(Last Updated On: )
کُریدتے ہوئے ہر زخم کو جگاتا رہا
وہ آشک بار ہو گیا ، مجھے رُلاتا رہا
بنی جو دل میں تھی تصویر ، کیسے خاک ہوئی
قدم قدم پہ زمانے کا غم اٹھاتا رہا
بڑا تھا ناز یہ دل سخت جان ہے مرا
نظر نظر سے لڑی سینہ تھر تھراتا رہا
یہا مفاد کی خاطر ضمیر بکتے رہیں
قدم قدم زمانہ یہی
یہاں مفاد کی خاطر ضمیر بکتے رہیں
قدم قدم پہ زمانہ یہی بتاتا رہا
تھا جس کا وعدہ کہ بستی بسانے آیا ہوں
وہ شخص اپنے روئیے سے شہر ڈھاتا رہا
قدم قدم پہ جو استاد یہ زمانہ رہا
ہے کون کیا ہے کہاں یہ مجھے بتاتا رہا