احسان صاحب اپنے چھوٹے بھائی کو دیکھتے ہی ان کے گلے لگ گئے سلمان صاھب اور جہانزیب دونوں اپنی اپنی جگہ حیران تھے میرے بھائی مجھے معاف کردے میں بہت برا ہوں میں نے بہت برا کیا تم لوگوں کے ساتھ انہوں نے ہاتھ جوڑ دیے
میری بیٹی کہاں ہے سلمان صاھب نے بس اتنا ہی پوچھا
میری بھی تو وہ کچھ لگتی ہے نہ میرے بھائی میں نے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچایا میں تو بس تمھیں یہاں بولانا چاہتا تھا تاکہ تم سے معافی مانگ سکوں مجھے معاف کردو سلمان معاف کر دو
سلمان صاھب اتنے پتھر دل نہ تھے کہ انکا بھائی ان سے یوں معافی کی بھیک مانگے اور وہ اسے معاف نہ کریں
سلمان صاھب نے انکے جڑے ہووے ہاتھ کھول دیے اور انکے گلے لگ گئے خدیجہ بیگم اب بھی رو رہیں تھی پر اب کی بار یہ خوشی کے آنسو تھے انہوں نے تو کبھی کسی کا برا نہیں چاہا تھا پر اپنے شوہر کو ظلم کرنے سے روک بھی نہیں سکیں تھی تبھی کمرے میں دانش اور کشمالہ داخل ہووے تھے جہانزیب اور سلمان صاھب دانش کو وہاں دیکھ کر حیران ہوگئے
جہانزیب کو بلکل سمجھ نہیں آ رہی تھی کے یہ کیا ہو رہا ہے کشمالہ فوراً سلمان صاھب کے گلے لگ گئی
تیری بیٹی تو بہت پیاری ہے سلمان احسان صاھب نے کہا
سلمان صاھب نے پیار سے اپنی لاڈلی کا ماتھا چوم لیا
اب بس جلدی سے کشمالہ بیٹی کو دانش کے ساتھ رخصت کر دے تاکہ تیرے آنگن کی کلی میرے گھر کو بھی مہکا سکے احسان صاھب نے خوشی سے کہا
یہ الفاظ عام طور پر کسی لڑکی کو شرمانے پر مجبور کر دیتے ہیں پر یہاں کچھ بھی عام سا نہیں تھا
ان الفاظ نے اس کمرے میں مجود دو نفوس پر بہت شدت سے حملہ کیا تھا جیسے الفاظ نہیں بلکہ کانٹے ہوں جنہوں نے نہ صرف ان کے جسم کو زخمی کیا بلکہ دل کو بھی بہت درد دیا
ہاں وہی دو نفوس شہزادہ اور اسکی شہزادی
دانش تمہارا بیٹا ہے? سلمان صاھب نے حیرانی سے پوچھا
ہان پر کیا تم دانش کو پہلے سے جانتے ہو سلمان صاھب نے سر ہلا دیا
کشمالہ کو جو بات سمجھ آ رہی تھی وہ اس پر یقین نہیں کرنا چاہ رہی تھی اس نے سوالیہ نظروں سے پہلے سلمان صاھب اور پھر دانش کو دیکھا لیکن دونوں کی نظریں جھکی ہوئیں تھیں کمرے میں اک عجیب سی خاموشی پھیل گئی
احسان صاھب نے اس خاموشی کو توڑا سلمان بچی کو بتاؤ تو سہی کے میں کون ہوں بیچاری حیران ہوگی کہ میں کن لوگوں میں آ گئی
بیٹا یہ تمہارے تایا ہیں اور یہ تائی اور دانش تمہارا کزن ہے سلمان صاھب نے بتایا اور تم ہماری پیاری سے بھتیجی اور ہمارے بیٹے کی منکوحہ خدیجہ بیگم نے آگے بڑھ کر اسے پیار کرتے ہووے کہا
کشمالہ کی آنکھوں میں پانی بھر گیا درد کی شدت بھی تو زیادہ تھی
اس نے اپنی کالی پر آنسوں سے بھری آنکھیں سے ان ہیزل براؤن آنکھوں کو دیکھا اسے آج پھر ان آنکھوں میں شکایت نظر ائی
جہانزیب کو اپنی آنکھوں میں جلن سی محسوس ہوئی آج پہلی دفع اس نے کشمالہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تھے پر وہ آگے بڑھ کر انہیں پونچھ نہی سکتا تھا
وہ اس وقت کچھ بھی کہنے کے قابل نہیں رہا تھا لہٰذا چپ چاپ وہاں سے واپس لوٹ آیا
کسی بھی چیز کے اوپر چھڑنا مشکل ہوتا ہے چاہے وہ سیڑھی ہو یا چاہے پہاڑ پر اترنا اتنا ہی آسان لیکن صرف محبت کی چوٹی اک ایسی چوٹی ہے جس پر چڑھنا بہت آسان ہے لیکن پھر اس چوٹی سے اترنا اتنا ہی مشکل
اب جہانزیب کو محبت نامی اس چوٹی سے جتنی جلدی ہو سکے اترنا تھا لیکن کیا خبر وہ اس میں کامیاب ہو بھی پاتا ہے یا نہیں کیوں کہ اس چوٹی پر چڑھتا تو انسان اپنی مرضی سے ہے لیکن پھر اتر اپنی مرضی سے نہیں سکتا
—————————————————————-
سلمان صاھب اور کشمالہ دوبارہ انے کا وعدہ کر کہ گھر واپس آ چکے تھے
کشمالہ گہری چپ کی زد میں تھی کیوں کے واپسی پر پاپا اس کو ساری بات بتا چکے تھے اور کس مجبوری میں نکاح قائم رکھنے کا وعدہ کیا تھا یہ بھی بتا دیا
اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ شکایت آخر کس سے کرے
گھر آ کر پاپا نے دادی کو بھی سب بتا دیا انکے پاس بیٹھی زہرا نے بھی سب سن لیا اک قیامت اس کے دل پر بھی آ کر گزری
کشمالہ اپنے کمرے میں آ کر بیٹھ گئی زہرا بھی اسکے پاس آ گئی کشمالہ اب تم کیا کرو گی زہرا نے پوچھا دانش تمھیں پسند کرتا ہے زہرا کشمالہ نے اسے دیکھ کر کہا زہرا نظریں چرا گئی پر میں تو اسے پسند نہی کرتی اس نے بہت ہمت کر کے کہا ہاں جیسے میں جہانزیب کو پسند نہیں کرتی ویسے ہی تم بھی تو دانش کو پسند نہیں کرتی کشمالہ نے طنز کرتے ہووے کہا
پر دانش نے کبھی مجھ سے نہیں کہا کشمالہ وہ اک اچھا شوہر ثابت ہوگا زہرا نے سمجھانے کی کوشش کی
ہاں زہرا وہ اک اچھا شوہر ثابت ہوگا پر میرے لئے نہیں تمہارے لئے کشمالہ نے تمہارے پر زور دیتے ہووے کہا
کشمالہ یہ سب تقدیر کے فیصلے ہیں جن کے سامنے تم اور میں بےبس ہیں نہ تمہارے چاہنے سے کچھ ہوگا اور نہ ہی میرے چاہنے سے
میری تدبیر میری تقدیر کو بدل دے گی زہرا تم دیکھ لینا کشمالہ نے کہا زہرا نے محض انشاللہ کہا اور چلی گئی اتنی ہمت دکھانے کے بعد اب وہ خود کو دل کے سامنے کمزور محسوس کر رہی تھی اس لئے اب تنہائی میں دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتی تھی
—————————————————————-
اگلے ہی دن سلمان صاھب دادی کو لے کر گاؤں چلے گئے کیوں کے دادی اب اپنے بیٹے کے مونھ سے ماں جیسا مقدس لفظ سننے کو بیقرار تھیں
کشمالہ نے انکے جاتے ہی دانش کو فون کر دیا دانش مجھے تم سے ملنا ہے آج ہی
۔۔۔ہاں ٹھیک ہے کشمالہ مجھے بھی تم سے بات کرنی ہے پھر اس نے اک ریسٹورانٹ کا نام بتایا اور ملنے کا ٹائم بتا کر فون بند کر دیا
کشمالہ اک دفع پھر نمبر ملا رہی تھی پر اس بار دانش کا نہیں جہانزیب کا
وہ اس سے بات کرنا چاہتی تھی پر وہ بات کیا کرے گی یہ سوچ کر اس کے نمبر ملاتے ہاتھ رک گئے
جہانزیب کی شکایت سے بھرپور ہیزل براؤن آنکھیں اس کی نظروں کے سامنے آ گئیں دل میں اک درد سا اٹھا وہ وہیں بیٹھ کر رونے لگ گئی جہانزیب اس میں آخر میرا کیا قصور ہے تم نے مجھے ان نظروں سے کیوں دیکھا تھا آخر کیوں وہ وہیں بیٹھ کر جی بھر کر روئی اس کے آنسو ختم ہو گئے پر درد ختم نہیں ہوا
—————————————————————
ہاں بولو کشمالہ تمھیں کیا بات کرنی تھی دانش نے پوچھا
وہ دونوں اس وقت اک ریسٹورانٹ میں بیٹھے تھے
تم نے پوچھا تھا کہ کیا تمھیں مجھ پر بھروسہ ہے اور میں نے ہاں میں جواب دیا تھا دانش پوری توجه کے ساتھ بات سن رہا تھا کشمالہ اک لمحے کے لئے رکی اور پھر اسکی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا
دانش کیا مجھے تم پر بھروسہ کرنا چاہیے
کشمالہ مجھے بھی اسی دن پتا چلا کہ تم میری کزن اور منکوحہ ہو میں اس دن اس لڑکی کو منع کرنے اور اپنی پسند بتانے ہی آ رہا تھا پر تمھیں دیکھ کر میں رک گیا تمھیں بتانے کی ضرورت نہیں تھی کہ میں کسے پسند کرتا تم جانتی ہو کہ میں زہرا کو پسند ہی نہیں کرتا بلکہ اس سے شدید محبت بھی کرتا ہوں
کشمالہ پرسکون ہو گئی
اور اگر میں زہرا کو پسند نہ بھی کرتا تو بھی میں تم سے شادی نہ کرتا کیوں کہ میں زبردستی کا قائل نہیں ہوں کشمالہ مسکرا دی
دانش تم بہت اچھے ہو
اسی پل مہرین جہانزیب کو لے کر انکی ٹیبل پر آ گئی جہانزیب کا موڈ کل سے بہت خراب تھا اسنے مہرین کو سب بتا دیا مہرین اسکا موڈ ٹھیک کرنے کے لئے زبردستی اسے لنچ کروانے لائی تھی اور اب دانش اور کشمالہ کو وہاں بیٹھا دیکھ انکی طرف کھینچ لائی تھی
لیکن کشمالہ کا کہا جملہ سن کر وہ مزید غصے میں آ گیا
کشمالہ فوراً اٹھ کر اسکے پیچھے گئی دانش چپ چاپ اسے جاتا دیکھتا رہا
ارے کیسے شوہر ہو تم تمہاری بیوی تمہارے سامنے اٹھ کر کسی غیر مرد کے پیچھے چلی گئی اور تم نے کچھ نہیں کہا مہرین کو کشمالہ کا اس طرح جہانزیب کے پیچھے جانا بلکل پسند نہی آیا تھا
وہ اس لئے مہرین صاحبہ کیوں کہ میں اور کشمالہ اک دوسرے کی پسند جانتے ہیں دانش نے اطمینان سے کہا
جہانزیب رک جایئں میری بات سنیں پلیز
کشمالہ جہانزیب کے راستے میں آ کر بولی
جہانزیب رک گیا پر نظر اٹھا کر اسے نہیں دیکھا
جہانزیب اپ جانتے ہیں کہ میں اپ سے پیار کرتی ہوں پھر اپ میرے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہیں
کیوں کہ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم کسی اور کی منکوحہ ہو جہانزیب نے تلخی سے کہا
جہانزیب یہ نکاح تب ہوا جب مجھے سمجھ نہیں تھی کشمالہ نے مدھم لہجے میں کہا ہاں مجھے بھی یہی لگا کے تم انکار کر دو گی پر نہیں تم تو اس شخص کے ساتھ ہوٹلنگ کر رہی ہو تم نے خودی تو تھوڑی دیر پہلے اس سے کہا ہے کہ تم بہت اچھے ہو تو ٹھیک ہے اگر وہ اتنا ہی اچھا ہے تو کر لو اس سے شادی بھی مجھے اب کوئی فرق نہیں پڑتا اورہاں مجھے معاف کر دینا میں تم دونوں کے بیچ آ گیا
میں کل ہی لندن جا رہا ہوں یہ ہماری آخری ملاقات تھی پر میں ہمیشہ اسے یاد رکھوں گا کشمالہ۔۔۔ امید ہے تم دانش کے ساتھ خوش رہو گی خدا حافظ
وہ کشمالہ کو اک بھی لفظ کہنے کا موقع دیے بغیر وہاں سے چلا گیا
اسے وہاں حیران کھڑا چھوڑ کر وہ چلا گیا شائد ہمیشہ کے لئے
آسمان کالے بادلوں سے بھرا ہوا تھا اچانک کشمالہ پر بارش کی اک بوند گری اس نے چونک کر آسمان کو دیکھا
اک دفع پھر اسکا چہرہ گیلا ہوا پر اس بار وہ بارش کی بوند نہیں تھی بلکہ اسکے آنسو تھے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی
اک دفع مری کا آسمان شہزادے کے غم میں رویا تھا اور آج لگتا تھا جیسے باغوں کے شہر کا آسمان شہزادی کے غم میں شریک ہے
—————————————————————-
صبح اسے لندن چلے جانا تھا وہ اک دفع پھر اس مسجد میں آیا جہاں وہ اس رات آیا تھا اک دفع پھر اس نے اپنے رب کو پکارا تھا یا میرے الله میں آج پھر تیرے گھر اسکی وجہ سے آیا ہوں اس دن اسکی محبت کھینچ لائی تھی آج اسکی بےوفائی لائی ہے
یا میرے رب مجھے معلوم ہے میں خودغرض ہوں ہمیشہ آپکے پاس اپنی غرض کے لئے ہی آیا ہوں
اے سننے والے سب دیکھنے والے اے احسان کرنے والے میرے رب مجھ پر بھی احسان کر دے میں جان گیا ہوں کہ مجھے وہ نہیں مل سکتی پر مجھے صبر تو مل سکتا ہے نا میں آج صبر مانگتا ہوں برداشت مانگتا ہوں ہمت مانگتا ہوں تاکہ اسے بھول سکوں مجھے یہ سب عطا کر دیں
وہ اک دفع پھر رو دیا
تو بادل بغیر برسے نہیں گئے تھے دکھوں کی بارش ہو چکی تھی
—————————————————————
(2 سال بعد )
کشمالہ اب پیکنگ کر بھی لو یار ہم لیٹ ہو جایئں گے
دانش نے کمرے میں داخل ہوتے ہووے کہا
میں کیا کروں تمہارا بیٹا کچھ کرنے ہی نہیں دیتا بہت تنگ کرتا ہے یہ۔۔ لو پکڑو اسے میں تب تک پیکنگ کر لوں
جی نہیں میرا بیٹا تو بہت شریف سا ہے یہ کہاں تنگ کرتا ہے کسی کو دانش نے کہا اور اویس کو پیار کرتا کمرے سے باہر چلا گیا
کشمالہ اویس کو جاتا دیکھ کر مسکرا دی اسکی تو جان تھی اویس میں اور اویس بھی اسی سے سب سے زیادہ اٹیچ تھا
دانش نے کمرے سے نکلتے ہی اویس کو خدیجہ بیگم کی گود میں ڈال دیا وہ تھا ہی اتنا موٹا سا کہ کوئی بھی اسے زیادہ دیر نہیں اٹھا سکتا تھا
یہ کشمالہ ہی تھی جو ہر وقت اسے گود میں لئے پھرتی رہتی تھی
ٹی وی لاؤنج میں سب ہی اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے
سلمان صاھب اور احسان صاھب بڑی محویت سے کوئی ٹاک شو دیکھ رہے تھی دادی آنکھیں بند کیے تسبیح پڑھنے میں مصروف تھیں اور خدیجہ بیگم اب اویس کو کھلا رہیں تھیں
دانش کو ماحول خاصا بورنگ لگا اس لئے وہ اپنے کمرے میں چلا آیا
ارے واہ میری بیوی اتنی خوبصورت بھی لگ سکتی ہے مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا دانش نے شرارت سے کہا
ہاں نہ آپکی بیوی تو افریقہ سے ہونی چاہیے تھی پر اب قسمت سے الله نے آپکو مجھ جیسی حسین بیوی دے ہی دی ہے تو یقین بھی کر لیجیے زہرا بال بناتے ہووے بولی دانش ہنس دیا اویس کہاں ہے زہرا نے پوچھا
وہ کشمالہ کے پاس تھا اب امی کو دے کر آیا ہوں دانش نے بتایا
کشمالہ نے پیکنگ کر لی ہے کیا زہرا نے پوچھا
جی نہیں اپ کے صاھب زادے اسے کوئی فرصت ہی کہاں دیتے ہیں
یہ تو اچھی بات ہے نہ اویس کی وجہ سے کشمالہ اب خوش رہنے لگی ہے ورنہ سال بھر پہلے تک کیسے چپ چپ رہتی تھی زہرا نے افسردگی سے کہا
ہاں یہ تو ہے پر جہانزیب نے اس کے ساتھ برا بھی تو بہت کیا تھا کشمالہ کی کوئی بات سنے بغیر ہی اسے چھوڑ کر چلا گیا دانش کو ابھی بھی جہانزیب پر غصہ تھا اسکی وجہ سے کشمالہ کتنا روئی تھی کتنی اذیت سہی اس نے
اچھا اب ان سب اداس باتوں کو چھوڑیں یہ بتایں کتنے بجے تک نکلنا ہے
ابھی ٩ بجے ہیں ہم ساڑھے ٩ بجے تک نکلیں گے دانش نے بتایا اور کپڑے تبدیل کرنے واشروم چلا گیا
زہرا کشمالہ کے کمرے میں آ گئی پیکنگ ہو گئی تمہاری
ہاں بس ابھی کی ہے تین دن کے لئے اتنے کپڑے کافی ہونگے نہ کشمالہ نے پوچھا
ویسے میں نے مری کا موسم چیک کیا ہے آج اور کل تو برف باری نہیں ہونی پرسوں کا پتا نہیں اک دو چادریں اور رکھ لو
اچھا ٹھیک ہے رکھ لیتی ہوں
کشمالہ تم مری کیوں جانا چاہتی ہو زہرا یہ سوال کب سے پوچھنا چاہتی تھی پر ڈر رہی تھی کہ کہیں کشمالہ برا نہ مان جائے لیکن اب ہمت کر کے پوچھ ہی لیا
کشمالہ کے بیگ میں چادر ڈالتے ہاتھ اک لحمے کے لئے رکے
زہرا میں ان پلوں کو دبارہ جینا چاہتی ہوں جو اس کے سنگ بیتے تھے
کیا تم جہانزیب سے ناراض نہیں ہو زہرا نے پوچھا
ہاں میں اس سے ناراض ہوں کہ وہ مجے چھوڑ کر چلا گیا لیکن میں اس سے محبت بھی کرتی ہوں اگر وہ کبھی زندگی میں دبارہ مجھے ملا اور شرمندہ ہوا تو میں اسے معاف کر دوں گی
اور اگر شرمندہ نہ ہوا تو زہرا نے کہا
تو۔۔۔ کشمالہ سوچ میں پڑ گئی تو میں اس سے ناراض ہی رہوں گی پر محبت پھر بھی کرتی رہوں گی
زہرا جانتی تھی کہ وہ ایسا ہی کرے گی اس لئے سمجھانا فضول جانتے ہووے اٹھ کھڑی ہوئی
وہ چاروں سب کی دعائیں لے کر گھر سے نکلے تھے انہوں نے کلرکہار پر اسی جگہ سٹے کیا جہاں دو سال پہلے جہانزیب کے ساتھ کیا تھا
کشمالہ کو ہر جگہ بس اسی کی یاد دلا رہی تھی پر اسے یہ سب اچھا لگ رہا تھا
اب مری کے ان خطرناک موڑوں سے کشمالہ کو ڈر نہیں لگ رہا تھا بلکہ وہ ہر اک چیز کو بہت شوق سے دیکھ رہی تھی
صبح پانچ بجے کے قریب وہ لوگ ہوٹل پہنچے ہوٹل بھی وہی تھا جہاں وہ لوگ جہانزیب کے ساتھ پہلے روکے تھے کشمالہ نے ووہی کمرہ لیا جہاں وہ پہلے رہی تھی دانش اور زہرا نے اس کمرے کے سامنے والا کمرہ لیا
پورا دن انہوں نے آرام ہی کیا شام کو انہوں نے کشمالہ کے کہنے پر مال روڈ چلنے کا فیصلہ کیا اویس کو اچھی طرح پیک کر کہ انہوں نے کارٹ میں ڈال دیا زہرا تو اویس کو سنبھالنے کے موڈ میں بلکل نہیں تھی سو کشمالہ نے ہی کارٹ تھام لیا
زہرا ہر اک دکان پر گھنٹہ لگا کر باہر نکلتی تھی دانش اس کام سے خاصا اکتا گیا کشمالہ کو بھی خاص مزہ نہیں آ رہا تھا
دانش اب چل کر کہیں بیٹھتے ہیں میں تھک گئی ہوں کشمالہ نے کہا زہرا ابھی بھی دکان میں گھوسی ہوئی تھی اور پٹھان سے قیمت کی بحث میں مصروف تھی
زہرا ہم تھک گئے ہیں کسی ریسٹورانٹ میں چل کر بیٹھتے ہیں تم پلیز جلدی کرو یار اپ لوگ جا کر بیٹھ جاؤ میں تو یہ قیمت کم کروا کر ہی نکلوں گی زہرا پرعزم تھی دانش نے بےبسی سے کشمالہ کو دیکھا کشمالہ کو دانش کی حالت پر ہنسی آ گئی
تم یہیں اپنی بیوی کے پاس روکو اور جب یہ محترمہ فارغ ہو کر نکلیں تو وہ سامنے والے ہوٹل میں آ جانا ہم وہیں ہونگے
دانش نے سر ہلا دیا
کشمالہ اویس کو لے کر اس ریسٹورانٹ میں آ گئی
کھڑکی کی پاس والی ٹیبل پر بیٹھنا اسے ہمیشہ سے ہی پسند تھا اس لئے اب بھی کھڑکی کی پاس والی ٹیبل پر آ کر بیٹھ گئی اویس کو کارٹ سے نکال کر گود میں بیٹھا لیا
وہ بھی کارٹ میں لیٹا کافی بور ہو گیا تھا اس لئے اب آزاد ہو کر کافی اچھل کود کر رہا تھا کشمالہ اسکی شرارتوں سے محظوظ ہو رہی تھی تبھی اسکی ٹیبل کے پاس آ کر کوئی کھڑا ہوا کشمالہ کو لگا دانش آ گیا ہے
اس لئے اویس کی پھولی ہوئی گال پر پیار کرتے ہووے کہا دانش تمہارا بیٹا بہت شرارتی ہے بلکل اپنے پاپا پر گیا ہے
تمہارا بیٹا کافی پیارا ہے کشمالہ
کشمالہ نے چونک کر اس آدمی کو دیکھا وہ جہانزیب تھا اسکا جہانزیب ملک آج دو سال بعد پھر وہ اسی وادی میں ملے تھے کشمالہ کی خوشی کی انتہا نہیں تھی اتنے عرصے بعد آج اس نے ان ہیزل براؤن آنکھوں میں دیکھا تھا پر یہ کیا وہاں تو سرد مہری تھی وہی سرد مہری جو آخری بار بھی اسے ان آنکھوں میں دکھائی دی تھی اس کی ساری خوشی مانند پڑ گئی
کشمالہ نے اسے کوئی جواب نہ دیا اور چہرہ دوسری طرف پھیر لیا وہ ان آنکھوں میں شکایت نہیں دیکھ سکتی تھی
جہانزیب دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اک دفع اسے قریب سے دیکھنے چلا آیا تھا پر اسے اس قدر خوش اور مطمئن دیکھ کر اسے پھر سے غصہ آ گیا تھا وہ جو اس کے بغیر دو سال اتنی اذیت میں رہا تھا کسی پل اسے صبر نہ آیا تھا وہ اس کے بغیر بھی اپنی زندگی سے کتنی خوش تھی جہانزیب اک نظر پھر اس کے چہرے پر ڈال کر وہاں سے چلا گیا
کشمالہ اک دفع پھر اسکے جانے پر رو دی پر پھر جگہ کا خیال کر کے جلدی سے آنسو صاف کر لئے
کچھ ہی دیر بعد زہرا اور دانش بھی آ گئے
اف یار یہ پٹھان اپنی بات کے کتنے پکے ہوتے ہیں اتنی دیر بحث کی پر مجال ہے جو قیمت اک روپیہ بھی کم کی ہو زہرا نے بیٹھتے ہی کہا
دانش نے بیٹھتے ساتھ ہی اویس کو کشمالہ کے پاس سے لے لیا
تمھیں کیا ہوا ہے زہرا نے اسکی شکل دیکھی تو پوچھا
وہ یہاں آیا تھا اور پھر مجھ پر طنز کر کے چلا گیا کشمالہ نے ہمت کر کے بتایا پر پھر بھی دو آنسو گر پڑے
جہانزیب آیا تھا زہرا نے تصدیق چاہی
کشمالہ نے سر ہلا دیا ٹیبل پر خاموشی چھا گئی صرف اویس کی آواز آ رہی تھی ان تینوں کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا بولیں
چلو واپس ہوٹل چلتے ہیں دانش نے کہا اور اٹھ کھڑا ہوا وہ دونوں بھی خاموشی سے اٹھ گئیں
بہت عرصے بعد کشمالہ رات دیر تک روتی رہی جہانزیب تم بہت برے ہو میں تمھیں کبھی معاف نہیں کروں گی ا یہ آخری بات تھی جو اس نے سوچی تھی پھر اس کی آنکھ لگ گئی
پھر اسکی آنکھ دروازے پر دستک سے ہی کھلی کشمالہ نے جلدی سے اٹھ کر دروازہ کھولا سامنے زہرا کھڑی تھی
ہم تمہارا ناشتے پر انتظار کر رہے ہیں جلدی آ جاؤ زہرا نے بتایا اور جانے کے لئے مڑی
میرا ناشتہ پلیز کمرے میں ہی بھجوا دو ابھی نیچے انے کا بلکل دل نہیں ہے کشمالہ نے سستی سے کہا
نیچے تو تمھیں انے ہی پڑے گا پانچ منٹ میں تیار ہو کر نیچے پہنچو تمہارے لئے اک سرپرائز ہے زہرا کہ کر چلی گئی
کشمالہ کو اب نیچے جانا ہی پڑنا تھا اس لئے بےدلی سے تیار ہونے لگی پر سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ سرپرائز کیا ہے وہ تھوڑی دیر بعد تیار ہو کر نیچے پہنچی سب سے پہلے اس نے زہرا کی گود میں بیٹھے اویس کو پیار کیا اور پھر اک کرسی پر بیٹھ گئی ہان تو بتاؤ زہرا کیا سرپرائز ہے کشمالہ نے موتجسس ہو کر پوچھا
مڑ کر خودی دیکھ لو کشمالہ نے حیرانی سے مڑ کر دیکھا تو پیچھے جہانزیب کھڑا تھا کشمالہ کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی
یہی ہے تمہارا سرپرائز تمہارا جہانزیب ملک دانش نے کہا
کشمالہ نے اک نظر جہانزیب کو دیکھا اور بھگاتی ہوئی اوپر اپنے کمرے میں چلی گئی وہ تینوں حیرانی سے کشمالہ کا ردعمل دیکھتے رہے
اپ نے ناراض کیا ہے تو اپ ہی جا کر منا لیں زہرا نے کہا اور ناشتہ کرنے لگی
کشمالہ بالکنی میں آ کر رونے لگ گئی
سنو رؤ مت ورنہ میں بالکنی کود کر تمہارے آنسو صاف کرنے آ جاؤں گا اسے جہانزیب کی آواز ائی اس نے ساتھ والی بالکنی پر دیکھا وہ وہیں کھڑا تھا
اپ بہت برے ہیں جہانزیب اپ نے مجھے بہت تکلیف پہنچائی ہے کشمالہ نے شکایت کی
میں مانتا ہوں کشمالہ میری وجہ سے تمھیں تکلیف پہنچی پر میری حالت بھی تم سے کم نہیں تھی تمھیں کسی اور کے ساتھ سوچنا بہت اذیت ناک تھا پر اس سے زیادہ تکلیف مجھے یہ جان کر ہو رہی ہے کہ یہ اذیت میں نے اپنی بیوقوفی کی وجہ سے جھیلی کاش میں تمہاری بات سن لیتا پر کشمالہ تم اب بھی جانتی ہو نہ کہ جہانزیب صرف تم سے پیار کرتا ہے جہانزیب ملک صرف کشمالہ سلمان کا ہے تم جانتی ہوں نہ تم بھولی تو نہیں
میں جانتی ہوں جہانزیب میں جانتی ہوں کشمالہ نے سر جھکا کر اعتراف کیا
تو کیا تم اسی محبت کی خاطر مجھے معاف کر دو گی اس نے آس سے پوچھا
میں نے معاف کر دیا کشمالہ نے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہا
جہانزیب خوشی سے چلا اٹھا سنو ساری مری کی وادی کشمالہ سلمان صرف جہانزیب ملک کی ہے نیچے جو کچھ لوگ ٹہل رہے تھے انہوں نے سر اٹھا کر اس شہزادے کو دیکھا تھا
اچھا بھائی ہم نے سن لیا ہے نیچے سے اک شرارتی سے لڑکے نے ہانک لگائی کشمالہ شرما کر اندر چلی گئی جہانزیب ہنس دیا
وہ چاروں اب ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے تھے
دیکھا زہرا کشمالہ کتنی سمجھدار ہے کتنی آسانی سے جہانزیب کو معاف کر دیا اور اک تم ہو میری بیوقوف سی بیوی دانش نے اسے چھڑتے ہوے کہا
کشمالہ اور جہانزیب مسکرا دیے زہرا کچھ نہیں بولی
تھوڑی دیر بعد پھر دانش بولا زہرا چائے تو دینا زہرا نے اپنے ہاتھ میں پکڑے چائے کے کپ میں سے تھوڑی سی چائے دانش کے ہاتھ پر ڈال دی
دانش نے حیرانی سے اسے دیکھا چائے نیم گرم تھی اس لئے ہاتھ جلا نہیں
یہ کیا کیا ہے دانش نے غصے سے پوچھا اپ نے خودی تو کہا تھا آپکو چائے چاہئے تو میں نے دے دی
چائے کپ میں دیتے ہیں زہرا دانش نے دانت پیسے ہووے کہا
میں بیوقوف ہوں نہ مجھے کیا پتا چائے کپ میں دیتے ہیں
زہرا نے بڑی خوبصورتی سے اسکی بات کی تصدیق کی
کشمالہ اور جہانزیب ہنس دیے دانش نے شرمندگی سے سر کھجایا
وہ سب آج ہی واپس جا رہے تھے کیوں کہ جہانزیب اب جلدی سے جلدی کشمالہ سے شادی کرنا چاہتا تھا
دانش زہرا اور اویس اپنی گاڑی میں بیٹھ گئے
کشمالہ جہانزیب کے ساتھ جا رہی تھی جہانزیب نے گاڑی میں کشمالہ کا سامان رکھ دیا اب چلیں اس نے پوچھا
جہانزیب اپ مری کیوں آے تھے
تمہاری یاد بہت زیادہ آ رہی تھی اس لئے سوچا یہاں آ جاؤں جہانزیب نے پیار بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہووے کہا
کشمالہ مسکرا دی جہانزیب اسے گاڑی میں بیٹھنے کا کہ کر خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا
کشمالہ نے گاڑی کا دروازہ کھولا برف کا اک زرہ سا اسکے ہاتھ پر آ کر گرا تھا وادی اسکو الوداع کہنے کے لئے روئی کے گولے برسا رہی تھی
شہزادی نے سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا اور پھر سرگوشی کے انداز میں کہا
مجھے میرے شہزادے سے ملوانے کا شکریہ
اور پھر شہزادی اپنے شہزادے کے سنگ اک نئے سفر کے آغاز کے لئے چل دی
جہاں اس کے لئے خوشیوں کے بہت سے تحفے زندگی نے رکھے تھے کیوں کے زندگی مشکل نہیں
#ختم_شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...