کچن سے فارغ ہو کر وہ ٹی وی دیکھنے بیٹھ گئی تھی، آمنہ کے امتحان ہونے والے تھے تو وہ آج کل اپنی تیاریوں میں لگی ہوئی تھی جبکہ وقار ایگزیمز کے بعد کسی اکیڈمی کو جوائن کر چکا تھا اس کا ارادہ آگے انجینئرنگ میں داخلہ لینا تھا آج کل اس کی ساری توجہ انٹری ٹیسٹ کی تیاری پر تھی۔ وہ اس کے قریب بیٹھا کچھ کاغذات پھیلائے اسٹڈی کر رہا تھا جبکہ فوزیہ اکیڈمی میں سٹوڈنٹس کے لیے ہوئے ٹیسٹ چیک کر رہی تھی۔ امی ابو روزانہ کی طرح اس وقت بھی بیٹھے خاندان کے کسی نہ کسی مسئلے کو ہی ڈسکس کر رہے تھے۔ دونوں کی آواز دھیمی تھی کہ دوسرے لوگ متوجہ نہ ہوں اور وہ رہی سدا کی تجسس پسند اس کے کان فوراً کھڑے ہوئے۔ غیر محسوس انداز میں ٹی وی کی طرف دیکھتی امی ابو کی طرف کھسکی تھی۔
’’دیکھ لیں اپنی بھاوج کو، ہمارا ذرا احساس نہیں۔ دوسری بیٹی بھی میکے والوں میں دے رہی ہیں جبکہ میں نے عندلیب کی دفعہ ہی کہہ دیا تھا کہ ردا کی فکر مت کریں، وقار پڑھ لکھ جائے گا تو ہم دیکھ لیں گے۔ ابھی کون سی بڑی عمر ہو گئی ہے اس کی، اچھا رشتہ دیکھ کر فوراً تیار ہو گئی ہیں۔ بھلا ان اونچے لمبے کاروباری لوگوں کے سامنے ہماری کیا حیثیت؟‘‘ اس کے کان کھڑے ہو چکے تھے۔
’’ہیں… یہ ردا کا کیا معاملہ ہے بھلا۔‘‘ بڑے دن ہو گئے تھے اسے تایا کے ہاں چکر لگائے ہوئے اس لیے تازہ صورتحال کا اسے علم نہ تھا۔
’’کتنی بار کہا ہے کہ دل چھوٹا نہیں کرتے۔ ماشاء اللہ اپنی بچی ہے اچھے گھر جائے گی تو ہمیں بھی سکھ ملے گا۔ اچھے لوگ ہیں پھر بھابی کے میکے والوں میں سے ہیں۔ لڑکا بھی پڑھا لکھا اچھے کاروبار والا ہے۔ وقار ابھی پڑھ رہا ہے انجینئرنگ میں بھی داخلہ لینا ے، اتنی تو مشکل پڑھائی ہے اس کی، کئی سال لگ جائیں گے پھر اس کے بعد نوکری مقدروں سے ملتی ہے۔ ایسے میں بھابی بھائی جی کا فیصلہ کچھ غلط بھی نہیں۔‘‘ ابو جی رسان سے سمجھا رہے تھے۔
’’اتنی پیاری سلجھی ہوئی بچی تھی، باہر جائے گی دُکھ تو ہو گا۔‘‘ امی کا انداز واقعی دُکھی تھا۔
’’کہا ناں… فکر کیوں کرتی ہو، اللہ بہتر کرے گا پھر کل جا رہی ہو نا؟ ادھر وہ لوگ رسماً آ رہے ہیں، بھائی صاحب نے کئی دن سے ذکر کر رکھا تھا بس تمہیں بتانا یاد نہیں رہا تھا۔ ردا کا ہاتھ بٹ جائے گا۔‘‘ ابو جی کی وہی تحمل مزاجی تھی، مریم کے اندر پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی۔
’’یہ کیا سلسلہ ہے؟ اور ردا بی بی کو ہضم کیسے ہو گئی اتنی بڑی بات۔ اپنی ہر بات بتانے والی اتنی بڑی بات چھپا گئی مجھ سے؟‘‘ اس کا دل چاہا ابھی اُٹھے اور جا کر فون کھڑکا دے مگر ابو جی اور امی مزید بھی کچھ ڈسکس کر رہے تھے وہ وہیں بیٹھی رہی۔
’’تو پھر آپ بھی بھائی صاحب سے عمر اور فوزیہ کے لیے کہیں نا، دونوں ہم عمر ہیں۔ فوزیہ میں کیا کمی ہے بھلا؟‘‘ امی کی وہی تکرار تھی۔
’’اپنے منہ سے بھلا کیسے کہہ سکتا ہوں، ہاں بھائی صاحب نے چند دن پہلے اشارتاً عمر اور مریم کا ذکر کرتے سکندر اور آمنہ کے لیے بات کی تھی۔‘‘
’’ہائے… کیا واقعی؟‘‘
’’ہاں… کہہ رہے تھے کہ آمنہ کے لیے کہیں باہر نہ دیکھنا، فوزیہ کے لیے دیکھ لو، مریم اور آمنہ کی طرف سے بے فکر رہو۔ دونوں ان کی بچیاں ہیں۔‘‘ امی چپ رہ گئی تھیں۔
مریم کا جی چاہا کہ لڈیاں ڈالے، آمنہ اور سکندر دونوں ایم ایس سی میتھا میٹکس کر رہے تھے، دونوں ایک ہی یونیورسٹی میں اکٹھے ہی تھے، پسندیدگی والی بات تو کبھی بھی نہیں۔ پتا نہیں یہ ان دونوں کا فیصلہ تھا یا محض تایا ابو کا خیال اس کا جی چاہا کہ ابھی اندر جا کر آمنہ کی گردن پکڑ لے۔
’’آمنہ ہو یا فوزیہ ہمارے لیے ایک جیسی ہی ہیں نا، ردا کے متعلق دل میں بدگمانی مت ڈالنا۔ وقار کو کئی سال لگ جائیں گے سیٹل ہونے میں، اتنی دیر تک بچی کو بٹھائے رکھنا عقلمندی تو نہیں۔ ویسے بھی یہی عمر ہوتی ہے بچیوں کو اپنے گھر کا کر دینے والی۔‘‘
’’تو پھر آپ نے آمنہ اور سکندر والی بات کا کیا جواب دیا تھا؟‘‘ اس کی طرح گویا امی کی بھی سوئی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔
’’ابھی تو کچھ نہیں کہا، ویسے بھی بھائی صاحب نے اپنی خواہش ظاہر کی ہے باقاعدہ بات تو نہیں کی، میں نے بھی سن لی۔ اب تم سے مشورہ کیے بغیر کوئی جواب کیسے دے دیتا؟ ابھی دونوں پڑھ رہے ہیں، فارغ ہو لیں تو دیکھیں گے بھئی۔ ویسے بھی انہوں نے کون سا فوراً جواب مانگ لیا ہے۔ سوچ سمجھ کر اپنے بچوں کی رضامندی لے کر جواب دیں گے نا۔‘‘ ابو پُرسوچ انداز میں کہہ رہے تھے دھیمی آواز بمشکل وہ سن پا رہی تھی اگر اس کا پورا وجود کان بنا نہ ہوتا تو یہ کوشش ہی بیکار تھی جبکہ فوزیہ اردگرد سے بے نیاز اپنے ٹیسٹ چیک کرنے میں مصروف تھی اور یہی حال وقار کا بھی تھا۔
’’آج عبید اور عندلیب کا بھی فون آیا تھا۔‘‘ امی نے ابو سے ذکر کیا۔
’’اچھا کیا کہہ رہے تھے؟ ٹھیک ہیں نا دونوں؟‘‘
’’ہاں خوش ہیں، عندلیب کا وزٹ ویزہ ختم ہو رہا ہے، عبید کہہ رہا تھا کہ آگے ویزہ نہیں مل رہا۔ ہو سکتا ہے عندلیب کو واپس بھیج دے۔‘‘
’’چلو اللہ کی مرضی! ویسے بھی اس حالت میں بچی کو اپنوں کے پاس ہونا چاہیے۔‘‘ ابو جی نے کہا۔
’’ہاں میں بھی یہی کہہ رہی تھی، ابھی تو چند ماہ ہوئے ہیں، واپس آ جائے تو یہاں ہم ہیں وہاں دونوں کہاں ڈاکٹروں کے چکر لگاتے رہیں گے؟ نا کوئی دیکھ بھال کرنے والا ہے بالکل تنہا وہاں عندلیب پریشان ہو جائے گی۔‘‘ عندلیب بھابی آج کل امید سے تھیں اور امی کی شدید خواہش تھی کہ ڈلیوری پاکستان میں ہو۔
’’میں تو فارغ نہیں ہوں گا تم ہی کل ذرا یاد سے چکر لگا لینا۔ ردا مریم کا کہہ رہی تھی اسے بھی لے جانا۔‘‘ ابو جی نے ایک نگاہ اس پر ڈالی جو بظاہر ٹی وی دیکھنے مگر ساری توجہ ان پر ہی مبذول کیے ہوئے تھی۔
’’اگر بات چھڑی تو میں ایک دفعہ فوزیہ اور عمر کی بات ضرور کروں گی۔ آمنہ اور سکندر والی بات تو بعد کی بات ہے۔ بڑی دونوں کو چھوڑ کر آخری کا نام لے لیا، بڑی ہی عقلمندی والی بات تھی کیا؟ اس معاملے میں مجھے مت ٹوکیے گا، میں سیدھی بات ماں جی کے کانوں میں ڈالوں گی آخری فیصلہ ان کا ہی ہو گا۔‘‘
’’پھر وہی بات، ہم اپنے منہ سے کہتے ہوئے اچھے لگیں گے کیا؟‘‘ ابو جی نے ٹوکا۔
’’آپ بیٹھے رہیں انہی باتوں میں، میں کہتی ہوں بھلا کیا کمی ہے فوزیہ میں، خوبصورت ہے، پڑھی لکھی ہے، ماشاء اللہ کما لیتی ہے، بھابی بیگم کو اور کیا چاہیے؟‘‘
’’بالکل بھی نہیں، تم قطعی ذکر نہیں کرو گی۔ ہم دیکھ تو رہے ہیں چند لوگوں کو کہہ بھی رکھا ہے، اللہ نے چاہا تو کوئی سبیل بھی نکل آئے گی، ناامید نہیں ہوتے۔
ابو جی کا وہی متحمل انداز تھا۔ تبھی اس کا موبائل بجنا شروع ہوا تو وہاں موجود سبھی نے اسے دیکھا۔ دراصل یہ موبائل گھر میں امی کے پاس ہوتا تھا مگر آج کل فری وقت میں مریم کے ہاتھ میں رہتا تھا۔ وہ صبا اور ردا کو ہر وقت ایس ایم ایس کر کے وقت گزارتی تھی۔ اب بھی موبائل بجا تو امی جی نے چونک کر اسے دیکھا جس نے گود میں پڑا موبائل فوراً اُٹھا لیا تھا۔
’’کس کی کال ہے؟‘‘ امی جی نے پوچھا۔
’’ردا کی ہے۔‘‘ وہ جو سوچ رہی تھی کہ امی ابو کے اُٹھتے ہی اس سے گھنٹہ پیکج پر بات کرتی ہے اس کی کال دیکھ کر خوش ہو گئی تھی۔
’’ایک تو ان دونوں کی ایک دوسرے کے بنا روٹی ہضم نہیں ہوتی۔‘‘ امی بڑبڑائی تھیں۔
’’شکر کریں تکون کا تیسرا فرد غائب ہے۔‘‘ اس نے کال پک کر کے وقار کو گھورا اس کا اشارہ صبا کی طرف تھا جو آج کل ایگزیمز کے بعد ننھیال کے دورے پر تھی۔
’’السلام علیکم!‘‘ وہ موبائل کان سے لگاتی باہر نکلی تھی۔
’’و علیکم السلام! کیسی ہو؟‘‘ غیر متوقع آواز سن کر وہ چونک گئی تھی۔
’’عمر؟‘‘ اس نے لب دانت تلے دبا لیے۔ دو دن پہلے جب وہ لوگ رشتہ دیکھنے گئے تھے تو اسی رات اس شخص کی کئی کالز آئی تھیں اور اس نے چارجنگ ختم ہونے کا بہانہ بنا کر موبائل سائلنٹ پر کر کے بیگ میں رکھ دیا تھا مگر آج اس کی آواز سن کر کچھ اُلجھ گئی تھی۔
’’ٹھیک ٹھاک… آپ سنائیں؟‘‘ اب بات کرنا مجبوری تھی۔
’’میں بھی اے ون ہوں، اس دن سے مسلسل کال کر رہا ہوں پک کیوں نہیں کر رہی تھیں۔‘‘
’’موبائل فون خراب تھا۔‘‘
’’اب کیسے ٹھیک ہو گیا؟‘‘ اس نے طنزاً کہا تھا اس نے گھور کر موبائل فون کو دیکھا اگلے ہی لمحے تپ گئی تھی۔
’’غیر ضروری کالز کے لیے ہمارا یہ موبائل آٹو میٹکلی کام کرتا ہے، سپیشل ورکنگ ہے اس کی۔ یوں سمجھیں غیر ضروری بندوں اور کالز کے لیے کام کرنا بند کر دیتا ہے۔‘‘ اپنی طرف سے ٹھیک ٹھاک ڈوز دی تھی مگر دوسری طرف وہ بھی ڈھیٹ ہڈی تھا ایک دم ہنس دیا۔
’’ویل ڈن بہت اچھا بول لیتی ہو اور بہت اچھی ورکنگ ہے تم لوگوں کے سیل کی۔‘‘
’’دادی جان اور باقی گھر والوں کا کیا حال ہے؟‘‘ اس نے بات پلٹ دی۔
’’مجھے کیا پتا؟ خود تو محترمہ کو کبھی توفیق نہیں ہوتی کہ کبھی چکر لگا لیں۔
’’جی پائوں میں مہندی لگائی ہوئی ہے آج کل۔‘‘ اس نے جلانے کی حد کر دی تھی۔
’’مریم!‘‘ اپنی طرف سے وہ بڑے سٹائل میں بولا تھا مگر ادھر پرواہ کسے تھی؟
’’کال کیوں کی ہے اور ردا کدھر ہے؟‘‘
’’تمہاری آواز سننا چاہتا تھا۔ بڑے دن ہو گئے تھے کوئی گرما گرمی نہیں ہوئی تھی سوچا کہ حال چال دریافت کرتے مزاجِ یار کا ہی اندازہ لگا لیں۔‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے حال چال تو دریافت کر لیا ہے آواز بھی سن لی ہے، رہ گئی گرما گرمی والی بات تو امی کو موبائل دیتی ہوں آج کل بجلی کے بحران کی وجہ سے آنے والی گرمی گرما گرم نوعیت کی ہے، وہ بہتر حال بتائیں گی۔‘‘ اس نے دھمکی دی تھی۔
’’مریم!‘‘ وہ خاصے غصے سے بولا تھا۔ ’’یہ چچی کی دھمکیاں مت دیا کرو۔‘‘
’’دیکھیں عمر بھائی! آپ کی باتیں میرے سر سے گزر جاتی ہیں، اس لیے ٹائم ضائع مت کیا کریں، خوا مخواہ بیلنس کا بھی زیاں ردا کدھر ہے؟‘‘ جواباً اس نے سنجیدگی سے ٹوکتے ردا کا بھی پوچھا تھا۔
’’تم واقعی اتنی نا سمجھ ہو یا انجان بننے کی کوشش کرتی ہو؟‘‘ وہ فوراً سنجیدہ ہو گیا تھا۔
’’عمر بھائی ردا سے کہیں کہ یا تو مجھے خود کال کرے یا پھر اپنا سیل آپ کے ہاتھوں میں مت دیا کرے۔ دوبارہ آپ کی آواز سنائی دی تو ڈائریکٹ ابو جی کو جا کر موبائل پکڑا دوں گی۔‘‘ جواباً وہ خاصی تپ کر گویا ہوئی تھی۔
’’ہائے… بدنام گر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا؟ ویسے آپس کی بات ہے ہمارے چچا جان خاصے سیانے ہیں جو بات تم نہیں سمجھ پا رہیں وہ ضرور سمجھ جائیں گے۔ میرا خیال ہے یہ بھی ایک نیکی ہے، آزمائش شرط ہے، کیا خیال ہے دوبارہ میری آواز سن کر چچا جان کو دو گی نا؟‘‘ غصے سے اس کے بعد ایک لفظ بھی کہے بغیر کال بند کر دی تھی۔
وہ جو ردا سے لمبی بات کرنے کا سوچ رہی تھی کل پر ٹال کر آرام سے موبائل آف کر کے اپنے اور آمنہ کے مشترکہ کمرے کی طرف چل دی تھی۔
اگلے دن وہ امی کے ساتھ تایا ابو کے ہاں چلی آئی تھی، وقار انہیں چھوڑنے آیا تھا۔ اسے اکیڈمی جانا تھا انہیں چھوڑ کر سلام کرتا فوراً نکل گیا تھا، واپسی پر ابو جی نے لینے آنا تھا۔
’’بڑی چھپی رستم نکلی ہو تم؟ اور یہ رشتے والی کیا کہانی ہے؟‘‘ تایا تائی کی طرف گوری چٹی ردا ایک دم شرما سی گئی تھی۔ سب سے ملنے کے بعد وہ اب اس کے پاس آ گئی۔
’’مجھے کیا پتا امی جان سے پوچھو؟‘‘
’’موصوف کا حدود اربعہ کیا ہے؟‘‘ اس نے باقاعدہ تفتیش کا آغاز کر لیا تھا۔
’’امی جی کی خالہ کی بہو کا بیٹا ہے۔ ان لوگوں کا اپنا کاروبار ہے، لمبا چوڑا سا۔ زیادہ تفصیل مجھے بھی نہیں پتا۔ یہ لوگ بھی بہت کم ملتے رہے ہیں نا۔ کبھی کبھار شادی بیاہ میں امی وغیرہ ہی آتی جاتی رہی ہیں، چند دن پہلے ان لوگوں نے کال کر کے نانی جی سے بات کی اور پھر انہوں نے امی کو کہا اور یوں امی ابو نے ان کو آج گھر بلوا لیا ہے۔ ابھی صرف دیکھنے دکھانے کا سلسلہ ہے۔ اپروول وغیرہ کا پراسس بعد کی بات ہے۔‘‘ ردا نے تفصیلاً ذکر کر دیا تھا۔
’’اوہ! میں سمجھی کہ آج ہی باقاعدہ معاملہ طے ہو جائے گا۔ کوئی تصویر وغیرہ ہے لڑک کی، نام کیا ہے؟‘‘
’’نہیں… تصویر نہیں ہے۔ امی کی یہ خالہ تمہیں پتا تو ہے سرگودھا سے آگے کسی علاقے کی رہنے والی ہیں۔ وہیں ان کا پھلوں کا کاروبار ہے، اپنی فیکٹریاں ہیں۔ اتنی دور کی رشتہ داری کہاں ملنا ملانا تھا پہلے کبھی، ہم بھی اپنی تعلیم کی وجہ سے کہیں آئے گئے ہی نہیں اور نہ ہی وہ لوگ آئے۔‘‘
’’تو تمہیں دیکھ کہاں لیا ان لوگوں نے؟‘‘ اسے حیرت ہوئی۔
’’بڑے ماموں اور نانی لوگوں کی کوشش ہے، بڑے ماموں کا زیادہ آنا جانا ہے پھر رمشاء باجی کے بڑے بیٹے کے عقیقے کی تصاویر کہیں ادھر گئی تھیں، بس آپی کہہ رہی تھیں کہ وہی تصاویر دیکھ کر امی کی خالہ کی بہو نے پوچھ گچھ شروع کر دی، وہ آج کل اپنے بیٹے کے لیے لڑکیاں دیکھ رہی تھیں نا۔‘‘
’’اور نظر انتخاب تم پر ٹھہری، چلو اللہ بہتر کرے گا۔‘‘ وہ ہنس دی، تبھی تائی بیگم چلی آئیں۔
’’لڑکیو باتیں بعد میں کر لینا، بہت کام ہے کرنے والا، بے شک وہ لوگ رسماً آ رہے ہیں مگر میری سگی خالہ اور ان کی بہو کی فیملی ہے۔ کھانا اچھا سا ہونا چاہیے۔ شام کو وہ لوگ پہنچ رہے ہیں، رات ٹھہریں گے کل واپسی ہو گی۔‘‘ وہ کچن میں ردا کو لیے پوچھ تاچھ کر رہی تھی تائی بیگم بھی ادھر آ گئی تھیں۔
’’رمشاء کو فون کر دیا تھا، تمہارے بڑے ماموں رمشاء اور نانی بھی آ رہے ہیں، کتنے افراد ہو جائیں گے۔‘‘ انہوں نے ساتھ ساتھ افراد کی تعداد بھی واضح کر دی تھی۔ دوپہر میں رمشاء باجی بھی آ گئی تھیں اور پھر ان لوگوں نے مل کر سارا کام سمیٹ لیا تھا۔ عمر آفس میں تھا تو سکندر اپنے دوستوں کے ساتھ کمبائن اسٹڈی میں مصروف۔ سہ پہر تک وہ تینوں مل کر نا صرف کچن کا سارا کام نبٹا چکی تھیں بلکہ گھر کی حالت بھی درست کر چکی تھیں۔ وہ لوگ ادھر سے نکل چکے تھے ردا کے ماموں سے فون پر مسلسل رابطہ تھا، تقریباً شام تک وہ لوگ پہنچ رہے تھے۔
ردا نہا کر اپنا خوبصورت سٹائلش سا سوٹ پہن کر بہت پیاری لگ رہی تھی، جبکہ وہ سارے دن کی بھاگ دوڑ کے بعد اب کچھ پل سکون کے ملے تو اس کے بستر پر دراز ہو چکی تھی۔
’’تم بھی چینج کر لو، کچن کا کام کرتے تمہارا یہ اسکائی بلیو سوٹ میلا ہو گیا ہے۔‘‘ ردا بال بناتے کہہ رہی تھی۔
’’نہ بابا مجھے تو معاف ہی رکھو۔ وہ لوگ تمہارے لیے آ رہے یں، مجھے کیوں کباب میں ہڈی بنا رہی ہو، ویسے بھی میں ساتھ میں کوئی جوڑا لے کر نہیں آئی تھی۔‘‘
’’میرا کوئی سوٹ پہن لو۔‘‘ اس نے جھٹ آفر کر دی تھی، تبھی سکندر نے کمرے میں جھانکا تھا۔
’’اوئے ہوئے… آج تو ہمارے غریب خانے میں بڑے بڑے لوگ رونق افروز ہیں۔‘‘ وہ سیدھی ہو کر بیٹھی۔
’’وہ بڑے بڑے لوگ تھل کے ریگستانوں میں پائے جاتے ہیں غالباً…‘‘ سکندر ہنس پڑا۔
’’ہاں جس رفتار سے تمہارا قد بڑھا تھا کسی زمانے میں مجھے تشویش لاحق ہو گئی تھی کہ کہیں تمہیں بھی ریگستانوں میں نہ چھوڑنا پڑے۔‘‘ جواباً اس نے گھوڑا۔
’’بکو مت…‘‘ اس نے فوراً ٹوکا۔ ’’اور یہ تمہاری تیاری کیسی ہو رہی ہے؟‘‘
’’بالکل اے ون! یہ تمہاری ہمشیرہ صاحبہ کدھر تشریف فرما ہیں آج کل؟ کیمپس سے فری ہونے کے بعد تو نظر ہی نہیں آتیں۔ چند دن پہلے کال کی تھی مجھے نوٹس چاہیے تھے کچھ مگر صاف انکار کر دیا جواباً دوستوں کی منتیں کرنا پڑیں۔
’’سارے سال کیمپس میں سنجیدگی سے پڑھائی کرتے تو نوٹس مانگنے کی نوبت کیوں آتی؟ بہت اچھا کیا آمنہ نے انکار کر دیا۔ تمہیں بھی تو اب پتا چلے کہ سارا سال لڑکیوں کے ساتھ فلرٹ کر کے وقت ضائع کرنے کی سزا کیا ہوتی ہے۔‘‘ اس نے فوراً آئینہ دکھایا تھا سکندر نے گھورا جبکہ ردا کھلکھلا کر ہنس دی تھی۔
’’بڑے دن بعد تم سے ملاقات ہو رہی ہے یار! کچھ تو لحاظ و حاظ کرو۔‘‘ اس نے مسکین سی شکل بنا لی تھی۔
’’مستقبل کی بھابی صاحبہ ہیں یہ، ابھی سے پریکٹس کر رہی ہیں رُعب ڈالنے کی۔‘‘
’’روزانہ یہ ایسی ہی بے عزتی کیا کرے گی۔‘‘ ردا نے چھیڑا۔ وہ ایک دم خاموش ہو کر اسے گھورنے لگی۔
’’عمر بھائی آ گئے ہیں؟‘‘ بال بنا کر سلیقے سے دوپٹہ کندھوں پر جما کر وہ بھی اس کے پاس بستر پر آ بیٹھی تھی۔
’’جی آ گئے ہیں، امی ابو اور ماموں نانی کی عدالت میں سلام دُعا کر رہے تھے۔‘‘
’’میں نے سنا تھا ابھی میرا ذکر خیر ہو رہا تھا۔‘‘ وہ کون سا اپنے بھائی سے کم تھا، فوراً دروازے سے اندر آ گیا اور پھر مریم کو دیکھ کر اس کی آنکھوں کی چمک بڑھی تھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...