امثال اس دوران لڑکی کا شُکریہ ادا کرکے اُسے وہاں سے بھیج چُکی تھی ۔
” کن لوگوں کی بات کر رہے ہو؟ ۔۔ ”
” یار یہی میرے اور تمہارے گھر والے اور کون ۔۔ ”
” شرم کرو کیا بول رہے ہو ۔”
” میں کیوں شرم کروں ۔ میں نے شادی شرم کرنے کے لیے نہیں کی تھی ۔ ”
” تو کون تمہیں کہہ رہا ہے ۔ نقاب پہن کر گھومو۔۔ ایک تو مفت میں سب گھر والے تمہارے بیٹے کے نخرے دیکھتے ہیں ۔ اتنا پیار دیتے ہیں ۔ اُنکا شُکریہ ادا کرنے کی بجائے اُلٹا صاحب جی نے شکوے پالے ہوئے ہیں ۔ ”
” میں کس بات کا شُکریہ ادا کروں ۔ اپنے پوتے ، بھتیجے، بھانجے ، نواسے کو پیار دیتے ہیں ۔ کوئی احسان نہیں کرتے ۔ شُکریہ تو اُنکو میرا ادا کرنا چاہیے جو اپنی بیوی اور بیٹے کو ان سب سے ملنے دیتا ہوں ۔ ورنہ میں تو تم دونوں کو سب سے چُھپا کر رکھوں ۔ جہاں صرف میں ہی تم دونوں کو دیکھ سکوں۔ اور میں ہی پیار کر سکوں کسی اور کے باپ کی اجاراداری نہ چلے ۔ ”
امثال کا چہرہ ہنسی روکنے کے چکر میں سُرخ ٹماٹر ہو رہا تھا ۔ بڑی مُشکل سے بولی ۔
” توبہ ! توبہ !توبہ! ۔۔۔ تم تو انتہائی شدت پسند انسان ہو ۔ شُکر ہے ۔ دہشت گرد نہیں ہو ۔ ”
” ہنس لو ہنس لو اور جو وہ تم دس دفعہ میرے ماں باپ کو یہ پوچھنے جاتی ہو ناں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے ۔ وہ کوئی بچے نہیں ہیں ۔ اگر اُنکو کُچھ چاہیے ہوگا ۔ خود ہی جاکر لے لیں گے ۔ ”
” وہ تو میں تم سے بھی پوچھتی ہوں ۔ کیا تمہیں بھی پوچھنا چھوڑ دوں ۔ ”
” میں غیروں کی بات کر رہا ہوں ۔ اپنی نہیں۔ ”
امثال ہنستی چلی گئی جانتی جو تھی ۔ سب ڈرامہ کر رہا ہے ۔ اپنے ماں باپ کی عزت میں خود ابسام نے بھی کبھی حرف نہیں آنے دیا تھا۔ مگر امثال کو تنگ کرنے کو وقتاً فوقتاً ایسے شُغل لگاتا رہتا تھا۔
امثال عشاء کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تو ابسام نے مووی لگا دی ۔
” آج پلیز فلم دیکھنے کے دوران اپنی کمنٹری بند رکھنا ۔نہیں تو میں فلم بند کردونگا ۔ ”
” اچھا ایویں نہ رُعب جھاڑا کرو ۔ اگر تمہیں مووی دیکھنے کے دوران بولنا اتنا ہی بُرا لگتا ہو ۔ تو تم ضد کرکے ہر مووی میرے ساتھ بیٹھ کر نہ دیکھو ۔ ”
” تم کافی سمجھدار ہوتی جارہی ہو ۔ ”
“جناب میں پیدا ہی سمجھدار ہوئی تھی ۔ ”
” نہیں خیر اب اتنی بھی انّہی نہ ڈالو ۔ ”
” مووی ہے کس کی ؟ ۔۔ ”
” بین ایفلک اور کیون کوسٹلر کی ۔۔۔ کریمنل ۔۔”
” ہائے میرا فیورٹ بین ایفلک ۔۔۔۔۔ اُسکی سمائل میں اتنی معصومیت ہے ۔ بالکل بچوں جیسی ۔۔۔”
” تم میرے سامنے اپنے فیورٹ ہیروز کی تعریف کرنے سے پرہیز کیا کرو۔ ”
وہ ہنستے ہوئے بولی ۔
” کیا تم جیلس ہوتے ہو ؟ ۔۔ ”
” ہو بھی سکتا ہوں ۔”
” تم بھی تو جینیفر لورینس کی تعریف کرتے ہو ۔ میں نے تو کبھی بُرا نہیں منایا ۔ ”
مووی میں بین کے مرنے پر امثال نے نہ صرف آنسو بہائے ۔ بلکہ کوسنے بھی دئیے ۔
” کیا تھا جو یہ کیون کی جگہ بین کو اور بین کی جگہ کیون کو لے لیتے ۔ ”
” اُس سے کیا ہونا تھا ۔ ”
” بین مووی کے اینڈ تک نظر تو آتا ۔ کیون بھی کلاس کا ایکٹر ہے ۔ پر بین تو بین ہے نا ۔ پر، اوور آل ، مووی واز گریٹ ! تھینک یو ۔ ”
” یو آر ویلکم ۔۔۔ اُٹھ کے کہاں جارہی ہو ۔ ؟ ۔۔”
” میں مزید نہیں بیٹھ سکتی بس ! چیں بول گئی ہے ۔ اور ٹھنڈ بھی لگ رہی ہے ۔ ”
” چلو میں تمہیں بیڈ روم دکھا دیتا ہوں ۔ آرام کر لو ۔ ”
ابسام اُسے کمرے میں چھوڑ کر خود واپس باہر آیا ۔ ملازم کے ساتھ مل کر ٹی وی اسٹینڈ کھینچ کر اندر کیا ۔ دوسرا کام ملازم نے خود ہی کر لیا ۔ جب تک وہ سارے دروازے بند کرکے اندر آیا ۔ امثال جی گہری نیند میں جاچُکی تھیں ۔
ابسام نے کپڑے بدلے، ائیر کنڈیشنر کی کولنگ تھوڑی کم کی اور امثال کے اوپر کمبل برابر کرکے خود بھی لیٹ گیا ۔ نیند کی وادی میں اُترتے زیادہ دیر نہیں لگی تھی ۔
وہ یہ سمجھ رہی تھی ۔ کوئی خواب دیکھ رہی ہے ۔ جس میں اُسکا جسم انتہائی شدید درد سے گُزر رہا ہے ۔ مگر اچانک آنکھ کُھلنے پر احساس ہوا ۔ وہ خواب نہیں حقیقت تھی ۔ پہلے تو اجنبی جگہ دیکھ کر گھبرائی مگر نیم اندھیرے میں بیڈ پہ موجود ابسام کو دیکھ کر سکون ہوا ۔
” سُنو ! مجھے درد ہو رہی ہے ۔ اُٹھ جاؤ!”
اُس نے کہا تو مگر ابسام کی نیند میں خلل نہیں آیا ۔
اس دفعہ اُس نے ہاتھ بڑھا کر ابسام کا شانہ زور سے ہلایا ۔
” گھر جانا ہے ۔۔۔۔ اُٹھو ۔۔۔۔ !! ۔۔”
اب کے وہ فوراً اُٹھ بیٹھا ۔
” یو اوکے ۔۔۔ ؟ ”
” نہیں ۔۔ پلیز ! امی یا خالہ کو فون کرو ۔ ”
امثال کی پُر نم آواز پہ وہ ٹوٹے ہوئے سپرنگ کی طرح بیڈ سے نکلا تھا ۔ پہلے لائٹ آن کی ۔۔ پھر اُسکے پاس آیا ۔
” کیا بہت تیز درد ہے ؟ ۔۔ ”
اس دفعہ اُس نے بس اثبات میں سر ہلانے پہ اکتفا کیا ۔
ابسام اپنا موبائل لیکر کمرے سے نکل گیا ۔
سب سے پہلے ڈاکٹر فرحت کو کال کی ۔ جو اُنہوں نے بڑی لیٹ اُٹھائی ۔ بعد میں پتا چلا وہ ابھی ہاسپٹل سے آکر سوئی ہی تھیں ۔ جب ابسام کی کال آگئی ۔ پر اُنہوں نے “ابھی آئی !” کہہ کر فون رکھا ۔ ابسام نے ڈرتے ڈرتے امی کا نمبر ملایا ۔ جو کہ دوسری بیل پہ ہی اُٹھایا گیا ۔
” ہیلو ؟ ۔۔ ”
” امی میں بول رہا ہوں ۔ آپ ذرا واصف کے ساتھ ادھر آجائیں ۔ میں واصف کے فون پہ ایڈریس ٹیکسٹ کر دیتا ہوں ۔ ”
” دیکھا !وہی ہوا نا ۔۔۔ جلدی سے اُسکو ہاسپٹل لے جاؤ ۔ ”
” ڈاکٹر آرہی ہے ۔ چیک اپ کرکے اگر بولے گی تو ہاسپٹل ہی لیکر جاؤنگا ۔ آپ تو آئیں ۔ ”
” ہاں اب اور کُچھ نہیں تو ماں پر رُعب ڈالو ۔ ”
آدھے گھنٹے بعد دادی نانی دونوں آچُکی تھیں ۔ ڈاکٹر نے بھرپور تسلی دی کہ ہاسپٹل لے جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ مگر اُن دونوں بہنوں کو ہی بے یقینی تھی ۔
” ڈاکٹر اندر اپنی نرس کے ہمراہ امثال کے ساتھ مصروف تھیں ۔ اور باہر یہ دونوں بہنیں ابسام کو گھیرے بیٹھی تھیں ۔
” مجھے تو اس ڈاکٹر کی سمجھ نہیں آرہی ۔ ہمیں تسلیاں دے رہی ہے ۔ حالانکہ نہ ادھر آکسیجن کا انتظام ہے ۔ نہ کسی قسم کی کوئی مشنری ہے ۔ ”
ابسام خود پریشان تھا ۔ اندر سےآتی امثال کی دبی دبی چیخیں دل چیر رہی تھیں ۔
” آپ دونوں نے چُپ کرنا ہے یا مجھے ہارٹ اٹیک کروائیں گی ؟ بتایا توہے ۔ ڈاکٹر کہتی ہیں ۔ لیبر آخری لمحات میں ہے ۔ اتنا وقت نہیں ہے جو اُسے کہیں اور لے جایا جاسکے ۔ ”
” تو تم اُسکو پہلے ہی کیوں نہ لے گئے ۔ یہ نوبت ہی کیوں آنے دی ۔ ”
” جب اُس نے مجھے بتایا اُسی وقت میں نے ڈاکٹر کو کال کردی تھی ۔ ”
اُس نے صفائی دی ہی تھی کہ ساتھ ہی اُسکی امی بولیں ۔
” ہائے میرے اللہ ! نہ جانے کتنی دیر سے میری بچی درد سے تڑپ رہی ہوگی ۔ اور تم اُس کے پاس پڑے سو رہے ہوگے ۔ ”
ابھی مزید بھی کُچھ کہتیں پر ڈاکٹر کے بُلانے پر دونوں اندر چلی گئیں ۔
اور وہ دل ہی دل میں اللہ کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا ۔
” اندر موجود تخلیق کی آخری سختیوں سے گُزرتی عورت آپکی عطا کردہ نعمتوں میں سے میرے دل کے بہت قریب ہے ۔ آپکو آپکے محبوب ﷺ کا واسطہ ! اُس پہ اپنی رحمت کریں ۔ اُسکی تکلیف میں کمی کریں ۔ اُسکو اپنی امان میں رکھیں ۔ میں نے اُسکو آپکی پناہ میں دیا ۔ آپکی پناہ سے بڑی کر میرے پاس کوئی قلعہ نہیں جہاں میں اُسکو محفوظ رکھ سکوں ۔ ”
وہ ننگے پاؤں بیرونی د روازے کی سیڑھیوں پہ آنکھیں موندے بیٹھا تھا ۔ جب اندر سے نو مولود کے رونے کی آواز آئی ۔
پہلے اُس نے بے یقینی سے آنکھیں کھولیں پھر گردن مُوڑ کر اندر کی جانب دیکھا وہاں سے آتی خواتین کی ہنسی کی آواز سُن کر مُسکرا دیا ۔ دروازے سے باہر نظر آتے آسمان کی جانب نگاہ کرکے ہنستے ہوئے بولا ۔
” تھینک یو سوہنیو! تُسی گریٹ او!! ۔۔ ”
ابھی دن بھی نہیں نکلا تھا ۔ جب دونوں کے گھر سے والد بھی آگئے ۔ صبح تک ثمرہ بھی بچوں کے ساتھ پہنچ گئی ۔
وہ دو بیڈ روم کا ہریالی میں گھرا لگژری کاٹج جو ابسام نے یہ سوچ کر پورے ہفتے کے لیے بُک کروایا تھا کہ چُھٹیاں یہاں گُزارے گا سب کو اتنا بھایا کہ کوئی بھی وہاں سے نکلنے کو تیار نہ ہو ا ۔ ساری صورتحال میں امثال کو اپنے شوہر کی شکل پر بارہ بجے دیکھ دیکھ کر ہنسی آتی جو جواب میں اُسکو مصنوعی گھوریوں سے نوازتا ۔ وہ اُس پر غُصہ کرنا بھی چاہتا تو نہیں کر سکتا تھا ۔
آج وہ ایک ہفتے کی چُھٹی گُزار کر وآپس آفس گیا ہوا تھا ۔ جہاں سے شام ڈھلے ہی واپسی ہوئی ۔ سوائے اُسکے ابو ‘ دادا اور اعجاز ماموں کے باقی ساری فیملی سٹنگ روم کے کارپٹ پہ دستر خوان بچھائے ڈنر کرنے میں مصروف تھے ۔ الماس آ نہیں پائی تھیں ۔ مگر ہر روز وڈیو چیٹ ہو رہی تھی ۔
وہ سب پہ سلامتی بھیجتا ہوا اندر کی جانب بڑھ گیا ۔دروازے سے دور ہی تھا ۔ امثال کی آواز کانوں میں پڑی ۔ جو فلک شیر اُرف شیرو کو ڈانٹ رہی تھی ۔
” شیرو ، میری جان ! ایسے نہ کودو! ابھی تمہاری بہن بڑی نازُک سی ہے ۔ اُس کے اوپر تمہارا ایک پاؤں بھی آگیا نا تو مر جائے گی ۔ ”
شیرو کی ہنسی اور امثال کی جھنجھلائی ہوئی آواز ، اُس نے دروازہ کھولا ۔
سُرخ ٹراؤزر پہ سفید شرٹ پہنی ہوئی تھی ۔ بالوں کو ڈھیلے سے جوڑے میں باندھا ہوا تھا ۔ بیڈ کی پائنتی کی جانب درمیان میں کھڑی ہوکر فلک شیر کو پکڑنے کی کوشش میں تھی ۔ جو ہاتھ نہیں آرہا تھا ۔ چھوٹی فجر بیڈ کے درمیان بے خبر سو رہی تھی ۔ جب شیرو کودتا تو ڈر کے ہاتھ اوپر کو اُٹھاتی ضرور پر جاگتی پھر بھی نہیں تھی ۔ آخر بہن کس کی تھی ۔
امثال کی نظر شوہر پہ پڑی تو بیٹے کو ڈرانے کی نیت سے بولی ۔
” تمہارے بابا آگئے ہیں ۔ میں انکو کہتی ہوں ۔ تمہاری پٹائی کریں ۔ ”
” بابا پٹائی نہیں کرتے ۔ پاری کرتے ہیں ۔ ”
” اگر بہن کو رُلاؤگے تو پٹائی ہی کریں گے ۔ ”
ابسام کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولا .
” شہزادے کیا کر رہے ہو ؟ ”
” جمپ کر رہا ہوں ۔ ”
اس دفعہ پھر اُس نے جمپ مارا تو فجر کُچھ زیادہ ہی مائینڈ کر گئی ۔ پورے جوش سے رونے لگی ۔ شیرو کا منہ زیرو کی شیپ میں کُھلا ۔ پہلے حیرت سے ماں کو دیکھا پھر باپ کو اُسکے بعد فجر کے قریب گرنے کے انداز میں بیٹھ کر اُسکو زور زور سے تھپکنے لگا ۔ ابسام تیزی سے آگے آیا ۔ اور بیٹے کو گود میں اُٹھا لیا ۔ امثال فجر کی جانب متوجہ ہوگئی ۔
” ہتھوڑے کی طرح ضرب مارتے ہو یار ابھی اپنا لاڈ پیار دکھانے سے پرہیز کیا کرو ۔”
جواب میں شیرو منہ بسورتے ہوئے بولا ۔
” بے بی گندی ہے ۔ ”
” کیوں ؟ ۔”
” روتی ہے ۔ ”
” تم ایسا برتاؤکروگے تو اُس بچاری نے رونا ہی ہے ۔ ”
ابسام اُسکو گود میں لیے ہی بیڈ پہ نیم دراز ہوگیا ۔
شیرو اُس کے پیٹ پہ بیٹھا اُسکی جیکٹ میں لگا پین اُتارنے کے چکر میں تھا ۔
” میں نے بلی لینی ہے ۔ ”
” ہاں تاکہ تم دو دن میں اُسکی گردن مروڑ کر مار دو ۔ ”
امثال نے فجر کو چُپ کروا کر واپس لٹاتے ہوئے کہا ۔ شیرو کو ماں کی بات زیادہ پسند نہیں آئی ۔
جبکہ ابسام مُسکراتے ہوِئے بتانے لگا ۔
” باہر ثمرہ اپو کے پاس بلی ہے ۔ جاؤ جاکر لے لو ۔ ”
شیرو کی آنکھیں چمک اُٹھیں ۔
” اپو ؟ بلی ؟ ۔۔”
ابسام نے ہنستے ہوئے اُسکو اُتار کر نیچے فرش پہ کھڑا کیا ۔
دوسرے پل وہ بلی بلی کرتا باہر کو بھاگ گیا ۔
ابسام وآپس لیٹ گیا ۔
جہاں ابسام کا سر تھا ۔ وہیں ایک ہاتھ کی دوری پہ وہ بیٹھی ہوئی تھی ۔
” آج تو صاحب جی کافی تھکے ہوئے لگ رہے ہیں ۔ ”
اُس نے ہاتھ بڑھاکر ابسام کے بالوں کو چُھوا ۔ ڈارک گرے فارمل سوٹ پر گہری نیلی ٹائی میں وہ صحت مند و توانا ‘ ہینڈسم مرد تھا ۔
” نہیں بس ٹھیک ہی ہے ۔ تم سُناؤ طبیعت ٹھیک ہے ؟ ”
” تمہارے سامنے ہوں ۔ وہ میں نے ایک درخواست کرنی تھی ۔ ”
” بولو! ”
” یہ جگہ سب کو بڑی پسند آئی ہے ۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا ہم یہاں ایک ہفتے کی بجائے ایک مہینہ رُک جائیں ۔”
ابسام نے آنکھیں کھول کر اُسکو دیکھا ۔
” دانت پیستے ہوئے بولا . ” اور کُچھ ۔ ؟ ۔۔”
” تھینک یو ۔۔۔ ”
امثال نے سر جُھکا کر اپنے لب اُسکی پیشانی پہ رکھے ۔
” اور کُچھ ۔۔ ؟ ۔ ”
” آئی لو یو ۔۔۔ ”
” کیا کہا ؟ ۔۔”
” آئی لو یو ۔۔ ”
” آواز نہیں آئی ۔ دوبارہ بولو ۔۔ ”
” ابسام سکندر! امثال ابسام لوز یو ویری مچ!!! ۔۔۔ ”
وہ مسلسل آنکھیں بند کئے مُسکرا رہا تھا ۔
” ویری مچ سمجھ آیا ہے ۔ اُس سے پہلے جو بولا وہ سُنائی نہیں دیا ۔ ”
اب کے وہ اُس کے کان کے قریب جُھکی اور پوری قوت سے حلق پھاڑ کر چلائی ۔
” آئی لو یو ۔۔۔ ۔۔!!۔۔”
وہ اپنے کان میں اُنگلی مارتا اُٹھ کر بیٹھ گیا ۔
کُھلے دروازے سے ثمرہ شیرو کی انگلی تھامے بڑبڑاتی ہوئی اندر آئی ۔
” ایک تو جب بھی میں کھانا کھانے بیٹھتی ہوں ۔ اُسی وقت تمہارے بیٹے کو پی شی آتا ہے ۔ بھائی! آپ بہرے کب سے ہوئے ہیں ؟ اور یہاں کیا کر رہے ہیں ؟ ۔۔ ”
” جھک مار رہا ہوں ۔ آؤ تم بھی شامل ہو جاؤ ۔۔۔ ”
وہ اُٹھ کر باہر نکل گیا ۔
امثال کی ہنسی نے دور تک پیچھا گیا ۔
ثمرہ شیرو کو لیکر باتھ روم میں چلی گئی ۔
تنہائی پاتے ہی امثال کو ماضی کی یاد نے ایک پل کو گھیرا تو آنکھ میں بے اختیار نمی آگئی۔
اپنے رب سےمخاطب ہوکر بولی ۔
” بے شک آپ نے سچ فرمایا ہے ۔ آپ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں ۔ میں نے تکلیف کے وقت میں صبر کیا ۔ آپ نے میری تکلیف ختم کردی ۔ بے شک آپ سے بڑھ کر اپنے بندوں کا حامی اور کوئی نہیں ۔۔۔۔ شُکر ! الحمدُللہ!! ۔۔ ”
اُس نے آنکھ سے بہنے والا اکلوتا آنسو صاف کیا اور مُسکرادی ۔
#ختم_شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...