رات بہت ہو گئی تھی اس لئے رش نہی تھا
اکثر لوگ باہر فرش پر سو رہے تھے اور کچھ ملنگ عبادت کر رہے تھے
اس نے اک نظر چاروں طرف دوڑائی
بھاگ بھاگ کر اب پیاس کا شدت سے احساس ہو رہا تھا
سامنے ہی اک کولر پڑا دکھائی دیا وہ جلدی سے کولر کے پاس گئی اور پانی نکال کر پینے لگی
تبھی اک عورت اس کے پاس آ کر کھڑی ہوئی اسے بھی پانی پینا تھا
سیم نے جلدی جلدی سے گھونٹ بھرے اور گلاس اسے پکڑانے کے لئے ہاتھ اگے بڑھایا
اس عورت نے گلاس پکڑنے کی بجاۓ سیم کا جائزہ لینا شروح کر دیا وہ کوئی ملنگ سی عورت تھی
یہ لیں گلاس سمیہ نے انہیں گلاس کی طرف متوجہ کرنا چاہا
لیکن وہ سمیہ کو گھورتے ہووے ہی زمین پر بیٹھ گئی
بیٹھ ادھر اس نے پاس ہی بیٹھنے کا اشارہ کیا
سمیہ الجھ سی گئی
ارے بیٹھ نہ اس نے ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ ہی نیچے بیٹھا لیا
کیا بات کرنی ہے اسے کوفت ہو رہی تھی اس عورت کے بکھرے بکھرے ہولیے سے
کون سی مجبوری تجھے یہاں لائی ہے
سمیہ کو سوال پسند نہیں آیا کیا اپ ہر انے والے سے یہی پوچھتی ہیں اس نے ذرا بتمیزی سے کہا
نہیں صرف تجھ جیسوں سے اس عورت نے بڑے آرام سے جواب دیا
اپ یہاں کس مجبوری سے ہیں سمیہ نے ذرا تیز لہجے میں پوچھا
وہ مسکرا دی عشق سمجھتی ہے وہی مجبور کر کے یہاں لاتا ہے جانتی ہے میرا عشق کون ہے اس نے ذرا سرگوشانہ انداز میں کہا
یہ دربار دیکھ رہی ہے مجھے اس سے عشق ہو گیا ہے
سمیہ نے عجیب نظروں سے اسے دیکھا جیسے کوئی زہین کم عقل کو دیکھتا ہے
تو بتا تجھے کس سے عشق ہوا ہے
مجھے, مجھے تو کسی سے نہی ہوا اس نے نظریں چوراتے ہووے کہا
تو پھر تو اتنی بکھری ہوئی کیوں ہے
سمیہ کا دل چاہا سب کچھ بتا دے اسے اپنے ان کہے جذبوں کا رازدان بنا لے پر وہ چپ رہی
ارے بتا دے دل کا بوجھ ہلکا کر چل شاباش بتا
سمیہ کو لگا اب وہ مزید نہی چھپا سکے گی اور اس نے چھپایا بھی نہیں
مجھے میرا تایا زاد پسند تھا
بچپن سے ہی میں اس کے جیسا بنا چاہتی تھی تاکہ وہ مجھے پسند کرے
بچپن سے نکل کر جب جوانی میں قدم رکھا تو مجھے اس سے محبت ہو گئی شدید محبت
لیکن پتا ہے اسے شروح سے لڑکیاں پسند نہی تھی انکی عادتوں سے وہ چھڑتا تھا
پہلے میرا بھی دل کرتا تھا کے جب ہمارے خاندان میں کوئی شادی ہوتی یا عید پر میں بھی لڑکیوں کی طرح سجوں سنوروں پر میں ہمیشہ اس کے لئے اپنی چھوٹی چھوٹی خواھشات کا گلا گھونٹتی رہی
یہاں تک کے میں خود کو مار کر مکمل طور پر اسکی پسند میں ڈھل گئی اور میں مطمئن بھی تھی
لیکن پتا ہے اب وہ سب سے کیا کہتا ہے کے میں صرف اسکی دوست ہوں مجھ جیسی لڑکی سے وہ شادی تھوڑی ہی کر سکتا ہے بتاتے ہووے سیم کی آواز میں نمی شامل ہو گئی
لیکن اب میں مزید خود کو نہیں مار سکتی مجھے میری اصلیت پتا چل چکی ہے ابھی ابھی اک سبق سیکھ کر آ رہی ہوں کے میں لڑکوں جیسا لباس پہن کر انکے جیسی حرکتیں کر کے لڑکوں جیسی تو بن سکتی ہوں پر لڑکا نہی بن سکتی
میں کچھ بھی کر لوں کمزور سی عورت ہی رہوں گی جو اپنا دفاع بھی نہی کر سکتی
آج تک کسی لڑکے نے مجھے تنگ نہیں کیا تھا میں سمجی کے یہ میرے لباس میرے حلیے کا کمال ہے پر نہیں وہ تو یوسف تھا جو میری ڈھال بنتا تھا
وہ نظریں جکھا کر بولی
الله نے جو فرق مرد اور عورت میں رکھا ہے تو اسے مٹا نہیں سکتی نہ ہی جھٹلا سکتی ہے شکر کر تو نے اپنا یہ سبق بغیر کسی نقصان کے سکھ لیا
اور رہی بات تیرے عشق کی تو عشق تو ہمیشہ عاشق کو نچاتا آیا ہے
عاشق کبھی اپنی خوشی سے ناچتا ہے تو کبھی مجبور ہو کر اور مجبور کرنے والا اپنا دل ہی ہوتا ہے
? لیکن یہ تو بتا اب تو کیا کرے گی کیا اپنے عشق کو چھوڑ دے گی
تم یہ جگہ چھوڑ سکتی ہو اس نے جیسے اپنے سوال کا جواب دے دیا
اس عورت نے قہقہ لگایا
میں اس سے ہمیشہ سے محبت کرتی ای ہوں اور آئندہ بھی کروں گی پر کبھی کسی پر ظاہر نہی ہونے دوں گی جیسے اب تک یہ بات صرف مجھے اور میرے دل کو معلوم رہی اب بھی ایسا ہی کروں گی
وہ عورت بس خاموشی سے اسے دیکھتی رہی شائد اب بات کرنے کے لئے کچھ نہی بچا تھا سمیہ چپ چاپ اٹھنے لگی
سنو یہاں پھربھی آنا میں تمہارا انجام دیکھنا چاہتی ہوں اس نے مسکرا کر کہا
سمعیہ نے سر ہلا دیا اور خدا حافظ کہ کر باہر نکل ای
کبھی انسان کو عرصہ گزر جاتا ہے خود کو سمجھنے میں تو کبھی رب اک پل میں یہ کام کر دیتا ہے
سمیہ کو بھی اب اپنی حقیقت معلوم ہو چکی تھی اس لئے اسے اب مزید غلطیاں نہی کرنی تھیں
اس نے دربار سے نکل کر کامران بھائی کو کال کی اتنی رات کو انہیں تنگ کرنا اچھا بھی نہی لگ رہا تھا پر مجبوری تھی
تھوڑی ہی دیر انتظار کرنے کے بعد وہ پریشان سے اسے لینے پہنچ گئے
سمیہ یہ کیا پاگل پن تھا انہوں نے اتے ہی ڈانٹا
تمھیں پتا ہے میں اور تمہاری آپی کتنے پریشان ہو گئے تھے پورا لاہور چھان مارا میں نے… ابھی بھی تم نہ ملتی تو ہم پولیس کو انفارم کرنے والے تھے
وہ چپ چاپ شرمندگی سے سب سنتی رہی گھر پہنچ کر آپی نے بھی خوب ڈانٹا اگر تمھیں کچھ ہو جاتا تو مما پاپا کو میں کیا جواب دیتی وہ تو باقاعدہ رو رہی تھیں
آپی پلیز معاف کر دیں آیندہ آپ کو شکایت نہی ہوگی پکا اس نے کان پکڑ کر کہا
رمشا نے اسے گلے لگا لیا
—————————————————————-
سمیہ مما کا فون آیا تھا که رہی تھیں کے سمیہ کو کہو واپس آ جائے”
انہوں نے ناشتہ کرتے ہووے بتایا
نہیں مجھے نہیں جانا پاپا ڈانٹیں گے اس نے خوف ظاہر کیا
کامران اور رمشا دونوں ہنس دیے
آپی اپ پاپا کو کہیں کے مجھے خود کال کریں اور یقین دلائیں کے ڈانٹے گے نہیں تو ہی میں گھر آؤں گی
اچھا ٹھیک ہے بابا کہ دوں گی اور ہان مما بتا رہی تھیں کے یوسف کا بھی فون آیا تھا کل …تمہارا پوچھ رہا تھا اور تمہارے لئے پیغام دیا ہے کے اپنا فون اب اون کر لو سمیہ نے خاموشی سے سر ہلا دیا
—————————————————————————
ابھی پڑھائی سہی سے شروح نہی ہوئی تھی اس لئے اس نے سوچا کے فارغ وقت میں تھوڑا گھوم پھر لے
وہ کونیز لینڈ کے کیپٹل برسبین میں گھومنے آیا تھا
سیم کے ساتھ مل کر اس نے بہت سی جگہیں گوگل کی تھیں کے جب وہ آسٹریلیا جایئں گے تو ان ان جگوں پر گومیں گے
ان میں سے اک جگہ بوٹانک پارک بھی تھی جہاں وہ اس وقت موجود تھا وہ اس خوبصرت پارک کا جائزہ لے رہا تھا کے پیچھے سے کسی نے اسے بولایا
سنئیے مسٹر
اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ماہم کھڑی تھی
آپکو نہیں لگتا آسٹریلیا چھوٹا سا ملک ہے یا پھر گول ہے
اف یہ یہاں بھی یوسف نے دل میں سوچا لیں دل کی بات چہرے پر بھی آیاں ہو رہی تھی
سنیں آپ مجھے دیکھ کر یوں برا سا مونھ کیوں بنا لیتے ہیں
یوسف بغیر کوئی جواب دیے اگے چل پڑا
وہ بھی پیچھے پیچھے ہو لی
مجھ سے دوستی کریں گے اپ اس نے بڑے نرم سے لہجے میں پوچھا
دیکھئے مس ماہم میں لڑکیوں سے دوستی نہیں کرتا آپ میرا پیچھا چھوڑیں”
میں اپکا پیچھا کب کر رہی ہوں اپ ہی میرے ساتھ چل رہے ہیں ”
اف یوسف کا موڈ خراب ہو رہا تھا
وہ سارا وقت اسی کے ساتھ رہی وہ چلتا تو چل پڑتی وہ روکتا تو رک جاتی پر اس سب کے دوران وہ لگاتار بولتی بھی رہی
میرا نام تو آپکو اچھے سے یاد ہے ہی میں یہیں آسٹریلیا سے ہی ہوں پاپا یہاں رہتے ہیں اور مما پاکستان میں بھائی بہن نہیں ہیں اکلوتی ہوں میں
میری ہابی دوست بنانا ہے جیسے کے ابھی آپکو بنانے کی کوشش کر رہی ہوں وہ ذرا سا مسکرا کر بولی
لیکن مجھے دوست بنانے کا کوئی شوق نہیں ہے میری دوست صرف اک ہی ہے وہ روانی میں بول گیا
پر پھر پچھتایا
اہ میری دوست اس نے میری کو خوب کھنچا کہیں ووہی تصویر والی تو نہیں اس نے چھڑا
یوسف نے کوئی جواب نہ دیا پر چہرہ اسکے ذکر پر کھل سے گیا
وہ صرف دوست نہیں ہے نہ ماہم نے آہستگی سے کہا پر آواز میں یقین سا تھا
یوسف حیران ہوا کیا واقعی میرے چہرے سے ہی پتا چل جاتا ہے کے وہ میرے لئے کیا ہے اس انجان لڑکی کو بھی پتا چل گیا اک میری سیم ہی ہے جسے پتا نہی چلتا
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
وہ سوچ کر مسکرا دیا
یعنی اپ مسکراتے بھی ہیں ماہم نے حیرانی سے کہا
یوسف کی مسکراہٹ سمٹ گئی وہ اپنی بیساختہ حرکت پر شرمندہ سا ہوگیا
سمیہ گھر واپس آ چکی تھی
پاپا کا غصہ اور ناراضگی دونوں ہی ختم ہو چکے تھے
وہ اپنی لاڈلی سے زیادہ دیر ناراض بھی تو نہیں رہ سکتے تھے وہ ابھی ابھی انسٹیٹیوٹ سے لوٹی تھی
مما شائد یوسف سے بات کر رہی تھیں اس نے انکی باتوں سے اندازہ لگایا
اس کا بھی دل چاہا کے وہ بھی بات کرے پر اب اسے دل کی سنی ہی نہیں تھی وہ انکے پاس سے گزر کر اوپر جانے لگی کے انہوں نے بلا لیا
ہان وہ انسٹیٹیوٹ سے آ گئی ہے بلکہ میرے پاس ہی کھڑی ہے لو بات کرو انہوں نے فون اسے تھما دیا
تم بات کرو میں ذرا کچن دیکھ لوں وہ کہ کر چلی گیں
سمیہ نے مجبوراً فون کان سے لگا لیا
اسلام علیکم ”
وعلیکم اسلام کیسی ہو اور فون ابھی تک کیوں بند ہے تمہارا میرا پیغام نہیں ملا کیا ”
میں ٹھیک ہوں تم سناؤ اس نے فون والی بات کو نظر انداز کیا
میں تو مزے کر رہا ہوں آسٹریلیا میں بلکے بہت سے دوست بھی بنا لئے ہیں میں نے تو”
وہ اسے چڑھانے لگا جانتا تھا کے سیم کسی اور سے اسکی دوستی برداشت نہیں کرتی تھی وہ سوچ رہا تھا کے ابھی سیم ناراضگی کا اظہار کرے گی پر سیم کا جواب اسے حیران کر گیا
اس کتنے نے آرام سے کہ دیا کہ اچھا کیا ”
سیم تمھیں غصہ نہیں آیا کے میں نے کسی اور کو دوست بنایا”
نہیں اس میں غصے کی کون سی بات ہے تم اپنے فیصلوں میں آزاد ہو چاہے اک دوست بناؤ یا سینکڑوں میرا کیا واسطہ”
سیم یہ کیا که رہی ہو تم ”
یوسف کو اسکی لاتعلقی بلکل اچھی نہیں لگ رہی تھی
پڑھائی کیسی جا رہی ہے اور کیا کر رہے ہو اس وقت ”
سمیہ نے بات ہی بدل دی
یوسف تلملا گیا وہ بچہ نہیں تھا کے اسکے انداز نہ سمجھے اتنا تو وہ جان گیا تھا کے سمیہ اس سے ناراض ہے پر کیوں یہ سمجھنے سے قاصر تھا
بات کرنی ہے یا میں فون رکھوں” سیم نے کہا
ہان پڑھائی اچھی جا رہی ہے میں ابھی سونے کی تیاری کر رہا تھا سوچا پہلے سب سے بات کر لوں
اتنی جلدی سونے کی تیاری سیم نے حیرانی سے گھڑی کو دیکھا جس پر ابھی صرف چھ بج رہے تھے لیکن پھر اسے فوراً ہی یہاں اور وہاں کے وقت کا فرق یاد آ گیا
سیم لگتا ہے تمھیں میری جدائی سے بہت فرق پڑا ہے تم بھلکڑ ہو گئی ہو ”
نہیں مجھے یاد ہے بس ذرا دماغ سے نکل گیا تھا اچھا تم سو جاؤ پھر کبھی بات ہو گی خدا حافظ اس نے بغیر یوسف کی کوئی بات سنے فون رکھ دیا
فرق تو پڑا ہے یوسف تمہاری جدائی سے بھی اور تمہاری باتوں سے بھی اس نے افسردگی سے سوچا اور اوپر اپنے کمرے میں چلی گئی
———————————————————-
وہ کراکنیل روڈ پر کیفے او مائی کے باہر کھڑا اندر جانے کا سوچ ہی رہا تھا
کے ماہم اسے کچھ ہی فاصلے پر کسی لڑکی کے ساتھ اسی طرف آتی دکھی
سہی کہتی ہے یہ آسٹریلیا بہت چھوٹا ملک ہے
وہ جلدی سے کیفے کے اندر گھس گیا
ورنہ اگر وہ دیکھ لیتی تو پھر پیچھے پڑ جاتی اندر جا کر ابھی وہ اپنے لئے مینو میں سے کچھ ڈھنگ کا کھانا ڈھونڈ رہا تھا کے ماہم اور اسکے ساتھ اس لڑکی کو اندر آتے دیکھا
وہ دونوں اسکے پیچھے والے ٹیبل پر آ کر بیٹھ گیں
یوسف نے مینو مونھ کے سامنے کر لیا اس لئے وہ دیکھ نہ سکی
بلیک سٹکی رائس منگوا کر وہ کھانے کی طرف متوجہ ہو گیا ماہم اور وہ لڑکی آہستہ آہستہ جرمن میں کوئی بات کر رہے تھے یوسف تک نہ چاہتے ہووے بھی انکی آواز پہنچ رہی تھی
اچانک ہی یوسف کے ہاتھ سے چمچ چوٹ گیا
انکی بات ہی ایسی چونکا دینے والی تھی
اسے جان کر بہت حیرانی ہوئی کے ماہم کو کینسر ہے
اس نے مڑ کر پیچھے بیٹھی ماہم کو دیکھا جو اسکی طرف متوجہ نہی تھی سر پر سکارف لئے اپنی بڑی بڑی آنکھوں میں آنسو لئے اور ہونٹھ کاٹتے وہ بہت معصوم سی لگ رہی تھی
یوسف کو اس پر بہت ترس آیا اور خود پر غصہ کے اسے اس سے دوستی کر لینی چاہیے تھی
اس کے ساتھ بیٹھی لڑکی اٹھ کر جا چکی تھی یوسف سے مزید کچھ نہ کھایا گیا
اس نے اپنی ٹیبل پر بل رکھا اور ماہم کی ٹیبل پر آ گیا
وہ آنسو صاف کر رہی تھی اسے دیکھ کر چونکی
سہی کہتی ہیں اپ اپکا آسٹریلیا گول ہے تبھی تو اکثر ہمیں ملا دیتا ہے ” یوسف نے مسکرا کر کہا
ماہم نے بھی مسکراتے ہووے اسے بیٹھنے کی پیشکش کی وہ بیٹھ گیا
مجھ سے دوستی کریں گی اپ یوسف کے سوال پر وہ حیران ہوئی
پر آپ تو شائد مجھ سے دوستی نہیں کرنا چاہتے تھے”
پر آپ تو چاہتی تھی نہ کہیں ایسا تو نہیں اب ارادہ بدل گیا نہیں میں اپنے ارادے بدلتی نہیں ہوں
اس نے مسکرا کر کہا
=————————————————————————
یوسف روز شام کو کال کرتا تھا پر سمیہ اس وقت خود کو کسی نہ کسی کام میں مصروف کر لیتی آج کل وہ کوکنگ سیکھ رہی تھی
اس لئے زیادہ تر کچن میں ہی پائی جاتی
مما اسے کتنی ہی بار یوسف کا پیغام دے چکی تھیں کے اس سے بات کرو پر وہ سنی انسونی کر دیتی
آج دو ہفتے گزر گئے تھے اس سے بات کیے اسی لئے وہ اس وقت اپنے کمرے میں بیٹھی اسکی یاد میں آنسو بہا رہی تھی
پر خود پر جبر کے اس سے بات بھی نہیں کر رہی تھی
اچانک ہی دل کو بہلانے کا اک خیال ذہن میں آیا اس نے جلدی سے اٹھ کر لیپ ٹاپ آن کیا اور یوسف کی ای ڈی وزٹ کرنے لگی
پہلی ہی تصویر پر اسکی نظریں اٹک گئیں یوسف کسی لڑکی کے ساتھ بوٹانک پارک میں کھڑا تھا
ووہی جگہ جہاں ان دونوں نے مل کر جانے کا پلان کیا تھا
تصویر کے اوپر لکھا تھا انجوینگ تھے ڈے ود فرینڈ
سیم کی آنکھیں تیزی سے نمیکن پانی سے بھرنے لگیں
تو یوسف تم نے محبت کے ساتھ ساتھ مجھے اپنی دوستی سے بھی فارغ کر دیا ٹھیک ہی کیا مجھ جیسی لڑکی سے کسی کی دوستی بھی کیوں ہو
ہو وہ خود ترسی کا شکار ہونے لگی تھی
———————————————————————–
وہ دونوں اس وقت ہسٹنگ سٹریٹ پر ٹھل رہے تھے اس سڑک کے قریب ہی بیچ تھی جس کی وجہ سے ہوا بہت ٹھنڈی چل رہی تھی پر ماہم کی ضد کی وجہ سے وہ یہاں ٹہل رہے تھے
یوسف تم بہت اچھے دوست ہو سیم خوش قسمت ہے کے تمہاری سب سے اچھی دوست ہے وہ مسکرا دیا
اس کا ذکر یوں ہی اسے خوش کر دیتا تھا
نہیں میں خوش قسمت ہوں کے وہ صرف میری دوست ہے ”
یوسف اک بات پوچھوں
ہان پوچھو نہ تمھیں پتا ہے نہ کے میں بیمار ہوں اس نے دکھ سے کہا
کیوں کیا ہوا تمھیں مجھے تو نہیں بتایا تم نے کے تم بیمار ہو یوسف اس کی بات سمجھ کر بھی انجان بنا تاکہ اسے دکھ نہ ہو
وہ ہلکا سا مسکرائی
مجھے آج سے دو ماہ قبل پتا چلا کے مجھے کینسر ہے
تمھیں پتا ہے میں ہوسپٹل اکیلے ہی اپنی رپورٹس لینے گئی تھی
پر رپورٹس دیکھ کر وہیں ڈھے سی گئی
میں دو دن گھر نہیں گئی ہسپتال میں پڑی رہی پر کسی نے نہیں پوچھا پاپا کو لگا میں دوستوں کے ساتھ ہوں اور مما تو ویسے بھی بہت کم کال کرتی ہیں
میں قبول ہی نہیں کر پا رہی تھی کے میں مرنے والی ہوں پر پھر وقت آہستہ آہستہ گزرتا گیا میں نے بھی آخر کر اس حقیقت کو قبول کر ہی لیا
پر گھر پر ابھی بھی کسی کو نہیں بتایا کیوں کے انکو ابھی بھی اس سے فرق نہیں پڑے گا
تم علاج کیوں نہیں کرواتی یہاں تو ہر قسم کی ٹیکنالوجی مجود ہے”
وہ ہنس دی
مسٹر یوسف دنیا کے کسی بھی ملک میں ابھی موت سے چھٹکارے کی ٹیکنالوجی نہیں آئ پر ڈاکٹرز کہتے ہیں میں کیموتھرپی کرواؤں”
تو کروا لو نہ یوسف نے زور دیا
تم جانتے ہی نہیں کے وہ کتنی تکلیف دہ ہے میں نے دیکھا ہے کیسے تڑپ رہے ہوتے ہیں مریض اس تھرپی کے دوران وہ دکھ سے بولی
پر بہت سے لوگ یہ تکلیف برداشت کرتے ہیں ماہم تم بھی کر لو گی اس نے حوصلہ دیا
یوسف وہ سب بھی تو اتنی تکلیف سہنے کے بعد مر ہی جاتے ہیں نہ تو کیا فائدہ اتنی تکیلف سہ کر زندگی کے چند دن بڑھوانے کا
میں اپنی بچی کچی زندگی سکوں سے گزرنا چاہتی ہوں تم مجھے فورس مت کرو اور فکر بھی نہ کرو اتنا تو جی ہی لوں گی کے تمہاری اور سیم کی شادی دیکھ سکوں یوسف افسردگی سے مسکرا دیا انشاللہ
یوسف اور ماہم کافی اچھے دوست بن چکے تھے
زیادہ تر جب یوسف فارغ ہوتا تو اسی کے ساتھ مل کر کہیں گھومنے نکل جاتا
پر اسے ہمیشہ ماہم کی طبیت کی بھی فکر رہتی وہ کسی نہ کسی طریقے سے اسے ہوسپٹل جانے کی ہمت دلاتا رہتا پر وہ بھی اپنی بات پر اڑری ہوئی تھی
آج بھی یوسف اسی سے ملنے جا رہا تھا
رات کے بارہ بجے تھے پر رش اتنا ہی تھا
لگتا تھا اس شہر میں کوئی سوتا ہی نہیں ہے
انہوں نے اک کیفے میں ملنے کا پلان بنایا تھا یوسف کیفے میں داخل ہوا تو اسے سامنے ہی بیٹھا پایا
وہ مسکراتا ہوا اس کی طرف چل دیا
میں زیادہ لیٹ تو نہیں ہوا اس نے بیٹھتے ہووے پوچھا
ہان لیٹ تو ہووے ہو پر آج تمہاری غلطی معاف کی”
کیوں جی آج کیا خاص بات تھی”
رکو ابھی بتاتی ہوں اس نے گھڑی پر اک نظر ڈالی جس پر پورے بارہ بج رہے تھے
” ہیپی برتھڈے یوسف اس نے مسکرا کر کہا
یوسف حیران رہ گیا
وہ جانتا تھا کے کل اسکی سالگرہ ہے
پر رات کو وہ اسے یوں وش کرے گی اس بات نے اسے حیران کر دیا
وہ تو سمیہ کا عادی تھی جو رات کو کیک لے کر پہنچ جاتی تھی اس کے پاس
کیا سوچ رہے ہو یوسف اس نے پوچھا
سیم یاد آ گئی تھی اس نے ذرا مسکرا کر کہا
یوسف اگر برا نہ مانو تو اک بات کہوں اس نے اجازت چاہی
ہان کہو نہ”
مجھے لگتا ہے سیم تمھیں پسند نہیں کرتی تبھی تو نہ تمہارے ساتھ یہاں ای اور نہ ہی کبھی تمھیں کال کی”
نہیں ایسی بات نہیں ہے وہ تو میری دیوانی ہے:
تمھیں کیسے پتا”
بچپن سے اس کے ساتھ ہوں اتنا تو جان ہی گیا ہوں”
پھر وہ یہاں کیوں نہیں ہے”
یہی بات تو مجھے پریشان کرتی ہے نجانے اسے کیا ہوگیا ہے مجھ سے بات بھی نہیں کرتی شائد ناراض ہے پر سمجھ نہیں آتی آخر کس بات پر”
اچھا چھوڑو نہ یہ کیک کاٹو ماہم نے بات بدلنے کی کوشش کی
یوسف نے خاموشی سے چھری اٹھا لی
—————————————————————————
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...