وہ لیلی تھی
ہاں وہی لیلی جس کی پینٹنگ لگی ہوئی تھی
ہاں ویسا ہی باریک لباس تھا
ویسے ہی چمکتی ہوئی پیشانی تھی
ایسے لگتا تھا وہ پینٹنگ سے ایک بار پھر باہر آگئی ہے
ایک لمحے کے لیے میں مدہوش ہوگیا تھا
اپنے سارے زخم اور درد مجھے یاد نہیں رہے
لیکن اسی وقت مجھے اپنے بابا یاد آگئے اور پھر نفرت کی ایک لہر میرے سینے میں سرایت کر گئی تھی
میں نے آنکھیں بند کر لی تھیں
اسکے منہ سے ایک لمبی ہوں نکلی
میں سمجھ نہیں سکا تھا وہ کس طرز کی تھی
آیا طنزیہ یا افسوس بھری،
اسی دوران میں نے اس کے قدموں کی دور جانے کی آواز سنی
کچھ دیر بعد میں نے دوبارہ آنکھیں کھولیں تو وہاں کوئی نہیں تھا
لیکن اس بار کمرے میں اندھیرا نہیں تھا
لیکن کمرہ پہلے کی طرح بند تھا
میں نے کھڑا ہونے کی کوشش کی
کافی تکلیف کے بعد کھڑا ہوگیا تھا
لیکن اسی وقت میرے بازو سے بندھا
” شُق ” کا دیا ہوا تعویز گر پڑا
میں نے اسے اٹھانے کے لیے جھکا تو پھر مجھ سے اٹھا نا گیا اور وہیں بیٹھ گیا
تعویذ کو ڈھانپنے والا چمڑا ٹوٹ چکا تھا
میں نے سوچا کہ اسکو کھول کر دیکھتا ہوں
اس میں کیا لکھا ہے
کھولنے لگا تو لوگوں کی بتائی باتیں یاد آنے لگیں
کہ کسی تعویذ کو نہیں کھولنا چاہیے
ورنہ اسکا اثر کھولنے والا پر الٹا ہوتا ہے
ایک لمحے کو میں جھجکا لیکن پھر دوسرے ہی لمحے اس تعویذ کو کھول چکا تھا
اور اسکا متن پڑھتے ہی شدت جذبات سے اپنی تکلیفوں کو بھول کر کھڑا ہوگیا تھا
وہ کوئی تعویذ نہیں بلکہ ایک خط تھا
میرے بابا کا خط وہ بھی میرے نام لکھا ہوا تھا
میں نے دو تین بار اسے آنکھوں سے لگایا اور چوما اور پڑھنا شروع کر دیا
”
آفتاب!
جب تم یہ خط پڑھ رہے ہوگے
میرے ساتھ ساتھ “شُق” کی بھی موت واقع ہوچکی ہوگی
اور تمہیں اس جادونگری میں زبردستی گھسیٹا جا چکا ہوگا
اس جادوئی دنیا میں زندہ رہنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے
یہاں کمزور یا تو کچلا جاتا ہے یا غلام بنا لیا جاتا ہے
لیکن تم کمزور نہیں ہو آفتاب تم بالکل بھی کمزور نہیں ہو۔
تمہارے پاس دنیا کی سب سے بڑی غیر مرائی طاقتیں ہیں
تم اب سفید جادو کے مالک ہو
جو دنیا میں شاید ہی تمہارے علاوہ کسی کے پاس ہوگا
اب تمہارا پہلا قدم وومرا کا خاتمہ ہونا چاہیے
ورنہ وہ تمہیں جینے نہیں دے گی
اب تم سوچ رہے ہوگے کہ تم کیسے اسے ختم کر سکتے ہو
تو سنو اسے ختم کرنے کے لیے تمہیں مزید طاقت چاہیے ہوگی
لیکن ابھی موجودہ وقت میں تم سفید جادو سے چند کام سر انجام دے سکتے ہو
یہ منتر یاد کر لو”
نیچے ایک عجیب قسم کا منتر تھا کوئی زیادہ بڑا نہیں تھا بلکہ تھوڑا سا تھا
اسکی ترتیب دی ہوئی تھی
ایک بار پڑھنے سے
ہاتھ جھٹکیں تو آگ کے گولے نکلنے لگیں گے
دو بار پڑھنے سے
ہوا میں اڑنے لگو گے
اور کہیں بھی پہنچ سکو گے
تین بار پڑھنے سے غائب ہیں جاؤ گے۔
اور کسی کو نظر نہیں آؤ گے۔
چار بار پڑھو گے تو تم ایک فولادی شخص بن جاؤ گے۔
میں نے اپنی جسمانی حالت کے پیش نظر چار بار پڑھ کر اپنے اوپر پھونک دیا۔
اور اب اپنے آپ میں واضح تبدیلیاں محسوس کر رہا تھا۔
ایسا لگ رہا تھا میرا جسم کسی ٹھوس چیز کا بنا ہوا ہے
“کُر” کی لگائی ہوئی پھینٹی کے زخم ختم ہو چکے تھے۔
اپنے اندر بہت زیادہ طاقت محسوس کر رہا تھا۔
ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی بھی انسان کو چیونٹی کی طرح مسل سکتا ہوں
خیر خوشی خوشی خط کو آگے پڑھنا شروع کر دیا
”
یہ سفید جادو کے چند کرشمے ہیں
انکے باقی فائدے تمھیں وقت کے ساتھ ساتھ پتا چل جائیں گے
اور ان فائدوں کو استعمال کرنے کے لیے تمہارے پاس کالا جادو ہونا ضروری ہے
اس کے لیے تمہیں گاؤں جانا ہوگا
وہاں میرے کمرے کے اندر ایک تہ خانہ ہے
تم نے وہاں جانا ہے وہاں ایک سکہ پڑا ہوگا
تمہیں وہ سکہ نگلنا پڑے گا
لیکن اس کی طاقتیں اس وقت تک کام نہیں کریں گی جب تک تم ایک چلہ نا کاٹ لو
”
اسی وقت فضا میں ایک جگہ دھواں ابھرنے لگا
میں نے فوراً سے پیشتر خط کو چھپا لیا
اس دھویں نے وومرا کی شکل اختیار کر لی
پھر مجھے وومرا کی آواز سنائی دینے لگی
حیرت انگیز طور پر وہ ایسے لگ رہی تھی جیسے ہوا میں کوئی ٹیلی ویژن چل گیا ہو
وومرا نے بولنا شروع کر دیا
” آفتاب اب تک تمہیں اپنی حیثیت کا پتا چل چکا ہوگا
“کْر” کی لگائی گئی مار بھی غیر ضروری تھی لیکن وہ تمہیں تمہاری اوقات یاد دلانے کے لیے تھی
میری تم سے کوئی ذاتی لڑائی نہیں ہے
میری دشمنی ان سے ہے جو میرے اور سفید جادو کے درمیان دیوار بنتے ہیں
“شُق” نے تمہیں جو جادو دیا ہے وہ تم میرے حوالے کر دو
میں تمہیں آزاد کردونگی ”
میں نے بڑے سکون سے اسکی ہر بات سنی
سوچا کہ تحمل سے جواب دونگا
لیکن لہجے میں دشمنی کی تلخی گھل چکی تھی
‘ تم نے میرے بابا کو میری ماں کو اور شُق کو مارا ہے اور تم سمجھتی ہو میں اسے بھول جاؤنگا،
نہیں کبھی بھی نہیں
میں تمہارا جینا حرام کر دونگا
میں تمہارا سکون چھین لونگا ‘
” آفتاب تم فی الحال جذباتی ہو کر سوچ رہے ہو
تھوڑا ٹھنڈے دل سے سوچو، اپنی موجودہ پوزیشن دیکھو
تمہارے پاس سفید جادو تو ہے پر تمھیں کچھ بھی نہیں پتا کہ اسے استعمال کیسے کرتے ہیں
یہاں پر قید رہے تو تمہاری ہڈیاں تک سڑ جائیں گی
یہاں مرنے کے بعد بھی تم قید رہو گے
تمہاری روح پر قبضہ کر کے اسے قیدی بنا لیا جائے گا
تم آزادی کو ترسو گے
ایک بار پھر سوچ لو ”
‘ میں تھوکتا ہوں تمہاری پیش کش پر،
دفع ہوجاؤ میری نظروں سے دور ہوجاؤ
تمہارے حوالے سفید جادو کرنے سے بہتر ہے میں اسے ضائع کر دوں ‘
” افسوس ”
اسنے ایک لمبی ہوں بھری،
” تم نادان ہو ابھی جذبات میں ہو
تمہیں تین دن کی مہلت دی جاتی ہے
اسکے بعد تمہاری روح بھی ہماری قید کے عذاب سے پناہ مانگے گی
ہاں اگر تم تین دنوں میں اپنا فیصلہ بدل لیتے ہو تو تمہیں جہاں تمہارا دل چاہے گا پہنچا دیا جائے گا ”
اسکے ساتھ ہی وہ ہلکا پھلکا دھواں غائب ہوگیا
ایک لمحے کو میرے دل میں خیال آیا کہ سب کچھ انکے حوالے کر کے اپنی نارمل زندگی جینا شروع کر دوں
لیکن اگلی سچائی کافی خطرناک تھی
جو بھی سفید جادو کسی کے حوالے کرتا ہے،
وہ اس وقت تک کارآمد نہیں ہوتا جب تک دینے والے کو لینے والا اپنے ہاتھوں سے نا قتل کر دے۔
حرافہ!
میرے دل کی گہرائیوں سے سے نکلی اس گالی نے میرے منہ تک آتے دم توڑ دیا کیونکہ اسی وقت دیوار ایک طرف کھسکنے لگی تھی
سامنے دوبارہ وہی موجود تھی
لیکن اس بار کپڑے تبدیل تھے
‘ کیوں! تین دن کی مہلت ابھی سے ختم ہوگئی؟ ‘
تم تین دن کو رو رہے ہو یہاں سالوں کی مہلت لمحوں میں ختم ہوجاتی ہے
یہ جادونگری ہے
تمہاری معمولی دنیا نہیں
اسی دوران اسنے ایک لپٹے ہوئے کاغذ کو میری طرف اچھال دیا
میں نے حیرت سے وہ کاغذ کھولا
وہاں چند سطریں تحریر تھیں
”
میں لیلی نہیں ہوں
میرا نام ماہ نور ہے
میں وہی ہوں جس سے تمہاری پہلے دن ملاقات ہوئی تھی
میں تمہاری خیر خواہ ہوں
جیسے تم یہاں قید ہو ویسے میں بھی یہاں قید ہوں
بس میں نے انکی غلامی قبول کر لی ہے اس لیے مجھے کچھ آزادیاں حاصل ہیں
یہاں ہونے والی تمام باتیں یہ جادوئی کمرہ سن رہا ہے
اس لیے اپنی کسی بات سے ظاہر نا ہونے دینا کہ میں نے تم سے کوئی خفیہ رابطہ کیا ہے
”
خیر یہ شاید کوئی نیا ڈرامہ تھا
سوچا اگر یہ لوگ ڈرامہ کر رہے ہیں
تو مجھے کیا فرق پڑتا ہے
میں بھی انکے ڈرامے کا حصہ بن جاتا ہوں
شاید اس طرح کوئی اور راستہ نکل آئے
‘ یعنی اب میں اپنی دردناک موت کو قریب سمجھوں ‘
اسی دوران میں نے قلم کا اشارہ کر دیا تھا
اس نے قلم پھینکتے ہوئے کہا
”
تمہاری موت تو تمہاری پیدائش سے تمہارے قریب ہے
یہ تو میڈم کی مہربانی ہے کہ تم ابھی تک زندہ ہو
”
میں نے اس سے پوچھا کہ تم میرے لیے کیا کر سکتی ہو
اسی دوران ہماری دھمکیاں چلتی رہیں
اور میں اسے دکھاتا رہا کہ میں مرعوب ہو رہا ہوں
اسکے مطابق وہ یہاں سے نکلنے کا راستہ جانتی تھی
لیلی یہاں نہیں تھی
یہاں صرف “نِک” تھا
یہ ” نِک” کون ہے؟
اسنے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے اسے میری ذہنی صحت پر شک ہونے لگا ہو
ابھی جس سے تم بڑے مزے سے مار کھا رہے تھے
وہ ” نِک” ہے
لیکن اسکا مام تو “کُر” ہے
اوہو ” کُر” تو پہلے درجے کے جادوگر کو کہتے ہیں
وہ تیسرے درجے کا ہے اس لیے اسے ” نِک” کہتے ہیں
میں سوچ رہا تھا کہ عجیب گھن چکر ہے
خیر وہ آگے بتاتی رہی تھی کہ
“نِک” نے کل صبح کہیں چلے جانا تھا تو یہ جادوئی دنیا کافی حد تک ویران ہوجاتی
اور وہ یہاں اس لیے قید تھی کیونکہ وہ لیلی کی ہم شکل تھی
لیلی اسے اپنی جوانی کی نشانی سمجھ کے قید کیے ہوئے تھی
وہ باہر جا سکتی تھی لیکن وومرا سے ڈرتی تھی
کیونکہ وہ اسے کہیں سے بھی ڈھونڈ لیتی اور پھر اس پر جادوئی پانی پھیر دیا جاتا
جادوئی پانی ایک طرح کا تیزاب تھا
جو لاشوں کو حنوط کر دیتا تھا اور روحوں کو آزاد کر کے اسے جادوئی پانی ڈالنے والے کے قبضے میں دے دیتا تھا
پھر کیونکہ روح زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہوتی ہے اس لیے وہ پھر اپنی ساری زندگی اس سے کام لیتے رہتے
وہ جسم ساری زندگی جلتا تڑپتا رہتا
اسے آتما شانتی نصیب نہیں ہوتی
اب وہ بتا رہی تھی کہ میرے سفید جادو کی وجہ سے اس جادونگری میں ہلچل پائی جا رہی ہے
جادوئی دنیا کے بڑوں نے لیلہ کو دس دن کی مہلت دی ہے
اسکے بعد وہ مجھ پر جادوئی پانی پھیر دیتے
اور میری روح کو قبضے میں لے کر اس سے کام لیتے رہتے
کیونکہ میرے پاس سفید جادو تھا تو میری روح بھی سب سے زیادہ طاقتور ہوتی
جبکہ لیلہ چاہتی تھی کہ وہ کسی طرح مجھ سے سفید جادو وصول کر لے
اس لیے وہ آج دوپہر سے کہیں چلی گئی تھی
اسنے کہیں جا کر تین دن کا چلہ کاٹنا تھا
اس چلہ میں وہ اپنے پانچویں درجے کے کسی استاد جادوگر کی روح کو بلاتی
وہ اسے بتاتا کہ کس طرح وہ میری مرضی کے بغیر مجھ سے سفید جادو حاصل کر سکتی ہے
اب ماہ نور چاہتی تھی کہ وہ یہاں سے آزاد ہونا چاہتی ہے
لیکن وہ چاہتی ہے کہ آزادی کے بعد میں اس کے لیے اور اسکے گھر والوں کے لیے ایسے تعویذ بنا کر دوں جیسے میں نے پہنے ہوئے ہیں
تاکہ میں لیلہ اور اسکے چیلوں کے حملے سے محفوظ رہ سکوں
میں نے اس سے چند لمحے سوچنے کی مہلت مانگی
اسنے بتایا کہ وہ اب جا رہی ہے
اب کھانے پر ملاقات ہوگی
وہ اپنی اونچی ہیلز سے کھٹ کھٹ کرتی چلی گئی
اور اسکے باہر قدم رکھتے ہی دیواریں واپس سپاٹ ہوگئیں
کھانے کے وقت کا انتظار کرتے کرتے میرے پاس اتنا وقت تھا کہ میں اس منتر کو حفظ کر لیتا اور باقی خط مکمل پڑھ لیتا
میں نے خط نکال کر پہلے منتر کو یاد کر لیا
اسکے بعد خط کو آگے پڑھنا شروع کر دیا
”
وہ چلہ کافی خطرناک ہوگا
اسکی ساری معلومات اس تہ خانے میں رکھی کالے جادو کی کتاب میں درج ہونگی
اسکے ساتھ ہی وہ کتاب بہت اہم ہے اس میں بہت سارے اور جادو بھی دیے گئے ہیں
بیٹا میں تمہیں حق اور باطل کی جنگ میں نہیں پھینکنا چاہتا
ہمارا اور اس جادوئی دنیا کا کوئی مقابلہ نہیں ہے
اگر ہے تو اتنا کہ ہم زندہ رہنا چاہتے ہیں
اور وہ ہم سے یہ حق چھیننا چاہتے ہیں
لیکن یاد رکھو تم نے اپنے حق کے لیے لڑنا ہے
یہ حق تم سے کوئی نہیں چھین سکتا
اگر کوئی چھیننے کی کوشش کرے تو تم نے اس سے لڑنا ہے
یہی تمہارا حق ہے
اس دنیا میں طاقت کے ساتھ عقل بھی زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے
ہرن کی ٹانگوں میں بہت طاقت ہوتی ہے
اگر وہ بھاگتے وقت عقل کا دامن نا چھوڑے تو شیر بھوکا مر جائے
لیکن شیر عقل کا دامن تھام لیتا ہے اسے بھگاتا ہے اسے تھکاتا ہے
پھر اسے پکڑ لیتا ہے
تم نے شیر بننا ہے
جو طاقت میں کم تر ہو کر بھی ہاتھی کو پچھاڑ دیتا ہے
اور آخر میں بیٹا میں تم سے معافی مانگنا چاہتا ہوں
میرے کالا جادو سیکھنے کی خواہش نے تمہاری ماں کہ جان لے لی
ہو سکے تو مجھے معاف کردینا
”
کافی دیر تک میں روتا رہا
پھر اس خط کو دو تین بار چوما اور اسے جیب میں اڑس لیا
اس دوران پرسکون ہوگیا پھر
کچھ دیر غصے سے کھولتا رہا کہ اس جادوئی دنیا نے مجھے کیا دیا
چند طاقتیں اور بدلے میں اپنا پورا خاندان گنوا بیٹھا
اسی دوران دیوار ہلکی گڑگڑاہٹ کے ساتھ کھسک گئی
اور دیوار کی دوسری طرف خلاف توقع ماہ نور کی بجائے مجھے
“کُر” یعنی ” نِک” نظر آیا
میں فوراً اپنے قدموں پر کھڑا ہوگیا
اس وقت مجھے اسکا چہرہ زہر لگ رہا تھا
مجھے اپنے بابا کا خط بار بار یاد آرہا تھا
ساتھ میں آخری مار ابھی تک نہیں بھولا تھا
اب میں کوئی کمزور شخص نہیں تھا
بلکہ دنیا کے سب سے خطرناک جادو،
سفید جادو کا مالک تھا
وہ مجھے حیرت سے دیکھ رہا تھا
کیونکہ وہ جب مجھے چھوڑ کر گیا تھا
تب میں خون میں لت پت تھا
اب بالکل تندرست بلا خوف و خطر اسکے سامنے کھڑا تھا
اسنے ایک نگاہ غلط مجھ پر ڈالی اور اچانک دوڑ لگا دی
میں اسی جگہ رکا رہا نا کوئی ڈر نا خوف نا ہی جان بچانے کی کوئی آرزو
اسنے مجھ سے تھوڑا دور پہنچ کر الٹی قلابازی کھائی
اور اسکے دونوں پاؤں میرے سینے سے جا ٹکرائے
مجھے ہلکا سا جھٹکا لگا اور میں ایک دو قدم اپنی جگہ سے پیچھے چلا گیا
جبکہ وہ چلاتا ہوا نیچے گر پڑا
کچھ دیر میں اسلے اگلے وار کا انتظار کرتا رہا
پر وہ کچھ دیر یونہی پڑا رہا پھر اٹھ کر دیوار کے پاس چلا گیا
اس دوران دروازہ کھلا ہوا تھا پر میرا فرار ہونے کو دل نہیں کر رہا تھا
میں خاموشی سے اسے گھورتا رہا
اسکی آنکھوں میں اب غصے کے ساتھ ساتھ پریشانی بھی جھلک رہی تھی
اسنے وہیں کھڑے کھڑے اپنے ہاتھ ہلائے
اور کافی سارے پتھر میری طرف سفر کرنے لگے
میں نے ڈر کے مارے اپنے بازو چہرے کے اوپر کر لیے
کچھ دیر تک کچھ نا ہوا تو ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں
میرے جسم سے تھوڑا دور سارے پتھر بکھرے پڑے تھے
میرے ذہن میں میرے بابا کا تعویذ یاد آیا
میرا دل اور چوڑا ہوگیا
اسنے جُھلا کر دوبارہ وار کیا
اس بار میں نے ایک بار منتر پڑھ کر پھونک دیا اور ایک آگ کا گولہ میرے ہاتھ کے اوپر چمکنے لگا
میں نے ہاتھ کا اشارہ کیا تو وہ سیدھا اسکی طرف بڑھنے لگا
اور اسکی طرف سے آنے والے تمام پتھروں کو نگل گیا اور اب وہ ” نِک” کی طرف بڑھ رہا تھا
اسنے ایک دو منتر پڑھ کر پھونکے تو اسکے ہاتھوں سے پانی کے گولے نکلے۔
لیکن وہ گولے آگ والے گولے کی حدت کم نا کر سکے
جب وہ گولا اسکے کافی قریب پہنچا تو اسنے کھسکی ہوئی دیوار کی وجہ سے بننے والے دروازے سے باہر چھلانگ لگادی تھی
اسکے چھلانگ لگاتے ہی دیوار فوراً سپاٹ ہوگئی
اور گولا جو باہر کی طرف لپک رہا تھا وہ سیدھا دیوار سے جا ٹکرایا
دیوار سے ٹکراتے ہی ہر طرف اندھیرا پھیل گیا
ہر طرف سے ایسی آوازیں آنے لگی تھیں جیسے کوئی میت پر بین کر رہا ہو
میں اندھیرے میں ٹٹولتا ہوا آگے بڑھا
کچھ دیر چلا تھا کہ مجھے احساس ہونے لگا کہ میں کمرے کے احاطے سے باہر تھا
اسی دوران مجھے ماہ نور کی چلاتی ہوئی آواز سنائی دی
میں نے آگ والا منتر پڑھا اور آدھی مٹھی کھول کر ہاتھ کو اوپر اشارہ کیا
میرے اردگرد ساری جگہ روشن ہوچکی تھی
عجیب قسم کا ویرانہ تھا کمرے کا نام و نشان تک نہیں تھا
اسی دوران مجھے ماہ نور کی آواز سنائی دی
وہ مجھے پکار رہی تھی
میں اسکی آواز کی سمت بڑھا
وہ آگے نظر آگئی تھی
آج تم نے کمال کر دکھایا
پوری جادوئی دنیا میں ہلچل مچا دی ہے
ایک طرف جہاں وومرا یہاں نہیں ہے
وہیں اسکے خاص چیلے “نِک” کر ہرا کر،
جادونگری کی بنیاد میں دراڑ ڈال دی ہے
میں سے سوچنے لگا کہ یہ “نِک” کون ہے
پھر یاد آیا کہ “کُر” ہی نک ہے
یہ جادوئی دنیا بھی عجیب گھن چکر تھی
ایک طرف “شُق” پہلے دشمن بن کر سامنے آیا اور وومرا دوست بن کر،
پھر پتا چلا کہ “شُق” ہی اس دنیا میں میرا واحد دوست ہے اور وومرا ہی سخت ترین دشمن ہے
اب ماہ نور مجھے عجیب عجیب راستوں سے لے کر آگے بڑھ رہی تھی
ایک جگہ پر بڑا سا احاطہ بنا ہوا تھا
چاروں طرف اونچی اونچی جگہ تھی
اور اوپر سے بند تھی
ایک دراڑ نما دروازہ تھا جہاں سے آگے بڑھا جا سکتا تھا
وہاں تک پہنچے تو ایک دم سے کہیں ایک کالا آدمی سامنے آگیا
اسکی سخت کڑک آواز سنائی دی
” جادوئی دنیا کے فوری النافذ اصولوں کے مطابق یہاں سے کوئی شخص باہر نہیں جا سکتا ”
‘میرے راستے سے ہٹ جاؤ ورنہ میں تمہارا بہت برا حشر کرونگا’
وہ ہنسنے لگا
نادان انسان میں تین تک گنوں گا
اسکے بعد کوئی مہلت نہیں ملے گی
یہ کہہ کر اسنے گنتی شروع کر دی،
ایک۔۔۔۔۔۔۔ دو۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی دوران میں نے منتر پڑھ لیا تھا
اس کے تین کہتے ہی
ایک آگ کا گولہ اسکی طرف پھینکا جسنے اسے لپیٹ میں لے لیا
اور عجیب قسم کی آگ میں وہ گھر گیا تھا
وہ چیخ چیخ کر میری منتیں کرنے لگا
اگر آگ بجھا دو گے تو میں تمہارا غلام بن کر جیوں گا
ماہ نور نے کہا
کیوں نا اسے موقعہ دیا جائے
ویسے بھی تمہارا کوئی جاں نثار نہیں ہے
ٹھیک ہے کہتے ہوئے میں نے آگ کا منتر پڑھ کر آگ اٹھا لی اور روشن کر لی
وہ کالا آدمی میرے قدموں میں جھک گیا
میں نے اسے اٹھایا اور چلنے کو کہا
ہم اس دراڑ سے باہر نکلے
تو میں نے سوچا کہ پہلے گاؤں جانا ہے
اس لیے ہوا میں اڑنے والی گنتی میں منتر پڑھا
اور ان دونوں کے ہاتھ پکڑ لیے
ابھی ہلکا سا اٹھے ہی تھے
کہ کسی کے سخت پنجے میرے پاؤں سے ٹکرائے
اور ایک دھڑام سے میں کسی دیوار سے جا ٹکرایا
*
کہا جاتا ہے
ایسی کوئی جوانی نہیں
جس کی کوئی کہانی نہیں
میرا نام آبان (کہانی کے پیش نظر نام تبدیلی ضروری ہے) ہے
چھوٹی موٹی کہانیاں لکھ لیتا ہوں
لیکن اپنی کہانی لکھنے کی ہمت نہیں پڑی
عام انسانوں کی طرح میری کہانی بھی محبت سے شروع ہوتی ہے
وہی دو دلوں کا ملنا
پھر ظالم سماج اور بچھڑنا
میرا بی ایس سی کا رزلٹ آچکا تھا
اب مختلف یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے اپلائی کرنا تھا
سب سے پہلے نمبر پر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی تھی
اسکی وجہ یہ تھی کہ وہ میرے شہر میں تھی
دوسرے نمبر پر پنجاب یونیورسٹی یونیورسٹی تھی
لیکن میرٹ بہت زیادہ اوپر ہونے کی وجہ سے وہاں داخلہ ملنا لگ بھگ ناممکن تھا
تو پنجاب کو تیسرے نمبر پر رکھتے ہوئے
جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کو دوسرا آپشن بنایا
اور رخت سفر باندھ کر نکل پڑا
ملتان اپلائی کرنے کے بعد فیصل آباد جا پہنچا
حالانکہ آنلائن اپلائی کرنے کی سہولت موجود تھی
لیکن سوچا تھوڑا سا گھومنے پھرنے میں حرج ہی کیا ہے
خیر جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں اپلائی کرتے ہوئے پتا چل چکا تھا کہ پنجاب کے داخلے ابھی شروع نہیں ہوئے
لیکن قدرت کا فیصلہ تھا جو مجھے لاہور پکار رہا تھا
میں نے سوچا جب یہاں تک آہی گیا ہوں تو زندگی میں پہلی بار لاہور بھی دیکھتا جاؤں
وہ اگلا دن تھا جی سی لاہور کا پراسپیکٹس لے کر اسکا فارم تو بھر لیا تھا
پر اپلائی کرنے کے لیے تذبذب کا شکار تھا
کیونکہ جی سی میں فزکس نہیں تھی
ریاضی میں میرا دل نہیں مان رہا تھا
خیر اسی وقت ایک خوبصورت آواز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا
ایکسکیوز می!
یس،
کیا آپ فارم فِل کرانے میں میری مدد کر دیں گے
ہاں کیوں نہیں
میں نے اسے فارم مکمل کروایا
باتوں ہی باتوں میں پتا چلا کہ وہ کراچی کی ہیں
ہاں جی چلیں جمع کہاں ہوتے ہیں؟
اب جمع کراتے ہیں
نہیں،
کیوں نہیں؟
ابھی جمع کرانے سے پہلے کچہری سے حلف نامہ بنوانا پڑے گا
تو چلیں وہی بنواتے ہیں
میرا دل نہیں کر رہا میتھ میں داخلہ لینے کے لیے
میں فزکس کا سوچ کر آیا تھا
لو جب پراسپیکٹس لے لیا تو اپلائی بھی کر دیں
وہی بات میتھ میں داخلہ لینے کو دل نہیں مان رہا
میرے ساتھ بھی نہیں!
اسکی ادا میں ایسی شرارت تھی
کہ میں محبت کر بیٹھا
آپکے ساتھ تو ہزار بار میرے دل نے جواب دیا
آپکے ساتھ زہے نصیب کیوں نہیں
چلیں حلف نامہ بنواتے ہیں
وہ قلقاریاں مار کر ہنسنے لگی
اسکی نقرئی ہنسی دل میں اتھل پتھل کرنے لگی تھی
چلیں پروفیسر صاحب،
وہ واحد لڑکی تھی جس نے مجھے پروفیسر کا لقب دیا تھا یا نک نیم کہہ سکتے ہیں
کچہری وہاں سے دو تین منٹ کے فاصلے پر تھی
وہاں پہنچنے تک ہم ایک دوسرے کے بارے میں کافی حد تک جان چکے تھے
کچہری پہنچے تو آگے بہت رش تھا
اور ہر طرف مرد ہی مرد نظر آرہے تھے
تم یہی رکو
میں حلف نامے بنوا کر لاتا ہوں
کس کس سے بچاؤ گے ہر جگہ تو مرد ہیں
میرا بس چلے تو سب کو اندھے چشمے پہنا دوں
میں نے بھی مذاق میں دل کی بات کہہ دی
چلیں پروفیسر
اب جائیں وقت ضائع نا کریں
کچہری میں آدھا گھنٹے سے زیادہ وقت لگ چکا تھا
خیر حلف نامے بنوانے کے بعد باہر نکلا تو میرا دماغ گھوم گیا
وہ غائب تھی
ظفر اقبال کی شاعری میں فنی اور لسانی خامیاں
ظفر اقبال کی شاعری اردو ادب میں جدیدیت اور انفرادیت کی مثال سمجھی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں جدید...