تمہارے بابا کے وہاں پہنچے تک وومرا وہاں سے جاچکی تھی۔
وہاں پر موجود چند عورتیں تمھیں منحوس منحوس اور کالا جادو کالا جادو کا وردان کرتے ہوئے بھاگ گئیں۔
تمھارے بابا اندر گئے اور تمھاری ماں کی حالت دیکھ کر شاید کچھ کر بیٹھتے پر تمھاری رونے کی آواز سن کر انھوں نے خون کا گھونٹ پی لیا۔
اور وہ انھوں نے تمہاری پرورش ہی اپنا پہلا مقصد بنا لیا۔
اسی دوران وہ وومرا سے لڑنے کی تیاری کرنے لگے۔
کچھ عرصے بعد وہ کالے جادو کا ایک نیا منتر یا چلہ کرنا شروع کر دیتے۔
بستی والے تمھیں تو منحوس کہتے ہی تھے انھیں تمھارے بابا کے بارے میں شک ہوگیا کہ وہ کالا جادو جانتے ہیں۔
اس لیے گاؤں کے مکھیا نے انکو گاؤں سے چلے جانے کا کہا۔
وہ تمہیں لے کر تمہارے موجودہ گھر میں چلے گئے۔
اور پھر انکی اور وومرا کی سرد جنگ چھڑ گئی۔
تمھارے بابا خود کو سفید جادو کی مدد سے بچا لیتے تو وومرا خود کو کالے جادو سے۔
وومرا کو تمہاری ماں کو مارنا کافی تھا۔
اس سے وہ تمہارے بابا کو یہ سمجھا گئی کہ وہ کبھی بھی اسکے بیٹے کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔
وہ تمہارے ذریعے تمہارے بابا کو مجبور کرنا چاہتی تھی۔
پھر تم جب کچھ بڑے ہوگئے تو تمہارے بابا نے تمہارے اوپر کچھ پڑھا جس کی وجہ سے وومرا تمھیں چھو بھی نہیں سکتی تھی۔
وومرا نے اب بہت زور لگایا پر تمہارے بابا کیا مجبور ہوتے وہ تو تم تک پہنچنے سے بھی رہی۔
اب تمہارے بابا نے تمھیں اپنی اور وومرا کی جنگ سے دور رکھنے کے لیے تمھیں شہر پڑھنے کے لئے بھیج دیا۔
وومرا نے کافی زور لگایا، تمہارے بابا کو اپنے حسن کی لالچ دی پیسوں کی غرض ہر چیز کی لالچ دی پر انھوں نے نا ماننا تھا تو وہ نہیں مانے۔
پھر کچھ عرصے خاموشی چھا گئی۔
تمہارے بابا نے مجھے بھی شہر بھیجا تھا کہ میں تمہاری حفاظت کرتا رہوں۔
میں نے ہر وقت تمھارے اوپر نظر رکھنا شروع کر دی۔
بہت عرصہ ہوگیا تھا۔
ہمیں وومرا کی شکل تو دور اسکا نام بھی نہیں سنائی دیا۔
یوں سمجھو ہم اسے کافی حد بھلا چکے تھے۔
پر تمہارے بابا تمہاری ماں سے بہت پیار کرتے تھے۔
ہر وقت انھیں یاد کرنا ہی انکا مقصد تھا۔
کالے جادو میں بڑی طاقت ہے۔
یہ تمھیں ہوا میں اڑا سکتا ہے تمھیں سب کے سامنے غائب کر سکتا ہے۔
تمھاری ہر خواہش اسکے ذریعے پوری ہو سکتی ہے۔
پر تمھیں پتا ہے یہ تم سے تمہارا سکون چھین لیتا ہے۔
تم سونا چاہو گے پر نیند کوسوں دور ہوگی۔
تم نیند سے آنکھ مچولی کرتے کرتے نیند کی وادی میں چلے جاؤ گے پر وہ سکون نہیں محسوس کر سکو گے جو تم اب سو کر کرتے ہو۔
ہر دم کسی دوسرے جادوگر کے ہاتھ موت کا خطرہ موجود رہتا ہے۔
تمہارے بابا کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا۔
وہ بیماریوں میں گِھر گئے۔
بڑھاپا وقت سے پہلے ان تک آن پہنچا۔
سفید جادو سے انکو اپنی موت کا علم ہوچکا تھا۔
ایک دن انھوں نے مجھے اپنے پاس بلایا۔
ان کی وہ شکل ہی نہیں تھی جو پہلے تھی۔
مجھ سے کہنے لگے کہ آج سفید جادو نے بتا دیا ہے کہ میرا بلاوہ آن پہنچا ہے۔
اب سفید جادو میرے کسی کام کا نہیں ہے۔
میں یہ قرض تمھیں دونگا لیکن اس سے پہلے ایک ضروری کام کر لوں۔
آؤ میرے ساتھ،
وہ مجھے اپنے گھر کے نیچے تہ خانے میں لے گئے۔
یہ تہ خانہ انھوں نے خود اپنی جادوئی طاقتوں سے بنوایا تھا۔
وہ مجھے اس میں لے گئے۔
کچھ دیر تک خاموش رہنے کے بعد انھوں نے مجھ سے کہا،
آفتاب کو جب تک ہوسکے جادوئی دنیا سے باہر رکھنا۔
لیکن ایک دن آئے گا جب یہ کالی دنیا اسے خود بلائے گی۔
تب آفتاب کے پاس کچھ بھی نہیں ہوگا۔
تو اس وقت کے لیے میں اپنی طاقتیں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔
اور اس وقت تمھیں آفتاب کا ساتھ دینا ہوگا۔
پھر انھوں نے مجھے سفید جادو کا ایک منتر پڑھنے کو کہا اور خود بھی کچھ پڑھتے ہوئے اس کمرے کی دیواروں پر پھونکیں مارنے لگے۔
کچھ دیر بعد وہ ایک میز کے گرد چلے گئے۔
وہاں جا کر انھوں نے جیب سے ایک سکہ نکالا جو کہ سونے کا تھا اور اسے میز پر رکھ دیا۔
پھر اسی میز کے ایک کونے پر بیٹھ گئے۔
اور اپنی ہاتھ کی ایک نبض کاٹ دی اور اس سکے کو خون سے بھگانے لگے اور کچھ پڑھنے لگے۔
حیرت انگیز طور پر وہ سکہ سارا خون اپنے اندر جذب کر رہا تھا۔
تمہارے بابا کافی کمزور ہوچکے تھے۔
اب اگر اسی رفتار سے خون گرتا رہتا تو زندہ رہنا مشکل ہوجاتا۔
میں نے آگے بڑھ کر انھیں روکنا چاہا پر انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روک دیا۔
کافی دیر تک وہ اپنا خون گراتے رہے اور کچھ پڑھتے رہے۔
پھر اچانک خون رک گیا۔
تو انکے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔
وہ پسینہ پسینہ تھے۔
انکا چہرہ زرد ہوچکا تھا۔
وہ میز سے نیچے اترے تو لڑکھڑا گئے۔
میں نے آگے بڑھ کر انکو سنبھالا۔
وہ مجھے تہ خانے سے باہر لے گئے۔
میں نے انکو ایک چارپائی پر لٹایا۔
تب انھوں نے کہا کہ یہ تہ خانہ اب محفوظ ہوچکا ہے۔
اب اس میں آفتاب اور تمھارے علاوہ کوئی داخل نہیں ہوسکتا۔
مگر سوائے اسکے جسے تم خود اندر لے جاؤ۔
جب آفتاب کو جادوئی دنیا میں قدم رکھنے پر مجبور کر دیا جائے گا۔
تب اسے جادو کی ضرورت پڑے گی۔
اور میں نے اپنا تمام جادو اس سکے میں رکھ دیا ہے۔
وہ سارا خون جو نکل رہا تھا وہ میرا کالا جادو تھا جو میں نے اس سکے میں منتقل کر دیا ہے۔
اب میرے پاس صرف سفید جادو بچا ہے۔
جب آفتاب کو جادو کی ضرورت پڑے گی اسے کہنا کہ وہ اس سکے کو نگل لے گا۔
میرا تمام جادو اسے مل جائے گا۔
لیکن اس وقت تک جب تک سکہ اسکے اندر رہے تب تک، اگر وہ نکال لیا گیا تو جادو ختم ہوجائے گا۔
اور ہاں یہ سکہ صرف آفتاب استعمال کر سکتا ہے کسی اور کے لیے وہ سکہ بیکار ہے۔
اور یہ کمرہ جس میں سکہ ہے ہمیشہ محفوظ رہے گا۔
پھر تمہارے بابا کی سانس اٹکنے لگی۔
میں نے انھیں پانی پلایا کچھ دیر بعد انکی طبیعت سنبھلی تو انھوں نے منہ میں کچھ پڑھا اور میرے طرف پھونک مار دی۔
اور اس وقت انھوں نے مجھ پر بہت زیادہ ظلم کیا۔
وہ اپنا سفید جادو مجھے دے چکے تھے۔
اب انھوں نے کہا کہ میں انکو مار دوں۔
پر میں یہ کیسے کر سکتا تھا۔
اسی دوران وومرا کا قہقہہ فضا میں گونجا۔
وہ میرے پیچھے کھڑی تھی۔
اسکی آواز گونجی کہ میں اس پل کا کب سے انتظار کر رہی تھی۔
کہ تم کسی کو اپنا سفید جادو دو تمھاری طاقتیں ختم ہوں اور میں اپنا بدلہ لوں۔
آج وہ پل آگیا۔
تمھارے بابا کے پاس اب کوئی طاقت نہیں بچی تھی۔
انھوں نے مجھے کہا کہ میں انھیں مار دوں پر میں ہچکچا رہا تھا۔
اسی دوران وومرا نے کچھ پڑھ کر تمہارے بابا کے اوپر پھونکا اور انکے ساتھ بھی وہی ہوا جو تمہاری ماں کے ساتھ ہوچکا تھا۔
انکو بھی پیروں سے نیلی آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
میں نے اپنا سارا زور لگایا پر وہ آگ نہ بجھا سکا۔
وہ آگ پھیلتی ہوئی اوپر کی طرف جانے لگی۔
میں نے وومرا پر اپنے کچھ جادو استعمال کیے پر اسے کچھ اثر نہیں ہوا۔
وہ پہلے سے بھی زیادہ طاقتور ہو چکی تھی۔
الٹا اسنے اب میرے اوپر جادوئی وار کیا پر وہ میرا کچھ نہ بگاڑ سکی۔
کیونکہ تمھارے بابا کا دیا ہوا تعویذ میرے گلے میں موجود تھا۔
اسی دوران تمھارے بابا مجھے چیخ چیخ کر انھیں خنجر سے مارنے کا کہہ رہے تھے۔
آگ انکی ناف تک پہنچنے والی تھی۔
اب اگر وہ اور اوپر جاتی تو مجھے دیا ہوا سفید جادو بے کار ہوجاتا۔
اب انھوں نے مجھے تمھارا واسطہ دیا کہ اگر میں نے انھیں نہ مارا تو آفتاب مارا جائے گا۔
بس پھر میں نے وہ کیا جو مجھے نہیں کرنا چاہیے تھا۔
میں نے ایک قرض لے لیا۔
وہ تمھارا قرضہ تھا۔
اب وہ وقت آیا ہے کہ میں تمھیں تمھارا قرضہ واپس دوں اور تم مجھے مار کر اپنے بابا کی موت کا بدلہ بھی لو۔
آفتاب یہاں پہنچ کر خاموش ہوگیا۔
میں نے اسکے چہرے کی طرف دیکھا تو وہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔
میں نے کچھ دیر خاموش رہنا مناسب سمجھا کہ وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرلے۔
کچھ دیر بعد وہ پھر بولنے لگا،
“شُق” یہاں پہنچ کر زور زور سے رونے لگا تھا۔
میرا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔
پھر اسے کھانسی کا دورہ پڑا اور اسے خون کی قے آگئی۔
اسنے ساتھ پڑے کپڑے سے اپنا منہ صاف کیا پانی سے کلی۔ کی اور پھر مجھ سے اچانک ایک سوال پوچھا۔
تمھیں پتا ہے ساری زندگی تمھارے دل میں جادو کا خیال تک نہیں آیا۔
اور پھر اچانک تین سال پہلے تمھارے دل میں جادو سیکھنے کی شدید لہر اٹھی۔
میرا جواب نفی میں تھا۔
میرا جواب سن کر “شُق” نے کہا کہ یہ سب وومرا کا کیا دھرا تھا۔
تمھارے بابا کی موت کے بعد وومرا پاگل ہوگئی تھی۔
اسنے مجھ پر کئی حملے کیے پر اب وہ مجھے جادو سے کچھ نہیں کر سکتی تھی۔
سب کوششیں ناکام ہوئیں۔
اسنے جب اپنا جادوئی وار خالی ہوتے دیکھا۔
تو اسنے شہر کے چند غنڈوں کو مجھے مارنے کے لیے بھیجا۔
وہ جادو کی وجہ سے میرے گھر کے اندر تو داخل نہیں ہو سکے پر انھوں نے باہر پوزیشنیں بنا لیں تھیں۔
میں ایک دن باہر نکلا تو میری گاڑی پر فائرنگ ہونے لگی۔
میری زندگی ابھی باقی تھی بچ گیا۔
تب میں نے شہر کے چند نامور غنڈوں کو منہ مانگی رقم دے کر انھیں اپنی حفاظت کے لیے رکھ لیا۔
آج تم نے نوٹ کیا ہوگا انکے چہرے کافی سوگوار ہیں۔
وہ اسی لیے ہیں کہ انھیں بتا دیا گیا ہے کہ آج میں نے مر جانا ہے۔
خیر وومرا نے جب اپنے تمام وار خالی جاتے دیکھے۔
تو اسے تمھاری یاد آئی۔
وہ تمھیں چارہ بنا کر مجھے پھنسانا چاہتی تھی۔
لیکن اسے پتا نہیں تھا کہ میر ایک آنکھ ہمیشہ تمھارے اوپر رہتی ہے۔
جب مجھے پتا چلا کہ تم جادو سیکھنے نکل پڑے ہو۔
تو مجھے پتا چل گیا۔
کہ یہ سب وومرا کا کیا دھرا ہے۔
وہ تمھیں میری طرف بھیجنا چاہتی تھی۔
پر میں تمھیں دوسری جگہ پہنچا دیتا۔
ایک دن میں کچھ دیر مصروف رہا جب تمھاری خبر لی تو پتا چلا کہ تم میرے اڈے کے سامنے موجود ہو۔
اب اگر میں تمھیں واپس بھیجتا تو اسے لازمی شک پڑ جاتا۔
اس لیے میں نے تمھیں بلا لیا۔
اور کچھ دن جادو سے تمھارا دماغ لاک کر دیا۔
اور پھر تمھیں بھگا دیا کہ اب وومرا تمھیں تنگ نہیں کر سکے گی۔
پر وہ کسی بھی طرح پیچھے نہیں ہٹنا چاہتی تھی۔
اسنے دوبارہ تمھیں بھیجا میں تمھیں واپس بھیج دیتا پر اسی دوران مجھے اپنی موت کا پتا چلا۔
اور پھر میں نے تمھیں اندر بلوایا۔
میری عمر کم رہ گئی ہے اس لیے مجھے اب سب بتانا تھا۔
اب سفید جادو کی امانت تمھیں سونپنی ہے۔
لیکن مجھے جادو کے لیے اکسانے کا سبب کیا تھا؟
یہی کہ وہ میری زندگی میں میرے اوپر قابو تو نہیں پا سکتی تھی۔
پر وہ سوچتی ہے کہ وہ شاید تم پر قابو پا لے گی۔
مگر مجھے امید ہے وہ ضرور تمھارے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچے گی۔
پھر اسے کھانسی کا دورہ پڑا تو “شُق” بڑی مشکل سے سنبھلا۔
وہ کچھ دیر چپ رہا اور یکایک میرے اوپر پھونک مار دی۔
مجھے ایسے لگا جیسے میرے اندر برف داخل ہو گئی ہے۔
پھر اسنے ایک تعویذ نکالا اور مجھے بازو پر باندھنے کا کہا۔
میں نے وہ بازو پر باندھا۔
تو اسنے کہا کہ اب سارا سفید جادو میں نے تمھارے اندر بھیج دیا ہے۔
لیکن وہ ابھی تک کسی کام کا نہیں ہے۔
جب تک تم مجھے مارو گے نہیں۔
اب میں تمھارے بابا کا دیا ہوا تعویذ اتار رہا ہوں۔
جیسے ہی وہ تعویز اتاروں تم نے مجھے مار دینا ہے اور تعویذ اپنے گلے ڈال لینا ہے۔
کیونکہ تعویذ اتارتے ہی وومرا کو پتا چل جائے گا۔
چلو اب مارو مجھے۔
میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔
“شُق” نے غصے سے بولا مارو اور اپنا تعویذ اتار کر میری جھولی میں پھینک دیا۔
میں نے کہا نہیں میں نہیں ماروں گا۔
“شُق” کی نظروں میں التجا ابھر آئی وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ،
اسی دوران ماہ نور عرف لیلی عرف وومرا کا کڑکتا ہوا قہقہہ سنائی دیا۔
ظفر اقبال کی شاعری میں فنی اور لسانی خامیاں
ظفر اقبال کی شاعری اردو ادب میں جدیدیت اور انفرادیت کی مثال سمجھی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں جدید...