شبو بڑی منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہوا تھا۔
اس نے متوسط طبقے کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی تھی— اس کے والد کی لوہے کی ایک بھٹی تھی جس سے ان کی گزر اوقات اچھی ہو جایا کرتی تھی۔
شبو عجیب نام تھا۔ اس طرح کا نام لڑکیوں کا ہوا کرتا ہے۔ آس پاس کے کسی گائوں میں کسی لڑکے کا یہ نام سنا نہیں گیا تھا۔ لوگ اس کے والد سے طنزیہ لہجے میں دریافت کیا کرتے تھے، ’’تمہیں مردوں والا کوئی نام نہیں ملا تھا بیٹے کیلئے— جو یہ عورتوں والا نام رکھ دیا۔‘‘
وہ لوگوں کو اس نام کے رکھے جانے کا سبب بتایا کرتا تھا، ’’یہ آدھی رات کو پیدا ہوا تھا۔ اس لیے ’’شب‘‘ کی مناسبت سے اس کا نام ’’شبو‘‘ رکھا گیا ہے۔‘‘
وہ بچپن ہی سے دوسرے بچوں سے مختلف تھا۔
وہ جسمانی ساخت کے اعتبار سے بھی قدرے مختلف واقع ہوا تھا۔ اس کا سر دھڑ کی نسبتاً بڑا لگتا تھا جیسے کسی ڈنڈے کے اوپر تربوز رکھ دیا گیا ہو۔ اس کی آنکھیں چھوٹی چھوٹی اور گول مٹول تھیں جن کے اندر پتلیاں عجیب و غریب انداز میں حرکت کرتی رہتی تھیں۔ اس کے ہونٹ بھی چہرے سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ اکثر وہ اپنے ہونٹوں کو دانتوں سے کاٹتا رہتا تھا۔ سر کے بال گھنے نہیں تھے بلکہ جزوی طور پر اس کے سر کو گنجا قرار دیا جا سکتا تھا۔
اسے آج تک کسی نے مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا تھا بلکہ ایک عجیب نوع کی سنجیدگی مستقلاً اس کے چہرے پر ڈیرہ جمائے ہوئے تھی۔ اس کے چہرے پر جابجا سلوٹیں بکھری ہوئی تھیں۔
شبو کو شلوار قمیص میں کم ہی دیکھا گیا تھا۔ وہ اکثر مختصر جانگیہ اور بنیان پہنے رکھتا تھا۔ ایک پرانی سی ٹوپی اس کے سر پر براجمان رہتی تھی۔
وہ محلے کے بچوں کے ساتھ کھیلتا تھا اور ان کے ساتھ لڑائی جھگڑا کرنا اس کا معمول تھا۔ کرکٹ کھیلتے ہوئے وہ اکثر گیند اٹھا کر بھاگ جایا کرتا تھا۔ سارے لڑکے اس کے پیچھے بھاگتے اور گیند کھینچنے کی کوشش کرتے۔ وہ گیند کو دانتوں سے دبائے رکھتا اور جب دیکھتا کہ دیگر بچے اس سے گیند چھیننے میں کامیاب ہو جائیں گے، تو وہ گیند کو کسی گھر میں پھینک دیتا تھا— اسی طرح کھیل کے دوران وکٹیں اکھاڑ کر بھاگ جانا بھی اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا— بہ لفظِ دیگر وہ کھیلتا کم اور کھیلنے والوں کو زچ زیادہ کرتا تھا۔
وہ اپنی جیب میں ایک چھوٹا سا چاقو ہر وقت سنبھالے رکھتا تھا جس سے وہ ساتھی بچوں کو ڈرایا دھمکایا کرتا تھا۔ اگرچہ اس نے آج تک کسی بچے پر چاقو سے حملہ نہیں کیا تھا، لیکن اس چاقو کی مدد سے وہ کئی مرتبہ بچوں کا فٹ بال پھاڑ چکا تھا۔
محلے کے بچے اور بڑے لڑکے کئی مرتبہ شکایت لے کر اس کے باپ کے پاس گئے تھے۔ وہ ان کی بات سن کر شبو کو چند غائبانہ گالیاں دیتا اور بچوں کو یہ کہہ کر روانہ کر دیتا کہ شبو آ لے، میں اس کی ایسی کی تیسی کر دوں گا۔ وہ شبو کی ایسی کی تیسی کرتا تھا یا نہیں، البتہ یہ بات ہر ایک پر ظاہر ہو چکی تھی کہ وہ اپنے بیٹے شبو کے سامنے بے بس ہو چکا ہے۔
اس نے کئی مرتبہ شبو کو سمجھایا تھا، ڈرایا دھمکایا اور مارا پیٹا بھی تھر— مگر اس کی عادتیں ٹھیک نہ ہوئیں۔
اکثر دوپہر کو جب سارے محلے والے گرمی کی وجہ سے گھروں کے اندر دبکے ہوتے تھے، وہ دروازوں پر پتھر مار کر بھاگ جایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ اس نے ایک گھر کے اندر پتھر اور ٹوٹی ہوئی اینٹوں کے ٹکڑے پھینکے جس سے گھر کے لوگ زخمی ہو گئے۔ ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ محلے داروں نے اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ شبو کا باپ محلے داروں اور پولیس والوں کی منت سماجت کر کے، معافی مانگ کر اسے چھڑا لایا تھا۔
باپ اسے سمجھا سمجھا کر، مار پیٹ کر تھک چکا تھا۔ لیکن اس پر کسی بات کا اثر ہی نہیں ہوتا تھا۔ اب وہ اتنا ڈھیٹ اور بے شرم ہو چکا تھا کہ گاہے گاہے اپنے تمام کپڑے اُتار کر محلے داروں کے سامنے ناچنے لگتا تھا۔ محلے کی آخری نکڑ پر واقع گندے پانی کے جوہڑ میں وہ کئی مرتبہ چھلانگ لگانے کا مظاہرہ بھی کر چکا تھا۔
شبو کا باپ اپنے اکلوتے بیٹے کی حرکتوں کی وجہ سے بہت پریشان تھا۔ وہ کئی ڈاکٹروں سے اس کا علاج کروا چکا تھا۔ پیروں کے پاس لے جا کر اسے دم بھی کروا آیا تھا لیکن کوئی افاقہ نہیں ہو رہا تھا۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق شبو دن بدن برے راستوں پر آگے ہی آگے بڑھتا چلا جا رہا تھا۔
ڈاکٹروں نے اسے بتایا، ’’اس بچے کا ذہن پیدائشی طور پر کمزور ہے۔ دوائیوں کا اس پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔ البتہ اچھی تربیت اسے کسی حد تک سنوار سکتی ہے۔‘‘
ڈاکٹروں سے مایوس ہو کر وہ دم درود کرنے والوں اور پیروں فقیروں کے پاس بھی گیا۔ ایک فقیر نے تو شبو کو دیکھ کر دلچسپ پیش گوئی کی، ’’فکر نہ کرو، یہ بچہ بڑا ہوکر بادشاہ بنے گا۔ حکمران بنے گا۔‘‘
اس کے باپ نے حیرانی سے پوچھا، ’’ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ پاگل ہے۔ تم کہتے ہو کہ یہ حکمران بنے گا۔‘‘
’’پاگل لوگوں کیلئے پاگل لوگ ہی حکمران بنتے ہیں۔‘‘ فقیر نے کہا۔ اس کے لبوں پر جاندار مسکراہٹ رقصاں تھی۔
دن بدن شبو کی حالت مزید خراب ہوتی چلی جا رہی تھی۔
اب اس پر پاگل پن کے دورے بھی پڑنے لگے تھے۔ ایک دن اس نے اینٹ مار کر اپنے ساتھی بچے کو شدید زخمی کر دیا۔ اس بات پر محلے والے بہت مشتعل ہو گئے اور شبو کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔
چونکہ محلے والے سخت برہم تھے، اس لیے شبو کا باپ اسے تھانے سے نہ چھڑوا سکا۔ لیکن چند دنوں بعد پولیس نے شبو کو پاگل خانے بھجوا دیا۔
پاگل خانے میں شبو کا باپ باقاعدگی سے اسے ملنے جایا کرتا تھا۔ وہ اکثر انچارج سے پوچھا کرتا تھا، ’’میرا بیٹا ٹھیک ہو جائے گا نا؟‘‘
پاگل خانے کا انچارج مایوسانہ انداز میں سر ہلاتا اور کہتا، ’’شبو پاگل خانے کا سب سے مشکل مریض ہے۔ بس خدا سے دعا کرو کہ اسے ٹھیک کر دے۔‘‘
پاگل خانے میں بھی شبو کے معاملات میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ ساتھی مریضوں کے ساتھ دنگا فساد کرنا اس کا روز کا معمول تھا۔ کئی دفعہ اس نے ڈاکٹر کے ساتھ بھی دست درازی کی تھی۔ اگر ڈاکٹر کے ساتھ پاگل خانے کے محافظ نہ ہوتے تو شاید وہ ڈاکٹر کو نقصان پہنچانے میں کامیاب بھی ہو جاتا۔
ایک دفعہ آدھی رات کو پاگل خانے کے چوکیدار کی غفلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
فرار ہونے کے بعد شبو اندھا دھند بھاگ رہا تھا۔ اس کی کوئی منزل نہیں تھی۔ اس نے مختصر سا جانگیہ اور پرانی سی بے رنگ بنیان پہن رکھی تھی۔ وہ بھاگ بھاگ کر تھک گیا تھا۔ دور دور تک کہیں آبادی کے نشانات نہیں تھے۔
صبح صادق کے وقت اسے آبادی کے آثار دکھائی دیے تو اس نے سکھ کا سانس لیا — وہ رات سے بھوکا پیاسا بھاگ رہا تھا— اب اس کی ہمت جواب دے چکی تھی۔ اسے امید تھی کہ کوئی گھر آیا تو اسے کھانے کو کچھ نہ کچھ ضرور مل جائے گا۔
وہ رات کی بھاگ دوڑ سے شدید تھک چکا تھا۔ نیند سے آنکھیں بوجھل ہو رہی تھیں۔ اس نے برگد کے ایک پرانے درخت کے تنے سے ٹیک لگائی اور آنکھیں موند لیں۔ وہ سونا نہیں چاہتا تھا مگر چند ہی منٹوں میں نیند کی وادی میں بھٹک گیا۔
یہ بستی کافی عرصہ سے خشک سالی کا شکار تھی۔ لوگ بارشوں کی دعائیں مانگ مانگ کر تھک چکے تھے۔ لیکن ان کی کوئی دعا رنگ نہیں لائی تھی۔ آسمان سے ایک بوند پانی بھی زمین پر نہیں گرا تھا۔ آج بھی بستی کے لوگ دعا مانگنے کے لیے گائوں کے کھلے میدان میں جمع تھے۔
لوگ دعائیں مانگ ہی رہے تھے کہ مشرق سے تیزی سے بادلوں کی آمد شروع ہو گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے امڈ کر آنے والے بادلوں نے امید کی دنیا آباد کر دی اور پانی کے قطرے گرنے لگے۔
کچھ ہی دیر میں بارش نے زور پکڑ لیا اور جل تھل ایک کر دیا۔ لوگ خوشی سے دیوانے ہو گئے۔ ایک دوسرے سے گلے مل کر مبارک باد دینے لگے۔
اسی دوران ایک بزرگ کی نظر شبو پر پڑی جو برگد کے درخت کے نیچے دنیا و مافیہا سے بے خبر سو رہا تھا۔ بزرگ نے شبو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لوگوں سے چیخ کر کہا، ’’لوگو! وہ دیکھو۔ اللہ نے ہماری مدد کے لیے اپنا ولی بھیجا ہے۔ میں بھی کہوں، سالوں سے خشک دھرتی پر آناً فاناً بارش کیسے ہونے لگی؟— یہ بارش بلاشبہ اسی ولی کی کرامت ہے ورنہ ہم تو دعائیں مانگ مانگ کر پاگل ہونے کو آ گئے تھے۔‘‘
ایک نوجوان نے شبو کو دیکھ کر بزرگ کی تائید کی، ’’آپ ٹھیک کہتے ہیں بزرگو! آج ہی اس ولی کی ہمارے علاقے میں آمد ہوئی ہے اور آج ہی اللہ نے ہمیں اپنی رحمت سے نواز دیا ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی لوگ دیوانہ وار شبو کی طرف دوڑے اور اسے کاندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔ وہ ہڑبڑا کر بیدار ہو گیا اور لوگوں کو حیرت بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔
لوگوں نے اس پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی لیکن وہ ابھی تک نیند کے گہرے خمار میں تھا۔ وہ لوگوں کی باتوں کو پوری طرح سمجھ ہی نہیں رہا تھا۔ لوگوں کے سوالوں کے جواب میں کبھی شبو اوپر دیکھتا، کبھی نیچے اور کبھی دائیں بائیں دیکھنے لگتا۔ کبھی کندھے اچکا کر اپنی آنکھیں بند کر لیتا۔
شبو کی ان حرکتوں کو دیکھ کر ایک شخص نے کہا، ’’لوگو! اب تو اس کے ولی ہونے میں کوئی شبہ ہی نہیں رہا۔ اللہ کے نیک بندے صرف زبان سے ہی بات نہیں کرتے، بلکہ ان کا ہر عضو باتیں کرتا ہے۔‘‘
لوگ اسے دھوم دھام اور عزت و احترام سے بستی میں لے گئے۔ پوری بستی میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ بستی میں کوئی اللہ کے ولی آئے ہیں جن کی وجہ سے آج زوروں کی بارش ہوئی ہے۔ لوگ جوق در جوق اسے دیکھنے کے لیے گھروں سے نکل آئے تھے۔
بستی کے سارے لوگ خوش تھے۔ سوائے بڑی مسجد کے امام کے جو یہ سوچ کر پریشان ہو رہا تھا کہ شبو کے آنے سے اس کی اہمیت کم نہ ہو جائے— مسجد کے امام کی بستی میں بہت عزت تھی۔ لوگ اس سے دعا کروانے آتے تھے اور بدلے میں اچھے خاصے نذرانے پیش کر جایا کرتے تھے۔
ولی باکرامت کی آمد کے بعد بستی میں جشن کا سماں تھا۔ لوگ اپنے گھروں سے کھانے پینے کی مختلف چیزیں لے آئے اور اس کے سامنے ڈھیر کر دیں۔ شبو کئی دنوں سے بھوکا تھا۔ کھانے کو دیکھ کر پل پڑا۔ تھوڑی دیر میں ہی اس نے اپنا پیٹ بھر لیا۔ لوگ بڑی حیرانی سے اسے ندیدوں کی طرح کھاتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ بستی کے ایک سیانے شخص نے کہا، ’’بستی والو! اب تو ان صاحب کے ولی اللہ ہونے میں کوئی شائبہ نہیں رہا۔ تھوڑی دیر میں اتنی زیادہ چیزیں وہی شخص کھا سکتا ہے جس کے ساتھ کئی نہ نظر آنے والی مخلوقات بھی چلتی پھرتی ہوں۔‘‘
شبو کی خوب آئو بھگت ہو رہی تھی۔ اس نے اتنی عزت افزائی کا کبھی خواب میں بھی تصور نہیں کیا تھا۔ اس کی پاگلوں والی حرکتیں جاری تھیں لیکن اس کی خوش قسمتی تھی کہ لوگ ان حرکتوں کو بھی کرامات سمجھ رہے تھے۔
اس نے ایک بار بچوں سے سائیکل لے کر الٹا چلانا شروع کر دی۔ بچے اس کی حرکتوں سے خوب لطف اندوز ہورہے تھے۔ زور زور سے تالیاں بجانے لگے۔ وہ بھی تالیوں کے جواب میں خوب قہقہے لگارہا تھا—
بلیوں کا وہ خاص دشمن تھا۔ اکثر بلیوں کو دانتوں سے پکڑ کر دوڑتا رہتا تھا۔ تھوڑی دور تک بھاگنے کے بعد وہ ایک دائرے میں گھومتا اور پھر بلی کو دانتوں سے چھوڑ دیتا۔ کئی بلیاں اس کے اس مجنونانہ عمل سے موت کے منہ میں جا چکی تھیں۔
وہ کتے کو ایک ٹانگ سے پکڑ کر دائرے میں گھماتا تھا لیکن کبھی اس نے کسی کتے کو گھما کر پھینکا نہیں تھا۔
وہ اکثر بازئوں کو پر بنا کر اڑنے کی کوشش کرتا تھا۔ اس لیے لوگوں نے اسے شہباز کہنا شروع کر دیا تھا۔ اگرچہ وہ کبھی اڑنے میں کامیاب نہیں ہوا تھا، بلکہ کئی دفعہ اس کوشش میں منہ کے بل گرا بھی تھا، لیکن پھر بھی بستی کے اکثر لوگ سمجھتے تھے کہ وہ اڑ سکتا ہے۔ عقیدت اور محبت ویسے بھی انسان کو سوچنے سے دور لے جاتی ہے۔ کچھ ضعیف الاعتقاد لوگوں نے تو قسم کھا کر بستی والوں کو بتایا تھا کہ انہوں نے شہباز کو اڑتے ہوئے دیکھا ہے۔
جس کرامت نے اس کی زندگی بدل دی تھی، وہ جوہڑ سے انگوٹھی ڈھونڈ لانے والا واقعہ تھا۔ ایک دن ایک لڑکی جس کی تازہ تازہ منگنی ہوئی تھی، اس کی انگوٹھی جوہڑ میں گر گئی۔ یہ منگنی والی انگوٹھی تھی۔ لڑکی اس کے غم میں جوہڑ کے کنارے بیٹھ کر زار و قطار رونے لگی۔
بستی کے سارے لوگ جوہڑ کے کنارے اکٹھے ہوکر افسوس کرنے لگے۔ ایک بزرگ نے کہا، ’’اللہ کی رضا مان لو بیٹی! اور صبرکرو۔ اتنے بڑے جوہڑ میں سے انگوٹھی کا ملنا ممکن نہیں۔‘‘
لڑکی کا منگیتر بھی تھوڑی دیر میں پہنچ گیا۔ اپنی منگیتر کے آنسو اس سے دیکھے نہ گئے — اس نے انگوٹھی کی تلاش میں جوہڑ میں چھلانگ لگا دی لیکن کافی کوشش کے بعد ناکام باہر نکلا۔ جوہڑ کا پانی بہت گندا تھا۔ کسی اور میں اتنی ہمت نہ تھی کہ انگوٹھی کی تلاش میں اس جوہڑ میں اترتا۔
اسی اثنا میں جب سبھی لوگ مایوس ہو کر واپس جانے لگے تھے، شہباز وہاں پہنچ گیا۔ لوگوں نے اسے ساری روئیداد سنائی۔ اس نے سارا ماجرا سنا، کچھ دیر آسمان کی طرف منہ کر کے خاموش کھڑا رہا پھر جوہڑ میں کود گیا۔ لوگوں کی حیرت سے آنکھیں پھٹنے کو آ گئیں جب شبو عرف شہباز چند لمحوں بعد انگوٹھی تھامے جوہڑ سے برآمد ہوا۔ یہ بات سب کے لیے ناقابلِ یقین تھی۔ کوئی بھلا اتنے گندے پانی کے جوہڑ سے ایک ننھی سی انگوٹھی کیسے تلاش کر کے لا سکتا تھا؟
جو لوگ شبو کی کرامات کے دل سے قائل نہ تھے، آج اپنی آنکھوں اس کی روحانی طاقت کے قائل ہو گئے تھے۔ اپنی انگوٹھی دیکھ کر لڑکی کی آنکھوں میں خوشی اور تشکر کے آنسو امڈ آئے تھے۔
اس کرامت کے بعد لوگ جوق در جوق اس کے حلقہءِ ارادت میں داخل ہونے لگے اور اسے باقاعدہ طور پر بستی کا پیر اور حاکم بنا دیا گیا۔
اب تو شبو کی شان و شوکت دیکھنے کے لائق تھی۔ لوگوں نے اس کا نام ’’حاکم شہباز‘‘ رکھ دیا تھا۔ اچھے ماحول اور بے تحاشا عزت افزائی کی وجہ سے اس پر پڑنے والے دورے کم ہوتے جا رہے تھے۔ البتہ کبھی کبھار شدید غصے کی حالت میں پڑنے والے دوروں میں ابھی تک پہلی سی شدت موجود تھی۔ وہ شدید غصے کے عالم میں دیوانہ وار اچھلنے کودنے لگتا تھا— اپنے کپڑے پھاڑ دیتا تھا۔ برہنہ ہو کر رقص کرنے لگتا تھا۔ اب بھی جب اسے یہ دورہ پڑتا، لوگ اسے پاگل پن کی بجائے حالتِ وجد قرار دیتے — ان کی عقیدت میں اور اضافہ ہو جاتا۔ اکثر لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اس حال میں حاکم شہباز سے جو بھی مانگا جائے، وہ مل جاتا ہے۔ اس لیے حالتِ وجد میں شبو عرف حاکم شہباز کے گرد لوگوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہو جاتا تھا۔
حاکم بننے کے بعد اس کی الٹی سیدھی حرکتوں میں اضافہ ہو گیا تھا۔ ایک دفعہ بہت زیادہ بارش ہوجانے کے بعد بستی میں سیلاب کی سی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ لوگ اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے تھے۔ سارے لوگ ٹپکتی چھتوں کی مرمت اور گرنے والی دیواروں کو چوبی ٹیکیں دینے میں مصروف تھے۔
اس دوران شبو انسانوں کی مدد کرنے کی بجائے مینڈکوں کو بچانے کے لیے پانی میں گھس گیا۔ اس نے لمبے جوتے پہنے ہوئے تھے اور وہ مینڈکوں کو پانی سے پکڑ کر اپنی جیبوں میں ڈال رہا تھا۔ لوگ بڑے حیران ہوئے— ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر عجیب و غریب سوال کرنے لگے لیکن پھر ایک بزرگ نے انہیں منع کیا اور کہا،’’تم اتنے رحم دل شخص پر کفر بک رہے ہو۔ ہم انسانوں کا خیال نہیں رکھ سکتے اور اسے دیکھو، وہ جانوروں کو بھی بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘
اس واقعہ کے بعد اس کی رحم دلی کے چار سو چرچے ہونے لگے۔
کچھ دن بعد اس کی رحم دلی کا ایک اور واقعہ رونما ہوا۔ ایک چڑیا کو کھمبے پر بیٹھا دیکھ کر وہ بہت پریشان ہو گیا تھا۔ چڑیا کے پائوں دھاگے میں الجھے ہوئے تھے اور دھاگہ تار سے لپٹا ہوا تھا۔ اس نے ایک اہلکار سے کہا، ’’ہم نے اس چڑیا کو بچانا ہے۔ اگر یہ کھمبے پربیٹھی رہی تو اسے کرنٹ لگ جائے گا اور یہ موت کے منہ میں چلی جائے گی۔‘‘
اہلکاروں کو چڑیا بچانے کے لیے طلب کر لیا گیا۔ جب سب لوگ اکٹھے ہو گئے تو شہباز خود کھمبے پر چڑھ گیا۔ اسے قریب آتا دیکھ کر چڑیا نے فوراً اڑنے کی کوشش کی۔ اس نے اپنی پوری طاقت لگا دی تھی جس کی وجہ سے اس کے پیروں میں الجھا ہوا دھاگہ ٹوٹ گیا اور اس کی جان تار سے چھوٹ گئی۔ ہر طرف حاکم شہباز کی ہمت اور رحم دلی کی دھاک بیٹھ گئی۔ سارے اہلکاروں نے اس کی بہادری کی تعریف کی اور چڑیا کی جان بچانے پر اسے داد و تحسین پیش کی۔
لوگ اپنے حاکم سے بہت خوش تھے۔ اکثر لوگ کہتے تھے، ’’جہاں انسانی جان کی کوئی پروا نہیں کرتا، وہاں ہمارا حاکم جانوروں کے لیے بھی پریشان ہو جاتا ہے۔‘‘
بستی کی ایک اچھی لڑکی سے اس کی شادی سرانجام پا گئی۔ وہ اسے پیار سے ملکہ رانی کہا کرتا تھا۔ اس کی بیوی بہت جلد ہی اس کی اصلیت جان گئی تھی۔ اسے پتہ چل گیا تھا کہ شہباز ولی نہیں ہے بلکہ پاگل شخص ہے۔ اسے یہ بھی علم ہو گیا تھا کہ شبو نے ولی اللہ بننے کے لیے کوئی سوانگ نہیں رچایا تھا بلکہ لوگوں نے اسے زبردستی اس مسند پر بٹھا دیا تھا۔
اسے یہ بھی علم تھا کہ اگر اس نے کسی کو یہ بات بتائی تو کوئی بھی اس کی بات ماننے پر تیار نہیں ہو گا کیونکہ بستی والے اس کی عقیدت میں ذہنی طور پر بالکل اندھے ہو چکے تھے۔ ایک دفعہ اس نے باپ سے زیرِ لب یہی گفتگو کرنے کی کوشش کی، ’’ابو! مجھے کس پاگل کے پلے باندھ دیا ہے آپ لوگوں نے؟‘‘
اس کا باپ یہ سن کر غصے میں آگ بگولہ ہو گیا، ’’بیٹی! توبہ استغفار کر، ابھی— اپنے عہد کے ولی اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہہ رہی ہو جو تمہارا مجازی خدا بھی ہے؟ کیوں خود پر اور اس بستی پر عذاب لانا چاہتی ہو؟‘‘
شہباز سارا دن حکومت کے کاموں میں مصروف رہتا اور شام ڈھلے گھر پہنچتا۔ ایک دن جب وہ تھکا ہارا گھر پہنچا تو بیوی نے روٹی دینے سے انکار کر دیا۔ وہ بولی، ’’میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ کسی عقیدت مند کے گھر سے جا کر روٹی کھا آئو۔‘‘
شہباز اسی وقت گھر سے باہر نکلا اور اہل کاروں کو فوراً بستی میں سرکاری تنور بنانے کا حکم صادر کیا تاکہ لوگ بیویوں کے استحصال سے محفوظ رہ سکیں۔ یہ تنور کچھ عرصہ چلے لیکن پھر بند کر دیے گئے کیونکہ حکومت کے پاس گندم ختم ہو گئی تھی۔
پاگل پن کی وجہ سے اس کی نیند کافی حد تک کم ہو گئی تھی۔ اکثر وہ آدھی رات کو گھر سے نکل جاتا اور بے مقصد گلیوں میں گھومتا رہتا تھا۔ بستی کے لوگوں نے کئی مرتبہ اسے آدھی رات کو آوارہ گھومتے دیکھا۔ پوری بستی میں یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ ہمارا حاکم اتنا رحم دل اور عوام سے محبت کرنے والا ہے کہ وہ رات کو بھی رعایا کی خبر گیری کے لیے گشت کرتا ہے۔
ایک بزرگ نے گلوگیر لہجے میں کہا، ’’خدا ایسا نیک حاکم سب کو دے۔‘‘
چند دیگر بزرگوں نے تائید میں’’ ’’آمین‘‘ کہا۔
اکثر وہ آدھی رات کو اہلکاروں کی میٹنگ کال کر لیتا اور کہتا، ’’میں نے آپ لوگوں کو اس وقت اس لیے زحمت دی ہے کہ بستی میں طوفان آنے والا ہے۔ فوراً حفاظتی اقدامات شروع کرو۔‘‘
ایک اہلکار نے کہا، ’’حضور! طوفان کے کوئی ایسے آثار تو دکھائی نہیں دے رہے۔‘‘
اس بات پر شہباز نے اسے غصے سے گھورا۔
ساتھی اہلکاروں کو شہباز کی ناراضی کا اندازہ ہو گیا تھا۔ انہوںنے حالات کو قابو میں کرنے کے لیے کہا، ’’حضور! ہم ابھی اقدامات شروع کرتے ہیں۔ جو کچھ آپ کی آنکھ دیکھ سکتی ہے، وہ ہم نہیں دیکھ سکتے۔‘‘
وہ طوفان سے نمٹنے کیلئے کئی دفعہ آدھی رات کو میٹنگ بلا چکا تھا لیکن خوش قسمتی سے ابھی تک ایسا کوئی طوفان نہیں آیا تھا۔
بستی کے اکثر سکولوں کی چھتیں گرنے والی تھیں۔ ہسپتال ویران پڑے تھے۔ سڑکیں ٹوٹی پھوٹی تھیں لیکن شہباز کو ان چیزوں کی بالکل پروا نہیں تھی۔ وہ سکول اور ہسپتال کو ٹھیک کرنے کی بجائے گدھا گاڑیوں کے گزرنے کے لیے گھروں کے اوپر سے راستے بنوا رہا تھا تاکہ مویشیوں تک چارہ بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچایا جا سکے— اس بات پر اس کے حسنِ انتظام کے چرچے ہونے لگے۔
بستی میں غربت، بدامنی اور بیروزگاری بڑھ گئی تھی لیکن لوگوں کو سب کچھ ہرا ہی ہرا نظر آ رہا تھا کیونکہ اکثر لوگوں کو اس نے نیم پاگل کر دیا تھا۔ سارے لوگ کسی معجزے کی امید میں خوش رہتے تھے۔
بستی میں چند لوگ ہی عقل مند رہ گئے تھے جو شہباز کے خلاف آواز اٹھاتے تھے لیکن لوگ انہیں پاگل پاگل کہہ کر پتھر مارتے تھے۔