یہ کیا کر رہی ہیں آپ ممّا؟؟ وہ حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر تقریباً چیختے ہوئے بولی۔۔
دکھائی نہیں دے رہا سامان پیک کر رہی ہوں۔۔
امسہ ایک کہ بعد ایک سوٹ اپنے سوٹکیس میں ڈالتی جارہی تھیں وہ پوری الماری خالی کرچکی تھیں۔۔۔
لیکن کیوں؟؟
اسکے ماتھے پر بل پڑنے لگے اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر صبح ہی صبح یہ سب ہو کیا رہا ہے۔۔۔
ہم لوگ یہاں سے جارہے ہیں ہمیشہ کے لیے۔۔
اب ہم اس گھر میں نہیں رہ سکتے میں نے یہ گھر بیچ دیا ہے۔۔
انہوں نے آخری جملے بہت آہستگی سے بولے جو ازلفہ کے کانوں میں بار بار گونجنے لگے۔۔
کیا؟؟ اس کے منہ سے بےساختہ نکلا۔۔
ہاں۔۔ انہوں نے نظریں چرائیں۔۔
لیکن کیوں ممّا؟؟ اس کے ماتھے کی شکنیں مزید گہری ہوگئیں۔۔
ہم لوگوں کی بہت بدنامی ہوچکی ہے اور میں مزید کوئ پریشانی برداشت نہیں کرسکتی بہتر ہے کہ ہم لوگ یہاں سے بہت دور چلے جائیں۔۔
وہ سوٹکیس لاک کررہی تھیں۔۔
جبکہ وہ انکے بیڈ کے کنارے سے لگی کھڑی تھی۔۔
ممّا میں زمان سے بات کرکہ دیکھتی ہوں وہ ہماری مدد کرےگا۔۔
اسنے انکے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔۔
خبردار ازلفہ۔۔۔!
تم زمان سے کوئ بات نہیں کروگی۔۔ امسہ نے انگلی کے اشارے سے اسکو تبہیہ کی۔۔
لیکن ممّا میں اسکی بیوی ہوں۔۔ ازلفہ کی آنکھوں میں آنسوؤں کے قطرے چمکنے لگے۔۔
یہی تو میں چاہتی ہوں بیٹا تم ہمیشہ اسکی بیوی رہو۔۔ ناجانے مسٹر اور مسسز اشرف نے غلط فہمی کی بنا پر زمان کو کیا کیا کہہ دیا ہو۔۔
اور تم تو جانتی ہی ہو نہ فون پر نا ہی اپنی بات کسی کو سمجھائی جا سکتی ہے نہ کسی کی بات سمجھی جا سکتی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ زمان تم سے بدگمان ہو کر طیش میں آجائے اور فون پر ہی تمھیں طلاق دے دے یا طلاق کے پیپرز بھجوادے۔۔۔۔
وہ ازلفہ کے مستقبل کو لے کر بے انتہا فکر مند تھیں،
وہ شادی جس میں صرف ابھی نکاح ہی ہوا تھا وہ رخصتی سے پہلے ہی ٹوٹنے کے لیے تیار تھی۔۔
آپکی بات ٹھیک ہے ممّا مگر ہم جائیں گے کہاں؟؟
وہ بات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے احتجاج کرنے سے باز آچکی تھی،
مگر فکر اس بات کی تھی کہ یہ دونوں تن و تنہا جائیں گے کہاں۔۔
تم بس جا کر اپنا سامان پیک کرو میں تمھیں راستے میں سب سمجھاؤں گی، بس کسی کو کان و کان خبر نہ ہو کہ ہم کہاں جا رہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ زلان ملک وہاں بھی ہماری زندگی اجیرن کرنے پہنچ جائے۔۔
زلان کا خیال آتے ہی انکے چہرے پر نفرت کی لکیریں عیاں ہونے لگتی تھیں، وہ سرکش اور ہٹدھرم انسان نفرت کے علاوہ اور کسی چیز کے قابل بھی نہیں تھا۔۔۔
بی بی جی میں نے سامان گاڑی میں رکھ دیا ہے۔۔
ملازم کمرے میں داخل ہوا تو ان دونوں کی نظر اس پر پڑی۔۔۔
اچھا یہ سامان بھی لے جاؤ۔۔ امسہ نے سوٹکیس آگے کرتے ہوئے کہا جس پر ملازم گردن جھکائے حکم کی تعمیل میں مصروف ہوگیا۔۔۔
ازلفہ تم اپنے کمرے میں جاکر جلدی سامان پیک کرلو۔۔
انہوں نے ازلفہ کے کندھے کو چھو کر کہا تو وہ گردن ہلاکر چلی گئ۔۔
انہوں نے ایک گہری سانس لی اور کمرے کے چارو طرف دیکھنے لگیں۔۔
تکیے کہ نیچے رکھا انکا موبائل بجنے لگا جس پر انہوں نے جھٹ سے کال پک کی۔۔ واہ امسہ واہ۔۔۔
دوسری جانب سے مردانہ آواز آئی۔۔
کون؟؟ انہوں نے سختی کے پوچھا۔۔
تم تو بہت تیز نکلیں کوئی نہیں ملا تو مشہور سیاست دان کے بیٹے کو پھسالیا۔۔ وہ بھی اس عمر میں۔۔
حیرت ہے مجھے تمھاری دیدا دلیری پر۔۔۔ یہ آواز انکے سابقہ شوہر کی تھی جو وہ اب تک پہچان چکی تھیں۔۔
تمھاری بکواس تمھاری وہ بیوی نہیں سنتی کیا جو مجھے سنانے کے لیے کال کرلیتے ہو؟؟
انہوں نے بھی طنز کے تیر چلائے۔۔۔
بکواس؟؟ چلو بکواس ہی کہہ لو مگر کس کس کی بکواس بند کرواؤگی تم۔۔۔ میں تو سمجھتا تھا کہ تم میری بیٹی کی پرورش کرنے کے لیے نوکری کر رہی ہو مگر یہ حقیقت تو آج کھل کر سامنے آئ کہ نوکری کی آڑھ میں یہ گل کھلائے جا رہے تھے۔۔۔
اسکی باتوں سے امسہ کا خون کھول رہا تھا کچھ مرد ہوتے ہیں جن کی عادت عورتوں والی ہوتی ہے جیسے انکی تھی۔۔۔
ہر نوکری کرنے والی عورت بدکردار نہیں ہوتی یہ بات تم جیسے کند زہن کے مردوں کی سمجھ نہیں آتی۔۔۔
آئندہ اپنی بکواس سنانے کےلیے مجھے کال کرنے کی زحمت مت کرنا۔۔ انہوں نے ٹھیک ٹھاک سنا کر جواب کا انتظار کیے بغیر ہی لائن کاٹ دی۔۔
وہ لمبی لمبی سانسیں لے کر اپنے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔۔۔
_____________________________________
وہ اپنے کمرے میں اپنا سامان پیک کررہی تھی جب اسکی نظر زمان کے دیے گئے اس عجیب و غریب تحفے پر پڑی، وہی اسکا استعمال شدہ آدھا بچا ہوا پرفیوم۔۔
ازلفہ نے پرفیوم کی بوتل کا کیپ کھولا اور اپنے جسم کو اسکی خوشبو سے معطر کرنے لگی۔۔
وہ پرفیوم کی خوشبو ایک گہری سانس کے ساتھ اپنے اندر اتار رہی تھی جبکہ آنکھوں سے اشک رواں تھے۔۔
یہ تحفہ اسے زمان کے یاد دلاتا تھا ساتھ ہی اس دن کی جس دن وہ مسسز زمان بنی تھی۔۔
وہ اٹھ کر کمرے کی در دیوار کو دیکھتی ہوئ کمرے کی کھڑکی کی طرف آئ۔۔
اسنے اپنے نرم و ملائم دودھیا ہاتھوں سے کھڑکی کا پردہ ہٹایا تو سامنے زمان سکندر کے بنگلے کی ٹیرس نظر آئ جہاں وہ بیٹھا روز صبح ازلفہ کا دیدار کیا کرتا تھا۔۔۔
تین مہینے بعد میں ٹریننگ پر جا رہا ہوں، اگر میرے جانے سے پہلے تم نے اپنی محبت کا اقرار نہیں کیا نہ تو۔۔۔ تو۔۔۔ تو۔۔۔ تو میں ۔۔ تو میں تمھیں خالہ بولنا شروع کردونگا۔۔۔۔
اسے زمان کی وہ شرارت سے بھری دھمکی یاد آئ تو اسکے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ ابھری وہ ہلکا سا ہنسی جس پر آنکھوں سے آنسوؤں کی بوندیں نکل کر گالوں پر سرک گئیں۔۔۔
اسنے آنسوؤں کو ہاتھ کی پشت سے پوچھا اور پردہ برابر کرکے واپس سوٹ کیس کی طرف آگئ۔۔۔
_____________________________________
وہ دونوں گھر کے باہر گاڑی کی جانب بڑھ رہی تھیں۔۔
جبکہ مسسز اشرف اپنے گھر کے گیٹ پر کھڑی کوفت کھارہی تھیں۔۔
ازلفہ کی نظر ان پر پڑی تو وہ منہ بسور کر اندر چلی گئیں۔۔
ازلفہ چلو بیٹا۔۔ امسہ نے اسکا بازو پکڑا اور وہ بے بسی سے اپنے گھر کو دیکھتی رہ گئ۔۔
آج کسی ایسے شخص کے باعث جس سے ان دونوں کا دور دور تک کوئ رشتہ ناطہ نہیں تھا، وہ اپنے گھر تک سے بے گھر ہوگئ تھیں وہ گھر جو بہت محنت سے بنایا گیا تھا جسے خوابوں سے حقیقت کے روپ میں ڈھالا گیا تھا وہ ان کو اپنے ہاتھوں سے بیچنا پڑا۔۔
گاڑی پوری رفتار کے ساتھ سڑک پر دوڑ رہی تھی۔۔
امسہ ڈرائیور کو پتہ سمجھا رہی تھیں جہاں انہوں نے گھر لیا تھا۔۔
وہ ریتیلے علاقے سے گزر رہے تھے جہاں کچّے مکانات تعمیر تھے۔۔
اچانک ایک سنسان جگہ پر گاڑی کو زور دار جھٹکے سے بریک لگا۔۔۔
کیا ہوا ڈرائیور گاڑی کیوں روک دی۔۔ امسہ نے گھبرا کر پوچھا۔۔
بی بی جی کچھ گاڑیوں نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔۔
ڈرائیور کی بات پر وہ دونوں گھبرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگیں۔۔
باہر نکلو گاڑی سے۔۔ کچھ بھاری بھرکم لمبے چوڑے جسم کے مالک آدمی انکی گاڑی کے شیشے پر زور زور سے دستک دینے لگے۔۔
وہ دونوں گھبرا کر ایک دوسرے سے چمٹ گئیں۔۔
یہ کیا ہو رہا ہے ممّا۔۔ ازلفہ نے پوچھا۔۔
لگتا ہے ہمیں لٹیروں نے گھیر لیا ہے۔۔
امسہ نے شیشے سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔۔
باہر نکلو سنائ نہیں دیتا کیا یا یہیں ٹھوک دیں۔۔
ایک گندمی رنگت والے لڑکے نے گاڑی کے شیشے سے اندر کی جانب پستول دکھاتے ہوئے کہا جس پر ان دونوں کا دم خشک ہوگیا۔۔
وہ ڈری سہمی گاڑی سے باہر نکلیں تو سامنے کافی سارے ایک ہی جیسے لباس میں ملبوس لمبے چوڑے آدمی کھڑے تھے۔۔
ازلفہ اور امسہ اپنے دوپٹے سے اپنا منہ ڈھانپنے کی کوشش کر رہی تھیں، ان دونوں کے چہروں سے خوف و دہشت کی بوندیں ٹپک رہی تھیں۔۔
جبکہ ڈرائیور بچارہ پستول کو دیکھ کر ہی چکرانے لگا تھا۔۔
امسہ اپنا پرس کندھے سے اتار کر ان لوگوں کے آگے بڑھانے لگیں انکا یہ خیال تھا کہ یہ لوگ انہیں مالدار پاکر لوٹنے کی غرض سے انہیں گھیرے ہوئے ہیں، مگر ان میں سے کوئ بھی آدمی وہ پرس لینے کہ لیے آگے نہیں بڑھا۔۔
یہ نہیں چاہیے ہمیں۔۔۔ سامنے کھڑے آدمی نے غصیلے لہجے میں بولا جس پر وہ دونوں حیرت سے ایک دوسرے کو تکنے لگیں۔۔
تو۔۔۔ تو ک۔۔کیا چاہیے تمھیں؟؟ ازلفہ بمشکل بول سکی۔۔
تم دونوں۔۔۔۔ اور اس آدمی کا مطالبہ سن کر ان دونوں کے ہوش اڑھ گئے۔۔
ہم زلان ملک کے آدمی ہیں۔۔ اور دوسرا جملہ ادا ہوتے ہی ان دونوں کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔۔
وہ جان چکی تھیں کہ وہ دونوں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اغواہ کی جارہی ہیں۔۔
زلان ملک کے چیلوں نے انہیں گاڑی میں بٹھایا جبکہ ڈرائیور کو موٹی رقم کے ساتھ ساتھ جان کی دھمکی دے کر بڑے آرام سے ان دونوں کو اغواہ کرکے پْھر ہوگئے۔۔۔
_____________________________________
گھر میں ہر طرف عید کا سماں بندھا ہوا تھا صوفیا ملازموں کے ساتھ گھر کی سجاوٹ میں مصروف تھیں۔۔۔
بیگم صاحبہ میں نے زمان بابا کی پسند کے سارے پکوان تیار کرلیے ہیں کچھ اور رہتا ہو تو آپ بتادیں۔۔
گھر کی ملازمہ انکے سامنے کھڑی تھیں وہ جو ڈائننگ ٹیبل کے پاس کرسی پر بیٹھی ملازموں پر حکم چلا رہی تھیں ملازمہ کی بات سن کر کچھ سوچنے لگیں۔۔
ہاں تم ایسا کرو مونگ کی دال کا حلوہ بھی بنالو زمان کو بہت پسند ہے۔۔
ان کے کہنے پر ملازمہ گردن ہلاتی ہوئ واپس چلی گئ۔۔
ارے بھئ یہ اتنی تیاریاں کس خوشی میں کروائ جارہی ہیں؟؟ مسٹر اشرف لاؤنج کے سامنے سیڑھیوں سے اترتے ہوے نیچے آرہے تھے انہیں آتا دیکھ صوفیہ فوراً کھڑی ہوگئیں۔۔
یہ سب تیاریاں تو معمولی ہیں میرے بیٹے کے آگے آپ کو نہیں پتا کیا ایک سال کے بعد میرا بیٹا واپس اپنے گھر آرہا ہے۔۔
وہ زمان کے واپس آنے کی خوشی میں بہت چہک رہی تھیں۔۔
ہاں ہاں معلوم ہے مجھے زمان آرہا ہے مگر مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ آج عید ہوگئ ہے آپکی۔۔۔
اشرف ڈائننگ ٹیبل سے اخبار اٹھا کر صفحے پلٹنے لگے۔۔۔
ہاں کیوں نہیں ہوگی میری عید میری آنکھوں کا تارا ہے میرا زمان اتنے عرصے سے میری آنکھیں ترس گئیں اپنے بیٹے کا چہرہ دیکھنے کہ لیے۔۔
یہ آرمی کی جاب بھی نہ ایسی ہوتی ہے کہ گھروالے اپنے بچوں کو دیکھے کے لیے ترس جائیں۔۔
انکی باتوں میں اپنی اولاد کے لیے ممتا صاف نظر آرہی تھی۔۔
اچھا اچھا اب بس بھی کریں مجھے زرا ایک کپ چائے دے دیں۔۔
اشرف نے اخبار سے نظریں ہٹا کر ان سے فرمائش کی تو وہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔
_____________________________________
زمان ایک سال کے بعد اپنی ٹریننگ کے دوران چھٹیاں ملنے کی صورت میں واپس آرہا تھا۔۔
اس ایک سال نے ہر شخص کی زندگی کو اس طرح بدل دیا تھا کہ پہلے جیسا کچھ باقی نہ رہا تھا اور اگر کچھ باقی تھا تو وہ تھا درد جو سب کہ دلوں میں ناسور بننے والے زخم سے اٹھتا تھا جس کی شدت سے سارا جسم کانپ جاتا تھا۔۔۔
سفید رنگ کی کار زمان سکندر کے گھر کے گیٹ پر رکی جس کے اندر سے لمبا چوڑا آرمی یونیفارم میں ملبوس سرخ سفید رنگ کے ساتھ چہرے پر ہلکی شیو لیے آرمی آفیسر زمان سکندر باہر نکلا
اسکے ہاتھوں میں گلاب کے پھول تھے اور لبوں پر مسکراہٹ۔۔
ملازم گاڑی کے ہارن کی آواز سن کر دروازہ کھول رہا تھا مگر زمان گھر کے اندر داخل ہونے کے بجائے سامنے والے بنگلے کی طرف بڑھنے لگا۔۔
دروازے کی طرف جا کر اسنے ڈور بیل بجائ۔۔
دروازہ کھلتے ہی وہ اسکے سامنے رومانوی انداز میں سر کو جھکائے ایک ہاتھ سے گلاب آگے کی طرف بڑھائے کھڑا تھا۔۔
آئ لو یو سویٹ ہارٹ۔۔ اسنے کہتے ہوئے جیسے ہی سر کو اٹھایا تو اسے حیرت کا ایک جھٹکا لگا۔۔۔
دروازہ کھولنے ولی ازلفہ نہیں بلکہ معمولی مگر پرکشش شکل و صورت کی لڑکی کھڑی تھی جو زمان کو دیکھ کر خود کنفیوز ہوچکی تھی۔۔
وہ۔۔م۔۔میں۔۔سمجھا۔۔۔ بیوی۔۔ م۔۔ میری بیوی ازلفہ۔۔ ہے۔۔ زمان سکندر بری طرح بوکھکا گیا تھا شرم اور گھبراہٹ کے مارے اسکے منہ سے ادھورے جملے ادا ہورہے تھے۔۔
مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔۔ آپ کون ہیں؟؟
اس لڑکی نے بڑی بڑی آنکھوں سے اسے گھورا۔۔
میں۔۔۔
آپ بتائیں آپ کون ہیں؟؟ یہاں تو میری بیوی ازلفہ رہتی ہے۔۔
اوووہ کہیں آپ ازلفہ کی کزن تو نہیں۔۔۔؟؟
مگر ازلفہ کی تو کوئ کزن نہیں ہے۔۔ وہ بنا رکے بولے جارہا تھا اس لڑکی کو بولنے کا موقع ہی نہیں دے رہا تھا۔۔
کون ازلفہ؟؟ کیسی کزن؟؟ میں کسی ازلفہ کو نہیں جانتی۔۔
وہ لڑکی جھنجھلانے لگی۔۔
اگر تم ازلفہ کو نہیں جانتی تو اس گھر میں کیا کر رہی ہو؟؟ اسنے اپنے آرمی والے انداز میں سوال کیا۔۔
دیکھیے مسٹر ہم یہ گھر مس امسہ زولفقار سے تقریباً گیارہ مہینے پہلے خرید چکے ہیں اور یہ گھر ہمارا ہے۔۔وہ لڑکی تنک گئ۔۔
ک۔۔کیا؟؟
اگر تم یہ گھر خرید چکی ہو تو وہ دونوں کہاں ہیں؟؟
اسکی بڑی بڑی بھوری آنکھیں حیرت سے مزید بڑی ہوگئیں۔۔۔
مجھے کیا پتہ۔۔۔ اس لڑکی نے کندھے اچکا کر کہا۔۔
اچھا۔۔
سوری۔۔ غلط فہمی ہوگئ۔۔زمان کے معزرت کرنے پر وہ دروازہ بند کرکے اندر چلی گئی
جبکہ وہ شش و پنج کی کیفیت میں زمین پر نظریں دوڑانے لگا، ایک ساتھ ہزاروں سوالات اسکے زہن میں جنم لے چکے تھے اسکا دل ڈوبنے لگا تھا۔۔اسکی جان سے پیاری بیوی ازلفہ کہاں تھی یہ سوال اسے پریشان کررہا تھا۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...