آجکل کے مشینی دور نے آج کے انسان کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ نئے زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضے ہیں ۔ زندگی اتنی بے سکون ہوگئی ہے کہ انسان مصنوعی طریقوں سے اپنے آپ کو سکون پہنچانے کی کوشش میں مصروف ہے اگر دیکھا جائے تو آج کے دور کا ہر انسان اپنے آپ میں غرق ہے ۔ آرام ،سادگی اور بے فکری کا زمانہ گزر گیا ہر شخص ایک مشین کی طرح دن رات کام کررہا ہے یہاں تک کہ اگر اس سے کوئی پوچھے دو+دو کتنے ہوتے ہیں تو اس کا جواب ہوگا ۔ چار روٹیاں ! پیٹ کے چکر نے ہر انسان کو اپنے آپ سے بیگانہ کر دیاہے اگلے دن اُس نے جو کچھ کرنا ہوتا ہے وہ رات کو نیند میں سوچتا ہے کیونکہ صبح ہوتے ہی اس نے اپنے کام میں جُڑ جانا ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ آج کا ایک بے کار بندہ بھی ایک مسلسل نہ ختم ہونے والی سوچ ہر وقت اُسے مصروف رکھتی ہے ۔ معاشی اور معاشرتی مانگ،ترقی کی دوڑ،زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی دھن،ایک ہی رات میں امیر بننے کے خواب،غربت کے لگے ہوئے زنگ آلود کپڑے اُتارنے کاعزم،پیدا ہونے والے بچے کی پرورش،سکول جانے والے بچوں کے اخراجات،جوان بیٹی کی شادی،روٹی کپڑا مکان اور معیار کے اس چکر نے آج کے انسان کو اتنا پریشان کررکھا ہے کہ موٹی موٹی کتابیں پڑھنے کے لئے اس کے پاس پچیسواں گھنٹہ کہیں بھی نہیں ہے ۔ اس کی روحانی تشنگی جتنی بھی بڑھ جائے وہ کتاب کو ہاتھ لگانے کے لئے تیار نہیں ۔ رہ گئی آج کی نوجوان نسل تو اسے پڑھائی کے بعد سوشل میڈیا نے اتنا مصروف کر دیاہے کہ وہ دن بدن کتاب سے دور ہوتی جا رہی ہے ۔ ایسے حالات میں ادب انسانی زندگی سے اتنا دور ہورہا ہے کہ لگتا ہے اگلے چند سالوں میں کتابیں لائبریری کے بجائے عجائب گھر میں رکھنی پڑیں گی ۔
ان سب حالات کے باوجود کچھ سر پھِرے ایسے ہیں جو متواتر ادب تخلیق کر رہے ہیں اور قلم کے جہاد کے ذریعے معاشرے کو ادب سے جوڑنے کی ناتمام کوشش کر رہے ہیں ۔ ادب کی کوئی بھی صنف ہو،ادیب معاشرے کی صاف ستھری روایتوں کا نمائندہ ہوتا ہے لہذا اس کی سوچیں مثبت اور سچی ہوتی ہیں ۔ وہ جب معاشرتی برائیوں کو اپنی باریک بینی نظروں سے جانچتا ہے تو انہیں اپنے خیالات کی بھٹی میں سے گاڑھ کر نکالتا ہے اور ان کی تطہیر کے لئے اپنے الفاظ میں ڈال کر ایسے موتی نکالتاہے جو انسان کے ماتھے پر تاج بن کرچمکتے ہیں ا ور وہ ساری کالک اتار لیتا ہے جو انسان کو انسانیت اور اخلاق سے عاری بنادیتی ہے لہذا ادبی ،شاعر اور دانشور کے ہر قول میں کوئی نہ کوئی اصلاح کا پہلو ضرور ہوتا ہے ۔
ہر انسان کی زندگی ایک لمبی کہانی کی طرح ہوتی ہے جس میں دکھ،سکھ،درد و غم،خوشی،محبت،نفرت غرضیکہ کہ ہر قسم کے موڑ آتے ہیں ہر کوئی اپنی کہانی نہیں لکھ سکتا لیکن بعض خوش قسمت ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں اللہ پاک ہاتھ میں قلم تھما کر لکھنے کا قرینہ عطا کر دیتا ہے ۔ اور وہ اپنی زندگی کے تجربات کانچوڑ،کہانی ،افسانے غزل یا نظم کے ذریعے لکھ کر اپنے سننے والوں کی خدمت میں پیش کردیتے ہیں ۔ پڑھنے والے ان کے تجربات و مشاہدات سے بہت کچھ سیکھتے ہیں ۔ ایسے لکھنے والوں میں عاقل عَبیدخیلوی کا نام بھی آتا ہے جن کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں کے شہر عامر سے ہے ان کی دس کتابیں اب تک شاءع ہوچکیں ہیں جن میں پشتو اور اردو کے شعری اور نثری مجموعے کے ساتھ ساتھ تاریخ و تحقیق کی تین کتابیں بھی شامل ہیں ۔ جو بنوں کی تاریخ کے حوالے سے لکھی گئی ہیں اور یہ کتابیں اپنے علاقے اور اپنے لوگوں کے ساتھ ان کی محبت کا واضح ثبوت ہیں ۔ اس وقت ان کی نئی آنے والی کتاب تم کبھی تنہانہیں کا مسودہ میرے پاس ہے جس کا میں نے تفصیل سے مطالعہ کیا ہے ان کی شاعری پڑھ کر سب سے پہلے یہ تاثر ذہن میں ابھرتاہے وہ یہ کہ بنیادی طور پر یہ محبت کے شاعر ہیں اور محبت وہ آفاقی جذبہ ہے جس پر لکھنے بیٹھیں تو بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لفظ محبت گوایک چھوٹا سا لفظ ہے لیکن یہ وہ جذبہ ہے جس کے نتیجے میں یہ کائنات وجود میں آئی ۔ اللہ تبارک و تعالی نے اپنے محبوب حضرت محمدﷺ کے لئے یہ دنیا تخلیق کی ۔ خود بھی ان سے محبت کی اور دنیا کے ہرشے کو ان کسے محبت کرنے کا سلیقہ عطافرمایا ۔ جب انسان کو بنایا تو اس کے خمیر میں بھی بنیادی وصف محبت کا رکھا اس لیے ہماری سب سے پہلے محبت کا مستحق ہمارا خالق ہے اور اس کے بعد وہ ہستی جس نے ہ میں خالق سے روشناس کرایایعنی محبوب کبریا حضرت محمدﷺ کی ہے ۔ وہی ہماری محبت کا سب سے زیادہ مستحق ہیں اور یقیناہر مسلمان اپنی جان و مال اور اولاد ہر ایک چیز سے بڑھ کر آقا دو جہاں ﷺ کی محبت کا دعویدار ہوتا ہے ۔ ان دو محبتوں کے بعد جو سب سے زیادہ ہماری محبت کے مستحق ہیں وہ ہیں ہمارے والدین جن کی اطاعت اور محبت کا حکم اللہ پاک نے دیا ہے ۔ اللہ کی مخلوق سے محبت ،انسانیت سے محبت بھی دراصل اللہ ہی سے محبت کا اظہار ہے اولاد سے محبت ،بہن ،بھائیوں سے محبت،یار دوستوں سے محبت،جانوروں سے محبت،پرندوں سے محبت یہ سب اُس لامتناہی جذبے کا پھیلاو ہے جو ازل سے ہمارے خمیر میں شامل ہے ۔ عاقل عَبیدخیلوی کی شاعری بھی اسی ایک جذبے کے گردگھومتی نظر آتی ہے جس میں جذبات ہیں ،احساسات ہیں ،رنگ ہے خوشبو ہے،ہجر و فراق کے قصے ہیں ۔ من و تو کی کہانیاں ہیں ۔ فطری انداز ہے ان کی شاعری کا نمایا ں انداز ان کی سادگی ہے جو دل میں آیا اسے لفظوں کا روپ دے دیا کوئی مشکل الفاظ ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی ۔ یہ عام فہم زبان کی شاعری ہے عاقل جی کے جذبوں فکر اور احساس کا اظہار ہے جنھوں نے زندگی کے نشیب و فراز کا بغور مطالعہ کیا اور اپنے مشاہدات و تجربات کو شاعری کی صورت دے دی ۔ ان کے زیادہ تر شاعری غمِ جاں کا تسلسل ہے ۔
عاقل عَبید خیلوی کو اس بات پر خراج تحسین پیش کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ایک پٹھان ہوتے ہوئے اردو زبان پر زیادہ فوکس کیا ہے ۔ ان کی دس کتابوں میں چھ کتابیں اردو زبان میں ہیں ۔ اور یوں وہ صوبائی سطح سے نکل کر قومی سطح پر اپنا تشخص قائم کر چکے ہیں ۔ شعرمی مجموعہ تم کبھی تنہا نہیں پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد اور کامیابی کی بہت ساری دعائیں ۔
بشریٰ فرخ
( پرائیڈ آٖ ف پرفارمنس)
چئیر پرسن ، کاروان حوا لٹریری فورم پشاور
خیبر پختونخوا (پاکستان)