سلیمان بیٹا کہاں کھوۓ ہووے ہو چاۓ تو پڑی پڑی ٹھنڈی ہو گئی ہے دادی نے فکر مندی سے کہا
اما اپ کی کشمالہ سے بات ہوئی تھی کیسی ہے وہ سلمان صاھب نے پوچھا
ہاں بیٹا صبح ہی ہوئی تھی بڑی خوش تھی کہ رہی تھی نتھیا گلی جایئں گے
اما مجھے آپکو کچھ بتانا تھا
ہاں بولو نا بیٹا
آج ان لوگوں کا فون آیا تھا کشمالہ کا پوچھ رہے تھے انہیں ہمارا پتا مل گیا تھا اور انہوں نے ہم پر نظر رکھوائی ہوئی تھی سلمان صاھب کی آواز سے ہی پریشانی جھلک رہی تھی
انہیں کشمالہ کے بارے میں پتا ہے کے وہ کہاں ہے دادی نے خوف سے پوچھا
جی اما لگتا تو ایسا ہی ہے
نہیں بیٹا انہیں کشمالہ کسی صورت نہیں ملنی چاہیے اتنے سالوں سے جس بات کو ہم چھپا کر رکھا اب وہ بات بچی کے سامنے ہرگز نہیں کھلنی نہیں چاہیے تمھیں یہ معاملہ کشمالہ کو بیچ میں لیے بغیر حل کرنا ہوگا میری بچی کو کوئی نقصان نہیں پونچھنا چائیے سمجے تم دادی کا بس نہیں چل رہا تھا کے کشمالہ ان کے سامنے ہو اور وہ اسے اپنی گود میں چھپا لیں
اما مجھے ابھی کشمالہ کی فکر ہے میں اسے فون کر رہا ہوں پر مل نہیں رہا شائد وہاں سگنل نہیں ہیں میں کیا کروں اما میں کیا کروں اسے کچھ ہو گیا تو میں کیا کروں گا سلمان صاھب نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا
ہمت کرو بیٹا ابھی تو تمھیں اپنی کشمالہ کے لئے یہ لڑائی لڑنی ہے ابھی سے ہمت مت ہارو دادی نے سمجھایا
سلمان صاھب ایک دفع پھر کشمالہ زہرا اور جہانزیب کا فون ملانے لگے پر ناکامی کا سامنا ہوا
—————————————————————
دانش نے زہرا کو دینے ک لئے ایک خوبصورت سی شال خریدی تھی پر جس شاپر میں شال تھی اسی میں اس نے خشک میوہ جات والا شاپر بھی ڈال دیا تھا تھوڑی دور کھڑے ایک بندر نے اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے اسے میوہ جات والا شاپر ڈالتے دیکھ لیا تھا
جونہی دانش زہرا کے پاس پہنچا اور اسکی طرف شاپر بڑھایا زہرا کے پکڑنے سے پہلے ہی وہ بندر بھاگتا ہوا آیا اور شاپر چھین کر لے گیا
دانش اور زہرا ایک دوسرے کا مونھ دیکھتے رہ گئے کشمالہ اور جہانزیب کی ہنسی چھوٹ گئی مہرین نے کوئی ردے عمل نہیں دیا
تھوڑی دور جا کر بندر ایک درخت پر بیٹھ گیا اورمیوہ جات والا شاپر نکال لیا پھر شال کا جائزہ لیا لیکن وہ شائد اسے پسند نہیں یی تھی اس لئے دوبارہ شاپر میں ڈال دی دوسرے شاپر کو ایک ٹہنی پر لٹکا کر وہ نیچے اتر آیا شال والا شاپر اسکے ہاتھ میں تھا زہرا سے تھوڑے فاصلے پر رک کر اسنے شاپر زہرا کے قدموں میں اچھال دیا
وہ سب حیرت سے بندر کی یہ حرکتیں دیکھ رہے تھے کشمالہ اور جہانزیب کی پھر ہنسی چھوٹ گئی
زہرا اب اسے دانش کا نہیں بلکہ بندر کا دیا تحفہ سمجھو کشمالہ نے ہنستے ہووے کہا
دانش دے یا بندر ایک ہی بات ہے زہرا نے کہا اور انکی ہنسی میں شامل ہو گئی
دانش نے شرمندگی سے سر کھجایا
ویسے کشمالہ میں بھی تو جیتا تھا تم نے تو مجھے کوئی تحفہ نہیں دیا جہانزیب نے شکایت کی
ٹھیک ہے تم یہیں روکو میں تمہارے لئے کوئی تحفہ خرید کر لاتی ہوں
شاباش پر جلدی آنا زیادہ انتظار مت کروانا جہانزیب نے کہا
مہرین تم بھی کشمالہ کے ساتھ جا کر کچھ خرید اؤ وہ دیکھ رہا تھا کہ مہرین خاصی چپ چپ ہے اس لئے اسے بھی کہا وہ جانا نہیں چاہتی تھی پر جہانزیب کی بات ٹال بھی نہیں سکتی تھی اس لئے اٹھ کھڑی ہوئی
زہرا تم چلو گی کشمالہ نے زہرا سے پوچھا
نہیں یار میرا بلکل دل نہیں ہے زہرا نے کہا
کشمالہ کندھے اچکا کر دکانوں کی طرف چل دی مہرین بھی ساتھ تھی پر وہ کوئی بات نہیں کر رہی تھی
کشمالہ کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ جہانزیب کو کیا تحفہ دے اس نے مہرین سے جہانزیب کی پسند کے بارے میں پوچھا پر وہ جواب دینے کے موڈ میں نہیں تھی اس لئے کشمالہ نے خودی کچھ اچھا سا ڈھونڈنے کا فیصلہ کیا
مہرین کو کوئی چیز نہیں خریدنی تھی اس لئے وہ یونہی دکانوں کا جائزہ لینے لگی ایک دوکان کے دروازے کے سامنے ہی دو مرد تن کر کھڑے تھے وہ دکان دار سے شائد کچھ پوچھ رہے تھے مہرین سائیڈ سے ہو کر گزرنے لگی
تبھی اسکی نظر کشمالہ کی تصویر پر پڑی
تصویر میں کشمالہ گاڑی میں بیٹھ رہی تھی اور سامنے سے کسی نے اسکی تصویر کیھنچی تھی لگتا تھا کشمالہ کو نہی پتا تھا کے کوئی اسکی تصویر لے رہا ہے
وہ دونوں مرد اب دکان سے نکل کر سامنے سڑک پر چلنے لگے مہرین کو کچھ غلط سا لگا اس لئے نہ محسوس طریقے سے ان سے دو قدم کے فاصلے پر چلے لگی ویسے بھی اتنے رش میں کسی کو شک نہیں ہونا تھا
مہرین کو آواز یی ان میں سے ایک بول رہا تھا ہمیں آج ہی اس لڑکی کو پکڑنا ہے خبر اگر درست ہوئی تو اسے یہیں نتھیا گلی میں ہی ہونا چائیے
مہرین سمجھ گئی کہ وہ لوگ کشمالہ کو اغواہ کرنے اے تھے پر کیوں دماغ میں فوراً سوال آیا
لیکن اسکے لئے یہی کافی تھا کے ایسے کشمالہ اسکے اور جہانزیب کے بیچ میں سے ہٹ جائے گی
تو مہرین کی نفرت کی آگ نے آخر کار کشمالہ کو ہی نقصان پہچانا تھا
—————————————————————
سنو دانش تم لوگ یہیں روکو میں ذرا اپنے گھر کال کر کے آتا ہوں یہاں سگنل نہیں آ رہے جہانزیب نے کہا اور چلا گیا
آخر اک جگہ مل ہی گئی جہاں سگنل آ رہے تھے ابھی گھر کا نمبر ڈائل کرنے ہی لگا تھا کے سلمان صاھب کی کال آ گئی
ہاں جہانزیب بیٹا کہاں ہو انہوں نے فکر مندی سے پوچھا
انکل ہم نتھیا گلی اے ہووے ہیں
بیٹا کشمالہ ٹھیک ہے نہ جہانزیب کو وہ پریشان لگے
انکل کوئی مسلہ ہے کیا جہانزیب نے پوچھا
ہاں بیٹا بس اتنا سمجھ لو کشمالہ خطرے میں ہے باقی بات ابھی نہیں بتا سکتا تم میری اس سے بات کرواؤ انہوں نے کہا
جہانزیب بھی انکی بات سن کے پریشان ہو گیا
انکل وہ ابھی میرے ساتھ نہیں ہے جہانزیب نے بتایا
کیا انکی پریشن آواز جہانزیب کے کانوں تک پہنچی
انکل اپ فکر نہ کریں میں ابھی تھوڑی در تک آپکی اس سے بات کروا دیتا ہوں
بیٹا اسکا خیال رکھنا انہوں نے فون کاٹ دیا جہانزیب فکر مند سا ہو کر دانش اور زہرا کی طرف آیا
سنو کشمالہ کو کسی سے خطرہ سے ابھی انکل کی کال آیی تھی ہمیں جلدی سے کشمالہ کے پاس جانا ہوگا جہانزیب نے انہیں بتایا اور تیزی سے دکانوں کی طرف چلا گیا دانش اور زہرا بھی پریشان سے ہو کر پیچھے چل دیے
مہرین نے بہت ہوشیاری سے کشمالہ کو پکڑوانا تھا اس لئے اس نے اپنا فون نکالا اور ان اجنبیوں کے ساتھ ہی چلنے لگی
ہیلو جی مما میں کشمالہ سلیمان کے ساتھ ہی آیی ہوں
وہ دونوں مرد کشمالہ کا نام سن کر رک گئے اور مہرین کی بات سننے کی کوشش کرنے لگے
مہرین تو چاہتی ہی یہی تھی لہٰذا ان کو روکتا دیکھ کر پھر بولی جی مما کشمالہ سلمان اس وقت سامنے گھڑیوں کی دکان پر گئی ہے میں اسی دکان کے سامنے کھڑی ہوں
ان دونوں نے سامنے گھڑیوں کی دکان پر نظر دوڑائی اور جلدی سے ادھر ہی قدم بڑھا دیے
مہرین کے چہرے پر ایک شیطانی سی مسکراہٹ آ گئی
پر تبھی اسے دور سے جہانزیب لوگ وہاں آتے دکھائی دیے مہرین نے ان کی جانب قدم بڑھا دیے جہانزیب تقريباً بھاگتا ہوا اس تک پہنچا
مہرین کشمالہ کہاں ہے
کیوں کیا ہوا مہرین نے معصومیت سے پوچھا
اسے کسی سے خطرہ ہے تم جلدی بتاؤ وہ کہاں ہے جہانزیب نے اس دفع سختی سے کہا
وہ تو تھوڑی دیر پہلے پرفویم کی دکان میں گئی تھی مہرین نے حقیقی سمت کی بجاے موخالف سمت اشارہ کیا
جہانزیب پرفویم کی دکان کی طرف دوڑا زہرا اور دانش بھی اس کے پیچھے تھے پر مہرین وہیں کھڑی رہی اسے کشمالہ کے اغوا کا تماشا اپنی آنکھوں سے دیکھنا تھا
———————————————————-
کشمالہ نے جہانزیب کے لئے اک خوبصورت سی گھڑی خریدی تھی تاکہ وہ جب بھی گھڑی کو دیکھے اسے کشمالہ کی یاد آے گھڑی کو پیک کروا کر اسکے اوپر خوبصورتی سے لکھوایا تھا جہانزیب کے لئے دوسرا تحفہ اسکی کشمالہ کی طرف سے اور دکان سے باہر نکل ای
پر سامنے سے اتے اک آدمی سے ٹکرا گئی تحفے والا پیکٹ ہاتھوں سے گر گیا وہ اٹھانے کے لئے جھکی ہی تھی کہ کسی نے اسے کوئی چیز سونگھا دی
آخری چیز جو اسے یاد تھی وہ یہ کہ اسکے اوپر کوئی کالے رنگ کی چادر ڈالی گئی تھی پر وہ کوئی مزمت نہ کر پائی
دکان کے سامنے رش نہ تھا اس لئے انہوں نے یہ کام آسانی سے کر لیا تھا اس واقعے کے گواہ صرف دو ہی تھے اک مہرین اور دوسرا وہ دکاندار پر وہ اک تیرہ چودھا سال کا لڑکا تھا جو کے ان آدمیوں کے پاس بندوق دیکھ کر ڈر گیا تھا
مہرین نے انہیں کشمالہ پر کالا سی چادر ڈالتے اور پھر اسے گاڑی تک لیجاتے دیکھ کر اپنی تسلی کر لی اک بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ وہ جہانزیب لوگوں کی طرف چلی گئی
آخر کشمالہ کو ڈھونڈنا بھی تو تھا
————————————————————-
جہانزیب نے ہر اس جگہہ تلاش کر لی جہاں جہاں مہرین نے بتایا پر کشمالہ اسے کہیں بھی نہ ملی جہانزیب کو لگ رہا تھا کوئی بہت آہستہ آہستہ اسکی جان نکال رہا تھا
زہرا تو رونے والی ہو گئی تھی دانش بھی بہت پریشان تھا اک مہرین ہی تھی جو پرسکون تھی جیسے کوئی انسان نہیں بلکہ کوئی غیر اہم چیز گم گئی ہو جو نہ بھی ملی تو کوئی فرق نہیں پڑے گا
بیشک مہرین کو فرق نہیں پڑتا تھا پر جہانزیب کے لئے تو وہ ان چند دنوں میں بہت خاص ہو گئی تھی
ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو اس نے اپنی کشمالہ سے اظہار کیا تھا اور سب نے سنا بھی تو تھا کشمالہ نے دانش نے زہرا نے یہاں تک کہ وادی نے بھی سنا تھا اگر سب نے سنا تھا تو اسے کشمالہ سے دور آخر کیوں کر دیا تھا
شائد وہ کہیں اور چلی گئی ہو کسی اور دکان پر جہانزیب نے کہا وہ اب دوسری طرف ڈھونڈنے چلا گیا دانش اور زہرا بھی اسے ڈھونڈنے کے لئے اک طرف چل دیے
اب جہانزیب اسی طرف جا رہا تھا جہاں کشمالہ کچھ در پہلے تھی پر اس دفع مہرین نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ اب کشمالہ اسے وہاں نہیں ملے گی
جہانزیب اسی گھڑیوں کی دکان کے سامنے سے گزر رہا تھا کہ اسکی نظر اس پیکٹ پر پڑی یہ دکان اک طرف کو ہو جاتی تھی اس لئے ادھر لوگ کم ہی اتے تھے یہی وجہ تھی کے پیکٹ ابھی وہیں پڑا تھا جہانزیب نے اسکے اوپر اپنا نام لکھا دیکھ لیا تھا اس لئے فوراً اٹھا لیا
تحرریر پڑھ کر اسکا دل چاہا وہ رو دے اسے تحفہ نہیں چاہیے تھے اسے صرف کشمالہ چاہیے تھی
کاش وہ اسے یہاں نہ بھیجھتا کاش
پر اب پچھتانے سے کچھ نہیں ہو سکتا تھا اسے اب کسی بھی حالت میں کشمالہ کو ڈھونڈنا تھا
وہ دکان کے اندر چلا گیا اور دوکاندار کو کشمالہ کی تصویر دکھا کر اس سے پوچھا اس لڑکے کو افسوس تھا کہ وہ اس لڑکی کو بچا نہی پایا اس لئے اب جہانزیب کو جو دیکھا تھا وہ سب بتا دیا
یعنی جس کا ڈر تھا ووہی ہو گیا تھا کشمالہ کو اغوا کر لیا گیا تھا جہانزیب جلدی سے دکان سے نکلا اور زہرا دانش اور مہرین کو بتایا مہرین تو حیران رہ گئی اس لئے پوچھ بیٹھی تمھیں کس نے بتایا
مجھے دوکاندار نے بتایا اس نے سب دیکھ لیا تھا جہانزیب نے دھیمے لہجے میں کہا اب ہمیں پولیس کو بتا دینا چاہیے انکل کو بھی خبر کر دینی چاہیے شائد انہیں پتا ہو کہ کس نے کشمالہ کو اغوا کروایا ہے دانش نے کہا وہ چاروں گاڑی کے پاس ہی آ گئے یہاں سگنل آ رہے تھے
جہانزیب نے فون ملایا پر اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ انہیں یہ خبر سنا سکتا
پر اسے انہیں بتانا ہی تھا
ہیلو انکل کشمالہ یہاں نہیں ہے وہ اغوا ہو گئی ہے اس نے اک ہی سانس میں بتا دیا اسکا دل درد سے پھٹا جا رہا تھا دوسری طرف سلمان صاھب کی بھی یہی حالت تھی انہوں نے بس اتنا ہی کہا مجھے پتا چل چکا ہے بیٹا تم لوگ بس واپس آ جاؤ سلمان صاھب نے که کر فون رکھ دیا دادی کا رو رو کر برا حال تھا ابھی کچھ دیر پہلے ہی انہیں ان لوگوں کی کال ای تھی کہ انہوں نے اپنی امانت واپس لے لی ہے
سلمان صاھب اس وقت خود کو بہت بے بس محسوس کر رہے تھے وہ تو رو بھی نہیں سکتے تھے اگر وہ ہمت ہار دیتے تو نہ صرف اپنی بیٹی بلکہ اپنی ماں کو بھی کھو دیتے
——————————————————-
اب انکے پاس اس وادی میں رہنے کا کوئی جواز نہیں تھا جہانزیب نے اتے وقت ایک بھرپور نظر کشمالہ کے بناۓ سنو مین پر ڈالی پھر اس گرل پر جہاں انکی محبت کے موتی کو لفظوں میں پورویا گیا تھا دل نے فریاد کی کہ کاش دانش نے مقابلے کا نہ کہا ہوتا کاش وہ کشمالہ سے نہ جیتا ہوتا کاش کشمالہ کو اسے کوئی تحفہ نہ دینا ہوتا کاش یہ سب یوں نہ ہوتا
یہ جگہ جو اسے اتے وقت بہت خوبصورت لگ رہی تھی اب کشمالہ کے بغیر سب کچھ فضول لگ رہا تھا
یہاں تو وقت نے کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی تھی لیکن پھر وقت نے اس کے ساتھ برا کیوں کیا تھا اگر وقت نے برا نہیں کیا تھا تو گاڑی کی پچھلی سیٹ پر کشمالہ کیوں نہیں تھی بیک مرر سے اسے وہ نظر کیوں نہیں آ رہی تھی
سب کچھ وہیں تھا بس کشمالہ نہیں تھی اور جہانزیب کے لئے ایک یہی کمی باقی سب چیزوں پر حاوی تھی
وہ لوگ ہوٹل واپس آ چکے تھے زہرا اور مہرین کمروں میں واپسی کے لئے پیکنگ کر نے چلی گیں جہانزیب نے مہرین کو اسکا سامان پیک کرنے کے لئے کہ دیا تھا مہرین کو بھلا اس میں کیا مسلہ ہو سکتا تھا اس نے باخوشی جہانزیب کی بھی پیکنگ کر دی
جہانزیب اس وقت انہی کرسیوں پر آ کر بیٹھ گیا جہاں صبح ان لوگوں نے مل کر ناشتہ کیا تھا
کشمالہ میں نے تمھیں یہیں بیٹھ کر کہا تھا نہ کے تم میرے بغیر کہیں نہیں جاؤ گی پھر تم کیوں چلی گئی کشمالہ آخر کیوں
نہ چاہتے ہووے بھی جہانزیب کے دو آنسو گر پڑے
زہرا اور مہرین بھی یہیں آ گئیں زہرا کی آنکھوں سے صاف پتا چل رہا تھا کہ وہ رو کر ای ہے
تھوڑی دیر بعد دانش بھی آ گیا وہ بھی ان لوگوں کے ساتھ ہی کشمالہ کے گھر جانا چاہ رہا تھا کیوں کہ جب وہ ساتھ پڑھتے تھے تب بھی وہ کشمالہ کے گھر کبھی نہیں گیا تھا اسے کشمالہ کے گھر کا پتا بھی معلوم نہیں تھا
ہوٹل سے نکلتے ہی بارش شروع ہو گئی
شائد وادی بھی شہزادے کے غم میں غمگین ہو گئی تھی
واپسی کا سفر خاموشی سے گزرا لیکن ہر ایک موڑ پر جہانزیب کے دل میں کشمالہ کی یادوں کا شور ضرور اٹھا
————————————————————-
وہ چار بجے کے قریب مری سے نکلے تھے اور اب تقريباً رات کے نو بجے کشمالہ کے گھر پہنچے تھے
دادی کو ڈاکٹر نے سکوں آور دوا دی تھی اور اب وہ سو رہیں تھیں
سلمان صاھب ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے تھے وہ تینوں بھی وہیں آ گئے مہرین تھکاوٹ کا که کر گھر جا چکی تھی
انکل اپ نے پولیس کو خبر کی جہانزیب نے پوچھا
نہیں بیٹا نہی کی انہوں نے مدھم لہجے میں کہا یوں لگتا تھا جیسے وہ شخص سب کچھ ہار کر بیٹھا ہو
کیوں نہیں کی جہانزیب کو حیرت ہوئی
ان لوگوں نے منع کیا ہے بات نہ مانی تو وہ لوگ کشمالہ کو نقصان پہنچائیں گے سلمان صاھب ضبط کی انتہا پر تھے
انکل کیا آپکو پتا ہے کہ کشمالہ کو کن لوگوں نے اغوا کیا ہے دانش نے پوچھا
سلمان صاھب نے کوئی جواب نہ دیا الٹا اس سے کہا
بیٹا میں نے آپکو پہچانا نہی وہ واقعی اسے نہیں پہچانتے تھے کیوں کے وہ کبھی گھر آیا ہی نہیں تھا
انکل میں کشمالہ کے ساتھ پڑھتا تھا میرا نام دانش ہے
انہوں نے سر ہلا دیا اور پھر جواب دیا
نہیں بیٹا میں ان لوگوں کو نہیں جانتا سلمان صاھب نے گردن جھکا کر کہا
پھر تو ہمیں تب تک انتظار کرنا ہوگا جب تک کہ وہ دوبارہ کال نہیں کرتے اب یہ بھی تو نہیں جانتے کہ آخر انکا مقصد کیا ہے دانش نے کہا سلمان صاھب نے نظریں چرا لیں
نہیں میں ہر گز انتظار نہیں کروں گا میرا دوست DSP ہے میں اسے کہتا ہوں کے کشمالہ کی تلاش کرے پر خفیہ طور پر جہانزیب نے کہا اور کال ملا دی
تھوڑی دیر بعد دانش کو کال آیئ کال اسکے بابا کی تھی کہ اسکی والدہ کی طبیعت خراب ہے وہ فوراً گھر پہنچے دانش پہلے سے ہی پریشان تھا اب مزید پریشان ہو گیا جہانزیب نے اسے حوصلہ کرنے کو کہا اور جلدی جانے کی ہدایت کی وہ اس وقت انکی مدد کرنا چاہتا تھا پر اب گھر جانا زیادہ ضروری تھا
بابا امی کہاں ہیں دانش نے حویلی پہنچتے ہی پوچھا تھا
اپنے کمرے میں ہیں جاؤ جا کر مل آو انہیں نے کہا
دانش بھاگتا ہوا ان کے کمرے میں پہنچا خدیجہ بیگم بستر پر آنکھیں موندھے لیٹی ہوئی تھیں
آہٹ پر آنکھیں کھول لی دانش ان کے گلے لگ گیا امی اپ ٹھیک تو ہیں نہ آپکو کیا ہوا تھا دانش نے فکر مندی سے پوچھا
میں ٹھیک ہوں بیٹا بس ذرا بی پی لوؤ ہو گیا تھا
امی اپ پریشان لگ رہی ہیں دانش مطمئن نہیں ہوا تھا
کہتے ہیں کہ ماں باپ اپنے بچوں کے چہرے سے ہی انکے جذبات سمجھ جاتے ہیں پر کہنے والوں کو یہ بھی کہنا چاہیے کہ لائق اولاد بھی اپنے والدین کے چہرے پڑھ سکتی ہے
سچی محبت چہرے پڑھنا سکھا دیتی ہے
ابھی خدیجہ بیگم نے کچھ کہنے کے لئے لب ہلاے ہی تھے کہ احسان صاھب اندر آ گئے انہیں دیکھ کر خدیجہ بیگم کے لب خاموش ہو گئے
دانش مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے احسان صاھب نے کہا
جی بابا بولیں میں سن رہا ہوں
احسان صاھب کھڑکی کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے اور پردے ہٹا دیے
بلکل اسی طرح جس طرح وہ ماضی کے کچھ رازوں سے پردے ہٹانے والے تھے لیکن یہ ضروری تو نہیں کے پردے کے پیچھے ہمیشہ کوئی خوش کر دینے والا منظر ہو
جس طرح احسان صاھب نے کھڑکیوں سے پردے ہٹائے پر سامنے کوئی خوش کن منظر نہیں تھا صرف رات کی سیاہی تھی اسی طرح جن رازوں سے وہ پردے ہٹانے والے تھے وہاں بھی محض سیاہی ہی تھی
—————————————————-
زہرا دادی کے پاس انکے کمرے میں تھی دادی ابھی بھی سو رہیں تھی
رات گزرنے کا نام نہیں لے رہی تھی
جہانزیب کو لگ رہا تھا کہ جیسے انکی زندگی میں بھی یونہی رات آ کر ٹہر گئی ہو اور اب سورج کی کرن چاہے پورے شہر پورے ملک یا پوری دنیا کو بھی اک ساتھ روشن کر دے پر اسکی زندگی کو روشن نہیں کر سکے گی کیوں کہ اسکی زندگی کی روشنی تو اسکی کشمالہ تھی
رات کے دو بج رہے تھے پر ابھی تک کشمالہ کا پتا نہیں چل سکا تھا
سلمان صاھب کسی سوچ میں گم تھے
جہانزیب کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے کس سے مدد مانگے
اچانک اس کے کانوں میں اسکے دادا کے الفاظ گونجے تھے
کہ اپنے جیسے انسانوں سے مت مانگو ان سب کے خالق سے مانگو انسان سے مانگو گے تو مایوس ہو گے پر خالق کبھی اپنی مخلوق کو مایوس نہیں کرتا
جہانزیب نے سوچا کہ میں بھی تو اسکی مخلوق ہوں وہ مجھے بھی مایوس نہیں کرے گا اور اٹھ کھڑا ہوا
انکل میں ذرا مسجد جا رہا ہوں کشمالہ کے معتلق کوئی خبر ملے تو مجھے فون کر دیجئے گا
سلمان صاھب نے سر ہلا دیا ان چند گھنٹوں میں وہ جان چکے تھے کہ انکی بیٹی صرف انکے لئے ہی خاص نہیں تھی بلکہ اک اور شخص بھی تھا جس کے لئے کشمالہ اہم تھی
جہانزیب پیدل ہی مسجد آیا تھا مسجد میں اس کے علاوہ کوئی آدمی نہیں تھا
جہانزیب نے وضو کیا اور اک صف پر جا کر بیٹھ گیا
اسنے زندگی میں کبھی تہجد نہیں پڑھے تھے پر آج وہ پڑھ رہا تھا اسے اپنے رب سے کچھ مانگنا جو تھا
کچھ لوگ ہوتے ہیں جنہیں ہر چیز بنا مانگے ہی مل جاتی ہے اور جنہیں بنا مانگے ہی مل جائے تو وہ لوگ شکر ادا کرنا بھول جاتے ہیں
جہانزیب بھی انہی لوگوں میں سے تھا اسے بھی یاد نہیں تھا کہ اس نے اپنے رب کا آخری بار شکر کب ادا کیا تھا
جہانزیب کو نماز کے دوران بھی بار بار کشمالہ کے ساتھ گزارا وقت یاد آ رہا تھا زبان سے الفاظ ادا ہو رہے تھے جسم بھی ساتھ ساتھ حرکت کر رہا تھا پر دل و دماغ حاضر نہیں تھے
ایسے ہی اس نے نماز پڑھی دعا کے لئے ہاتھ اٹھاۓ پر سمجھ نہ آیا کہاں سے شورو کرے
وہ دوبارہ سجدے میں چلا گیا اور بچوں کی طرح رو دیا
وہ انہی مردوں میں سے تھا جو روتے نہیں تھے
وہی مرد جو رونے کو کمزوری جانتے تھے
وہ خود کو مظبوط سمجھتا تھا کہ وہ کبھی یوں رویا نہیں تھا پر اسے معلوم نہیں تھا کہ اس پر تو کبھی آزمائش ائی ہی نہیں تھی اور اب جب ای تھی تو وہ مضبوطی نہیں دکھا سکا تھا وہ رو دیا تھا اور اتنا رویا کہ اسکی آواز بولند ہو گئی
مسجد میں اسکے علاوہ کوئی آدمی نہیں تھا لیکن اگر ہوتا تو وہ بھی رو دیتا کیوں کہ جب مرد روتا ہے تو اکیلا نہیں روتا بلکہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو بھی رلا دیتا ہے کچھ دیر رونے کے بعد اس نے اپنا سر سجدے سے اٹھایا
یا الله یا الله یا الله اس نے تین دفع پکارہ ہر پکار میں پہلے سے بڑھ کر تڑپ تھی یا الله اپ دل کی باتوں سے واقف ہیں اپ جانتے ہیں میں آپکے در پر کیا سوال لے کر آیا ہوں
میرے رب میں نے سن رکھا ہے کہ اس وقت اپ اپنے بندے کے بہت قریب ہوتے ہیں میں اس پر ایمان لایا ہوں
مجھے معلوم ہے اپ میرے قریب ہیں اپ مجھے سن رہے ہیں یا الله اپنے اس گنہگار بندے کی سن لیجئے میں مانتا ہوں کہ میں گنہگار ہوں پر پھر بھی امید لے کر آیا ہوں میری کشمالہ سہی سلامت گھر آ جائے میرے الله مجھ پر کرم کر دیجیے اپ ہی کے گھر میں بیٹھا اپ ہی سے مانگ رہا ہوں میری دعا قبول کر لیجئے وہ اک دفع پھر سجدے میں چلا گیا اور یہی کہتا رہا میری دعا قبول کر لیجئے میری دعا قبول کر لیجئے
—————————————————————-
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...