مجھے آتے ہی آقا نے اندھیرے میں دھکیل دیا تھا جہاں میرا ساتھی ایک پرانا غلام بھی موجود تھا۔
میں نے کہا، ’’یہاں بہت اندھیرا ہے۔ مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا۔ میرا دم گھٹ رہا ہے۔ میری رگِ جاں میں خوف سرایت کر گیا ہے۔ خدا کے لیے مجھے روشنی میں لے جائو— مجھے روشنی چاہیے — روشنی— روشنی—‘‘
غلام مسکرایا لیکن مجھے اندھیرے میں اس کی مسکراہٹ دکھائی نہیں دی۔
اس نے میرا خوف دور کرنے کے لیے بلند آواز میں قہقہہ لگایا اور بولا، ’’شروع میں مجھے بھی اندھیرے سے بڑا خوف آتا تھا۔ میری آنکھیں کچھ دیکھ نہیں سکتی تھیں ۔ میں ٹھوکر پر ٹھوکر کھاکر گر جاتا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ میں اندھیرے کا عادی ہو گیا— میرا خوف جاتا رہا۔ اب مجھے نہ تو ڈر لگتا ہے، نہ ٹھوکر لگتی ہے اور نہ چوٹ—‘‘
اس نےسگریٹ سلگانے کے لیے ماچس جلائی تو تھوڑی سی روشنی ہوئی جس سے مجھ میں کچھ حوصلہ پیدا ہوا۔ روشنی میں اس کا زرد، ہر طرح کے جذبات سے عاری چہرہ دکھائی دیا۔
اس نے سگریٹ کا ایک لمبا کش حلق میں اتارا اور کہا، ’’تمہیں ایک راز کی بات بتاتا ہوں۔ ابھی مجھے روشنی اچھی نہیں لگتی۔ میری آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔‘‘ اس نے ایک لمحہ توقف کیا، پھر سگریٹ کا ایک اور کش پھیپھڑوں میں اتارا اور کہا، ’’تم بھی اندھیرے کے عادی ہو جائو گے۔ میرا مشورہ ہے کہ تم روشنی کی تمنا دل سے نکال دو۔ ان روشنیوں کی خاطر زندگی تو تباہ نہیں کی جا سکتی ناں؟‘‘
میں اس کی باتیں سن کر شش و پنج میں پڑ گیا۔ میں نے سوالیہ انداز میں اسے مخاطب کیا، ’’لوگ روشنی کی تمنا کرتے ہیں۔ تم مجھے اندھیروں کا عادی ہونے کا مشورہ دے رہے ہو؟‘‘
میری بات سن کر اس نے وحشیانہ انداز میں طویل قہقہہ لگایا، ’’جلنا کوئی نہیں چاہتا، ہر کوئی جلانا چاہتا ہے۔ اس سگریٹ کی طرح— میں تمہیں اندھیروں کا عادی نہیں کرنا چاہتا لیکن وقت تمہیں ضرور اندھیروں کا عادی کر دے گا۔‘‘
اس کی باتوں نے مجھے ناامید کر دیا تھا۔ مجھ پر مایوسی اور قنوطیت چھا گئی تھی۔ وہ بھی خاموش ہو گیا تھا۔
پھر اس خاموشی کا طلسم دور سے گیدڑوں کی آنے والی صدائوں نے توڑ دیا۔ میں نے کہا، ’’ہم سے تو یہ بزدل گیدڑ اچھے ہیں۔ آزادی سے گھوم رہے ہیں۔‘‘
میری بات سن کر وہ گہری سوچ میں پڑ گیا۔ اس نے اپنا جھکا ہوا سر دفعتاً اٹھایا اور کہا، ’’یہاں قدر کسی چیز کی نہیں ہے۔ صرف منافع کی ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم مالک کے لیے منافع پیدا کر سکتے ہیں جبکہ گیدڑ کی خوش قسمتی ہے کہ وہ منافع پیدا نہیں کر سکتا۔ اگر وہ بھی منافع کا ذریعہ ہوتا تو مالک کی قید میں ہوتا۔‘‘
اس کی باتوں سے زندگی کا تجربہ جھلک رہا تھا۔
اس کے ناصحانہ انداز نے مجھے خاصا متاثر کیا تھا۔ میں نے افسردگی سے کہا، ’’جب سے مالک کی نوکری میں آیا ہوں، مجھے ذلت و رسوائی کا سامنا ہے۔ سارا دن محنت و مشقت کے بعد بھی مالک کی بک بک سننی پڑتی ہے۔ کبھی تو دو چار لاتیں بھی لگ جاتی ہیں۔ میں اس ذلت سے تنگ آ گیا ہوں۔‘‘
میری باتوں سے وہ لطف اندوز ہو رہا تھا۔ اس نے پھر اپنے مخصوص انداز میں کہا، ’’پرندہ جب نیا نیا پنجرے میں آتا ہے تو پھڑپھڑاتا ہے لیکن پھر مالک کی میٹھی میٹھی باتیں سن کر اور چوری کھا کر شانت ہو جاتا ہے— پھڑپھڑانا بھول جاتا ہے۔‘‘
اس نے تائید طلب انداز میں میری طرف دیکھا، پھر کہا، ’’تم ابھی نئے نئے پرندے ہو۔ پھڑپھڑا رہے ہو۔ مجھے بھی شروع میں بڑی ذلت محسوس ہوتی تھی لیکن اب اس کا عادی ہو گیا ہوں۔ تم بھی ایک دن عادی ہو جائو گے۔‘‘
وہ اپنی عمر کا کافی حصہ گزار چکا تھا۔ زمانے کے کئی سرد و گرم دیکھ چکا تھا جبکہ مجھ میں جوانی کا جوش سرگرداں تھا۔ جوش مار رہا تھا۔ میں نے پوچھا، ’’انسان ذلت و رسوائی کا کیسے عادی ہو سکتا ہے؟‘‘
میری بات سن کر اس نے استہزائیہ انداز میں قہقہہ لگایا، ’’جیسے غریب لوگ بھوک اور صبر کے عادی ہو جاتے ہیں— امیر ایک دن بھی بھوک برداشت نہیں کر سکتا جبکہ غریب لوگ صدیوں سے بھوک برداشت کرتے چلے آ رہے ہیں۔‘‘ وہ چند لمحوں کے لیے خاموش ہو گیا تھا، پھر اس نے سگریٹ سلگائی، کش لیا اور سلسلہءِ گفتگو جوڑا، ’’وقت ہر چیز کے معنی بدل دیتا ہے۔ طویل عرصہ ذلت و گمراہی میں رہنے والوں کے لیے عزت اور ذلت کا معیار بدل جاتا ہے۔ وہ اسی ذلت کو ہی عزت سمجھنے لگتے ہیں— جس کے وہ عادی کر دیے جاتے ہیں۔‘‘
تمت بالخیر
***
ڈاکٹر خالد اسراں کا افسانوی مجموعہ ’’درِ زنداں‘‘ اُردو سُخن ڈاٹ کام کے اس لِنک سے لیا گیا ہے۔