از سرِ بالینِمن برخیز ای نادان طبیب
دردمندِ عشق را دارو بہ جز دیدار نیست
آفتاب تمام دن کی منزل طے کر کے تھک گیا ہے اور ہانپتا کانپتا مغرب کی طرف بڑھ رہا ہے۔ وہ زرد زرد دھوپ جو تمام دنیا کو بادلہ پوش بنائے تھی، اس کی صرف درختوں کی پھنگیوں پر کچھ خفیف سی کرنیں پڑ رہی ہیں۔ دن بھر کا گرد و غبار بیٹھ گیا ہے۔ شبنم پڑنے کا سامان ہو گیا ہے۔ وہ نو نہال جو دھوپ کی سختیوں سے مرجھائے پڑے ہوئے تھے، آنکھ مل کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ چڑیوں نے اپنے آشیانوں کا رخ کیا ہے، سڑکوں پر شوقین لوگ سیر و تماشا کے واسطے چل پھر رہے ہیں۔ عشاق نا مراد شب فرقت کے خیال سے ہاے و واویلا مچائے ہوئے ہیں۔ کہیں معشوقانِ زاہد فریب جنگ زر گری کی تیاری میں ہیں، بناؤ سنگھار ہو رہا ہے۔ راستوں میں آدمیوں کی کثرت سے کھوے سے کھوا چھل رہا ہے۔ لکھنؤ کا چوک جس طرح آدمیوں سے بھرا ہے اس کا اندازا جنھوں نے دیکھا ہے وہی خوب کر سکتے ہیں۔ یوں تو یہاں ہر قسم و وضع و ملک کے لوگ اس وقت سیر کو آتے ہیں، مگر دیکھو وہ دور پر شاہی شفا خانہ کے برابر ایک آدمی سر جھکائے کچھ بڑبڑاتا چلا جاتا ہے۔ شکل و صورت تو اس کی بہت عمدہ اور وضع و قطع شریفانہ ہے لیکن حالت میں کچھ جنون کے سے آثار پائے جاتے ہیں۔ ایک کاغذ ہاتھ میں لیے ہوئے وہ وکٹوریہ پارک کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہ جانے والا بڑی عجلت کے ساتھ چوک کے مشہور پھاٹک گول دروازے سے نکل کر وکٹوریہ پارک کی خوش نما سرخ سڑک پر آگیا۔ پہلے تو تھوڑی دور سیدھا چلا، اس کے بعد کچھ سوچ کر وہ پچھم کی طرف مڑا اور فوارہ کے پاس جا کر کھڑا ہوا۔ اس جگہ بھی وہ چند منٹ سے زیادہ نہ ٹھہر سکا کیوں کہ یہاں اس وقت سیر بازوں کا ہجوم ہوتا ہے اور یہ تخلیہ ڈھونڈتا تھا۔ جب کئی آدمی آگئے تو وہ پھر دوسری روش پر ہو کر آگے بڑھا اور ایک جگہ درختوں کی آڑ میں بیٹھ کر اس کاغذ کو دیکھنے لگا۔ ہمارا دوست اس مصروفی کے ساتھ اس کاغذ کو دیکھ رہا تھا کہ اس کو اس امر کی ذرا بھی پروا نہ تھی کہ کوئی اس پارک میں آتا جاتا ہے یا نہیں۔ ہنوز وہ کاغذ کو دیکھ ہی رہا تھاکہ ایک طرف سے آواز آئی: ‘‘کہاں تک بھاگوگے؟ اب بتاؤ تمھاری کیا سزا ہے؟”
نوجوان ادھر اُدھر دیکھ کر اور جب کوئی نظر نہ آیا تو پھر ‘‘کوئی ہوگا” کہہ کر کاغذ دیکھنے لگا۔ اتنے میں پکارنے والے نے درختوں کی دوسری جانب سے آکر نوجوان کا شانہ ہلایا۔ ‘‘کیوں رشید! کیا حال ہے؟”
رشید (سر اٹھاکر): ارے حامد! او ظالم! تو بھی پیچھا نہیں چھوڑتا۔ کیا تجھ کو بھی خدمت جاسوسی سپرد ہوئی ہے؟
حامد: یہ کیا! رشید ہوش میں آؤ۔ دیکھو تم کس سے باتیں کرتے ہو۔ میں حامد ہوں مجھ سے تم کو ایسی گفتگو زیبا نہیں۔
رشید (رو کر): ارے بھائی! کیا کروں میرے دل کی لگی کوئی نہیں بجھاتا۔ ہاے ہاے! کس سے داد بیداد کروں؟ کہیں موت ہی آجاتی تو اچھا تھا۔ مجھ سے ایسی بدگمانیاں کی جاتی ہیں۔
حامد: تم سے کون بدگمانی کرتا ہے۔ تمھارے گھر والوں پر تو میرا کچھ اختیار نہیں ہے لیکن میں بذات خاص تمھارے کام میں ہر طرح کوشش کرنے کو تیار ہوں۔ لیکن تمھاری تو نرالی عادت ہے۔ ایسا خبط سوار ہے کہ نہ تو گھر میں بیٹھتے ہو نہ کسی دوست یار سے ملتے ہو۔ بارہا میں تمھارے مکان پر گیا ملاقات نہ ہوئی۔ ادھر ادھر تلاش کیا، تم نہ ملے۔ اس درمیان میں کوئی پندرہ دن تک میں کلکتہ میں رہا۔ وہاں کا کام تو ابھی ختم ہونے والا نہ تھا مگر تمھارے والد کا ایک خط پہنچا کہ رشید کے ایک کام میں تمھاری بہت بڑی ضرورت ہے۔ اگر ممکن ہو تو جلد چلے آؤ۔ ان کا خط پاتے ہی میں بھاگ کھڑا ہوا۔ آج دس بجے دن کی گاڑی میں اترا ہوں۔ صرف غسل تو میں نے مکان پر کیا ہے اس کے بعد مولوی صاحب کی خدمت میں گیا۔ دیر تک تمھارے حالات دریافت کرتا رہا۔ ان کا ارادہ شاید تمھارے عقد کی بابت ہے لیکن میں نے یہ ابھی دریافت نہیں کیا کہ انھوں نے نسبت کہاں ٹھہرائی لیکن مجھے خیال ہے کہ شاید سید مبارک صاحب کے یہاں گفتگو کریں۔ کیونکہ میرے بلانے میں اس کے سوا اور کیا فائدہ ہے۔ اور میں تم سے بوثوق کہتا ہوں کہ اگر انھوں نے ذرا بھی تحریک کی تو میں ہرگز کوئی امر کوشش کا اٹھا نہ رکھوں گا۔ والد بھی کل تک الہ آباد سے واپس آجاویں گے۔ اب تم کو خوش ہونا چاہیے کیونکہ عنقریب شاہد مدعا سے ہم کناری کی امید ہے۔
یہ سن کر بجاے جواب دینے کے رشید حامد سے لپٹ کر رونے لگا۔ حامد نے بمنت و سماجت اسے چپ کراکے رونے کی وجہ پوچھی۔
رشید: میرے پیارے بھائی! تم سے تو تین مہینہ پیچھے ملاقات ہوئی ہے۔ اس درمیان میں خدا جانے میرے اوپر کیا کیا نہیں گذر گئی، افسوس۔
حامد: اسی گذری کو تو پوچھتا ہوں۔ ذرا دل ٹھکانے کر لو تو بتاؤ۔ تم کو اپنے حامد کی قسم جلد سب حال مفصل کہو۔
رشید: اف! (آہستہ آہستہ رونے لگا) میری غشی والی علالت تو تمھارے سامنے ہی کی تھی۔ ابھی مجھے کامل افاقہ نہ ہوا تھا کہ تم دہلی چلے گئے۔ ایک انیس تنہائی تم تھے وہ بھی نہ رہے۔ مجھ کو اکیلے میں سودا بڑھنے لگا، خدا خدا کر کے صحت تو ہو گئی مگر طبیعت میں ایک قسم کا انقباض ہو گیا۔ ہر وقت خاموشی پسند تھی، حواس ایسے گم تھے کہ کچھ نیک و بد سمجھ ہی میں نہ آتا تھا۔ پہلے تو میرے گھر سے نکلنے کی ممانعت رہی، اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے صبح شام بطور سیر نکلنے کا حُکم دیا۔ لیکن راجا صاحب کے ساتھ کی وجہ سے مجھ کو کبھی خوش ہو کر سیر کرنے کا موقع نہ ملا۔ اور نہ کبھی یہ ممکن ہوا کہ میں اپنی زہرہ کی طرف جاتا۔ اور واللہ اعلم کیا سبب ہوا کہ اُنھوں نے بھی مطلق خبر نہ لی۔ لیکن جب میں نے اس طرح پر اپنی طبیعت سنبھلتے نہ پائی تو مجبور ہو کر راتوں کو چھپ کر گھر سے نکل جانے لگا۔ آفت ناگہانی اور بلاے آسمانی کا کیا بیان کروں۔ میں متواتر سید مبارک صاحب کے مکان پر گیا، مگر ہمیشہ ایسے بے وقت پہنچا کہ کبھی کوئی آدمی جاگتے ہوئے نہ ملا۔ ایک مرتبہ کچھ خفیف سا ابر تھا، میں اپنی معمولی وحشت سے گھبرا کر گھر چھوڑ نکل بھاگا۔ ابھی قیصر باغ کے پھاٹک ہی پر پہنچا تھا کہ پولس کے سپاہی نے ڈانٹ بتائی وہ تو خدا نے خیر کر دی کہ میرا نام اور پتہ سن کر اس نے صرف واپس ہونے پر پیچھا چھوڑ دیا ورنہ اور کسی مصیبت میں گرفتار ہونا پڑتا۔ حامد! دل کی لگی بری ہوتی ہے۔ نا تجربہ کاری نے چاہے مجھے جس بلا میں پھنسایا مگر قلب پر اختیار نہیں چلتا۔ دو ایک دن تک سپاہی کی دہشت سے میں سید صاحب کی طرف نہیں گیا۔ حالانکہ اس آمد و رفت میں سواے اُن کا دروازہ و مکان کی چار دیواری دیکھنے کے اور کوئی فائدہ نہ تھا لیکن مجھ کو کچھ تسکین ہو ہی جاتی تھی۔ اب جو دو چار دن یہ بھی نصیب نہ ہوا تو اور خبط ہو گیا۔ قسمت کی کمی دیکھو کہ اُس سپاہی نے کہیں ابّا سے مُلاقات کی اور ان سے میرے رات کے نکلنے کی شکایت کرکے کہا: ‘‘یہ وقت بہت نازک ہے۔ شہر میں وارداتیں بکثرت ہو رہی ہیں۔ صاحب ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ بہادر کی سخت تاکید پہرہ کے بارے میں ہے۔ اکیلے دو کیلے بے وقت مکان سے نکلنا مناسب نہیں ہے۔ لوگ چال چلن پر شبہ کرنے لگتے ہیں۔ صاحبزادہ کو سمجھائیے، ورنہ نیک بد پڑ جائے گی تو مشکل ہوگا”۔ کمبخت برقنداز کا اتنا والد سے کہنا تھا کہ وہ آگ بگولا ہو گئے۔ مُجھے بلا کر مفت سیکڑوں صلواتیں سنائیں اور حکم دے دیا کہ مکان سے شام کو باہر نہ نکلنے پاوے۔ اُن کی تقریر سے مجھ کو صاف معلوم ہوتا تھا کہ انھیں میری نیک چلنی میں شک ہے ۔قاعدہ کی بات ہے کہ آدمی ممانعت پر زیادہ حریص ہو جاتا ہے۔ جیوں جیوں ابا کی طرف سے سختی ہوتی گئی، میرا خیال زیادہ متوحش ہونے لگا۔ اور بالآخر میں ایک دن دوپہر کو کسی نہ کسی ترکیب سے بھاگ نکلا۔ گھر سے نکلتے ہی میں نے ایک گاڑی کرایہ کو کی اورسیدھا نرہی جا دھمکا۔
میں جیسے ہی گاڑی سے اترا اور گاڑی بان کو کرایہ دینے لگا، سامنے اپنی زہرہ پیاری کی خادمہ گلابو کو آتے دیکھا۔ گلابو مجھے دیکھ کر خود میری طرف آئی اور دور سے سلام کیا۔
میں (جواب سلام دے کر): اچھی گلابو! ذرا اور نزدیک آؤ۔ کہو مکان میں سب خیریت تو ہے۔ تمھاری بیوی کا مزاج کیسا ہے۔
گلابو (مجھے ایک گوشے کی طرف انگلی سے بتا کر): وہاں آئیے تو کچھ گفتگو ہو۔
میں بجاے جواب دینے کے سیدھا اسی گوشہ کی طرف چلا گیا۔ یہ ایک گلی تھی جو سید مبارک صاحب کے مکان کے پیچھے گئی تھی، اِس طرف ان کے کوٹھے پر ایک کمرہ بنا تھا جس کی ایک کھڑکی اس جانب کو بھی تھی۔ اس جگہ میں ایک مونڈھے پر جو گلابو جلدی سے مکان سے لے آئی تھی، بیٹھ گیا اور پھر اپنے سوال کا اعادہ کیا۔
گلابو (ٹھنڈی سانس بھر کر): میاں کیا بتاؤں جس دن سے آپ کے یہاں سے آئی ہوں آج ایک مہینہ ہونے آیا۔ زہرہ بی بی کو پلنگ پر سے اٹھنے کی قسم ہو گئی۔ میری زبانی آپ کی بیماری کا حال سن کر گھبرا سی گئی تھیں مگر صحت کا حال سن کر کچھ ہوں ہی سی تسلی ہو گئی تھی۔ جب انھوں نے یہ خیال کیا کہ دیکھا چاہیے آپ کی ملاقات باقاعدہ طور پر نصیب ہوتی ہے یا نہیں، بس رونے لگیں اور اپنے دل میں کچھ سوچ سوچ کر اسی دن سے وہ بالکل آپ سے گذر گئیں۔ دن رات مجھ سے بس آپ کا تذکرہ کیا کرتی ہیں۔ میں نے لاکھ لاکھ سمجھایا وہ ایک نہیں مانتی ہیں بلکہ آپ کی شکایت کرتی ہیں کہ مجھے بالکل بھلا دیا، ان کی حالت از خود رفتگی کی ہو رہی ہے۔ اللہ اچھا کرے ابھی اتنی خیر ہے کہ کچھ بیماری نہیں گھیرے ہے مگر آج صبح سے سید صاحب کا تقاضا ہے کہ کل سب گھر بھر انّاؤ کو چلے۔ وہاں سے ان کو ایک رئیس نے سو روپے مہینہ پر بلایا ہے۔ اناؤ خاص میں رہنا ہوگا اور ان کے یہاں کا جب ضرورت ہو علاج کرنا ہوگا۔ خواجہ صاحب نے آفت برپا کر رکھی ہے۔ دن بھر میں چار چار بار آتے ہیں اور اب یہ راے مستقل ہو گئی ہے کہ مع عورتوں کے کل روانہ ہو جائیں۔
میں (رو کر): اچھی گلابو! پھر اب کیا زہرہ چلی جائیں گی تو میں کیونکر زندہ رہوں گا۔ ہاے میں مر جاؤں گا۔ میرا اپنا پیغام تم پہنچا دو۔
گلابو: وہ خود ہی اسی شش و پنج میں ہیں مگر کچھ ہو کل جانا رک نہیں سکتا۔ خدا ان کے جان کی خیر کرے۔
میں گلابو سے ابھی حال دل کہنے نہ پایا کہ سید صاحب کو آتے دیکھ وہ مونڈھا ہاتھ میں لے چل کھڑی ہوئی۔ میں حالات موجودہ پر خیال کر کے مخبوط سا وہیں کھڑا رو رہا تھا کہ تقدیر کی خوبی سے کہیں والد ماجد اس طرف گئے ہوئے تھے۔ سید صاحب سے ملے اور گلی میں ہو کر دوسری سڑک پر آنے لگے تو مجھ سے مڈ بھیڑ ہوگئی۔ میں نے بہتیرے حیلے حوالے کیے، ایک نہ مانی زبردستی سڑک تک لے آئے اور اپنے ساتھ سوار کرا کے گھر لائے۔ گھر پہنچ کر انھوں نے مجھ کو بالکل نظر بند کر دیا اور جس کمرہ میں لوہے کی سلاخیں لگی ہیں اسی میں مجھ کو رہنے کا حکم دے دیا اور سپاہیوں کا پہرا ہو گیا۔ پیارے حامد! اس قید میں مَیں نے کیا کیا جفائیں سہیں اس کا تم سے کیا بیان کروں۔ ہر وقت سب کی گھرک دھمک سہتا تھا اور خاموش بیٹھا رہتا تھا۔ اسی درمیان میں مجھے سپاہیوں کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ کسی جگہ میرا عقد تجویز ہوا ہے۔ حکیم و ڈاکٹر سب نے تجرد کی وجہ سے خلل دماغ تجویز کیا ہے۔ کیا بتاؤں کہ یہ سن کر مجھ پر کیا گذر گئی لیکن قہر درویش بر جان درویش دم نہ مار سکتا تھا۔ اس پر غضب یہ ہوا کہ کل شام کی ڈاک میں ایک چٹھی میرے نام آئی۔ نہ معلوم کہاں رحم ابا کو آگیا کہ وہ خط بجنسہ میرے پاس بھیج دیا۔ حامد اس خط کو دیکھ کر مجھے گھر سے سخت نفرت ہو گئی اور کسی نہ کسی تدبیر سے آج صبح تڑکے میں گھر سے نکل بھاگا۔ والد روزانہ شام کو مجھے دیکھنے آیا کرتے تھے، ان کو شاید ابھی یہ حال معلوم بھی نہ ہوا ہو۔ مگر میں افتاں و خیزاں یہاں تک تو آ گیا ہوں آگے اللہ کی مرضی۔ سنو حامد! یہ غیر ممکن ہے کہ میرا زہرا کے سوا کسی اور سے عقد ہو جاوے۔
حامد: یہ تو بتاؤ کہ وہ خط کس کا تھا اور کیا لکھا تھا؟
رشید: یہی خط تو ہے (اپنے ہاتھ والا کاغذ دکھا کر) اناؤ سے پیاری زہرا نے بھیجا ہے۔ اب میں ایک ساعت یہاں نہیں ٹھہر سکتا۔ والد سے تم کہہ دینا کہ رشید دنیا سے گذر گیا۔ اب اس سے ہاتھ اٹھائیے۔
حامد: کیا میں دیکھ سکتا ہوں کہ اس میں کیا لکھا ہے؟
رشید (ذرا تامل کے بعد): تم سے کیا پردہ ہے۔ لو بلا تکلف دیکھو۔
رشید سے خط لے کر حامد نے پڑھا۔ لکھا تھا:
کیوں پیارے! محبت اسی طرح کرتے ہیں۔ افسوس تم نے مجھے مفت بدنام و مبتلاے آلام کیا۔ میں ہرگز تم کو ایسا نہ سمجھتی تھی۔ یہ الٹی بات ہے کہ ایک شریف لڑکی کے قلم سے ایسے الفاظ نکل رہے ہیں۔ لیکن چونکہ تمھارے ہجر میں میرا آخری وقت آگیا ہے۔ لہذا مجھے امید ہے کہ خدا میری اس خطا سے درگذر کرے گا۔ میرے دل پر جو صدمے گذرے اور گذرتے ان کا نتیجہ یہاں تک پہنچ چکا۔ تمھاری شادی کی کیفیت سنی۔ خدا مبارک کرے۔ ہم تو اب اناؤ ہی میں رہیں گے۔ اگر کبھی ادھر آ نکلنا تو فاتحہ خیر سے بھول نہ جانا۔ امروز فردا میرے سفر عدم کی خبر تم کو خود ہی معلوم ہو جاوے گی۔
دنیا سے جانے والی
زہرہ
حامد (خط کو ختم کر کے): اب تمھارا کیا ارادہ ہے۔
رشید: ارادہ کیا ہے، بس اب میں اناؤ جاتا ہوں (کسی طرف سے اذان کی آواز سن کر) سنو مغرب کی اذان ہوتی ہے، جاؤ نماز پڑھو۔ یہ میری تمھاری آخری ملاقات تھی۔ (رو کر) اگر زہرہ کا بال بیکا ہوا تو سمجھ لو کہ میرا خمیر مجھے اناؤ لے جاتا ہے۔
حامد: اگر مانو تو ہماری صلاح لو۔ چلو نماز پڑھیں، اس کے بعد ہمارے گھر چلو۔ رات وہاں بسر کرو، کچھ خرچ کی تدبیر کر دی جاوے۔ صبح ہنسی خوشی تم اناؤ چلے جانا، کوئی تمھاری خبر پائے تو میں ذمہ دار۔
حامد کی صلاح رشید کے ذہن میں آگئی۔ دونوں نے مغرب پڑھ کر نئے گاوں کا راستہ لیا۔ کھانا کھا پی کر لیٹے تھے کہ تھوڑی دیر بعد رشید چونک پڑا اور اس کو کچھ ایسی الجھن ہوئی کہ اسی وقت کواڑ کھول چل دیا۔ حامد کو اس کی خبر بھی نہ ہوئی۔ صبح کو حامد جب نماز کو اٹھا تو رشید کو نہ پایا بلکہ بجاے اس کے ایک تکیہ پر چادر ڈھکی پائی۔ چادر ہٹا کر دیکھا تو تکیہ رکھا ہے اور یہ چند سطریں ایک کاغذ پر لکھی رکھی ہے:
میرے حامد!
میں صبح تک صبر نہیں کر سکتا، تم کو حافظ حقیقی کے سپرد کرتا ہوں۔ شاید یہ میری تمھاری آخری ملاقات ہو تو تم میرے قصور کو معاف کرنا اور والد سے میری جانب سے عرض کرنا کہ مجھ سے ہاتھ اٹھائیں۔ سمدھی صاحب کو جواب دے دیں کہ وہ اپنا دیکھا کام کریں۔ اناؤ میں تم میرا پیچھا نہ کرنا کیونکہ اگر تم کو میں مل بھی گیا تو تمھارے کسی کام کا نہ رہوں گا۔ میرے رموز کو امانت کے ساتھ چھپاتے رہنا، اچھا بس آخری سلام لو۔
تمھارا از کار رفتہ بھائی
رشید
حامد اس خط کو دیکھ کر سنّاٹے میں آگیا۔ دیر تک سکتہ کے عالم میں بیٹھا رہا اس کے بعد اپنی ضروریات دنیاوی میں مصروف ہوا اور انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ کر خاموش ہو رہا۔