زنجیر جنون کڑی نہ پڑیو
دیوانہ کا پاؤں درمیاں ہے
برا وقت اور بری ساعت پکار کر نہیں آتی ہے۔ غریب رشید نے ڈپٹی احسان حسین کو جواب لکھتے وقت یہ نہ خیال کیا تھا کہ مہربان ڈپٹی کلکٹر اس کی جان کا دشمن ہو جائے گا اور اس کی خرابی کے درپے ہوکر ناکوں چنے چبوائے گا۔ خط لکھ کر رشید کو اپنے اگلے پچھلے حالات، اپنی مصیبتیں، پھر زہرہ کی خفگی، والدین کی نا موافقی کا جو خیال آیا تو وصل یار سے مایوس ہو کر بے اختیار رونے لگا۔ طرح طرح کے تخیلات نے اس کے دل میں جگہ کر لی اور ساعت بساعت پریشانی بڑھنے لگی۔ ایک بارگی وہ ڈپٹی صاحب کو جو اس کے کمرہ کی طرف آتے تھے دیکھ کر دیوانہ وار بھاگا۔ اور باہری پھاٹک سے نکل کر بے تحاشہ جنگل کی طرف جانے لگا۔ راستہ میں وہ اس طرح بے تابی سے بھاگا کہ پھر کر دیکھنا قسم ہو گیا۔ اور اپنے ذہن میں یہ ٹھہرا کر کہ ڈپٹی احسان حسین مجھ کو سخت سزا دیں گے، وہ شہر سے باہر ایک گھنی جھاڑی میں جا چھپا۔
ڈپٹی صاحب نے رشید کا بھاگنا نہ دیکھا تھا۔ وہ سیدھے اس کے کمرہ کی طرف آرہے تھے۔ راستہ میں گلابو اور خود ان کا آدمی انھیں ملا۔ اپنے آدمی سے خط لینے کے ساتھ ہی انھوں نے گلابو کے ہاتھ کا پرچہ بھی چھین لیا۔ گلابو کے آئے گئے حواس غائب ہو گئے اور وہ اپنے گھر کو بھاگی مگر زہرہ کے خوف سے اس نے اس کا ذکر تک نہ کیا بلکہ یہ کہہ کر ٹال دیا کہ انھوں نے شام کو جواب دینے کو کہا ہے۔ گلابو سے تو ڈپٹی صاحب کو کچھ کام نہ تھا۔ وہ دونوں پرچہ پڑھتے ہوئے اس وقت کچہری کو چلے گئے۔ اور جب شام کو وہاں سے پلٹے تو حکیم مبارک صاحب کو بلا کر رشید کا خط انھیں دکھا کر کہا: ‘‘یہ آپ کی صاحب زادی کے کرتوت ہیں۔ صرف میں جانتا ہوں، کسی اور سے اس کا تذکرہ نہ کیجیے گا۔ مگر للہ جلد اس کو کہیں ٹھکانے لگائیے ورنہ آپ کے دامن عزت میں دھبہ لگ جائے گا۔”
سید مبارک (رنج اور غصہ سے): آہ! ظالم رشید، تو نے اچھا سلوک کیا۔ افسوس میں نہ جانتا تھا۔
ڈپٹی صاحب: طرز تحریر سے ثابت ہوتا ہے کہ زہرہ کا بھی کوئی خط گیا تھا مگر اب اس کا تذکرہ بے کار ہے۔ رسوائی کے سوا کچھ فائدہ نہیں ہے۔ آپ گھر میں بھی تذکرہ نہ کیجیے گا لیکن جہاں تک جلد ہو سکے جو میں کہتا ہوں اس کا بندوبست کیجیے۔ اور میں رشید کو اس گستاخی کا دیکھیے گا، کیسا مزہ چکھاتا ہوں کہ وہ بھی یاد کرے۔
سید مبارک: حضور اب آپ شمیمہ کی نسبت پیغام نہ دیں۔
ڈپٹی صاحب: افسوس پیغام دے کر تو پچھتا رہا ہوں۔ وہ خط جو میں نے لکھا تھا اس کے بھیج دینے میں مَیں نے بڑی عجلت کی لیکن دیکھیے (رشید کا خط دکھا کر) اس نے ایسے خلاف توقع الفاظ میں جواب دیا۔ خیر دیکھا جائے گا۔ ابھی ابھی اس کا بندوبست کرتا ہوں۔
(کسی آدمی کو آواز دی)
آدمی: حضور حاضر ہوا۔
ایک آدمی نے آکر بڑے ادب سے سلام کیا۔
ڈپٹی صاحب: دیکھو! کلّو ذرا تم چوکی پر سے جمعدار کو تو بلا لاؤ۔
کلو یہ سن کر مکان سے نکلا اور دروازے سے چند قدم پر پولیس کی چوکی تھی۔ پانچ منٹ بھی نہ گذرے تھے کہ جمعدار پولیس حاضر ہو گیا۔ ڈپٹی صاحب تو آگ بگولہ بیٹھے ہی تھے، جمعدار کو دیکھتے ہی کہا: ‘‘دیکھو ظالم سنگھ جمعدار! جو لڑکا ہمارے یہاں لکھنؤ کا رہتا تھا۔۔۔۔۔”
ظالم سنگھ۔ کون حضور؟
ڈپٹی صاحب (جھڑک کر): بکو مت۔ پورا حکم سن لو تب جواب دو۔ وہ لڑکا جس کو میں سڑک پر سے اٹھا لایا تھا۔ سول سرجن صاحب کی عنایت سے وہ اچھا تو ہو گیا۔ لیکن کبھی کبھی اسے مالیخولیا کا دورہ ہو جاتا ہے۔ آج صبح سے وہ پھر پاگل ہو گیا ہے۔ سامنے کی سڑک پر بھاگ گیا ہے۔ شاید لکھ پیڑے والے باغ میں ہوگا۔ جہاں تک ممکن ہو جلد اسے پکڑ لاؤ۔ بس فوراً جاؤ۔ تم خود جاؤ اور دو تین کنسٹبل لیتے جاؤ۔ چاہے کچھ بکے، ہرگز نہ چھوڑنا۔
ظالم سنگھ حکم پاتے ہی اپنے ساتھ دو کنسٹبل لے کر لکھ پیڑے کو گیا اور اس ہوشیاری سے اس نے رشید کو ڈھونڈنا شروع کیا کہ پتّا نہ کھڑکنے پاتا تھا۔ بد نصیب رشید تمام دن کی بھوک پیاس کی شدت اور ہاے واے کرنے کے سبب سے ایک درخت کے نیچے سر کے بل زمین پر پڑا تھا۔ ظالم سنگھ اور اس کے ہمراہیوں نے جلدی سے اس کو حراست میں لے لیا اور مارنا شروع کر دیا۔ رشید مار کھا کر چونکا تو اپنے کو پنجۂ الم میں گرفتار پایا۔ بہتیرا چلّایا، لاکھ قسمیں اور واسطے دلائے مگر ظالم سنگھ نے اپنے جھڑک کا بخار رشید پر نکال ہی لیا اور اس کی دہائی ایک نہ سنی۔ جب رشید مار کھا کر بالکل ادھ موا ہو گیا تو اس نے داد بیداد کرنا بھی بے کار سمجھ کر خاموشی اختیار کی اور پولیس کے برقندازوں کے ساتھ ڈپٹی صاحب کے پاس حاضر ہوا۔
ڈپٹی صاحب کے غصہ سے تو سواے اِس کے کہ وہ بھی زد و کوب کرتے کچھ امید نہ تھی لیکن خدا جانے کیا دل میں سوچے کہ بجاے تنبیہ کرنے کے اسے رات بھر کے لیے پولیس ہی کی زیر حراست رہنے دیا اور صبح سویرے ڈاکٹر پولیس سے کہہ سن کر اس کے پاگل ہونے کا سرٹیفکٹ لکھوا لیا اور بے یار و مدد گار رشید کو ان ترکیبوں سے پاگل خانہ بھجوایا۔
گرفتار بلا رشید کی قسمت نے اب تک اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔ پاگل خانہ میں بھی ڈپٹی صاحب کے اشارہ سے اس کی گتیں بنائی جانے لگیں اور سختیوں پر سختیاں اس واسطے اس کے ساتھ کی گئیں کہ وہ شمیمہ کے ساتھ نکاح کرنا قبول کر لے۔ مگر رشید نے ہزار نہیں کی جو ایک نہیں کی تو پھر کسی طرح ہامی نہ بھری۔ اس کے نازک نازک ہاتھ پیر رسیوں کی بندشوں سے کٹ گئے، بیدوں کی مار سے اس کا تمام بدن نیلگوں ہو گیا، بھوک پیاس کی تکلیفیں سہتے سہتے وہ سوکھ کر کانٹا ہو گیا اور خلاف مزاج خوراک پانے سے اس کو ضعف معدہ کا سخت عارضہ ہو گیا جس کی وجہ سے وہ بہت سی سختیاں جھیلنے کے بعد پاگل خانہ سے شفا خانہ میں لایا گیا۔