مل گئی تمھیں ازلفہ محمود؟؟
وہ جو تیز تیز قدموں سے اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا صوفیا کے سوال پر یکدم چونک اْٹھا۔۔۔
صوفیا اور اشرف لاؤنج میں بیٹھے اسی کے منتظر تھے۔۔
میں تم سے پوچھ رہی ہوں زمان ازلفہ مل گئ یا نہیں؟؟
انہوں نے سخت لہجے میں اس سے پوچھا۔۔۔
نہیں۔۔ وہ قدرے دھیمے لہجے میں بول سکا۔۔۔
تو کیا ارادہ ہے تمھارا؟؟ صوفیا نے پوچھا جبکہ اشرف ان ماں بیٹے کے دمیان بولنے سے گریز کرتے تھے اس لیے وہ اب بھی خاموشی کا ٹیپ منہ پر لگائے بیٹھے تھے۔۔۔
میں جب تک زندہ ہوں اسکی تلاش کرتا رہوں گا۔۔
وہ پوری ڈھٹائ کے ساتھ بولا۔۔۔
تم پاگل ہوگئے ہو یا ہم سے تمھاری کوئ دشمنی ہے؟؟
وہ اس پر برہم ہونے لگیں انکا پارہ بھی آج چڑھ چکا تھا۔۔۔
کیا مطلب ہے آپ کا؟؟ اسنے کہا۔۔۔
صوفیا آپ آرام سے بات کریں۔۔
اشرف بولے۔۔
آرام سے بات کروں؟؟ آپ مجھے آرام سے بات کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں؟؟ آپکو یہ نظر نہیں آرہا کہ اس لڑکے نے ہمارا جینا دشوار کردیا ہے۔۔
وہ سامنے کھڑے زمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چلّا رہی تھیں۔۔۔
ایک ہی اولاد ہے ہماری اور اسنے ہی ہمارا جینا مشکل کردیا ہے۔۔
وہ پھر چینخی۔۔
کیا کردیا ہے میں نے ماما؟؟ ایسا کر کیا دیا ہے میں نے جو آپ لوگ میرے پیچھے پڑگئے ہیں۔۔
زمان کا دماغ بھی اب گھومنے لگا تھا۔۔۔
ہم تمھارے پیچھے پڑ گئے ہیں؟؟ وہ تیوریاں چڑھا کربولیں۔۔
سن رہے ہیں آپ یہ کہہ رہا ہے کہ ہم اسکے پیچھے پڑ گئے ہیں۔۔
وہ اشرف کی طرف نگاہیں کیے کھڑی ہوگئیں۔۔
ہم تمھارے پیچھے نہیں پڑے ہیں بلکہ تم اس لڑکی کہ پیچھے پڑ گئے ہو۔۔ وہ اونچی آواز میں چلّا رہی تھیں۔۔
لڑکی نہیں۔۔۔ بیوی ہے وہ میری۔۔ اسنے کہا۔۔
ہاں بیٹا بیوی تمھاری وہ بیوی جو پچھلے ایک سال سے لاپتہ ہے۔۔
وہ بیوی جس کو کسی غیر مرد نے اغواہ کیا تھا۔۔
وہ گردن ہلا ہلا کر بے حد غصےمیں کہہ رہی تھیں۔۔۔
کیا گارنٹی ہے تمھارے پاس کہ وہ زندہ ہوگی؟؟
ماما۔۔ وہ چلّایا۔۔
کیا ماما؟؟ حقیقت سے کب تک بھاگو گے؟ اگر وہ زندہ بھی ہوئ تو تمھاری غیرت یہ گوارہ کرلے گی کہ تم ایک ایسی لڑکی کو اپناؤ جو ایک سال سے ناجانے کس کے ساتھ رہ رہی ہے۔۔
ماما بہت ہوگیا۔۔ آپ زیادتی کر رہی ہیں۔۔ اسنے ایک بار پھر انکو ٹوکا۔۔۔
ہاں میں مانتی ہوں ہم سے بہت بڑی زیادتی ہوئ ہے ان دونوں کے معاملے میں۔۔
مگر تم جو کر رہے ہو اسکا نتیجا کیا نکل سکتا ہے تمھیں اندازہ بھی ہے؟ وہ بھویں چڑھا کر اس سے پوچھ رہی تھیں جبکہ وہ بلکل خاموش کھڑا تھا۔۔۔
ازلفہ تمھیں مل بھی گئ تب بھی ہم لوگ تماشہ بن کر رہ جائیں گے۔۔۔
نیوز چینلز کی ہیڈلائن ہم سب کی شکلیں ہونگی۔۔
کس کس کا سامنہ کروگے تم؟؟ وہ اسے تلخ حقیقت بتا رہی تھیں جسے سن نے کے لیے وہ تیار نہیں تھا۔۔
مجھے یہ سب نہیں سننا ماما۔۔ میں ازلفہ کو لے کر ملک سے باہر چلا جاؤں گا۔۔
اسنے اپنے ارادوں سے انہیں آگاہ کیا اور چلتا بنا جبکہ وہ اسے آواز دیتی رہ گئیں۔۔۔
____________________________________
کیا میں آج رات یہاں رک سکتا ہوں۔۔ اسنے کہا۔۔۔
ویسے مسجد میں کسی کو رکنے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن میں امام صاحب سے بات کرکے دیکھتا ہوں ہوسکتا ہے وہ تمھیں اجازت دے دیں۔۔ رؤف چاچا نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔۔ چلو میں بات کرکے آتا ہوں۔۔
وہ اسکے کندھے کو تھپتھپا کر اٹھ گئے جبکہ زلان انکے واپس آنے کا انتظار کرنے لگا۔۔۔
کچھ دیر کے بعد رؤف چاچا واپس آئے اور اسے اپنے ساتھ مسجد کے ایک کمرے میں لے گئے اسے رات وہاں گزارنے کی اجازت مل چکی تھی۔۔۔
میں اپنے گناہوں کی سزا بھگتنا چاہتا ہوں۔۔ اسنے دھیمے سے سرگوشی میں کہا تو وہ اسے دیکھنے لگے۔۔
وہ دونوں اس کمرے کے سنگِ مرمر کے فرش پر بچھی چٹائ پر بیٹھے تھے۔۔۔
یہ اتنا آسان نہیں ہے۔۔
یہ تو صرف تم ہی جانتے ہو کہ تم نے کیسے اور کتنے بڑے گناہ کیے ہیں۔۔
جتنے بڑے گناہ اتنی ہی بڑی سزا بھی ملے گی۔۔۔ وہ بڑے تحمل سے بول رہے تھے۔۔۔
میں جانتا ہوں میری سزا موت بھی ہوسکتی ہے۔۔۔ وہ دیوار سے ٹیک لگائے چھت کو گھورتے ہوئے بولا۔۔۔
موت۔۔۔ وہ چونکے۔۔۔
میں تم سے نہیں پوچھوں گا کہ تمھارا گناہ کیا ہے کیوں کہ یہ تمھارے اور اللّہ کے درمیان کا معاملہ ہے۔۔ رؤف چاچا چند لمہوں بات بولے تھے۔۔۔
آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ اس لڑکی کی زندگی کس طرح بہتر ہوسکتی ہے۔۔ اسنے اسی طرح چھت کو گھورتے ہوئے کہا۔۔۔
میں تمھیں کیا بتاؤں بیٹے۔۔۔
لڑکی زات کا معاملہ ہے وہ بھی اس قدر الجھا ہوا۔۔ وہ اسکے چہرے کو دیکھتے ہوئے بولے۔۔۔
تو کیا کوئ حل نہیں ہے اس مسلئے کا؟؟ وہ مایوسی سے انکا چہرہ تکنے لگا۔۔۔
ایک راستہ ہے۔۔ وہ سوچتے ہوئے بولے۔۔۔
کیا؟؟ کیسا راستہ؟؟ اسنے بیتابی سے پوچھا۔۔۔
یا تو تم اس لڑکی کے شوہر کو ڈھونڈ کر اسکے شوہر کو قائل کرو کے وہ اپنی بیوی کو اپنائے۔۔
یا پھر۔۔ وہ کہتے کہتے رک گئے۔۔۔
پھر کیا؟؟ اسنے کہا۔۔
یا پھر تم اس لڑکی سے نکاح کرلو۔۔ رؤف چاچا کی بات سنتے ہی اسے سانپ سونگھ گیا وہ خالی خالی نگاہوں سے انہیں دیکھنے لگا۔۔
وہ مجھ سے نفرت کرتی ہے۔۔۔ اسنے اپنی خاموشی توڑی۔۔
اور تم؟؟ تم اس سے محبت نہیں کرتے؟؟ رؤف چاچا نے اسکے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کی۔۔۔
پتہ نہیں۔۔
میں نے کبھی محبت نہیں کی۔۔ میں نے صرف زد کی ہے۔۔ وہ ٹھہر ٹھہر کر بول رہا تھا۔۔۔
پھر تمھیں اسکی فکر کیوں ہے بیٹے؟؟ انہوں نے پوچھا۔۔۔
میں بس سکون چاہتا ہوں۔۔
مجھے سکون کی تلاش ہے۔۔۔ وہ لڑکی شاید۔۔
شاید اللّہ کو بہت پیاری ہے اسی لیے اسکی عزت کی حفاظت کرنے کی وجہ سے مجھے نئ زندگی ملی۔۔۔
وہ سوچتے ہوئے خلاء میں نظریں گھمارہا تھا۔۔۔
نام کیا ہے اسکا؟؟ ڑوف چاچا کے اچانک سوال پر وہ خیالی دنیا سے باہر نکلا۔۔۔
ازلفہ۔۔۔
اچھا۔۔ تو پھر تم ایسا کرو بیٹے ازلفہ بیٹی کو اسکے شوہر کے حوالے کردو۔۔۔ وہ اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے۔۔۔
لیکن ایک بات یاد رکھنا تمھیں بہت مشکلوں کا سامنا کرنا پڑیگا۔۔۔
وہ بولے۔۔
آپ ہی نے تو کہا تھا کہ انسان اپنے لیے خود گڑھے کھودتا ہے۔۔
اسکے چہرے پر مایوسی چھائ ہوئ تھی وہ اپنی ہی زات سے مایوس نظر آرہا تھا اسنے خود کو پچھتاوے کی آگ میں جھونک دیا تھا۔۔۔
_____________________________________
تو کب تک اس طرح یہاں کھڑے رہ کر بیوقوف بنتا رہے گا؟؟
شاکر اس پر غصّہ ہورہا تھا وہ دونوں پچھلے آدھے گھنٹے سے ملک ہاؤس کے سامنے ریسٹورینٹ میں بیٹھے تھے۔۔۔
یار میرے پاس انتظار کرنے کے دوسرا کوئ راستہ نہیں ہے تجھے کیا لگتا ہے شوق سے بیٹھا ہوں میں یہاں۔۔
زمان اب چڑنے لگا تھا۔۔۔
دیکھ زمان تو صرف وقت ضائع کررہا ہے تجھے زلان ملک نظر آبھی گیا تو اسکا پیچھا کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔۔
شاکر کوفت کھانے لگا تھا اس سے یہ سب برداشت کرنا مشکل ہورہا تھا۔۔۔
جانتا ہوں میں آسان نہیں ہے۔۔
ایک تو یہ زلان ملک اس گھر میں رہتا بھی ہے یا نہیں سمجھ نہیں آرہا۔۔ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔۔
ایسے لوگ زیادہ تر کلبز اور ہوٹل میں وقت گزارتے ہیں دوستوں کے ساتھ پارٹیز جو کرنی ہوتی ہے۔۔ شاکر کو جیسے سب کچھ معلوم تھا۔۔۔
بگڑے ہوئے باپ کی بگڑی ہوئ اولاد۔۔ زمان بڑبڑانے لگا۔۔
اسکا دماغ بھی تھک چکا تھا سارا دن ایک ہی منظر دیکھ دیکھ کر، لیکن سوائے انتظار کے وہ لوگ کچھ کر بھی کیا سکتے تھے۔۔۔
_____________________________________
وہ فجر کی نماز ادا کرکے فوراً ہی مسجد سے رخصت ہوگیا ہاں البتہ وہ رؤف چاچا کے سینے سے لگا اور انکی دعائیں بھی اپنے سنگ لے گیا۔۔
ڈرائیور کو چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے وہ گاڑی میں بیٹھ گیا صبح صادق کا وقت بہت ہی خوبصورت لگ رہا تھا ساتھ ہی مسجدوں سے آتی نعتوں کی آوازیں ماحول کو مزید خوشنما بنا رہی تھیں رؤف چاچا سے الوداعی کلام کرتے ہی اسکی گاڑی فرّاٹے بھرتی ہوئ اپنے سفر کو نکل پڑی۔۔۔
وہ ساحلِ سمندر پر آچکا تھا اسکا دل بےچین اور غم زدہ تھا شاید اسی لیے وہ یہاں خاموش فضا میں آیا تھا۔۔۔
کیا کروں میں؟؟ کیا میں اپنے گناہوں کے بدلے کی سزائیں بگھت سکتا ہوں؟؟
اتنی ہمت ہے تم میں زلان ملک؟؟ وہ ٹہلتا ہوا خود سے سوالات کررہا تھا۔۔۔
کیسے کروں گا میں یہ سب کیسے؟؟ یہ کیا کردیا میں نے۔۔
کیا ہوگیا مجھ سے یہ؟؟ وہ سمندر کے کنارے گٹھنوں کے بل گرچکا تھا۔۔۔
وہ زور زور سے وہاں چیخنے لگا اسکا چیخنا اسکے رونے میں بدل چکا تھا وہ پہلی دفعہ اس قدر رویا تھا ورنہ ہمیشہ سے اسنے دوسروں کو آنسوں دیے تھے شاید اسنے خود بھی کبھی تصور نہیں کیا تھا کہ وہ کبھی رو بھی سکتا ہے۔۔۔
صحیح کہتی تھی وہ۔۔
میری مثال اس گھوڑے کی جیسی ہے جسکی لگام کسی کے پاس نہیں ہوتی۔۔ جو۔۔
جو اندھا دھن بھاگتا رہتا ہے اور بھاگتے بھاگتے راستہ ہی بھٹک جاتا ہے۔۔
وہ آنسوں سے تر چہرے کو مزید جھکا کر کہہ رہا تھا۔۔۔
میں کس دوہرائے پر آگیا ہوں۔۔ میں نے خود کو برباد کرلیا۔۔۔
کسی اور سے دشمنی کرتے کرتے میں نے سب سے بڑی دشمنی تو اپنے خود کے ساتھ کرلی ہے۔۔۔
اسکی ساری اکڑ ساری زد آج مٹّی ہوچکی تھی وہ خود تھکے ہوئے گناہوں میں اٹے ہوئے وجود کے ساتھ وہاں بیٹھا رورہا تھا۔۔۔
ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور اسکی زد کی بھی حد ہوچکی تھی اللّہ کے سامنے کسی کی زد نہیں ٹکتی اسے اسی رب نے ہوش دلایا جسکی عبادت تک کرنا وہ بھول چکا تھا۔۔۔
____________________________________
وہ اس وقت قرآنِ پاک کی تلاوت میں مشغول تھی اسکی روٹین میں شامل تھا ہر نماز کے بعد تھوڑا سا قرآن پڑھنا۔۔
اسکے لب تلاوت میں مصروف تھے کہ اچانک اسے احساس ہوا کہ جیسے کوئ اسے دیکھ رہا ہے اسنے گردن گھما کر اپنے دائیں طرف دیکھا جہاں دروازے کی چوکھٹ پر زلان ملک کھڑا تھا اسکے سارے کپڑوں پر مٹّی کے دھبے لگے ہوئے تھے۔۔
ازلفہ نے اسے اگنور کرتے ہوئے واپس نظریں قرآنِ پاک پر جمالیں۔۔
وہ کچھ دیر یونہی کھڑے رہنے کے بعد آہستہ آہستہ قدموں سے اسکی جانب بڑھا اور اسکے قریب آکر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔۔۔
وہ اچانک اسکو اپنے قریب پاکر چونک اٹھی۔۔۔
مجھے معاف کردو۔۔۔ وہ اسکے سامنے لرزتے ہاتھوں کو جوڑے بیٹھا تھا جبکہ ازلفہ کی ہوائیاں اڑھ چکی تھیں اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ زلان ملک اسکے سامنے ہاتھ جوڑے بیٹھا ہے۔۔
اسے لگا وہ کوئ خواب دیکھ رہی ہے وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسکا منہ تک رہی تھی جبکہ زلان نظریں جھکائے اسکے سامنے یونہی بیٹھا تھا۔۔۔
میں نے بہت ظلم کیا ہے تم پر۔۔ مجھے معاف کردو۔۔
زلان کی آنکھ سے ایک آنسوں پھسل کر گال پر رینگتا ہوا نیچے آرہا تھا جسکو ازلفہ بڑے غور سے دیکھ رہی تھی۔۔
وہ اب تک یہ سب اک خواب سمجھ رہی تھی زلان ملک کا ہاتھ جوڑنا اس پر معافی مانگنا اور رونا ازلفہ کے لیے ناقابلِ یقین تھا۔۔۔
تمھیں کیا ہوا ہے؟؟ اسنے سپاٹ چہرے اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے سوال کیا۔۔۔
مجھے احساس ہوا ہے۔۔۔
میں بہت غلط ہوں۔۔ مجھے معلوم ہے تم مجھ سے نفرت کرتی ہو شاید تم مجھے معاف نہیں کروگی۔۔
مگر جیسے تم اللّہ کو پکارتی ہو ویسے ہی آج میں نے بھی اللّہ کو پکارا ہے۔۔
میں نے ہر نماز میں دعا کی ہے کہ اللّہ اور تم مجھے معاف کردو۔۔
وہ آہستہ آہستہ روتے ہوئے اس سے کہہ رہا تھا ناجانے کیوں ازلفہ کی آنکھوں میں نمی اترنے لگی۔۔۔
میں اپنے جرم کی اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں۔۔
اسکی بات سن کر ازلفہ مزید حیرانگی سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔
تم یہ سب ہوش و حواس میں کہہ رہے ہو؟؟ ازلفہ نے بھویں چڑھا کر پوچھا۔۔
تمھیں یقین نہیں آرہا ہے نہ۔۔
جانتا ہوں۔۔ یقین بھی کیوں آئے گا کسی جانور کا انسان بننا امپاسیبل ہے۔۔
وہ نگاہیں پھیر کر خود پر ہنسا۔۔۔
تم فکر مت کرو میں تمھیں مزید تکلیف نہیں دونگا۔۔
وہ کہتے ہوئے کھڑا ہوگیا۔۔۔
میں بات کروں گا اس فوجی سے۔۔
میں گواہی دونگا کہ تم ایک باکردار پاک دامن لڑکی ہو۔۔
مجھے یقین ہے تمھارا وہ فوجی مجھ پر ضرور یقین کرے گا۔۔
وہ خود اعتمادی کے ساتھ آنسوں پوچھتا ہوا کہہ رہا تھا ازلفہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی مگر اسے بولنے کا موقع ہی نہیں مل رہا تھا۔۔۔
تم بس مجھے معاف کردینا۔۔
بس۔۔ وہ کہتا ہوا جانے کے لیے مڑا جب ازلفہ نے کہا۔۔
تمھیں واقعی احساس ہوا ہے؟؟
کیا تم نے واقعی نماز پڑھی ہے؟؟ ازلفہ کے سوال پر وہ لمہا بھر خاموش رہا پھر جواب دیے بغیر ہی چلا گیا۔۔۔
جبکہ وہ بے یقینی کے عالم میں جائے نماز پر بیٹھی ادھر ادھر نظریں دوڑاتی رہی۔۔۔
_____________________________________
وہ کپڑے بدلنے کی غرض سے گھر گیا تھا اور کپڑے بدل کر وہ ملک ہاؤس سے باہر نکل رہا تھا۔۔
زمان دیکھ جلدی دیکھ یار وہ رہا وہ سالا زلان ملک۔۔۔
شاکر نے اپنے پاس بیٹھے زلان کو کوہنی ماری اور سامنے اشارہ کرتے ہوئے بولا وہ دونوں ریسٹورینٹ کے باہر اپنی بائک کے پاس کھڑے تھے۔۔۔
چل چل جلدی بائیک اسٹارٹ کر۔۔ اسنے زمان کو کہا اور دونوں فوراً بائیک پر بیٹھ گئے۔۔۔
زلان ملک کے چہرے پر پڑتی ہوئ دھوپ سے اسکا چہرہ مزید روشن ہورہا تھا وہ بلیک گلاسز لگاکر اپنی گاڑی کی پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولنے لگا۔۔
چند لمہوں میں اسکی گاڑی اسٹارٹ ہوئ اور وہ دونوں بائیک پر اسکی گاڑی کا پیچھا کرنے لگے وہ دونوں کافی فاصلے سے پیچھا کررہے تھے مگر زلان کی نظروں سے بچنا آسان نہیں تھا۔۔۔
زلان نے گاڑی کے آگے کے شیشے سے انکی بائیک کو نوٹس کرلیا تھا۔۔۔
ڈرائیور گاڑی سائیڈ پر لگاؤ۔۔ اسنے ڈرائیور کو حکم دیا جس پر وہ گردن ہلاتا ہوا گاڑی سائیڈ پر لگانے لگا۔۔۔
پیچھے ان دونوں کی بائیک کو بھی گاڑی کے رکنے سے بریک لگ چکا تھا۔۔
زلان ملک گاڑی سے اتر کر چہرے سے گلاسز ہٹاتا ہوا انکی جانب بڑھا جبکہ وہ دونوں بھی بائیک سے اترچکے تھے۔۔
کون ہو تم لوگ؟؟ اور پیچھا کیوں کررہے ہو میرا؟؟
زلان نے اپنے مخصوص انداز میں تیوریاں چڑھا کر سوال کیا۔۔
زمان سکندر۔۔
زمان نے پر اعتماد لہجے میں اپنا تعارف کروایا جسے سن کر زلان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اسے زمان کو پیچاننے میں زرا دیر نہیں لگی تھی اب اسکا اگلا قدم اسے خوب اچھی طرح معلوم تھا۔۔۔
_____________________________________
وہ دوڑتا ہوا سیڑھیاں پھیلانگتا اوپر آیا وہ جو کمرے میں ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی تھی قدموں کی آواز سے دروازے کی طرف دیکھنے لگی۔۔
چند لمہوں بعد زلان ملک اسکے سامنے کھڑا تھا۔۔
وہ آہستہ آہستہ اسکی جانب بڑھا۔۔
تمھیں آزاد کررہا ہوں میں۔۔
تمھارا یہاں سے جانے کا وقت آگیا ہے ازلفہ۔۔
وہ سر جھکائے اسکے سامنے کھڑا تھا جبکہ وہ اسکی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کررہی تھی۔۔
زمان آیا ہے ازلفہ۔۔۔
وہ تمھیں لینے آیا ہے۔۔ اسنے سر اٹھایا تو ازلفہ اسے الجھی الجھی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔
تم۔۔۔ تم سچ کہہ رہے ہو؟؟ وہ ہکلانے لگی تھی اسے بہت بڑا جھٹکا لگا تھا۔۔۔
تمھارا نکاح تو ایک سال پہلے ہوا تھا مگر رخصتی آج ہوگی ابھی اسی وقت۔۔
اسکی آنکھوں میں آنسوں تھے جبکہ ازلفہ کی آنکھیں بھی آنسوؤں سے خالی نہیں تھیں۔۔۔
تم۔۔تم۔۔
تمھیں سزا ہوجائے گی زلان ملک۔۔۔ وہ کانپتے لبوں سے بولی۔۔۔
میں سزا کا حقدار ہوں۔۔ اسنے کہا۔۔۔
کیوں کیا آخر تم نے یہ سب؟؟ اسنے سوالیا نظروں سے اسے دیکھا۔۔
میرا ارادہ بدلنے سے پہلے چلی جاؤ ازلفہ۔۔ اسنے نظریں پھیرلیں۔۔
وہ آہستہ آہستہ قدموں سے اسکے سامنے سے جانے لگی مگر اچانک اسکے قدم جم گئے۔۔
زلان نے اسکی کلائ پہلی دفعہ نرمی سے تھامی تھی۔۔
میں جانتا ہوں تمھارا ہاتھ پکڑنے کا مجھے کوئ حق نہیں ہے۔۔
لیکن جیسے ہر گناہ کی معافی مانگلی ہے ویسے ہی اسکی بھی معافی مانگلوں گا۔۔ وہ اس قدر معصومیت سے پہلی دفعہ بول رہا تھا۔۔۔
ازلفہ نے پلٹ کر اسے دیکھا۔۔
مجھے اللّہ نے ایک موقع دیا ہے اگر مجھے پھانسی نہیں ہوئ اور قسمت نے ساتھ دے دیا تو تم سے ایک موقع ضرور مانگنے آؤں گا۔۔۔
اسکی عجیب و غریب باتیں ازلفہ کی سمجھ نہیں آرہی تھیں۔۔۔
مگر کچھ حد تک اسے سمجھ آچکی تھی زلان نے اپنے بھیگے چہرے کو صاف کیا اور منہ موڑ کر کھڑا ہوگیا وہ چند لمہوں بعد چلی گئ۔۔۔
ازلفہ نے زمان کو دیکھا اور دیکھتے ہی اسکے سینے سے لگ گئ وہ اس قدر روئ تھی کہ اسکی ہچکیاں بند چکی تھیں کچھ ہی دیر میں وہاں پولیس اور میڈیا آچکی تھی زلان ملک نے خود پولیس کو کال کرکے اعترافِ جرم کیا تھا۔۔
چاروں طرف ایک قیامت برپا تھی زلان ملک کے ہاتھوں میں ہتکڑیاں لگی تھیں جبکہ میڈیا کبھی زمان سکندر کے گھر کا تو کبھی شاہ زیب ملک کے گھر کا رخ کررہی تھی۔۔
زمان نے اپنی سورس لگا کر اپنے کیس کو مظبوط کرہی لیا تھا وہیں شاہ زیب ملک کے سر پر آسمان ٹوٹ پڑا تھا وہ بوکھلا چکے تھے مگر اپنے اکلوتے بیٹے کے لیے انکو کوشش تو کرنی ہی تھی۔۔۔
ہر طرف ایک طوفان اٹھا ہوا تھا سبھی کی زندگیاں ایک عذاب میں مبتلا ہوچکی تھیں۔۔
زلان ملک کے خود اعترافِ جرم کے باعث شاہ زیب ملک کا قابل وکیل بھی اس کیس کو کمزور نہ کرسکا البتہ شاہ زیب ملک کی سورسز اور پریشر کے باعث زلان ملک کو کورٹ نے پھانسی نہیں دی بلکہ عمر قید کی سزا سنائ گئ۔۔۔
ازلفہ کو انصاف مل چکا تھا ساتھ ہی اپنی محبت بھی جبکہ زلان ملک جیل کی سلاخوں کے پیچھے خود کو بہتر سے بہترین بنانے کی کوشش میں لگا تھا اس نے خود کو بلکل بدل دیا تھا۔۔۔
اسکی اچھی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اور کچھ شاہ زیب ملک کی سورسز سے اسکی سزا میں کمی کردی گئ جس کے باعث وہ آج نو سال کے بعد جیل سے رہا ہو رہا تھا۔۔۔
_____________________________________
ممّا ہم کہاں جا رہے ہیں؟؟ وہ یہ سوال تقریباً دس دفعہ کر چکا تھا مگر مجال ہے جو وہ اسکو جواب دے دے۔۔۔
ممّا دادو ہمارے ساتھ نہیں چل رہے ہیں؟؟
اسنے پھر اسکا ہاتھ تھام کر کہا۔۔
وہ دونوں اس وقت اپنے گھر کے باہر گاڑی کے پاس کھڑے تھے جبکہ ڈرائیور گھر کے اندر کسی کام سے گیا تھا۔۔۔
اففف اشعر تم کتنے سوال کرتے ہو بیٹا۔۔ وہ چڑھ کر بولی۔۔
ممّا تو آپ ایک دفعہ میرے سوال کا جواب دے دیں نہ میں بار بار نہیں پوچھوں گا۔۔
اسکے سات سالہ بیٹے نے معصومیت سے کہا۔۔۔
بیٹا آپ کے لیے ایک سرپرائز ہے اور سرپرائز بتائے نہیں جاتے یو نو نہ۔۔
اسنے پنجوں کے بل جھک کر اسکے گالوں کو چھوا تو وہ منہ بسورنے لگا وہ سرخ سفید رنگت کا بہت خوبصورت اورشرارتی بچہ تھا۔۔۔
اینڈ دادو ہمارے ساتھ نہیں آرہے ہیں کیونکہ آج دادی کی برسی ہے اور اشعر بہت اچھی طرح جانتا ہے دادو آج کے دن کہیں نہیں جاتے۔۔
اسنے اشعر کو یاد دلانے کی کوشش کی تو وہ معصومیت سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔
چلو جلدی سے گاڑی میں بیٹھو ڈرائیور انکل آگئے ہیں ہری اپ۔۔
اسنے ڈرائیور کےآتے ہی جلدی سے گاڑی کی پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولا اور خود بھی اشعر کے ساتھ بیٹھ گئ۔۔۔
_____________________________________
اسنے جیل سے رہا ہوتے ہی سب سے پہلے مسجد کا رْخ کیا تھا۔۔
وہ نماز ادا کرکے مسجد کی چوکھٹ پر ہی بیٹھ گیا تھا اسے آج سے پہلے کبھی اتنا سکون محسوس نہیں ہوا تھا وہ آسمان کی طرف نگاہ کیے آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا۔۔
اسنے اتنے عرصے میں جیل کے اندر داڑھی بھی رکھ لی تھی جو اسکے خوبصورت چہرے کو مزید پررونق بنارہی تھی جبکہ اسکی شخصیت آج بھی پہلے کی طرح ہی پرکشش تھی بس اسکی ذات میں بہت عاجزی آچکی تھی۔۔۔
وہ ایسے ہی خیالوں میں کھویا ہوا بیٹھا تھا جب مسجد کے سامنے ایک گاڑی نے زبردست بریک لگا کر اسکی توجہ اپنی طرف مبزول کروائ۔۔۔
اسنے ایک سرسری سی نگاہ اس گاڑی پر ڈالی اور واپس آنکھیں بند کیے بیٹھ گیا۔۔۔
اسکے زہن میں ازلفہ ہمیشہ کی طرح گردش کررہی تھی وہ اتنے سال ازلفہ کے تصور میں جیتا رہا اور نہ جانے کب وہ تصور شدید محبت اختیار کرگیا وہ اسی کے تصّور میں گم تھا جب اسے محسوس ہوا کے کوئ ہے جو اسکے پاس کھڑا ہے اسنے آنکھیں کھول کر دیکھیں تو حیرت کے ایک جھٹکے نے اسے کھڑا کردیا اسے اپنی آنکھوں اور اس لمہے پر یقین نہیں آرہا تھا اسکے سامنے ازلفہ زمان کھڑی تھی وہ پوری طرح ایک کریم کلر کی شال میں لپٹی ہوئ تھی البتہ اسکا ہلکا گلابی رنگ کا سوٹ تھوڑا سہ نظر آرہا تھا۔۔
وہ ہمیشہ کی طرح فریش لگ رہی تھی۔۔۔
تم۔۔ تم یہاں؟؟ اسنے حیرت سے آنکھیں پھاڑی۔۔۔
کیا تم میرے ساتھ اپنی باقی کی زندگی گزار سکتے ہو؟؟ اسنے کوئ سلام دعا کیے بغیر ہی اس پر بم پھوڑ دیا۔۔۔
جانتی ہوں عجیب لگ رہا ہے۔۔
کبھی ایسی کیفیت میری تھی جو اس وقت تمھاری ہے۔۔۔
اسنے زلان کو ایسے ہکا بکا دیکھا تو کہنے لگی۔۔۔
زمان تین سال پہلے شہید ہوگئے تھے۔۔۔
اسنے نم آنکھوں سے کہا جبکہ زلان کی تو کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ آخر وہ کہہ کیا رہی ہے۔۔۔
زمان کا وعدہ پورا کرنے آئ ہوں میں یہاں۔۔
زمان نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ اگر وہ اپنے ملک کے لیے لڑتے لڑتے کبھی شہید ہوگئے تو میں تمھیں اپنی زندگی میں شامل کروں۔۔۔
اسکی نظریں نیچی تھیں۔۔۔
کیونکہ اسے لگتا تھا کہ اگر کوئ شخص سیدھے راستے پر چلنا چاہے تو اسے ایک موقع دینا چاہیے۔۔۔
مگر میں اس بات پر راضی نہیں تھی۔۔۔ اسے نظریں اٹھا کر دیکھا تو زلان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر چکی تھیں۔۔۔
مگر تم نے ایک احسان کیا تھا مجھ پر سوچا اس احسان کا بدلا چکا دوں۔۔۔ عورت محبت سے زیادہ عزت مانگتی ہے۔۔
وہ اپنی انگلیاں مڑوڑ رہی تھی جبکہ وہ اب تک خاموش تھا۔۔۔
زمان مجھ سے جیل میں بہت دفعہ ملاقات کرنے آیا کرتا تھا پھر اچانک اسنے آنا چھوڑ دیا۔۔
اسنے اپنی خاموشی توڑی۔۔۔
ہاں جانتی ہوں۔۔
وہ صرف اپنی بیوی اور بچے کے لیے ایک اچھے انسان کی تلاش کر رہے تھے جو انہیں تم میں نظر آیا۔۔
جانتے تھے وہ سپاہی کی زندگی کا کوئ بھروسہ نہیں ہوتا۔۔
ایسی کہانی تم نے کسی کتاب میں پڑھی نہیں ہوگی مگر یہ حقیقت ہے۔۔ حقیقت میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔۔ وہ آہستہ آہستہ بولتی جارہی تھی۔۔
میں جانتی تھی زلان ملک ایک بار اگر کوئ بات کردے تو پوری ضرور کرتا ہے۔۔
مجھے تمھاری وہ بات یاد تھی۔۔
لیکن۔۔۔
اسنے آس پاس آتے جاتے چند لوگوں کو دیکھا۔۔۔
لیکن میں نہیں چاہتی تھی تم میرے در پر آکر اپنی جھولی پھیلاؤ اور مجھ سے میرے ساتھ کی بھیک مانگو۔۔
کیونکہ جو ساتھ بھیک کی صورت میں ملے اس سے بہتر تنہائی ہے۔۔
اس لیے میں خود آئ ہوں۔۔۔اسنے کہا۔۔
میں فقیر ہی تو ہوں ازلفہ اللّہ کے در کا فقیر۔۔۔ اسنے مسجد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔
تم کہہ رہی ہو کہ میں تم سے بھیک مانگتا۔۔ اسنے شکواکن نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔
میں تو نو سال سے نو سال سے اللّہ کے حضور بھیک مانگ رہا ہوں کہ وہ مجھے معاف کردے اور مجھے زندگی کے کسی بھی حصّے میں کسی بھی طرح ایک بار پھر سے تم مل جاؤ۔۔
اسکا چہرہ آنسوؤں سے بھگنے لگا تھا۔۔۔
میں نے اپنی زندگی میں پہلا نیک کام جو کیا تھا اسکا تعلق تم سے تھا جسکی وجہ سے میں بدل گیا۔۔۔
اسنے خود پر ایک نظر ڈالی۔۔۔
گاڑی میں بیٹھا میرا بیٹا انتظار کر رہا ہے۔۔ اسنے گاڑی کی طرف اشارہ کیا۔۔۔
چلیں؟؟ اسنے کہا اور دونوں گاڑی کی طرف بڑھ گئے۔۔۔
زندگی کے نئے سفر پر جہاں سکون اور اطمینان کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔۔۔
تویل آزمائش کے بعد سکون ضرور ملتا ہے بس ایک وجہ کا محتاج ہوتا ہے انسان اور وجہ کے ملتے ہی جانور انسان بن جاتے ہیں اور یہ وجہ اللّہ کے سواء کوئ نہیں دے سکتا۔۔۔
ہر انسان کو اسکے صبر کا پھل ضرور ملتا ہے بس وہ خود کو آزمائشوں کے راستے پر چلنے کے قابل بنالے اور خود اپنے گناہوں اور نیکیوں کا حساب لگالے۔۔۔
ہر سکون سے پہلے آزمائش کا سفر ضروری ہے۔۔۔