(Last Updated On: )
تیز رکھنا سرِ ہر خار کو اے دشتِ جنوں
شاید آ جائے کوئی آبلہ پا میرے بعد
آفتاب نصف النہار تک بڑھ آیا ہے اور اپنی گرم گرم کرنوں سے زمین کو آگ بھبوکا بنا رہا ہے۔ میدانوں کی ریت کسی کے اخگر دل کی طرح جل رہی ہے اور لوہ کی لپٹ سے راہ چلنے والوں کے چہرے جھلس رہے ہیں۔ ہواے صرصر چلنے والوں کے دامنوں کو الجھا الجھا کر اٹھکھیلیاں کر رہی ہے۔ گرد و غبار کا قافلہ چاروں طرف حیران و پریشان سا گھوم رہا ہے۔ لہلہاتے ہوئے سبزہ زار اور ہرے بھرے درخت دھوپ کی ٹھنڈی گرم جوشیوں سے پژمردہ ہو کر مرجھا گئے ہیں۔ مسافر اپنے اپنے موقع سے ذرا دیر آرام کرنے کو کہیں سایہ ڈھونڈھ کر ٹھہر گئے ہیں اور نہانے دھونے و کھانے پینے میں مصروف ہیں۔ لکھنؤ سے جو سڑک کانپور کو گئی ہے، اِسی کے درختوں کے نیچے ایک نوجوان تکانِ راہ کی وجہ سے ماندہ ہوکر بیٹھ گیا ہے۔ لوہ و لپٹ کی گرمی سے سرخ سُرخ چہرہ سیاہی مائل ہو گیا ہے۔ کپڑوں سے آگ نکل رہی ہے۔ بدن پھوکا جاتا ہے۔ پیاس کے مارے ہونٹوں پر پپڑیاں جم گئی ہیں۔ حلق میں لُعاب تک باقی نہیں رہ گیا ہے۔ بھوک کی وجہ سے پیٹ و پیٹھ ایک ہو رہی ہے۔ یہ نوجوان جو کسی شریف خاندان کا لڑکا معلوم ہوتا ہے، بہت ہی پریشان زمین پر بیٹھا ہے۔ پیروں کو اٹھا کر دیکھ رہا ہے کہ چھالے پڑ پڑ کر ٹوٹے ہیں۔ تمام تلوے خوں نابہ بن گئے ہیں۔ لہو کی دھار چل رہی ہے۔ پاؤں سوج گئے ہیں۔ پنڈلیوں میں خون ایسا جم گیا ہے کہ ہل نہیں سکتے ہیں۔ یہ دیکھ کر بے ساختہ نوجوان کے منہ سے ہاے کا نعرہ نکلا۔ زور سے چیخ کر رونے لگا۔ چاروں طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا اور پھر سر جھکا کر اپنی مصیبت پر پھوٹ پھوٹ رونے لگا۔ سامنے کنویں پر چند مسافر پانی پی رہے ہیں، نوجوان نے ان سے پانی مانگا۔ ایک نے جواب دیا: ‘‘صاحب! آپ پیاسے ہیں تو یہاں آئیے، پانی پی لیجیے”۔ نوجوان نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا: ‘‘آہ! اب یہاں تک نوبت پہنچ گئی۔ پیاری زہرہ! ذرا دیکھ، تیرے رشید پر کیا مصیبت پڑی ہے۔ دیکھ وہ ایک قطرہ پانی کو ترس رہا ہے۔ ہاے کوئی اس کا یار و مددگار نہیں ہے۔ اسی ہُو کے میدان میں تم پر قربان ہوا چاہتا ہے۔ آہ! تم کو خبر بھی نہ ہوگی پیاری!” مسافر نے دوبارہ آواز دی: ‘‘میاں ہم جاتے ہیں تم کو پانی پینا ہے تو آؤ۔ دن ڈھل گیا ہے اور ہم کو دور جانا ہے”۔ نوجوان رشید جبراً و قہراً اٹھا اور جیسے ہی ایک قدم چلا تھا کہ دھوپ کی سختی اور بھوک پیاس کی شدت سے تیورا کر گرا، اس زور سے گرا کہ فورا بے ہوش ہو گیا۔
مرغ نیم بسمل کی طرح ہاتھ پیر مارنے لگا۔ پختہ سڑک پر اس زور سے گرنا کچھ دل لگی نہ تھی۔ بیچارہ کے سر میں چوٹ آگئی، ہاتھ پیر چھل گئے۔ ناک سے خون کا فوارہ جاری ہو گیا۔ چند منٹ تو ہاتھ پیر بھی چلائے، اس کے بعد بالکل بے حس و حرکت ہو کر رہ گیا۔ افسوس زمان کا رنگ دیکھو وہ نازوں کا پالا رشید جو کبھی خس خانہ کا بیٹھنے والا تھا، اس طرح دھوپ لوہ میں سڑک پر پڑا جل رہا ہے۔ آہ! اس کے گرد سواے حسرت و اندوہ، غم و یاس کے کوئی غم خوار نہیں ہے۔ صد افسوس! مولوی عبد المعز کا اکلوتا پیارا بیٹا یوں دشت غربت میں بے موت مر رہا ہے کہ جس پر غریب الوطنی کو بھی رحم آتا ہے اور کوئی اس کا فریاد رس نہیں۔ عشق نے بیچارے رشید محزون کی جان پر بنا دی۔ آہ! اس کے ماں باپ کا اس وقت کیا حال ہوتا۔ اگر ان کے سامنے اس کا جی ذرا سست ہوتا تو ان پر کیا گذر جاتی۔ زہرہ! تو تو اپنی محل میں بیٹھی چین کر رہی ہے اور تیرا عاشق صادق لب گور ہو رہا ہے۔ دیکھ اس نے کیسی راست بازی کا تجھ سے برتاؤ کیا اور کس طرح تجھ پر نثار ہوا۔ تو کیا جانتی ہوگی کہ اس پر کیا بِیت رہی ہے۔ دیکھ اس کے نازک ہاتھ پیر کیسے بے طرح چھل گئے ہیں۔ اس کا گلابی چہرہ دھوپ سے جل کر کیسا ماند پڑگیا ہے۔ اس کا لباس خون میں کس طرح سے بھرا ہوا ہے۔ اس کی فراخ پیشانی کیسی جراحتوں سے مجروح ہے۔ سانس اکھڑ سی گئی ہے۔ دیر کے بعد کچھ یوں ہی سی اکھڑتی سانس لیتا ہے۔
نوجوان رشید کو گرتے دیکھ کر مسافر آفات زمانہ کے خوف سے اس طرح بھاگے کہ پھر کر بھی نہ دیکھا اور اس کی یہاں تک نوبت پہنچ گئی کہ اب دم اکھڑا اور اب روح نے قالب سے پرواز کی۔ ایک بارگی ایک شکرم سڑک پر سے گذری، اس پر خان بہادر احسان حسین خاں صاحب ڈپٹی کلکٹر اناؤ سوار تھے جو لکھنؤ سے بے وقت اناؤ کو جا رہے تھے۔ انھیں کے یہاں حکیم سید مبارک صاحب ملازم تھے۔ راستہ میں انھوں نے اس مسافر عدم کو دیکھ کر گاڑی رکوائی۔ خود اتر پڑے۔ اپنے ہاتھ سے نبض دیکھی۔ نتھنوں پر ہاتھ رکھا۔ کچھ دم آتے جاتے دیکھ کر آدمیوں کو حکم دیا کہ اِس نیم مردہ لاش کو اٹھا کر انھوں نے گاڑی پر ڈالا اور پانی سے تر کر کے ایک کپڑا اس کے منہ پر ڈال دیا۔
ڈپٹی صاحب نے گاڑی پر بیٹھ کر کوچ بان سے حکم دیا کہ جہاں تک جلد ممکن ہو وہ تیز چلے۔ راستہ میں کئی جگہ گھوڑے تبدیل کرنے کے بعد چار بجے دن کو وہ اناؤ پہنچے۔ شہر میں داخل ہو کر سیدھے وہ خود تو سِول سرجن کے پاس گئے اور رشید کو ایک پالکی پر ڈال کر مکان بھیج دیا۔ مغرب سے قبل ڈپٹی صاحب مع سول سرجن کے مکان پر آئے اور خدا کے لیے نیم جان رشید کا علاج شروع کیا۔ بڑی بڑی تدبیروں سے آدھی رات کو ہوش آیا۔ رات کو آنکھ کھول کر رشید نے اپنے تیمار داروں کو دیکھنا شروع کیا لیکن کسی کو پہچان نہ سکا۔ چپکے سے بے حواس سا پھر آنکھیں بند کر پڑ رہا۔ اس دن رشید کو ایسا آرام ملا کہ صبح کو آفتاب نکل آیا اور نیند کی وجہ سے آنکھ نہ کھلی۔ ڈپٹی صاحب مریض کو دیکھنے آئے اور اس کی بے طرح نیند کو دیکھ کر بہت منتشر ہوئے۔ آدمی کو پکار کر حکم دیا کہ حکیم صاحب کو جلد بلا لا اور خود سرہانے ایک کرسی ڈال کر بیٹھ گئے۔ چند منٹ میں حکیم سید مبارک صاحب تشریف لائے۔ صاحب سلامت کے بعد سبب طلبی پوچھا۔ ڈپٹی صاحب نے رشید کا سارا حال ذکر کر کے کہا: ‘‘اس وقت سول سرجن نہیں آ سکتے اور نہ ان کی چنداں ضرورت ہے۔ آپ ان کا علاج کریں۔ صورت سے یہ کوئی شریف زادہ معلوم ہوتا ہے۔ چہرہ بتا رہا ہے کہ وہ لائق و متین آدمی ہے۔ اگر یہ اچھا ہو گیا تو میں اپنی لڑکی شمیمہ کے ساتھ اس کا نکاح کروں گا۔”
حکیم سید مبارک (مریض کی نبض دیکھ اور چہرہ پر سے چادر اٹھا کر): گھبرانے کی بات نہیں ہے، اس وقت یہ بڑی نیند میں سوتا ہے۔ اس کا چہرہ صحت کی وجہ سے اترا ہوا ہے۔ (چہرہ پر غور کر کے) جناب ڈپٹی صاحب! یہ تو مولوی عبد المعز کا لڑکا ہے۔ وہی عبد المعز جو پہلے کلکٹر ہردوئی کے سر رشتہ دار تھے۔
ڈپٹی صاحب: آہا! حکیم صاحب، وہ تو میرے بڑے دوست ہیں۔ لیکن انھوں نے شاید نوکری سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
حکیم صاحب: جی ہاں! اب وہ ایک تعلقدار کے یہاں نائب ریاست ہیں۔
ڈپٹی صاحب: یہ تو گویا منہ مانگی مراد ملی۔ میں ضرور شمیہ کے ساتھ اس لڑکے کا عقد کروں گا۔ اب مجھے کچھ۔۔۔۔
رشید نے آنکھ کھولی۔ ڈپٹی صاحب و حکیم صاحب کو دیکھ کر سلام کیا اور سید صاحب کو صورت آشنا سمجھ کر اپنے بارہ میں سوال کیا۔ سید صاحب نے ہنوز کچھ جواب نہ دیا تھا کہ خود ڈپٹی صاحب نے سب حال اس کی بے ہوشی اور اپنے پہنچنے و اٹھا لانے و علاج وغیرہ کا بیان کیا۔ رشید سب حالات سن اور سید صاحب کو دیکھ کر اپنے جی میں زہرہ کی دید کی امید پر بہت خوش ہوا اور زبانی ڈپٹی صاحب کا بڑا شکریہ ادا کیا۔
ایک ہفتے کے علاج و معالجہ میں رشید اچھا خاصہ بھلا چنگا
ہو گیا۔ صاحب ڈپٹی صاحب نے اس کا غسل صحت دھوم دھام سے کیا اور اپنے یہاں بڑی خاطر سے رکھنے لگے۔ اور رشید اس فکر میں ہوا کہ کسی طرح زہرہ سے ملاقات کرے۔ ادھر ڈپٹی صاحب نے اپنے گھر میں صلاح لے کر ایک رقعہ کے ذریعہ سے رشید کا منشا شمیمہ کی نسبت دریافت کیا:
عزیز از جان سلمہ
تمھارے والد کے اور میرے جو مراسم ہیں ان کو شاید تم بھی جانتے ہو۔ طرفین کے حالات ذاتی و صفاتی ایک دوسرے پر چھپے نہیں ہیں۔ میں اپنی شمیمہ کی نسبت تم سے کیا چاہتا ہوں اور بلحاظ چند مصالح کے قبل اس کے کہ مولوی عبد المعز صاحب سے کہوں، میں تمھارا مافی الضمیر دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ تمھاری سعادت مندی سے امید ہے کہ میرے حسب خواہش جواب دوگے۔
دعاگو
احسان حسین
رشید بیچارہ مصیبت کا مارا تو زہرہ کی جستجو میں تھا۔ بڑی بڑی فکروں سے اس نے گلابو سے ملاقات کی۔ اپنے مفصل حالات سے زہرہ کو اطلاع کی۔ آپس میں خط و کتابت شروع ہوئی۔ گلابو نے زہرہ کے جو حالات بیان کیے، رشید ان کو سن کر اور بھی سناٹے میں آ گیا۔ مگر وہ لڑکی ذات تھی، بہر صورت اس کو اپنا حال چھپانا ضرور تھا۔ گھٹتی مرتی تھی مگر کسی سے کچھ کہہ نہ سکتی تھی۔ اب رشید کے اناؤ پہنچنے اور خط و کتابت ہونے سے پھر اس کا مادۂ محبت جوش پر آیا اور اس نے اپنے کو بِروگن بنایا۔ رشید کے نام جو خط ڈپٹی احسان حسین خاں نے لکھا تھا وہ حکیم صاحب کے دیکھنے میں بھی آیا تھا۔ انھوں نے اپنے گھر جاکر اس کا تذکرہ کیا۔ زہرہ یہ سنتے ہی حواس باختہ ہوگئی، غصہ میں آکر اس نے رشید کو بہت سخت الفاظ میں لکھا:
‘‘چلو بس بہت منہ نہ چڑھاؤ۔ چاروں طرف شادیاں کرتے پھرتے ہو اور مفت مجھ جنم جلی کا کلیجہ پکاتے ہو۔ مجھ کو تم سے اب کچھ مطلب نہیں، نہ کچھ شکایت ہے۔ تم کو تمھاری شمیمہ اور مجھے میرا رنج و مصیبت مبارک رہے۔ منتقم حقیقی منصف ہے اسی سے فریاد ہے۔”
رشید گلابو سے یہ خط لے اور پڑھ کر سکوت میں ہو گیا کیونکہ اس کو ابھی ڈپٹی صاحب کا خط نہیں ملا تھا۔ اتنے میں ڈپٹی صاحب کا خط بھی ایک آدمی لے آیا۔ اس کو دیکھنا تھا کہ رشید سر پکڑ کر رہ گیا مگر جواں مردی کے ساتھ اس نے ڈپٹی صاحب کے خط کا یہ جواب لکھا:
حضور عالی! تسلیم۔
میں آپ کا تمام عمر احسان مند رہوں گا کہ آپ نے مجھے موت کے چنگل سے چھڑایا۔ لیکن اس احسان کی وجہ سے میں زبردستی اپنے آپ کو ایسی زنجیر میں بندھوانا پسند نہیں کرتا اور شاید کسی طرح تعمیل حکم کی ہو نہیں سکتی، امید معافی کی ہے۔
غریب الوطن
رشید
ڈپٹی صاحب کو جواب لکھ کر رشید نے اپنی پیاری زہرہ کو بھی خط لکھا:
ہاں میری زہرہ! تم کو سب کچھ کہنا زیبا ہے۔ افسوس تمھاری طبیعت میں انصاف بالکل نہیں ہے۔ میری مصیبتوں اور جاں بازیوں کی خوب قدر کی۔ خدا اس ساعت کو غارت کرے کہ جب میں زہرہ کے سوا کسی دوسرے کی دید کی تمنا کروں۔ تم میری جان و مال کی مالک ہو اور میں تمھارا ہی ہوں۔
دلفگار
رشید