’’اے لڑکی! کیا ہے اصلیت میری، ذرا بتائو مجھے بھی۔ یہ میرا حوصلہ ہے جو اتنے دن تمہیں برداشت کر لیا۔ جس میں حیا نہ شرم۔ میں نے دولت لے کر چاٹنی ہے خالی۔ تم جیسی لڑکی پر میں لاکھ بار لعنت بھیجتی ہوں، میرا ہیرے جیسا بیٹا تمہاری جیسی منہ پھٹ بدلحاظ، بدتمیز، جاہل لڑکی کے بھلا قابل ہی کب ہے۔ یہ تو میری عقل گھاس چرنے چلی گئی تھی، جو تم جیسی لڑکی کے متعلق سوچا۔ میں سو بار تم پر لعنت بھیجتی ہوں۔‘‘ ان کے الفاظ دوسری طرف صبا اور اسپیکر آن ہونے کی وجہ سے مریم نے بھی سنے تھے۔
’’ہاں تو آپ کیا لعنت بھیجیں گی بڑا ادب لحاظ کر لیا میں نے آپ کا۔‘‘ یہ کرشمہ کا زہریلا لہجہ تھا، صبا نے فوراً موبائل آف کیا۔
’’باپ رے! لگتا ہے فائنل اوور چل رہا ے، کون جیتتا ہے آن ایئر چل کر دیکھتے ہیں۔ چلو جلدی کرو۔‘‘ اس وقت وہ دونوں حسب معمول مریم کے گھر کی چھت پر ایک طرف بنے برآمدے میں بیٹھی کرشمہ سے بات کر رہی تھی۔
’’پہلے یہ سم تو بدل لو۔‘‘ اسے اس طرح بھاگتے دیکھ کر مریم نے ٹوکا تو اس نے فوراً سم نکالی۔
’’مجھے لگتا ہے اب اس سم کی ضرورت نہیں رہی، سنبھالو اپنی سم یا ضائع کر دو اس سے پہلے کہ راز فاش ہو۔ میں چلتی ہوں بلکہ تم بھی ساتھ آئو۔ میں دونوں کو اکیلے نہیں سنبھال پائوں گی ایک عدد تمہارے جیسے سپورٹر کی ضرورت بہرحال ہے۔‘‘
’’چلو…‘‘ مریم نے بھی سم لے کر اس کے دو ٹکڑے کر کے گھر کے عقب میں خالی احاطے میں اُچھال کر اس کے ساتھ چل دی تھی۔ ان کا منصوبہ مکمل ہو چکا تھا اب بس آخری ضرب باقی تھی جو دونوں روبرو جا کر سر انجام دے سکتی تھیں، ایسے میں اب اس سم کی کوئی ضرورت نہ رہی تھی، یہ سم کئی سال سے اس کے پاس فالتو پڑی ہوئی تھی۔ جو انہوں نے ایک لوکل شاپ سے خریدی تھی، اس سم کو استعمال کرتے ہوئے دونوں مطمئن تھیں کہ یہ سم رجسٹرڈ نہ تھی اور خریدتے وقت شاپ کیپر نے شناختی کارڈ مانگا تھا، مگر اس وقت پاس نہ تھا۔ لڑکیاں سمجھ کر اس نے سم تو دے دی تھی مگر اس تاکید کے ساتھ کہ کل آ کر شناختی کارڈ کی کاپی جمع کروا کر رجسٹرڈ کروا لیں پھر نہ کبھی اس دکان پر جانا ہوا اور نہ ہی کاپی دی۔
یہ سم بُرے وقتوں میں کام آنی تھی۔ اب وہ دونوں دیوار پھلانگتے صبا کے ہاں تھیں، نیچے سے دونوں خواتین کی زور زور سے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اب ان بولتی خواتین میں یہ دونوں لڑکیاں بھی شامل ہو گئی تھیں۔
ان کا فائنل کامیاب رہا تھا۔ ایک گھمسان کا رن پڑا تھا، دونوں فریقین میں۔ جواباً کرشمہ اسی دن اپنے گھر روانہ ہوئی تو اسی شام اس کی والدہ کے فون نے تمام کسر پوری کر دی۔ انہوں نے وہ باتیں سنائیں کہ… نصرت بیگم بھی ادھر کون سا ٹھنڈے مزاج کی خاتون تھیں، جو آرام و سکون سے سہہ جاتیں۔ بہن کو ایک کے بجائے دس سنائیں اور کرشمہ کے اندر وہ خامیاں نکالیں جو اس میں تھی ہی نہیں جواباً دونوں نے نا صرف رشتہ دینے لینے سے انکار کر دیا بلکہ آئندہ ملنے ملانے کا سلسلہ بھی بند کر دیا۔
وہ اُٹھتے بیٹھتے آہیں بھر رہی تھیں اور صبا جلتی پر تیل کا کام کر رہی تھی۔
’’کتنی بار تو آپ کو بوا جی بھائی سب نے کہا تھا کہ ہم اپنے جیسے لوگوں میں سے لڑکی لائیں گے، مگر آپ کو بھی شوق تھا اونچے امیر گھرانے کی بہو لانے کا۔ اب اس کا انجام بھی دیکھ لیا۔ شکر ہے شادی سے پہلے کرشمہ کی اصلیت کھل گئی، شادی کے بعد نجانے کیا ہوتا۔‘‘ وہ اب ہر وقت اسی کی باتیں کرتی رہتی تھی۔ ایسے میں نصرت بیگم اسے گھور کر رہ جاتیں مگر اب کہنے کو کچھ نہ بچا تھا۔
’’ہائے کتنی خواہش تھی میری فوزیہ آپی ہماری بھابی بنیں۔ آج کل ان کا رشتہ چل رہا ہے کہیں، مگر ہماری کون سنتا ہے یہاں؟ پتا نہیں خاور بھائی کس کو پسند کرتے تھے کتنا انکار کیا تھا انہوں نے ان کی پسند ہی دیکھ لیتیں۔‘‘ کن انکھیوں سے ماں کو دیکھتے رقت آمیز انداز میں کہا تو انہوں نے آنکھوں سے بازو ہٹا کر دیکھا، بات کچھ دل پر لگی تھی۔
’’تم چپ ہو گی یا میرے سر پر اسی طرح نازل رہو گی؟‘‘ وہ اس وقت بستر پر دراز اپنی غلطی پر ماتم کناں تھیں۔ صبا کو ان پر ترس آیا۔ مگر اس وقت ذرا سی کمزوری نقصان دہ تھی وہ انہیں مکمل طور پر شرمندہ دیکھنا چاہتی تھی۔
’’ہاں مجھے چپ کروا لیں، بھائی کو بھی چپ کروا لیا۔ ابو نے بھی فوزیہ آپی کے لیے کہا مگر آپ نے کبھی ان کا نام لینا بھی پسند نہ کیا۔ کرشمہ سے تو لاکھ درجے بہتر تھیں فوزیہ آپی۔‘‘ وہ آج کل بار بار فوزیہ کا نام لے رہی تھی، ان کے دل سے ہوک اُٹھی۔
’’اب کیا ہو سکتا ہے بھلا، اس کا تو رشتہ طے ہو رہا ہے؟‘‘ غرور ٹوٹا تو نیچے کا منظر بھی نظر آنے لگا، بس گردن جھکا کر نیچے دیکھنے کی دیر تھی۔
’’ابھی ہوا تو نہیں نا، دیکھیں امی کتنے فائدے تھے فوزیہ آپی کے، ساری عمر آپ کی خدمت کرتیں، مجھے تو بیاہ ہی دینا تھا نا آپ نے۔ ہمیشہ آپ کی رائے کو اہمیت دیتیں۔ خصوصاً خاور بھائی کو چھین کر کہیں لے جانے کا ڈر تو نہ رہتا۔ کوئی امیر کبیر آتی تو ہمیں دبانے کی کوشش کرتی جبکہ فوزیہ آپی تو سب کو ملا کر رکھنے والی ہستی ہیں۔‘‘ لوہا گرم دیکھ کر اس نے فوراً چوٹ لگائی تھی۔
نصرت بیگم کے اندر ملال گہرا ہوا۔ صبا ان کو نفسیاتی طور پر کمزور کر رہی تھی۔ خاور کتنا ناراض تھا۔ کتنی بار اپنی پسند ظاہر کی، باقاعدہ نام لیا، مگر انہوں نے کیا کہا؟ اس نے ضد سے غصے سے، منت سے منوانے کی کوشش کی مگر انہوں نے اپنی عقل پر لالچ کا پردہ ڈال رکھا تھا بہن کی محبت سے زیادہ امیر کبیر بہو لانے اور سوسائٹی میں گردن اکڑا کر چلنے کے زعم میں مبتلا تھیں اور اب کیا ہوا؟ اس لڑکی نے انہیں دھڑام سے زمین پر گرا ڈالا تھا یوں کہ اپنے لالچ کی بدولت خود ہی سے شرمندہ تھیں۔
’’کہاں بات چل رہی ہے فوزیہ کی؟‘‘ پچھلے دنوں سے وہ صرف کرشمہ کے مسئلے میں اُلجھی ہوئی تھیں اردگرد کی صورتحال سے قطعی بے خبر، اب خود کو سنبھال کر پوچھا۔ صبا فوراً ان کے قریب ہو کر بیٹھی۔
’’لڑکا بینک منیجر ہے، چچا جان اور چچی جا کر لڑکا دیکھ آئے تھے لڑکے کی والدہ بھی دیکھ گئی ہیں۔ چچا نے تحقیقات تک کروا لی ہیں، فیملی اچھی اور سلجھا ہوا خاندان ہے اگر ان لوگوں کی طرف سے مثبت جواب ملا تو ان کا ارادہ فوراً بات طے کرنے کا ہے۔‘‘ ان کا دل ڈوب گیا۔
’’اچھا…‘‘ ایک اچھا رشتہ ان کی دسترس میں تھا اپنی انا، ضد اور لالچی فطرت کی بدولت گنوا ڈالا تھا۔ ان کے اندر ملال کے بادل گہرے ہونے لگے۔ اپنے زعم میں وہ فوزیہ اور اس کی ماں بہنوں کو نجانے کیا کچھ کہتی رہتی تھیں، اپنے سامنے تو وہ کسی کو کچھ گردانتی ہی نہ تھیں، اب واپس پلٹیں تو بھی کیا گارنٹی تھی کہ وہ لوگ اچھا سلوک کریں گے۔ ماضی میں جو رویہ وہ ان لوگوں کے ساتھ روا رکھے ہوئے تھیں اس کے پیش نظر تو انہیں بُرے سے بُرے سلوک کی توقع رکھنی چاہیے تھی۔
’’امی پلیز مجھے فوزیہ آپی بہت پسند ہیں۔ آپ چل کر بات کریں تو ابو جی اور بھائی سے بھی کہیں، وہ لوگ انکار نہیں کریں گے۔ ایک دفعہ میری بات مان لیں۔‘‘ بھائی کا نام لیے بغیر وہ کہہ رہی تھی۔
’’اور اگر انہوں نے انکار کر دیا تو؟‘‘ انہوں نے دل کا خدشہ بیان کیا، اب تو ساری اکڑ سارا غرور مٹی میں مل چکا تھا بس یہی خواہش تھی کہ ایسی لڑکی کو بہو بنا لیں جو نا صرف بڑھاپے میں ان کی خدمت کرے بلکہ ان کا بیٹا کہیں بھی لے کر نہ جائے اور فوزیہ ہر لحاظ سے معقول تھی اس کے لیے۔
’’وہ تو بعد کی بات ہے۔ ایک دفعہ پروپوزل تو دیں نا۔‘‘ صبا نے ماں کی ہمت بندھائی تو انہوں نے گہرا سانس لیتے ہوئے سر اثبات میں ہلا دیا۔
اس بینک منیجر کے رشتے کی طرف سے مثبت جواب مل گیا تھا۔ امی جی ان لوگوں کا جواب سن کر پہلے تو حیران ہوئیں پھر ان لوگوں کو خوب سنائیں اور آخر میں منہ پر کپڑا لپیٹ کر لیٹ گئیں۔
’’پتا تو کرو ادھر سے آخر کیا جواب ملا ہے جو امی اتنے صدمے سے لیٹ گئی ہیں۔‘‘ آمنہ فری ہونے کے بعد پُرجوش تھی۔
’’انکار ہو گیا ہو گا۔‘‘ اس نے اپنی سابقہ کارکردگی کی روشنی میں اندازہ لگایا۔
’’تمہارے منہ میں خاک۔‘‘ فوزیہ خاموش تھی، آمنہ نے دہل کر کہا۔ پھر بار بار اس کے اصرار پر وہ امی کے پاس آ بیٹھی۔
’’امی کیا ہوا؟‘‘ اس نے بڑی محبت سے پوچھا۔ انہوں نے دوپٹہ ہٹا کر خونخوار نظروں سے اسے دیکھا۔
’’یہ سب تیرا کیا دھرا ہے، کتنا منع کرتی رہی کہ کوئی مہمانوں کے سامنے نہیں آئے گی۔ تم کو تو ماں کی نصیحت اچھی نہیں لگتی۔ جس بات سے منع کیا وہی کام لیا۔‘‘ وہ فوزیہ کے لیے انکار کر کے تمہارے لیے کہہ رہے ہیں۔ پیچھے کھڑی فوزیہ اور آمنہ دونوں حیران ہو گئیں۔
’’کیا واقعی؟‘‘ فوزیہ کی بات نہ بننے پر ایک دم خوشی ہوئی مگر امی کا زور دار ہاتھ اس کی کمر پر نشان چھوڑ گیا۔
’’تجھے اتنی خوشی کس لیے ہو رہی ہے؟ سوچا تھا ایک کا مسئلہ ہے ہو جائے باہر، پھر باقیوں کا بھی کروں گی۔ مگر تمہارے جیسی منحوس جس کی ہو وہاں ایسے ہی بنا بنایا کھیل بگڑتا ہے۔‘‘ امی جی کے اب آنسو بہہ رہے تھے، مریم اس صاف الزام پر بگڑ گئی۔
’’تو مجھ کو الزام کیوں دے رہی ہیں، ان لوگوں کی ہی نیت خراب تھی اس سے پہلے بھی تو کئی بار میں مہمانوں کے سامنے گئی تھی۔
’’تم میرے سامنے سے ہٹ جائو، ورنہ مجھ سے بُرا کوئی نہ ہو گا۔‘‘ اس نے بے بسی سے بہنوں کو دیکھا، آمنہ اور فوزیہ کے اشارے پر وہاں سے ہٹ تو گئی مگر دل سے بہت خوش تھی، صبا کو اپنی کارکردگی کی رپورٹ دی تو وہ بھی حیرت زدہ تھی۔
’’ہائے واقعی؟‘‘ وہ خوشی سے بولی۔
’’آرام سے سکون سے۔‘‘ اس نے آنکھیں دکھائیں۔
’’ہائے مریم مجھے بڑی ٹینشن تھی کہ کہیں امی کے راضی ہونے تک تم لوگ ہاں نہ کہہ دو۔ اب سمجھو ایک دو دن میں امی تم لوگوں کے ہاں چکر لگا رہی ہیں۔‘‘ اس نے اپنی بھی کارکردگی سے آگاہ کیا۔
’’اگر تمہاری ماں جی کو پتا چل جائے کہ کرشمہ کا رشتہ ختم کرنے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے تو سمجھو وہ شام سے قبل ہی اوپر پہنچا دیں گی۔‘‘ وہ دونوں اس وقت اپنی میٹنگ پلیس یعنی چھت پر بیٹھی ہوئی تھیں۔
’’ایویں پتا چل جائے گا، ہم نے بھی کوئی نشان تک نہیں چھوڑا اور جب تک منہ سے بھاپ تک نہ نکالیں گی خاک پتا لگے گا۔ ویسے چچی جی کا کیا ری ایکشن ہے۔‘‘
’’سر منہ لپیٹے لیٹی ہوئی ہیں۔ امی کو واقعی گہرا صدمہ پہنچا ہوا ہے۔‘‘
’’چلو نیچے چل کر دیکھتے ہیں۔‘‘ وہ دونوں نیچے اُتر آئی تھیں، امی نے دوپٹا ہٹا کر کھا جانے والی نظروں سے خراماں خراماں سیڑھیاں اُترتی دونوں لڑکیوں کو دیکھا۔ دونوں کسی بات پر زور سے ہنس رہی تھیں۔ ان کا جی اور جل کر خاک ہوا۔
’’تمہیں اپنے گھر میں چین نہیں پڑتا؟‘‘ برآمدے میں آتے ہی گولہ بارود کی بارش ہوئی تھی، مریم کی ہنسی نکل گئی۔ صبا نے شکایتی نظروں سے انہیں دیکھا۔
’’پڑتا ہے، مگر کیا کروں یہاں دل زیادہ لگتا ہے۔‘‘ وہ بھی ڈھیٹ تھی، دانت نکوسے کہہ رہی تھی۔ امی جی کا ماتھا ٹھنکا۔ لڑکی جوان، خوبصورت اوپر سے چالاک اور ہوشیار بھی تھی۔ کہیں وہ ان کا وقار تو نہیں پھنسا رہی۔ انہوں نے اسے نگاہوں ہی نگاہوں میں یوں تولا گویا قصاب بھینس کو تولتا ہے۔ وقار تو جب یہ آتی تھی گھر میں نہیں ہوتا اس وقت گھر میں تھا۔ انہوں نے کونے میں پڑی چارپائی پر لیٹے بیٹے کو دیکھا۔ جو صبا کو دیکھ کر اُٹھ بیٹھا تھا اور اسے دیکھ بھی رہا تھا۔
’’چلو اندر چلتے ہیں آمنہ اور فوزیہ بھی ادھر ہی ہیں۔‘‘ وہ ماں کے اگلے جواب سے پہلے ہی اس کا بازو گھسیٹ کر اپنے مشترکہ کمرے میں لے آئی تھی۔
فوزیہ الماری درست کر رہی تھی اور آمنہ پیپرز کی فراغت ملنے پر رسالوں سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔
’’ہیلو ایوری باڈی!‘‘ صبا بستر پر آ بیٹھی۔
’’ہیلو…‘‘ دونوں نے مسکرا کر ویلکم کہا۔
’’فوزیہ باجی بینک منیجر والے رشتے سے انکار پر دلی صدمہ ہوا۔‘‘ اس نے آغاز کیا فوزیہ مسکرا دی۔ وہی مخصوص دھیمی مسکراہٹ، جو اس کی ذات کا حصہ تھی۔
’’کوئی بات نہیں یہ پاکستان ہے۔ یہاں یہ چھوٹے موٹے ہارٹ اٹیک ہفتے میں دو بار ہر لڑکی والے برداشت کرتے ہیں۔ صبر، ہمت، حوصلہ…‘‘ آمنہ نے بڑی دلگیری سے اماں جی والے انداز میں کہا۔ فوزیہ ہنس دی۔
’’زبردست… یعنی آپ سے کوئی ہمدردی نہ کی جائے۔‘‘
’’بالکل…‘‘ قمیص استری کر کے ہینگر پر لٹکا کر مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ویری گڈ…‘‘ اس نے سراہا۔
’’ویسے مریم سوچنے کی بات ہے تمہارے اس اول جلول حلیے میں لڑکے کی ماں کو آخر نظر کیا آ گیا تھا۔‘‘ رسالہ ایک طرف ہٹا کر آمنہ نے سنجیدگی سے پوچھا جواباً اپنے حلیے پر اس تنقید پر اس نے اسے گھورا۔
’’مطلب کیا ہے تمہارا؟‘‘
’’مجھے تو لڑکے کی والدہ کا دماغی توازن ہی خراب لگتا ہے۔‘‘ صبا نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا۔
’’صبا؟‘‘ مریم نے دانت پیسے تبھی وقار نے بھی کمرے میں انٹری دی۔
’’ویسے رشتہ ہر لحاظ سے معقول ہے۔ اگر لڑکے کی والدہ کی خواہش پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے تو…؟‘‘ فوزیہ نے بھی چھیڑا تو مریم نے منہ بنا لیا۔
’’کیا خیال ہے مریم! امی کو راضی کریں پھرد‘‘ وقار بھی کبھی کبھار ان تینوں بہنوں کی محفل میں جب اتوار کو چھٹی والے دن فارغ ہوتا تو شامل ہو جاتا تھا آج بھی چھٹی تھی، وہ ان کے درمیان آ بیٹھا تھا جبکہ کچھ دیر قبل دل میں پیدا ہونے والے خیال سے گھبرا کر امی جی نے ایک دو بار اندر جھانکا جہاں ان سب کے قہقہوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔
’’نہیں… یہ نہیں ہو سکتا؟‘‘ مریم نے اداکاری کرتے ہوئے کانوں پر ہاتھ رکھ کر ایکشن سے کہا۔
’’زیادہ ہیروئن بننے کی ضرورت نہیں۔‘‘ صبا نے کشن مار کر اس کی ساری اداکاری نکال دی تھی۔
’’ویسے حرج بھی نہیں کافی معقول لوگ ہیں۔‘‘ آمنہ بھی متفق ہو چکی تھی، مریم نے مجبوراً گھورا۔
’’میں کیوں بھلا کسی سود خور سے شادی کرنے لگی۔‘‘
’’ہیں… یہ سود خور کون ہے؟‘‘ وقار کو حیرت ہوئی۔
’’بینک میں کام کرتا ہے لڑکا! سودی کاروبار میں برابر کا شریک، اللہ معاف کرے۔ ہمیں بچائے۔‘‘ اس نے فوراً دونوں گال پیٹتے کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ کی، سب ہنس دئیے۔
’’اسے کہتے ہیں دور کی کوڑی لانا، جیتی رہے میری بہن! تم تو خاصی عقلمند ہو۔‘‘
’’آپ کی کمزور اطلاع کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے ہی عقلمند ہیں۔‘‘ اس نے فرضی کالر کھڑے کیے۔
’’بیوقوفوں کی عقلمند۔‘‘ وقار کے جملے پر ایک بار پھر بے ساختہ قہقہہ پڑا تھا۔
’’بیوقوف سے یاد آیا میں نے سنا ہے آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کے برادر محترم کی منگنی اپنی بھانجی صاحبہ سے ختم کر دی ہے۔‘‘ اچانک وقار نے یاد آنے پر پوچھا، صبا حونکی۔ جبکہ فوزیہ اور آمنہ بھی متوجہ ہو گئی تھیں اور باہر بار بار نظر ڈالنے کے بعد امی جی خود ہی ادھر چلی آئی تھیں اور وقار کے منہ سے انکشاف سن کر ٹھٹک گئی تھیں۔
’’تمہیں کس نے بتایا؟‘‘ ابھی تو یہ خبر صرف ابو جی تک ہی پہنچی تھی۔
’’معاذ نے…‘‘ اس نے ہمسایوں کے لڑکے کا نام لیا، مریم بھی چپ ہو کر دیکھنے لگی۔
’’اسے کیسے پتا چلا؟‘‘
’’تمہارے گھر کام کرنے والی ملازمہ ان لوگوں کے ہاں بھی کام کرتی ہے میرے خیال سے۔‘‘ صبا نے ایک گہرا سانس لیا۔
’’ہاں میرے پیارے بھائی! اس سانحے کو آج تیسرا دن ہے۔‘‘ صبا نے بتایا۔
’’ویسے یہ ہوا کیسے؟‘‘ اس نے ازراہِ ہمدردی استفسار کیا۔
’’دونوں پارٹیز کو احساس ہو گیا تھا کہ دونوں ہی بے جوڑ تعلق باندھنے کی کوشش میں ہیں۔ دونوں طرف سے دھاگہ کھینچنے کی ضرورت میں ٹوٹنا ہی تو تھا۔‘‘
امی جی کے چہرے پر ایک بھرپور مسکراہٹ مچل گئی۔
وہ بڑے سکون سے بغیر اندر کی رپورٹ لیے واپس پلٹ گئیں اور اندر ان سب کی گفتگو ایک نئے موضوع میں داخل ہو گئی تھی۔
نصرت بیگم چند دن سوچنے کے بعد ساتھ والے گھر میں چلی آئی تھیں۔ مریم کی والدہ انہیں اپنے ہاں دیکھ کر ٹھٹکی تھیں۔ دونوں کی بظاہر کبھی لڑائی نہیں ہوئی تھی مگر دونوں ہی ہمیشہ دل ہی دل میں ایک دوسرے سے خائف اور بدظن رہی تھیں اور اس کدورت کا اظہار اپنی اپنی اولادوں کے سامنے برملا کرتی تھیں۔
نصرت بیگم نے جب سے خاور بھائی کی منگنی کرشمہ سے کی تھی ادھر امی جی کا بھی رویہ ان سے بہت بدل گیا تھا۔ پہلے جو کدورت دل میں رہتی تھی وہ اب اکثر طنز کی صورت لبوں پر رہتی تھی۔ اب خاور کا رشتہ ختم ہونے کے بعد ان کی گھر آمد پر وہ حیرت زدہ تھیں۔
امی انہیں لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھیں اور مریم جو ان کی آمد کے مقصد سے باخبر تھی۔ اس کے کان امی کے کمرے کی کھڑکی سے جا لگے تھے۔
’’یہ کیا کر رہی ہو؟‘‘ فوزیہ اور آمنہ نے اس کی حرکت کو گھورا۔
’’دیکھ نہیں رہیں۔‘‘ اس نے آمنہ کو گھورا۔
’’ہر وقت دوسروں کی ٹوہ لینے والوں پر آخرت میں آگ کے گولے مارے جائیں گے۔‘‘
اس نے پلٹ کر اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا۔ ایک تو اندر نجانے کیا مذاکرات چل رہے تھے کہ کان لگانے کے باوجود کچھ پلے نہ پڑ رہا تھا اوپر سے آمنہ کی باتیں۔
چند دنوں میں روزے شروع ہونے والے تھے، آمنہ اور فوزیہ گھر کی صفائیوں میں مگن تھیں۔ اُدھر کھڑے کچھ پلے نہ پڑا تو وہ اندر چلی آئی، امی جی نے اسے دیکھ کر گھورا۔
’’کیا ہے؟‘‘ وہ بگڑے تیور سے بولیں۔
’’کچھ نہیں یونہی ادھر آ گئی۔‘‘ وہ مسکرا کر کہتے ماں کے تیوروں کو نظر انداز کرتی کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔ امی جی نے پہلے اسے گھور کر پھر نصرت بیگم کو دیکھا۔
’’چلیں جو ہونا تھا ہو گیا، آپ کو کون سی رشتوں کی کمی ہے۔ ماشاء اللہ کھاتے پیتے لوگ ہیں، دولت کی کمی نہیں۔ بھائی صاحب کا اپنا کاروبار ہے۔ خاور میں کون سی کمی ہے۔ کہیں اور دیکھ لیں۔ ’’امی جی کا وہی طنزیہ انداز تھا جو نصرت بیگم کے لیے ان کا ہو جاتا تھا۔