دن اب ڈھل کر زوال کی طرف جارہا تھا ۔۔
چارو طرف خاموشی تھی، آسمان کا چاند بھی سوئیمنگ پول کے پانی میں اتر چکا تھا۔۔
اور وہ سوئیمنگ پول کے ایک طرف سگریٹ نوشی کرتا ہوا فضا کو دھواں دھواں کر رہا تھا۔۔
تو تم نے شادی کی ڈیٹ بھی فکس کرلی ہے۔۔ اسکو اپنے عقب میں کھڑے شاہ زیب ملک کی آواز آئ تو اس نے پلٹ کر دیکھا۔۔
صرف ڈیٹ ہی فکس نہیں ہوئ ہے ڈیڈ بلکہ کل تک شادی کارڈز بھی آجائیں گے، پھر پہلا کارڈ میں آپکو ہی دونگا۔۔۔ اسنے منہ سے سگریٹ کا دھواں نکال کر کہا۔۔
ویسے آپ آئیں گے نہ میری شادی میں؟؟ اسنے ترچھی نظروں سے انہیں دیکھا تو انکا چہرہ سرخ ہوگیا۔۔
تمہیں اندازہ بھی ہے تم میرے لیے کتنی بڑی مصیبت کھڑی کررہے ہو؟؟
انکی آنکھیں اس کے چہرے پر جمی تھیں۔۔
اندازے لگانہ انکا کام ہے جنہیں خطروں کا خوف ہو۔۔
اس نے ہاتھ میں پکڑی سگریٹ اچھالی جو سیدھا پول کے اندر جاکرگری۔۔
تمھاری وجہ سے میری بے انتہا بدنامی ہوگی زلان۔۔۔ تم ایک دفعہ پھر سوچ لو۔۔ وہ بھڑکے۔۔
Come on dad۔۔
سوچنے کی ضرورت انہیں ہوتی ہے جو سوچ سمجھ کر فیصلے کرتے ہیں۔۔
اور میں انجام کی پروا کیے بغیر فیصلے کرتا ہوں۔۔
وہ بھویں چڑھا کر اپنے مخصوص انداز میں بول رہا تھا۔۔
اتنا مت اْڑو ہواؤں میں کے منہ کے بل گرنا پڑے۔۔
خود تو برباد ہوگے ہی ساتھ ساتھ مجھے بھی برباد کردوگے تم۔۔
وہ اسے آنے والے خطروں سے دبے دبے الفاظوں میں آگاہ کر رہے تھے۔۔
ہاہاہا۔۔۔
ڈیڈ آپ جانتے ہیں I love advantures۔۔۔
مجھے جیتنے کا شوق ہے اور اس بار معاملہ صنفِ نازک کا ہے تو میں زرا زیادہ ہی اکسائٹڈ ہوں۔۔
میں جتنا مشکلوں کو ہرا کر اسکو جیتوں گا مجھے اس گیم کو جیتنے میں اتنا ہی مزا آئے گا۔۔۔
وہ ٹہلتے ہوئے مزے سے بول رہا تھا۔۔
تمھیں اگر یہ سب کرنا ہی ہے تو میرے الیکشن جیتنے تک رک جاؤ اسکے بعد میں تمھیں نہیں روکوں گا۔۔
وہ تیزی سے اسکے پاس آئے اور التجا کرنے لگے۔۔
مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے ڈیڈ کہ آپ ڈر رہے ہیں۔۔
اسکا طنز سیدھا ان کے سینے کے پار ہوا۔۔
بکواس نہیں کرو زلان۔۔ ڈرتا نہیں ہوں میں اور اگر ڈر بھی رہا ہوں تو اپنی منزل کے اتنے قریب پہنچنے کے بعد اسکو کھونے کا ڈر ہے مجھے۔۔۔
وہ بری طرح بھڑکنے لگے جس پر اسنے ایک بار پھر قہقہہ لگایا جو اس خاموشی میں گونج اٹھا۔۔۔
آپ ابھی سے ڈر رہے ہیں ڈیڈ۔۔
ابھی تو آپ نے اس گیم کا فرسٹ لیول بھی نہیں دیکھا۔۔
زرا اپنے دل کو مظبوط بنائیں ابھی تو آپ نے بہت کچھ دیکھنا ہے۔۔
وہ بے حد ڈھیٹ انسان تھا۔۔
اور جہاں تک ڈر کی بات ہے تو آپکو ڈر کرسی کے چھن جانے کا ہے جو ہر سیاستدان کو ہوتا ہے۔۔
وہ بھویں چھڑھا کر بولتا ہوا انکے قریب آیا۔۔
جب کے وہ غصے اور نفرت کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ اسے گھور رہے تھے۔۔
So dad just relax and enjoy the game۔۔۔
اس نے آخری جملے انکے کان میں بہت آہستگی سے بولے جو انکے روم روم میں اتر گئے۔۔
صاحب کافی۔۔
ہاتھ میں کافی کا مگ پکڑے ملازم ان کے پاس آیا اور انہوں نے وہ مگ اٹھا کر پوری قوت کے ساتھ سنگِ مرمر کے فرش پر دے مارا جو موقع پر ہی چورا چور ہوگیا۔۔
زلان جا چکا تھا لیکن وہ اپنا غصہ ملازم اور کافی مگ پر اتار رہے تھے۔۔
کھڑے کھڑے میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو۔۔۔۔ دفع ہوجاؤ یہاں سے۔۔
وہ بری طرح ملازم پر گرجے جس پر وہ سہم کر اندر چلا گیا۔۔
____________________________________
وہ ٹیرس کے ایک طرف چیئر پر بیٹھی آسمان کے نیچے نئ زندگی کے خواب سجانے میں مصروف تھی تارے بھی آج معمول سے زیادہ روشن نظر آرہے تھے،
روشنی ان ستاروں میں نہیں تھی روشنی تو اسکی آنکھوں میں تھی جو ہر چیز کو روشن بنا رہی تھی۔۔
جب انسان خوش ہوتا ہے تو دل کے ساتھ جسم بھی روشن ہوجاتا ہے اور جب خوشی حقیقی ہو تو یہ روشنی روح تک کو روشن کررہی ہوتی ہے۔۔
وہ خوابوں خیالوں کی دنیا میں مگن تھی جب اسکو اسکے موبائل کی رنگ ٹون نے جگایا۔۔
اسنے فوراً موبائل اٹھایا اور اسکرین پر زمان کے جگمگاتے نمبر نے اسے مسکرانے پر مجبور کردیا تھا۔۔
اسلام و علیکم۔۔۔ اسنے کال پک کرتے ہی کہا۔۔
وعلیکم اسلام جناب، کیسی ہیں آپ؟؟ زمان نے بھی پرجوش انداز میں سلام کا جواب دیا۔۔
وہ اس وقت اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑا باہر کا نظارہ کر رہا تھا۔۔
اب میں خود اپنی تعریف کروں تو اچھا لگے گا کیا، تمھیں تو پتا ہے نہ میں بہت اچھی ہوں۔۔
اسنے اتراکر کہا۔۔
اووہ ہاں وہ تو مجھے پتا ہے خیر میں نے اسلیے کال کی ہے کہ تمھیں یاد دلادوں کہ تمھیں مجھے تحفہ دینا ہے۔۔
تحفہ۔۔ کونسا تحفہ؟؟
زمان کی بات پر وہ چونکی۔۔
بھئ کل ہمارا نکاح ہے تو تم اپنے شوہر کو گفٹ نہیں دوگی کیا؟؟
گفٹ؟؟ میں نکاح میں آرہی ہوں نہ بس وہی بہت بڑا گفٹ ہے، اور تم تو بہت خوش نصیب ہو جو میں تم سے نکاح کر رہی ہوں۔۔
ازلفہ آج خاصے اچھے موڈ میں تھی۔۔
اوووہ۔۔۔
تم نکاح کر رہی ہو کوئ پرائم منسٹر کی بیٹی نہیں جو آنا ہی گفٹ ہوگیا۔۔
پرائم منسٹر کی بیٹی نہیں ہوں مگر پرائم منسٹر سے کم بھی نہیں ہوں میں۔۔ وہ مزید اترانے لگی۔۔
یار کیا ہوجائے گا اگر 400 روپے خرچ کردوگی مجھ پر؟؟
وہ اب مظلوم بننے پر مجبور تھا۔۔
400 روپے والی صورت نہیں ہے نہ تمھاری، تم پر تو میں 4کڑوڑ خرچ کردوں مگر کیا کروں اتنے پیسے نہیں ہیں نہ میرے پاس۔۔
وہ اپنی ہنسی کو کنٹرول کر کے بیٹھی تھی مگر زمان کی ہنسی کنٹرول نہ ہوسکی۔۔
ہاہاہا۔۔ تم مل جاؤ مجھے پھر بتاتا ہوں بہت بڑی فلم ہو تم۔۔
اچھا۔۔ اور یہ فلم ریلیز کب ہورہی ہے؟؟ اسنے تھوڑی پر انگلی ٹکا کر پوچھا۔۔
ہممم بہت جلد۔۔ اسنے کہا۔۔
ایک بات کہوں ازلفہ؟؟ اسکی آواز دھیمی ہوگئ۔۔
ہاں کہو۔۔
یاد ہے تمھارا وہ ٹِشو جو ایک سال پہلے تم نے مجھے دیا تھا میں نے مانگا تھا تم سے۔۔
وہ اسے ماضی میں لے جا رہا تھا۔۔
ٹشو۔۔۔ ایک سال پہلے۔۔
ہمم یاد نہیں آرہا مجھے۔۔
وہ سر کجھانے لگی۔۔
یاد کرو ازلفہ اس دن اچانک ہڑتال ہوگئ تھی اور تم یونیورسٹی میں پھنس گئ تھی پھر میم امسہ کے کہنے پر میں تمھیں لینے آیا تھا یونیورسٹی۔۔
اسنے اسکے سامنے ماضی کا نقشہ کھینچا۔۔
ہاں ہاں یاد آیا اس دن بہت گرمی بھی تھی اور ہاں میں ٹشو سے اپنا منہ صاف کر رہی تھی تو تم نے مجھ سے ٹشو مانگا تھا۔۔ اسے سب یاد آگیا۔۔
ہاں بلکل میں نے ٹشو مانگا تھا تم سے تم اس دن میری کار میں بیٹھتے ہوئے عجیب و غریب شکلیں بھی بنا رہی تھیں۔۔
وہ پھر مسخری کر رہا تھا۔۔
ہاہاہا۔ ہاں اور اس دن میں نے تمھیں ٹشو بھی یہ سوچ کر دیا تھا کہ کتنا کنجوس ہے ٹشو بھی کسی کا جھوٹا مانگ رہا ہے۔۔
ہاہاہا اب میں آج بتاتا ہوں تمھیں کہ میں نے ٹشو کیوں مانگا تھا۔۔
اسنے کہا۔۔۔
ہاں بتاؤ۔۔۔!
پتہ ہے میں نے وہ ٹشو اسی دن ٹرانسپیرینٹ بیگ میں تہہ کر کے رکھ دیا تھا آج تک وہ میرے پاس ہے۔۔
میں اسے اپنے والٹ میں رکھتا ہوں۔۔
وہ محبت بھرے لہجے میں بولا تو ازلفہ کی آنکھیں نم ہوگئیں۔۔
تم اس قدر چاہتے ہو مجھے؟؟ اسے اسکے منہ سے محبت کا اقرار بار بار سننا اچھا لگتا تھا ۔۔
ہاں بے انتہا چاہتا ہوں میں تمھیں۔۔
اگر اس محبت میں کمی آگئ تو؟؟ وہ بے قرار ہوئ۔۔
محبت میں کمی نہیں آتی محبت یا تو ہوتی ہے یا تو نہیں ہوتی، انسان محبت میں خود کو دھوکا دیتا ہے مگر محبت کرنا نہیں چھوڑتا۔۔
زمان کے جملے اسکے دل میں اتر رہے تھے۔۔
اور اگر کبھی میں نے تم سے کہا کے مجھے تم سے محبت نہیں رہی،بلکہ نفرت ہوگئ ہے تو؟؟ اسکی آنکھوں میں آنسوں تھے۔۔
تو میں اس ازلفہ سے باتیں کرلوں گا جو میرے دل میں ہے۔۔
تمھیں مجھ سے نفرت ہوسکتی ہے مگر اس ازلفہ کو نہیں جسے میں نے پیار کیا ہے، اور وہ ازلفہ تمھاری روح ہے جسے تم بھی نہیں جانتی۔۔
اور روح کسی سے نفرت نہیں کرسکتی۔۔ زمان کے الفاظ اسکی محبت کی سچائ کی دلیل تھے جو ازلفہ کے دل و دماغ پر چھا رہے تھے۔۔
وہ کھو گئ تھی اسکی محبت کے سمندر کی اس گہرائ میں اترگئ تھی جہاں محبت ہی محبت تھی۔۔
زمان بابو۔۔ آپکو صاحب نیچے بلا رہے ہیں۔۔ کمرے کے دروازے کے ساتھ کھڑے ملازم نے کہا۔۔
اچھا میں آتا ہوں۔۔ اسنے جواب دیا تو ملازم چلا گیا۔۔
اچھا ازلفہ میں تم سے بعد میں بات کرتا ہوں پاپا بلارہے ہیں۔۔
اسنے کہا۔۔
ٹھیک ہے اللہ حافظ۔۔
دوسری طرف سے لائن کٹ گئ تھی مگر ازلفہ اب تک خیالی دنیا سے باہر نہیں آئ تھی۔۔
_____________________________________
جی پاپا آپ نے مجھے بلایا۔۔
اسنے لاؤنج میں بیٹھے اشرف صاحب سے کہا۔۔
ہاں آؤ بیٹا بیٹھو مجھے تم سے زرا ضروری بات کرنی ہے۔۔
مسٹر اشرف نے سگریٹ ایش ٹرے میں بجھائ اور اس سے مخاطب ہوئے وہ بھی اپنی جگہ صوفے پر ان کے روبرو بیٹھ چکا تھا۔۔
دیکھو بیٹا ایک بہت بڑی بزنس ڈیل کرنی ہے جس کے لیے مجھے دبئ جانا ہوگا۔۔
اور تم تو جانتے ہی ہو کہ میں اپنی طبیعت کی وجہ سے سفر نہیں کرسکتا تو میں چاہتا ہوں کہ اس ڈیل کے لیے تم دبئ جاؤ۔۔
وہ آہستہ آہستہ اسے بتارہے تھے۔۔
مگر پاپا کچھ ماہ میں مجھے ٹریننگ پر جانا ہے۔۔ وہ پریشان ہوگیا تھا۔۔
ہاں میں جانتا ہوں مگر تم انشااللہ ٹریننگ شروع ہونے تک دبئ سے واپس بھی آجاؤ گے۔۔
لیکن پاپا آپ اپنے مینجر کو کیوں نہیں بھیجتے؟؟
اسنے مینجر کی ٹانگ پھسانی چاہی۔۔
یہی تو پرابلم ہے کہ مینجر نہیں جاسکتا کیونکہ یہ ڈیل میری لائف کی سب سے بڑی ڈیل ہے اور اسکو صرف تم ہی ہینڈل کرسکتے ہو۔۔
انکے پاس کوئ دوسرا آپشن نہیں تھا جبکہ وہ خود بھی کوئ طریقہ نہیں نکال پارہا تھا۔۔
کتنا وقت لگے گا مجھے وہاں پر؟؟ وہ ہتھیار ڈالنے ہی والا تھا۔۔
تمھیں ڈیل فائنل کرنی ہے اور ساتھ ساتھ انکو پورا سیٹ اپ بھی سمجھانا ہوگا تو کم سے کم دو مہینے لگ جائیں گے۔۔ انہوں نے پورا حساب لگالیا
جبکہ وہ آنکھیں میچ کر رہ گیا۔۔
ٹھیک ہے پاپا میں چلا جاؤں گا۔۔
اس سے اچھی بات کیا ہوگی۔۔ پھر دو تین دن میں تمھیں نکلنا ہوگا دبئ کے ائیرپورٹ پر تمھیں مسٹر فیبیان فیکرس ملیں گے جو تمھیں وہاں سے پک کریں گے باقی ڈیٹیلز میں تمھیں کل تک دے دوں گا۔۔
وہ کہتے ہوئے کھڑے ہوگئے جب کہ وہ ازلفہ سے دوری کا سوگ منانے میں مصروف ہوگیا۔۔