رات کا ابتدائی پہر تھا موسم بھی ٹھنڈا ہورہا تھا اس کے والدین ازلفہ کے گھر برجمان تھے،
آج اسکی زندگی کی سب سے بڑی خواہش جو پوری ہونے والی تھی آخر اسنے ازلفہ کے دل میں اپنی محبت کا احساس پیدا کروا ہی لیا تھا۔۔
جب محبت پاک و صاف ہو تو اللہ دلوں کو ملا ہی دیتا ہے۔۔
ارے بھابھی آپ لوگ کچھ لیں نہ۔۔ امسہ نے بسکٹ کی پلیٹ اپنے سامنے بیٹھے مسٹر اشرف اور انکی زوجہ مس صوفیا کی طرف بڑھائی۔۔
نہیں بھابھی پہلے ہم مدعے پر آتے ہیں پھر یہ کھانا پینا تو انشااللہ چلتا ہی رہے گا۔۔ صوفیا نے کہا۔۔
جی یہ تو آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔۔ امسہ نے بھی انکی بات سے اتفاق کرتے ہوئے پلیٹ واپس ٹیبل پر رکھ دی۔۔
جی تو بھابھی آپ تو جانتی ہی ہیں زمان تین ماہ بعد آرمی ٹریننگ کہ لیے شہر سے باہر جارہا ہے۔۔
تو ہم یہ چاہ رہے تھے کہ زمان کے جانے سے پہلے ازلفہ اور زمان کا نکاح ہوجائے پھر رخصتی ہم زمان کی واپسی پر لے لیں گے۔۔
مس صوفیا نے اپنی خواہش کا اظہار کیا جس پر امسہ کے دل سے ایک بھاری سل اتر گئ۔۔
وہ تو یہی چاہتی تھیں کہ جلد از جلد ازلفہ اپنے گھر کی ہوجائے اس سے پہلے زلان ملک ان دونوں ماں بیٹیوں کے لیے کوئ مصیبت کھڑی کرے۔۔
جی بھابھی جیسا آپ مناسب سمجھیں مجھے کوئ اعتراض نہیں ہے۔۔
امسہ نے بھی ہامی بھرلی۔۔
تو پھر طے رہا بھابھی اگلے اتوار کو ہم ازلفہ اور زمان کا نکاح کردیں گے آپکو کوئی اعتراض تو نہیں ہے؟؟
مسٹر اشرف نے پوچھا۔۔
نہیں نہیں مجھے کوئ اعتراض نہیں اب بس آپ لوگ منہ میٹھا کریں۔۔
ایک دفعہ پھر ان لوگوں کہ درمیان خوشی کا ماحول بن چکا تھا۔۔
جہاں یہ لوگ ایک دوسرے کا منہ میٹھا کروانے میں مصروف تھے وہیں ازلفہ اپنے کمرے میں لیٹی خوشی اور غم کی ملی جلی کیفیات کہ درمیان پھنسی ہوئ تھی۔۔
کمرے میں مکمل سکوت طاری تھا مگر اس کے اندر کا شور اس سکوت میں خلل پیدا کررہا تھا وہ خاموشی میں بھی شور محسوس کرسکتی تھی۔۔
بیڈ پر لیٹا مستقل کمرے کی چھت کو گھورنے والا یہ وجود نئ نئ فکرات کا شکار ہورہا تھا۔۔
پتہ نہیں کیسے۔۔۔
کیسے۔۔۔۔۔
نہ جانے کیسے اچانک کسی کو کسی سے محبت ہوجاتی ہے۔۔
کیا مجھے معلوم ہے کہ محبت کیا ہوتی ہے؟؟
وہ خود سے سوال کر رہی تھی۔۔
نہیں ازلفہ تم نے تو ابھی قدم رکھا ہے محبت کی کائنات میں ابھی تو تمھیں اس کائنات میں موجود بہت سی دنیاؤں کہ بارے میں جاننا ہے۔۔۔۔
ہاں محبت ایک لفظ لگتا ہے مگر اس لفظ میں ایک پوری کائنات چھپی ہے اور اس کائنات میں ہزاروں دنیائیں۔۔
ہر دنیا ایک احساس ہے ایک جزبہ ہے۔۔۔
اور ہر احساس کہ ساتھ ایک نیا وجود جنم لیتا ہے جس وجود کا نام امید ہے۔۔
نہ جانے روز اس محبت کی کائنات میں کتنی احساسات کی دنیائیں دم توڑتی اور جنم لیتی ہونگی۔۔
اور نہ جانے کتنی دنیاؤں کے دم توڑنے کہ ساتھ ہی امیدوں کو موت آتی ہوگی اور کتنی ہی دنیاؤں کے جنم لیتے ہی امیدیں جنم لیتی ہونگی۔۔۔
اس نے ایک محبت لفظ کی پوری تشریح کردی تھی وہ تشریح جو شاید کوئ کرنہ سکا ہو وہ بہت گہرائ میں سوچتی تھی سوچ کہ اس سمندر میں ڈوب کر جوابات کھوجتی تھی جس سمندر کی گہرائی کو ماپنا ناممکن ہو مگر سوچتی تو تھی۔۔
کیا مجھے زمان سکندر سے محبت ہوگئ ہے؟؟
اسنے خود سے ایک بار پھر سوال کیا۔۔ ہاں شاید،۔۔۔۔
نہیں پکّا ہوگئ ہے۔۔
اور دل سے آواز آتے ہی اسکے چہرے پر مسکراہٹ کہ کئ رنگ بکھرگئے۔۔
محبت ہوتی ہی مسکراہٹ ہے ایک ایسی مسکراہٹ جو دل کی گہرائ سے نکلتی ہے جو بلکل خالص ہوتی ہے جس میں کوئ جھوٹی مسکراہٹ کی ملاوٹ نہیں ہوتی۔۔۔
وہ ان خوش قسمت لوگوں میں سے تھی جن کی محبت محرم ہو کر خالص ہوجاتی ہے۔۔
جن کی محبت میں کوئ شک و شبہ کی گنجائش نہ ہو جو محبت “قلعہ بند ہونا” جیسے پاک رشتے کی نظر ہوجائے۔۔
_____________________________________
وہ اپنے کمرے میں شیشے کے سامنے کھڑا اپنے بدن کو پرفیوم کی خوشبو سے معطر کررہاتھا۔۔
بلیک جینز اور وائٹ شرٹ کے ساتھ بلیک کوٹ اس پر بہت جچتا تھا۔۔۔
جس طرح اس کی شخصیت کسی فلم کے ہیرو سے کم نہ تھی اسی طرح اس کی فطرت بھی کسی وِلن سے کم نہ تھی۔۔
فرینچ بئیر، کمان سی آئیبرو اسکے چہرے کو مزید مغرور بنادیتی تھیں۔۔
گل خان۔۔۔ گل خان۔۔
اسنے پرفیوم ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ کر رْخ دروازے کی طرف موڑا۔۔
جی چھوٹے صاحب۔۔ دروازے کی چوکھٹ پر جن کی طرح گردن جھکائے ملازم نمودار ہوا۔۔
یہ پھولوں کی ٹوکریاں گاڑی میں رکھواؤ اور ڈرائیور کو بولو گاڑی نکالے۔۔
اس نے بیڈ پر رکھے گلاب کے پھولوں کی ٹوکریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حکم دیا جس پر ملازم حکم کی تعمیل میں مصروف ہوگیا۔۔
اور ہاں تم کچھ پھلوں کی باسکٹز بھی تیار کرکے گاڑی میں رکھوادو۔۔
اسنے پھولوں کی ٹوکریاں اٹھاتے ملازم کو ایک اور حکم دیا اور خود واپس ڈریسنگ ٹیبل سے رسٹ واچ اْٹھا کر کلائ پر باندھنے لگا۔۔۔
یہ اتنا سارا سامان کہاں لے کر جارہا ہو؟ شاہ زیب ملک جنہوں نے ابھی گھر کے اندر قدم رکھا تھا اپنی گاڑی سے اتر کر ملازم سے سوال کرنے لگے۔۔
جی بڑے صاحب یہ چھوٹے صاحب کا حکم ہے۔۔
ملازم نے سامان گاڑی میں رکھتے ہوئے کہا۔۔
کہاں ہیں یہ تمھارے چھوٹے مالک؟؟ شاہ زیب ملک نے کڑکتی ہوئی آواز میں سوال کیا۔۔
جی وہ اوپر۔۔۔۔۔!
ابھی ملازم جواب دے ہی رہا تھا کہ اسکی پشت سے آواز آئ۔۔
یہاں ہے آپکا صاحبزادہ ڈیڈ۔۔
یہ زلان ملک کی آواز تھی۔۔
کہاں جا رہے ہو تم؟؟۔۔
آپکی بہو کو لینے۔۔
وہ لاپرواہی سے کہتا ہوا گاڑی کے دروازے کی جانب بڑھا۔۔
یعنی میرا شک درست تھا، تم اس عورت کا پیچھا نہیں چھوڑوگے؟؟
انکی آنکھیں غصے سے سرخ ہونے لگیں۔۔
یو نو ڈیڈ زلان ملک اپنا فیصلہ نہیں بدلتا۔۔۔
اس کے لہجے میں تکبر صاف واضح ہورہا تھا۔۔
تم کہیں نہیں جارہے ہو سمجھے۔۔
انہوں نے زوردار آواز میں حکم دیا مگر وہ کسی کا حکم مان لے ایسا ممکن کب تھا۔۔
مجھے کوئ روک نہیں سکتا۔۔ وہ بولتا ہوا گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا اور ڈرائیور نے گاڑی اسٹارٹ کردی۔۔
زلان۔۔۔زلان۔۔۔
وہ چیختے رہے مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا اور گاڑی فرّاٹے بھرتی ہوئی نکل گئ۔۔
اس لڑکے کا اب مجھے کچھ کرنا ہی ہوگا ورنہ یہ مجھے روڈ پر لا کر ہی دم لےگا۔۔ وہ مٹھیاں بھینچ کر بڑبڑاتے ہی رہ گئے۔۔
دولت کے نشے میں انسان اس قدر مغرور ہوجاتا ہے کہ اسے خود سے زیادہ طاقتور کوئ شئے نہیں لگتی اور یہی خوش فہمی اسے آسمان سے زمین پر پٹخنے کا کام کرتی ہے۔۔
زلان ملک بھی دولت کے نشے میں ڈوبا ہوا شخص تھا جو ایک سیاستدان کا بیٹا ہوکر اپنے ہی باپ سے سیاست کررہا تھا،
مگر اسکے عروج کو بھی زوال آنا ہی تھا اسکے زوال کا بھی ایک دن متعین تھا۔۔
______________________________________
وہ کچھ ہی دیر میں مس امسہ کے گھر پہنچ چکا تھا۔۔
ڈور بیل کی آواز پر ملازم نے دروازہ کھولا۔۔
وہ گھر کے مالک کی طرح دروازہ کھلتے ہی ڈھڑلّے سے گھر کے اندر داخل ہوگیا۔۔۔
اس وقت ان کے گھر میں عجیب سا سنّاٹا تھا جو زلان کو چبھ رہا تھا اسکو خاموشی پسند تھی مگر سنّاٹا نہیں۔۔
جاؤ جا کر خبر دو اپنی بیگم صاحبہ کو کہ زلان ملک آئے ہیں۔۔
اس نے بھویں چڑھا کر ملازم سے کہا۔۔
جس پر ملازم نے فوراً امسہ کے کمرے کا رْخ کیا مگر امسہ سے پہلے یہاں ازلفہ پہنچ چکی تھی۔۔
اسکے چہرے پر زلان ملک کو دیکھتے ہی ناگواری کے تاثرات ابھرے۔۔
تم؟؟
یہاں؟؟۔۔۔
کس لیے آئے ہو یہاں تم؟؟ ازلفہ نے آتے ہی سوال کیا جس پر زلان نے مکمل خاموشی اختیار کی۔۔
ابھی وہ اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے اسکو گھور ہی رہی تھی کہ امسہ آگئیں۔۔
آئیے آئیے مس امسہ۔۔
آپکے لیے ہی تو آئے ہیں ہم یہ پھولوں کا نظرانہ لے کر۔۔
اسنے اپنے پیچھے کھڑے ملازموں کے ہاتھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔
یہ کیا تماشہ ہے زلان؟؟ انکا چہرہ سرخ ہوگیا۔۔
آپ ہمیں بیٹھنے کا نہیں بولیں گی؟؟ چلیں ہم خود ہی بیٹھ جاتے ہیں۔۔ وہ پوری ڈھٹائ سے انکے سوال کو اگنور کرتے ہوئے لاؤنج میں صوفے کی جانب بڑھا۔۔
یہ تمھارے باپ کا گھر نہیں ہے مسٹر زلان جو جب دل چاہا منہ اْٹھا کر آجاتے ہو۔۔ ازلفہ اس پر چلاّنے لگی جس کا زلان پر کوئ اثر نہیں ہوا وہ گردن گھما کر اپنے ارد گرد کا جائزہ لے رہا تھا۔۔
چاہتے کیا ہو تم آخر ہم سے؟؟ ازلفہ پھر چلّائ۔۔
مس امسہ کو۔۔ اس نے عام سے لہجے میں خاص سا جواب دیا۔۔۔
جس پر وہ دانت پیس کر رہ گئ۔۔
یہ نظرانہ میں آپکے لیے لایا ہوں اور ایک اہم بات سے آگاہ کردوں کہ میں یہاں شادی کی ڈیٹ فکس کرنے آیا ہوں۔۔
وہ مسکراتا ہوا ایسے بول رہا تھا جیسے موسم کا حال سنا رہا ہو اسکے نزدیک ہر اہم بات عام سی تھی۔۔
دیکھو تم اپنی۔۔۔ ازلفہ انگلی کا اشارہ کرتی ہوئ آگے بڑھی تو اسنے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا۔۔
میں نے اپنی بات ابھی مکمل نہیں کی میڈم۔۔
وہ ازلفہ کو میڈم کہتا تو اسکے تن بدن میں آگ لگ جاتی تھی۔۔
ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا مس امسہ۔۔ اس ماہ کی ۱۹ تاریخ کو آپ مسز زلان ملک بننے کے لیے تیار ہوجائیں۔۔
۱۹ کی شام کو میں آؤنگا اور آپکو اس شہر کے سب سے بڑے پارلر سے ریڈی کرواؤنگا پھر ہم وہاں سے بادشاہی مسجد جائیں گے جہاں ہمارا نکاح میڈیا کہ سامنے ہوگا جو پورا ملک لائیو دیکھے گا۔۔
وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے اپنے مخصوص انداز میں بول رہا تھا۔۔
ہماری طرف سے انکار ہے انکار۔۔
اور تم ہمارے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتے ہو مسٹر۔۔
ازلفہ ایک بار پھر بھڑکی۔۔
ہاہاہاہا۔۔۔ میں کچھ بھی کرسکتا ہوں۔۔اس نے ایک قہقہہ لگایا۔۔
دیکھو زلان میں تمھارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں ہمیں بخش دو میں تم سے شادی نہیں کرسکتی۔۔
امسہ بے بسی سے اسکے آگے ہاتھ جوڑنے لگیں۔۔
میں نے آپ سے آپکی رائے نہیں مانگی مس۔۔
میں نے اپنی مرضی آپکو بتائ ہے۔۔ اسنے کہا۔۔
وہ اس قدر بے حس تھا کہ اسے کسی کے دکھ کا کوئ احساس نہیں تھا۔۔
ہم کوئ کٹھ پتلیاں نہیں ہیں جو تمھارے اشاروں پر ناچے گیں۔۔
میری ممّا تم سے شادی نہیں کریں گی سمجھے تم۔۔۔
ازلفہ نے اپنا فیصلہ سنایا۔۔
دیکھو میڈم اگر سیدھی طرح نہیں مانو گی تو بلاوجہ مجھے ایسا قدم اٹھانا پڑیگا جو تم لوگوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگا۔۔
مثال کے طور پر کڈنیپنگ۔۔۔
زلان کے خطرناک ارادوں نے ایک لمہے کہ لیے ان دونوں کی سانسیں روک لیں۔۔
دیکھو اگر تم لوگ آرام سے مان جاؤگے تو مسلئہ نہیں ہوگا ورنہ میں اغواہ کروا کر بھی اپنا مقصد پورا کرسکتا ہوں۔۔
اور اگر تم لوگ یہ سمجھ رہے ہو کہ پولیس اور میڈیا تمھاری مدد کو آئے گی۔۔۔
تو بلکل ٹھیک سمجھ رہے ہو مدد تو ہوجائے گی مگر تل تل مرنا پڑیگا روز لمہا لمہا پھر سوچو زرا۔۔۔
معاشرے کے لیے ایک گالی اور میڈیا والوں کے لیے ایک چٹپٹی خبر بن کر رہ جاؤگی دونوں مدر، ڈاٹر۔۔۔
اسکی ان باتوں نے ازلفہ کی ہمت بھی توڑ کر رکھ دی تھی وہ جو ابھی بہادری سے اسکا سامنا کیے ہوئی تھی ایک دم سے گھبراگئ۔۔
ٹھیک ہے۔۔ میں تیار ہوں زلان ملک مجھے تمھارا فیصلہ منظور ہے۔۔کچھ دیر کی خاموشی کہ بعد امسہ نے آنکھوں سے بہتے ہوئے پانی کو صاف کرتے ہوئے کہا۔۔
جس پر زلان کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ ابھری۔۔
یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ ممّا؟؟ ازلفہ نے انکو بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔۔
تم چپ رہو ازلفہ میں جو کہہ رہی ہوں وہی ٹھیک ہے۔۔
انہوں نے اسکو گھورتے ہوئے کہا۔۔
ہممم۔۔۔ یہ کی نہ عقلمندی کی بات۔۔
مجھے آپ سے یہی امید تھی مس امسہ۔۔
اسنے صوفے سے اْٹھتے ہوئے کہا۔۔
مگر ممّا آپ۔۔۔ ازلفہ احتجاج کرنا چاہتی تھی مگر امسہ اسے ایسا کرنے سے مستقل روک رہی تھیں۔۔
ٹھیک ہے تو آج سے ٹھیک ۲۱ دن بعد میں پھر سے آؤنگا آپکو اپنی شریک ِحیات بنانے۔۔
اسنے کالر ٹھیک کیا اور ترچھی نظریں ازلفہ پر ڈالتا ہوا دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔۔
وہ جا رہا تھا۔۔۔
انکے گھر میں طوفان کھڑا کر کہ جارہا تھا۔۔
یہ کیا کردیا ممّا آپنے؟؟
آپ ایسا کیسے کرسکتی ہیں؟؟ وہ انکو جھنجھوڑ رہی تھی۔۔
میں نے یہ سب تمھارے لیے کیا ہے ازلفہ ایک دفعہ تمھارا اور زمان کا نکاح ہوجائے پھر مجھے کوئ پرواہ نہیں ہے،
اگر میں ہامی نہیں بھرتی تو وہ مصیبت کا پہاڑ ہمارے سروں پر سوار رہتا۔۔
تم فکر نہیں کرو فلہال میں نے اس مصیبت کو ٹالنے کہ لیے ہامی بھری ہے۔۔
ایک دفعہ تمھارا نکاح ہوجائے پھر جو ہوگا دیکھا جائے گا۔۔
وہ دونوں ہاتھوں سے اسکو تھام کر تسلّی دے رہی تھیں۔۔
ممّا آپ بھی فکر نہیں کریں سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔ اسنے بھی ان کے دل کو تسلّی دی۔۔