عشق اولڑی پیڑ وو
لوکاں خبرنہ کائی
صحرائے چولستان میں ریوڑ چراتے ہوئے سانول کے ہونٹوں پر خواجہ غلام فرید سائیں کے یہ بول تھے۔ وہ ان بولوں کو پورے جذب سے یوں گا رہا تھا کہ جیسے یہ لفظ اس کے دل سے نکلنے والی فریادہو۔ اس پر تو جیسے وجد طاری تھا۔ اسے یہ خبر ہی نہیں تھی کہ اس کی بلند آواز صحرا کی وسعت میں تحلیل ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ اندرسے اٹھنے والے طوفان کی شدت کا اندازہ، اس کا چھڑی پکڑنے سے لگایا جا سکتا تھا۔ جو اس نے بہت مضبوطی سے پکڑ رکھی تھی۔ لمبے تڑنگے مضبوط جسم والے سانول کے معصوم چہرے پرسرخی نمایاں ہو رہی تھی۔ سفید کرتے اور نیلی دھوتی کے ساتھ سر پر بڑا سا کپڑا بندھا تھا۔ وہ ایک اونچے ٹیلے پر بیٹھا ہوا مستی میں گا رہا تھا۔ اس کے چاروں طرف پھیلے ہوئے ریوڑ کی بکریاں، گائیں اور اونٹ اپنی موج میں چر رہے تھے۔ دھیرے دھیرے سانول کی آواز اس طرح بلند ہوتی چلی جا رہی تھی جس طرح مشرقی افق سے ابھرتا ہوتا سورج اپنی تاب دکھانے کے لئے سرخ سے سنہری ہوتا چلا جاتا تھا۔
صحرائے چولستان کی بھوری ریت پر تاحدِ نگاہ صبح کی کرنیں پھیل چکی تھیں۔ صحرا کے فطری سناٹے میں دھیرے دھیرے چلنے والی ہوا نے ایسی گونج کو جنم دے دیا ہوا تھا جس میں خوف تھا۔ اگرچہ صحرا کی صبح اور ڈھلتی شام دل آویز ہواکرتی ہے مگر اس صبح ویرانے کے حسن پرکچھ اس طرح کا خوف طاری تھاکہ جیسے کوئی انتہائی خوشی کے عالم میں اپنے سامنے موت کا چہرہ دیکھ لے۔ وہ مارچ کے اوائل دن تھے۔ جب صحراؤں کی صبح روشن اور ٹھنڈی ہوا کرتی ہیں۔ پرندے اپنے رزق کی تلاش میں کب کے اپنے ٹھکانوں سے نکل چکے تھے۔ صحرا کی خوف ناک گونج میں جب بھی کوئی پرندہ بولتا۔ ایسے میں یہی آواز زندگی کا استعارہ معلوم ہوتی۔ گہری سبز جھاڑیوں ا ور اکا دکا ببول(کیکر)کے درختوں میں سے بولنے والا پرندہ دکھائی تو نہ دیتا لیکن زندگی کا احساس ضرور دے دیتا۔ شاید وہ بھی اس ویرانے میں اپنی آواز کی بازگشت میں ڈر جاتا اور پھر سہم کر چھپ جاتاچھپ جاتا۔ ایسے میں سانول کی مضبوط اور درد ناک آواز میں خواجہ غلام فرید سائیں کی کافی نہ صرف من کے اظہار کاوسیلہ بن رہی تھی بلکہ اس ویرانے میں ان دیکھے خوف کے اثر زائل کر رہی تھی۔ سانول جذب سے گا رہا تھا۔
عشق اولڑی پیڑوو
لوکاں خبر نہ کائی
(عشق انوکھا درد ہے جس کے بارے میں لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہے)
اس کی آواز میں درد کچھ مزید بڑھ گیا تھا۔ جیسے من میں لگی ہوئی آگ مزید بھڑک اٹھی ہو اور اس کے دھویں نے سانول کی آنکھوں میں کو اشک بار کر دیا تھا۔ وہ اپنے ریوڑ سے بھی بے نیاز ہو گیا تھا۔ جس جگہ سانول بیٹھا ہوا تھا وہ ریت کا ایک ایسا ٹیلہ تھا جس سے دور دور تک دیکھا جا سکتا تھا۔ اس کا ریوڑ گہری سبز جھاڑیوں اورجڑی بوٹیوں کو چرتا ہوا کافی حد تک پھیل چکا تھا۔ اس سے کافی فاصلے پر نو عمر بھیرا رومال میں بندھی ہوئی روٹی لارہا تھا۔ جس کی سانول کوخبر نہیں تھی۔ وہ تو بس پورے جذب اور خلوص سے گا رہا تھا عشق اولڑی پیڑ وو۔ لوکاں خبر نہ کائی۔
سانول کی محویت اس وقت ٹوٹی جب بھیرا اس کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ سانول نے دھیرے سے آنکھوں کھولیں اور بھیرے کی طرف دیکھا۔ تب اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ لاتے ہوئے بولا۔
’’تونے بہت دیر کر دی؟‘‘
’’نہیں بھالا۔۔۔ میں تو وقت پر ہی آیا ہوں۔ مگر یہ تیری آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں۔ تو رو رہا ہے؟‘‘ بھیرے کے لہجے میں حیرت کے ساتھ دکھ بھی تھا تو سانول چونک گیا۔ اس نے جلدی سے اپنی پگڑی کے پلو سے اپنی آنکھیں صاف کیں اور ہونٹوں پر زبردستی مسکراہٹ لاتے ہوئے بولا۔
’’ارے نہیں۔۔۔ ریت پڑ گئی ہو گی آنکھ میں۔‘‘
’’نہیں بھالا۔۔۔ کوئی اور بات ہے۔ مجھ سے تو جھوٹ نہ بولو۔‘‘ نوعمر بھیرے نے انپے سے بڑے سانول سے کہا تو وہ مسکرادیا۔ اتنا چھوٹا سا لڑکا اور اتنی بڑی بات کہہ دی۔ تب وہ دھیرے سے ہنستے ہوئے بولا۔
’’تم ابھی چھوٹے ہو، اس لئے اتنی بڑی باتیں مت کرو۔ لاؤ کیا لائے ہو۔‘‘
’’بھالا۔۔۔ تم چاہے مجھے نہ بتاؤ، لیکن میں تھوڑا بہت جانتا ضرور ہوں۔ خیر یہ لے روٹی۔‘‘
بھیرے نے رومال میں بندھی ہوئی روٹی اسے تھما دی اور اس کے ہاتھ سے چھڑی لے کر ریوڑ کی طرف بڑھ گیا۔ جبکہ سانول نے کاندھے سے صراحی اتاری، رومال کھولا اور روٹی کھانے لگا۔
اس وقت وہ روٹی کھا کر پانی پی رہا تھا جب بھیرا اس کے پاس آ گیا۔ اس کے چہرے پرالجھن تھی۔ سانول نے دیکھا اور پھر صراحی کا منہ بند کرتے ہوئے پوچھا۔
’’کیا بات ہے بھیرا، کیوں پریشان ہو؟‘‘
’’بھالا۔۔۔ ادھر دیکھو۔۔۔ وہ ادھر۔۔۔‘‘ بھیرے نے ایک طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ سانول نے غور سے اس طرف دیکھا تو چونک گیا۔ سانول صحرائی باشندہ تھا۔ وہ ٹھٹک گیا۔ اس کے چہرے پر بھی الجھن واضح ہو گئی۔
زمین پر بچھی ہوئی سنہری ریت، سورج کی کرنوں سے چمک کر جس قدر خوبصورت نظارہ پیش کرتی ہے، اس قدر یہ پیاسی بھی ہوتی ہے۔ اتنی پیاسی کہ بادل بھی اس کی پیاس بجھانے سے ڈرتے ہیں۔ تپتی ہوئی ترسی ریت میں اس قدر بے چینی ہے کہ کوئی صورت برقرار رکھ ہی نہیں پاتی۔ یہاں تک کہ کوئی راستہ برقرار نہیں رہ پاتا۔ راستے ٹیلوں میں اور ٹیلے ہواؤں کی سازش سے اپنا وجود ختم کر بیٹھتے ہیں۔ شفاف نیلا آسمان دن بھر ریت کی بے چینی کو دیکھتا رہتا ہے اور پھر جب کبھی اسے اس ریت پر ترس آتا ہے تو بادل بھیج دیتا ہے۔ کچھ دیر کے لئے ہی سہی ، ریت کی بے چینی کو قرار آجاتا ہے۔ مگر کب تک؟ ریت تو اس آنکھ مچولی کی اتنی عادی ہوچکی ہے کہ وہ کسی بھی نئے آنے والے مسافر کو الجھا کر رکھ دیتی ہے۔ سراب کی جھلکیوں میں مسافر چلتے رہنے پر مجبور ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ریت کی بھل بھلیاں اسے جان دینے پر مجبور کردیتی ہے۔ شاید صحرا کسی اجنبی کو قبول کرنے میں وقت لیتا ہے۔ یا پھر۔۔۔ قبول ہی نہیں کرتا؟
سانول کی نگاہ دور تک پھیلی ہوئی سنہری ریت اور نیلے آسمان کے ملاپ کے درمیان ان گدھوں پر تھی جو تیزی سے پرواز کر رہے تھے۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ وہاں کوئی زندہ وجود ہے لیکن موت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس نے اپنے طور پر فاصلے کا تعین کیا اور پھر تیزی سے بولا۔
’’او بھیرے۔۔۔ تم ریوڑ کا خیال رکھنا، میں ابھی آیا۔‘‘
’’مگر بھالا۔۔۔ ذرا سنبھال کر۔۔۔‘‘ بھیرے نے خوف ملے لہجے میں خبردار کرتے ہوئے کہا۔
’’توفکر نہ کر۔۔۔‘‘ سانول نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور اپنے ریوڑ کو دیکھا۔ بکری، گائے اور اونٹ سبھی پرسکون تھے۔ وہ تیزی سے آگے بڑھا اور اپنے پسندیدہ اونٹ کے پاس پہنچا۔ اسے بٹھایا اور پھر اس پر سوار ہو کر اس جانب چل پڑا۔ جہاں گدھ منڈلا رہے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد وہ اس جگہ پہنچ گیا۔
سانول کے سامنے ایک نوجوان لڑکا بے ہوش پڑا تھا۔ ٹیلے کی اوٹ میں ہونے کی و جہ سے ابھی تک وہ سائے میں تھا، لیکن دھوپ اس سے اتنی زیادہ دور نہیں تھی۔ تھوڑے سے وقت کے بعد دھوپ اسے جھلسانے کے لئے آگے بڑھ رہی تھی۔ دھیرے دھیرے چلنے والی ہوا میں تیزی آ رہی تھی۔ مگر اس وقت تک ریت نے اس نوجوان کے وجود کوڈھانپنا شروع کر دیا تھا۔ نیلی جینزاور سفید ٹی شرٹ ریت میں اٹی ہوئی تھی۔ پاؤں میں جوگر تھے۔ سر کے بال ریت سے سنہرے ہو رہے تھے۔ اور چہرے کے خدو خال ماتھے سے نکلنے والے اس خون کی وجہ سے واضح نہیں تھے جو جم کر سیاہ ہونے کو تھا۔ پہلی نگاہ میں یوں ہی لگ رہا تھا کہ وہ مر چکا ہے۔ سانول کوبھی اسے ہی لگا تھا۔ اس نے اونٹ کو بٹھایا، اترا اور اس نوجوان کے پاس جا پہنچا۔ تب اس نے غور کیا۔ اس کی سانسیں دھیرے دھیرے چل رہی تھیں۔ بے ہوش نوجوان کی حالت انتہائی خستہ تھی۔ سانول نے اس کی نبض ٹٹولنے کے لئے اس کی کلائی پکڑی تو یوں لگا جیسے انگارہ اس نے ہاتھ میں لے لیا ہو۔اس نوجوان کو بہت تیز بخار ہو چکا تھا۔ اس ویرانے میں شاید کوئی اور ہوتا تو خوف زدہ ہو گیا ہوتا۔ مگر سانول نے تو آنکھ ہی اس صحرا میں کھولی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ ایسے وقت میں کیا کرنا ہے۔ اس نے اردگرد دیکھا، دور دور تک کوئی نہیں تھا،بہت دور اس کا ریوڑ چر رہا تھا۔ یہ بھی اس کااندازہ ہی تھا۔ سانول اس نوجوان کے پاس بیٹھ گیا۔ اپنے کاندھے پر سے صراحی اتاری اور پانی سے اپنا چلو بھرا اور پھر اس نوجوان کے منہ پر دے مارا۔ بے جان سے وجود میں اک ہلکی سی لرزش ہوئی تو سانول کو امید بندھ گئی۔ ا س نے جلدی سے دوبارہ چلو بھرا اور اس کے منہ پر مار دیا۔ اس کی یہ کوشش با ر آور ہوئی۔ نوجوان کا وجود جیسے جاگ گیا۔
’’پانی۔۔۔‘‘ اس نوجوان نے کسمساتے ہوئے دھیرے سے کہا تو سانول کے چہرے پر خوشی پھیل گئی۔ اس نے نوجوان کو سیدھا کیا اور چند قطرے پانی کے اس کے لبوں پر ٹپکا دئیے۔ نوجوان کے پپٹری جمے ہونٹ پانی کا لمس پاتے ہی حرکت میں آ گئےجیسے کوئی نیند کی حالت میں پانی پینے کی کوشش کرتا ہے۔
’’پانی۔۔۔ وہ نوجوان یوں بولا جیسے نقاہت کے باوجود شدت سے کچھ مانگناچاہ رہا ہو۔۔۔
’’اٹھو۔۔۔ آنکھیں کھولو۔۔۔ ‘‘ سانول نے اس کا سر ہلاتے ہوئے کہا۔ نوجوان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس نے بس اتناہی کہا۔
’’پانی۔۔۔‘‘ نوجوان کے لہجے میں انتہائی بے بسی تھی۔
’’پانی بھی ملے گا، مگر آنکھیں تو کھولو۔۔۔ ہوش تو پکڑو۔‘‘ سانول نے اسے امید دلائی تو اس نوجوان نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھول دیں۔ چند لمحے وہ ہونقوں کی مانند سانول کے چہرے کو دیکھتا رہا اور پھر جیسے ہوش میں آتے ہی چونک گیا۔ اس نے اپنے اردگرد دیکھااور پھر لق و دق وسیع صحرا کو پاکر اس کے چہرے پر خوف اتر آیا۔ مگر یہ خوف چند لمحے اس کے چہرے پر رہا۔ جیسے لاشعوری طورپر حیرت نے اسے خوف زدہ کر دیا ہو۔
’’مم۔۔۔ مم۔۔۔ میں۔۔۔ کہاں ہوں۔۔۔‘‘ نوجوان نے پورے جوش سے کہنا چاہا مگر شدتِ نقاہت کے باعث سے بولا ہی نہیں گیا۔
’’تم ۔۔۔ روہی میں ہو۔۔۔‘‘سانول نے دھیرے سے کہا۔ پھر اس کی توجہ اس جانب سے ہٹاتے ہوئے اس نے نوجوان کو اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’اٹھو۔۔۔ تھوڑا سا پانی پی لو۔۔۔‘‘
نوجوان نے خود اٹھنا چاہا مگر بے بس ہو کر گر گیا۔ سانول نے اسے اٹھانے کی کوشش کی تو وہ نوجوان اٹھ کر بیٹھ گیا۔ سانول نے صراحی سے پانی کا چلو بھرا اور اس کے ہونٹوں سے لگا دیا۔جسے نوجوان نے فوراً ہی پی لیا۔ وہ مزید پانی پینا چاہا رہا تھا ، اس لئے ممنونیت بھری ترسی نگاہوں سے سانول کی جانب دیکھا۔ تو وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
’’نہیں۔۔۔ ابھی نہیں، کچھ دیر بعد جی بھر کے پی لینا۔‘‘
’’مجھے بہت پیاس لگی ہے۔‘‘ نوجوان نے نقاہت بھرے لہجے میں بے بسی سے کہا۔
مجھے معلوم ہے، لیکن ابھی نہیں۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کو خاموش ہوا اور پھر بولا۔ ’’تمہارے زخم بھی ہیں اور تجھے تیز بخار بھی ہے، کیا تجھے اس کا احساس ہے۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ میرا سر درد سے پھٹ رہا ہے۔ جوڑ جوڑ دکھ رہا ہے۔ مجھ سے ہلا ہی نہیں جا رہا ہے۔‘‘ نوجوان نے آنکھیں موندتے ہوئے نقاہت سے کہا تو سانول بولا۔
’’چلو۔۔۔ میرے ساتھ چلو۔۔۔‘‘
’’کہاں۔۔۔؟‘‘ نوجوان نے چونکتے ہوئے کہا۔
’’یہیں نزدیک ہی ہماری بستی ہے۔ تم گھبراؤ نہیں، سب ٹھیک ہو جائے گا، اٹھ کوشش کرو۔‘‘
’’کیا میں پیدل وہاں ۔۔۔‘‘ نوجوان نے کہنا چاہا مگر اس کی نگاہ سانول کی اوٹ میں جگالی کرتے ہوئے اونٹ پر پڑی۔ تبھی اس کی آنکھوں میں جیسے روشنی چمک اٹھی۔ پھر سر ہلاتے ہوئے بولا۔
’’ہاں۔۔۔ چلو۔‘‘
نوجوان نے کہا تو سانول اس کو اٹھانے کے لئے سہارا دینے لگا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
یونیورسٹی کے نیو کیمپس میں طلبہ و طالبات کی آمد و رفت سے رونق بڑھ گئی تھی۔ کچھ دیر پہلے صبح کے وقت جو ہوکا عالم تھا دن کا پہلا پہر ڈھل جانے کے بعد ہر طرف رنگین آنچل ، قہقہے، دھیمی دھیمی باتیں اور چہل پہل سے ماحول بھرا بھرالگ رہا تھا۔ مارچ کے اوئل میں بہار اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ ان دنوں میں بھاری ملبوسات کی جگہ ہلکے ہلکے لباس پہننے کامزا ہی کچھ اور ہوتا ہے اور پھر لباس کوبھی اہمیت تبھی دی جاتی ہے جب خوبصورت لگنا اچھا لگ رہا ہو۔ بہار کے خمار آگہی دن اور اچھا لگنے کی لاشعوری خواہش نے ان طلبہ و طالبات میں ایک خاص قسم کی جولانی بھر دی تھی۔ جس سے ماحول تک خوش گوار ہو گیا تھا۔ جس میں سب کچھ بہت اچھا لگتا ہے۔ لیکن اس دن باوجود سب کچھ ہونے کے ابلاغیات کے شعبہ میں ایک عجیب قسم کا ہراس پھیلا ہوا تھا۔ ہر چہرہ خاموش تھا اور اس پر تجسس کا ایک سوالیہ نشان تھا۔ گومگو کی اس کیفیت میں نورین ڈیپارٹمنٹ کے کاریڈور میں کھڑی تھی۔ اسکا چہرہ اترا ہوا تھا۔ جیسے کسی اندر کے دکھ نے اسے خوشی سے دور کر دیا ہو۔ وہ بہت کچھ سوچتی چلی جا رہی تھی لیکن کسی بھی سوچ کا کوئی سرا اس کے ہاتھ میں نہیں آ رہا تھا۔ اسے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے ساری سوچیں ایک نقطے پرآ کر ایک دوسرے سے الجھ گئی ہیں۔ جب اسے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آیا تو اس نے اپنا سر جھٹکا اور اس راستے کی طرف دیکھنے لگی جہاں سے فرزانہ خان نے آنا تھا اس نے کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھا اور دھیرے سے بڑبڑائی۔
’’اب تک تو اسے آ جانا چاہیے تھا۔‘‘
یہی لفظ ابھی اس کے منہ ہی میں تھے کہ سرخ رنگ کی نئی کرولا اسے آتی ہوئی دکھائی دی۔ سیاہ تار کول کی سڑک جس پر پیلے پتے پھیلے ہوئے تھے، انہیں پیلے پتوں کو روندتی وہ دھیرے سے آ رہی تھی۔ پارکنگ میں گاڑی لگانے کے چند لمحوں بعد فرزانہ خاں گاڑی سے نکلی۔ پیازی رنگ کے کاٹن شلوار قمیض کے ساتھ کاندھے پرجھولتا ہوا آنچل، جس پر ہلکے سبز رنگ کا کام ہوا تھا۔ نازک سے سلیپر، جس میں اس کے گلابی پاؤں جھلک رہے تھے۔ کاندھوں سے اوپر تک کٹے ہوئے ریشمی بال، جنہیں بہت محنت سے سٹائل دیا ہوا تھا۔ آنکھوں پرسیاہ گاگل، گلابی ہلکی لپ اسٹک۔ بڑے بڑے جھمکے، شفاف گلابی جلد۔۔۔ براؤن پرس پکڑے وہ خراماں ڈیپارٹمنٹ کی جانب بڑھنے لگی۔ وہ ہر طرف سے بے نیاز یوں ڈیپارٹمنٹ کی جانب بڑھ رہی تھی جیسے اسے اپنے اردگرد کی خبر ہی نہ ہو۔ بس اس نے ایک نگاہ دوسری منزل پر کھڑی نورین کو دیکھا اور پھر اس دھیمی رفتار سے یوں چلتی گئی جیسے کوئی شہزادی اپنے محل سرا میں چہل قدمی کر رہی ہو۔
’’آج تمہیں کچھ دیر نہیں ہو گئی۔‘‘ نورین نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے تیزی سے کہا تو فرزانہ خان نے پہلے اپنے گاگلز اتارے اور اپنی بڑی بڑی جھیل سی آنکھوں سے نورین کی طرف دیکھا، قدرے مسکرائی اور پھر بولی۔
’’ہاں۔۔۔ دیر تو ہو گئی ہے مگر مجھے جلدی اور دیر سے کیا۔‘‘
’’ہوں۔۔۔ تمہیں کیا تم کون سا یہاں پڑھنے آتی ہو۔ ویسے میں کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ تمہیں یہاں آنے اور اتنی زحمت کرنے کی ضرورت بھی کیا ہے۔ آرام سے گھر میں ر ہو تمہاری ڈگری تو گھر میں بھی پہنچ سکتی ہے۔‘‘ اس کے لہجے میں طنز تھا۔
’’ارے نورین۔۔۔ یہ حقیقت ہے کہ میں گھر میں بیٹھ کر بھی ڈگری لے سکتی ہوں۔ مگر گھر میں رکھاہی کیا ہے۔ ماں ہے نہیں، باپ ہے، جسے اپنی جاگیرداری ، بزنس اور سیاست سے فرصت نہیں۔ یہاں تم ہو اور وہ دشمنِ جاں۔ دل بہل جاتا ہے یہاں پر۔‘‘ فرزانہ خان نے خوشگوار لہجے میں نورین کی طرف دیکھتے ہوئے دھیرے سے کہا تو نورین حیرت زدہ رہ گئی پھر قدرے سنبھلے ہوئے بولی۔
’’میں تو یہاں ہوں۔ لیکن تمہیں اپنے دشمن جان کی خبر ہے کہ نہیں؟‘‘
’’کیا ہوا ہے اسے؟‘‘ فرزانہ نے عام سے لہجے میں پوچھا۔
’’عجیب بے خبر ہو تم۔۔۔ دشمن جاں پر مرتی بھی جا رہی ہوں اور اس کے بارے میں معلوم ہی نہیں۔‘‘ نورین کے لہجے میں انتہائی درجے کا طنز تھا۔
’’یہ تم آج اتنی شکل بگاڑ کر، اتنے کاٹ دار لہجےمیں کیوں بات کر رہی ہو۔ کیا معلوم کرنا ہے اس کے بارے میں؟‘‘فرزانہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’تو سنو بے وقوف۔۔۔‘‘ نورین نے سنسنی خیز لہجے میں کہا۔ ’’رات بوائز ہاسٹل میں اچھا خاصا ہنگامہ ہو گیا تھا۔ فائرنگ بھی ہوئی، دو لڑکے ہسپتال میں ہیں اور۔۔۔‘‘
’’بہت بڑی خبر سنائی ہے تم نے۔‘‘ فرزانہ نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’یہ تو روزانہ کا معمول ہے، ان لڑکوں کو آپس میں لڑنے جھگڑنے کے علاوہ اور آتا ہی کیا ہے۔ کسی بے چارے نے انہیں بھتہ نہیں دیا ہو گا۔ مزاحمت۔۔۔‘‘
’’فضول بکے جا رہی ہو۔۔۔‘‘ نورین نے ڈانٹتے ہوئے کہا، پھر ایک لمحہ ٹھہر کر بولی۔ ’وہ تمہارا دشمن جان ہے نا علی صاحب۔۔۔ اس کا کچھ پتہ نہیں چل رہا ہے۔ انہی کی لڑائی ہوئی ہے۔ افواہ یہی ہے کہ وہ اغوا ہو گیا ہے۔‘‘ اس نے تیزی سے اپنی بات ختم کی۔
’’علی۔۔۔ اغواء۔۔۔؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔‘‘ فرزانہ نے لاپرواہی سے کہا اور پھر طنزیہ انداز میں بولی۔ ’’اسے کون اغوا کرے گا نورین۔ ہنگامے کی وجہ سے ادھر ادھر کہیں چھپا بیٹھا ہو گا بزدل۔۔۔‘‘
’’بزدل۔۔۔‘‘ نورین نے حیرت سے کہا۔ پھر فرزانہ کے چہرے پر دیکھتی ہوئی بولی۔
’’تم۔۔۔ فرزانہ کیا تم اسے بزدل کہہ سکتی ہو۔۔۔؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ میں کہہ سکتی ہوں اسے بزدل۔۔۔ وہ شخص جو میرا سامنا نہیں کر سکتا۔ زندگی کی ان راہوں پر چلنے کے لئے میرا ساتھ نہیں دے سکتا، جو پیار جسے انمول جزبے کی قدر نہیں کر سکتا۔ وہ بزدل ہی ہے نا۔۔۔‘‘ فرزانہ دانت پیستے ہوئے غصے میں کہتی چلی گئی۔ جس پر نورین چند لمحے خاموش رہی پھر تھوڑا نرم لہجے میں بولی۔
’’فرزانہ۔۔۔ تم نے خواہ مخواہ اس سے دشمنی پالی ہوئی ہے۔ ایویں خواہ مخواہ کا محاذ جنگ شروع کیا ہوا ہے تم نے۔۔۔ وہ بے چارہ تو۔۔۔‘‘
’’وہ بے چارہ نہیں ہے۔۔۔ ٹھیک ہے۔ اگر میری دوستی، میرا پیار قبول نہیں ہے تو نہ سہی۔۔۔ دشمنی تو رہے گی نا، دوستی ہو یا دشمنی۔۔۔ تعلق تو رکھنا ہے اس سے نورین بی بی۔‘‘
’’تم غلط سوچ رکھتی ہو۔۔۔ وہ عام لڑکوں کی طرح نہیں ہے۔ تم نے ہمیشہ اسے سمجھنے کی غلطی کی ہے۔ وہ مختلف ہے۔ تم فقط اپنی ذات۔۔۔‘‘
’’شٹ اپ نورین۔۔۔ تم میری دوست ہو یا اس کی۔ جو اس کی وکالت کرتی چلی جا رہی ہو۔ کیا تم مجھے نہیں سمجھتی ہو۔ کیا اس کے لئے میرے جذبات میں کوئی کھوٹ ہے؟ تم تو سب جانتی ہو، پھر بھی۔۔۔؟‘‘
’’میں جانتی ہوں۔ مگر میں پھر بھی یہی کہوں گی کہ تم اسے غلط۔۔۔‘‘
’’چلو۔۔۔ چلیں۔۔۔ کلاس کا وقت ہو رہا ہے، تمہاری وکالت تو سارا دن جاری رہے گی۔۔۔‘‘یہ کہتے ہوئے فرزانہ آگے بڑھ گئی۔ نورین چند لمحے کھڑی اس کی حالت دیکھتی رہی اور پھر وہ بھی اس کے پیچھے کلاس روم میں چلی گئی۔
لیکچر جاری تھا۔ سٹوڈنس بہت تھوڑے تھے۔ فرزانہ ایک طرف جا کر بیٹھ گئی۔ اس کارخ تو لیکچرار کی جانب تھا۔ لیکن ذہن وہاں نہیں تھا۔دھیرے دھیرے لیکچرار کی آواز معدوم ہوتی چلی جا رہی تھی اور اس کی نگاہوں کے سامنے علی کاچہرہ پوری جذبات کے ساتھ پھیلتا چلا جا رہا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ نجانے علی اس وقت کہاں ہو گا۔۔۔؟
*۔۔۔*۔۔۔*
کچے مکانوں سے بنی اس چھوٹی سی کچی بستی کے باہر جنڈ کا گھنا درخت تھا۔ جس کے چھاؤں تلے وہ بوڑھا سفید ریش شخص گدڑی بچائے بیٹھا تھا۔ سفید کرتے اور سفید رنگ کی دھوتی کے ساتھ رسفید رنگ کے بڑے سے رومال سے اپنے سر ڈھانپے ان لوگوں سے محو گفتگو تھا جو اس کے سامنے بالکل خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ سفید ریش بوڑھا شخص مضبوط قد کاٹھ اور سرخ چہرے والاتھا۔ اس کے چہرے مہرے اور گفتگو میں رعب و دبدبہ تھا۔ لیکن لفظوں میں اس قدر ملائمیت تھی کہ اس کی باتوں کا ایک ایک لفظ ان لوگوں کے من میں اترتا چلا جا رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا۔
’’اللہ سائیں نے جو انسان کوزمین پر بھیجا ہے ۔ تو کیا اسے یونہی بھیج دیا؟ یہی اک بات ہے جس پر ہمیں غورو فکر کرناچاہیے۔ دوسرے لفظوں میں اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ انسان کو اس زمین پر کیوں بھیجا گیا۔۔۔؟ ہم اگر اس بات پرسوچیں گے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہم یہاں اردگرد جو اتنے سارے منظر ہیں، ہواؤں میں اڑتے ہوئے یہ پرندے ، اوپر دیکھیں تو یہ نیلا آسمان، یہ سب ہم سے کیا بات کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے پاس ہمارے لئے کون سا پیغام ہے۔ ہمیں اس بات کو سمجھنا ہو گا۔ پھر۔۔۔ ان سب سے اہم ایک اور بات ہے اور وہ یہ کہ انسان خود اپنے آپ پر غور کرے۔ اپنی عظمت کا احساس کرے۔ اسے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اس زمین پر کیوں موجود ہے۔انسان کیا ہے؟ اور انسانیت کیا ہے؟ ایک انسان، دوسرے انسان کی دوا کیسے بن سکتا ہے؟۔ ان سب باتوں کا ہمیں پتہ ہونا چاہیے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہیں کہ اگر ان باتوں کے بارے میں ہم جانیں گے تو یہی انسان کہلانے کے حق دار ہوں گے۔‘‘ وہ اتنی بات کہہ کر خاموش ہوئے تو سامنے بیٹھے ہوئے ایک شخص نے کہا۔
’’میاں جی۔۔۔ ایک طرف تو انسان اتنا با عظمت ہے، اتنی طاقت رکھتا ہے اور دوسری جانب انتہائی مجبور بھی ہے، آخر یہ سب کیا ہے؟‘‘
’’اصل میں تم انسان کی فطرت بارے بات نہیں کر رہے ہو بلکہ اس دنیا میں رہنے والے انسانوں کے تسلط کی بات کر رہے ہو۔ در حقیقت یہ بھی تو انسان کا اپنا کیا دھرا ہے۔ یہ سارے قانون، رسم و رواج اور رسومات انسان کی اپنی بنائی ہوئی ہیں۔ جو بہرحال محدود عقل رکھتا ہے۔ یہ فطرت کے دئیے ہوئے پیغام سمجھ رہے ہیں۔ کیونکہ ہم اس کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے۔ اب دیکھو۔۔۔ بظاہر یہ معمولی سی بات ہے لیکن سوچنے کے لئے بہترین نکتہ آغاز ہے۔ اس دنیا کا طاقت ور ترین انسان بھی اسی ہوا کا اتنا محتاج ہے جتنا کہ کوئی مجبور شخص۔۔۔ اللہ سائیں نے سب کو ایک جیسا نوازا ہے۔ یہی حال دھوپ کا ہے، یہی بارش کا۔‘‘
’’سبحان اللہ۔۔۔‘‘ اس شخص نے بے ساختہ کہا تو دوسرے لوگ بھی دھیرے سے اللہ کی شان میں کلمات کہنے لگے۔ اس سے پہلے کہ گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھتا۔ ان کی نگاہ بستی کی طرف سے آئے ہوئے سانول پر پڑی جو تیز تیز قدموں سے ان کی طرف آ رہا ت ھا۔ اس کی چال میں کچھ ایسی بے چینی اور گھبراہٹ تھی کہ سبھی اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ وہ قریب آیا اور آتے ہی انتہائی ادب سے سلام کیا۔ میاں جی نے بہت شفیق نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا اور پھر سلام کا جواب دے کر پوچھا۔
’’سانول پتر۔۔۔ خیریت تو ہے نا؟‘‘
’’وہ میاں جی۔۔۔ ایک اجنبی لڑکا ملا ہے مجھے۔ اچھا خاصا زخمی ہے اور اسے تیز بخار بھی ہے۔ میاں جی آپ اسے دیکھ لیں۔‘‘ سانول کے لہجے میں پریشانی گھلی ہوئی تھی۔
’’کہاں ہے وہ؟‘‘ میاں جی نے متانت سے پوچھا۔
’’میرے گھر میں ہے میاں جی، اس کی حالت بڑی خراب ہے ورنہ میں اسے۔۔۔‘‘
’’چلو۔۔۔ چلو۔۔۔ دیکھتے ہیں اسے۔‘‘ میاں جی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ پھر اپنے اردگرد لوگوں کی طرف دیکھ کر بولے۔’’کیوں بھائیو۔۔۔ اجازت ہے نا؟‘‘
’’ہاں ہاں میاں جی کیوں نہیں۔۔۔‘‘ تقریباً سب نے یک زبان ہو کر کہا تو وہ اٹھ گئے۔
جنڈ کے اس درخت سے لے کر سانول کے گھر تک تھوڑا سا فاصلہ تھا۔ دونوں ذرا سی دیر میں وہاں پہنچ گئے۔ سانول کا گھر خاصا بڑا تھا۔ جس کے ایک طرف ریوڑ کے لئے باڑہ بنا ہوا تھا۔ اس باڑے میں ایک طرف گوپا بنا تھا جس میں ایک چارپاءئی اور چند پیڑھے رکھے ہوئے تھے۔ اس ایک اکلوتی چارپائی پر وہ نوجوان اوندھے منہ پڑا ہوا تھا۔ میاں جی نے پیڑھا اس کی چارپائی کے نزدیک کیا اور اس کی نبض دیکھی۔ چند لمحے یونہی گزر گئے اور پھر سانول سے کہا۔
’’اسے سیدھا کرو۔۔۔‘‘
اس سے پہلے کہ سانول آگے بڑھتا۔ وہ نوجوان کسمسایا اور بڑی مشکل سے خود ہی سیدھا ہو گیا۔ میاں جی نے اس کے چہرے کی جانب بڑے غور سے دیکھا۔ چند لمحے یونہی گزر گئے۔ اس لڑکے کی آنکھوں میں کچھ ایسی چمک تھی جس سے میاں جی محویت کے عالم میں چلے گئے۔ پھر چونک کر شفقت بھرے لہجے میں بولے۔
’’بیٹے۔۔۔ کیا نام ہے تمہارا؟‘‘
’’علی۔۔۔ علی رضا۔‘‘ اس نے بمشکل دھیرے سے کہا تو میاں جی کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی تب وہ اس کے مزید قریب ہوتے ہوئے بولے۔
’’بہت پیارا نام ہے۔‘‘ اتنا کہہ کر انہوں نے اس کے ماتھے پرہاتھ رکھا۔ پھر دھیرے سے بولے۔ ’’گھبرانے کی ضرورت نہیں بیٹا۔ اب تم ہمارے پاس ہو۔ اللہ سائیں سب ٹھیک کر دے گا۔‘‘ میاں جی کے لہجے میں کچھ ایسا اثر تھا کہ علی نے آنکھیں موند لیں جیسے اسے اطمینان ہو گیا ہو کہ اب وہ محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
نگہت بیگم اپنے چھوٹے سے صحن کے ایک کونے میں تخت پوش پر بیٹھی غم سے نڈھال تھی۔ اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔ اسے کسی پل چین نہیں آ رہا تھا، اس کے قریب ہی کرسیوں پر اس کی بیٹی فائزہ اور بیٹا احسن بیٹھے ہوئے تھے جو اسے بار بار حوصلہ دے رہے تھے۔ لیکن ایک ماں کی مامتا کو کسی طرح بھی سکون نہیں آ رہا تھا۔ قدرے فربہ مائل نگہت بیگم پہلے ہی کئی بیماریوں سے لڑ رہی تھی۔ مگر پھر بھی اس چھوٹے سے آنگن میں اپنے بچوں کے ساتھ خوش و خرم اور پرسکون زندگی گزار رہی تھی۔ وہ صبح اس کے لئے روح فرسا پیغام لے کر آئی تھی۔ اس کا بڑا بیٹا اغواء ہو چکا تھا۔ جس کی اب تک کوئی خیر خبر نہیں آئی تھی۔ اس کا بڑا بیٹا علی یونیورسٹی کے آخری سال میں تھا۔ وہ ذہین ، لائق اور فرمانبردار نوجوان تھا جس سے گھر بھر کی امیدیں وابستہ تھیں۔ فائزہ ابھی کالج میں اور احسن سکول کی تعلیم مکمل کر چکا تھا۔ یوں یہ خاندان زندگی کی نرم چھاؤں میں دن گزارتا چلا جا رہا تھا کہ اچانک اس صبح تیز دھوپ نے انہیں ہوش و حواس سے بے گانہ کر دیا۔ وہ تینوں خاموش تھے۔ انہیں کسی اچھی خبر کی امید تھی۔
دروازہ بجا تو فائزہ جلدی سے اٹھ کر لپکی اور جا کر دروازہ کھول دیا۔ باہر اس کا باپ غلام نبی تھاجو ڈھیلے کاندھوں کے ساتھ دھیرے دھیرے چلتا ہوا ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔
’’کچھ پتا چلا ابو۔۔۔‘‘ فائزہ نے امید اور نا امیدی کے ملے لہجے میں پوچھا۔
’’نہیں۔۔۔ اس کا کوئی پتہ نہیں چلا۔‘‘ غلام نبی نے انتہائی مایوسی میں کہا تو نگہت بیگم اونچی آواز میں رونے لگی۔ پھر گھٹی گھٹی آواز میں بولی۔
’’میرا بیٹا بھی۔۔۔ نجانے کہاں ہوگا۔ کس حال میں ہو گا میرا بچہ۔ اب تک اس کا کوئی پتہ نہیں چلا۔۔۔ اے اللہ۔۔۔ اسے اپنی حفظ و امان میں رکھنا۔‘‘
اس کے یوں کہنے پر فائزہ تڑپ کر بولی۔
’’امی پلیز۔۔۔ آپ صبر کریں۔ بھائی کے لئے دعا کریں۔ انشا ء اللہ جلد ان کے بارے میں معلوم ہو جائے گا۔‘‘
’’کچھ پتہ تو چلے نا۔۔۔ میرے بیٹے نے ایسا کون سا جرم کر لیا تھا جو اسے اغواء کر لیا ہے۔ میرے اللہ۔۔۔ اسے اپنی پناہ میں رکھنا۔‘‘ نگہت بیگم دل خراش لہجے میں روتے ہوئے بولی۔
’’بیگم۔۔۔ اب تک تو یہی معلوم ہواہے کہ علی کا کوئی قصور نہیں تھا۔ اس کے دوستوں نے یہی بتایا ہے کہ وہ تو حملہ آوروں کو بھی نہیں پہچانتے۔ حالات اور واقعات سے اندازہ یہی لگایا جا رہا ہے کہ وہ لوگ صرف علی ہی کو اغواء کرنے آئے تھے۔‘‘ غلام نبی نے دھیرے دھیرے سے اپنی بیوی کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’انہیں کیادشمنی ہو سکتی ہے بھائی سے؟‘‘ احسن نے پوچھا۔
’’میں کیا کہہ سکتا ہوں۔۔۔ بہرحال۔ رات جو یونیورسٹی ہاسٹل میں ہنگامہ ہوا۔ پولیس نے اس کی رپورٹ درج کرلی ہے۔ دو لڑکے ہسپتال میں پڑے ہوئے ہیں۔ وہ زخمی ہیں۔ دونوں کو گولی لگی ہے، علی غائب ہے۔ پولیس اپنی کوشش کر رہی ہے۔ انہیں نے تویہی کہا ہے کہ بہت جلد حملہ آوروں کے بارے میں پتہ چل جائے گا۔ اسی طرح علی کے بارے میں۔۔۔‘‘
’’اس طرح خالی خولی باتوں سے بھلا کیاہو گا علی کے ابا۔۔۔ آپ کیا یونہی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔ خدا کے لئے کچھ کریں میرے بچے کے لئے، میرا بیٹا نجانے کس حال میں ہو گا۔ وہ کم بخت نجانے کیا سلوک کر رہے ہوں گے میرے بچے کے ساتھ، آپ کچھ کریں خدا کے لئے کچھ کریں۔‘‘ نگہت بیگم نڈھال ہوتے ہوئے آہ وزاری کرنے لگی۔ مامتا کو کسی پل سکون نہیں آ رہا تھا۔
’’بیگم۔۔۔ اب تم یہی بتاؤ میں کیا کروں۔۔۔ کہاں جاؤں؟‘‘ غلام نبی نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا اور پھر اگلے ہی لمحے نرم پڑتے ہوئے بولا۔ ’’خیر۔۔۔ میں جاتا ہوں ملک صاحب کے پاس۔ان سے بات کرتا ہوں۔ دیکھتا ہوں کیا مدد کرتے ہیں۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ آپ ان کے پاس جائیں۔ اثرو رسوخ ہے ان کا۔ آپ بہرحال کچھ بھی کریں، مجھے میرا بیٹا چاہیے۔‘‘ نگہت بیگم نے آنسوؤں سے بھیگے ہوئے لہجے میں انتہائی حسرت سے غلام نبی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو وہ اٹھتے ہوئے بولا۔
’’میں کچھ کرتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پھر باہر کی طرف چل دیا۔ آنگن میں ایک بار پھر خاموشی طاری ہو گئی۔ فائزہ اور احسن بھی کچھ دیر تک اسی خاموشی ماحول میں بیٹھے رہے ۔ تبھی احسن نے کہا۔
’’فائزہ۔۔۔ ابھی تک امی نے ناشتہ نہیں کیا، ان کے لئے کچھ کھانے کو لاؤ۔‘‘
’’نا۔۔۔ نہیں۔۔۔ میرے لئے کچھ مت لانا، میرا جی نہیں چاہ رہا۔ تم لوگ کر لو ناشتہ۔‘‘ یہ کہہ کر وہ روتے ہوئے بولی۔ ’’تم جاؤ۔۔۔ تم بھی تو کچھ کوشش کرو۔‘‘
’’ٹھیک ہے امی۔۔۔ میں بھی کوشش کرتا ہوں۔‘‘ احسن نے کہا اور اٹھ کر باہر جانے لگا تو فائزہ تیزی سے بولی۔
’’بھائی۔۔۔ کچھ کھالو۔۔۔ پھر چلے جانا۔۔۔ پلیز۔‘‘
’’میرابھی جی نہیں چاہ رہا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ باہر کی طرف چل دیا۔ آنگن میں پھر خوف سے بھری خاموشی طاری ہو گئی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
شام کے سائے پھیل چکے تھے۔ سارے دن کا تھکا ہارا سورج مغربی افق میں ڈوب جانے کی کوشش میں بے حال ہو رہا تھا۔ سنہری ریت کی چمک مدہم ہو گئی تھی۔ پرندے تیزی سے اپنے ٹھکانوں کی طرف واپس جا رہے تھے۔ سارا دن سرمستی میں سر پٹختے رہنے والی مست ہوا، شام ہوتے ہی یوں ساکت ہو گئی تھی جیسے تھکن سے چور چور ہو گئی ہو۔ ساکت سی ہوا کے باعث ماحول جیسے کچھ وقت کے لئے ایک جگہ تھم گیا ہو۔ اندھیرے میں ڈوبتے ہوئے منظر عجیب قسم کی اداسی کا باعث بن رہے تھے۔ ایسے میں گوپے کے اندر گھپ اندھیرا تھا۔ علی نجانے کتنی دیر تک سویا تھا، اسے یہ اندازہ ہی نہیں تھا۔ مگر اس وقت وہ خود کو بہت اچھا محسوس کر رہا تھا۔ صبح والی نقاہت اور زخموں سے اٹھتی ہوئی ٹیس بہت حد تک کم ہو گئی تھی۔ شاید بخار بھی کم ہو گیاتھا کیونکہ اس پر جو مد ہوشی طاری تھی وہ ختم ہو کر رہ گئی تھی۔ ایسے لمحوں میں اسے سب سے پہلے اپنے محسن کا خیال آیا جس نے اس کی زندگی بچائی تھی۔ اس کا بہ پختہ ایمان تھا کہ زندگی اور موت دینے والی فقط ایک ہی ذات ہے اور وہ ہے اللہ۔۔۔ مگر وہی اللہ انسانوں کے روپ میں یا پھر کسی طرح بھی وسیلہ پیدا کر دیتا ہے۔ سانول اس کے لئے زندگی کا وسیلہ ثابت ہوا تھا۔ وہ اس کا محسن تھا۔ کسی بھی محسن کے لئے اس کے دل میں بے انتہا قدر ہوا کرتی تھی۔ وہ اس سے ملنا چاہتا تھا، اس سے باتیں کرنا چاہتا تھا۔ مگر عجب بے بسی تھی۔ وہ گوپے میں موجود گھپ اندھیرے میں پڑا اس کا فقط انتظار کر سکتا تھا۔ یہی سوچتے ہوئے اسے دوسرا خیال اپنی ماں کا آیا تو وہ تڑپ کر رہ گیا۔ وہ کس قدر پریشان ہو رہی ہو گی۔ اس کا باپ، فائزہ، احسن۔۔۔ سب کس قدر پریشان ہوں گے۔ یہ خیال آتے ہی وہ تیزی سے اٹھ کر بیٹھنے لگا تو شدتِ درد سے وہ تقریباً چیخ اٹھا۔ اسے یوں لگا کہ جیسے سوئے ہوئے درد کو اس نے پھر سے جگا دیا ہو۔ وہ گھٹے گھٹے انداز میں کراہنے لگا۔ اس نے خود پر غور کیا تو اسے محسوس ہوا جیسے درد کی لہریں پورے وجود میں پھیل گئی ہوں۔ تبھی اس نے اپنی قوت ارادی سے خود پر قابو پانے کی کوشش کی۔ وہ جو بکھر رہاتھا خود کو سمیٹنے لگا۔ سوئے ہوئے درد کو پھر سے تھپکنے لگا۔ تھوڑی سی دیر بعد وہ اس کوشش میں کامیاب ہو گیا۔ اسے شدت سے میاں جی طلب ہونے لگی جو دوپہر کے وقت اس کی مرہم پٹی کے بعد دوائیں دے گئے تھے۔ جس سے وہ بہت سکون کے ساتھ اب تک سو رہا تھا۔ مگر وہ بے بس تھا۔ گو پے سے باہر نکلنے کی اس میں ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔ سو ا سنے اپنا وجود پھر سے چارپائی پر ڈھیر کر دیا۔ تنہائی کے ان لمحات میں ا س کے پاس سوچیں تھیں جو اسے بے چین کئے دے رہی تھیں۔ ا سنے اپنا دھیان کسی اور طرف لگانا چاہا تو فطری طور پر اسے رات والا واقعہ یاد آ گیا جس کے باعث وہ اس گھپ اندھیرے سے بھرے گوپے میں پڑا تھا۔
اس وقت تقریباً مغرب کا وقت تھا جب وہ اپنی بائیک پر یونیورسٹی کے بوائز ہاسٹل جانے کے لئے گھر سے نکلاتھا۔ اس شام ا س کے کلاس فیلو اطہر کی سالگرہ تھی۔ اطہر آزاد کشمیر کے علاقے میر پور سے تعلق رکھتا تھا اور اس کی یہ پہلی سالگرہ گھر سے باہر تھی۔ پچھلے سال وہ گھر پر تھا اور اس سال امتحانات کی تیاری کی و جہ سے گھر نہیں جا سکتا تھا۔ سو اس کی تنہائی شیئر کرنے کے لئے اطہر کے قریبی دوستوں نے یہ چھوٹی سی پارٹی کااہتمام کر ڈالا تھا۔ یوں بھی وہ کھانے پینے کا کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کر ہی لیا کرتے تھے۔ علی اپنے وقت پر ہی گھر سے نکلا تھا۔ اسے راستے میں کیک بھی لینا تھا۔ کیک لانے کی یہ ذمہ داری دوپہر کےوقت اس پر ڈال دی تھی، جب انہوں نے ڈیپارٹمنٹ میں بیٹھے ہوئے پارٹی کا پروگرام بنایاتھا۔
’’تم لوگ یہ پارٹی کسی ہوٹل وغیرہ میں کیوں نہیں رکھ لیتے، ہم بھی شامل ہو جائیں۔‘‘ ان کی کلاس فیلو نبیلہ نے کہا۔
’’بالکل اب ہم لڑکیاں بوائز ہاسٹل میں آنے سے رہیں۔‘‘ فاریہ نے مسکراتے ہوئے کہا تو اطہر نے جواب دیا۔
’’میں تو یہ پارٹی کرنا ہی نہیں چاہ رہا تھا۔ مگر یہ۔۔۔‘‘ اس کا جواب ابھی ادھورا تھا کہ جمشید نے کہا۔
’’یہ کوئی اس سطح کی پارٹی نہیں ہے جس میں سب کو دعوت دی جا سکے، یہ تو ہم دوستوں کے مل بیٹھنے کا بس ایک بہانہ ہے، آپ پریشان نہ ہوں، کوئی اچھا سا فنگشن سوچتے ہیں۔‘‘
یوں اس موضوع پر تھوڑی دیر گفتگو کے بعد بات تو ٹل گئی لیکن پوری کلاس کومعلوم ہو گیا کہ یہ اطہر کی سالگرہ ہے، جسے بوائزہاسٹل میں منایا بھی جائے گا۔ چند لڑکوں نے اسے وش بھی کیا۔ اس میں لڑکیاں بہرحال آگے رہیں، انہوں نے کہیں سے ایک خوبصورت سا کارڈ منگوایا اور اسے نوٹس بورڈ پر لگوا دیا۔
علی کیک لے کر وقت پر پہنچ گیا۔ اس کے باقی تینوں دوست ہاسٹل کے ڈائننگ ہال میں موجود تھے۔ وہ سیدھا ان کی طرف بڑھ گیا۔
’’یہ پانچواں درویش دکھائی نہیں دے رہا۔‘‘ علی نے میز پر کیک رکھتے ہوئے کہا اور پھر جواب کاانتظار کرتے ہوئے بیٹھ گیا۔
’’سدا سُستی کے مارے کو ابھی تھوڑی دیر پہلے جگا کر آئے ہیں۔ سو رہا تھا وہ۔ اب تیار ہو کر آگے گا۔۔۔‘‘ جمشید نے بتایا۔
’’میں ایویں تو نہیں اسے درویش کہتا۔ ظالم کو وقت کی قدر ہی نہیں ہے۔‘‘ علی نے مسکراتے ہوئے کہا اور پھر ۔ ’’اچھا باقی سب تیار ہے نا۔‘‘
’’بالکل۔۔۔ وہ آ جائے تو۔۔۔ اب پتہ نہیں وہ کتنا وقت لے گا۔ خیر۔۔۔ میں ویٹر سے کہتا ہوں وہ لوازمات میز پر لگا دے۔‘‘ اطہر نے کہا اور پھر اٹھ کر کاؤنٹر کی جانب چل دیا اور وہ تینوں باتیں کرنے لگے کچھ ہی دیر میں سب کچھ تیار تھا، بس اشفاق کی آمد کے انتظار میں وہ بیٹھے تھے۔
’’جاؤ یار اسے خود ہی لے آؤ بال بنانے میں وہ تین دن لگا دے گا۔‘‘ جمشید نے علی کی طرف دیکھ کراکتائے ہوئے لہجے میں کہا تو علی اٹھنے لگا۔ اس لمحے اشفاق ڈائینگ ہال میں داخل ہوا۔ وہ بڑے اہتمام سے تیار ہوا تھا۔ وہ آ کر بیٹھا تو حنان نے تلخی سے کہا۔
’’تو کسی فلم کی شوٹنگ میں جا رہا ہے یا فیشن شو میں جو اتنی تیاری کر کے آیا ہے۔‘‘
اس پروہ تھوڑا سا مسکرایا اور نیم باز آنکھوں سے بولا۔
’’ارے بندے کو ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے کبھی بھی ، کوئی بھی ہم پر عاشق ہو سکتی ہے، ہماری محبت میں گرفتار ہو سکتی ہے۔ تیری طرح تھوڑی ہیں کہ سیدھے بستر سے نکل کر کلاس میں چلا جاتا ہے۔‘‘
’’لیکن فرق تو کبھی نہیں پڑا۔ نہ لڑکی اس سے بات کرتی ہے نا تم سے۔‘‘ جمشید نے ہنستے ہوئے کہا تو حنان چڑ گیا اور اشفاق کی طرف دیکھ کر بولا۔
’’ذرا اس کا سٹائل دیکھو، کس قدر نیم باز آنکھوں سے یہ ڈائیلاگ مار رہا ہے۔ اسے دیکھ کر تو وہ شعر یاد آ رہا ہے کہ میر ان نیم باز آنکھوں میں۔ ہماری مستی بے غیرتی کی ہے۔‘‘
اے چل جگتیں نہ مار۔۔۔ چل یار تو کیک کاٹ۔‘‘ اشفاق نے مزید کسی ’’بے عزتی‘‘ سے بچنے کے لئے جلدی سے کہا تو اطہر ہنستے ہوئے کیک کاٹنے لگا۔ عین اس وقت جب اس نے کیک کاٹنے کے لئے چھری اٹھائی تھی اچانک بجلی چلی گئی۔ وہ سبھی دم بخود رہ گئے۔ ایک لمحے کے لئے تو انہوں نے یہی سمجھا کہ بجلی اتفاقیہ گئی ہے لیکن اگلے ہی لمحے ڈاینگ ہال میں بھگدڑ سی ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی دوہوائی فائر ہوئے۔ علی سمیت کسی کو بھی یہ اندازہ نہیں ہوا کہ وہ کتنے لوگ ہیں انہیں تو پتہ ہی اس وقت چلا جب ان کے آگے رکھا ہوا میز الٹ دیا گیا اور علی کی گردن پرہاتھ ڈالا گیا۔
’’کون ہو تم۔۔۔ اور یوں۔۔۔ علی نے کہنا چاہا تو اس پر گرفت مزید سخت کر دی گئی۔ انہوں نے آتے ہی ہاتھ علی پر ڈالا تھا۔ اس کے دوستوں نے مزاحمت کی تو وہ لوگ ان سے بھڑ گئے۔ بمشکل چار سے پانچ منٹ تک یہ دھینگا مشتی چلی۔ جس میں جمشید اور اشفاق زمین بوس ہو کر بے ہوش ہو گئے۔ مگر اس دوران علی پر گرفت سخت رہی اور اسے کھینچتے ہوئے ہال سے باہر لے جاتے چلے گئے۔ علی نے اپنی پوری قوت سے اپنا بچاؤ کرنا چاہا لیکن بھر پور مزاحمت کے باوجود اس کی پیش نہیں جا رہی تھی۔ شاید انہیں بھی دانتوں پسینہ آ گیا تھا۔ اس لئے ان میں سے کسی نے ریوالور کا دستہ اس کے سر پر مارا، جس سے علی ہوش و حواس سے بے گانہ ہو گیا۔
اسے جب ہوش آنا شروع ہوا تو اسے آوازیں کہیں بہت دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ دھیرے دھیرے جب اس کے حواس ساتھ دینے لگے تو اسے لگا جیسے وہ کسی جیپ میں ہے جو اونچے نیچے راستوں پر چلتی چلی جا رہی ہے۔ وہ یہی سب کچھ اچھی طرح سمجھنے کی کوشش میں یونہی بے حس و حرکت پڑا رہا۔ تھوڑی دیر بعد اسے آواز سنائی دی۔
’’کب تک یونہی چلتے رہیں گے۔۔۔ اس کا کام تمام کریں اور چلیں واپس۔‘‘
’’چپ کر۔۔۔ جب کسی بات کا پتہ نہ ہو تو یوں بکواس نہیں کرتے۔۔۔‘‘ ایک رعب دار آواز اس کے کانوں میں پڑی۔
’’لیکن یہ کہتا تو ٹھیک ہے۔ کب تک چلتے رہیں گے اور کدھر جا رہے ہیں ہم۔‘‘ ایک تیسری آواز اس کے کانوں میں پڑی تو علی کو شدید خطرے کا احساس ہوا۔
’’دیکھ۔۔۔ ہمیں اس سے جان تو چھڑانا ہے، اسے واپس لے کر تو نہیں جا سکتے نا۔ بس اس سے جان چھڑا لیں تو دوسری طرف سے شہر چلیں جائیں گے۔‘‘ رعب دار آواز نے انہیں سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’اسے زندہ نہیں چھوڑنا، صرف اس نے ہی نہیں، دوسروں نے بھی ہمارے چہرے دیکھے ہوں گے، یہ بتا دے گا تو۔۔۔ کسی اور نے۔۔۔‘‘
’’تو فضول بکواس کرتاچلا جا رہا ہے۔ وہاں کسی نے ہمارا چہرہ نہیں دیکھا، اس سے پہلے کہ یہ ہمارا چہرہ دیکھے ہم اس سے جان چھڑا لیں گے۔ گولی ضائع کیے بغیر بھی اگر ہم اسے یہاں پھینک دیں گے تو روہی میں پتہ نہیں کتنے ایسے جانور ہیں جو اس کی زندگی چھین لیں گے۔‘‘ رعب دار آواز نے کہا تو علی کو ایک جھرجھری آ گئی۔ پتہ نہیں وہ لوگ کیا چاہتے تھے۔
’’تو پھراسے گولی کیوں نہیں مارتے ہو۔ جان چھڑاؤ اور واپس چلیں۔‘‘ تیسری آواز نے تیزی سے کہا۔ ا س کے لہجے میں اکتاہٹ تھی جیسے وہ اس کھیل سے اکتا گیا ہو۔ علی کو اپنی موت بالکل سامنے دکھائی دینے لگی۔ تب اچانک ہی اس کے سارے حواس بیدار ہو گئے۔ کیونکہ موت کو اپنے سامنے دیکھ کر ایسا ہوتا ہے۔ نجانے اس میں کہاں سے قوت آ گئی تھی۔ اس نے ایک لمحے کے لئے آنکھیں کھولی اور ماحول کا جائزہ لیا۔ وہ جیپ میں سیٹ کے نیچے پڑا ہوا تھا۔ دو لڑکے اگلی سیٹوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور ایک اس کے پاس جس کے پاؤں اس کے پیٹ کے قریب تھے۔ اس نے ایک لمحے کو سوچا اور پھر انتہائی پھرتی سے اٹھا اور پاس والے کی گردن دبوچ کر اس پر پل پڑا۔ اس اچانک افتاد پر اسے کچھ سمجھ نہیں آئی لیکن اگلے لمحے ہی وہ اپنا ریوالور نکال چکا تھا۔ جیپ نے ہچکولے لئے تو علی نے اس کے ریوالور پر ہاتھ ڈال دیا۔ جب تک اگلی سیٹ پر بیٹھا ہوا لڑکا اسے پکڑتا۔ علی نے ریوالور چھین لیا تھا۔ مگر اسے ریوالور سیدھا کرنے کا بھی موقعہ نہیں ملا۔ ان دونوں نے علی کو جیپ سے نیچے پھینک دیا۔ وہ ریت پر گرا جس کے ساتھ ہی فائر ہوا۔ جیپ چند گز آگے جا چکی تھی۔ علی نے فوراً اپنی جگہ بدلی، تب تک مزید دو فائر ہو گئے۔ علی اٹھا اور ان کے پیچھے بھاگا، اس نے فائر کیا تو سامنے سے دو فائر ہوئے۔ علی ریت پر لیٹ گیا۔ کچھ دیر بعد اس نے سر اٹھا کر دیکھا جیپ کی ہیڈلائٹس بہت دور دکھائی دے رہی تھیں اور پھر دھیرے دھیرے وہ بھی معدوم ہو گئیں۔ اس نے ریوالور اڑسااور اندھیرے میں کھڑا سوچنے لگا کہ یہ سب کیا ہے۔ خواب ہے یا حقیقت؟ پھر اسے یقین ہو گیا کہ یہ حقیقت ہے۔ اس نے خود کو انتہائی بے بس محسوس کیا۔ علی کو یہ اندازہ ہی نہیں ہو رہا تھا کہ اسے جانا کس طرف ہے۔ اس نے گہری سانس لی اور اپر سیاہ آسمان پر چمکتے ہوئے ستاروں کودیکھا۔ ممکن ہے کسی اور وقت اسے یہ منظر بہت خوشگوار دکھائی دیتا لیکن دور تک پھیلے ہوئے ان ستاروں کو دیکھ کر وہ مایوس ہونے لگا۔ اس وقت وہ سوچنے لگا کہ لوگ ستاروں کی مدد سے راستوں کا اندازہ کیا کرتے تھے مگر اسے تو وہ بھی طریقہ نہیں آتا تھا۔ کہاں جائے اورکدھر جائے۔۔۔ یا پھریہیں بیٹھا رہے۔۔۔؟ اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا۔ سے تو یہ سمجھنے کی بھی فرصت نہیں تھی کہ اس کے ساتھ یہ سب ہوا کیوں؟ یہ تو وہ وقت تھا جب اس کے ذہن میں فقط یہی بات تھی کہ وہ اپنی جان کیسے بچا سکتا ہے؟ پتہ نہیں کتنا وقت گزر گیا تھا۔
وہ وہیں بیٹھے بیٹھے جب اکتا گیا تو اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ اس وقت سمجھ چکا تھا کہ وہ کہاں ہے لیکن اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ کس طرف جائے۔ صحرا کی ٹھنڈی ہوا نے اسے پر کپکپی طاری کر دی تھی۔ اسے اپنا جسم اکڑتا ہوا محسوس ہوا۔ سر کازخم ٹیس میں بدل گیا تھا۔ وہ وہیں جم کر نہیں بیٹھ سکتاتھا، اس لئے وہ ایک طرف چل پڑا۔ اسے ہر طرف دیکھ کر بھی احساس نہیں ہوا تھا کہ وہ کس سمت جا رہا ہے۔ وہ چلتا چلا گیا۔ اسے درندوں اور سانپوں سے خطرہ تو تھا ہی، سنی سنائی وہ ساری باتیں یاد آنے لگیں جو صحرا ار خصوصاً چولستان کے بارے میں سنی ہوئیں تھیں۔ وہ کچھ دیر تو ان باتوں پر سوچتا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ وہ سب کچھ ذہن سے محو ہوتا چلا گیا اور اس کی جگہ ایک سناٹے نے لے لی۔ اس کا دماغ ماؤف ہو چکا تھا۔ وہ بے حس سا ہو گیا۔ پھر پتہ نہیں وہ کب تک چلتارہا اور کب گر کر بے ہوش ہو گیا۔ اسے کچھ خبر نہ تھی۔
’’علی۔۔۔ تم جاگ رہے ہو۔۔۔؟‘‘ سانول کی دھیمی آواز پر اس نے جلدی سے آنکھیں کھول دیں۔ اس کے ہاتھ میں دیا روشن تھا جس کی روشنی میں اسے سانول ایک فرشتہ دکھائی دے رہا تھا۔
’’ہاں۔۔۔ جاگ رہا ہوں۔۔۔‘‘ اس نے کہا تو دیے کی روشنی اس کے عقب میں کھڑے میاں جی پر پڑی۔ وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ علی نے ہمت کر کے اٹھنا چاہا تو اس کا پورا بدن ٹیسوں سے جھنجھنا اٹھا۔ تبھی اس کے منہ سے بے اختیار کراہ نکل گئی۔
’’لیٹے رہو پتر لیٹے رہو۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر میاں جی اس کی چار پائی کے قریب پڑے ہوئے پیڑھے پر بیٹھے گئے اور پھر بڑے ہی نرم لہجے میں پوچھا۔
’’اب کیا حال ہے بیٹا؟‘‘
’’پہلے سے بہت بہتر ہوں، بس اٹھا نہیں جا رہا۔‘‘ علی نے دھیمے لہجے میں کہا تو میاں جی نے اس کی نبض پر ہاتھ رکھ دیا۔ چند لمحے یونہی ساکت سے خاموشی سے بیٹھے رہے اور پھر ایک لمبی سانس لے کر پیچھے ہٹ گئے۔ وہ سیدھے ہو کر بیٹھے اور کہا۔
’’کوئی بات نہیں ٹھیک ہو جاؤ گے، ایک دو دن مزید لگیں گے۔ تم چلنے پھرنے لگو گے۔ مجھے امید ہے کہ آج رات میں کسی وقت تمہارا بخار اتر جائے گا۔‘‘ ان کے لہجے میں تسلی کے سا تھ امید افزاء حوصلہ بھی تھا۔۔۔ یہ کہہ کر انہوں نے جیب سے ایک پوٹلی سی نکالی، اسے کھولا اور پھر اس سے دو پڑیاں نکال کر الگ کر لیں۔ اپنی پوٹلی کو دوبارہ باندھا اور اسے جیب میں رکھتے ہوئے بولے۔
’’لے یہ دو پڑیاں کھا لے، انشاء اللہ صبح تک تمہارا بخار اتر جائے گا۔ اٹھو اور یہ لے لو۔‘‘
میاں جی کے یوں کہنے پر سانول آگے بڑھا، اس کے ہاتھ میں دودھ سے بھرا کٹورا تھا۔ وہ اس نے آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’لو۔۔۔ یہ پی لو۔۔۔‘‘
اس کے لہجے میں گہری اپنائیت تھی۔
علی نے اس کی طرف دیکھا ا ور بنا کچھ کہے وہ پڑیاں کھولیں، انہیں پھانکا اور پھر دودھ کا کٹورا پکڑ کر گھونٹ گھونٹ پینے لگا۔ نیم گرم دودھ کا وہ ذائقہ منفرد تھا۔ کٹورا بھرا دودھ پینے کے بعد علی کا دل چاہا کہ وہ پھر لیٹ جائے۔ مگر جی کڑا کر کے وہ بیٹھا رہا۔ تبھی سانول نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’علی۔۔۔ یہاں ڈاکٹر وغیرہ تو ہوتے نہیں ہیں۔ یہ میاں جی کی پڑیاں ہی ہمارے علاج کے لئے کافی ہوتی ہیں۔ ہم اسی سے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔‘‘
’’اچھا بھئی سانول۔۔۔ میں چلتا ہوں۔‘‘ میاں جی نے کہا اور اٹھ گئے۔ اس پر سانول نے دھیرے سے کہا۔
’’جیسے آپ کی مرضی میاں جی۔۔۔‘‘
انہوں نے ایک گہری نگاہ علی پر ڈالی اور پھر سلام کرتے ہوئے گوپے سے نکلتے چلے گئے۔ تو کئی لمحوں تک ان کے درمیان خاموشی رہی۔ تب اس خاموشی کو علی نے توڑا۔
’’سانول۔۔۔ یہ میاں جی۔۔۔؟‘‘
’’یہاں مسجد میں امام ہیں۔ بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ کبھی کبھار شہر جاتے ہیں اور وہاں سے دوائیاں لے آتے ہیں۔ ادھر ان کی دوائی سے لوگ چنگے بھلے ہو جاتے ہیں۔ ان کی دعا میں بھی بڑا اثر ہے۔ بلکہ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ شاید دوائی وغیرہ تو ایک بہانہ ہے، لوگ ان کی دعا سے ہی ٹھیک ہو تے ہیں۔‘‘
’’کیا میاں جی یہیں کے ہیں، مطلب یہاں بستی میں شروع سے رہتے ہیں۔‘‘ علی نے یونہی بات بڑھائی۔
’’ہم نے تو ہمیشہ انہیں یہیں دیکھا ہے بچپن سے ہی۔‘‘ سانول نے قدرے الجھتے ہوئے کہا جیسے یہ جواب دینا اس کے لئے بہت مشکل ہو رہا ہے۔ تبھی علی نے بات بدلتے ہوئے کہا۔
’’سانول۔۔۔ یہاں سے شہر کتنی دور ہے؟‘‘
’’یہی کوئی پندرہ سے بیس کلو میٹر۔۔۔ کیوں تمہیں یہ۔۔۔‘‘ سانول کے لفظ ابھی منہ میں ہی تھے کہ علی نے چونکتے ہوئے کہا۔
’’پندرہ بیس کلو میٹر۔۔۔؟ ارے میں اتنا۔۔۔ میں واپس کیسے جا سکوں گا۔۔۔‘‘
’’یار۔۔۔ یہ کوئی اتنا لمبا سفر نہیں ہے۔ میں تو کئی بار پیدل شہر سے ہو آیا ہوں اور جہاں تک تمہاری واپسی کی بات ہے تو میں تمہیں واپس پہنچا دوں گا۔ کوئی نہ کوئی بندوبست تو ہو گا یار۔‘‘ سانول نے ہنستے ہوئے اسے حوصلہ دیا۔
’’یار میں واپس جانا چاہتا ہوں۔‘‘ علی نے بے چین ہوتے ہوئے کہا۔
’’چلے جانا۔۔۔ ابھی تم سفر کرنے کے قابل تو ہو جاؤ۔‘‘ سانول ہنس دیا۔
’’تمہیں شاید نہیں پتہ میرے والدین کس قدر پریشان ہوں گے۔‘‘ علی کے لہجے میں تڑپ تھی۔ اس پر سانول نے انتہائی سنجیدگی سے کہا۔
’’دیکھ۔۔۔ مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے تمہیں یہاں اپنے گھر میں رکھنے کا۔ میں نہیں جانتا تم کون ہو، کہاں سے آئے ہو۔ چور ہو یا سادھ ہو۔ جس حالت میں تم مجھے ملے ہو، اس پرتمہارے بارے میں کچھ بھی گمان کیا جا سکتا ہے۔ مگر ہماری روایت یہ ہے کہ مہمان کی قدر کرتے ہیں۔‘‘
’’سانول تم ناراض ہو گئے ہو۔۔۔ میں سمجھتا ہوں تم کیا کہنا چاہتے ہو۔ یہ تم یقین رکھو، میں کوئی چور نہیں ہوں اور نہ ہی کوئی مجرم ہوں۔ میں یونیورسٹی میں پڑھتا ہوں۔ بہاول پور شہر میں رہتا ہوں اور یہاں تک میں اپنی مرضی سے نہیں آیا۔‘‘ علی نے وضاحت سے کہا تو سانول نے انتہائی تحمل سے ریوالور اس کے سامنے کرتے ہوئے کہا۔ پتہ نہیں کس وقت وہ سانول کے ہاتھ لگا تھا اور شاید ایسے ہی کسی وقت کے لئے سنبھال رکھا تھا اس نے۔
’’میں تمہاری بات مان بھی لوں تو یہ پڑھا کو لڑکوں کے پاس نہیں ہو سکتا۔‘‘ اس کے لہجے میں بڑا ٹھہراؤ تھا۔
’’یہ میرا نہیں ہے۔‘‘علی نے اطمینان سے کہا اور پھر ایک لمحہ توقف کے بعد بولا۔ ’’مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ اس میں کوئی گولی ہے بھی یا نہیں۔‘‘
’’تو پھر یہ تیرے پاس کہاں سے آیا؟‘‘ سانول نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’تو کیا تم میرے بات پر یقین کر لو گے۔۔۔؟‘‘ علی کے لہجے میں وہی اطمینان تھا جو ایک سچے شخص کے لہجے میں جھلک رہا ہوتا ہے۔
’’یقین نہ کرنے کی و جہ کیا ہو سکتی ہے۔‘‘ سانول نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا۔
’’شک۔۔۔ جو یقین کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ میں جو کہوں گا، سچ کہوں گا اور تمہیں اگر میری بات جھوٹ لگے تو شک کرنے سے پہلے تصدیق ضرور کر لینا۔‘‘ علی کے لہجے میں اعتماد تھا جس پر سانول خاموش رہا۔ تب علی نے شام سے لے کر اس کے ملنے تک کی تمام روداد کہہ دی۔ اس دوران وہ لیٹ چکا تھا۔
’’ہوں۔۔۔‘‘ سب کچھ سننے کے بعد سانول نے ایک طویل ہنکارا بھرا۔
’’سانول۔۔۔ تم میرے محسن ہو میری زندگی کاوسیلہ بنے ہو۔ اس لئے میرے دل میں جو تمہاری قدر ہے شاید میں اس کا بدلہ نہ دے سکوں، مگر یہ وقت بتائے گاا کہ میں احسان کا بدلہ چکانے کے لئے کیا کچھ کر سکتا ہوں۔‘‘ علی نے شکر گزار لہجے میں، بہت ٹھہرے ہوئے انداز میں کہا۔
’’میں نے ایسا کچھ بھی نہیں سوچا ہے علی۔ مجھے اندازہ ہو رہا ہے کہ تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔‘‘ سانول نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’سانول۔۔۔ جہاں تم نے مجھ پر اتنی مہربانی کی ہے۔ ایک احسان اور کر دو۔۔۔ کسی طرح مجھے شہر پہنچا دو۔ کہتے ہیں کہ بندہ صحرا میں راستہ بھول جاتا ہے اور میں اسی حالت میں پیدل۔۔۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ صحرا اور صحرائی باشندوں کی سمجھ بہت دیر میں آتی ہے علی ۔۔۔ تم اپنے گھر ضرور واپس جاؤ گے۔ لیکن ابھی نہیں، پہلے تم ٹھیک ہو جاؤ۔ پھر۔۔۔‘‘ سانول یہ کہتے ہوئے اٹھ گیا۔
’’کہاں جا رہے ہو۔۔۔؟‘‘ علی نے پوچھا۔
’’تم آرام کرو۔۔۔؟‘‘ سانول ن ے کہا اور باہر کی جانب بڑھ گیا۔
علی گوپے میں تنہا رہ گیا۔ ڈھلتی ہوئی شام کے ساتھ اب وہ تھا اور اس کے اپنے خیالات، وہ سوچتا چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد اسے لڑکیوں کے قہقہے سنائی دئیے۔ اسے یہ اپنا وہم لگا۔ مگر یہ تسلسل بڑھتا ہی گیا۔ لڑکیوں کے قہقہے باتیں اور پھر ان کے گیت۔ اسے یوں لگا جیسے یہ سب کچھ اس کے کہیں قریب ہی ہو رہا ہے۔ اس کا دھیان اپنی سوچوں سے ہٹ گیا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس پر نیند کا غلبہ بھی ہونے لگا۔ اپنی سوچیں ، لڑکیوں کے گیت اور نیند کے جھونکے، یہ گڈمڈ ہو گئے تو اسے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ وہ نیند کی وادیوں میں اترتا چلا گیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
روہی کی اس کچی بستی پر ڈوبتے ہوئے سورج کی سنہری کرنیں غیر محسوس انداز میں سمٹ رہی تھیں۔ اک انجان سناٹا پوری بستی پر پھیلا ہوا تھا۔ ایسے میں واپس آتے ہوئے ریوڑ کے گلوں میں بندھی گھنٹیوں کی آواز، جھانجھروں کی جھنکار اور چرواہے کی ہکل۔۔۔ یہ سب مل کر اک نئی دنیا اور زندگی کا نیا پہلو واضح کر دینے کا احساس لئے ہوا تھا۔ اس کچی بستی کے ایک آنگن میں چولہے کے پاس بیٹھی بکھاں مائی جلدی جلدی روٹیاں بنا رہی تھی۔ صحن کے ایک گوشے میں بنے ہوئے چولہے سے اٹھتا ہوا دھواں بھی زندگی کا احساس دلا رہا تھا۔ کھلے صحن کی دوسری جانب گامن تھوڑی سی بکریاں کو چارہ ڈالنے میں مصروف تھا۔ دونوں میاں بیوی اپنے اپنے کاموں میں خاموشی کے ساتھ مصروف تھے۔ چولہا جلاتے ہوئے بکھاں اچانک کسی خیال کے تحت چونک گئی اور پھر روٹی بناتے ہوئے ہاتھ وہیں ساکت ہو گئے، وہ چند لمحے سوچتی رہی اور پھر کچے کوٹھے کی جانب منہ کر کے اونچی آواز میں بولی۔
’’مہرو۔۔۔ اری او مہرو۔۔۔ کدھر ہے تو؟‘‘
’’آئی اماں۔۔۔‘‘ اس پکار کی بازگشت میں اندر کچے کمرے میں سے آواز آئی اور چند لمحات میں مہروباہر آ گئی۔ بلاشبہ وہ چولستانی حسن کا شاہکار تھی۔ بھرا بھرا جسم، لمبا قد۔ گورا رنگ جس پر جوانی سرخی بن کر دمک رہی تھی۔ سنہری مائل سیاہ بال، جس کی چوٹی کس کر باندھی گئی تھی اور پراندہ کمر پر یوں جھول رہا تھا جیسے حسن کے خزانے پر کوئی سانپ پہردار ہو۔ ریشمی گلابی کلائیوں میں سفید روایتی پلاسٹک کی چوڑیاں تھیں۔ اس کے دونوں ہاتھوں میں درسی کتاب تھی، جسے اس نے بڑی مضبوطی اور احترام کے ساتھ پکڑا ہوا تھا، صحرا میں سنہرے پن کی بہتات اور سیاہی مائل اجڑا ہوا سبز رنگ ماحول کوانتہائی پھیکا کردیتا ہے۔ ہلکا نیلا آسمان بھی اس پھیکے پن کو دور کرنے کی یہ لاشعوری کوشش ہے۔ مہرو نے بھی براؤن رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا جس پر پیلے رنگ کے دائرے اور لکیریں بنی ہوئی تھیں۔ وہ دھیمے قدموں سے چلتی ہوئی اپنی ماں کے پاس آئی اور اپنی غلافی آنکھیں اس پر ٹکاتے ہوئے بڑے پیار سے بولی۔
’’ہاں ہاں۔۔۔ بول کیا بات ہے؟‘‘
’’شام ڈھل رہی ہے گھر میں اتنے کام پڑے ہیں اور تم اندر کمرے میں گھسی ہوئی ہو۔‘‘
’’ اماں۔۔۔ بھلا بتاؤ کون سا کام رہ گیا ہے۔ سارے گھر کے کام تو میں نے کر دئیے ہیں۔ پانی بھر لائی ہوں۔ بکریاں میں نے باندھ دی ہیں اور کچھ۔۔۔؟‘‘ مہرو نے مسکراتے ہوئے پوچھا تو اس کی ماں کے پاس کسی اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں رہی تھی۔ اس لئے یونہی پوچھ لیا۔
’’وہ تو ٹھیک ہے مگر تو اندر اکیلی بیٹھی کیا کر رہی ہے۔‘‘ بکھاں نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’ماں۔۔۔ میں پڑھ رہی تھی۔ سبق یاد کر رہی تھی جو میاں جی نے دیا ہے۔‘‘ مہرو نے اپنے فطری بھولپن سے کہا۔ بکھاں اسی بات پر چڑ سی گئی اور پہلے سے بھی زیادہ اکتائے ہوئے لہجے میں بولی۔
’’یہ تیرا کیا پاگل پن ہے۔ یہ تیری عمر ہے پڑھنے کی، تیری عمر کی لڑکیاں تو اپنے اگلے گھر کا سوچتی ہیں کوئی سینا پرونا، گھر داری سیکھتی ہیں اور تونے خود کو کس مصیبت میں ڈالا ہوا ہے؟‘‘
’’یہ مصیبت نہیں، میرا شوق ہے اماں۔۔۔ تو سمجھتی کیوں نہیں۔‘‘
’’میری بجائے خود کو سمجھا میری دھی۔۔۔ یہاں کی لڑکیاں پڑھتی نہیں ہیں۔ قرآن پاک پڑھ لیا ہے وہی بہت ہے اب اس عمر میں۔۔۔‘‘
’’اماں۔۔۔ اگر کوئی اور نہیں پڑھی یا نہیں پڑھتی، ا س سے مجھے کیا؟‘‘ مہرو نے ہلکے سے مسکراتے ہوئے اپنی ماں کو سمجھایا تو صحن کے دوسرے کونے سے اس کے باپ گامن نے ہانک لگائی۔
’’او نیک بخت۔۔۔ تجھے کیا پتہ ہے زمانہ کہاں سے کہاں چلا گیا ہے۔ میری دھی اگر چار لفظ پڑھ لے گی تو اس میں تیرا کیا جاتا ہے بول۔۔۔‘‘ گامن کے لہجے میں اپنی بیٹی کے لئے محبت گھلی ہوئی تھی۔
’’چھوٹی عمر کی تھی نا تو کوئی بات نہیں تھی۔ اب اس کی عمر پرائے گھر جانے کی ہے، تو اس کی فکر کر۔۔۔‘‘ بکھاں کے لہجے میں خوف لرز رہا تھا۔
’’وہ اللہ سائیں ہے نا، اس پر یقین رکھ، جو اس کی قسمت ہے، اسے مل جائے گا، تو روزانہ بہ بحث لے کر نہ بیٹھ جایا کر۔‘‘ گامن نے بکریوں کے آگے چارہ ڈالتے ہوئے اونچی آواز میں کہا۔ مہرو بھانپ گئی کہ بات اگر آگے بڑھی تو بحث میں بدل جائے گی۔ سو اس نے بات بدلتے ہوئے کہا۔
’’اچھا چل چھوڑ اماں۔۔۔ یہ بتا مجھے بلایا کیوں تھا۔‘‘ اس کے یوں کہنے پر بکھاں نے ماتھے پرہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
’’لو۔۔۔ میں تو بھول ہی گئی۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے توے پر پڑی ہوئی روٹی کو پلٹا ا ور پھر بولی۔ ’’شماں کی شادی پر جو کپڑوں کے جوڑے دینے ہیں۔ وہ کیا نکال لئے ہیں تم نے۔۔۔؟‘‘
’’ابھی تو ایک ہفتہ پڑا ہے اس کی شادی میں، ابھی سے نکال کر رکھ دوں۔‘‘ مہرو نے ہلکی سی حیرت کے ساتھ پوچھا۔
’’ہاں میری دھی۔۔۔ ابھی سے نکال دو۔۔۔ رات ’’جاگے‘‘ میں جائیں گے تو دے دیں گے۔ رشتے داری کا معاملہ ہے۔ انہیں دینا تو ہے، آج نہیں تو کل۔‘‘
’’مگر اتنی جلدی کیوں؟‘‘ مہرو کی سمجھ میں بات اب بھی نہیں آئی تھی تو بکھاں نے پیار سے سمجھایا۔
’’جب دھی دھیان کو گھر سے رخصت کیا جاتا ہے تو اس سے پہلے بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے انہیں بھی پتہ ہو کہ شماں کو دینے کے لئے کیا کچھ ہے۔‘‘
’’اچھا تو یہ بات ہے۔۔۔‘‘ مہرو نے سمجھتے ہوئے کہا۔ ’’چل ٹھیک ہے، میں ابھی نکال دیتی ہوں۔ اور وہ روپے۔۔۔‘‘
’’ہاں ہاں وہ بھی۔۔۔‘‘ بکھاں نے توے پر سے روٹی اتارتے ہوئے کہا تو مہرو اٹھ گئی۔ اس کا رخ واپس کمرے کی طرف تھا۔ اس کے ذہن میں وہ ساری چیزیں آنے لگیں جو اس نے شماں کو دینے کے لئے سوچی ہوئی تھیں۔ آخر وہ اس کی گہری سہیلی تھی اور واحد راز دار بھی۔۔۔ یہ سوچتے ہی مہرو دھیرے سے مسکرا دی۔ وہ سب سے بڑھ چڑھ کر اسے دینا چاہتی تھی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...