ماشااللہ میرا بیٹا اس یونیفارم میں کتنا خوبصورت لگ رہا ہے۔۔۔
زمان کے گھر میں داخل ہوتے ہی صوفیا اسکے ناز اٹھانے کو تیار کھڑی تھیں وہ کبھی اسکے سینے سے لگتیں تو کبھی اسکا ماتھا چومتیں جبکہ اشرف بھی اس سے مصافحہ کرکے اسکے ہمرا لاؤنج میں آرہے تھے۔۔
ان دونوں والدین کا دل بیٹے کی آمد سے باغ باغ ہورہا تھا جبکہ زمان کا زہن کہیں اور ہی بھٹکا ہوا تھا اسے اپنے گھر آکر خوشی تو ہوئی تھی مگر دل کو سکون نہیں مل رہا تھا۔۔
ازلفہ کہاں ہے؟؟ اسنے صوفے پر بیٹھتے ہی پہلا سوال کیا تو یکدم لاؤنج میں سنّاٹا چھا گیا اشرف اور صوفیا کے چہروں سے مسکراہٹ ایسے غائب ہوچکی تھی کہ گویا وہ اپنی زندگی میں کبھی مسکرائے ہی نہ ہوں۔۔۔
دونوں نظریں اٹھا کر ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے جبکہ زمان کو ماحول اور رویوں میں بدلتے ہوئے رنگ کا اندازہ ہوچکا تھا صوفیا کو تذبذب میں ڈوبا دیکھ کر اس نے ایک بار پھر اپنا سوال دھرایا۔۔
ماما ازلفہ کہاں ہے؟؟
یہ کیا زمان تم نے آتے ہی سوال جواب شروع کردیے نہ ماں کا حال پوچھا نہ باپ کا۔۔
صوفیا موضوع بدلنے کی ناکام کوشش کرنے لگیں مگر زمان کی سوئیں ایک ہی سوال پر اٹک کر رہ گئ تھی۔۔
ماما آپ پہلے میرے سوال کا جواب دیں مجھے فکر ہو رہی ہے۔۔
اس کے ماتھے پر شکن آئی،
جبکہ صوفیا اور اشرف کے چہرے پر مستقل رنگ آ اور جا رہے تھے۔۔
تم تو پیچھے ہی پڑ گئے ہو ایک بات کے پہلے فریش ہوجاؤ میں کچھ۔۔۔۔!
ابھی وہ اسکا زہن بھٹکانے کی کوشش میں لگی تھیں کہ اس نے انکی بات کاٹ دی۔۔
ماما مجھے جواب چاہیے آپ جانتی ہیں مجھے اچھی طرح، پھر بھی بات گھمانے کی کوشش کر رہی ہیں۔۔
اسنے دو ٹوک بات کہہ دی۔۔۔
صوفیا نے ہونٹوں پر زبان پھیری اور ایک گہری سانس لی۔۔
امسہ اور ازلفہ ایک کار اکسیڈینٹ میں انتقال کرگئے ہیں۔۔
صوفیا نے اٹک اٹک کر جملہ پورا کیا تھا جس پر انکو ایک زور دار قہقہہ سنّے کو ملا۔۔
زمان صوفے پر گردن پیچھے کئے بری طرح ہنس رہا تھا جبکہ وہ دونوں سوالیا نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔۔
ایک لمہے کو انہیں لگا کہ انکے زمان کی صدمے سے دماغی حالت خراب ہوچکی ہے۔۔
آپ دونوں کا مزاق بہت اچھا ہے ماما آپ کو تو ڈراموں میں اداکارہ ہونا چاہیے تھا۔۔
وہ بمشکل اپنی ہنسی کو کنٹرول کیے کہہ رہا تھا۔۔
اسکے پیروں تلے زمین اس طرح نکلی تھی کہ وہ چاروں شانے چت گرا تھا اور اب اسکے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ اپنی کیفیت کا اظہار وہ ہنس کر کرے یا رو کر۔۔
میں ابھی ازلفہ کو اوپر سے بلا کر لاتا ہوں۔۔
وہ کہتے ہوئے صوفے سے اٹھا اور تیزی سے اوپر کے کمرے کی طرف جانے کے لیے سیڑھیاں پھیلانگنے لگا جبکہ اشرف اور صوفیا بوکھلائے ہوئے انداز میں اسکے پیچھے بھاگے۔۔
ازلفہ۔۔۔ ازلفہ۔۔۔
باہر آجاؤ میری جان دیکھو تمھارا سپاہی آیا ہے۔۔
وہ زور زور سے اسکا نام پکارتا ہوا ہر کمرے کا دروازہ کھول کر اندر جھانک رہا تھا۔۔
ماما کہاں چھپاکر رکھا ہے آپ نے میری بیوی کو۔۔
وہ دوڑتا ہوا واپس نیچے آیا۔۔
بیٹا ہماری بات سنو زمان۔۔ کہاں جا رہے ہو۔۔
اشرف نے چیختے ہوئے اسے پیچھے سے آواز لگائی مگر وہ تو آناً فاناً گھر سے باہر نکل گیا تھا۔۔
ازلفہ۔۔۔ ازلفہ۔۔۔ وہ بری طرح گھر کے باہر کھڑے ہوکر بلند آواز میں اسکا نام پکار رہا تھا۔۔
وہ ازلفہ کا نام پکار کر اپنے آپ کو مصروف کر رہا تھا خود سے بھاگنے کی سچ سے آنکھیں پھیرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا وہ خود نہیں جانتا تھا وہ کیسے اپنی کیفیت کو بیان کرے۔۔
زمان پاگل ہوگئے ہو کیا؟؟ اندر چلو تماشہ نہیں کرو۔۔
اشرف اسکو زبردستی بازو سے کھینچ کر گھر کے اندر لے آئے۔۔
پاگل ہوگئے ہو تم کیا کر رہے ہو یہ سب؟؟
اشرف نے آج پہلی بار اس سے اس طرح اونچی آواز میں بات کی تھی۔۔
مجھے میری بیوی چاہیے پاپا میں اپنی امانت آپ دونوں کو سونپ کر گیا تھا۔۔ وہ آنکھوں کو مزید پھاڑ کر انہیں دیکھ رہا تھا۔۔
بیٹا وہ مر چکی ہے تم سمجھتے کیوں نہیں ہو۔۔
صوفیا اسے یقین دلانے کی ناکام کوشش کررہی تھیں مگر اسکو یقین آنا کہاں تھا۔۔ کیسے مر گئ وہ کیسے؟؟ آپ مجھ سے کہتی رہیں کہ وہ مجھ سے طلاق چاہتی ہے اسے کسی اور سے محبت ہوگئی ہے اسی لیے اسنے نمبر بدل لیا۔۔
یہ ساری باتیں کرتے رہے آپ لوگ مجھےدلاسے دیتےرہے اور اب کہہ رہےہیں کہ وہ مر گئ۔۔۔
کیسے مرگئ وہ اچانک؟؟ وہ بری طرح گلا پھاڑ کر چلّا رہا تھا آج پہلی بار اسنے اس طرح بات کی تھی آج پہلی بار اسے غصہ آیا تھا۔۔
دیکھو بیٹا آرام سے ہماری بات سنو تمھیں سب سمجھ آجائے گا۔۔
اشرف نے پھر اسے قابو کرنے کی کوشش کی۔۔
مجھے کچھ نہیں سمجھنا مجھے میری بیوی چاہیے۔۔ اسکا غصہ سوانیزے پر پہنچ چکا تھا اسنے ازلفہ کے نام کی زد پکڑ لی تھی۔۔
دیکھو زمان ازلفہ کو کسی اور لڑکے سے محبت ہوگئی تھی اسنے بہت دفعہ ہمارے منہ پر طلاق کا مطالبہ کیا تھا ہم تو بار بار تمھاری خوشی کی خاطر اسے منانے کے کیے اس کے گھر جاتے تھے۔۔
صوفیا نے من گھڑت کہانی سنانی شروع کردی۔۔
ازلفہ کو کسی سے محبت نہیں ہوسکتی میں جانتا ہوں اسے وہ مجھ سے محبت کرتی تھی۔۔
وہ پھر سے چلّایا۔۔
آپ دونوں جھوٹ بول رہے ہیں مجھے یقین نہیں ہے آپ لوگوں کی باتوں پر۔۔ اسنے ان کی باتوں پر یقین کرنے سے صاف انکار کردیا،
مگر وہ دونوں تو اسے یقین دلانے کے لیےایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔۔
ہم سچ کہہ رہے ہیں زمان ہم تم سے جھوٹ کیوں بولیں گے بیٹا۔۔صوفیا اسکےکندھے کو چھو کر بولیں۔۔
ہاں زمان بیٹے وہ تم سے ہی نہیں وہ ہم سے بھی کوئ رابطہ رکھنا نہیں چاہتی تھی اسی لیے ہمارے بار بار اسرار کرنے پر بھی وہ تم سے بات کرنے پر امادہ نہیں تھی۔۔
اشرف بھی اس کہانی کو سنانے میں پیش پیش تھے۔۔
جبکہ وہ زمین پر نظریں دوڑاتا ہوا لمبی لمبی سانسیں لے رہا تھا۔۔
پھر ایک دن امسہ نے اپنا گھر بیچ دیا اور یہاں سے چلی گئیں مگر کچھ دیر بعد ہمیں انکے ڈرائیور نے خبر دی کہ راستے میں کار اکسیڈینٹ کی وجہ سے ان دونوں کا انتقال ہوگیا۔۔
تمھارے پاپا نے ہی ان دونوں کی تدفین کروائ۔۔
صوفیا کے منہ سے یہ کہانی سن کر اسکے قدم لرزنے لگے وہ بغیر کوئی جواب دیے لڑکھڑتا ہوا بے یقینی کے عالم میں وہاں سے چلا گیا جبکہ صوفیا اشرف کو دیکھ کر ہاتھوں کی انگلیاں مڑوڑنے لگیں۔۔
_____________________________________
وہ جو عام مردوں سے الگ چہکنے والا خوشیاں منانے والا مرد تھا آج اس قدر خاموش تھا کہ الفاظ بھی ترس گئے تھے اسکےمنہ سے ادا ہونے کے لیے، ہر کسی کی زندگی میں رنگ بھرنے والے کی خود کی زندگی کے سارے رنگ نچڑ گئے تھے۔۔
آنکھوں میں ایسی ویرانی چھاگئی تھی جو صحرا میں بھی ڈھونڈنے سے نہ ملتی اپنے کمرے کے بیڈ پر بیٹھا وہ آج اپنی ہی ذات میں اپنا آپ ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔
_____________________________________
الجھے ہوئے بالوں کو سمینٹ کر وہ زرا اٹھ کر بیٹھی تھی۔۔
درد سے جسم ٹوٹ رہا تھا مگر پھر بھی بخار میں تپتے ہوئے جسم کو اسنے بمشکل سمینٹ کر کھڑا کیا اور بیڈ سے اٹھ کر کمرے کی کھڑکی کی جانب بڑھی جو مکمل شیشے کی بنی ہوئی تھی ہاتھوں سے کھڑکی کا پردہ سرکایا تو شیشے پر پانی کی بوندیں نمودار تھیں شاید بارش ہوئ ہے اسنے دل میں سوچا اور تھکاوٹ سے بھری مسکراہٹ ہونٹوں پر ابھری اسکی خوبصورت آنکھوں کےگرد سیاہ حلقے پڑ چکے تھے جبکہ اسکو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ وہ پہلے سے کافی حد تک کمزوری کا شکار ہوچکی ہے۔۔۔
چہرے پر طویل عرصے کسی کے تشدد کا شکار رہنے کے باعث عجیب سی وہشت جھلک رہی تھی۔۔
اسنے اپنی تھکن سے نڈھال آنکھوں کو جھپکایا اور واپس بیڈ کے طرف آنے لگی وہ اس وقت ایک بڑے سے فارم ہاؤس پر بنے ایک کمرے میں تھی۔۔
اسکا کمرہ ہر طرح کی آسائشوں سے بھرا پڑا تھا مگر اس میں اس کے خود کے وجود کے سوا دوسرا کوئ وجود نہیں تھا۔۔
اسنے آگے بڑھ کر اپنے تکیے کے نیچے سے ایک فوٹو فریم نکالا اور شیشے پر ہاتھ پھیر کر مسکرانے لگی اسکا دل بھر آیا اور آنکھوں میں نمی اتر آئ ٹپ ٹپ کر کے آنکھوں سے آنسوں فریم کے شیشےپرگر کر اپنا آپ کھورہےتھے اورگول گول بوندوں میں اپنا روپ ڈھال رہے تھے۔۔۔
یہ تصویر اسکی ماں کی تھی جسے دیکھ کر وہ ہر بار آنسوں بہانے پر مجبور ہوجاتی اسکی آنکھیں بھی آنسوں بہانے کی عادی ہوگئی تھیں۔۔
اسنے ہاتھوں کی پشت سے آنسوں پوچھے اور کھانا کھانے کی غرض سے کمرے سے باہر نکلنے لگی۔۔
_____________________________________
کہاں جارہے ہو تم اس وقت؟؟ صوفیا نے اسے باہر کی جانب جاتا دیکھا تو پوچھنے لگیں وہ جب سے آیا تھا پہلی بار اپنے کمرے سے باہر نکلا تھا۔۔
کام سے جا رہا ہوں۔۔ وہ لاپرواہی سے جواب دیتا ہوا گھر سے نکل گیا۔۔
ڈرائیور اسے آتا دیکھ گاڑی نکال رہا تھا مگر اسنے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ اکیلا جانا چاہتا ہے وہ گاڑی اسٹارٹ کرکے چلاگیا جبکہ صوفیا اسکو دیکھنے کی غرض سے اسکے پیچھے آئیں اور اسے جاتا دیکھ گہری سوچ میں ڈوب گئیں۔۔
وہ گھوڑے کی طرح گاڑی روڈ پر دوڑا رہا تھا کچھ دیر کے بعد اسنے ایک جگہ گاڑی کو بریک لگائی اور تیزی سے دروازہ کھول کر گاڑی سے نیچے اترا۔۔
وہ دنیا کی اس جگہ کھڑا تھا جہاں دنیا ختم ہوتی ہے۔۔
ہاں وہ قبرستان آپہنچا تھا مردہ لوگوں کے درمیان۔۔
شاید اسکے دل کا حال کوئی زندہ انسان نہیں سمجھ سکتا تھا جبھی وہ مردوں کے درمیان اپنے زندہ ہونے کا ماتم منانے آیا تھا۔۔
قبرستان کے اندر لرزتے قدموں کے ساتھ داخل ہوکر وہ اپنے اطراف میں ہر طرف نگاہ دوڑا رہا تھا۔۔
منجمد قدموں کو بمشکل اٹھا کر وہ آگے بڑھتا گیا پھر ایک کے بعد ایک وہ قبروں کی بے حرمتی کرتا ہوا قبروں کو روندھتا ہوا آگے دوڑرہا تھا۔۔۔
ازلفہ کو ڈھونڈنے کی غرض سے وہ ہر قبر کو پہچاننے کی کوشش کررہا تھا۔۔ اسے لگتا تھا کہ وہ مردہ حالت میں کسی قبر کے اندر گہری نیند سوئ ہوئی اسے مل جائے گی اور وہ مجنون کی طرح قبر کھود کر اسے نکالے گا۔۔
مگر زندہ لوگ قبرستانوں میں کہاں ملتے ہیں۔۔!
ارے بھائی۔۔
اووو بھائ کیا کر رہے ہو قبروں کا بے ادبی ہورہا ہے۔۔
اے بھیا؟؟
کہاں بھاگے جارہے ہو ہمارا بات سنو بھیا۔۔
ایک درمیانی عمر کا آدمی زمان سکندر کو اس طرح ادھر سے ادھر چھلانگیں لگاتا دیکھ چلّانے لگا۔۔
وہ میری بیوی۔۔
ازلفہ کی قبر۔۔ وہ یہاں دفن ہے۔۔
میں اسکی قبر ڈھونڈ رہا ہوں۔۔ وہ ہانپتے کانپتے ادھورے ادھورے جملے ادا کر رہا تھا۔۔
تمھارے کو اپنا بیوی کا قبر معلوم نہیں ہے؟؟
اس آدمی نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا جس پر زمان نے نفی میں گردن ہلادی۔۔
اوو تمھارا دماغ میں بھیجا ہے؟؟ اس قبرستان میں ۲۰۰ سے زیادہ قبریں ہیں اب کیا ہر قبر کی تختی دیکھوگے تم بابو؟؟
اس آدمی نے ہاتھ نچا کر غصے میں کہا مگر زمان اسکی باتوں سے زیادہ ادھر ادھر دیکھے نے مگن تھا۔۔
اپنا وقت یہاں ضائع نہ کرو اور گھر جاؤ شام ہونے کو ہے۔۔
وہ اس کو مشورہ دیتا ہوا پلٹ گیا۔۔
ناجانے کہاں سے چلے آتے ہیں مغز خراب کرنے کو۔۔
وہ آدمی بڑبڑاتا ہوا قبرستان سے باہر کی جانب جانے لگا جبکہ زمان ایک قبر کے ساتھ بنے چبوترے پر بیٹھ کر غم منانے لگا۔۔
میاں بیوی کا رشتہ دنیا کا سب سے حسین رشتا ہوتا ہے اس رشتے کہ بعد ہی باقی رشتے وجود میں آتے ہیں وہ دونوں ایک دوسرے کے جسم کا حصہ ہوتے ہیں کوئ ایک حصہ بھی الگ ہوجائے تو سارا جسم تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے زمان کے جسم کا بھی حصہ علحیدہ ہوگیا تھا۔۔۔
وہ ایساشوہر تھا جس کی بیوی اسکی محبوبہ تھی اسنے خالص محبت کی تھی جس کے باعث وہ معصوم بچے کی طرح چیخ چیخ کر رو رہا تھا۔۔
کون کہتا ہے کہ مرد نہیں روتے مرد روتے ہیں وہ اپنے جزباتوں کا اظہار رو کر بھی کرتے ہیں اپنے اندر کا غبار نکالتے ہیں جی بھر کر روتے ہیں۔۔
بس وہ غم کی کیفیت میں تنہائ پسند ہوجاتے ہیں۔۔۔
انکو رونے کے لیے کسی زندہ انسان کے کندھے کی خواہش نہیں ہوتی وہ اپنے دکھ کا اظہار کسی مردے کی قبر کے سرہانے سے لگ کر بھی کرسکتے ہیں جہاں کوئی انہیں یہ نہیں کہے گا کہ مرد ہو مرد کبھی روتا نہیں ہے۔۔
عورت کے رونے کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں مگر مرد کے آنسوؤں کی وجہ صرف عورت ہوتی ہے۔۔
مرد کے آنسوں اس قدر قیمتی ہوتے ہیں کہ وہ ان کو بے جا نہیں بہاتا بلکہ صرف اس عورت کے لیے بہاتا ہے جس کو وہ دلو جان سے چاہتا ہو جیسے آج زمان سکندر اپنے آنسوں اپنی بیوی کے لیے بہارہا تھا وہ بیوی جو کسی کی بھی ہو محبوبہ سے زیادہ بڑے درجے کی اور اہمیت کی حقدار ہوتی یے جس سے وہی مرد خالص محبت کرسکتا ہے جو اسکے لیے آنسوں بہاتا ہو کیوں مرد کے آنسوں بہت قیمتی ہوتے ہیں۔۔۔۔!
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...