آج موسم خوش گوار تھا ہلکی ہلکی دھوپ بھی نکلی ہوئی تھی
وہ بگیچے میں پڑی کرسیوں میں سے اک پر آ کر بیٹھ گئی
یوسف بھی وہیں آ گیا اور اس کے سامنے آ کر بیٹھ گیا
سمیہ نے کوئی ردعمل ظاہر نہی کیا
تو کیا کہا چچا نے” یوسف نے شرارت سے پوچھا
وہی جو تم نے ان سے کہا تھا اس نے بڑے آرام سے جواب دیا
پاسپورٹ وغیرہ تو سنھبال کر رکھ لئے ہیں نہ تم نے ویسے تمہارا آئیڈیا اچھا تھا کے اپلائی کرنے کے ساتھ ہی پاسپورٹ بھی بنوا لیں ورنہ اب ہم اسی جھنجٹ میں پھنسے ہوتے”
ہنہ اس نے اتنا ہی کہا اور اٹھ کر اندر چلی گئی
یوسف مسکرا دیا شائد چچا سے کہنے پر ناراض ہو گئی ہے
دن گزرتے کون سا دیر لگتی ہےآخر وہ دن بھی آ ہی گیا
انکی رات کی فلائٹ تھی
سمیہ نے اور سعدیہ بیگم نے جمیل صاحب کو منانے کی بہت کوشش کی پر وہ سمیہ کے اچھے مستقبل کے لئے سخت سے سخت فیصلہ کرنے کے لئے بھی تیار تھے
انہوں نے ان دونوں کی اک نہ سنی
سمیہ غصے سے پاگل ہو رہی تھی
یوسف اگر تو میں تمہارے ساتھ آسٹریلیا پہنچ گئی تو پھر صرف تم نہیں پورا آسٹریلیا دیکھ گا کے میں تمہارے ساتھ آخر کرتی کیا ہوں وہ بڑبڑا رہی تھی
اچانک ہی اسے اک خیال آیا
وہ جلدی سے کمرے سے باہر نکلی اور یوسف کے گھر چل دی
وہ بستر پر پریشان سا بیٹھا تھا
ارے کیا ہوا یوسف یوں کیوں بیٹھے ہو سیم نے آ کر پوچھا
وہ دو دن بعد آج خود سے اس سے بات رہی تھی یوسف اسے دیکھ کر ہی خوش ہو گیا
ارے کچھ نہی بس پیکنگ کرنے میں مشکل ہو رہی ہے”
کوئی بات نہی میں کر دیتی ہوں وہ اس کے کپڑے وغیرہ سمیٹنے لگ گئی
یوسف بس اس دیکھتا رہا کتنی اچھی لگتی تھی وہ یوں اس کے کام کرتے ہووے
تم نے اپنی پیکنگ کر لی”
ہان بس ابھی جا کر کرتی ہوں سوچا پہلے تم سے مل لوں
ارے سیم تم مجھ سے نہی گھر والوں سے مل لو جن سے تم دور جا رہی ہوں
میرے تو تم پاس ہی رہو گی
ووہی تو اب میں نہیں رہنا چاہتی اس نے دل میں سوچا
پر اس کے لئے مسکرا دی میں نے سوچا کیا پتا وہاں جا کر تم بدل جاؤ اور پھر اپنی اس پاکستانی دوست کو بھول جاؤ
یوسف اسکی بات پر ہنس دیا
سیم تم بھی نہ بلکل پاگل ہو دیکھنا یہ چار سال میں بلکل ساۓ کی طرح تمہارے ساتھ رہوں گا
اب کی بار سیم اسکی بات پر ہنس دی
ساری پیکنگ کر کے اور یوسف سے ڈھیر ساری باتیں کر کے وہ اس کے کمرے سے نکل ای
پر دل نے اک دفع پھر اسے دیکھنے کی تمنا کی
دل کی ضد کے اگے دماغ ہار گیا
وہ اک دفع پھر اس کے کمرے میں آ گئی
یوسف اسے دوسری دفع دیکھ کر حیران ہوا
کیا ہوا کچھ بھول گئی تھی کیا”
وہ کچھ دیر یوسف کو دیکھتی رہی
پھر بولی یوسف وہاں جا کر مجھے بھولو گے تو نہی
یوسف مسکرا دیا
میری پاگل سی سیم یہ ڈائلاگ انکو بولا جاتا ہے جنکو رخصت کیا جا رہا ہو پر تم تو میرے ساتھ ہی رخصت ہو رہی ہو تمھیں نہی بھولوں گا ہمیشہ یاد رکھوں گا
کاش تمہارے ساتھ رخصت ہو سکتی دل نے فریاد کی پر لبوں نے کچھ نہ کہا
وہ اسے اک دفع پھر خاموشی سے دیکھے گئی اور پھر اچانک سے مڑ کر چلی گئی
یوسف کو اسکی حرکت عجیب لگی پہلے تو وہ کبھی ایسا نہی کرتی تھی
شائد گھر والوں سے دوری کی وجہ سے ایسا کر رہی ہو وہ سوچ کر مطمئن ہو گیا
—————————————————————————
مما میں سونے جا رہی ہوں پلیز مجھے ڈسٹرب کوئی نہ کرے
وہ انکے پاس آ کر بولی
ہان ٹھیک ہے سو جاؤ رات کی فلائٹ ہے ابھی سو جاؤ گی تو رات کو نیند نہی ہے گی
وہ سر ہلا کر کمرے کی طرف بڑھنے لگی
سنو پیکنگ کر لی یا میں کر دوں”
کر لی ہے مما وہ کہ کر اوپر اپنے کمرے میں چلی گئی
——————————————————————–
انکی رات ٩ بجے کی فلائٹ تھی
آٹھ بجے کے قریب انہیں گھر سے نکلنا تھا
یوسف جلدی جلدی سے اک آخری نذر سب چیزوں پر ڈال رہا تھا کے کہیں کچھ بھول تو نہی گیا تبھی اسے مسیج آیا
مجھے تمہارے ساتھ نہیں جانا میں آپی کے پاس لاہور آ گئی ہوں میرے لئے اپنا مستقبل خراب مت کرنا اور چپ چاپ آسٹریلیا چلے جانا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہی ہوگا”
یوسف پہلے حیران ہوا اسے یقین ہی نہی آ رہا تھا کے یہ مسیج اسے سیم کی طرف سے آیا تھا
وہ جلدی سے اسکے گھر کی طرف گیا
چچی سیم کہاں ہے”
وہ اور جمیل صاحب ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے تھے
وہ تو اپنے کمرے میں سو رہی ہے میں ابھی جگانے جا ہی رہی تھی”
وہ بھاگتا ہوا اس کے کمرے کی طرف گیا
جمیل صاحب اور سعدیہ بھی پریشانی سے اس کے پیچھے گیے
یوسف نے دروازہ کھول کر دیکھا تو کمرہ خالی تھا واشروم بالکنی کہیں بھی وہ نہی تھی
سمیہ کہاں گئی جمیل صاحب نے حیرانی سے سعدیہ بیگم سے پوچھا
ان کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے
اس نے تو کہا تھا کے وہ سونے جا رہی ہے اسے ڈسٹرب نہ کروں ان سے بس اتنا ہی کہا گیا
وہ لاہور چلی گئی ہے یوسف نے گردن جھکا کر بتایا جیسے اسی کی غلطی ہو
وہ یہ کیسے کر سکتی ہے جمیل صاحب غصے میں آ گیے
فون نکل کر اسے کال کی پر اس نے کال نہی اٹھائی وہ چپ کر کے کمرے سے باہر نکل گئے
سعدیہ بیگم اور یوسف بھی خاموشی سے انکے پیچھے چلے گئے
ہاجرہ بیگم اور کمال صاحب بھی وہیں آ گیے
سب جمیل صاحب کے بولنے کے منتظر تھے
کمال بھائی میں نے تو ہر کوشش کی کے وہ اپنا مستقبل خراب نہ کرے پر شائد تقدیر کو کچھ اور منظور ہے پر میں چاہتا ہوں کے اس کے پیچھے یوسف اپنا مستقبل خراب نہ کرے میری بیٹی نے تو میری بات کا مان نہی رکھا یوسف تم رکھ لو انہوں نے یوسف کو دیکھتے ہووے کہا
وہ خاموش رہا
یوسف تم جاؤ گے آسٹریلیا وہ نہی جا رہی اسکا یہ مطلب نہی کے تم بھی نہی جاؤ گے انہوں نے کہا
سنا نہی تم نے جمیل کیا کہ رہا ہے جاؤ جا کر تیاری کرو ہم سب تمھیں چھوڑنے جائیں گے” کمال صاحب نے بھی بھائی کا ساتھ دیا
وہ چپ چاپ واپس گھر چلا گیا
یوسف اب مزید چچا جان کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا
اس لئے چپ چاپ انکی بات مان لی لیکن اسے سیم پر خوب غصہ تھا ساتھ میں حیرانی بھی تھی کے آخر اسے ہوا کیا ہے جو وہ اس کے ساتھ جانے سے انکار کرنے لگی تھی
پر یہ باتیں سوچنے کا مزید وقت نہی تھا
وہ جلدی سے آ کر گاڑی میں بیٹھ گیا سب اسے چھوڑنے جا رہے تھے پر ان سب کے باوجود اک اس کی کمی تھی
ایئر پورٹ پر اسکی فلائٹ کی آخری انانسمینٹ ہو رہی تھی وہ جلدی سے سب سے مل کر اندر کی طرف بڑھ گیا
جہاز میں بیٹھ کر اس نے نظر ساتھ والی سیٹ پر ڈالی
کاش یہاں اس لڑکی کی جگہ میرے ساتھ سیم بیٹھی ہوتی دل نے اک ننھی سے خواھش کی پر دماغ نے ڈپٹ دیا
جب وہ ہی میرے ساتھ نہی چاہتی تھی تو میں بھلا کیوں چاہوں اس نے نگاہیں موڑ لی
پر ساتھ بیٹھی لڑکی اس کی نظروں کو خود پر محسوس کر کے اسکی طرف متوجہ ہو چکی تھی
ہائی” اس نے مسکرا کر کہا تھا
یوسف نے اک نظر دیکھا اور پھر گردن دوسری جانب موڑ لی
” میرا نام ماہم ہے اپکا کیا نام ہے اس نے پھر بات شروح کی
یوسف نے اس دفع گردن موڑ کر اسے دیکھا بھی نہیں بس اک میگزین نکال کر پڑھنے لگ گیا
اس کا رویہ لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا تھا
اہ شاید اپ بہرے ہیں” اس نے افسوس سے کہا
جیسے واقعی وہ بہرہ ہو
وہ ایسے ہی فوراً نتیجے پر پہنچ جاتی تھی
یوسف نے اب بھی کچھ نہی کہا
ماہم کو چین نہیں آیا اس نے یوسف کے سامنے اپنا ہاتھ ہلایا جیسے اسے متوجہ کرنا چاہتی ہو یوسف کو اب کوفت ہونے لگ گئی
اس نے بیزاری سے ماہم کو دیکھا وہ میرے اک جاننے والے اٹولوجست ہیں ارے وہی جو کانوں کا علاج کرتے ہیں اپ چاہیں تو میں آپکی اس سلسلے میں مدد کر سکتی ہوں اس نے اشاروں سے سمجھایا
یوسف نے ہاتھ بڑھا کر ہیڈ فونز کانوں میں ٹھونس لئے اک نظر اسے دیکھا میں بہرہ نہیں ہوں اور که کر دوبارہ میگزین کی طرف متوجہ ہو گیا
ماہم اپنی تھوڑی دیر پہلے کی حرکت پر خودی ہنس دی یعنی میں یوں ہی اشارے کیے جا رہی تھی
———————————————————————–
سمعیہ تم نے بہت غلط کیا یہ سب تمھیں جانا چاہیے تھا ” رمشا نے ڈانٹا
آپی پلیز اب بس بھی کریں اگر آپکو میرا یہاں آنا اچھا نہی لگا تو میں چلی جاتی ہوں”
ہان ٹھیک ہے چلی جاؤ لیکن سیدھا آسٹریلیا جانا ”
اف اف اف تنگ آ گئی ہوں میں یہ سن سن کے جب میرا دل نہیں ہے جانے کو تو میں بھلا کیوں جاؤں وہ چلا اٹھی
اچھا بابا غصہ نہ کرو ابھی تم سو جاؤ صبح بات کریں گے انہوں نے اسے تھپکی دی اور کمرے سے چلی گیں
ان کے جاتے ہی وہ رو دی
——————————————————–
صبح وہ نیچے ائی تو رمشا اپی اور کامران بھائی کو ناشتے پر اپنا منتظر پایا
اپی کے سسرال والے گاؤں میں رہتے تھے اور یہ دونوں یہاں اکیلے
وہ سلام کر کے ان کے ساتھ بیٹھ گئی
کامران بھائی اس سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرتے رہے پر آسٹریلیا کا ذکر بھول کر بھی نہی کیا
وہ پرسکون ہو گئی ورنہ اسے لگا تھا کے سب کی طرح وہ بھی باتیں ہی سنائیں گے
تو اب آگے کیا کرنے کا فیصلے کیا ہے کامران بھائی کے جانے کے بعد انہوں نے پوچھا
ابھی کچھ دن تو یہیں رہوں گی پھر جب پاپا کو غصہ کم ہو جاۓ گا تو گھر واپس چلی جاؤں گی”
پھر… انہوں نے پوچھا
اگے ابھی سوچا نہی”
سمیہ بہت لاپروا ہو تم”
وہ بس مسکرا دی
————————————————————
گیارہ بجے کے قریب انکا جہاز لینڈ ہوا
پورا راستہ وہ لڑکی سر کھاتی ای تھی پر یوسف نے اک بھی بات کا ڈھنگ سے جواب نہی دیا
وہ شکر کر رہا تھا کے جان چھوٹی
وہ ایئر پورٹ سے نکل ہی رہا تھا کے وہ پھر پیچھے سے آ گئی سنیں ذرا
آخر مسلہ کیا ہے آپکے ساتھ “وہ غصے سے بولا
مسلہ میرے ساتھ نہیں آپکے ساتھ ہے اپ اپنی کسی عزیزہ کی تصویر سیٹ پر ہی گرا آے تھے اس نے تصویر اس کے سامنے کرتے ہووے کہا
گھر سے نکلتے وقت اس نے جلدی سے فریم سے سیم کی تصویر نکال کر جیب میں ڈال لی تھی اور شائد اب گرا بھی بیٹھا تھا
اس نے جلدی سے تصویر پکڑ لی لیکن شکریہ بھی نہی کہا اور چل دیا
بڑے ہی عجیب ہیں اپ شکریہ تو کہیں کمزکم مجھے”
وہ اس کے ساتھ ہی چلنے لگی
ویسے ہے کون یہ محترمہ اس نے تجسّس سے پوچھا
دیکھیں ماہم یوسف رک کر اسے کچھ کہنے لگا
لیکن وہ جلدی سے بول اٹھی واہ آپکو تو میرا نام بھی یاد ہوگیا ہے
یوسف کو اسے کچھ کہنا فضول ہی لگا وہ چپ کر کے اک ٹیکسی میں بیٹھ کر چلا گیا ماہم مسکرا دی
اسے ایسے ریزرو سے لوگ کافی پسند تھے
———————————————————–
آپی چلیں نہ کہیں باہر چلتے ہیں میرا دم گھٹ رہا ہے گھر میں”
رمشا مسکرا دی یہاں یوسف تھوڑی بیٹھا ہے جو تمھیں شہر گھومتا پھرے میرے تو شوھر کے انے کا وقت ہو رہا ہے میں کہیں نہی جا سکتی”
اچھا تو نہ جایئں میں خودی چلی جاتی ہوں گاڑی کھڑی ہے نہ”
ہان کھڑی ہے پر سنھبل کر جانا”
ٹھیک ہے پر شائد لیٹ بھی ہو جاؤں اپ انتظار مت کرنا آج لمبی سی ڈرائیو کا موڈ ہے ”
نہی بلکل نہی زیادہ دیر مت لگانا دس بجے تک آ جانا ”
آپی صرف دو گھنٹے نہی”
کہا نہ بس”
وہ مونھ لٹکا کر چلی گئی
گھر سے نکلے دو گھنٹے سے بھی زیادہ ہو گیے تھے پر ابھی بھی گھر جانے کو دل نہی کر رہا تھا دل تو کچھ بھی کرنے کو نہی کر رہا تھا پر نادان کو بہلانا بھی تو تھا
وہ اس وقت شیش محل روڈ پر ڈرائیو کر رہی تھی جب اچانک گاڑی جھٹکے کھا کر رک گئی
سیم پریشانی سے بار بار چابی لگا رہی تھی پر گاڑی سٹارٹ نہی ہو رہی تھی وہ کوفت کا شکار ہو کر گاڑی سے باہر نکل ای
جہاں اتنے لڑکوں والے کام سکھاۓ تھے کاش گاڑی ٹھیک کرنا بھی سکھا دیا ہوتا وہ دل ہی دل میں یوسف سے موخاطب ہوئی
گاڑی لاک کر کے اور فون وغیرہ نکال کر وہ پیدل ہی سڑک پر ٹہلنے لگ گئی
رات کافی ہو گئی تھی کوئی ٹیکسی بھی نظر نہیں آ رہی تھی
وہ چپ چاپ روڈ کے اک سائیڈ پر چلتی رہی
سامنے ہی دو تین لڑکے کھڑے تھے
شکل سے ہی آوارہ لگتے ہیں دوسری سڑک سے چلی جاتی ہوں اس نے دل میں سوچا اور واپس جانے لگی
لیکن تبھی اک لڑکے نے جو کہ چرس کا کش لگا رہا تھا اسے دیکھ لیا
پہلے تو اسے لگا کوئی لڑکا ہے لیکن جب وہ سٹریٹ لائٹ کے نیچے سے گزری تو لڑکے نے اسکی شکل دیکھ کر سیٹی ماری
سمعیہ اک لمحے کے لئے چونک کر روک گئی لیکن پھر موہتات ہو کر جلدی جلدی چلنے لگی
وہ تینوں بھی اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگے سمیہ نے رفتار مزید بڑھائی مگر تبھی اک لڑکا پیچھے سے نکل کر اسکے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا
اسکی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں نشے کی وجہ سے
اف ظالم حسینہ اتنی رات کو ہم دیوانوں کی جان لینے نکلی ہو کیا اس نے نہایت لوفرنا انداز میں کہا
سیم کا خون کھول اٹھا
آج سے پہلے کبھی کسی نے اس سے بتمیزی نہی کی تھی
سیم نے اک زور دار گھوسہ اسکے مونھ پر دے مارا لڑکے کے ناک سے خون بہنے لگا
پیچھے انے والے لڑکے بھی تھوڑی دیر کے لئے روک گیے
سیم کو کراٹے اتے تھے پر اسے پتا تھا وہ ان تینوں کا مقابلہ نہی کر سکے گی اسے اپنی کمزوری کا اس پل شدت سے احساس ہوا وہ ہوش و حواس میں رہ کر بھی ان نشے میں دھت مردوں کا مقابلہ نہی کر سکتی تھی
اس نے سامنے والے لڑکے کو اک اور گھوسہ لگایا اور وہاں سے بھاگ گئی پیچھے والے دونوں لڑکے پہلے والے کی طرف متوجہ ہو گئے
لیکن اس نے انہیں سمیہ کے پیچھے جانے کا اشارہ کیا
سمیہ جتنا تیز بھاگ سکتی تھی بھاگ رہی تھی لڑکے اس سے بہت پیچھے رہ گئے
وہ داتا دربار والی سڑک پر آ چکی تھی پر اسے لگ رہا تھا جیسے وہ ابھی بھی اس کے پیچھے ہیں اس لئے وہ جلدی سے داتا دربار کے اندر چلی گئی
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...