پرندوں کی اپنی دنیا، اپنا الگ جہان ہوتا ہے۔ ان کی رنگ برنگیاں بولیاں ہوتی ہیں۔ اپنی محبتیں، اپنے قوانین اور اپنی فضائیں ہوتی ہیں۔ لیکن ان کی دنیا کو انسان سمیت کوئی اور نہیں سمجھ سکتا—
انسان تو بس اپنے فائدے کی نظر سے دیکھتا اور سوچتا ہے۔
مغربی علاقے کے جنگل میں دریا کنارے پرندوں کی ایک بھرپور دنیا آباد تھی۔ جنگل کے ایک کنارے پر دریا واقع تھا جبکہ دوسرے کنارے پر ایک خوبصورت اور وسیع پہاڑی سلسلہ سر اٹھائے کھڑا تھا۔ پہاڑوں کی چوٹیاں انواع و اقسام کے درختوں اور رنگ برنگے پھولوں سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ جنگل کا ایک زیادہ گھنا حصہ تھا جس میں جانور رہتے تھے جبکہ دریا کنارے ایک کم گھنا حصہ تھا جہاں درختوں پر پرندوں نے گھونسلے بنائے ہوئے تھے۔
ایک طرف گھنے جنگل میں جانوروں کی دنیا آباد تھی— جہاں ہر طرف نفرت کا راج تھا— جہاں طاقت ور جانور ہر وقت کمزور جانوروں کی تاک میں رہتے تھے۔ کمزور جانور ہمیشہ خوف کا شکار رہتے تھے اور جب بھی باہر نکلتے تو غول کی شکل میں چلتے لیکن پھر بھی کچھ جانور یا ان کے معصوم بچے شیروں کی بھوک کی بھینٹ چڑھ جاتے تھے۔ جانوروں کی آپس کی لڑائیاں ہر وقت جاری رہتی تھیں— جانوروں میں ہر وقت مقابلہ جاری رہتا تھا۔ کبھی خوراک کے لیے آپس میں خونی جنگ لڑتے تو کبھی علاقے پر قبضے کا معاملہ درپیش ہوتا۔ عمومی طور پر طاقتور جانور کمزور جانوروں کے علاقوں پر قبضہ کر کے انہیں بھگا دیتے تھے۔ جانوروں کے درمیان نہ ختم ہونے والی اس لڑائی کا آغاز بہت پہلے ہوا تھا— ہزاروں سال پہلے—
دوسری طرف پرندوں کی دنیا بہت خوبصورت اور پرامن تھی۔ جہاں نہ نفرت کا کوئی گزر تھا اور نہ دشمنی کی کوئی گنجائش۔
پرندے نہ تو ایک دوسرے کا شکار کرتے تھے اور نہ ہی ایک دوسرے سے لڑائی کرتے تھے— ان کے درمیان علاقوں یا پیڑوں کی تقسیم کا بھی کوئی معاملہ درپیش نہیں تھا۔
سبھی پرندے کم و بیش برابری کے حامل تھے۔ نہ کوئی طاقت ور تھا اور نہ کوئی کمزور۔ ہر پرندہ صبح سویرے جنگل کے مختلف حصوں سے اپنی بھوک کے مطابق خوراک کھا آتا تھا اور اپنے چوزوں کے لیے اکٹھی کر لاتا تھا۔ وہ اسی پر قانع رہتا تھا۔ اگر کم پڑ جاتی تو خوراک کی تلاش میں پھر نکل کھڑا ہوتا تھا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ دانے دنکے کی تلاش میں کسی پرندے نے دوسرے کا گھونسلا ٹٹولا ہو۔
سارے پرندے مل جل کر رہتے تھے۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں بھی شریک ہوتے تھے۔
صبح سویرے ہی پرندوں کی اٹکھیلیاں اور نغمے شروع ہو جاتے تھے۔ پرندوں کی دنیا شوخیوں سے معمور ہو جایا کرتی تھی۔ اوپر نیلے آسمان کی چھت، ہرے ہرے درخت، چاروں طرف مختلف رنگوں کے پھولوں کی بہار اور ان سے کھیلتی رنگ برنگی تتلیاں—
پرندوں کی اس دنیا میں محبت ہی محبت تھی۔ سارے پرندے مل کر گھونسلے بناتے تھے۔ جب کوئی پرندہ بیمار یا لاغر پڑ جاتا تو باقی پرندے اس کے لیے خوراک اکٹھی کر لایا کرتے تھے۔ جب تک وہ ٹھیک طرح سے اڑنے کے قابل نہیں ہوتا تھا، اس کے حصے کی خوراک اسے گھونسلے میں ہی ملتی رہتی تھی۔
پرندوں کی اس بستی کی خوش قسمتی تھی کہ وہ انسانوں کے شر سے بچے ہوئے تھے۔ انسان اس طرف شاذ و نادر ہی آتے تھے کیونکہ راستے میں گھنا جنگل پڑتا تھا جس میں خونخوار درندے رہتے تھے۔ کبھی کبھی جنگل سے فائرنگ کی خوفناک آوازیں آیا کرتی تھیں۔ ان آوازوں کی گونج سے تمام پرندے خوف زدہ ہو کر گھونسلوں میں گھس جایا کرتے تھے۔
’’ننھی‘‘ چڑیا نے اس رنگ برنگے ماحول میں آنکھ کھولی تھی۔ اس کے لیے اس کی ماں ہمیشہ پریشان رہتی تھی۔ اس کی کمزوری کی وجہ سے ہی دوسرے بچے اسے مذاق مذاق میں ’’ننھی‘‘ چڑیا کہا کرتے تھے۔ اس کی ماں اس کا بہت خیال رکھتی تھی۔ اس کے لیے دور دراز سے اچھی خوراک چن کر لاتی تھی۔ اسے سردی سے بچانے کے لیے اس نے گھونسلے کا منہ چھوٹا کر لیا تھا تاکہ ٹھنڈی ہوا کم سے کم گھونسلے میں داخل ہو۔ ماں کی مسلسل کوششوں سے اب اس کی صحت بہت بہتر ہو گئی تھی لیکن اس کے ساتھی اسے ابھی تک ننھی چڑیا ہی کہتے تھے۔
ماں اپنی ننھی چڑیا کو صحت مند دیکھ کر بہت خوش تھی لیکن اس کی یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی تھی۔ ننھی چریا اگرچہ بڑی ہو گئی تھی لیکن ابھی تک اُڑنے کے قابل نہیں تھی حالانکہ اس کی عمر کے دوسرے بچے روز اڑان بھرتے اور اپنے لیے دانہ چن کر لاتے تھے۔ ماں اس بات پر بڑی دل گرفتہ تھی۔ اس کے ذہن میں وسوسے اٹھتے، ’’ابھی تو میں زندہ ہوں۔ اس کے لیے خوراک کا بندوبست کر لیتی ہوں۔ اگر میں نہ رہی تو پتہ نہیں اس کا کیا ہو گا؟‘‘
وہ یہی سوچ کر ہلکان ہوتی رہتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ پرندے کی زندگی اڑان میں مضمر ہے اور نہ اُڑ سکنے کا مطلب ’’موت‘‘ ہوتا ہے۔ یہ اڑان اس کے لیے خوراک اکٹھا کرنے کا وسیلہ بھی تھی اور دشمن سے بچائو کا ذریعہ بھی۔
ماںاسے پیار سے ابھی تک ننھی چڑیا کہتی تھی۔اگرچہ وہ ابھی کافی بڑی ہو چکی تھی لیکن اس میں اڑنے کا حوصلہ پیدا نہیں ہو سکا تھا۔ روزانہ ماں اس کے لیے دانہ چن کر لاتی تھی— وہ دانہ دنکا کھا کر گھونسلے میں ہی پڑی رہتی تھی۔
ماں نے تو بہت خواب دیکھے تھے کہ میں جب بوڑھی ہو جائوں گی اور پرواز کے قابل نہیں رہوں گی تو میرا بچہ میرا سہارا بنے گا لیکن بچہ تو ابھی خود کسی قابل نہیں ہو سکا تھا۔
اس نے کئی دفعہ ننھی چڑیا کو اڑانے کی کوشش کی۔ تھوڑی سی بلندی پر جا کر چھوڑا لیکن وہ پر کھولے بغیر ہی زمین پر آ گری۔ اس عمل میں اسے کئی دفعہ معمولی سی چوٹیں بھی آئیں۔
پرندوں کی اس بستی میں بہت سارے تجربہ کار پرندے موجود تھے۔ ہر کسی نے اپنی بساط اور تجربے کے مطابق مشورے دیے— ایک بوڑھی فاختہ نے اسے مشورہ دیا، ’’ساتھ کی وادی میں کالے گلاب بکثرت ہیں۔ جا کر ان کی پتیاں لے آئو اور اسے کھلائو۔ امید ہے کہ اس سے افاقہ ہو گا۔‘‘
بے چاری چڑیا کئی دن کا سفر کر کے کالے گلاب کی پتیاں لے آئی اور سے کھلائیں لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ کسی نے مکئی کے دانے کھلانے کا مشورہ دیا تو کسی نے آم کا رس پلانے کا کہا۔ لیکن تمام حربے ناکام ثابت ہوئے۔
ننھی چڑیا ابھی تک معذوروں کی طرح گھونسلے میں پڑی ہوئی تھی۔ اس کے ہم عمر ساتھی کبھی اس پر طنز کے تیر چلاتے تو کبھی اسے اڑنے کے لیے ترغیب دیتے، ’’دیکھو! فضا اور نیلا آسمان بہت خوبصورت ہے۔ دریا کے اوپر اڑنے کا اور کبھی ہلکی پھلکی ڈبکی لگانے کا اپنا مزا ہے۔‘‘
اپنے ہم عمر ساتھیوں کی باتوں سے ننھی چڑیا کے دل میں جوش و ولولہ ضرور پیدا ہوتا۔ وہ حسرت سے نیلے آسمان کو دیکھتی لیکن اڑنے کا حوصلہ پھر بھی اس میں پیدا نہ ہوتا۔
ایک بزرگ چڑیا ایک دن اس کے گھونسلے میں آئی اور ننھی چڑیا کا بغور معائنہ کیا۔ پھر فکر مندی سے بولی، ’’مجھے تو اس کے پر کمزور لگتے ہیں۔ تم اسے سنیاسی بابا کے پاس لے جائو۔‘‘
چڑیا نے فکرمندی سے کہا، ’’کون سے سنیاسی بابا کے پاس لے جائوں اس کو؟؟
بزرگ چڑیا نے کہا، ’’سنبل وادی میں ایک سنیاسی بابا رہتا ہے۔ سنا ہے وہ ہر طرح کی بیماری کا علاج کر کے پرندوں کو اڑنے کے قابل بنا دیتا ہے۔‘‘
وہ ننھی چڑیا کو اپنی ایک ساتھی چڑیا کی مدد سے سنبل وادی میں لے گئی اور سیدھی سنیاسی بابا کے آستانے جا پہنچی۔ سنیاسی بابا نے ننھی چڑیا کا مکمل معائنہ کیا، پر کھول کر دیکھے، ٹانگیں چیک کیں اور فضا میں چھوڑ کر بھی دیکھا۔ پھر مسکراتے ہوئے بولا، ’’اس میں جسمانی لحاظ سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ پر مضبوط ہیں۔ ٹانگیں بھی صحت مند ہیں۔‘‘
چڑیا پریشانی کے عالم میں بولی، ’’بابا! اگر یہ صحت مند ہے تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ یہ اڑتی کیوں نہیں؟‘‘
سنیاسی بابا نے کہا، ’’یہ بس خوف کا شکار ہے۔ اس کا خوف اس کی ماں ہی دور کر سکتی ہے لیکن پھر بھی ایک طاقت کی دوائی دے رہا ہوں۔ کچھ دن اسے کھلائو۔‘‘
وہ باقاعدگی سے اُسے سنیاسی بابا کی دوائی دینے لگی۔ ساتھ ساتھ وہ اور اس کے ساتھی پرندے اس میں حوصلہ پیدا کرنے کی کوشش کررہے تھے، ’’دیکھو! پرواز کے دوران آج تک کوئی پرندہ گر کر نہیں مرا البتہ بھوک سے بہت سے پرندے مر جاتے ہیں۔‘‘
لیکن یہ سب تدبیریں ناکام ہو گئیں۔ ننھی چڑیا نے بھی قسم کھا لی تھی کہ پر نہیں کھولنے۔
چڑیا اپنے بچے کی پرواز کے لیے ہر قسمی جتن کر رہی تھی۔ کوئی بھی اسے امید کی ہلکی سی کرن دکھاتا، وہ وہاں چلی جاتی۔ ایک تیتر نے اسے مشورہ دیا، ’’مجھے اس کی ٹانگیں کمزور لگتی ہیں۔ تم اسے کسی اچھے سے حکیم کے پاس لے جائو اور اس کے لیے دوائی لائو۔‘‘
وہ گرتی پڑتی ایک مشہور حکیم کے پاس ننھی کو لے کر پہنچ گئی۔ وہاں لوگوں کا کافی ہجوم تھا۔ ایک بزرگ حکیم تشریف فرما تھے— ان کی لمبی سفید داڑھی اور چمکدار بال تھے۔ آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں۔
حکیم صاحب نے ننھی کا اچھی طرح معائنہ کیا ۔ اس کے پر اور ٹانگیں ٹٹول کر دیکھنے کے بعد کہا، ’’اس کی ٹانگیں اور پر بالکل ٹھیک ہیں۔ کوئی نقص یا بیماری نہیں ہے۔ البتہ یہ ابھی تک استعمال نہیں ہوئے، اس لیے بقیہ جسم سے نسبتاً کمزور ہیں۔ اگر ان کو استعمال میں لایا جائے تو یہ درست ہو جائیں گے۔‘‘
حکیم صاحب نے سمجھا کر دوائی دی اور چڑیا کو رخصت کر دیا۔
چڑیا اپنی ننھی کو باقاعدگی سے دوائی دینے لگی۔ ساتھ ہی حکیم کے مشورے کے مطابق اس کی ورزش کرانے لگی۔
چڑیا روز لمبا سفر کر کے دور دراز کے علاقوں سے اس کے لیے حکیم کی تجویز کردہ خوراک اکٹھی کر لاتی تھی اور باقاعدگی سےاسے کھلاتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی وہ ننھی چڑیا کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اسے پرواز کے خوب صورت واقعات اور ارد گرد کی وادیوں کے دل کش مناظر کے بارے میں بتایا کرتی تھی، ’’آج میں اُڑتے اُڑتے بادلوں میں گھس گئی تھی۔ کیا خوبصورت منظر تھا — بادلوں میں پانی کی پھوہار اور خوشبو دار ہوا سفر کر رہی تھی۔‘‘
اس دوران اس نے کئی مرتبہ ننھی چڑیا کو اڑانے کی کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔
ایک دن اس کا ایک دوست طوطا اس سے ملنے آیا۔ چڑیا نے اسے اپنی پریشانی سے آگاہ کیا اور اس سے مشورہ چاہا۔ طوطا بولا، ’’یہاں سے مغرب کی طرف نیلے پہاڑوں کے دامن میں ایک بزرگ رہتا ہے۔ میں کافی عرصہ اس کے ساتھ رہا ہوں۔ اس کے آستانے پر ہر وقت ضرورت مندوں کا جھمگٹا لگا رہتا ہے۔ میں نے وہاں سے کسی کو مایوس واپس جاتے نہیں دیکھا۔ میرا مشورہ ہے کہ تم اس کے پاس جائو۔‘‘
چڑیا بے چاری ننھی چڑیا کو لے کر بابا کے پاس بھی جا پہنچی۔ وہاں لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ طوطے کے تعاون سے وہ بہت جلد بزرگ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔ بزرگ نے اچھی طرح اس کی ٹانگوں اور پروں کا معائنہ شروع کیا۔ اس دوران وہ آنکھیں بند کر کے کچھ دیر کے لیے استغراق میں ڈوب گیا پھر اس نے آنکھیں کھولیں اور کچھ پڑھ کر اس پر دم کر دیا۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد وہ بولا، ’’اس میں جسمانی طور پر کوئی بھی نقص نہیں ہے۔‘‘
چڑیا نے بے چینی سے دریافت کیا، ’’پھر مسئلہ کیا ہے؟ یہ اڑتی کیوں نہیں ہے؟‘‘
بزرگ بولا، ’’اس میں حوصلے کی کمی ہے۔ فضا میں جانے سے ڈرتی ہے۔ بلندی سے خوف کھاتی ہے۔ بس اس میں کسی طرح حوصلہ پیدا کرو۔ اس کے لیے میں نے دم بھی کر دیا ہے۔‘‘
چڑیا نے پریشانی سے کہا، ’’میں اس میں حوصلہ کیسے پیدا کر سکتی ہوں؟‘‘
بزرگ نے مسکرا کر کہا، ’’اس کا دانہ پانی بند کر دو۔ اس کو بھوکا رکھو۔ یہ زندگی بچانے کے لیے ضرور اڑنے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا کرے گی۔‘‘
چڑیا ابھی تک مخمصے میں تھی۔ بولی، ’’اگر پھر بھی نہ اڑ سکی تو؟‘‘
بزرگ نے آنکھیں بند کیں، جیسے کچھ سوچ رہا ہو، پھر بولا، ’’بھوک ہر ذی روح کے لیے اہم ہوتی ہے۔ یہ بزدل کو بے غیرت بنا دیتی ہے جبکہ بہادر کو بے خوف کر دیتی ہے۔ تم اسے بھوکا رکھو۔ اگر پھر بھی یہ اڑنے کا حوصلہ نہ کرےتو اسے مرنے دو۔ دنیا کو ایسے بے حوصلہ پرندوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
چڑیا پریشانی میں اپنے گھونسلے میں واپس آ گئی۔ کچھ دن تو مامتا کے ہاتھوں مجبور ہو کر ننھی چڑیا کو خوراک دیتی رہی لیکن پھر اس نے بزرگ کی باتوں پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا — اسے گھونسلے میں اکیلا چھوڑ کر اس کا دانہ دنکا بند کر دیا۔
وہ اپنے اس بظاہر ظالمانہ عمل پر پریشان تو تھی لیکن مجبوری سمجھ کر ایسا کر رہی تھی۔ اپنی مامتا کے ہاتھوں مجبور ہو کر چوری چھپے ننھی چڑیا کا ردعمل دیکھ رہی تھی۔
ننھی چڑیا خوراک کی کمی کی وجہ سے بتدریج کمزور ہوتی جا رہی تھی۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر چڑیا کی مامتا تڑپی مگر دل پر قابو رکھنا ضروری تھا۔
ایک دن وہ سورج غروب ہونے سے پہلے گھونسلے میں آئی تو ننھی چریا غائب تھی۔ وہ بہت پریشان ہوئی۔ اس کے دل میں بہت سے وسوسے اٹھے۔ وہ بے چینی سے ادھر اُدھر اڑنے لگی۔
وہ اس کی تلاش میں دریا کنارے پہنچی۔ اچانک اس کی نظر ننھی چڑیا پر پڑ گئی۔
وہ اڑنے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ تھوڑا سا اڑتی، اوپر جاتی پھر گر جاتی۔ پھر دوبارہ اڑنے کیلئے پر تولتی۔
چڑیا دلچسپی سے ننھی چڑیا کی کوششِ پرواز کو دیکھ رہی تھی اور دل ہی دل میں اس کے کامیاب ہونے کی دعائیں مانگ رہی تھی۔
ننھی چڑیا نے کئی دفعہ اڑنے کی کوشش کی۔ ہر بار تھوڑا اوپر جا کر گر جاتی۔ آخر کار وہ پرواز کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
چڑیا کی آنکھوں میں مارے خوشی کےآنسو آ گئے۔ اس کے ذہن میں بزرگ کے یہ الفاظ گونجنے لگے، ’’بھوک بزدل کو بے غیرت اور بہادر کو بے خوف کر دیتی ہے۔‘‘
اسے خوشی تھی کہ اس کی ننھی چڑیا غیرت مند اور بہادر ثابت ہوئی تھی اور آسمان کی وسعتوں میں پرواز کرنے کے لائق ہو گئی تھی۔