(Last Updated On: )
میں اشک بار سہی، جسم بے قرار سہی
کہ پا کے تجھ کو قیامت کا انتظار سہی
زباں ہے چپ تو نظر بولتی جناب کی ہے
چلو نظر سے ہے اقرار تو یہ پیار سہی
نظر نظر سے ملا جان میری تجھ پہ فدا
نظر کے تِیر مِرے دل کے آر پار سہی
تِرا تو پیار میں کردار حاکموں کی طرح
مِرا تو پیار میں کردار اشک بار سہی
خدا کرے کہ تِرے پاس کوئی غم ہی نہ ہو
مِرا ہے کیا تُو مجھے چھوڑ ، بے قرار سہی
لکھے ہیں ترے قصیدے غزل میں یاد کرو
الگ وہ بات یہ عاقل کا کاروبار سہی