عاشقی چیست؟ بگو بندۂ جانان بودن
دل بدست دیگری دادن و حیران بودن
صبح کا سہانا وقت ہے، آفتاب عالم تاب کی آمد آمد کی دھوم مچی ہے، افق مشرق سے ایک شہابی سرخ چادر تہ ہوتی جاتی ہے اور کسی جان سوز چہرہ کی چمک آہستہ آہستہ تیز ہوتی جاتی ہے۔ ہوا کی تیزی معمول سے بہت کم ہو چکی ہے اور درختوں کی جھومتی ہوئی شاخیں شراب محبت کے خمار سے دل شکستہ ہو کر سست ہو گئی ہیں۔ رات کی کھلی ہوئی کلیاں آنے والی مصیبت کے ڈر سے ٹوٹ ٹوٹ کر زمین پر گر رہی ہیں اور سبزہ زاروں کی لمبی لمبی گھانس شبنم کے آنسوؤں کی کلفت پر رو رہی ہے۔ معشوقان طناز رات کی جنگ زر گریاں یاد کر کے دل ہی دل میں کچھ لجاتی جاتی ہیں۔ عشاق کی گستاخیوں سے پیشواز میں جا بجا شکنیں پڑ گئی ہیں۔ گلابی گلابی رخسارے کسی بے صبر ہاتھوں کی بدولت نیلگوں ہو گئے ہیں۔ ہونٹوں کی تر و تازگی بالکل جاتی رہی ہے۔ لوگ قادر مطلق کی صناعیوں کا تماشا دیکھنے کے لیے سیر گاہوں کو روانہ ہو رہے ہیں اور جو سب سے زیادہ شوقین ہیں وہ گشت لگا کر واپس بھی آگئے۔ ہمارے نامی گرامی شہر لکھنؤ کی سڑکیں ہر طرف آباد نظر آ رہی ہیں۔ اسی میں ہماری نگاہ بھی ادھر ادھر پڑتی چلی جا رہی تھی کہ ایک بارگی ایک سیر کرنے والے کو لب دریا دیکھ کر رکی۔
یہ دیکھیے موتی محل کے پل پر بادشاہ باغ کے سامنے درختوں کے کنج میں کوئی سپید پوش تنہا کھڑا ہے۔ نہیں وہ تو آہستہ آہستہ ٹہل رہا ہے۔ پیچھے سے تو یہ کوئی نو عمر معلوم ہوتا ہے، لباس بھی شریفانہ اور زمانہ کے موافق ہے۔ بظاہر کسی تعلیم یافتہ اور مہذب گھرانے کا لڑکا ہے۔ بد وضعی و بد روشی کا گذر نہیں معلوم ہوتا۔ اس کی سادی اور سپید پوشاک بتلا رہی ہے کہ اس کو صفائی کا بڑا شوق ہے مگر ظاہری تکلفات پسند نہیں ہیں۔ اے لو وہ پھرا۔ ارے اب تو صاف چہرہ نظر آتا ہے۔ گورا گورا چہرہ، بڑی بڑی آنکھیں، ملائم اور سرخ ہونٹ اس کی نازک اندامی کی گواہی دیتے ہیں۔ اس کے سر کے چھوٹے چھوٹے بال بتاتے ہیں کہ ان کو مانگ نکالنے اور زلفیں بڑھانے کا شوق نہیں ہے مگر بال عجیب عمدگی سے کترے گئے ہیں کہ ان پر ایک نیا سماں معلوم ہوتا ہے۔ سپید نین سکھ کا چھوٹی مہری کا پائجامہ اور نین سکھ ہی کی اچکن زیب تن کیے ہے اور چکن کی سپید ٹوپی سیدھی سر پر رکھی ہے۔ گو اس کے چہرہ سے متانت ٹپکتی ہے لیکن ساتھ ہی اس کا بار بار ابروؤں کا بل دینا اور پیشانی پر شکن آنا، جلدی جلدی ہونٹوں کو دانتوں سے دبانا اور چپکے سے کچھ ہوں ہاں کرنا اور ایسے گنجلک مقام میں چونک چونک کر ادھر ادھر دیکھنا صاف بتلاتا ہے کہ وہ کسی ادھڑ بن میں ہے۔
یک بارگی ہمارا نوجوان اسی جگہ زمین پر بیٹھ گیا اور سر پکڑ کر کچھ سوچنے لگا۔ سوچتے سوچتے خدا جانے اس کے دل میں کیا خیال آیا کہ آنکھوں سے سیل اشک جاری ہو گئے۔ اور وہ کہنے لگا: ‘‘آخر یہ مجھے ہوا کیا۔ افسوس! بھلا وہ مجھے کہاں مل سکتی ہے؟ ہاے یہ بھی تو نہیں معلوم کہ تھی کون۔ خدا جانے کون سی ساعت میں نے اس طرف کو نگاہ اٹھائی تھی۔ آہ! مار ڈالا ارے ظالم! رحم رحم۔ اف۔ غضب ہاے اب میں نہ جیوں گا۔ ارے میرے اللہ میں کیا کروں۔ خدایا میں کدھر نکل جاوں۔ ہاے میں تو ان جھگڑوں سے واقف ہی نہ تھا۔ الہی میرے دل میں یہ درد کیوں ہوتا ہے۔ اے مالک میں کس سے۔۔۔”
(آواز آئی) رشید!! رشید!! میاں رشید!!! (بڑے زور سے) ارے بھائی رشید! از براے خدا، ادھر دیکھو تو!
یہ آواز سن کر متردد نوجوان نے سر اٹھایا۔ دیکھا تو سامنے سڑک پر اس کا ہم سن دوست حامد کھڑا پکار رہا ہے۔ یہ دیکھ کر کراہتا ہوا اپنی جگہ سے اٹھا اور چپکے سے آنسوؤں کو رومال سے پوچھ کر سڑک پر جا پہنچا۔ دونوں دوستوں نے ہاتھ ملایا۔ حامد نے اپنے کوچ بان کو آواز دی۔ گاڑی بڑھا لاؤ۔ چند منٹ میں گاڑی جو دور کھڑی تھی پاس آپہنچی اور حامد نے رشید کا ہاتھ پکڑ کر سوار کرایا اور خود بھی بیٹھ کر کوچ بان سے چلنے کا حکم دیا اور رشید سے گفتگو شروع کی۔
حامد: کیوں بھئی مزاج کیسا ہے؟
رشید (ٹھنڈی سانس لے کر): جیتے ہیں۔
حامد: خیر تو ہے؟ جیتے ہیں کیا معنی؟
رشید: اور کیا بتاؤں بھائی؟ جیتے تو ہیں ہی۔ ہم کو موت تھوڑا ہی پوچھنے والی ہے۔ جیتے کیا ہیں کم بخت زندگی کے دن کسی نہ کسی طرح پوری کرتے ہیں کاش۔۔۔۔۔۔
حامد: تمھیں واللہ ہے اب کچھ نہ کہنا۔ از براے خدا، یہ تو بتاؤ کہ کیسی طبیعت ہے۔ خدا نخواستہ کچھ بیماری، علالت فکر، تردد کیا بات ہے۔ کیوں ایسے الفاظ اپنی نسبت استعمال کرتے ہو؟
رشید: یہ تذکرہ جانے دو۔ للہ مجھ سے کچھ نہ پوچھو۔ اف!
حامد: کہیں جانے نہ دیا ہو۔ کچھ دال میں کالا ضرور ہے (چہرہ کی طرف دیکھ کر) اور یہ آنسو کیسے ہیں جلد بتاؤ کہ یہ کیا بات ہے۔ کسی طرح ممکن نہیں کہ بغیر بتائے تمھارا پیچھا چھوٹے۔ دیر نہ کرو۔ میں سخت منتشر ہوں۔ جلد بتاؤ۔ ہو سکے گا تو میں تمھارے کام میں مدد کروں گا۔
رشید (رو کر): بھائی کہنے کی بات نہیں ہے۔
حامد: نہیں نہیں، خدا کی قسم تم کو کہنا ہوگا اور ضرور کہنا ہوگا۔
رشید: جلے ہوئے دل کو جلانے سے کیا فائدہ۔
حامد: بس بتا چلو۔ زیادہ تقریریں فضول ہیں۔ میں تمھارا ۔۔۔۔۔
کوچ بان نے گاڑی روکی۔ پٹ کھول کر کہا: ‘‘حضور گھر آگیا”۔
حامد رشید کا ہاتھ پکڑے ہوئے اترا اور سیدھا اپنے سونے کے کمرہ میں چلا گیا۔ کیونکہ سواے اس سونے کے کمرہ کے اور کوئی مکان خالی نہ تھا۔ وہاں تنہائی پا کر رشید سے پھر بمنت و سماجت اس نے سوال کیا۔ رشید نے بہتیرا چاہا کہ اپنا حال نہ بیان کرے لیکن حامد کے اصرار نے بالآخر اسے مجبور کیا کہ وہ اپنا راز دل اس سے کہنے کو بیٹھ گیا۔
رشید: میرے پیارے دوست! تم جانتے ہو کہ میں بے جا گھومنے اور مٹر گشتیوں سے کتنا گھبراتا ہوں۔ اتنی عمر آئی مجھے کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ جو میں اپنے دوست احباب کسی کے ساتھ چوک تک بھی سیر کی غرض سے جاتا۔ تو اور سیر سپاٹے کا کیا ذکر۔ لیکن قسمت میں داغ دل اور تمام عمر کی کلفت مقدر تھی کہ کل اتفاقیہ دل میں کچھ خیال آیا، قیصر باغ سے موتی محل کی طرف جانے کو تیار ہو گیا۔ ہر چند کہ بعض ضرورتوں سے حضرت گنج جانا ضرور تھا لیکن تقدیر مجھے اس طرف گھسیٹ لائی۔ پل کے برابر ایک گاڑی کسی رئیس کے یہاں کی کھڑی تھی، میری نگاہ جو پڑی تو میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان دوشیزہ لڑکی کھڑکھڑیاں کھول کر سڑک پر کچھ دیکھ رہی ہے۔ اس نے مجھ کو دیکھتے ہی فوراً کھڑکھڑیاں بند کر لیں۔ مگر آہ! عجیب قتالۂ عالم تھی کہ میرے اوپر قہر کر گئی۔ میں ایک نگاہ اس کو دیکھ کر ایسا مدہوش ہو گیا کہ چپ، سکتے کے عالم میں کھڑا رہ گیا۔ ہاے! مجھ سے اتنا بھی تو نہ ہو سکا کہ میں اس کا کچھ پتا ہی دریافت کر لیتا۔ میں تو اسی بد حواسی میں تھا کہ ایک بارگی کوچ بان گاڑی ہانک کر خدا جانے کہاں سے کہاں لے گیا۔ گاڑی چلے جانے پر میرے حواس بجا ہوئے بلکہ بجا کیا ہوئے، ہوشیاری نے اور تازہ آفت ڈھائی۔
نہ معلوم اس وقت سے دل کو کیا ہو گیا ہے کہ کسی طرح قرار ہی نہیں آتا۔ ہاے! اس کی وہ پیاری پیاری صورت، وہ سرخ گلابی چہرہ، وہ سیاہ آنکھیں، وہ نازک اور گورے ہاتھ۔ آہ! میں۔۔۔۔۔۔
حامد (بات کاٹ کر): رشید! تم کو کیا ہو گیا ہے۔ ہوش میں آؤ۔ ایں! اک بارگی قلب ماہیت ہو گئی۔ تمھاری ثقاہت و تہذیب کیا ہوئی۔ ذرا سنبھل کر بات کرو۔ دیکھو! تم کہاں ہو؟ تمھاری باتیں کوئی سنتا نہ ہو۔
رشید: کوئی سنتا ہو یا نہ ہو۔ میں کیا کروں۔ میرا دل کسی طرح قابو میں نہیں ہے۔ میں آپ متعجب ہوں کہ آخر مجھے کیا ہو گیا۔ میں اس وقت سے سودائی ہو رہا ہوں۔ ہر وقت یہی جی چاہتا ہے کہ ایک بار اس کو پھر دیکھ لیتا۔ آج پھر اسی خبط میں یہاں دوڑ آیا تھا۔ بڑی رات سے کھڑا تھا۔ جب انتظار کی گھڑیاں پہاڑ سی ختم ہی نہ ہونے آئیں تو گھبرا کر اس گنجلک میں آ کھڑا ہوا۔ حامد بھائی! اب میری زندگی کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ افسوس! للہ بتاؤ کیا کروں؟
باتیں ہوتی ہی تھیں کہ خدمت گار نے کھانا لا کر پیش کیا اور حامد کی زبردستی سے رشید بھی ہاتھ دھو کر شریک ہوا۔