(Last Updated On: )
نگاہِ یار میں پانی کی طرح ہوتے ہیں
کبھی جو آنکھ سے آنسو مِرے برستے ہیں
مِری اُداسی پہ حیران اس قدر کیوں ہو
اُداس لوگ تو اکثر اُداس رہتے ہیں
مِری وفا کی وکالت کریں گے کل کو وہ
جو بے وفا مجھے محفل میں آج کہتے ہیں
وہ لوگ بھی تو ہیں ظالم نفوس پر اپنے
جو ظلم دیکھتے ہیں اور اس کو سہتے ہیں
کہ ہر قدم پہ فریبی یہاں ملے عاقل
کہ آستینوں میں ڈسنے کو سانپ رہتے ہیں