’’میں نے سنا تھا ابھی میرا ذکر خیر ہو رہا تھا۔‘‘ وہ کون سا اپنے بھائی سے کم تھا، فوراً دروازے سے اندر آ گیا اور پھر مریم کو دیکھ کر اس کی آنکھوں کی چمک بڑھی تھی۔
’’یہ مریم اور ردا آپ کی چغلیاں کر رہی تھیں، میں نے روکا تو مریم مجھ سے لڑنے لگی، ویسے برادر تمہیں اس بھوری بلی میں نظر کیا آیا تھا؟ کوئی اور نہیں ملی تمہیں۔‘‘ کچھ دیر پہلے ہونے والی بے عزتی کا فوراً بدلہ چکا رہا تھا۔
مریم کھا جانے والی نظروں سے اسے گھورنے لگی۔
’’اس سے بُرائیوں کے علاوہ اور توقع بھی نہیں۔‘‘ عمر ہنسا تھا۔
’’میں نے کوئی چغلی وغلی نہیں کی۔ یہ بکواس کر رہا ہے۔‘‘ اس نے فوراً سکندر کو گھورتے اسے بھی دیکھا وہ جو اَب اندر آ کر کرسی کھینچ کر بیٹھ چکا تھا۔
’’آمنہ اور فوزیہ نہیں آئیں۔‘‘
’’آمنہ پیپرز کی تیاری میں مصروف تھی اور فوزیہ کو امی گھر چھوڑ آئی تھیں کہ آمنہ اکیلی ہو گئی گھر میں۔‘‘ سکندر کے معنی خیز اشاروں کو نظر انداز کر کے اس نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
’’اور چچا جان…‘‘
’’ابو کام سے واپسی پر ادھر ہی آئیں گے ہمیں لینے۔‘‘
’’ہائے تم رات نہیں رُکو گی۔‘‘ ردا نے پوچھا تو اس نے نفی میں گردن ہلا دی۔
’’بے مروت اتنے دنوں بعد چکر لگایا ہے، کم از کم رات تو رُکتیں، میں خود چچی سے بات کروں گی۔‘‘
’’نہیں یار! پھر کبھی چکر لگائوں گی۔‘‘
عمر نے بغور دیکھا۔ جب سے ان لوگوں کی طرف سے اس کے پرپوزل کی بات چلی تھی وہ ان کے ہاں آنے اور رہنے سے کترانے لگی تھی۔ اب بھی شاید کئی ماہ بعد چکر لگا تھا اس کا، وہ اس سے بچ کر رہتی تھی۔ بظاہر منہ پھٹ تھی مگر بعض اوقات بہت محتاط ہو جاتی تھی۔
’’آگے کا کیا ارادہ ہے؟‘‘
’’ایم ایس سی میں ایڈمیشن لوں گی، تم ساتھ ہو گی نا؟‘‘ عمر کو جواب دے کر اس نے ردا کو دیکھا۔
’’پتا نہیں بھائی لوگوں کو ہی پتا ہو گا۔‘‘ اس نے پھر عمر کو دیکھا۔
وہ ردا اور رمشاء بچپن سے اکٹھی پڑھتی آ رہی تھیں۔ ایک ہی سبجیکٹس ایک ہی کلاس اور ایک ہی ادارے میں اکٹھی رہی تھیں، چند دن پہلے تک ردا کا بھی پکا ارادہ تھا مگر اب وہ ڈانواں ڈول ہو چکی تھی۔
’’فی الحال تو کچھ نہیں کہا جا سکتا، کیا پلاننگ ہے بعد میں ہی دیکھیں گے۔‘‘ وہ اُٹھ گیا تھا، وہ جو اس کی بات سنتے اسے دیکھ رہی تھی، بات مکمل کرتے عمر مسکرایا تو وہ ایک دم گھبرا کر سر جھکا گئی۔ عمر کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی۔
’’چلو اُٹھو میرے کپڑے نکال دو۔ میں باتھ لے لوں۔‘‘ ردا کو کہہ کر وہ باہر نکل گیا تھا، ردا بھی اس کے پیچھے چلی گئی تھی جبکہ سکندر وہیں براجمان پھر شروع ہو گیا تھا اور وہ گہری سانس لیتے اس کی اوٹ پٹانگ باتوں کے اوٹ پٹانگ جواب دینے لگی تھی۔
ردا کو دیکھنے والے اسے پسند کر گئے تھے، اِدھر سے بھی چند لوگ امی ابو سمیت جا کر دیکھ آئے تھے، کون سا غیر لوگ تھے جو لمبی چوڑی تفتیش ہوتی۔ ایک دو بار چکر لگانے کے بعد بات فائنل ہو گئی تھی، اب باقاعدہ منگنی ہو رہی تھی۔ لڑکا بہت خوبصورت اور ایجوکیٹڈ تھا۔ مریم تصویر دیکھ کر متاثر ہوئی تھی، بقول امی جی کے کہ وہ اصل میں تصویر سے بھی زیادہ شاندار ہے۔ فیملی بہت اسٹرونگ اور اچھی خاصی تھی امی آج کل گم سم سی ہو گئی تھیں۔ ردا مریم سے بھی چند ماہ چھوٹی تھی، اس کی منگنی ہو رہی تھی۔ فوزیہ کو ماسٹر کیے بھی دو سال ہو رہے تھے، وہ ہر آئے گئے سے صرف ایک ہی ذکر کر رہی تھیں کہ اس کا رشتہ ڈھونڈیں۔ چند لوگ آئے بھی مگر کہیں بات نہ بنی، تو ان کے دل کا وہم ایک آہ بنتے ان کے لبوں پر جاری رہنے لگا۔
اس وقت ایک رشتہ کرنے والی اُٹھ کر گئی تھی اور امی فوزیہ کے ساتھ دل کے پھپھولے پھوڑ رہی تھیں۔ ان کی بات سن کر فوزیہ کے تیور بدلے۔ مریم نے کن انکھیوں سے اسے دیکھا۔
’’امی! آپ مسلسل حسد جیسی بیماری کا شکار ہو رہی ہیں۔ ہر وقت ردا، ردا کی تکرار کرتے رہنا، آخر کیا مقصد ہے آپ کا؟‘‘ وہ آخر کار پھٹ پڑی تھی، مریم نے گہرا سانس لیا، امی نے خاصی حیرت سے اسے دیکھا۔
’’میں بھلا کیوں حسد کروں گی، ماں ہوں فکر ہے تمہاری اور اس کی عمر کا حساب لگا رہی ہوں میں۔‘‘
’’حسد ہی تو ہے یہ، کسی چیز پر بھلا آپ کا کیا زور ہے؟ عمر اور مریم کا نام تائی نے لے کر کیا جرم کر لیا ہے، جو آپ ہر وقت ہر کسی کے سامنے دہراتی رہتی ہیں، پلیز ختم کریں یہ سلسلہ کئی لوگوں کی شادیاں نہیں ہوتیں۔ آج کل کے لوگوں کو امیر کبیر لمبے چوڑے جہیز والی بہو چاہیے جو ہم نہیں دے سکتے، پھر اس کی ٹینشن لینے کا فائدہ؟ آپ نے ہر روز کسی نہ کسی کو بلوا رکھا ہوتا ہے۔ عجیب تماشہ بنوا دیا ہے میرا۔‘‘
’’ہیں… ہیں…‘‘ امی حیرت سے فوزیہ کا ری ایکشن دیکھ رہی تھیں۔ فوزیہ ان کی اولاد میں سب سے زیادہ صابر و شاکر اور گم سم رہنے والی ہستی تھی اب اس کا یہ انداز انہیں حیرت زدہ کر گیا تھا۔
’’آپ کے دل میں کدورت ہے کہ تائی نے میرے بجائے مریم کا کیوں نام لیا؟ انکار کر رہی ہیں تو غلط کر رہی ہیں۔ آج کل کے دور میں اچھے رشتے مشکل سے ملتے ہیں۔ عمر ایک اچھا نوجوان ہے، اگر قسمت سے تائی نے مریم کے لیے مانگ لیا ہے تو کیوں ناراضی ظاہر کرتی ہیں؟ کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں اس کی شادی کرنی ہے نا تو عمر ہر لحاظ سے قابل قبول اور پرفیکٹ ہے تو پھر حرج کیا ہے، جو کام کل ہونا ہے وہ آج ہی ہو جائے۔‘‘ وہ اب غصے کے بجائے خاصی رسانیت سے امی سے کہہ رہی تھی۔
’’بڑی دو کی چھوڑ کر اس کی کر دوں، جانتی ہو تمہاری دادی کیا کہہ رہی تھیں اس دن جب ردا کو دیکھنے آئے تھے وہ لوگ تو میں نے تمہارا اور عمر کا ذکر کیا تو تمہاری دادی نے کہا کہ فوزیہ کا کہیں باہر دیکھ لو باقی دونوں کی فکر مت کرو۔ اس دن میرا دل خراب ہوا اور اب تمہاری دادی روز فون کر کے کہہ رہی ہیں کہ ردا کے ساتھ ہی عمر اور مریم کی بھی منگنی کر دوں۔ ردا کے بعد گھر سنبھالنے والی چاہیے، اگر میں ہاں کر دوں تو ٹھیک ورنہ پھر تمہاری تائی باہر کہیں دیکھیں گی۔‘‘ امی نے دل کی بات کہی تو فوزیہ تو خاموش ہوئی تھی، وہ بھی چند پل کو حیرت زدہ رہ گئی تھی۔
’’امی میری فکر مت کریں، پلیز انکار مت کریں، اگر وہ فوراً شادی کا کہتی ہیں تو ہمیں اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ تائی بیمار رہتی ہیں ردا کے بعد واقعی اس گھر کو ایک عورت کی ضرورت ہے۔‘‘ فوزیہ نے سنبھل کر سمجھایا۔
’’ہر گز نہیں میں نے ابھی ایم ایس سی کرنا ہے اور اگلے پانچ چھ سال تک تو شادی کا نام تک نہ لیجیے گا میں نہیں اتنی جلدی شادی کرنے والی۔‘‘ وہ جو قدرے فاصلے پر چارپائی پر لیٹی رسالہ ہاتھ میں پکڑے دونوں کے خیال میں بے خبر تھی، اسے یوں منہ پھاڑ کر انکار کرتے دیکھ کر دونوں ہی چونک گئیں۔
’’لو سن لو اور تم کہہ رہی تھیں کہ اس کی شادی کر دوں۔ یہ تم سے کم ہے کیا، جب تمہارے لیے رشتے مل رہے تھے تم نے بھی ایک ہی رٹ لگا رکھی تھی کہ پہلے پڑھوں گی پھر شادی وادی کیجیے گا اب یہ تمہاری جگہ لے چکی ہے۔ کر لیں شادیاں میں نے تم لوگوں کی۔‘‘ امی تو اس صاف انکار پر بھنا کر ایک دم غصے سے بولی تھیں۔
’’تمہیں کیا مسئلہ ہے؟‘‘ فوزیہ نے گھرکا۔
’’ایم ایس سی مکمل کرنا ہے اگر کسی نے میری تعلیم کے دوران روڑے اٹکائے تو بہت بُرا کروں گی۔ فوزیہ یا آمنہ کی کر دیں امی، میرا نام نہ لیجیے گا۔ تائی بھلے کہیں اور دیکھ لیں۔‘‘ رسالہ چارپائی پر پٹخ کر وہ غصے سے کہتی اُٹھ گئی اور امی نے بہت غصے سے فوزیہ کو دیکھا۔
’’یہ دیکھ لیا اس کا انداز، آ جائیں تمہارے ابا… صاف جواب دوں گی۔ کل خالہ بتول کسی فیملی کو لے کر آ رہی ہیں، اب جیسی بھی ہوئی میں نے کر دینا ہے تم تینوں کا ہی، بھابی بیگم عمر اور سکندر کے لیے مانگ تو رہی ہیں نا، میں نہیں انکار کروں گی۔‘‘ فوزیہ نے لب دانتوں تلے دبا لیے۔
فوزیہ کی ایک جگہ بات چلی چند دن میں دونوں طرف سے لوگ آئے گئے اور پھر عین موقع پر آ کر ان لوگوں نے انکار کر دیا، امی کا صدمہ سے بُرا حال تھا۔ دوسری طرف ردا کی منگنی کی تیاریاں ہو رہی تھیں، دادی کے بار بار کہنے پر امی نے صاف کہہ دیا تھا کہ جب تک فوزیہ کا کہیں نہیں ہو جاتا وہ آمنہ اور مریم کا بھی نہیں کریں گی۔ سب نے سمجھایا مگر ان کی ضد نہ ٹوٹی۔ مریم مطمئن ہو گئی تو آمنہ کو تو پہلے بھی کوئی فرق نہ پڑتا تھا۔ وہ آج کل پیپرز دے رہی تھی، دو تین پیپرز رہ گئے تھے چونکہ سکندر اور اس کے ایگزیمز کے ایک ساتھ مکمل ہوئے تھے سو منگنی ایگزیمز کے بعد تھی۔
ردا کئی بار اسے کال کر چکی تھی خود بھی ایک دو بار آ کر اسے کہہ چکی تھی کہ وہ اس کے ساتھ چل کر منگنی کی تیاری کروا دے مگر امی کے رویے سے سب سے زیادہ وہ متاثر ہو رہی تھی، اس لیے اس نے صاف انکار کر دیا۔ دوسری طرف عمر کی کبھی کبھار گھر کے نمبر پر آنے والی کالز کو بھی وہ مکمل طور پر نظر انداز کر رہی تھی۔
ردا عمر کے ساتھ آئی تو عمر کے سامنے جانے کے بجائے چائے بنا کر ردا کے ہاتھ امی کے کمرے میں بیٹھے عمر کے پاس بھجوا کر وہ اسے لیے چھت پر آ گئی۔ آمنہ اور فوزیہ بھی وقار کے ساتھ امی کے کمرے میں تھیں، سو وہ مطمئن ہوتھی کہ اگر کوئی ضرورت پڑی تو امی اسے آواز نہیں دیں گی۔
’’کتنے دن ہو گئے ہیں صبا ننھیال جا کر بیٹھ گئی ہے، لگتا ہے رزلٹ انائونس ہونے پر ہی اب لوٹے گی۔‘‘ ساتھ والی چھت کو دیوار میں بنے سوراخوں میں سے دیکھتے ردا نے کہا۔
’’ہاں رات ذکر کر تو رہی تھی کہ صبح آ جائوں گی، کال کی تھی اس نے۔ اب پتا نہیں آئی ہے کہ نہیں اب اگر آئی ہوتی تو ہمارے ہاں چکر تو ضرور لگاتی۔‘‘
’’خاور بھائی آئے ہوئے ہیں کیا؟‘‘ ردا کے پوچھنے پر وہ چونکی۔
’’نہیں وہ تو نہیں آئے گی۔‘‘
’’مگر ہم جب آئے تھے وہ اپنے گیٹ پر کھڑے تھے، بھائی سے سلام دُعا کی تھی، ہمیں بلا رہے تھے۔
’’ہو سکتا ہے مگر ہمیں علم نہیں۔‘‘ ساتھ والا گھر ابو کی دور کی پھوپھی کا گھر تھا۔ جہاں ان کی وفات کے بعد اب ان کے بڑے بیٹے اور بہو اپنی اولاد کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ صبا انہی کی بیٹی تھی اور خاور اس کے بڑے بھائی تھے۔ جو آرمی میں تھے کبھی کبھار ہی چکر لگاتے تھے۔
’’مریم تمہارا رویہ بدل گیا ہے یا مجھے لگ رہا ہے۔ تم عمر بھائی سے بھی نہیں ملیں جبکہ وہ کتنے دنوں سے تمہارے رویے سے پریشان تھے، آج مجھے لے کر اس لیے آئے تھے کہ تم سے بات کریں گے مگر تم ان کے سامنے تک نہیں گئیں، سلام دُعا تو دور کی بات ہے۔‘‘
مریم نے اسے سنجیدگی سے دیکھا۔ عمر کی سنجیدگی عمر کے علاوہ ردا اور سکندر سے ڈھکی چھپی نہ تھی۔ اس کے اپنے گھر میں سب لوگ کس حد تک باخبر تھے اسے اندازہ تھا مگر اس کے رشتے والی بات جس طرح سب کے علم میں آ چکی تھی ایسے میں وہ عمر سے سلام تک بھی کرنے کو تیار نہ تھی۔ امی کے آج کل جو تیور اور مزاج ہو رہا تھا اس میں اسے یہی احتیاط اچھی لگی تھی۔
’’دیکھو ردا! تم بہن ہو، تم اپنے بھائی کی ہی فیور کرو گی مگر ایک بات کہوں گی جس طرح امی اور ابو جی فوزیہ کی طرف سے پریشان ہیں، ہر روز نت نئے لوگ آ رہے ہیں کچھ کے معیار پر ہم نہیں پورے اُتر رہے اور کچھ لوگ ہمارے معیار پر… ایسے میں فوزیہ کے احساسات کس حد تک مجروح ہو رہے ہیں تم اندازہ لگا سکتی ہو۔ کیا یہ زیادتی نہیں تھی کہ فوزیہ جیسی ذہین کوالیفائیڈ خوبصورت لڑکی چھوڑ کر تائی بیگم نے میرا نام لیا۔ امی جی کا کہنا غلط نہیں اوپر سے جس طرح تم لوگوں نے شوشا چھوڑا کہ تمہارے ساتھ میری بھی بات پکی کر کے شادی کر دی جائے سوچو ذرا امی یا فوزیہ کے جذبات کو ٹھیس نہ لگی ہو گی۔ میں آخری بیٹی ہوں اپنی فیملی کی اور فوزیہ مجھ سے کئی درجہ بڑی، عمر بھائی کے لیے تم لوگوں نے میرا نام لیا یہ سراسر زیادتی نہیں کیا؟‘‘
’’عمر بھائی تمہیں پسند کرتے ہیں اور میرے بعد گھر میں ایک عورت چاہیے تھی اس لیے دادی اور امی نے چچی سے بات کی تھی اس میں بھلا زیادتی والی کیا بات ہوئی۔‘‘
’’میں عمر بھائی کو پسند نہیں کرتی، ٹھیک ہے وہ ہر لحاظ سے اچھے ہیں مگر میں اپنی ایجوکیشن ادھوری نہیں چھوڑ سکتی، دوسری بات یہ کہ فوزیہ کی جب تک کہیں بات نہیں فائنل ہوتی ہم لوگ ایسا سوچیں گے بھی نہیں۔‘‘ ردا اسے بغور دیکھ رہی تھی۔
’’تم واقعی عمر بھائی کو پسند نہیں کرتیں۔‘‘ وہ ابھی تک اس کی پہلی بات میں ہی اٹکی ہوئی تھی۔
’’جو مرضی سمجھ لو۔‘‘ اس نے لاپروائی سے کندھے اچکا دئیے۔
’’اور عمر بھائی کے تمہارے لیے جو احساسات و جذبات ہیں وہ سب…؟‘‘
’’یہ سب یکطرفہ ہیں، اس میں میرا قطعی کوئی قصور نہیں۔‘‘ ردا خاموشی سے اسے دیکھے گئی۔ برسوں کا ساتھ تھا ایک دوسرے کے چہرے کو دیکھ کر اندر کا حال بتا سکتی تھیں مگر اس پل ردا مریم کے بے تاثر چہرے سے کچھ اخذ نہ کر پائی تھی۔
’’عمر بھائی تمہاری ایجوکیشن کے معاملے میں اثر انداز نہیں ہوں گے، ہماری بھی مجبوری ہے۔ امی بیمار ہیں، وہ تمہیں سپورٹ کریں گی، تھوڑی بہت گنجائش تو نکالو یار!‘‘ وہ ملتجی ہوئی تھی، وہ سمجھ رہی تھی کہ وہ اپنی ایجوکیشن کی وجہ سے ایسا کہہ رہی ہے۔
’’سوری! تم لوگ فوزیہ کے بارے میں سوچ لو۔ وہ ہر لحاظ سے پرفیکٹ لڑکی ہیں۔ تمہارے بھائی کے ساتھ سوٹ کرتی ہیں، ان کی ہم عمر ہیں۔‘‘
’’سوٹ تو تم بھی کرتی ہو۔‘‘ وہ ناراضی سے کہہ رہی تھی۔
’’تم لوگ ہماری پرابلم نہیں سمجھتے، کیا فائدہ ایسی رشتہ داری کا؟ ہم نے بھی تو عبید بھائی کے لیے عندلیب بھابی کا پروپوزل لیا تھا۔ اب جبکہ ہم پرابلم میں ہیں تو تم لوگوں نے اپنا معیار اپنا رکھا ہے۔ یہ طے ہے امی نے کبھی فوزیہ سے پہلے آمنہ یا میری بات طے نہیں کرنی اور تمہاری شادی رُک نہیں سکتی۔ تو بہتر ہے تم لوگ باہر کہیں دیکھ لو۔ کہیں نہ کہیں ہم لوگ بھی دیکھ لیں گے فوزیہ کے لیے۔ رہ گئی میں، تو ابھی بہت وقت پڑا ہے، پریکٹیکل لائف کے متعلق میں نے کبھی نہیں سوچا۔ ایجوکیشن کمپلیٹ کرنی ہے پھر جاب کروں گی، بیچلر لائف انجوائے کروں گی یار!‘‘ وہ خاصی مطمئن تھی۔ ردا بڑے دُکھ سے اسے دیکھنے لگی اور اور پھر بغیر کچھ کہے پلٹی تھی۔
’’ردا…‘‘ مریم کو ایک دم اندازہ ہوا کہ وہ کچھ زیاد ہی بول گئی ہے۔
اتنے دنوں کا غبار جو امی کی باتوں سے دل میں جمع تھا، غلط وقت پر اور غلط بندے پر نکلا تھا۔ اسے ایک دم اپنی زیادتی کا احساس ہوا۔
’’ردا! پلیز رُکو تو… میری بات تو سنو…‘‘ وہ اس کے ساتھ سیڑھیاں اُترتے ساتھ چلتے امی کے کمرے تک آئی تھی مگر اندر سے عمر، وقار، آمنہ کے قہقہوں کی آواز سنائی دی تو رُک گئی جبکہ ردا اندر داخل ہو چکی تھی۔
’’عمر بھائی گھر چلیں…‘‘ وہ کہہ رہی تھی۔
’’چلتے ہیں، ابھی ٹھہرو تو سہی۔‘‘
’’نہیں… ابھی چلیں… میرے سر میں بہت درد ہو رہا ہے۔‘‘ وہ کہہ رہی تھی اس کی آواز میں عجیب سا احساس تھا۔ مریم لب بھینچے پلٹ کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی تھی، اس نے غلط کہا تھا یا درست مگر ردا کے روئیے نے اسے عجیب انداز میں گم سم کر دیا تھا اور پھر سونے تک وہ گم سم ہی رہی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...