سمعیہ گھر آ کر چپ چاپ اپنے کمرے میں آ گئی یوسف بھی اسی کے پیچھے آ گیا
“سیم تم غصہ کیوں ہو اب تو زلیخا نے معافی مانگ لی ہے نہ ”
یوسف مجھے تم سے بات نہی کرنی تم جاؤ یہاں سے ” وہ ناراضگی سے کہتی بالکنی میں آ گئی
سیم لڑکیوں کی طرح نخرے مت دکھاؤ یوسف بھی اس کے پیچھے آ گیا
ویسے تو ہر وقت رٹ لگاۓ رکھتے ہو کہ لڑکیوں کی طرح یہ مت کیا کرو وہ مت کیا کرو پر ابھی تھوڑی دیر پہلے کیسے اس لڑکی کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے ”
“کسے زلیخا کو وہ انجان بنا ”
دیکھا نام بھی کیسے حفظ کر لیا ہے”
یوسف نے بمشکل اپنی ہنسی کو قابو کیا ہان تو اتنا پیارا نام ہے یاد کیسے نہیں رہے گا
سیم کا جلن کے مارے برا حال تھا کیوں کہ اس کا ایسی صورت حال سے پہلے کبھی پالا بھی تو نہی پڑا تھا
یوسف تمھیں وہ اچھی لگی ہے اس نے ڈرتے ہووے پوچھا
یار پہلی مولاقت میں تو اچھی ہی لگی ویسے مزید ابھی کچھ نہی که سکتا اس نے بھی ستانے کی حد کر دی
———————————————————————-
اگلے دن وہ انسٹیٹیوٹ گئی مگر زلیخا نے اس سے کوئی بات نہی کی وہ بھی کہاں بات کرنا چاہتی تھی اس لئے چپ چاپ کلاس لے کر باہر نکل ای
سرمد سامنے ہی کھڑا تھا اسے دیکھ کر مسکرا دیا سمیہ مونھ دوسری طرف کر کے کھڑی ہو گئی
اف یہ ڈرائیور ابھی تک نہی آیا اس لئے پاپا کو کہتی ہوں کے بائیک لانے دیا کریں کمزکم انتظار تو نہی کرنا پڑتا وہ کھڑی بڑبڑا رہی تھی
اسلام علیکم سرمد اس کے پاس آ کر بولا
وعلیکم اسلام اس نے مجبوراً جواب دیا
کیسی ہیں آپ؟
اپ کے سامنے یہاں کھڑی ہوں تو ٹھیک ہی ہونگی نہ طبیعت خراب ہوتی تو گھر پر ہوتی اس نے چڑ کر جواب دیا
سرمد مسکرا دیا
لگتا ہے آپکو بائیک چلانے کا شوق ہے اس نے سیم کی بربراھٹ سن لی تھی
“جی ہے ”
مجھے بھی بائیک چلانے کا شوق ہے اس نے بتایا
سیم نے کوئی جواب نہ دیا
وہ خود ہی دوبارہ بولا میں بہت سے ریس بھی جیت چکا ہوں بلکہ یہ سمجھیں کوئی مجھے ہرا ہی نہی سکتا ریس میں”
سیم کو اسکا یہ اعتماد اک آنکھ نہ بھایا
میں بھی ریس کبھی نہی ہارتی اس نے بھی شوخی جھاڑی
ایسی بات ہے تو لگائیں گی مجھ سے ریس
سیم نے تھوڑی دیر سوچا ہان ٹھیک ہے کل دوپہر کو یونیورسٹی روڈ پر آ جانا پھر دیکھیں گے اس نے جلدی سے کہا اور گاڑی کی طرف بڑھ گئی جو لینے آ چکی تھی سرمد مسکرا دیا اسے ریس سے سروکار نہی تھا اسے سیم کو جاننا تھا
——————————————————————–
یوسف اک بات بتانی تھی
وہ صوفے پر بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا جب سیم اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی
اپ تو شائد مجھ سے ناراض تھیں وہ شرارت سے بولا
ٹھیک ہے نہی بتاتی وہ اٹھنے لگی
اچھا بتاؤ کیا بات ہے وہ سنجیدہ ہو گیا
وہ کل دوپہر یونیورسٹی روڈ پر میں ریس لگاؤں گی اس نے ذرا جھجکتے ہووے بتایا
نہیں یار کل مجھے کچھ کام ہے ہم پرسو لگا لیں گے ریس”
“نہیں تم سمجھے نہیں میں تمہارے ساتھ ریس لگانے کا نہی کہ رہی وہ سرمد ہے نہ اس نے مجھے چیلنگ کیا ہے اسی کے ساتھ لگاؤں گی”
یوسف تو سنتے ہی غصے میں آ گیا” تم نہی لگاؤ گی ریس اس نے حتمی لہجے میں کہا پر
” یوسف تمہارے ساتھ بھی تو لگاتی ہوں نہ ”
میری بات الگ ہے سمجھی اس نے غصے سے انگلی اٹھا کر کہا
“یوسف وہ سمجھے گا میں ڈر گئی”
بھاڑ میں جائے اسکی سوچ جب میں نے منع کر دیا کے نہی جاؤ گی تو مطلب نہی جاؤ گی
سمیہ غصے سے اس کے پاس سے اٹھ گی
وہ ہوتا کون ہے مجھے روکنے والا میں اجازت لینے تھوڑی گئی تھی اس سے… میں تو صرف بتانے گئی تھی سمیہ غصے سے کھنگی کرتے ہووے بڑبڑا رہی تھی
سعدیہ بیگم اس کے کمرے میں ایں
سمیہ بیٹا کہیں جا رہی ہو”
جی مما اس نے بس اتنا ہی کہا
” کہاں جا رہی ہو اس وقت بیٹا… باہر بہت ٹھنڈ ہے مت جاؤ بیمار پڑ جاؤ گی”
مما بس تھوڑی دیر میں آ جاؤں گی اپ پریشان نہ ہوں” وہ جلدی سے ہیلمٹ اٹھا کر باہر چلی ائی اور پھر بائیک لے کر یونیورسٹی روڈ پر پہنچ گئی
سرمد پہلے سے ہی وہاں موجود تھا
وہ اسے دیکھ کر مسکرایا
سمیہ نے بھی جوابی مسکراہٹ دی
ریس شروح کریں سمیہ نے کہا
ہان کیوں نہیں پر پہلے یہ تو بتایں جیتنے والے کو ملے گا کیا” اس نے اشتیاق سے پوچھا
سمیہ نے کچھ دیر سوچا پر کچھ سمجھ نہی آیا
” آپ ہی بتایں کیا ملنا چاہیے اس نے بات سرمد پر ڈال دی
وہ دلکشی سے مسکرا دیا
———————————————————
چچی سمیہ کہاں ہے یوسف نے کچن میں جھانک کر پوچھا
وہ حیران ہوئیں ارے یوسف بیٹا تم یہاں ہو پر سمیہ تو بائیک لے کر نکلی ہے مجھے لگا تمہارے ساتھ ہی گئی ہوگی ہمیشہ تو تمہارے ساتھ ہی جاتی ہے”
یوسف کا دماغ کھول اٹھا وہ بغیر کچھ کہے موڑ گیا
اب اسے جلدی سے جلدی یونیورسٹی روڈ پر پہنچنا تھا اور سیم صاحبہ کا دماغ درست کرنا تھا
—————————————————
پہلے وعدہ کریں جیتنے والے کو ووہی ملے گا جو میں کہوں گا”
اگر بات میرے بس میں ہوئی تو ضرور آپکو وہی ملے گا جو اپ کہیں گے”
تو میں چاہتا ہوں جیتنے والے کو ہارنے والا ملے”
سیم حیران نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی جیسے یقین کرنا چاہ رہی ہو کیا واقعی جو وہ سمجھ رہی تھی اسکی بات کا ووہی مطلب تھا
کیا مطلب میں سمجھی نہیں اس نے تصدیق چاہی
ابھی سرمد نے کچھ کہنے کے لئے مونھ کھولا ہی تھا کہ یوسف تیزی سے آیا اور بائیک کو ان دونوں کے درمیان لا کر بریک لگائی
اس طرح کے سمیہ اور سرمد اب اک دوسرے کا چہرہ نہی دیکھ سکتے تھے
یوسف نے ہیلمٹ اتارا اور سرمد کی طرف دیکھا
جی تو سرمد صاھب سنا ہے آپکو ریس لگانے کا بہت شوق ہے سمیہ کی طرح” اس نے دونوں کو باری باری دیکھا
سمیہ شرمندہ ہو گئی جی بلکل سہی سنا ہے سرمد اعتماد سے بولا
تو چلو یوسف نے بائیک کو ریس دی
سرمد نے بھی ریس پر زور دیا
یوسف میں بھی.. سمیہ منمنائی
چپ اک لفظ مت بولنا تم سے تو میں گھر چل کر پوچھتا ہوں”
سمیہ مونھ لٹکا کر کھڑی ہو گئی سرمد نے نہی سنا کیوں کے یوسف نے سمیہ کی طرف جھک کر کہا تھا
الله کرے تم ہار جاؤ یوسف” اس نے غصے سے کہا پر دل نے نفی کی
یوسف نے کچھ نہی کہا بس کہندے اچکا دیے
بیسٹ اف لک سرمد “سیم نے سرمد کو مسکرا کر کہا
سیم تم چپ کر کے فنش لائن پر جا کر کھڑی ہو یوسف نے غصے سے کہا
وہ کہندے اچکاتی چلی گئی دونوں نے مزید وقت ضائع نہیں کیا اور ریس شوروح کی
یوسف سرمد کو جیتنے نہی دینا چاہتا تھا اور سرمد یوسف سے ہارنا نہی چاہتا تھا مقابلہ بہترین رہا مگر جیتنا اک ہی کو تھا اور جیت یوسف کی ہوئی
اس نے اک جتاتی ہوئی نظر سمیہ پر ڈالی وہ مسکرا دی
سرمد نے یوسف کو مبارک دی پر صاف لگ رہا تھا کے اسے ہارنا بہت برا لگ رہا تھا
وہ خاموشی سے اپنی بائیک کی طرف بڑھ گیا
سیم اسکے پیچھے گئی
سنئیے یوسف جیت گیا ہے کیا اب بھی جیتنے والے کو ہارنے والا ملے گا اس نے مسکراہٹ چھپا کر شرارت سے پوچھا
وہ شرط صرف اپ کے لئے تھی اس نے کہ کر بائیک سٹارٹ کر دی اور چلا گیا
” سیم اگر ساری باتیں ہو گئی ہیں تو گھر چلو” یوسف بائیک اس کے پاس لے کر آیا اور پھر کہ کر چلا گیا سیم مسکرا دی اک دفع پھر اسے یوسف کو منانا تھا
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...