خاورشاہ نے امرینہ بیگم کو سخت سنائی تھیں۔۔۔سب آپکی وجہ سے ہوا ہے ۔۔۔جب آپ کو عروہ کی ذمہ داری دی گی تھی۔۔تو آپ اپنے کام بعد میں نمٹا لیتی ۔۔نہ جانے وہ بچی کہاں ہوگی ۔۔؟
امرینہ بیگم کا بھی دکھ سے برا حال تھا۔۔!
زاورشاہ اپنے کمرے میں لیٹا ہوا ہر چیز کا بخوبی جائزہ لے رہا تھا۔۔جب اچانک فون کی گھنٹی نے اسکو حوش کی دنیا میں لایا۔۔۔فون کو سنتے ہی وہ کرنٹ کی مانند اٹھ کھڑا ہوا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر کا دروازہ عبور کرگیا ہر اک آواز کو پیچھے چھوڑ کر۔۔۔!
********************
گاڑی کو فل سپیڈ دے کر وہ اپنے فارم ہاوس کی جانب آگیا تھا ۔۔۔جیسے ہی وہ اندار داخل ہوا عروہ بھاگ کر اسکے سینے سے آلگی ۔۔۔جیسے اسکو اسی کی تلاش ہو محفوظ پناہ گاہ کی جو زاورشاہ کے علاوہ کہاں ہوسکتی تھی۔۔۔!
“مجھے پتا تھا تم ضرور آوگے زاور ۔۔عروہ کی ہی آواز میں وہ طاقت تھی جو تمہیں یہاں تک لے آئی” وانیہ ضیا سیڑھیوں کے زینے پر قدم رکھ کر آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی-
“وانیہ تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بیوی کو ایسی جگہ لاو ایسی حالت میں۔۔” زاورشاہ کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا –
“اتنی بری بھی نہیں جگہ ویسے زاورشاہ یہی تو ملی تھی یہ تمہیں ۔۔۔یہی اس نے تمہاری زندگی میں قدم رکھا تھا ناں۔۔۔” وانیہ نے متواتر بولا –
کہنا کیا چاہتی ہو تم۔۔۔اور عروہ کو یہاں لانے کا مقصد کیا تھا۔۔زاورشاہ کی عزتوں پر ہاتھ ڈالنے والا زندہ نہیں بچتا وانیہ ضیا۔۔”
“اب زندگی چاہیے کسے ظالم ” وانیہ نے جواب دیا-
عروہ نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑی ہوئی تھی ہر ہوش سے بیگانہ تھی-
“تمہیں کیا لگا میں عروہ کو نقصان پہنچاو گی۔۔جان لوں گی اسکی۔۔۔مجھے اسکا وجود کیا دے گا بھلا ” وانیہ نے سوال کیا –
“تو تمہیں آخر چاہیے کیا ؟” زاورشاہ نے اسکا مقصد بھانپ لیا تھا-
“زاورشاہ کا نام چاہیے ۔۔۔زاورشاہ کی ہمراہی چاہیے۔۔۔ہر قدم پر۔۔۔ہر سانس پر اسکا حق چاہیے ۔۔۔” وانیہ ضیا نے اظہار کیا تھا خطرناک ارادوں سے –
“زاورشاہ کا حصول اتنا ممکن لگتا ہے تمہیں “زاورشاہ نے پوچھا-
“تو پھر اسکو کسی اور کے لیے بھی نا ممکن بنادوں گی میں” وانیہ کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا –
“تو پھر بنادو روکا کس نے ہے” ۔۔زاورشاہ آگے بڑھا تھا-
“تم سوچ لو زاورشاہ ورنہ رہو گے کسی اور کے لیے بھی نہیں۔۔” وانیہ نے عروہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا-
“میرا نام عروہ کے نام کے ساتھ قبر کی دیواروں تک رہے گا وانیہ ۔۔۔جو کوئی چاہ کر بھی نہیں مٹا پائے گا ” زاورشاہ جذبات میں بولا-
“اور اگر وہ نام ہی قبر کی دیواروں کے پیچھے چلا جائے پھر۔۔؟
وانیہ نے ہاتھوں میں کسی چیز کو سختی سے بھینچ لیا تھا –
پر اس بات نے عروہ کو حواسوں میں لوٹا دیا تھا۔۔۔وہ اٹھ رہی تھی پر ناکام لیکن وہ اس سبکو روکنا چاہتی تھی پر کیسے ۔۔۔تکلیف سے آنکھیں موند لیں اس نے۔۔۔!
***********************
زاورشاہ آخر گیا کہاں ہے ۔۔؟ خاورشاہ غصے میں ٹہل رہے تھے۔۔! جب عالیان زاور شاہ کو کال ملا رہا تھا پر فون اس کے پاس ہوتا تو وہ اٹھاتا-
عالیان اچانک اٹھا اور زاورشاہ کے کمرے کی جانب چل دیا۔۔جہاں پر اسکا سمارٹ فون بول بول کر تھک چکا تھا۔۔۔عالیان نے فون اٹھایا اور کال لاگز کو چیک کرنے لگا اچانک اس کے ہاتھ تھم گے۔۔آخری کال زاورشاہ نے اٹینڈ کی تھی۔۔۔جو فارم ہاوس سے آئی تھی ۔۔۔عالیان کو پل بھر لگا تھا بات کی گہرائی تک پہنچتے وہ فورا کمرے سے نکلا ۔۔۔اور بابا جانی کو فارم ہاوس کا بتا کر نکل دیا۔
“مجال ہے جو کوئی سیدھی بات کا یہاں جواب دے۔۔۔صرف بھاگنا آتا ہے انکو۔۔” خاورشاہ غصے میں تھے۔
**************************
وانیہ ضیا نے ریوالور نکال لیا تھا اور سیدھا زاورشاہ پر تان دیا تھا “کیوں زاورشاہ کیا کمی ہے تمہارے مقابل میں جو تمہارا نام میرے لیے بیگانہ رہے گا۔۔” وانیہ ضیا کی آنکھوں میں تپش تھی-
“وانیہ میں کوئی چیز نہیں ہوں جسکو تم بے بس کر کے اپنا حصول پورا کرلو۔۔میں ایک جیتا جاگتا انسان ہوں۔۔۔جو تمہارے لیے ہر حصول کو نا ممکن بنا دے گا۔۔”
زاورشاہ بڑی ہمت کو مت آزماؤ میں نے کہا تھا ناں ۔۔رہو گے تم کسی اور کے بھی نہیں ۔۔۔جو میرا نہ ہوسکا ۔۔۔کسی اور کا بھی حق نہیں رہے گا اس پر۔۔۔”
“تمہارا دماغ خراب ہوچکا ہے وانیہ بس۔۔” زاور شاہ چلایا تھا-
“وانیہ نے ہاتھوں کو ریوالور کی جانب زور دیا۔۔۔وہ کچھ کر دینے کے ارادے سے آئی تھی۔جب اس نے زاور شاہ کو عروہ کی جانب جھکتے دیکھا تو اسکی ہمت جواب دینے لگی تھی-
“زاورشاہ رک جاو یہ سب اسی کا کیا ہے ۔۔۔یہ کمزور ہے تمہاری ہم قدم صرف میں جچتی ہوں یہ آدھا وجود نہیں۔۔” وانیہ نفرت سے بولی-
ایک زناٹے دار تھپڑ مارا تھا زاورشاہ نے جو وانیہ کو اسکی جگہ پر منجمد کرگیا تھا۔۔۔”اس سے پہلے تم ایک اور لفظ بولو وانیہ تمہاری سانسیں لینا میں مشکل کردوں گا۔۔” زاورشاہ غصے سے وانیہ کی طرف بڑھا تھا۔
میں کہتی ہوں رک جاو زاور وہی رک جاو۔۔۔” وانیہ ضیا پیچھے کی جانب ہوتے ہوئی بولی۔
وانیہ آج زاور کو کوئی نہیں روک سکتا۔
“وانیہ نے ریوالور کا ٹریکر دبا دیا تھا۔۔۔وانیہ اچھی نشان باز تھی۔۔سیدھی گولی زاورشاہ کے کندھے میں لگی تھی۔۔پر زاور شاہ بنا پرواہ کیے آگے بڑھ رہا تھا۔
وانیہ چھوڑ دو زاور کو ۔۔عروہ اٹھتے ہی وانیہ کے ہاتھوں پر جھپٹی تھی۔۔۔ایک اور گولی زاورشاہ کے سینے میں پیوست ہوگی تھی۔۔وانیہ کو عروہ کو بالوں سے پکڑ کر دھکا دیا تھا۔۔اسکا سر ٹیبل کے کونے پر لگا تھا۔۔جس کا شیشہ عروہ کے ماتھے میں لگا تھا۔۔۔جہاں سے جون رسنے لگا تھا۔۔!
وہی دوسری گولی زاور شاہ کو تکلیف سے دوہرا کر گی تھی۔۔۔اور خون بہنے لگا تھا۔۔۔عروہ نے پھر ایک دفعہ حملہ کیا تھا ۔۔وانیہ کے ہاتھوں پر وانیہ نے اسی ریوالور کو عروہ کے منہ پر دے مارا تھا جس سے اسکا ہونٹ پھٹ گیا تھا۔۔۔اور وہ فرش پر جا لگی تھی۔۔۔بے سود ہوکر ۔۔!
“محبت کیا ھے دل کے درد سے معمور ھو جانا۔۔۔۔
متاع جاں کسی کو سونپ کر مجبور ھو جانا۔۔۔!
وانیہ کی اپنی ہمت بھی جواب دے گی تھی۔۔ہاتھ برف کی مانند سرد ہوچکے تھے۔۔۔ایسا لگتا تھا کسی نے چہرے سے خون نچوڑ لیا ہو ۔۔۔زاورشاہ کا رنگ پیلا پڑ رہا تھا جب وانیہ اسکے سرہانے آئی۔۔”کیا مانگا تھا میں زاور صرف اک تمہارا نام۔۔تمہاری ہمراہی۔۔۔ کتنا مشکل ہوتا ہے محبتوں میں تقسیم کرنا زاور تم مجھ سے پوچھو” وانیہ کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔۔۔وانیہ دھاریں مار کر روئی تھی۔۔اسکی آواز میں کرب تھا تکلیف تھی۔۔۔فارم ہاوس کی دیواروں پر بھی سوگ طاری ہونے لگا تھا۔”زززززااااووووررر شششاہ ۔۔۔۔۔۔لوٹ آو میرا ہونے کے لیے وانیہ چلا رہی تھی۔۔”اور زاور کی سانسیں اسکا ساتھ چھوڑ رہی تھی۔۔!
عالیان جب اندر آیا تو پھولے ہوئے سانس کے ساتھ۔۔اندر کا منظر بہت جان لیوا تھا۔۔!
“عروہ ٹیبل کے پاس پڑی ہوئی تھی۔۔ہونٹ اور سر پھٹ چکا تھا۔۔خون سے بازو گیلا ہو چکا تھا ۔۔۔بازوؤں پر رسی کے لال نشان تھے۔۔۔چہرہ خون اور آنسوؤں سے گیلا تھا۔
زاور شاہ ہمت والا مرد اپنی ہمت سے لڑ رہا تھا ۔۔تکلیف سے دوہرا تھا۔۔۔بازو سے خون بہہ رہا تھا۔۔ہونٹ نیلے ہوچکے تھے۔۔۔چہرے پر پیلاہٹ تھی۔۔سینے میں لگی گولی اسکا صبر آزما رہی تھی۔۔۔ساتھ ہی وانیہ جو بکھرے بالوں ۔۔۔چہرے پر نشان تھا ہاتھ میں پکڑا ریوالور اور زاورشاہ کے سینے پر سر رکھ کر سسک رہی تھی۔۔!
دلاور ۔۔۔۔عالیان چلایا تھا جلدی آو “زاورشاہ کو اٹھاتے ہوئے وہ بھی تکلیف سے رو دیا تھا۔۔زاور آنکھیں کھولو ۔۔وہ اسکو ہلا رہا تھا۔۔زاور تم لڑو گے تم جیتو گے زاور ہمارا فخر ہو تم زاور مت آزماؤ ہمیں۔۔۔زاور عالیان رو دیا تھا ۔۔کیسے ایک وجود بے جان ہوا پڑا تھا ۔۔۔جو بھاری ہوچکا تھا عالیان کس تکلیف سے گزرا تھا زاور کو گاڑی تک لاتے کوئی عالیان سے پوچھتا اپنوں کی تکلیف کیا ہوتی ہے ۔۔۔آنکھیں بار بار آنسوؤں سے اندھی ہو رہی تھی۔۔!
*******************
امرینہ بیگم کے جاتے ہی وانیہ باہر آئی اور کال کرنے لگی۔۔”کہاں ہو تم۔۔بس تم جلدازجلد بڑی حویلی پہنچو۔
فارم ہاوس عموما بند ہوتا تھا۔۔۔وانیہ کو سب کرنے میں مشکل محسوس نہیں ہوئی ۔۔۔پیسا جو انسان کو بھی بےزبان اور اندھا بنا دیتا ہے ۔۔وانیہ نے وہاں کے ملازمین کو پیسے سے گونگا بہرہ کردیا تھا ۔۔اور وہ ہوگے تھے۔۔چند پل لگے تھے عروہ کو حواسوں سے بے بیگانہ کرتے۔۔اور وہ عروہ کو گاڑی میں ڈال کر چل دی۔۔۔اور باقی سب کی آنکھوں سے پیسے سے اندھا کردیا ۔۔۔جو یہ منظر دیکھ چکی تھی۔۔۔صحیح کہتے ہیں۔۔۔”ذرا دام تو بدلو۔۔یہاں ایمان بکتے ہیں ۔۔” سب نے بیچ دے تھے۔۔!
*****************
“نفرتوں میں سچے ۔۔۔محبتوں میں جھوٹے لوگ۔۔”
محبت تو انسان کو مضبوط بناتی ہے ۔۔۔محبت تو تقسیم سے بڑھتی ہے۔۔۔کم ظرف ہوتے ہیں وہ لوگ جو محبت میں تقسیم نہیں کرتے ۔۔۔اسکو جتنا تقسیم کرو اسکا رنگ اتنا گہرا ہوتا ہے ۔۔۔”
پر وانیہ کو کون سمجھائے کہ “محبت صرف حصول کا نام نہیں ہے ۔۔۔اگر محبت کی ہے تو اسکو کھونے کا ظرف بھی رکھو۔۔” ہسپتال میں سب جمع ہوچکے تھے زاورشاہ ای سی یو میں بند تھا۔۔۔جس کی سانسیں اسکا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔۔امرینہ بیگم دکھ سے نڈھال ہوچکی تھی۔۔۔خاورشاہ کے کندھے جھک چکے تھے زاورشاہ سے تو وہ زندہ تھے ۔۔۔عالیان عروہ کے پاس کھڑا تھا کیسی قسمت تھی اس لڑکی کی۔۔۔”واقعی خوف بیٹیوں سے نہیں ۔۔ان کے نصیب سے لگتا ہے ۔۔”
عروہ کی آنکھوں میں جنبش ہوئی تھی ہونٹ سوجھ چکا تھا۔۔۔آنکھوں کے گرد دو دن سے ہلکے پڑ چکے تھے۔۔۔جیسے وہ صدیوں کی بیمار ہو ۔۔آنکھیں کھولنے سے پہلے آنسوؤں کی لڑیاں گری تھی گالوں پر۔۔۔”زاور” ۔۔۔آواز کانپی تھی عروہ کی۔
عروہ پلیز لیٹی رہو ۔۔”عالیان نے التجا کی تھی۔۔وہ کمزور پڑ رہا تھا ۔
ای سی یو میں زاور کی سانسیں ایک دوسرے کا ساتھ چھوڑ رہی تھیں۔۔”خون کے زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے اور گولی سینے پر جولگی ہے اس لیے ہم آپکو پرامید نہیں رکھ سکتے۔۔عالیان نے زاور کی حالت دیکھی تھی کوئی معجزہ ہی تھا جو زاور کو زندگی دے سکتا تھا۔۔”محبت ایک معجزہ ہے ۔۔اور معجزے کہاں عام ہوتے ہیں۔۔”
وانیہ ہوش سے بیگانہ ۔۔آنکھوں میں سختی لیے ہاسپتال کے ٹھنڈے فرش پر بنا چپل کے گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی۔۔!
*****************
زاور کی سانسیں روکنے لگی تھی سانسوں میں دشواری آنے لگی تھی۔۔۔آنکھوں میں آنسو تھے۔۔۔ہونٹ خشک ہونے لگے تھے۔۔۔عالیان نے زاور کے ہاتھ تھام لیے تھے۔۔۔دل میں بے چینی زبان دعا گو تھی۔۔۔جو دعائیں قبول نہیں ہوتیں وہ بہترین وقت کے لیے محفوظ ہو جاتی ہیں۔۔۔اور شاید دعائیں زاور شاہ کے لیے محفوظ کردی گئیں تھیں ۔۔۔زاور کی سانسیں تھم چکی تھی عالیان کے ہاتھ میں پڑا ہاتھ سرد پڑ چکا تھا آنسوؤں کا گولہ عالیان کے گلے میں پھنس چکا تھا۔۔۔”جسکو کوئی نہیں ہراتا اسکو واقعی موت ہرا دیتی ہے ۔۔” زاورشاہ کی تکلیف ختم ہوچکی تھی آنکھیں پر سکونی سے بند تھیں ۔۔۔ہونٹ جامد تھے۔۔۔ڈاکڑ نے سفید چادر اوڑھ کر اسکے چہرے پر گھر والوں کو صبر کا مشورہ دے دیا تھا۔۔۔!
“کاش صبر کرنا اتنا ہی آسان ہوتا ۔۔کہ کسی کے کہنے سے انسان کر بھی لیتا اور انسان کو آ بھی جاتا۔۔”
عروہ نے ڈرپ کی سرنج کو نوچ کر پھینک دیا تھا۔۔۔وہاں سے خون کی دہار نکلی تھی۔۔عروہ کے بال بکھر چکے تھے وہ بھاگتی ہوئی اس جانب آئی تھی جہاں کوئی دم توڑ چکا تھا۔۔۔عروہ نے دوازے کو زور سے کھولا تھا سامنے پڑا بے جان وجود عروہ کی ٹانگوں سے جان ختم کررہا تھا۔۔۔زاور ” عروہ بھاگ کر اس کے سرہانے گی تھی۔۔آج عروہ روئی تھی ہر بند کو توڑ کر ۔۔۔”کب وہ بسی۔۔کب وہ اجڑی۔۔کیا تھی قسمت ۔۔۔” زاورشاہ اب اسکی رگوں میں خون کی مانند گردش کرنے لگا تھا اور وقت کتنا بے رحم نکلا تھا ۔۔۔عروہ کنٹرول سے باہر ہوچکی تھی۔۔۔اپنے ہوش سے بیگانہ ۔۔دھاریں مار مار کر رو رہی تھی۔۔”کس نے حق دیا تھا تمہیں یہ سب کرو وہ وانیہ پر جھپٹی۔۔۔زندہ کرو میرے زاور کو۔۔۔سایہ تھا وہ میرا سائبان تھا وہ میرا۔۔۔وہ وانیہ کا گلہ دبانے لگی تھی۔۔۔جب عالیان کے تھپڑ نے اسکو حواسوں میں لوٹایا تھا۔۔”ہوش کرو عروہ ۔۔مر چکا ہے زاور ۔۔۔چھین چکا ہے سائبان تمہارا ۔۔۔” عالیان مرد تھا کاش وہ بھی رو پاتا ۔
“واقع بےوقت کی موتیں انسان کو وقت سے پہلے ہرا دیتی ہیں۔۔”
****************
بڑی حویلی میں سوگ کا سماں تھا ہر آنکھ اشک بار تھی۔۔سب کچھ اجڑ چکا تھا۔۔کیسی محبت تھی یہ جو انسان کو اتنا بے رحم اور اندھا کردے۔۔واقعی وانیہ ضیا نے صرف ہرانا سیکھا تھا۔۔۔وہ جیت چکی تھی پر سب کچھ ہار کر۔۔۔وہ ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو جوڑے زاورشاہ کا نام ڈھونڈھ رہی تھی۔۔واقعی اسکے نام کی لکیر نہ سہی پر موت نام کی لکیر اسی ہاتھ میں تھی۔۔!
وہ نیم پاگل ہوچکی تھی۔۔۔جذبات اور نفرت میں وہ تباہ ہوچکی تھی۔۔گھنٹوں جاکر وہ زاورشاہ کی قبر پر روتی اور ہاتھ پھیرتی جیسے اسکو محسوس کر رہی ہو ۔۔جیسے وہ واقعی اسکا لمس پہچانتا ہو ۔۔۔!
“کبھی نہیں سنا کہ کسی کو اس کی انکساری لے ڈوبی ہو، انسان ہمیشہ تکبر میں ہی مارا جاتا ہے۔۔۔
وانیہ مرچکی تھی۔۔۔”بہادر انسان صرف ایک دفعہ مرتا ہے اور بزدل انسان بار بار۔۔”
وہ واقعی روز مرتی اور روز جیتی تھی۔۔!
************************
“اپنے سارے آنسو مجھے دے دو عروہ!”
وہ بہت محبت سے کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔
———————————
“تمہارے یہ ہاتھ تھامنے کی تمنا بہت کی ہے میں نے لیکن کبھی ان ہاتھوں کو اپنے سامنے بندھے دیکھنے کی آرزو کبھی نہیں کی” عالیان مرزا نے اسکے ہاتھ الگ کرتے ہوئے کہا-
پر عروہ کے لیے زندگی ختم ہوچکی تھی۔
اسکو کبھی کبھی اپنے سانسوں پر شک ہوتا تھا کہ وہ کیسے زندہ ہے اب تک زاور کے بغیر۔۔۔!
عالیان بھی تھک چکا تھا ۔۔پر عروہ نے زندگی کو محسوس کرنا چھوڑ دیا تھا۔
زندگی کیا؟ ۔۔۔۔۔۔ تری چاہت کی ردا ہو جیسے
بندگی کیا؟ ۔۔۔۔۔۔ ترے ملنے کی دعا ہو جیسے
سرخ چوڑی کی کھنک چھیڑ گئی پھر ہم کو
پھر تری یاد کا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کنگن سا بجا ہو جیسے
اس تصور سے ہی ۔۔۔۔۔ سرشار رہا کرتی ہوں
مرا آنچل ۔۔۔۔۔۔۔ ترے دامن سے بندھا ہو جیسے
کس سے مر مٹنے کی سیکھی ہے ادا کیا کہیے
شمع پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر کوئی پروانہ جلا ہو جیسے
بن ترے زیست تھی ۔۔۔ اک درد سمندر کی طرح
یا کڑی دھوپ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اک آبلہ پا ہو جیسے
عروہ نے لکھ کر ڈائری بند کردی۔
*************************
پانچ سال گزر چکے تھے عالیان مرزا آج ایک اور احمر شاہ کا ہاتھ تھامے ۔۔ان دو تصویروں کے آگے کھڑا تھا۔۔۔جو لگتا تھا کبھی اس دنیا میں آئے ہی نہیں۔۔۔واقعی محبت انسان کو امر کردیتی ہے ۔۔۔اگر کوئی کرنے والا ہو ۔۔۔
وانیہ آج قبرستان آئی تھی دو قبریں جڑی ہوئیں تھیں ۔۔!
زاور شاہ تم نے صحیح کہا تھا۔۔”عروہ کے نام کے ساتھ میرا نام قبر کر دیواروں تک رہے گا۔۔جو کوئی چاہ کر بھی نہیں مٹا پائے گا۔۔۔”
زاورشاہ اور زوجہ زاور شاہ دونوں ابدی نیند سو چکے تھے ۔۔۔ہر فکر سے آزاد ۔۔دونوں کے نام جگمگا رہے تھے۔۔جیسے وہ خود کہیں دور کھڑے مسکرا رہے ہوں۔۔۔
واقعی محبت انسان کو انسان کے بغیر جینا نہیں سکھاتی ۔۔۔پر کاش مر جانا ہی سیکھا دیتی۔۔۔یا مرجانا آسان کردیتی۔۔۔”
********************
عروہ نے وقت کے ساتھ سمجھوتا کرلیا تھا۔۔پر خود کی پرواہ وہ چھوڑ چکی تھی۔۔ڈاکٹرز کی ہدایت بھی اسکو زندگی کی طرف نہ لاسکی نہ نئے وجود کی نوید ۔۔۔اسکا کیس کملیکیٹ ہو چکا تھا ۔۔۔ڈاکٹر پہلے ہی اسکو جواب دے چکے تھے۔۔۔اور پھر ایک رات عروہ بھی ہر تکلیف سے آزاد ہوگئ ۔۔۔ایک نئے وجود کے دنیا میں آنے سے ایک اور جنازہ عالیان اور خاور شاہ کے کندھوں نے اٹھایا تھا۔۔۔!
زندگی مشکل نہیں ہوتی اسکو مشکل بنا دیا جاتا ہے ۔۔۔غلط فیصلوں سے غلط ارادوں سے ۔۔۔اور بے جا خواہشوں سے۔۔۔!
“محبت عام انسان کا کام ہی نہیں ۔۔محبت وہ نہیں وانیہ ضیا نے کی۔۔۔محبت تو وہ تھی زاور شاہ نے کی عروہ نے کی ایک دوسرے کے وجود سے ۔۔۔جنہوں نے اپنا نام جنت تک لکھوایا تھا۔۔۔اور قبروں تک کا ساتھ باندھا تھا۔۔”
“محبت میں خودغرضی کیسی۔۔۔؟
کاش زندگی ویسی ہی خوشحال بن جایا کرتی جیسا انسان تصور کرتا ہے ۔
عالیان واقعی محبتوں میں بدقسمت تھا۔۔۔اور زاور شاہ واقعی جیت جانا جانتا تھا۔۔
*****************
محبت بہت پاکیزہ جذبہ ہے اس بات کو سمجھیں۔۔
اس جذبے کو صرف اور صرف مرد اور عورت سے مشروط نہ کریں۔۔