عروہ صبح اٹھی تو زاور شاہ نہ جانے کب کا کمرے سے جا چکا تھا۔۔۔اسکو یکدم شرمندگی نے آن گھیرا۔۔ایک تو ساری رات نیند نہیں آئی۔۔۔نہ جانے کب آنکھ لگی ۔۔گھڑی پر دیکھا تو وہ سات بجے کا وقت بتا رہی تھی۔۔۔۔اس نے اپنے بالوں کو جوڑے میں قید کیا۔۔۔دو تین لٹیں گالوں کو چھو رہی تھیں۔۔۔اور واش روم کی جانب چل دی۔۔۔۔منہ پر پانی کے چھینٹے مارے تو ذہن کھولا کہیں۔۔۔۔۔کمرے میں آکر بیڈ کی چادر کو سیدھا کیا ۔۔۔کھڑکیوں کے پردوں کو ڈوری سے باندھ کر پیچھے کیا ۔۔۔۔اچانک وہ اپنے روم کی کھڑکیوں کو کھول کر ٹیرس پر آنکلی۔۔۔۔اس نے باہر دیکھنا شروع کیا تو دور کہیں زاورشاہ ٹریک سوٹ پہنے بھاگتا دیکھائی دیا۔۔پل بھر کو عروہ کو اپنی دھڑکنوں میں بے ترتیبی محسوس ہونے لگی۔۔۔وہ زاور شاہ کو آنکھ بھر کر دیکھ بھی نہ سکی۔۔۔اور کمرے میں آگئی موقع کی مناسبت سے اس نے الماری سے لائٹ پنک کلر کا سوٹ نکالا جس پر نفیس سا کام ہوا تھا۔۔۔اور واش روم میں گھس گئ۔۔۔۔۔!
جب وہ بالوں کو خشک کرتے ہوئے واش روم سے باہر آئی تو قدم لڑکھڑا سے گئے۔۔۔سامنے صوفے پر بیٹھا زاورشاہ بالوں کو ہاتھ کی انگلیوں سے پیچھے کیے نگینوں کی طرح چمکتی آنکھیں ۔۔۔ہلکی سی داڑھی کے بال ۔۔۔صاف رنگت میں ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے وہ ایک ہاتھ سے جوس کا گلاس پکڑے دوسرے ہاتھ میں پکڑے اخبار کی سرخیوں کا جائزہ لے رہا تھا۔۔۔۔
زاور شاہ نے جوس کا گلاس ختم کر کے واش روم کا رخ کیا ۔۔۔شاید وہ جلدی میں تھا۔۔۔۔!
——————————–
عروہ نے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا جائزہ لیا وہ لائٹ پنک رنگ کے ریشمی سوٹ میں جس پر نفیس سا سفید رنگ کا کام ہوا تھا۔۔۔گلے میں وائٹ نیکلس پہنے۔۔۔کانوں میں ڈالے بوندے۔۔۔۔سفید دودھیا چہرے کو کسی بھی میک اپ سے سجائے صرف ہونٹوں پر لائٹ پنک سا گلوز لگائے۔۔۔۔بالوں کو پشت پر پھیلائے ۔۔۔۔ہاتھوں م
زاورشاہ جب کمرے میں آیا تو الماری کے سامنے کھڑا ہوگیا۔۔۔جیسے کچھ ڈھونڈ رہا ہو ۔۔۔۔پھر وہ عروہ کر طرف مڑا ۔۔۔اور دو ڈبیاں اسکو تھما دیں۔۔۔یہ تمہارا تحفہ ہے ۔۔۔۔عروہ کی آنکھوں میں حیرت تھی “اتنا حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔بیوی ہو تم میری۔۔۔
اور مجھے رشتوں میں بناوٹ نہیں پسند۔۔۔جس رشتے کو انسان نبھا نہ سکے ۔۔۔اسکو خود سے جوڑے نہیں رکھنا چاہیے۔۔۔۔اور ہم اس رشتے کو نبھانے گئے۔۔۔آخری سانس تک۔۔۔۔”
عروہ نے واقعی ایسا نہیں سوچا تھا کہ ۔۔۔۔یہ رشتہ کبھی نبھائے بھی جائے گا۔۔۔!
چلو نیچے آٹھ بجے سب گھر والے ڈائنگ ٹیبل پر ہوتے ہیں۔۔۔وہ زاور شاہ کے قدموں کے تعاقب میں چلنے لگی۔۔۔سیڑھیاں اترتے ہوئے وہ دونوں مکمل لگ رہے تھے۔۔۔عروہ نے دل ہی دل میں ہزار بار اللہ کا شکر ادا کیا۔۔۔کہ اس نے ایسے شخص کی ہمراہی اسکو دی “پتا ہے تم مجھے کیسے لگتے ہو ۔۔۔؟ کسی نیکی کا صلہ لگتے ہو۔۔”
یہی بات عروہ کا دل کہہ رہا تھا۔۔۔۔!
———————————-
خاور شاہ دونوں کو اکٹھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے تھے کہ آخر انکا فیصلہ جلد تھا۔۔۔پر درست تھا۔۔۔!
زاورشاہ نے معمول کی طرح بابا جانی سے ملا ماں کو پیار کیا اور مخصوص کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔سامنے ہی عروہ بیٹھ گئ۔۔۔امرینہ بیگم کے ساتھ۔۔۔اس نے آنکھ اٹھا کر زاور شاہ کو دیکھنا چاہا پر فورا آنکھیں جھکا لی ۔۔۔پتا نہیں کیا تھا اس شخص میں جو وہ اسکو جی بھر کر دیکھ بھی نہیں سکتی تھی۔۔۔۔
زاور شاہ بروان شلوار قمیض پہنے کف کو موڑے ۔۔۔۔گھڑی پہنے ۔۔۔ہر طرح سے مکمل لگ رہا تھا۔۔۔!
——————————
وانیہ ضیا لان میں اپنے بابا کے ساتھ بیٹھی ہوئی چائے پی رہی تھی۔۔۔پر ذہن کہیں اور ہی الجھا ہوا تھا۔۔۔
وانیہ زاورشاہ کو اپنے حواسوں پر سوار مت کرو ۔۔۔زندگی میں ہمیشہ آگے بڑھو۔۔۔اگر پیچھے رہ جانے والی چیزوں کے پیچھے بھاگو گی۔۔۔۔تو آنے والی چیزیں بھی کسی اور مقدر بن جائے گی۔۔۔”
ضیا صاحب اسکو سمجھا رہے تھے۔۔۔۔
بابا جانی وانیہ ضیا دھتکاری چیزوں کے پیچھے نہیں بھاگا کرتی۔۔۔اور نہ کسی کی چیزوں کو اپنی آنکھوں کی چمک بننے دیا کرتی تھی۔۔۔۔میں اپنی روشنی سے خود جلتی ہوں۔۔۔اور دوسروں کا اب جھلسا دوں گی ۔۔۔”
وانیہ کی آنکھوں میں نفرت تھی۔۔۔بے انتہا تھی۔۔۔نہ جانے وہ اب کس کی خوشیوں کو جھلسا دینے والی تھی ۔۔۔کون جانتا تھا۔۔۔؟
—————————————-
عروہ کمرے میں آئی تو ان ڈبیوں کو لے کر بیڈ پر بیٹھ گئ ۔۔۔۔جب ایک کو کھولا تو آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں ۔۔۔۔نفیس سا گولڈن کلر کا بریسلٹ جو اپنی قیمت کا آپ منہ بولتا ثبوت تھا۔۔۔۔اور ساتھ ہی باریک سی چھوٹے سے نگ لگے تھے۔۔۔۔گولڈن ہی کلر کی پازیب تھی۔۔۔جس کو دیکھتے ہی عروہ جذبات میں آگئی ۔۔۔۔زاورشاہ کیوں مجھے بے بس کر رہے ہو ۔۔۔۔کیوں تمہاری ذات میں قید ہوتی جارہی ہوں میں۔۔۔
اس نے زور سے آنکھیں بند کرلیں۔۔۔!
دوسری ڈبی کھولی تو اس میں وائٹ گولڈ کے موٹے سے کڑے تھے۔۔۔جدید ڈائزئن کے ایسا لگتا تھا ۔۔۔اس کا ہاتھ ناپ کے لیے ہوئے ہوں۔۔۔!
“مل جائیں اگر تیری قربت کے چند لمحے۔۔۔
باقی کی ساری زندگی میں خیرات کردوں ۔۔۔
عروہ کے دل کی دھڑکنیں اب اس شخص کے لیے چلنے لگی تھیں ۔۔۔۔نہ جانے کیا سحر تھا اسکی ذات میں۔۔۔
—————————
زاور شاہ رات کو کمرے میں آیا تو۔۔۔۔عروہ کو ایک کپ چائے لانے کا کہا ۔۔۔وہ ابھی لائی کہہ کر چلی گئی ۔۔۔۔
زاورشاہ کمرے کا جائزہ لینے لگا کہ واقعی اس کمرے میں تبدیلی آئی ہے اس وجود کے آنے سے۔۔۔وہ اسکو ہمیشہ خود سے جوڑ کر رکھے گا ۔۔۔
عروہ جب چائے لے کر اندر آئی تو۔۔۔۔زاورشاہ پل بھر کو ٹھٹک گیا۔۔۔پر فورا سیدھا ہوگیا۔۔۔۔!
بات سنو۔۔۔۔”اب تم میری بیوی ہو ۔۔۔اس گھر میں بہت سے ملازم ہیں۔۔۔پر اگر بیوی کے ہوتے ہوئے ملازم کام کریں اسکا ۔۔۔۔تو وہ باہر ہی پھر کسی کی ذات کا اسیر ہوجاتا ہے ۔۔۔۔مجھے خوشی ہوگئ اگر تم میرے کام کرو۔۔۔۔تاکہ مجھے سکون ملے تو صرف اس گھر کی دہلیز پر ملے۔۔۔میں وہ سکون کہیں اور نہیں ڈھونڈھو ۔۔۔۔”
اور کہتے ہیں کہ۔۔۔۔”اگر کسی لڑکی کے دل میں جگہ بناو تو وہاں رہنا بھی ضروری ہے ۔۔۔”
اور میں چاہتا ہوں ۔۔وہ جگہ صرف میں بناوں ۔۔۔
تمہیں میرے تحفے کیسے لگے۔۔؟ زاورشاہ نے پوچھا
بہت مکمل۔۔۔ ”
عروہ نے مختصر سا پر معنی سے بھرپور جواب دیا۔۔!
مجھے ہمیشہ سے یہی چیزیں پسند رہی ہیں۔۔۔اور پازیب ہمیشہ پہنے رکھنا۔۔۔مجھے نہ جانے کیوں یہی چیز خاص لگتی ہے ہر چیز سے۔۔۔اور یہ تمہارے پاوں میں واقع جچ رہی ہے ۔۔۔
عروہ کو حیرت ہوئی اس نے کب نوٹ کرلیا کہ اس نے پہنی ہوئی ہے ۔۔۔!
وہ شخص واقع کسی کی ذات کو پڑھنا جانتا تھا۔۔ہر زاویہ سے۔۔۔!
وانیہ ضیا نے آج بہت دنوں بعد بڑی حویلی کا رخ کیا تھا۔۔۔وہ اپنے اسی انداز سے آئی تھی بغیر کسی کی پرواہ کیے۔۔۔اسے پرواہ بھی کس کی تھی آخر۔۔؟
جیسے ہی وہ حال میں داخل ہوئی امرینہ بیگم سیڑھیوں سے اتر رہی تھیں ۔۔۔وانیہ میں انکی جان تھی۔۔۔انہیں وانیہ ضیا کا ہر انداز پسند تھا وہ اسی گھر کے لیے بنی تھی۔۔اگر عروہ اس دنیا میں نہ آتی تو۔۔۔۔۔۔
آج کیسے دل کیا وانیہ بڑی حویلی آنے کا۔۔۔مجھے تو لگا تم راستہ ہی بھول گئ ہو ۔۔” امرینہ بیگم نے پیار کرتے ہوئے کہا۔۔!
اور آپکو ایسا کیوں لگا کہ میں راستہ بھول جاوں گی۔۔۔؟
وانیہ نے آبرو اٹھا کر سوال کیا۔۔ ” مجھے لگا تم زاورشاہ کے اس قدم سے شاید دکھ پہنچا ہو ۔۔”
وانیہ بات کاٹتے ہوئے بولی۔۔۔”دکھ ۔۔کیسا دکھ۔۔اور زاورشاہ جو چاہے کرے اسکی زندگی ہے ۔۔۔! “پر جب میں نے کچھ کیا تو صرف راکھ ہی ملے گی سب کو ماتم کرنے کے لیے۔۔۔”
امرینہ بیگم کا دل ڈر گیا۔۔کیونکہ وہ وانیہ ضیا کو جانتی تھی۔۔۔کوئی چیز وانیہ کا ڈر نہیں بنتی اور وہ سب کر گزرنا جانتی ہے ۔۔۔!
اپنی بہو سے تو ملوائیں اس دن تو ملاقات ہی نہیں ہوسکی ۔۔” وانیہ ضیا نے تلاشی نظروں سے ادھر اُدھر دیکھا-
آج ہی زاور شاہ چھوڑ کر آیا ہے اسکو اسکی ماں کی طرف۔۔۔خاور نے کہا تھا ۔۔۔آجائے گی ایک دو دن تک۔۔!
“پر میں نے تو صرف اسکا پوچھا۔۔۔اس کے جغرافیے کا نہیں پوچھا۔۔”
اچھا میں چلتی ہو پھر لگاوں گی چکر۔۔۔”وہ جس اٹھے سر کے ساتھ آئی ویسے ہی واپس چل دی۔۔!
پر امرینہ بیگم کو لاجواب کر کے۔۔۔یہی تو غرور تھا وانیہ کا ۔۔۔جو اسکی ذات کو نمایاں کرتا تھا سب میں۔۔۔۔!
میں مبتلائے عشق تھا تو عشق تھا غرور میں
عشق کو جب عشق ھوا تو عشق اندھا ھو گیا۔۔۔۔۔!
****************
عروہ کو گھر آئے آج دوسرا دن تھا۔۔۔سب کچھ نارمل تھا۔۔۔وہ امی اور فریال کے ساتھ ٹی وی لاونج میں بیٹھی تھی۔۔۔جب امی نے پوچھا۔: عروہ سب ٹھیک ہے نا تم خوش تو ہو نا اس شادی سے۔۔! “اگر میں کہوں نہیں ہوں میں خوش پھر۔۔۔؟”
زہرا بیگم کا دل ڈر گیا۔۔۔”عروہ میری بچی بتاو تو کیا بات ہے ۔۔” وہ عروہ کو پیار کرتے ہوئے بولیں۔۔۔!
“کوئی بات نہیں ہے آپ خود تو کہتی تھیں۔۔۔گھر بسانے کے لیے ایک دفعہ خود کو ادھیڑنا پڑتا ہے ۔۔۔تاکہ دوسروں کے طریقے سے سل سکے ۔۔۔سمجھیں اپنی ذات تو ادھیڑ کے رکھ دیا ہے میں۔۔۔” عروہ آنسوؤں سے بھری آنکھوں کے ساتھ بولی۔۔۔!
زہرا بیگم عروہ کو گلے لگا کر رو دی۔۔۔کیسا وقت ہوتا ہے وہ تکلیف والا کہ ایک بیٹی جب کھول کر ناں ماں باپ کے سامنے رو سکتی ہے نا ہنس سکتی ہے ۔۔۔”
بیٹا جیسے بھی جن حالات میں تم اس شادی میں بندھی ۔۔۔پر اب وہی سب کچھ ہے تمہارا ۔۔۔جب کل بھی اسی کے ساتھ رہنا ہے پھر آج ہی کیوں ناں اسکے ساتھ رہا جائے۔۔۔پہلے ماں باپ کی عزت کی لاج ہوتی ہیں بیٹیاں پھر اپنے شوہر کے گھروں کی زینت جو اسی گھر میں سجتی ہیں”
آپ فکر ناں کریں اسی کے ساتھ رہو گی۔۔۔آخری سانس تک چاہیں میری سانسیں لینا دشوار ہو جائے۔۔۔۔”
عروہ روتی ہوئی کمرے کی جانب چل دی۔۔۔!
******************************
زاورشاہ کا سارا دن بہت مصروف رہا۔۔۔جب وہ شام کو گھر پہنچا تو نہ جانے کیوں عروہ کا خیال آیا ۔۔۔پھر سر جھٹک کر کمرے کی جانب چل دیا ۔۔وہ کوئی نوعمر لڑکا تو تھا نہیں جو ہر وقت اسکی یادوں میں کھویا رہتا۔۔۔
وہ جب فریش ہو کر واش روم سے باہر نکلا تو آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی چیزوں کو ڈھونڈتے اسکی نظر ان کنگن پر پڑی جو زاور شاہ نے اسکو دیے تھے۔۔کہ اس نے انکو پہنا کیوں نہیں شاید پسند نہ آئے ہوں ۔۔اس نے خود ہی سوچا۔۔۔۔”خیر جب اب چیز اسکی ہے پہنے ناں پہنے اسکی مرضی اور باہر نکل گیا۔۔۔!
*****************************
کیوں خود کو ہلکان کر رہی ہو ۔۔رو رو کر عروہ بات کیا ہے وہ بتاو۔۔۔۔!
“ماں باپ کی خوشیوں کے لیے اپنی عزت کے لیے ہم بیٹیاں ہی کیوں قربان کی جاتی ہیں۔۔۔کسی انجان کو سونپ کر فورا یہ بھی کہا جاتا اپنا لو اسکو ۔۔۔۔جو ہے یہی ہے تمہارے لیے ۔۔پہلے خود بیٹیوں کی سانسوں کو کھینچ لیتے ہیں ۔۔۔پھر خود ہی انکو کہا جاتا خوش ہو کیاہوگیا ہے تمہیں ۔۔۔۔اسکو اپنانے کے لیے خود کو مار دیا ہے میں۔۔۔۔”
عروہ چپ کرو کیا ہوگا رونے سے تم اسکی زندگی سے نکل آو گی یا وہ تمہاری زندگی سے نکل جائے گا ۔۔۔بتاو ۔۔؟
“بیٹیوں کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا عروہ۔۔۔۔کیونکہ وہ ہر سانچے میں ڈھل جانا جانتی ہیں۔۔۔اس لیے تو باپ صرف سر پر ہاتھ رکھتا ہے ۔۔۔کیونکہ الفاظ اس مضبوط کندھوں والے باپ کے پاس بھی نہیں ہوتے ۔۔۔بس اپنی تربیت پر بھروسا ہوتا ہے ۔۔۔اور بیٹیاں اس وقت بےزبان باپ کی زبان پڑھ لیتی ہیں۔۔۔”
فریال میں نے اپنا لیا ہے اسکو کیونکہ میرے ہاتھ میں واقعی اور کچھ نہیں ہے اب۔۔۔پتا نہیں وہ کیسا ہے ۔۔۔کون ہے ۔۔۔پر اب میرا ہے ۔۔۔۔
***************************************
عالیان آج گھر جارہا تھا ۔۔۔پورے ایک مہینے بعد اسکو جاب سے بمشکل دو ہفتوں کی چھٹی ملی تھی ۔۔۔۔وہ خوش تھا اسکی ایسی ہی حالت ہوا کرتی تھی جب وہ گھر کی تیاری کیا کرتا تھا ۔۔۔۔وہ آرمی میں کیپٹن ڈاکڑ تھا انتہائی ذہین تھا۔۔۔۔خوبصورت وجاہت لیے سب کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھا۔۔۔۔
جب سے اسے پتا چلا تھا زاورشاہ کی شادی ہو گی ہے وہ اڑ کر چلا جانا چاہتا تھا۔۔۔اس کی وجہ سے ولیمہ بھی ابھی تک ملتوی کیا ہوا تھا ۔۔۔!
اس کے ذہن میں کچھ اور بھی چل رہا تھا ۔۔۔جو پچھلے ایک مہینے سے اسکے حواسوں پر سوار تھا ۔۔!
جو مزا طلب میں ہے ۔۔۔۔
وہ حاصل میں کہاں۔۔۔۔۔
پر اب واقعی عالیان کو وہ حاصل میں چاہیے تھی۔۔۔
*******************************
کبھی کبھی محبت ہمارے پیچھے پیچھے بھاگتی ہے ۔۔۔۔لیکن ہم قدر نہیں کرتے۔۔۔۔
ایسا پتا کیوں ہوتا ہے ۔۔۔؟
کیونکہ وہ محبت ہمیں ہمارے من چاہے انسان سے ۔۔۔۔چاہیے ہوتی ہے ۔۔۔۔
زاور شاہ کے دل میں آج تک واقعی کوئی نہیں تھا۔۔۔کیونکہ وہ محبتوں کے معاملے میں بڑا محتاط رہا کرتا تھا۔۔۔ اسکو وانیہ ضیا کے جذبات کی بھی قدر تھی۔۔۔پر وہ جانتا تھا وہ کبھی کسی ایسی عورت کا نہیں بن پائے گا ۔۔۔جو خود کو اسکے سامنے بچھا ڈالے۔۔۔۔!
“اور اگر محبت کی ہے تو اسکو آزادی بھی دو”
جو وانیہ ضیا کے نزدیک قابل قبول نہیں تھا اس لیے زاورشاہ نے کبھی بھی اپنے قدموں کو ڈگمگانے نہیں دیا تھا۔۔۔!
پر اب اسکو اس وجود کی عادت ہو چلی تھی۔۔۔جس کا نام جڑ چکا تھا ۔۔۔کیونکہ اسکے حالات کا ذمےدار بھی وی خود تھا ۔۔۔اس لیے اس نے پہلے دن ہی فیصلہ کرلیا کہ اب وہ نفوس کو درد نہیں دے گا۔۔۔جو ہوا میری وجہ سے ہوا اور درست بھی میری وجہ سے ہوگا ۔۔۔!
“محبت کا بھی ایک المیہ ہے ۔۔۔۔یہ کمبخت وہاں ہوتی ہے ۔۔۔جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوتی ۔۔۔
————————————
عالیان مرزا گاڑی میں بیٹھ چکا تھا آج کل اسکی ڈیوٹی ایبٹ آباد میں تھی۔۔۔۔
وہ سارے راستے ملے جلے جذبات کے ساتھ آرہا تھا ۔۔۔کسی کی ہنسی اسکے کانوں میں گونج رہی تھی ۔۔۔اس کی آواز بہت خوبصورت تھی جس میں میں وہ اکثر گنگنایا کرتا تھا۔۔۔۔
“کرلے قبول خدایا میرے سجدے۔۔۔۔
اب تو نصیب میں میرے اسے لکھ دے۔۔۔
عالیان نے یہ لیریکس شدت دل سے بولے تھے۔۔۔
لفظ ہیں لاکھوں دنیا میں۔۔۔۔
پر محبت نہ جانے کیوں تیرے نام سے ہوئی ۔۔۔۔
عالیان نے زور سے آنکھیں بھینچ لیں۔۔۔۔اور دھیرے سے وہ نام لبوں سے پھسل گیا۔۔۔”عروہ جمشید”
“اذیتیں ‘تکلیفیں اور محبتیں کبھی کم نہیں ہوتیں ”
وانیہ ضیا اس وقت ان تینوں تکلیفوں سے گزر رہی تھی۔۔۔زاورشاہ کی زندگی میں بڑھتی ہوئی ۔۔۔عروہ کی قدر کو وہ کیسے کم کرتی۔۔۔کہ اسکی جگہ بن پاتی۔۔۔اگر میں نہیں زاورشاہ تمہاری زندگی میں تو کوئی اور بھی کیسے رہے گا۔۔۔!
وانیہ ضیا آج زاورشاہ کے ڈیرے کی طرف آگئ تھی۔۔۔زاور صوفے پر بیٹھا کندھوں پر چادر ڈالے نوکروں کو ہدایت دینے میں مصروف تھا۔۔۔جب وانیہ وہاں چلی گی۔۔تمام ملازم اسکو دیکھتے ہی باہر نکل دیے۔۔۔!
آہاں وانیہ تم تو جیسے راستہ ہی بھول گئ ہو اب۔۔زاورشاہ نے اس کے سراپے پر نظر ڈالتے ہوئے کہا ۔۔!
اور تمہیں واقعی ایسا لگا کہ میں راستہ بھول جاوں گی۔۔وانیہ نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔۔۔
زاور شاہ ہنس دیا۔۔۔”نہیں کیونکہ من چاہے راستوں کو بھول جانا انسان کے اختیار میں نہیں ہوا کرتا۔۔۔”
وانیہ ضیا کا خود پر اختیار ہے ابھی زاور شاہ ۔۔۔وانیہ کو واقعی برا لگا تھا یا وہ قبول نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔اپنی کمزوری کو۔۔اور سناو کیسے ہیں روزوشب زاور شاہ۔۔؟
وانیہ نے سوال کیا۔۔۔
“بس حسیناوں سے یاریاں کم ہیں۔۔” زاورشاہ نے دل پر چوٹ کی تھی۔۔۔!
اب ان کا زوال بھی آئے گا۔۔۔زاور۔۔وانیہ اپنی طرز میں بولی۔۔”یہاں حیات ساری عروج کس کو رہا ہے وانیہ۔۔”
زاور بھی اپنے نام کا ایک تھا۔۔!
تمہارے ولیمے پر ضرور آو گی میں۔۔۔” ہاں ضرور آنا میرے ساتھ جڑے اس وجود کو دیکھنے جسکی کشش لازوال ہے ۔۔۔”
کہیں اس کی ذات ہی تمہاری ذات کو مٹانے کی وجہ نہ بن جائے اس لیے سنبھل کے۔۔۔” وانیہ نے اپنے ارادے بتا دے تھے۔۔! اور اپنی راہ چل دی کیونکہ اب جواب زاورشاہ کو ڈھونڈنا تھا اس بات کا۔۔۔۔!
*************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...