سمعیہ تم یوسف کے بغیر کیوں گئی تھی سعدیہ بیگم نے اسے چپکے سے اندر داخل ہوتا دیکھا تو پوچھا
آئندہ نہیں جاؤں گی مما اس نے آرام سے کہا اور سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی
سعدیہ بیگم تاسف سے سر ہلا کر رہ گیں
وہ کمرے میں آ کر فوراً ہی سونے کے لئے لیٹ گئی
اس خیال کے ساتھ کے شام کو اٹھ کر یوسف کو منا لوں گی
پر جب انسان نیند کی وادیوں میں کھو جاتا ہے تو اسے وقت کا احساس نہی رہتا
سمعیہ بھی شام کو اٹھنے کا ارادہ کر کے سوئی تھی پر اب جب اٹھی تو رات کے آٹھ بج رہے تھے
پہلا خیال ہی اسے یوسف کا آیا
” چلو کوئی بات نہی بعد میں منا لوں گی وہ کہتی ہوئی اٹھ گئی اور نیچے چلی گئی کھانا کھانے کے بعد اور مما پاپا کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے بعد جب دوبارہ وہ کمرے میں واپس آئی تو سوچا کے یوسف کو کال کر لے
پر یوسف نے فون بند کر رکھا تھا
سمعیہ اسکی ناراضگی پر مسکرا دی
کتنا اپنا اپنا سا لگتا تھا جب وہ یوں چھوٹی چھوٹی باتوں پر روٹھ جاتا تھا اور وہ اسے مناتی تھی
دن میں اتنا سونے کی وجہ سے اب نیند کی وادی اس پر اپنے دروازے نہیں کھول رہی تھی پر سوچ کی وادی ایسی وادی ہوتی ہے جہاں کوئی دروازہ کوئی کھڑکی کوئی روکاوٹ نہی ہوتی کوئی بھی کبھی بھی وہاں جا سکتا ہے
سمیہ بھی یوسف کے خیال کے سنگ اس وادی میں داخل ہو گئی اور پھر پتا ہی نہی چلا کے کب وہ اس وادی سے نیند کی وادی پہنچ گئی
بی بی جی اٹھیں بیگم صاحبہ آپکو نیچے بولا رہی ہیں” ملازمہ کی بات پر اس نے بمشکل اپنی آنکھیں کھولی
” کیوں بولا رہی ہیں اس نے آنکھیں رگڑتے ہووے پوچھا
وہ جی کوئی مہمان آے بیٹھے ہیں بیگم صاحبہ نے کہا ہے کہ اچھے سے تیار ہو کر جلدی سے نیچے آ جایئں”
اچھا تم جاؤ میں ابھی آتی ہوں وہ بستر سے اٹھتے ہووے بولی
شائد مما کی کوئی دوست ہوں اس نے سوچا
اور الماری سے کپڑے نکال کر واشروم میں گھس گئی
نیچے آ کر اس نے ڈرائنگ روم کی طرف قدم بڑھاۓ پر اچانک ڈرائنگ روم سے نکلتے یوسف سے ٹکرا گئی
ارے تمھیں کیا ہوا ہے وہ کافی غصے میں لگ رہا تھا
یوسف نے اک غصے سے بھرپور شکایتی نظر اس پر ڈالی اور پاس سے گزر کر چلا گیا
وہ پریشان ہو گئی
تبھی اسے ڈرائنگ روم سے اک جانی پہچانی سے آواز ای اس نے اندر جھانک کر دیکھا پر زلیخا اور سرمد کو وہاں دیکھ کر حیران رہ گئی
ان کے ساتھ اک اور عورت بھی تھیں شائد انکی امی تھی
ارے سمعیہ اندر آؤ نہ دیکھو تمہاری دوست ای ہے سعدیہ بیگم نے اسے حیرت سے کھڑے دیکھا تو کہا
وہ چپ چاپ اندر آ گئی
اسلام علیکم اس نے مشترکہ سلام کیا اور مما کے پاس جا کر بیٹھ گئی سمعیہ کو ان آنٹی کا اسے یوں تنقیدی نظر سے دیکھنا عجیب سا لگ رہا تھا
مما کو بھی شائد آنٹی کا اسے یوں گھورنا پسند نہی آیا تھا اس لئے اسے وہاں سے اٹھا دیا
بیٹا اپنی دوست کو گھر تو دیکھاؤ ”
جی مما وہ جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی
زلیخا کو بھی اس کی تقلید کرنا پڑی
” تم میری دوست کب بنی اس نے ڈرائنگ روم سے نکلتے ہی پوچھا
بنی نہی ہوں تو بن جاؤں گی ویسے اک بات کہوں تمھیں مجھ سے بنا کر رکھنی چائیے”
کیا مطلب”
مطلب بھی پتا چل جایئں گے پہلے تم دوستی تو کرو زلیخا نے ہاتھ آگے بڑھایا
“میں لڑکیوں سے دوستی نہی کرتی سمیہ نے انکار کیا
اچھا تو لڑکوں سے دوستی کرنے کا شوق ہے تمھیں زلیخا نے طنز کیا
میرا صرف اک ہی دوست ہے یوسف” اس نے غصے کو دباتے ہووے بتایا
ویسے بھائی کو شائد یہ بات پسند نہ آے زلیخا نے معلومات فراہم کی اور ساتھ ہی کسی کو کال ملائی
سمعیہ کو اسکی باتیں الجھا رہی تھیں
آنٹی اک ضروری کال آ رہی ہے اگر اپ برا نہ منائیں تو کیا میں باہر جا کر سن سکتا ہوں
سرمد نے موبائل ہاتھ میں پکڑ کر پوچھا
ہان بیٹا کیوں نہی”
وہ سعدیہ بیگم کی اجازت ملتے ہی باہر نکل آیا
سامنے ہی سمعیہ اور زلیخا کھڑی تھیں
اپ لوگ میرے گھر کیوں آے ہیں جب کے میں تو اپ لوگوں کو سہی سے جانتی بھی نہی سمیہ نے الجھن دور کرنے کے لئے پوچھا
خاصی بے مروت ہیں اپ گھر آے مہمانوں سے کوئی یہ تھوڑی پوچھتا ہے سرمد نے مسکرا کر کہا
سمیہ شرمندہ ہو گئی
واشروم کس طرف ہے زلیخا ان دونوں کو تنہائی فراہم کرنا چاہتی تھی اس لئے پوچھا “آؤ میں دکھاتی ہوں”
نہیں میں خود چلی جاؤں گی تم بتا دو”
وہ سامنے والے کمرے میں چلی جاؤ سمیہ نے اشارہ کر کے بتایا
زلیخا چلی گئی
سنیں مجھے اک بات تو بتائیں”
جی پوچھیں نہ اس نے کچھ اس طرح کہا کے سمعیہ سٹپٹا گئی
وہ آپکو میرے گھر کا کیسے پتا چلا”
جب کچھ حاصل کرنا ہو تو راستے بھی ڈھونڈ ہی لیتے ہیں سرمد نے گہری نظروں سے دیکھتے ہووے کہا
مطلب ?”سمیہ کو گڑبڑ لگی
” مطلب یہ کے ہم یہاں اپکا رشتہ لے کر آے ہیں اور آپکا پتا انسٹیٹیوٹ کے اک ملازم سے لیا ہے اس نے ساری بات سچ سچ بتا دی
” آپکی ہمت کیسے ہوئی یہ دونوں کام کرنے کی وہ غصے سے بولی
” میری بات سنیں سمیہ مجھے اپ پہلی ہی نظر میں بہت پسند ایں ہیں اپ مختلف ہیں سب سے اسی چیز نے مجھے آپکی طرف کھنچا اب میں بری مشکل سے اپنی امی کو منا کر لیا ہوں پلیز اپ منع نہی کریے گا”
پر مجھے اپ سے شادی نہی کرنی سمجھے اپ”
پر کیوں کیا کمی ہے مجھ میں اب کی بار وہ غصے سے بولا
سمیہ چپ ہی رہی
سمیہ مجھے انکار کی وجہ جاننی ہے میں جاننا چاہتا ہوں کے اپ مجھے کیوں ریجیکٹ کر رہی ہیں کیا کوئی اور پسند ہے آپکو اس نے سوال کیا
ویسے تو آپکو سوال کرنے کا کوئی حق نہیں لیکن شائد اپ کو میرے جواب سے ہی تسلی ہو جائے ہان مجھے کوئی اور اچھا لگتا ہے
کون آواز میں شکستگی تھی
میرا کزن یوسف پہلی دفع اس نے کسی کے سامنے اس بات کا اظہار کیا تھا پر شائد ابھی اظہار ضروری تھا
سرمد بغیر کچھ کہے اندر چلا گیا اور سمیہ واپس اپنے کمرے میں چلی ائی
اف سمیہ پریشان نہ ہو یہ سب تو زندگی میں ہوتا رہتا ہے اس نے خود کو تسلی دی اچانک اس کو یوسف کا خیال آیا
ہر بات یوسف سے کرنے والی اسکی سیم اس سے یہ بات بھلا کیسے چھپا سکتی تھی اس لئے یوسف کو بتانے اور اسکو منانے چل پڑی
یوسف غصے سے کمرے میں چکر لگا رہا تھا
کیا ہوا یوسف اتنے غصے میں کیوں ہو ہاجرہ بیگم نے آ کر پوچھا
نہیں مما میں تو غصے میں نہی ہوں اس نے نفی کی
کیا ہوا ہے یوسف بتاؤ بھی انہوں نے اسرار کیا
کچھ نہی مما بس ذرا سیم سے لڑائی ہو گئی تھی اس نے مطمئن کرنے کی کوشش کی
پھر تو وہ ابھی اتی ہی ہوگی تمھیں منانے انہوں نے مسکرا کر کہا
نہی مما آج اس کے پاس میرے لئے وقت نہی ہوگا اس کے مہمان آے بیٹھے ہیں اس نے طنز کرتے ہووے کہا
کون مہمان آے ہیں انہوں نے حیرانی سے پوچھا
” اسکا رشتہ لے کر آے ہیں”
اچھا یعنی اب سعدیہ سے باقاعدہ بات کرنی ہی پڑے گی انہوں نے اطمینان سے کہا “مما آپکو حیرانی نہی ہوئی”
ارے بیٹا لڑکیوں کے رشتے تو اتے ہی رہتے ہیں اس میں حیرانی کی کونسی بات ہے پر تم فکر نہ کرو میں آج ہی جا کر سعدیہ سے بات کرتی ہوں”
کونسی بات”
تمہاری اور سمیہ کی شادی کی بات انہوں نے مسکرا کر کہا
اسے منانے کے لئے ای سمیہ کے قدم وہیں رک گئے
مجھے اس سے شادی نہی کرنی اندر سے آواز ای تھی
ہاجرہ بیگم کو اس جواب کی امید نہی تھی
یوسف یہ تم کیا که رہے وہ حیران تھیں
مما وہ صرف میری اچھی دوست ہے اور بس وہ جھنجلا گیا
پر بیٹا میں نے ہمیشہ تمہارے ساتھ اسے ہی تصور کیا ہے ”
مما اپ پہلی ماں ہونگی جو اپنے بیٹے کی شادی اس جیسی لڑکی سے کروانا چاہتی ہونگی مائیں تو نجانے کیا کیا ہنر تلاش کرتی ہیں اپنی بہو میں اور اک اپ ہیں”
ان الفاظ سے وہ خود کو بھی گھائل کر رہا تھا پر غصہ کسی طرح کم نہی ہو رہا تھا سیم اتنی بھی بیوقوف نہی تھی کہ یہ تک نہ سمجھ پاتی کے یوسف اس جیسی لڑکی آخر کہ کس کو رہا ہے
وہ فوراً ہی وہاں سے لوٹ ای
سعدیہ بیگم ٹی وی لاؤنج میں ہی بیٹھی تھیں
وہ چپ چاپ سامنے سے گزرنے لگی پر انہوں نے بولا لیا سمیہ ادھر اؤ
وہ چپ چاپ ان کے پاس جا کر بیٹھ گئی
سرمد کو کیا پہلے سے جانتی ہو”
اسے سمجھ میں نہ آیا کیا جواب دے
سمیہ کچھ پوچھ رہی ہوں میں”
اس نے اثبات میں سر ہلا دیا
” تمہاری دوست زلیخا اور اسکی امی تمہارا رشتہ لے کر آئین تھی انہوں نے بتایا
وہ بھلا کیا کہتی اس لئے چپ ہی رہی
تمھیں وہ پسند ہے انہوں نے پوچھا
وہ کچھ نہ بولی سر جھکا کر بیٹھی رہی
سمیہ میں کیا پوچھ رہی ہوں جواب دو”
سمعیہ نے سر اٹھایا اور ان کے گلے لگ کر رو دی
” مما مجھے وہ پسند نہی ہے میں اس قابل ہی نہی ہوں کے مجھے کوئی پسند کرے مجھے شادی نہی کرنی مما مجھے نہی کرنی”
سعدیہ بیگم نے اسے خود سے الگ کیا اور پھر اسکا چہرہ صاف کیا
سمیہ میں نے یوسف کو ہی ہمیشہ تمہارے لئے سوچا ہے انہوں نے جیسے اسے تسلی دی
وہ اک دفع پھر رو دی
” مما مجھے اس سے بھی شادی نہی کرنی میں صرف اسکی اچھی دوست ہوں بس” سمیہ بیٹا شادی تو تمھیں کرنی ہے نہ اور یوسف سے بہتر لڑکا تمہارے لئے اور کوئی نہی ہو سکتا”
مما میں ابھی شادی نہی کرنا چاہتی اپ کسی سے اس بارے میں کوئی بات نہی کریں گی ورنہ میں کچھ کر بیٹھوں گی وہ کہ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی
سعدیہ بیگم کو حیران و پریشان چھوڑ کر
یوسف ادھر آؤ ذرا وہ باہر جا رہا تھا جب ہاجرہ بیگم نے اسے اپنے پاس بولایا
“جی مما”
بیٹھو ادھر انہوں نے اپنے پاس ہی صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا
وہ چپ چاپ بیٹھ گیا میں نے آج صبح ہی سعدیہ سے سمیہ کے لئے آے رشتے کے بارے میں پوچھا تھا سمیہ نے صاف منع کر دیا ہے اس رشتے کے لئے
یوسف کو سن کر حیرانی ہوئی وہ تو سمجھ رہا تھا کے سیم کو سرمد میں دلچسپی ہے تبھی تو وہ اس کے ساتھ ریس لگانے بھی چل دی تھی اور اب شائد وہ اسی کی مرضی سے ہی رشتہ بھی لے کر آیا ہو
وہ رات بھر یہی سوچ سوچ کر جلتا رہا تھا یہ دکھ بھی تھا کے سمیہ نے اس سے یہ باتیں چھپائیں
پر مما کی بات نے اسے سکون پہنچا دیا
مما اپ نے میرے بارے میں تو کچھ نہیں کہا نہ”
نہی تم نے خودی تو منع کر دیا تھا پر یوسف میں چاہتی ہوں کے تم اک دفع سنجیدگی سے سمیہ کے بارے میں سوچو”
مما مجھے کچھ وقت چاہیے اس کے لئے ” اس نے خوشی کو چھپاتے ہووے بڑی سنجیدگی سے کہا
کتنا وقت انہوں نے پوچھا
مما میں نے اور سیم نے وہ جو اسٹڈی ویزا کے لئے اپلائی کیا تھا ان کی طرف سے جواب آ گیا ہے ہم دونوں کو چار سال کے لئے اسکالر شپ پر آسٹریلیا جانا ہے میں کل اسے یہی بتانے گیا تھا پر مہمانوں کی وجہ سے بتا نہی پایا تھا”
بیٹا تم نے اتنی بڑی خوشی کی بات کیوں چھپائی مجھ سے انہوں نے گلہ کیا
مما میں نے سوچا تھا پہلے سیم کو بتاؤں اور پھر ہم مل کر اپ سب کو بتایں گے پر شائد ایسا نہیں ہونا تھا وہ افسردگی سے بولا
” کوئی بات نہی بیٹا تم اب جا کر بتا دینا دیکھنا وہ بھی کتنا خوش ہوگی”
” ٹھیک ہے میں ابھی جاتا ہوں وہ خوشی سے اٹھ کھڑا ہوا
“سنو یوسف تم نے بتایا نہی تمھیں کتا وقت چائیے”
انہیں اچانک اپنا سوال یاد آیا
وہ دوبارہ ان کے پاس بیٹھ گیا
“مما میں چاہتا ہوں پہلے ہم آسٹریلیا سے ہو آئیں پھر اپ اس بارے میں کوئی بات کریں”
“لیکن یوسف چار سال بہت ہوتے ہیں اتنا وقت میں تمھیں ہرگز نہی دوں گی”
مما پلیز پہلے ہمیں پوری توجہ پڑھائی پر دینے دیں اس نے التجا کی
ٹھیک ہے لیکن پھر میں سعدیہ سے آج ہی تم دونوں کے رشتے کی بات کر لوں گی تاکہ جب تم دونوں لوٹو تو سیدھا شادی ہی کرائیں
انہوں نے ارادہ ظاہر کیا ”
“مما پلیز میری بات سمجیں میں چاہتا ہوں ہم وہاں صرف دوستوں کی طرح ہی رہیں اور ساری توجہ پڑھائی پر ہی دیں کسی اور رشتے میں ہمیں ابھی نہ جوڑیں یہ میری اپ سے التجا ہے” انہوں نے اداسی سے حامی بھر لی بیٹے کی ضد وہ جانتی تھیں
اگر وہ اس بات پر اڑ گیا تھا تو انکی ضد کرنے کا کوئی فائدہ ہی نہی تھا
——————————————————————–
سمیہ اپنے کمرے میں ہی کرسی پر بیٹھی گٹار بجا رہی تھی یہ بھی تو یوسف نے ہی سکھایا تھا
وہ اداسی دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی
جب وہ اسے صرف اپنا اچھا دوست سمجھتا ہے تو وہ اپنے جذبے ظاہر کر کے بھلا اپنا مذاق کیوں بنواۓ اس لئے اس نے ساری اداسی سارے دکھ اپنے اندر ہی دبا دیے
یوسف اچانک ہی اس کے کمرے میں داخل ہوا وہ چونک گئی
سیم سیم سیم ہمارے لئے اک گڈ نیوز ہے یوسف نے خوشی سے بتایا
سیم بس اسے بغیر کسی تاثر کے دیکھتی رہی
یوسف ذرا حیران ہوا تم پوچھو گی نہی کیا نیوز ہے ”
کیا نیوز ہے اس نے اب گٹار کو اس کے باکس میں رکھتے ہووے عام سے لہجے میں پوچھا
ہم نے جو اسکالر شپ کے لئے اپلائی کیا تھا نہ اس کا جواب آ گیا ہے ہمیں کوینز لینڈ یونیورسٹی میں سکالرشپ مل گی ہے”
خبر واقعی بہت خوشی کی تھی اور وہ خوش بھی ہوتی اگر دل پر وہ قیامت نہ گزری ہوتی
سیم تمھیں خوشی نہی ہوئی یوسف نے حیرانی سے پوچھا
نہی ایسی بات نہی ہے میں خوش ہوں اور بہت بہت مبارک ہو تمھیں تمہارا خواب پورا ہوگیا نہ” اس نے ہلکے سے مسکرا کر کہا
صرف میرا خواب تھوڑی تھا یہ تو ہم دونوں کو خواب تھا نہ سیم”
” نہیں اب مجھے اس میں دلچسپی نہی رہی” اس نے بڑے آرام سے کہا
“کیا مطلب” یوسف حیران ہوا
مطلب یہ کے مجھے اب آسٹریلیا نہی جانا مجھے اگے نہی پڑھنا
لمحوں میں اس نے یہ فیصلہ کر ڈالا
اس نے سوچ لیا تھا کے اسے یوسف سے اب دور رہنا ہے وہ خود پر یہ اختیار نہی رکھتی تھی کے اسے چاہنا چھوڑ دے پر خود پر یہ جبر ضرور کر سکتی تھی کے اس سے دور رہے
سیم تم یہ کیسے کر سکتی ہو یوسف کو اب اس پر غصہ آ رہا تھا
میں اپنے فیصلوں میں آزاد ہوں یوسف میرا جو دل چاہے گا میں ووہی کروں گی” اس نے ہڈ دھرمی دکھائی
لیکن میں تمھیں ایسا کچھ کرنے نہی دوں گا سمجھی” وہ غصے سے که کر چلا گیا
سیم بےبسی سے رو دی
وہ کبھی سوچ بھی نہی سکتی تھی کے جب اسکا اتنا بڑا خواب پورا ہونے جا رہا ہوگا تو اسے یوں دستبردار ہونا پڑے گا
—————————————————————————
سمیہ بیٹا یوسف بتا رہا تھا کہ تم لوگوں کی ایپلیکیشن قبول ہو گئی ہے”
“جی پاپا ”
تین دن بعد تم لوگوں کی فلائٹ ہے پیکنگ کر لی تم نے انہوں نے پوچھا
پاپا میں نہی جا رہی اس نے جگ سے گلاس میں پانی ڈالتے ہووے بڑے عام سے انداز میں بتایا
وہ سعدیہ بیگم اور جمیل صاحب اس وقت کھانے کی ٹیبل پر موجود تھے
جمیل صاحب نے کھانے سے ہاتھ روک لیا
کیوں نہی جا رہی”
سمیہ کو پتا تھا کے یوسف نے ہی پاپا سے شکایت کی ہوگی
” پاپا میں اپ سب کے بغیر کیسے رہوں گی اس نے بہانا بنایا
یوسف ہوگا نہ تمہارے ساتھ انہوں نے اس بہانے کو رد کیا
پاپا میں اگے مزید نہی پڑھنا چاہتی
پھر وہی سوال” کیوں”
پاپا لڑکیوں کے لئے واجبی سے تعلیم بھی کافی ہوتی ہے
اک اور بونگا سا بہانہ
” تم کون سی صدی میں رہتی ہو بیٹا انہوں نے سنجیدگی سے پوچھا
پاپا بس میں نہی جانا چاہتی اب کی بار آواز میں نمی تھی
” سمعیہ میں نے تمھیں ہمیشہ اپنا بیٹا ہی تصور کیا ہے اور تم نے بھی ہمیشہ مجھے بیٹا بن کر دکھایا ہے میں ہر گز یہ نہی چاہوں گا کے میرا بیٹا کسی بھی فضول وجہ سے اپنا مستقبل خراب کرے امید ہے تم میری بات سمجھو گی اور مجھے مایوس نہی کرو گی”
سیم سر جھکا کر سنتی رہی اور اپنے آنسو اپنے اندر ہی اتارتی رہی
جمیل صاحب اپنی بات کہ کر کمرے میں چلے گئے
سمیہ مجھے بھی نہی بتاؤ گی کے کیوں نہی جانا چاہتی”
کب سے باپ بیٹی کی باتیں سنتی سعدیہ بیگم بھی اخر بول پڑیں
سمیہ ہاتھوں میں اپنا مونھ چھپا کر رو پڑی
سعدیہ بیگم اٹھ کر اس کے پاس آ گیں اور اس کے سر پر تھپکی دینے لگیں
سمعیہ مجھے اصل وجہ بتا دو شائد میں تمہارے لئے کچھ کر سکوں”
یوسف تم بہت برے ہو تم نے مجھے بچپن سے ہی ایسی عادت ڈال دی کے تمہارے سوا میں کسی سے اپنی باتیں که ہی نہی سکتی کاش مما میں آپکو سب بتا سکتی وہ سوچ سوچ کر مزید روتی رہی
سمعیہ چپ ہو جاؤ میرا بیٹا ٹھیک ہے اگر تم نہیں جانا چاہتی تو مت جانا میں تمہارے پاپا سے بات کرتی ہوں جا کر پر پہلے تم چپ ہو جاؤ
سمیہ نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کر لئے
مما اپ بات کریں گی نہ”
ہان بیٹا ضرور کروں گی”
وہ اٹھ کر انکے گلے لگ گئی
اس کی مشکل تو حل ہو گئی تھی پر سعدیہ بیگم کو بیٹی کا رویہ پریشان کر گیا تھا
—————————————————————————–
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...