۔‘‘
’’جیسے حکم سائیں کا۔‘‘ پیراں دتے نے تقریباً جھکتے ہوئے کہا۔
’’اب جاؤ، صبح ملاقات ہو گی۔‘‘ سیدن شاہ نے کہا اور بستر پر دراز ہو گیا۔ وہ واپس چلا گیا تو تنہائی پاتے ہی سیدن شاہ نے خود میں بے چینی ختم ہوتی ہوئی محسوس کی۔ ہزیمت کے احساس کا غبار چھٹا تو اسے سمجھ آنے لگی کہ اسے کیا کرنا ہے۔ پھر وہ رات گئے تک سوچتا رہا کہ اس نے کیا کرنا ہے۔ اس تناظر میں اسے امین خان کی سیاست ایک بچگانہ کھیل لگی۔ وہ مسکرا دیا۔ اب وہ خود بھی چاہتا تو امین خان اس کے عتاب سے نہیں بچ سکتا تھا۔ اس نے اپنے ذہن سے سارے خیالات کو نکالا اور پر سکون نیند کے لئے بستر پر پھیل گیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
جنڈ کے درخت تلے صف بچھا کر بیٹھا ہواعلی ان مزدوروں اورکاریگروں کو دیکھ رہاتھا جو کام میں مصروف تھے۔ احمد بخش ان کے ساتھ پوری طرح مگن تھا۔ جبکہ درویش بابا اپنی ڈیوٹی نبھانے کے لئے مدرسے ہی کے کسی کونے میں تھا۔ اس لمحے اسے پوری طرح احساس تھا کہ یہ کس کاسرمایہ دیواروں میں تبدیل ہو رہا ہے۔ قسمت اسے اچانک اس موڑ پر لے آئی تھی جہاں فرزانہ خود چل کر اس کی مدد کو پہنچی تھی۔ جس وقت اس نے حامد کو عندیہ دیا تھا، اس وقت اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس سرمایے کے پیچھے فرزانہ بھی ہو سکتی ہے۔ علی کو بالکل افسوس نہیں تھا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ وہ تو خوش تھا کہ اس کی ذات پر نہیں کسی ٹھیک مقصد کے لئے یہ پیسہ خرچ ہو رہا ہے۔ کام بڑی تیزی سے ہو رہا تھا۔ اسے یہی بہت خوشی تھی کہ میاں جی کی وصیت پوری کرنے کے قابل ہو گیاہے۔ حامد نے کل جب کیش اسے دینا چاہا تھا ، تب اس نے درویش بابا کو بلا کر پوچھا تھا۔
’’درویش بابا۔۔۔ مدرسے کی تعمیر کے لئے یہ صاحب رقم دے رہے ہیں۔ کیاخیال ہے۔ میں یہ لے لوں یا شکریہ کے ساتھ واپس کر دوں۔‘‘
’’کیا آپ نے رقم ان سے مانگی تھی؟‘‘ درویش بابا نے پوچھا۔
’’نہیں۔۔۔ یہ خود ہی لے کر آئے ہیں۔‘‘ علی نے تحمل سے کہا۔
’’تو پھر قبول کر لینے میں کیا حرج ہے۔ درویش مانگتانہیں ، سوائے اللہ کی ذات سے، اگر کوئی دے تو اسے قبول کرتا ہے اور اپنے پاس نہیں رکھتا۔‘‘ درویش بابا نے عام سے انداز میں فقیر کارویہ بتا دیا۔ وہ نشانی بتا دی جس سے ایک فقیر پہنچانا جاتا ہے۔
تو پھر قبول کیجئے۔ اور اپنی مرضی سے جہاں چاہیں خرچ کریں۔یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔‘‘ علی نے درویش بابا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو بابا نے وہ رقم پکڑ لی۔ ’’آپ احمد بخش کو لے لیں اور علاقے سے مزدوروں کا بندوبست کر لیں۔‘‘
’’جیسے حکم فقیر سائیں۔‘‘ درویش بابا نے گہری سنجیدگی سے کہا اور ایک طرف کو چل دیا۔ اس وقت سے وہ ٹک کر نہیں بیٹھا تھا۔ رات گئے لوٹا تھا اور پھر فجر کے بعد ہی سے ان مزدوروں کا انتظار کرنے لگا تھا۔ علی اس طرف سے مطمئن ہو گیا تھا اور اسے مہرو کی طرف سے بھی اطمینان تھا کہ اب وہ محفوظ ہاتھوں میں ہے، نہ صرف فرزانہ اس کی قدر کرے گی بلکہ کوئی تکلیف نہیں آنے دے گی۔
علی انہیں سوچوں میں تھا کہ دور سے اسے گاڑیوں کا ایک قافلہ آتا دکھائی دیا۔ یہ اس لئے بھی واضح ہو رہا تھا کہ گاڑیوں کی وجہ سے اٹھتی ہوئی دھول نے بگولے کی صورت اختیار کر لی تھی۔ علی ایک ٹک اس کی طرف دیکھنے لگا کہ یہ کون ہو سکتے ہیں۔ ممکن ہے وہ راستہ بدل کر کچی بستی کی طرف چلیں جائیں۔ مگرایسا نہیں ہوا، گاڑیوں کا وہ قافلہ قریب سے قریب تر آتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ حامد کی گاڑی واضح ہو گئی اور پھر چند لمحوں کے بعد وہ ان کے قریب آ کر رک گئے۔ حامد کی وین کے پیچھے قیمتی جیپ تھی۔ جس کا د روازہ کھلا اور اس میں سے فرزانہ باہر نکل آئی۔ قیمتی گاگلز لگائے سر کو سیاہ حجاب سے ڈھانپے، پیازی رنگ کے لباس میں ملبوس فرزانہ جب اس کے قریب آئی اس نے گاگلز اتار کر علی کو دیکھا تو علی ایک ٹک اس کی طرف دیکھتا رہ گیا۔ وہ پہلے والی فرزانہ ہی نہیں تھی۔ میک اپ سے بے نیاز چہرہ، آنکھوں کے گرد حلقے، اور سب سے بڑی بات اس کی آنکھوں میں تھی۔ وہ بے باکی، احساس تفاخر اور تیکھا پن نہیں تھاجو کبھی فرزانہ کی پہچان ہوا کرتی تھی۔ اب وہاں حیا، دھیما پن، عاجزی اور ایک پیاس موجزن تھی۔ دونوں ایک دوسرے کو کتنے ہی لمحوں تک یونہی دیکھتے رہے۔ شاید وہ بھی اس علی کو تلاش کر رہی تھی جو کبھی یونیورسٹی میں اس کا کلاس فیلو ہوا کرتا تھا، اب تو اس کے سامنے پیوند لگے کپڑوں ، ٹوٹے ہوئے جوتوں، بے ترتیب داڑھی،الجھے ہوئے بالوں والا شخص کھڑا تھا جس کی آنکھوں میں بے پناہ توانائی تھی۔ ایسی توانائی جو کسی کو اندر تک دیکھ سکے۔ فرزانہ اسے دیکھ کر اندر سے لرز گئی تھی۔ اپنے گنہگار ہونے کا احساس شدت اختیارکر گیا تھ ا۔ اس نے خود پر بہت قابو پایا لیکن برداشت نہ کر پائی۔ اپنی کم مائیگی کا احساس آنکھوں سے اشک بن کر بہنے کے لئے بے تاب ہو گیا۔ فرزانہ کو معلوم تھا کہ بہت سار لوگ اسے دیکھ رہے ہیں۔ وہ خود کو، اپنے تعلق کو اور اپنے اس احساس کو تماشہ نہیں بنانا چاہتی تھی اس لئے آگے بڑھی اور اس نے علی کا ہاتھ تھام کر اپنے ماتھے سے لگا لیا۔ تبھی اشک علی کی ہتھیلی کی پشت پر ٹپک گئے۔
نمی کے احساس کے ساتھ ہی علی کو یوں لگا جیسے ایک صحرا کی پیاس انہیں ا شکوں سے بجھ گئی ہو۔ ان اشکوں کا احساس اس کے خون کی روانی میں شامل ہو گیا۔ جیسے فرزانہ لفظوں میں اور اشکوں سے اپنا مدعا کہہ رہی ہو۔ وہ کیاکہنا چاہتی ہے یہی احساس اس کے پورے بدن میں سرائیت کر گیا تھا۔ بس ایک لمحے کے لئے اس نے علی کی ہتھیلی اپنے ماتھے سے لگائی تھی اور پھر اسے چوم لیا۔ علی کوہ لگا جیسے صدیوں کی پیاس ا س کے بدن میں منتقل ہو گئی ہو۔ دو جلتے ہوئے لب، سمندر میں ڈوب کر اپنے بے تابیاں ختم کرنے کے لئے تڑپ رہے ہوں۔ بس ایک لمحے میں لمس کے احساس نے، اشکوں کی تپش نے علی تک وہ ساری بات پہنچا دی جسے کہنے کے لئے فرزانہ نجانے کتنی راتوں سے سوچ رہی تھی۔
’’آؤ بیٹھو۔۔۔‘‘ علی نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے صف کی جانب اشارہ کیا تو وہ اس کے سامنے آ بیٹھی۔ فرزانہ کے بیٹھنے کا انداز یوں تھا جیسے کوئی ساکل اپنے شیخ کے سامنے زانوئے تہہ کرتا ہے۔ شاید فرزانہ نے اپنے ساتھ آئے لوگوں کہ پہلے سے سمجھا دیاتھا۔ اس لئے وہاں کوئی نہیں رہاسب مدرسے کی طرف چلے گئے اور وہاں جنڈ کے درخت کے نیچے فرزانہ خاں اور علی رہ گئے۔
’’کیسی ہو۔۔۔؟‘‘ علی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ویسی نہیں ہوں، جیسے تم چھوڑ کر آئے تھے۔‘‘ فرزانہ نے دھیرے سے کہا۔ لہجے میں نہ کوئی شکوہ تھا اور نہ شکایت، بس بھیگا ہوا لہجہ تھا۔
’’کیوں۔۔۔‘‘ علی نے پوچھا تو اس نے سر اٹھایا اور بڑے تحمل سے کہا۔
’’علی۔۔۔ تم مجھے آدھی بات کہہ کر آئے ہو۔ اسی کا مجھے شکوہ ہے۔ ورنہ مجھے تم سے کوئی شکایت نہ ہوتی۔‘‘
’’آدھی بات۔۔۔ وہ کیا؟‘‘ علی نے عام سے انداز میں پوچھا۔
’’تم مجھے یہ تو کہہ آئے تھے کہ میں محبت کی اہل نہیں ہوں۔ یہ آدھی بات نہیں تو اور کیا ہے۔ پوری بات تو یہ ہوتی نا کہ جب تم مجھے یہ بھی بتا کرآتے کہ محبت کے لئے اہل کیسے بنتے ہیں؟‘‘ فرزانہ کے لہجے میں قدرے تیزی آ گئی تھی جیسے لفظوں کے ساتھ، انتظار کی اذیت بھی وہ اس کے سامنے رکھ دینا چاہتی تھی۔ اس پر علی مسکرایا اور دھیرے سے بولا۔
’’تم کیا سمجھتی ہوں کہ تم اب بھی محبت کی اہل نہیں ہوئی ہو؟‘‘
’’اللہ جانے۔۔۔ یا پھر تم جانو۔۔۔ میری جو سمجھ میں آیامیں کرتی چلی گئی۔‘‘ اس نے انجان سے لہجے میں کہاجس میں لاپرواہی ٹپک رہی تھی۔
’’نہیں فرزانہ۔۔۔ تم محبت کی اہل ہو، جو اللہ کی مخلوق سے محبت کرتے ہیں، وہ تو محبت سے بڑھ کر عشق کے اہل ہو جاتے ہیں۔ تمہیں معلوم ہے کہ اہل عشق کا درجہ کیا ہوتا ہے؟‘‘ علی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’علی۔۔۔ میں نہیں جانتی کہ محبت کیاہوتی ہے اور اہل عشق کون ہوتے ہیں۔ میرے لئے توعشق بھی تم ہو ، محبت بھی تم ہو۔ ہاں مجھے پہلے یہ سمجھ نہیں تھی کہ جس سے عشق کرتے ہیں اسے اپنے معیار پر نہیں لاتے۔ اسے اپنی مرضی کے مطابق نہیں ڈھالا جاتا اور نہ ہی ان پرکوئی حکم چلتا ہے۔ یہ تو اب پتہ چلا ہے کہ خود کو ان کے معیار پر لایا جاتا ہے۔ ان کی مرضی کے مطابق خود کوڈھالا جاتا ہے اور ان کے حکم کاانتظار کیاجاتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنا آپ بھی ان پر وار دیا جاتا ہے۔ پھر بھی اس سے کوئی گلہ نہیں ہوتا۔ کوئی شکایت نہیں کی جاتی وہ چاہے تو قبول کر لے اور چاہے تو نہ کرے۔‘‘ فرزانہ نے بہت ہی نرم لہجے میں دھیرے دھیرے لفظ لفظ اپنی بات کہی تو علی ایک دم سے نجانے کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ وہ دیکھ رہاتھا کہ یونیورسٹی کے کاریڈور میں پورے وقار اور انا سے چلنے والی لڑکی اس وقت ریت پر پڑی صف کے اوپر بیٹھی کس قدر نرم اور عاجزانہ لہجے میں بات کر رہی ہے۔ وہ مسکرا دیا اور بڑے پیار سے بولا۔
’’ہاں فرزانہ۔۔۔ میں بھی محبت کی روح کو نہیں سمجھتا تھا، ہاں مگر انسان کی قدر ضرور کرنا چاہتاتھا۔ میں بھی غلط تھا کہ ہندسوں میں الجھے ہوئے لوگوں سے نفرت کرتا تھا اور لفظوں کے کھیل کو حرفِ آخر جانتاتھا، لیکن یہ میرے اللہ کا کرم ہے کہ اس نے مجھ پر کرم کیا۔ اپنا عشق دے دیا۔ لوگوں کی خدمت کرنے کے لئے چن لیا۔ خیر۔۔۔ تم بتاؤ اس ویرانے میں کہاں چلی آئی۔ مجھے حکم دیا ہوتا میں چلا آتا۔‘‘
’’نہیں علی حکم دینے والی فرزانہ کب کی دفن ہو چکی ، اب تو حکم ماننے والی فرزانہ ہے یہ حکم چاہے میرے اللہ کا ہو، میرے نبیﷺ کا ہو یا پھر اس کا جس نے مجھے یہ راہ دکھائی ہے۔ باقی رہا یہاں آنے کا سوال تو میں اسے لئے آئی ہوں علی۔۔۔ مجھے بتاؤ محبت کے لئے اہل کیسے بنتے ہیں۔ میں محبت کے لئے خود کو اہل ثابت کرناچاہتی ہوں۔‘‘
’’اللہ رب العزت۔۔۔جب کسی کوعشق کے لئے چن لیتا ہے ناتو اس بندے کو خود احساس ہوجاتا ہے کہ وہ اہل تھا اس لئے اسے چنا گیا۔ اب یہ بندے پر ہے کہ وہ خود کو اہل ثابت کرسکتا ہے یا نہیں۔ تمام تر عنایات اور توفیق اللہ ہی کی طرف سے ہے وہ جسے جتنا چاہے دے دے۔‘‘ علی نے کہا تو فرزانہ کتنی دیر تک خاموش رہی۔ وہ سر جھکائے نہ جانے کیا سوچتی رہی تھی۔ پھر دھیرے سے اس نے سراٹھایا اور بولی۔
’’علی۔۔۔ میں اعتراف کرتی ہوں کہ میں تمہاری گنہگار ہوں۔ میں اگر غلط نہ سوچتی تو شاید ایسا نہ ہوتا۔ تم اس ویرانے میں نہ پڑے ہوتے اور میں یوں اس ویرانے میں تمہارے سامنے شرمندہ ہو کر نہ بیٹھی ہوتی۔ میری ایک بات مانو گے؟‘‘
’’کہو کیا کہناچاہتی ہو۔‘‘ علی نے دھیرے سے کہا۔
’’مجھے معاف کر دو۔۔۔ میرے یہاں آنے کامقصد صرف اور صرف یہی ہے کہ تم سے معافی مانگوں اور اپنی بے چین روح کو پرسکون کروں۔ کیا تم مجھے معاف کر دو گے۔‘‘ فرزانہ نے انتہائی بے چارگی سے کہا تو علی دھیرے سے ہنس دیا اور بولا۔
’’میں نے تمہیں اس دن معاف کردیا تھا جب عشق کی پہلی چنگاری میرے من میں بھڑکی تھی یا شاید اس سے بھی پہلے۔ عشق وہاں آ ہی نہیں سکتا، جہاں پر تعفن ہو۔ بغض ، منافقت حرص اور لالچ یہ سب تعفن ہی توہیں۔ عشق کو زندگی ملتی ہے پاکیزگی سے۔ میں نے تمہیں یورنیورسٹی کے کاریڈور میں بھی کہاتھاکہ میں نے سب کو معاف کر دیاہے۔ تمہاری بے چینی ختم ہو جانی چاہیے۔ تم اپنی روح کوپر سکون کر لو۔۔۔ میں نے تمہیں معاف کیا۔‘‘
’’نہیں علی۔۔۔ تم نے مجھے پورے دل سے معاف نہیں کیا، لیکن تم کہتے ہو تو میں مان لیتی ہوں۔ مجھے سکون نہیں آئے گا۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی بے چین رہوں گی۔ ایساکیوں ہے میں اس وقت تم سے قطعاً ایک لفظ نہیں کہوں گی۔ بس ایک درخواست کروں گی کہ تم سوچنا، میں نے ایسا کیوں کیا کہ تم نے مجھے پورے دل سے معاف نہیں کیا۔‘‘
’’پاگل ہو تم۔۔۔‘‘ علی نے دھیرے سے مسکراتے ہوئے کہا اور پھربات بدلتے ہوئے ہوئے پوچھا۔ ’’ہاں بتاؤ۔۔۔ مہرو کا دل لگ گیاہے وہاں پر، کیامحسوس کر رہی ہے وہ۔‘‘
’’بہت معصوم اور بھولی ہے مہرو۔ مجھے تو بہت اچھی لگی ہے۔ میں اس کے پہنچنے سے پہلے ہی اس کے لئے ڈھیر سارے کپڑے خریدے اور۔۔۔‘‘ بڑے مزے سے کہہ رہی تھی کہ علی نے ٹوک دیا۔
’’تمہیں کیاالہام ہو گیاتھا اس کے سائز کا؟‘‘ علی نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’ہاں۔۔۔ سیل فون جدید الہام ہی ہے۔ میں نے حامد کے ساتھ آئی روبینہ سے پوچھا تھا۔ خیر۔۔۔ جب وہ آئی تو میں نے وہ ساری شاپنگ اسے دی۔ وہ بہت خوش ہوئی۔ میں نے دفتر کے ہی اوپر والے پورشن میں اسے ٹھہرایا ہے۔ دو خادمائیں اس کے لئے مخصوص کر دی ہیں۔جو اس کا ہر طرح سے خیال رکھتی ہیں اوروہ۔۔۔ نماز، تلاوت اور ذکر واز کار کے علاوہ کوئی اور کام ہی نہیں کرتی ہے، مجھے تو یوں لگاجیسے وہ تھوڑی سی کھسکی ہوئی ہے۔‘‘ فرزانہ نے عام سے لہجے میں کہا تو علی نے بولا۔
’’وہ ڈوب چکی ہے، اپنے ہی من میں ڈوب گئی ہے۔ سمجھ لو کہ وہ چکوری ہے اورچاند کی چاہ میں اڑتی چلی جا رہی ہے۔ خیر۔۔۔ تم اس کا بہت خیال رکھنا۔ میں شاید اسے تمہارے پاس نہ بھیجتا لیکن یہاں کا ایک بہت ہی طاقتور آدمی اسکی جان اورعزت کے در پے ہے، اس لئے۔۔۔‘‘
’’اس نے بھولپن میں ہی سہی، لیکن بہت کچھ بتا دیا ہے۔‘‘ فرزانہ نے اتنا ہی کہا تھاکہ اسی لمحے درویش بابا آ گئے۔ ا سکے ہاتھ میں تازہ ٹھنڈا کیاہوا دودھ تھا۔ وہ اس نے فرزانہ کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔
’’بیٹی۔۔۔ تمہارے شایان شان تو ہمارے پاس یہی ایک نعمت ہے۔ قبول فرماؤ۔‘‘ بابا نے کہا تو اس نے بسم اللہ کہہ کر پیالہ تھام لیا۔ پھر ایک لمبا سا گھونٹ لے کر بولی۔
’’علی۔۔۔ یہ یاد رکھنا کہ مجھے جاتے ہوئے سانول کی قبر پر فاتحہ ضرور پڑھنی ہے۔‘‘ فرزانہ کے یوں کہنے پرعلی چونک گیا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ مہرو نے انجانے میں اسے بہت کچھ بتا دیاتھا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے سر خم تسلیم کیا تو فرزانہ کو اس پر بہت پیار آیا، مگر وہ اس کا اظہار نہ کرسکی اور جلدی سے پیالہ منہ کو لگالیا۔ چند گھونٹ میں اس نے پیالہ خالی کیا اورپھر علی کے ساتھ مدرسہ دیکھنے کے لئے چل دی۔ کافی دیر تک گھومتے پھرتے رہنے کے بعد بولی۔
’’جتنا میں نے سوچاتھا، یہ تو اس سے بھی کم خرچ میں تعمیر ہو جائے گا۔ علی۔۔۔ تم ایساکرو، دوگنے مزدور لگادو۔ جتنی جلدی کام ختم ہوجائے اچھا ہے۔‘‘
’’تمہیں اس کام کے جلدی ختم ہو جانے میں کیا دلچسپی ہے۔‘‘ علی نے عام سے انداز میں پوچھا۔
’’کہنے کو تو میں بہت ساری باتیں کہہ سکتی ہوں۔ یہ کہ جتنی جلدی کام ختم ہو جائے اچھا ہے۔ جب یہ کام ختم ہو جائے گا تو میں پھر سے آؤں گی، تاکہ تم سے ایک بات پوچھ سکوں۔‘‘ فرزانہ نے انتہائی سنجیدگی سے کہا تو علی خاموش رہا۔ چند لمحے سوچتا رہا اور پھر درویش بابا کو بلا کر کہا۔
’’میڈم کی یہ خواہش ہے کہ یہاں مزدوروں اور معماروں کی تعداد جس قدر بڑھائی جاسکے، بڑھا دیں اور جتنی جلدی کام ختم ہو سکتا ہے ختم کر یں۔‘‘
’’ٹھیک ہے بیٹی۔۔۔ جیسا حکم ہے، ویسا ہی ہو گا۔‘‘درویش بابا نے کہا تو فرزانہ بولی۔
’’دل تو نہیں چاہتا کہ یہاں سے جاؤں، لیکن دفتر کے وقت میں ہی مجھے واپس جانا ہو گا۔ ورنہ بابا سائیں کے سامنے جھوٹ بولنا پڑے گا۔ میں جانتی ہوں کہ وہ مجھے یہاں آنے کی اجازت کیوں نہیں دیتے۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ تمہارا جلد از جلد یہاں سے چلے جانا ہی بہتر ہے۔‘‘ علی نے سوچتے ہوئے کہا۔ پھر تھوڑی سی دیر میں سب جمع ہو گئے۔ قافلہ واپس جانے کے لئے تیار ہو گیا۔ علی نے احمد بخش کو ساتھ بھیج دیا تاکہ وہ سانول کی قبر کے بارے میں بتا سکے۔ اس وقت ظہر ہو گئی تھی۔ جب وہ وہاں سے روانہ ہوئے۔ علی اس وقت تک انہیں جاتا ہوا دیکھتا رہا جب تک وہ نگاہوں سے اوجھل نہیں ہو گئے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اس وقت شام کے سائے ڈھل رہے تھے۔ دودن سے حویلی میں سیدن شاہ نہیں تھا۔ ان دونوں میں مریدین کے علاوہ علاقے کے بہت سارے لوگ اسے ملنے کے لئے آئے تھے ہر آنے والے کو یہی پتہ ملتا تھا کہ سیدن شاہ سائیں حویلی میں نہیں ہیں بلکہ شہر گئے ہوئے ہیں۔ اس کے مریدین تو زیارت کے لئے آ رہے تھے لیکن علاقے کے لوگ اس خبر کی تصدیق کر نے اور وجہ معلوم کرنے کے لئے آ رہے تھے کہ پیرسیدن شاہ نے اچانک استعفیٰ کیوں دے دیا ۔ ظاہر ہے وہ لوگ جنہوں نے الیکشن میں سیدن شاہ کا ساتھ دیا تھا، ان میں تو بے چینی پھیلنا ہی تھی۔ ان لوگوں کے مفادات وابستہ تھے۔ انہیں یہ تجسس تھا کہ آخر ایسی کیا مجبوری بن گئی جو سیدن شاہ نے استعفیٰ دے دیا۔ اگرچہ خان محمد کے قتل کے ساتھ ہی یہ افواہ پورے علاقے میں پھیل گئی تھی کہ یہ سب پیر سیدن شاہ سائیں کے ایماء پر ہوا ہے۔ لیکن جتنے لوگ یہ افواہ اڑانے والے تھے، اتنے ہی اس افواہ کو غلط قرار بھی دے رہے تھے۔ یوں کوئی صحیح صورت حال ان پر واضح نہیں تھی۔ وہ لوگ آئے مگر گومگو کی کیفیت میں مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔
اس بار جب وہ شہر گیا تھا تو پیراں دتے کو حویلی میں چھوڑ گیاتھا۔ ایک طرح سے وہ تنہا ہی شہر گیا تھا، اس کے ساتھ محض چند گارڈ ہی تھے۔ شہر میں اس کیا مصروفیات تھیں یہاں حویلی میں کسی کو معلوم نہیں تھا۔ پیراں دتہ ایک لمحے کے لئے بھی حویلی سے نہیں گیا۔ اس شام جب کہ سورج غروب ہونے کو تھا، پیراں دتہ باہر کاریڈور میں بیٹھا ہوا لاشعوری طور پر سیدن شاہ کا انتظار کر رہا تھا۔ پھر اس کا اندازہ دوست نکلا، آفتاب کے غروب ہونے کے ساتھ ہی بڑے گیٹ سے سیدن شاہ کی گاڑی اندر آتی ہوئی دکھائی دی۔ پیراں دتہ فوراً ہی کھڑا ہو گیا اور جس وقت گاڑی پورچ میں رکی، وہ تقریباً بھاگتا ہوا گاڑی کا دروازہ کھولنے کے لئے لپکا۔
’’ہر طرح سے خیر خیریت ہے نا۔‘‘ سیدن شاہ نے زمین پر پاؤں رکھتے ہی پیراں دتے سے پوچھا اور پھر سیدھا ہو کر حویلی کی طرف چل دیا۔ تبھی پیراں دتہ ساتھ چلتے ہوئے بولا۔
’’حویلی میں ہر طرح سے خیریت ہے۔ آپ کی دعا سے ایک پتہ بھی نہیں ہلا۔‘‘
’’کوئی اور خبر۔۔۔‘‘ سیدن شاہ نے پوچھا اور حویلی کے اندر داخل ہو گیا۔
’’پیر سائیں۔۔۔ ایک بہت ہی اہم خبر ہے۔‘‘ وہ دھیرے سے بولا۔
’’وہ کیا۔‘‘ سیدن شاہ صوفے پر پھیل کر بیٹھتے ہوئے بولا۔
’’سائیں۔۔۔ آپ کا یہ اندازہ بالکل درست ہے کہ علی کے پیچھے کوئی ہے۔ اس کی تصدیق کل ہو گئی ہے۔‘‘
’’کون ہے؟‘‘ سیدن شاہ نے تیزی سے پوچھا۔
’’وہی سردار امین خاں۔۔۔ کل اس کی بیٹی یہاں پر آئی تھی۔ کافی دیر تک وہ یہاں رہی ہے۔ اس نے جس طرح مدرسے کا معائنہ کیا ہے، اس سے یہ تصدیق ہوتی ہے کہ یہ مدرسہ وہی بنوا رہے ہیں۔‘‘ پیراں دتے نے تفصیل بتائی تو سیدن شاہ نے سوچتے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’پہلے یہ کام وہ خاں محمد سے کروانا چاہ رہے تھے اور اب سیدھے خود ہی یہاں تک آ پہنچے ہیں۔مجھے پتہ چل گیا ہے کہ اس کی بیٹی نے کوئی فلاحی تنظیم بنائی ہے۔‘‘ اس نے خود کلامی کے سے انداز میں کہا تو پیراں دتہ فوراً بولا۔
’’پیرسائیں۔۔۔ پھر حکم دیجئے۔ میں ابھی علی والا معاملہ صاف کراتا ہوں۔‘‘
’’اب اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔‘‘ سیدن شاہ نے سوچتے ہوئے کہا۔ ’’خاں محمد والے معاملے پر ہمیں نقصان ہوا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتاتھا کہ اس کے پیچھے انہوں نے کیا سازش تیار کی ہوئی تھی۔ اب جو انہوں نے ایک آسان شکار سامنے رکھا ہوا ہے، جب تک اس کی پوری سمجھ نہیں آ جاتی، کچھ نہیں کرنا، اور پھر۔۔۔ ممکن ہے اس کی ضرورت ہی نہ پڑے۔‘‘ سیدن شان ے لاپرواہی سے کہا۔ وہ چند لمحوں تک سوچتا رہا اور پھر فون لانے کے لئے کہا۔ ذرا سی دیر میں فون اس کے سامنے لاکر رکھ دیا گیا۔ اس نے نمبر ملائے اور رابطہ ہوجانے پر ہنستے ہوئے بولا۔
’’جی میں خیریت سے پہنچ گیا ہوں۔۔۔ ہاں جی۔۔۔ فون میں نے اس لئے بھی کیا ہے کہ یہاں آتے ہی ایک بڑی دلچسپ خبر سننے کو ملی ہے۔۔۔ ہاں میں نے سوچا کہ وہ خبر میں اپ کے ساتھ شیئر کر لوں۔۔۔ خبر یہ ہے کہ اپنے سردار امین خاں کی صاحبزادی نے اپنی فلاحی تنظیم کا کام میرے ہی علاقے سے شروع کیاہے۔۔۔ ابھی معلوم ہوا ہے۔ ممکن ہے انہیں پتہ چل گیا ہو کہ میں یہاں پرنہیں ہوں۔۔۔ خیر کوئی بات نہیں، میں انتظار کر وں گا۔۔۔ جی ہاں میں خوشخبری کا انتظار کروں گا۔ اب یہ ذمے داری آپ کی ہے اور مجھے آپ پر یقین ہے۔۔۔ ٹھیک ہے آپ جب چاہے رابطہ کر سکتے ہیں۔ اللہ حافظ۔۔۔‘‘ سیدن شاہ نے بات ختم کی اور فون رکھ دیا۔ پیراں دتہ اس کی جانب بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کواندازہ ہو گیاکہ اس کا پیر سائیں یونہی دو دن شہر میں نہیں رہا بلکہ کوئی بہت ہی اہم ذمہ داری کسی کو دے آیا ہے، یہ تو ممکن یہ نہیں تھاکہ کوئی سیدن شاہ کو نقصان پہنچا جائے اور وہ اس سے بدلہ نہ لے۔ پیراں دتہ اسے بچپن ہی سے جانتا تھا۔ سیدن شاہ ہر بات دل میں رکھتا تھا، جلد یا بعد میں جب بھی اسے موقعہ ملتا وہ بدلہ لیتا۔ سردار امین خاں نے جو ایک گہری سازش سے سیدن شاہ کو نقصان پہنچایا تھا، اس کے لئے وہ کبھی بھی اسے معاف نہیں کر سکتاتھا۔ پیراں دتہ کی یہ جرأت نہیں تھی کہ وہ پوچھ سکے۔ مگر اسے یقین تھا کہ وہ اس سے بات ضرور کرے گا۔ اس لئے اپنے اندر کے تجسس کو دبائے وہ خاموش کھڑا رہا۔ جب کافی دیر تک خاموشی رہی تو اس نے پوچھا۔
’’پیر سائیں، میرے لئے کوئی حکم۔۔۔‘‘
’’کچھ نہیں، تم جاؤ، آرام کرو۔۔۔میں بھی آرام کرنا چاہتا ہوں۔ میرے یہ دو دن بہت مصروفیت میں گزرے ہیں۔ رات بھی اچھی طرح نہیں سو سکا تھا اور ہاں۔۔۔ کل صبح عرس کی تیاریوں کے بارے میں پوچھوں گا۔ اب جاؤ۔‘‘ سیدن شاہ نے کہا اور اپنے کمرہ خاص کی جانب بڑھ گیا۔ جبکہ پیراں دتہ اسے د یکھتا رہا۔ اس کے ذہن میں صرف مہرو چھائی ہوئی تھی۔ جس کا وہ اظہار نہیں کر پایا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ مہرو کی بات کر کے سیدن شاہ کے زخم کو چھیڑے وہ اسے شہر تک ڈھونڈنے کا حکم دے دے۔ کیونکہ اسے یقین تھا کہ مہرو یوں غائب نہیں ہو سکتی۔ بلاشبہ اسے علی نے چھپایاہوگا۔ اس کا شک یقین میں اس وقت بدلا تھا جب امین خاں کی بیٹی علی کے پاس آئی تھی۔ وہ دل میں محسوس کر کےرہ گیا۔ پھر صبح با ت کرنے کاسوچ کر حویلی سے نکلتاچلاگیا۔ مہرو اس کے ہاتھ سے چکنی مچھلی کی مانند نکل چکی تھی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اس رات سردار امین خاں گہری سوچ میں ڈوبا ہواتھا۔ اس کے سامنے حالات بہت الجھ گئے تھے۔ فطری سی بات ہے کہ بگاڑ یا تخریب بڑی آسان ہوتی ہے، کوئی بھی شے توڑنے میں تھوڑا وقت لگتا ہے بہ نسبت اس کے تعمیر کرنے میں۔ بناؤ اور تعمیر مشکل اور وقت طلب ہوتا ہے۔ امین خاں نے اگر سیدن شاہ کو نیچا دکھانے کے لئے بڑی محنت اور صبر سے کام لیاتھا۔ اس نے جو سوچا تھا وہ ہو بھی گیا تھا لیکن اس کے نتائج پراس کی نگاہ نہیں تھی۔ سیدن شاہ وار سہنے کے بعد بالکل ہی خاموش ہو گیاتھا۔ امین خان کو یہی خاموشی بہت کھل رہی تھی۔ یہ خاموشی اسے ایسے ہی محسوس ہو رہی تھی جیسے سمندر میں طوفان آنے سے پہلے خاموشی ہوتی ہے۔ اگرچہ استعفی سے ضمنی الیکشن تک کا سارا پراسس اس پر واضح تھا۔ اب دنوں کی بات تھی کہ وہ رکن اسمبلی منتخب ہو سکتا تھا، لیکن اس کی چھٹی حس اسے خبردار کر رہی تھی کہ اس بار وہ سامنے نہ آئے، وہ مقامی اور مرکزی سیاست کو بخوبی سمجھتا تھا، جس طرح اس کااپنا ایک حلقہ تھا، اس طرح سیدن شاہ کا بھی تھا۔ یہ خبر ان حلقوں میں نہ صرف بہت تیزی سے پھیلی تھی بلکہ اس پر بڑا تیز تبصرا ہوا تھا۔ ان سب کا مجموعی تاثر یہی تھا کہ اخلاقی طور پریہ اچھا نہیں ہوا۔ ایک غبار کی طرح پہ تاثر اس کے ارگرد پھیل گیاتھا۔ جس میں واضح سوچ سامنے نہیں آ رہی تھی۔
شہ مات کے لئے شطرنج کی بساط پر مہرے پتوا دینا ایک الگ بات ہے جبکہ سیاست کے میدان میں کامیابی کے حصول اور مفادات کی جنگ میں اپنے ہی ساتھیوں کی قربانی دینا بالکل الگ حقیقت ہے۔ تکلیف تو اسے ہوتی ہے جس پر وار ہوتا ہے۔ خان محمد کا قتل اگر چہ سیدن شاہ کی ہزیمت کاباعث بن گیاتھا لیکن اسے جس طرح امین خاں نے استعمال کیا تھا وہ بہرحال اخلاق سے گری ہوئی ہی نہیں بلکہ خون کا سودا کر دینے والی بات تھی۔ فدا حسین ایک ایسا شخص تھا جوخان محمد کے قریبی ساتھیوں اورجانثاروں میں سے ایک تھا۔ وہ اسی دن شک میں پڑ گیا تھا جب رفاقت باجوہ نے بڑی چالاکی سے مجرموں کوچھپا لیا تھا اور نامعلوم قاتلوں کے خلاف ایف آئی آردرج کروائی تھی۔ اس نے اپنے اس شک کااظہار کئی باررفاقت باجوہ سے کیاتھااور ہر بار اسے یہی باور کرایا جاتا رہا کہ سیدن شاہ جو کہ اصل قاتل ہے اسے کسی طرح سلاخوں کے پیچھے لایا جائے گا۔ اس کا یہی ایک واحد راستہ ہے ۔ مگر کچھ بھی نہ ہوا۔ وہی فدا حسین آج دوپہر امین خاں سے ملاتھا، اس کے لہجے میں موجودآگ کی تپش اسنے محسوس کرلی تھی۔
’’ٹھیک ہے خان صاحب۔۔۔آپ بڑے آدمی ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے خان کی موت کاآپ سودا کر لیں اور ہم خاموش رہیں۔ مجھے ساری کہانی کی سمجھ آ گئی ہے کہ آپ نے کیا کیا ہے۔‘‘
’’تم غلط مجھ رہے ہو، میرا اس میں کیاعمل دخل۔‘‘امین خاں نے واضح جھوٹ بول دیا۔
’’پانی ہمیشہ جڑوں سے لگتا ہے، اوپر سے آنے والے پانی کا اعتبار نہیں ہوتاخان صاحب۔۔۔ مجھے پتہ ہے کہ اب کوئی نہ کوئی انجانی گولی میرا کام تمام کر دے گی اور میں اس گولی کا اب انتظار کروں گا، میں اپنے خان کاخون رائیگاں نہیں جانے دوں گا۔‘‘ فدا حسین نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا تھا۔
’’دیکھو۔۔۔ میں ماتنا ہوں کہ خان محمد میراساتھی تھا، سیاست میں اسے لوگ اپنے مفادات کے لئے ساتھ دیتے ہیں۔ کوئی احسان نہیں کرتے۔ وہ اگر مارا گیا ہے اور اس کے قاتل فرار ہو گئے ہیں تو یہ دھمکیاں مجھے کیوں دے رہے ہو۔‘‘ امین خاں نے اسے جواب دیتے ہوئے عام سے انداز میں کہا۔
’’ایسا ممکن نہیں کہ پانی آپ کے پلوں کے نیچے سے نہ ہو کر گزرے۔ آج آپ کاچہرہ واضح نہیں ہے تو کل ہو جائے گا۔ اگر ہمیں یقین ہو گیا کہ آپ نے ہمارے خان کے خون کا سودا کیا ہے تو ہم انتقام لیں گے۔‘‘
’’وہ وقت کبھی نہیں آئے گا فدا حسین۔ تم اگر چاہتے ہو کہ خان محمد کے قاتل پکڑے جائیں۔ انہیں واقعی ہی سزا ملے تو مجھ پر اپنی توانائی ضائع مت کرو۔ اس کے اور بہت سارے راستے ہیں۔ مجھے بتاؤ میں کیا تمہاری مدد کرسکتا ہوں۔ لیکن اگرتم مجھے دھمکیاں دو گے تو میں تمہیں ایک لمحے کے لئے بھی برداشت نہیں کروں گا۔‘‘
’’بہت جلد وہ وقت آنے والاہے خان صاحب، جب ہرچیزواضح ہو کرسامنے آ جائے گی۔ اس میں اگر آپ ننگے ہو گئے تو پھر مجھے الزام مت دیجئے گا۔‘‘ فدا حسین نے کہا اور اٹھ کر چلا گیا۔ اس نے الوداعی رسمی جملے کہنے کی بہت زحمت گوارا نہیں کی تھی۔ یہ اسکی نفرت کا اظہار تھا۔ فدا حسین کے چلے جانے کے بعدامین خان کو ایک انجانے خطرے نے گھیر لیا۔ پتہ نہیں وہ انتقام لینے کی قوت رکھتابھی تھا یا نہیں۔ لیکن امین خان کے سر پر توایک تلوار لٹک گئی تھی۔
سیدن شاہ کے استعفیٰ دے دینے سے مقامی سیاست میں تھوڑی بہت ہلچل ہوئی تھی لیکن مرکزی طور پر کچھ زیادہ تبدیلی محسوس نہیں کی گئی۔ سیدن شاہ حکومت میں شامل تھا۔ وہ انہیں ہر طرح سے مطمئن کر سکتا تھا۔ وہاں پر اس کی ایک اہمیت تھی، لیکن امین خان اپوزیشن پارٹی سے تعلق رکھتاتھا۔ بالفرض محال وہ رکن اسمبلی بن بھی جاتاتو کیاہونا تھا؟ کچھ فرق نہیں پڑنے والاتھا ہاں مگر ا تناتھا کہ اس کے نام کے ساتھ رکن اسمبلی کاسابقہ یالاحقہ لگ جاتا۔
ایک اور اہم پہلو اس کی بے چینی کا سبب یہ تھا کہ اب جبکہ وہ سیدن شاہ پر وار کر چکا تھا۔ اب اسے زیادہ چوکنا رہنے کی ضرورت تھی۔ اسے یہ اچھی طرح معلوم تھاکہ سیدن شاہ ان لوگوں میں سے نہیں ہے جوکسی کو معاف کر دیں۔ اس نے وار کا بدلہ لینا ہی تھا، کیسے لینا تھا؟ یہ اس کے گمان میں نہیں تھا۔
امیں خاں کے ذہن میں سب کچھ تھا، اسے بے چینی بھی تھی، وہ خطرات میں بھی گھر گیاتھا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ حوصلہ ہار جاتا، یاخوف کے مارے میدان خالی کر دیتا۔ اسے میدان میں رہنا تھا، مقامی سیاست پراس کی گرفت تھی۔ وہ ہر خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار تھا۔
وہ اپنی سوچوں میں کھویاہوا تھا کہ اس کے ملازم نے اللہ بخش کے آنے کی اطلاع دی۔ کچھ ہی دیر بعد اللہ بخش بغل میں فائلیں دبائے آگیا اور آتے ہی سلام کے بعد کہا۔
’’سائیں۔۔۔ اس وقت آنے کی معذرت چاہتا ہوں لیکن ایک ضروری اطلاع دینا چاہتاتھا۔‘‘
’’ایسی بھی کیابات ہے اللہ بخش؟‘‘ امین خاں نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’بات یہ ہے سائیں کہ آپ نے چھوٹی بی بی کو اتنا فری ہینڈ دے دیاہے کہ وہ جو چاہے سو کرسکتی ہیں۔‘‘
’’میں تمہارا مطلب نہیں سمجھااللہ بخش، جو کہنا ہے کھل کر کہو۔‘‘
’’سائیں۔۔۔ شہر کی حد تک تو ٹھیک ہے وہ جو مرضی کرتی رہیں لیکن روہی میں۔۔۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ روہی میں اس نے ایک پروجیکٹ شروع کیا ہے۔‘‘ امین خان نے اس کی بات کاٹ دی۔
’’کیا روہی میں جانے کی اجازت بھی دی ہے آپ نے؟‘‘ اللہ بخش نے اپنی بات کہہ دی۔
’’کیا مطلب۔۔۔ فرزانہ روہی میں گئی تھی۔‘‘ اس نے انتہائی حیرت سے کہا۔
’’صرف روہی میں نہیں بلکہ اس علاقے میں گئیں تھیں جو سیدن شاہ کامخصوص علاقہ ہے۔ وہاں تو اس کی اجازت کے بغیر پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ خدا نخواستہ۔۔۔‘‘اللہ بخش کہتے کہتے رک گیا تو امین خاں کی نہ صرف آنکھیں پھیل گئیں بلکہ وہ ایک لمحے کے لئے تڑپ کر رہ گیا۔ وہ خاموش رہا تو اللہ بخش نے پوری تفصیل بیان کر دی کہ وہ پراجیکٹ دیکھنے وہاں تک چلی گئی تھیں۔ اس ساری کہانی میں اللہ بخش کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ تو علی کی چاہ میں کھینچی چلی گئی تھی۔
’’نہیں۔۔۔ فرزانہ کو وہاں نہیں جانا چاہیے تھا۔۔۔‘‘ امین خاں نے خود کلامی کے سے انداز میں بڑبڑاتے ہوئے کہا۔ اسے لگاجیسے ایک طوفان آ کے گزر گیا ہو۔ پھر اللہ بخش کی طرف دیکھ کربولا۔
’’ہاں۔۔۔ کوئی اوربات۔‘‘
’’نہیں سائیں۔۔۔ مجھے یہ بات ابھی معلوم ہوئی تھی۔ اس لئے میں نے آپ کے گوش گزار کر دی۔‘‘
’’اچھا کیا۔‘‘ امین خان نے سوچتے ہوئے لہجے میں کہا۔ پھر اسے جانے کی اجازت دے دی۔ اللہ بخش چلاگیاتو وہ سوچنے لگا کہ فرزانہ کوکس طرح سمجھایا جائے کہ وہاں جانا اس کا ٹھیک نہیں۔ اس نے صبح ہی اس سے بات کرنے کا ارادہ کرلیاتھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
جنڈ کے درخت سے ذرافاصلے پرکچی مسجد کے خدوخال واضح ہو چکے تھے۔ اس کی چھت پڑ چکی تھی اور صحن بھی ٹھیک ہو گیاتھا۔ اس دن صبح فجر کے وقت ایک اورنمازی کا اضافہ ہو چکا تھا۔ وہ معمار تھا جو وہیں رات رہ گیاتھا اور صبح فجر کی نماز اس نے ان تینوں کے ساتھ ہی پڑھی تھی۔ مشرقی افق نارنجی ہو چکاتھا اوروہ ابھی تک مسجد کے صحن میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ایسے میں احمد بخش نے کہا۔
’’علی بھائی۔۔۔الحمد للہ۔۔۔مسجد کی تعمیر تقریباً مکمل ہو گئی ہے اور اب ساری توجہ مدرسے پرہو گی۔ پتہ نہیں یہ کب مکمل ہو گا۔‘‘
’’جب بھی اللہ کو منظور ہوا ہو جائے گا، مگر اس وقت تمہارے ذہن میں یہ سوال کیوں آیا۔‘‘ علی نے اس کی کیفیت بھانپتے ہوئے کہا۔
’’اس بار کافی دن ہو گئے ہیں کام مسلسل ہو رہا ہے، سیدن شاہ کے کسی بندے نے آ کر رکاوٹ نہیں ڈالی۔ کیا انہیں خبر نہیں ہے یا۔۔۔‘‘ احمد بخش کہتے کہتے خاموش ہو گیا۔
’’انہیں خبر ہے۔ لیکن وہ اب کچھ نہیں کر پائیں گے۔ بات یہ نہیں ہے کہ میرے بھائی کہ اس میں کسی بندے کا کمال ہے، نہیں، بلکہ میرے اللہ نے وعدہ کیا ہوا ہے کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ انہوں نے بہت کچھ کیا، ہم نے صبر کیا۔‘‘
’’لیکن ان کی طرف سے اتنی خاموشی کیوں ہے؟ انہوں نے اپنے علاقے میں کبھی کوئی تعلیمی ادارہ نہیں بننے دیا اور اگر بن بھی گیا تو اسے تالا لگوا دیا ہے۔ یہاں پڑھنے کون آئے گا۔‘‘ احمد بخش کے لہجے میں عجیب طرح کی بے چینی تھی جسے کوئی نام نہیں دیا جا سکتا تھا۔
’’کیوں گھبراتے ہو بابا۔۔۔‘‘ درویش بابا نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’کیا یہی جگہ ویران اور سپاٹ نہیں تھی۔ اس جگہ میاں جی جیسے بزرگ دفن ہو گئے۔ میٹھے پانی کا کنواں موجود ہے، مسجد بن گئی۔ ہم یہاں پر بیٹھے ہیں تو یہاں بچے بھی پڑھنے آئیں گے۔ تم دیکھ لینا، ایک دن ایسا آئے گا جب تم سے ان کا انتظام نہیں ہو پائے گا۔ تم ان کی خدمت کرتے کرتے تھک کر چور ہو جایا کرو گے۔‘‘ درویش بابا نے مستقبل کا نقشہ پیش کیا تو علی بھی مسکرا دیا۔ پھر گہری سنجیدگی سے بولا۔
’’نعمت یہ نہیں ہے کہ رزق کی فراوانی ہو جائے۔ طاقت اور قوم میں ہم بڑھ جائیں۔یہ ساری باتیں ٹھیک ہیں۔ جہاں رزق کی ضرورت ہے رزق مانگنا چاہیے۔ جہاں قوت کی ضرورت ہو وہاں نہ صرف قوت مانگنی چاہئے بلکہ اس کے استعمال کی توفیق کی بھی مانگنی چاہیے۔ یہ ایک طرح کی نعمتیں ہیں لیکن کچھ نعمتیں ایسی بھی ہیں جن پر ہماری نگاہ بہت کم جاتی ہے۔ ابھی جیسے میں نے کہا تھا کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ تو کیا یہ نعمت کم ہے کہ اللہ کا ساتھ ہمیں مل رہا ہے۔ شرط ہے صبر کی۔ جب اللہ کے لئے صبر کیا جائے تو پھر معاملہ خود اللہ اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ اصل میں ہم بنیادی باتوں کی طرف توجہ نہیں دیتے، ہم میں سے کتنے لوگوں کو پتہ ہے کہ آخر صبر ہے کیا؟‘‘
’’اس کا مطلب ہے ہم کوئی کوشش ہی نہ کریں۔ کوئی ہمارے تھپیڑ مار دے توکیا ہم صبر کیے بیٹھے رہیں، اسلام یہ بات تو نہیں سکھاتا۔‘‘ معمار نے تنک کر کہا۔
’’بے شک اسلام میں بدلہ لینے کا پورا پورا حق موجود ہے لیکن معاف کر دینے والے کو افضل گردانا گیا ہے۔ آپ شاید میری بات پوری نہیں سن پائے۔ میں نے کہا تھا کہ اللہ کے لئے صبر کرنا، اس سے مراد یہ نہیں کہ آپ کوشش نہ کریں۔ مسلسل کوشش میں لگے رہنا بھی تو صبر ہے۔ مقصد کیا ہے آپ کا؟ اگر آپ کا مقصد اللہ کی رضا ہے تو اس کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں پر صبر کریں۔ ذرا سی سمجھ کا فرق ہے، صبر اس وقت کیا جاتا ہے جب بے بسی ہو۔ کوششیں بار آور نہ ہوں۔ پھر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر اسی سے مدد چاہنا صبر ہے۔ میرا تو یقین ہے کہ اللہ کسی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا۔‘‘ علی نے کہا تو وہ معمار سر ہلانے لگ گیا جیسے بات اس کی سمجھ میں آ گئی ہو۔ لیکن علی کہتا چلا گیا۔ ’’اصل معاملہ دل کا ہے، کیا وہ اللہ کی رضا پر راضی ہے؟ یہ یقین ہے کہ اس کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں، مصیبتوں کا اجر ہے۔‘‘ وہ یہ کہہ کر خاموش ہوا تو درویش بابا نے کہا۔
’’فقیر سائیں۔۔۔ یہ دل کا معاملہ کیا ہے؟‘‘
’’دل۔۔۔‘‘ علی نے یوں کہا جیسے اس موضوع پر سوچنا ہی اسے لطف دے رہا ہو۔ وہ مسکرا دیا تو درویش بابا نے کہا۔
’’ہاں ہاں دل۔۔۔ کیا حقیقت ہے اس کی؟‘‘
’’کیا آپ سمجھتے ہیں کہ دل وہ ہوتا ہے جو گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اور ہمارے بدن کے اندر دھڑک رہا ہے؟‘‘
’’بظاہر تو یہی بات ہے فقیر سائیں، ہم اسے ہی دل کہتے ہیں۔‘‘ درویش بابا نے کہا۔
’’تو من کیا ہے؟‘‘ علی نے کہا اور پھر لمحہ بھر توقف کیا، وہ سب خاموش رہے تو علی نے کہا۔ ’’میرے نزدیک من، دل یا قلب ایک ہی چیز ہیں۔ ٹھیک ہے گوشت کا لوتھڑا دھڑک رہا ہے۔ وہ ٹھیک ہے تو سارا صبر ٹھیک ہے۔ اسی طرح اگر من میں پاکیزگی ہے۔ یعنی دل ہے تو سب ٹھیک ہے۔ اصل معاملہ ہے ہی دل کا، روحانی مقام ہو یا انسانی معاملات، ان کا منبع دل ہی ہے۔ جو دل کی حقیقت کو سمجھ گیا وہی مراد پا گیا۔‘‘
لیکن ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ جب دل ہی کسی کا ہو گیا تو پھر اپنے پاس کیا بچا۔ کچھ بھی تو نہیں۔ کیا وہ دل قابل احترام ہوتا ہے۔‘‘
’’میں سمجھا نہیں۔‘‘ علی نے الجھتے ہوئے کہا۔
’’فرض کریں، میرا دل آپ پر آ گیا۔ میری حیثیت تو کچھ بھی نہ رہی۔ کیا آپ میرے دل کا احترم کریں گے؟‘‘ درویش بابا نجانے اسے کون سی بات سمجھانا چاہ رہے تھے۔
’’ہاں۔۔۔ وہ دل محترم ہے جو کس کے لئے دھڑکتا ہے۔‘‘
’’تو بس میں یہی بات کہنا چاہ رہا تھا، آگے خود سمجھ دار ہیں۔‘‘ درویش بابا نے ایک خاص لہجے میں کہا تو علی چونک گیا۔ درویش بابا بہت پتے کی بات کہہ گئے تھے۔ وہ ایک سمت دے گئے تھے جس پر علی کو سوچنا تھا۔ اس سے پہلے کہ علی کوئی بات کرتا، درویش بابا نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’میں تو چلوں۔۔۔ ابھی دوست آنے والے ہوں گے۔‘‘
درویش بابا اشارے میں بہت نکتے کی بات کر گیا تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اس وقت دوپہر ہونے کو تھی۔ موسم کی تبدیلی کے باعث ان دنوں تپش اتنی نہیں تھی جیسے کہ روہی کے بارے میں تصور کیا جاتا تھا۔ اس دن آسمان بھی بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے موسم خوشگوار تھا۔ اس لئے سیدن شاہ کا مزاج بھی اچھا تھا۔ وہ علی الصبح اپنے باپ کے مزار پر گیا تھا جو اس کی حویلی سے قدرے فاصلے پر آبائی قبرستان میں واقع تھا۔ وہاں پر ہر سال عرس کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ جو تین دن تک رہتا تھا۔ اس دوران بہت ساری رسمیں ہوتی تھیں، جن میں گدی نشین کاہونا بہت ضروری ہوتا تھا۔ سیدن شاہ چونکہ گدی نشین تھا اس لئے رسموں میں شمولیت سے لے کر تمام انتظامات اسی کی نگرانی میں ہوتے تھے۔ یہ عرس ایک طرح سے اس کی سیاسی طاقت کا اظہار بھی ہوا کرتا تھا۔ ان تین دنوں میں پورے علاقے سے مریدن اور زائرین کی تعداد کے علاوہ پورے علاقے کے معززین کو بھی دعوت دی جاتی تھی۔ خصوصاً سرکاری مشینری کے تمام اہم لوگ یہاں ضرور آتے تھے۔ اس بار سیدن شاہ کو تھوڑی محنت کی ضرورت تھی۔ وہ رکن اسمبلی نہیں رہا تھا اور شہر کی مقامی سیاست پر امین خاں کی گرفت تھی۔ یوں انتظامات میں وہ سرکاری مشینری کو استعمال نہیں کر سکتا تھا۔ پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ عرس کے معاملات میں اسے پریشانی کا سامنا تھا ورنہ پہلے وہ چند لوگوں پر وہ معاملات کو چھوڑ کر مطمئن ہو جاتا تھا۔
عرس کی تقریبات شروع ہونے میں محض دو ہفتے رہ گئے تھے۔ وہ کام جو چند دن پہلے ہو جانے چاہئیں تھے وہ بھی نہیں ہوئے تھے۔ خان محمد کے قتل کے بعد وہ پے درپے معاملات کی وجہ سے چکرا کر رہ گیا تھا۔ حالانکہ اس قدر مضبوط اعصاب کا آدمی ایسے معاملات کو اہمیت ہی نہیں دیتا تھا۔ ایسے ہی گزشتہ رات وہ سوچ رہا تھا کہ ایسا کیوں ہو گیا ہے؟ کہیں وہ بوڑھا تو نہیں ہو گیا جو اس کے اعصاب کمزور ہو گئے ہیں اور سوچنے، سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی وہ صلاحیت نہیں رہی جو پہلے ہواکرتی تھی۔ وہ بہت دیر تک سوچتا رہا لیکن اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آیا تھا۔ آج جب وہ مزار پر گیا تھا تواس کے ساتھ حویلی کے ملازمین کے علاوہ علاقے کے معززین کی بھی کافی تعداد تھی۔ وہیں مزار کے احاطے میں ہی بیٹھ کر طے ہوا تھا کہ کس نے کیا انتظام کرنا ہے۔ عرس کی تقریبات کے سلسلے میں شروعات اچھی ہو گئی تھی۔ وہ اپنی گزشتہ رات والی سوچ پر مسکرایا بھی تھا کہ وہ ابھی ایسا نہیں ہوا، بس حالات کے دباؤ نے ہی اسے ایسا سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ اپنے کمرہ خاص میں بیٹھا یہ سب سوچ رہا تھا کہ اچانک اسے خیال آیا کہ اس نے تو اپنے بیٹے قاسم شاہ کوفون کرنا تھا۔ اس نے قریب پڑے ہوئے فون کو اٹھایا اور نمبر ڈائل کرنے لگا۔ تھوڑی دیر میں رابطہ ہو گیا۔ قاسم شاہ ابھی تک سو رہا تھا۔ رسمی سی باتوں کے بعد اس نے پوچھا۔
’’تم لوگوں کے آنے کا پروگرام کب تک ہے؟‘‘
’’بابا سائیں۔۔۔ ابھی تو پورے دو ہفتے پڑے ہیں عرس میں، آ جائیں گے ایک دن پہلے۔‘‘ قاسم شاہ نے قدرے بیزاری سے کہا۔
’’نہیں، جس قدر جلدی ممکن ہو سکے تم لوگ آ جاؤ، سیٹیں بک کروا لی ہیں تم نے؟‘‘ سیدن شاہ نے پوچھا۔
’’بس ایک دو دن میں ہو جائیں گی۔‘‘ قاسم شاہ نے اختصار سے کہا۔
’’نہیں، اس دفعہ تم نے ایسا نہیں کرنا، تم فوراً چلے آؤ اور یہ ذہن میں رکھ کر آنا کہ تمہیں کم از کم تین ماہ یہاں رہنا ہے۔‘‘
’’بابا سائیں۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘
’’جیسا میں کہہ رہا ہوں ویسا ہی کرو، وہاں کے اپنے سارے معاملات سمیٹ کر آنا۔ تمہاری ماما اور بہن چاہیں تو چند دن بعد آ سکتی ہیں۔ لیکن تم فوراً آ جاؤ۔‘‘
’’بابا سائیں۔۔۔ آپ مجھے بتائیں گے نہیں کہ آخر معاملہ کیا ہے، خیریت تو ہے نا، آپ کاحکم ہے تو میں پہلی ملنے والی فلائٹ سے آ جاتا ہوں لیکن پلیز بابا سائیں، مجھے کچھ توپتہ چلے۔‘‘ قاسم شاہ نے پریشانی سے کہا۔
’’دیکھو بیٹا۔۔۔ کچھ سیاسی معاملات ایسے ہو گئے تھے کہ مجھے استعفیٰ دینا پڑا اور میں نے وہ دے دیا۔ استعفیٰ قبول بھی ہو چکا ہے۔ ایک آدھ دن میں نیا شیڈول آنے والا ہے الیکشن کا۔ اب ایسا تو نہیں ہے کہ ہم اپنی آبائی نشست کھو دیں۔ میں کہہ چکا ہوں کہ میں الیکشن نہیں لڑوں گا۔ لیکن یہ نہیں کہا کہ میرے خاندان سے کوئی الیکشن نہیں لڑے گا۔ تم آؤ۔ اور آ کر رابطے کرو، میں عرس میں مصروف ہوں۔ اس دوران کاغذات بھی جمع ہونے ہیں۔ یہ ساری صورتحال ہے۔ اس لئے تمہارا یہاں ہونا بہت ضروری ہے۔‘‘
’’تو یہ بات ہے۔۔۔ مجھے ویسے خبر ملی تھی کہ آپ نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ میں نے اسے محض سیاسی بیان سمجھا تھا، پر آپ نے استعفیٰ دیا کیوں؟‘‘
’’تم یہاں آؤ، یہاں ساری تفصیل تمہیں معلوم ہو جائے گی۔ ویسے بھی تم یہاں کے معاملات کو سمجھنا شروع کرو۔ بس آ جاؤ باقی باتیں یہاں ہوں گی۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ ماما اور بہنا کو تو آنے میں تھوڑا وقت لگے گا۔ وہ تو ابھی آ نے کے موڈ میں ہی نہیں ہیں۔ میں بہرحال پہلی ممکن فلائیٹ سے یہاں آ رہا ہوں۔‘‘
’’آ جاؤ بیٹا۔۔۔ مجھے بھی ایک سال ہو گیا ہے تمہیں دیکھے ہوئے۔‘‘ سیدن شاہ نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا تو قاسم شاہ فوراً بولا۔
’’بابا سائیں۔۔۔ میں آ رہا ہوں۔ میں آج ہی کوشش کرتا ہوں کہ ایک دو دن میں مجھے نشست مل جائے۔ میں آپ کو فون کر کے بتا دوں گا۔‘‘
ٹھیک ہے میں انتظار کروں گا۔‘‘ اس نے فون رکھا۔ چند لمحے جذباتی کیفیت میں ڈوبا رہاپھر جیسے اسے ہوش آ گیا۔ اس نے اپنے ملازم خاص کو بلایا اور اسے داراں مائی کو بلانے کا حکم دیا۔ تھوڑی دیر بعد دونوں اس کے سامنے موجودتھے۔
’’حکم سائیں۔۔۔‘‘ دارامائی نے انتہائی ادب سے کہا۔
’’ابھی میری چھوٹے سائیں سے بات ہوئی ہے وہ دو تین دن میں یہاں پہنچنے والا ہے۔ تم اچھی طرح سمجھتی ہو کہ تم نے کیا کرنا ہے۔‘‘
’’جی پیرسائیں، میں سمجھ گئی ہوں۔‘‘
’’میں ابھی کچھ دیر میں شہر جا رہا ہوں۔ پیراں دتہ سے کہو کہ وہ یہاں رہے اور مجھ سے رابطہ رکھے، کل تک حویلی چھوٹے سائیں کے شایان شان سجا دی جائے۔‘‘
’’جیسے حکم سائیں کا۔‘‘ داراں مائی نے قدرے جھجکتے ہوئے کہا تو سیدن شاہ نے اپنے ملازم سے کہا۔
’’ڈرائیور لوگوں کو بلاؤ، مجھے شہر جانا ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی وہ پلٹ گیا۔ داراں مائی بھی چلی گئی اور سیدن شاہ شہر جانے کے لئے اٹھ گیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اس شام بادل خوب گہرے آ ئے تھے۔ سرمئی بادل نیلے آسمان کو دھک چکے تھے۔ گرمی کی شدت ختم ہو کر رہ گئی تھی اور پھر جس وقت وہ مغرب کی نماز پڑھ چکے تو بارش شروع ہو گئی۔ اتنی بارش ہوئی کہ ہر طرف جل تھل ہو گئی تھی۔ احمد بخش ، درویش بابا اور علی تینوں مسجد میں ہی بیٹھے رہے تھے۔ بارش تھمی تو وہ تینوں ہی اٹھ گئے۔
’’آؤ ایک نظر دیکھ لیں۔ کہیں کوئی کمرہ ٹپکا تو نہیں۔‘‘
’’نہیں فقیر سائیں۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہوا ہو گا۔ کام ہی اس طرح سے ہوا ہے۔ ویسے آپ چاہیں تو اطمینان کر لیں۔‘‘
’’اگر آپ کہتے ہیں درویش بابا تو میں کیسے دیکھ سکتا ہوں۔ خیر۔۔۔ اللہ نے ہمیں توفیق دی اور یہ سارا کام مکمل ہو گیا۔ میاں جی کی وصیت پوری ہو گئی۔ میرے لئے یہی بہت بڑی سعادت ہے۔‘‘
’’ان آخری دنوں میں تو یوں کام ہوا ہے جیسے کوئی طوفان آ گیا ہو، اتنے مزدور، اتنے معماریوں جیسے وہ سب انہی دنوں میں کام کرنے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ محض دو ہفتوں میں یہ سارا کام ختم ہو گیا۔ جس کے لئے اتنا انتظار تھا۔‘‘ احمد بخش کے لہجے میں خوشی بھری ہوئی تھی۔
’’یہ سب اللہ کی توفیق سے ہوا۔ جب اس نے یہ چاہا تو دنوں میں مکمل ہو گیا۔‘‘ علی نے مسکراتے ہوئے کہا تو مسجد سے باہر نکلتے ہوئے درویش بابا نے کہا۔
’’فقیر سائیں۔۔۔ شاید آپ میری باتوں پر غور نہیں کرتے، اگر کرتے ہیں تو نظر انداز نہ کر جاتے۔ کیا میں کوئی بات نہ کروں۔‘‘ اس پر علی بے اختیار چونکا اور تیزی سے بولا۔
’’نہ۔۔۔ نہ درویش بابا۔۔۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ میں آپ کی ہر بات سوچتا ہوں اور اسے سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ آپ نے یہ شکوہ کیوں کیا۔‘‘
’’فقیر سائیں۔۔۔ آپ نے اس بات پر غورنہیں کیا کہ میاں جی کی وصیت پورے کرنے کے لئے وسیلہ کون بنا۔ یہ ٹھیک ہے کہ آپ اس کو بنانے میں پورے صبر اور حوصلے سے کوشش کرتے رہے لیکن ہوا کیا، کس وسیلے کو قبولیت حاصل ہوئی کہ دنوں میں یہ کام مکمل ہو گیا۔ کیا وہ وسیلہ جو قبولیت کے درجے پر فائز ہو گیا ہے کیا وہ معتبر نہیں ہے؟‘‘
’’ہے۔۔۔ درویش بابا ہے۔۔۔‘‘ علی نے چونکتے ہوئے کہا۔
’’ہاں۔۔۔ ہم نے تو یہی کہنا تھا، کہہ دیا۔‘‘ درویش بابا مسکرائے تو علی بھی مسکرا دیا اور دھیرے سے بولا۔
’’آپ بھی جانتے ہیں کہ اب ہماری مرضی کہاں۔‘‘
علی کے یوں کہنے پر درویش بابا نے پر سر ہلا دیا۔
باہر کا موسم بہت خوشگوار ہو گیاتھا، لیکن درویش بابا دسترخوان سجا چکے تھے۔ انہوں نے اپنے حجرے میں دونوں کو بلا لیا۔ لائٹین روشن تھی۔ تینوں نے بیٹھ کر کھانا کھایا اور وہیں کچھ دیر بیٹھے گفگتو کرتے رہے۔ اس دوران احمد بخش نے برتن اٹھائے اور دھونے چلا گیا۔
’’درویش بابا۔۔۔ کام تو سارا مکمل ہو گیا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ اب کوئی مزید کام رہتا ہے۔‘‘ علی نے تصدیق چاہی۔
’’ویسے تو سب مکمل ہے ، کچی عمارت میں جتنا ہو سکتا تھا وہ ہو گیا۔ اب بس کمی ہے تو ان بچوں کی جنہوں نے یہاں پڑھنا ہے۔ علم کے نور سے مستفید ہونا ہے۔‘‘ درویش بابا نے کہا۔
’’وہی تو میں سوچ رہا ہوں کہ اب ہمیں کیا کرنا ہے، یہاں بیٹھ کر تو لوگوں کاانتظار نہیں کیا جاسکتا، ہمیں ان کے پاس جانا ہوگا۔ اس پورے علاقے میں بستی بستی، ٹوبہ ٹوبہ گھومنا ہو گا، یہ بھی ممکن ہے کہ لوگ ہماری بات ہی نہ سنیں اور یہ بھی ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے کہ لوگ ہماری دشمن بھی ہو سکتے ہیں۔‘‘ علی نے ذہنی طور پر درویش بابا کو تیار کرتے ہوئے کہا۔
’’ہو جائیں۔۔۔‘‘ درویش بابا نے لاپرواہی سے کہا۔ ’’دیکھو فقیرسائیں۔۔۔ ہماری کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے اور نہ ہماری دوستی ذاتی ہے، ہماری دوستی اور دشمنی فقط اللہ کے لئے ہے۔ وہ کیسے ہو گی، یہ راستہ رحمت االعالمین نے بتایا ہے، کس سے کس طرح دشمنی کرنی ہے اور کیسے دوستی۔ ہم اپنی کوشش کریں گے، نتیجہ میرا مالک جانے، وہی کار ساز ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے درویش بابا۔۔۔ کل سے ہم کچی بستی میں نکلیں گے اور لوگوں کو بتائیں گے کہ یہاں مدرسہ بن گیا ہے اور۔۔۔‘‘
’’کل آئے گی نافقیر سائیں تو دیکھ لیں گے۔ فی الحال تو عشاء کی تیاری کریں۔‘‘ درویش بابا نے اس کی بات کاٹ دی تو علی دھیرے سے مسکرا دیا۔
’’عشاء کے بعد علی اپنے معمولات میں کھویاہوا تھا۔ میاں جی کا دیا ہوا سبق دہرا رہا تھا۔ وہ ہمیشہ باہر بیٹھا کرتا تھا۔ لیکن اس رات موسم کے سرد ہو جانے کی وجہ سے ایک خالی کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ احمد بخش اپنے گھر چلا گیا تھا اور درویش بابا اپنے حجرے میں تھے۔ ہر جانب سکون تھا۔ یوں علی کو ذکر کے دوران ہی نیند آنے لگی۔ حالانکہ پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ دو چارنیند کے جھونکوں میں اسے یہی لگاتھا کہ موسم کا اثر ہے۔ جو اسے سو جانے پرمجبور کر رہا ہے لیکن پھر وہ جیسے بے بس ہو گیا۔ وہیں جائے نماز پر سیدھا ہوا اوراسے اپنی ہوش نہ رہی کہ وہ کہاں پر ہے۔
وہ پھر سے سنہری ریت پر سنہری دھوپ میں چلتا چلا جا رہا تھا۔ سنہری ریت اس کے پاؤں تلے ریشمی قالین کی مانند لگ رہی تھی۔ اس کا لباس انتہائی قیمتی تھا۔ سفید لباس جس پر سنہری زرتار سے کام ہوا تھا۔ سر پر سبز رنگ کا عمامہ تھا اور وہ خود بے خود ہو رہا تھا۔ اس کی منزل کہاں تھی، یہ بھی اسے معلوم نہیں تھا۔ بس وہ چلتا چلا جا رہا تھا۔ وہ پہلے بھی کسی ایسے منظر سے گزرا تھا لیکن اس باراہتمام ہی کچھ اور تھا۔ بنیادی طور پر فرق اس وقت میں اور اس وقت کی کیفیتوں میں تھا۔ اس بار وہ مطمئن اور پرسکون تھا۔ نجانے کتنی دیر تک اس نے سفر کیاتھا کہ اچانک وہ ایک ایسے ٹیلے کے سرے پر آیا جہاں نشیب میں اسے ایک بہت بڑا نخلستان دکھائی دیا۔ سر سبز و شاداب درختوں کا جھنڈ، جس پر پرندوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ وہی اس کی منزل تھی۔
وہ نخلستان میں داخل ہوا تو سرخ قالین اس کے پاؤں کے نیچے تھا۔ پرندوں کی دھیمی دھیمی سریلی آوازیں کسی نغمے کی طرح اس کو سرور بخشنے لگی۔ رنگین اورخوشنما پھولوں کی مہک نے اسے مسحور کر دیا تھا۔ وہ چلتا چلا گیا، یہاں تک کہ اسے ایک سنہری مسند دکھائی دی جس پر میاں جی تشریف فرما تھے۔ وہ ان کے قریب پہنچا تو جیسے ہوش آ گیا۔ مصافحہ اور معانقہ کے بعدمیاں جی نے اس کا ہاتھ پکڑا اور مسند کی دوسری جانب بٹھا دیا۔ چند لمحے یونہی خاموشی میں گزر گئے۔ پھر میاں جی گویا ہوئے۔
’’علی بیٹا۔۔۔میں تم سے بہت خوش ہوں۔ تم نہ صرف میری وصیت کو پورا کرنے میں کامیاب رہے ہو بلکہ اس دوران جو تم نے حوصلہ اور عزم دکھایا ہے، وہ بھی قابل تعریف ہے۔‘‘
’’یہ آپ ہی کا حکم تھا میاں جی۔‘‘ علی نے دھیرے سے کہا۔
’’بہت سارے احکام ایسے ہوتے ہیں علی کہ اس میں کسی کی ذاتی مرضی شام نہیں ہوتی بلکہ وہ اس کائنات کے نظام میں اس کا حصہ ہوتا ہے۔ جوبھی احکام سے مل رہے ہوتے ہیں۔ اب یہ اس کی قسمت ہے کہ وہ اس نظام میں اپنا کردار ادا کر پاتا ہے یانہیں۔ یہ کائنات اور اس میں موجود ہر شے محو سفر ہے، چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے وہ اللہ کی مرضی کے تابع ہے، ایک معمولی سااختیار انسان کو بھی ہے۔ اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اسے اپنی ذاتی منفعت کے لئے استعمال کر سکتا ہے یانہیں۔ ذاتی منفعت سے میری مراد آخرت کو سنوارنا ہے۔‘‘
’’کیا میں کائنات کے اس نظام میں ا پنا کردار ادا کر پایا ہوں۔‘‘ علی نے پوچھا۔
’’ہاں بیٹا۔۔۔ اب تک جو تمہارے ذمے تھا۔ اسے تم نے خوب نبھایا ، تم نے خلوص نیت سے کوشش کی تو اللہ کی مدد بھی تمہارے شامل حال رہی ہے اور پتہ ہے آج میں نے تمہیں کیوں بلایا ہے؟‘‘ میاں جی نے بہت ہی لاڈ سے کہا۔
’’آپ بہتر جاتے ہیں ۔‘‘ علی نے دھیرے سے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ بھی مسکراتے ہوئے بولے۔
’’میں نے تمہیں اس لئے بلایا ہے کہ تم سے کچھ باتیں کرسکوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک لمحہ کے لئے خاموش ہوئے اور پھر کہتے چلے گئے۔ ’’دیکھو۔۔۔ زندگی جمود کانام نہیں ہے اور پھر وہ لوگ جو دوسروں کے لئے جیتے ہیں وہ چاہے کہیں بھی ہوں، ان کا مقصد وہی رہتا ہے۔ یہاں پر تمہارا کام ختم ہو گیا ہے۔ میں نے تمہیں کہا تھا نا کہ تم جو ان ہو، زندگی میں تمہیں بہت کچھ کرنا ہے، یہاں تمہاری بنیادی تربیت ہو گئی ہے۔ علی، اب تم اس دنیا میں شامل ہو جاؤ، تمہاری پہچان الگ رہے گی، تمہارا مقصد وہی رہے گا لیکن اس وقت پر تمہاری ضرورت ہے اس وقت امت پر جو وقت آ گیا ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ حجروں میں بند ہو کر نہیں بیٹھا جا سکتا۔ ویرانوں میں ریاضتیں نہیں کرنی۔ بلکہ لوگوں میں رہ کر انہیں وہ بھولا ہوا سبق یاد دلاؤ، جس سے اللہ کے ہاں قبولیت ہوتی ہے اور اس قبولیت کے لئے جورستہ ہے، سنت نبی ﷺ کا وہ راستہ بتاؤ۔ اب یہ تم پر ہے کہ تم کیا انداز اپناتے ہو۔‘‘
’’اور یہاں کا معاملہ۔۔۔؟‘‘ علی ے دھیرے سے پوچھا۔
’’یہ وہی چلائے گا جو ساری کائنات کو چلا رہا ہے۔ تم اس کی طرف سے بے فکر ہو جاؤ۔‘‘
’’میاں جی۔۔۔ میں اتنی بڑی دنیا میں رہتے ہوئے خود کو کس طرح بچا پاؤں گا۔‘‘ علی نے پوچھا۔
’’اس کی تمہیں سمجھ خود ہی آ جائے گی۔ کیا تمہیں فنا اور بقا کی سمجھ نہیں آئی۔‘‘ میاں جی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ہاں وہ تو آئی۔‘‘علی نے اعتراف کیا۔
’’بس یاد رکھنا۔۔۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس شخص کو مت بھولنا جس نے سیڑھیوں کی نشاندہی کی تھی۔ یہی ظرف ہے اور یہی اخلاقی قدر۔‘‘ میاں جی نے کہا اوراٹھ گئے۔ اسی لمحے علی کو بھی اٹھنا پڑا۔
تبھی علی کی آنکھ کھل گئی۔ ایک لمحے کے لئے اسے سمجھ ہی نہیں آئی کہ میں کہاں ہوں۔ پھر دھیرے دھیرے اسے خواب کا سارا منظر یاد آتاچلا گیا اور وہ حکم بھی اچھی طرح ذہن نشین ہو گیا جو اسے مل چکاتھا۔ وہ اٹھا اور کمرے سے باہر آ گیا۔ رات ابھی اندھری تھی لیکن ستارے بتا رہے تھے کہ فجر کا وقت ہونے کو ہے۔ وہ دھیرے سے مسکرا دیا اور پھر تہجد پڑھنے کے لئے تیاری کرنے لگا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...