” اُف اللہ میا ں! میں اس لفظ سے تنگ آگئی ہوں ۔ ہماری شادی کو چار سال ہو گئے ہیں۔اتنی پُرانی ریلیشن میں ڈیٹ نہیں ہوتی ۔ ”
” وہ تو بور لوگوں کے لیے نہیں ہوتی ۔ زندہ دل اور ایک دوسرے سے محبت کرنے والے میاں بیوی کے لیے شادی کے پچاس سال بعد بھی ہر دن ڈیٹ ہے ۔ ”
” تمہاری شکل دیکھ کر لوگ تمہیں انتہائی شریف سمجھتے ہیں۔ ”
” وہ تو میں ہوں ۔ ”
” ہاں جانتی ہوں کتنے شریف ہو ۔ ”
” ڈونٹ ٹیل میں مسز ابسام کہ تمہیں میری شرافت پہ شک ہے ۔ ”
” کوئی ایسا ویسا ۔۔ ”
” تو کس طرح دور ہو سکتا ہے ۔ ”
” صرف اس صورت میں کہ تم ہر ہفتے یہ ڈیٹ ڈیٹ کھیلنا بند کردو ۔ اور پلیز بتا دو ۔ آج ہم ڈنر کے لیے کہاں جارہے ہیں ۔ ”
” آج کا انتظام ذرا ہٹ کر ہے ۔ نہ صرف ڈنر ہوگا ۔ بلکہ مووی نائٹ منائیں گے ۔ ”
” ہاں ہاں نائن منتھ کی ہیویلی پرگننٹ عورت ڈھائی تین گھنٹے کے لیے سینما میں بیٹھے گی ۔ دماغ تو ٹھیک ہے ؟ ”
” ہم مووی سینما میں نہیں دیکھ رہے ۔ ”
” تو پھر ۔۔۔ ”
” سرپرائز بھی کسی چڑیا کا نام ہے امثال ۔۔۔ ”
” چلو جی ایک اور سرپرائز! اب اللہ کرے میری طبعیت کوئی سرپرائز نہ دیدے ۔۔۔ ”
” انشااللہ سب ٹھیک رہے گا ۔ ڈونٹ یو وری ۔ اُس نے ہاتھ بڑھاکر امثال کے بڑھے ہوئے جسم پر رکھا ۔ اور پیار بھری نرم نظروں سے اسے دیکھا جو آج کل نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت ہو رہی تھی ۔
اُس نے گاڑی ایک گیٹ پہ روکی ۔ ہارن دینے کی دیر تھی دوسری جانب سے دروازہ کُھل گیا ۔
امثال سوالیہ نظروں سے اُسکو دیکھ رہی تھی ۔ جسکا سارا دھیان سامنے تھا۔
ایک لمبے سے راستے کو عبور کرنے کے بعد گاڑی رُک گئی ۔
” یہ کس کی جگہ ہے ؟۔۔”
” یہ میرے اُس دوست کی جگہ ہے ۔ جس کی بیوی ڈاکٹر ہے ۔ یاد ہے ہم اُنکی بیٹی کی شادی پہ گئے تھے ۔ ”
” ہاں تو کیا وہ لوگ اب مستقل یہیں رہتے ہیں ؟ ”
” نہیں، رہتے تو وہ اپنے پرانے گھر میں ہی ہیں ۔ مگر آج ادھر آئے ہوئے ہیں ۔ اب مزید سوال و جواب کو چھوڑو اور نکلو باہر ۔ بلکہ رُکو ! میں مدد کرتا ہوں ۔ ”
وہ اپنی جانب سے نکل کر امثال کے دروازے پہ آیا ۔ دروازہ کھول کر اُسکا ہاتھ تھام کر باہر نکلنے میں مدد دی ۔ ایک دم اُٹھ کر کھڑے ہوتے ہی امثال کو اپنی کمر میں درد کی لہر دوڑتی محسوس ہوئی ۔ جو کہ آج کل عام سی بات تھی ۔ اسلیے وہ اگنور کر گئی ۔
انکے ارد گرد لش گرین گراس اور اُسی رنگ کے اونچے اونچے درخت تھے ۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی ورنہ تو آج کل حبس نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے ۔ اگست کا مہینہ تو پسینے چھڑانے کے لئے مشہور ہے کہ اس ماہ میں حبس زیادہ ہوتی ہے ۔ وہ اُسکا ہاتھ پکڑ کر رہائشی عمارت کی مخالف سمت میں چل پڑا ۔ آگے مصنوعی پہاڑی بنی ہوئی تھی ۔ جس پر سے ہوتے ہوئے وہ لوگ دوسری جانب اُترتے سامنے کا منظر دیکھ کر امثال نے دونوں ہاتھ منہ پہ رکھ لیے ۔
چکور کی شکل بناکر چاروں کونوں میں بانس کے ڈنڈے فٹ کئے گئے تھے ۔ جن پر لائٹنگ کی گئی تھی ۔ کُچھ لڑیاں نیچے لٹک رہی تھیں ۔ پر زیادہ تر فریم کے اوپری حصے کو ہالے کی صورت گھیرے ہوئے تھیں ۔ جس کے اندر ایک دو سیٹر کالے رنگ کا صوفہ سیٹ پڑا ہوا تھا ۔ سامنے میز پہ کھانا سرو کرکے ڈھانپ کر رکھا تھا ۔ اور سب سے دلچسپ چیز وہ ساٹھ پینسٹھ انچ کی ایل سی ڈی سکرین تھی جس پر اسی لمحے جان لیجینڈ کے گانے ” آل آف می ” کی وڈیو چلنے لگی تھی ۔ ہلکا ہلکا میوزک سارے ماحول کو اور بھی پُر اثر بنا رہا تھا ۔
امثال نے گردن موڑ کر ابسام کو دیکھا تو آنکھوں میں نمی تھی ۔
” تمہاری محبت مجھے معتبر کرتی ہے ابسام ۔۔۔ مجھے اپنا آپ اچھا لگنے لگتا ہے ۔ کیا محبت اتنی طاقتور ہوتی ہے جو آپ کے دل کی اس خوبصورتی سے رفو گری کردے کہ بھولے سے بھی کوئی غم یاد نہ آئے ، زندگی پر ، اللہ کی ذات پر یقین اور بھی محکم کردِئے ۔ انسان کا اس بات پرایمان کامل ہوجائے ” میں اکیلا نہیں ہوں ۔ کوئی ہے جو ہر لمحہ مجھ پر نظر رکھے ہوئے ہے ۔ میں گر گئی تھی ۔ اُس نے میری زندگی میں تمہیں بھیج کر مجھے پھر سے اُٹھا دیا ۔ ”
ابسام کی اُسکے ہاتھ پر گرفت اور بھی مضبوط ہوئی ۔ ہاتھ اُٹھا کر لبوں سے لگا لیا ۔
” آر یو ہنگری ؟ ۔۔ ”
وہ نم آنکھوں سمیت مُسکرادی ۔
“یس پلیز ۔۔۔ ”
دونوں اُس چکور کے اندر آئے ۔ اوپر کُھلا آسمان انہیں ڈھانپے ہوئے تھا ۔ ابسام نے اُسکے لیے کُرسی کھینچی پھر اپنی جگہ پہ براجمان ہوا ۔
اُسی پل ایک باوردی بیرا قریبی کاٹیج سے برآمد ہوا ۔ امثال نے بیرے کو دیکھتے ہی ابسام کی جانب بھنویں اچکا کر دیکھا ۔
جواب میں اُس نے کندھے اُچکا دیئے ۔
بیرے نے آکر ڈشز پر رکھے ڈھکن ہٹائے ۔ سٹیک کی خوشبو نے منہ میں پانی بھر دیا ۔
لیمب سٹیک کے ساتھ سوس اور روسٹڈ آلو تھے ۔ ساتھ میں رشین سلاد موجود تھا ۔
بیرا دونوں کے گلاسوں میں سپرائیٹ ڈالنے کے بعد میز کے اوپر رکھی موم بتیاں جلا کر واپس مُڑ گیا ۔
” ابسام صاحب ! اس ساری سیٹنگ کے پیچھے کس کے ذہن کی محنت ہے ؟ ۔ ”
” تم اُسکو اپنے سامنے بیٹھا ہوا دیکھ رہی ہو ۔ ”
اس صورت میں یہ ضرور کہنا چاہوں گی ” میں بہت متاثر ہوئی ہوں ۔ ”
” نوازش جناب کی ۔۔۔ ”
” سچی میں ۔۔۔ مگر ایک مسٔلہ ہے ۔ ”
” وہ کیا ؟ ۔۔ ”
وہ اپنا ہاتھ روک کر پوری طرح سے اُسکی جانب متوجہ ہوا ۔
” مسٔلہ یہ ہے کہ میں یوں ٹانگیں لٹکا کرسی پہ زیادہ سے زیادہ دس منٹ تک ہی بیٹھ سکتی ہوں ۔ کیونکہ میرے پیروں کی سوزش اور زیادہ ہو جانی ہے ۔ ”
” اوہ! مجھے اسکا خیال کیوں نہیں آیا ۔”
” یہ کہتے ہی وہ اپنی جگہ سے اُٹھا ۔۔۔ بیرے کو آواز دی ۔۔ امثال کو صوفے پہ بیٹھنے کا بولا ۔
بیرے کے ساتھ اس دفعہ ایک لڑکی بھی باہر آئی ۔ جس کے ہاتھ میں ایک پیروں والا چھوٹا ٹب تھا ۔
جو اُس نے لاکر امثال کے سامنے زمین پہ رکھ دیا ۔ امثال حیرت سے اسکی شکل دیکھنے لگی ۔ جو کہہ رہی تھی ۔ میم اپنے پاؤں پانی میں رکھیں ۔ ”
” اُس نے کہا مان کر پیر نیم گرم پانی میں رکھ دئیے ۔ ”
جب وہ پُرسکون ہوکر بیٹھ گئی تو ابسام میں اُسکی گود میں نیپکن ڈالنے کے بعد کھانے کی پلیٹ اُسے تھمائی ۔ بیرے نے ایک سٹول صوفے کے قریب رکھ کر اُس پہ دونوں کے گلاس اور سلاد وغیرہ رکھ دیا ۔ دوسرا میز وہاں سے ہٹا دیا ۔
” سوری میں میز پہ بیٹھ کر کینڈل لائٹ ڈنر انجوائے نہیں کر پائی ۔”
” مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ویسے بھی آئی تھینک پیرنٹس ہونے کی وجہ سے ہمارا کینڈل لائٹ ایسا ہی ہونا تھا ۔ ابھی تو اپنا شیرو نانی کے پاس ہے ورنہ ابھی تک اس ساری سیٹنگ کا پوسٹ مارٹم کر چُکا ہوتا ۔ ”
” ہائے کیوں یاد کروا دیا ۔ اب میں اُس کے بغیر یہاں آنے پر گلٹی فیل کر رہی ہوں ۔ اُسکو بھی ساتھ لیکر آنا چاہیے تھا ۔ ”
” ہاں تاکہ جب وہ تمہاری اس گراؤنڈ میں دوڑ لگواتا تو کم از کم لیبر پین تو سٹارٹ ہوتی ۔ ”
” اسی وجہ سے میں نے بہت دُعائیں کی تھیں ۔ یا اللہ اس دفعہ بیٹی مل جائے ۔ لڑکے تو دو منٹ بھی ایک جگہ ٹک کر نہیں بیٹھ سکتے ۔ الماس آپا کی بیٹیاں کتنی کیوٹ ہیں ۔ نہ فضول کی اُچھل کود کرتی ہیں ۔ وہ تین ہیں اور ماں کو کوئی فکر نہیں ہوتی ۔ اور میرا ایک تھا ۔ جس نے مجال ہے کبھی مجھے کسی فنکشن میں سکون سے انجوائے کرنے دیا ہو ۔ ”
” اور جب اُس نے جوتوں والی پالش سے اپنا فیشل کیا تھا ۔ ”
ابسام کے یاد کروانے پر امثال کو اچھو لگتے لگتے بچا ۔
” ہائے میری قسمت! توبہ! پورا ہفتہ اُس کے پاس سے شو پالش کی بدبو آتی رہی تھی ۔ سارا چہرہ، سارے ہاتھ، بازو ۔۔۔ اور اس سارے کام میں اُسکو صرف تین منٹ لگے تھے ۔ تین منٹ کے لیے واصف اپنے کمرے سے نکل کر کچن تک آیا ۔ واپس گیا تو صاحب جی افریقی نژاد بنے بیٹھے تھے ۔ ”
” اور جب ٹی وی خراب کردیا تھا ؟ ۔۔ ”
” تم آج میرے زخموں پر نمک چھڑکنے کو ادھر لائے ہو ۔ وہ ٹی وی مجھے نہیں بھولتا ۔ ہائے اُسکی کلر ٹیوب اس قدر شاندار تھی ۔ یہ محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ آپ ٹی وی دیکھ رہے ہیں ۔ ایسا ہی لگتا جیسے انسانوں کو اصل میں اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں ۔ اور شیرو نے اُس ٹی وی کو کیسے خراب کیا ۔ یہ بات آج تک صرف ایک مسٹری ہے ۔ ”
ابسام خود بھی مُسکرا رہا تھا ۔ بولا ۔
” جو تمہارے ڈریسنگ ٹیبل پر ترتیب سے سجے پرفیومز ، لپ اسٹکس کے ساتھ ہوئی مجھے اُس پہ دلی افسوس ہے ۔ ”
امثال ہنستی چلی گئی ۔
” اُس نے میری ایک لپ اسٹک نہیں چھوڑی سب کو توڑ مروڑ کر سارے شیشے پہ ڈیزائن بنائے ۔ اُکتا کر میں نے وہاں سے ہر چیز ہٹا کر الماری کے سب سے اوپری خانے میں رکھی ہے ۔ کیونکہ دراز کی چابی لگی رہ جاتی تھی ۔ اُسکو موقع مل جاتا ۔ ”
” ان گُزرے تین سالوں میں شیرو نے تمہیں بہت تنگ کیا ہے ۔ جب ٹھیک نہیں ہوتا تو راتوں کو تمہیں سونے بھی نہیں دیتا ۔ کیا اس ساری مُشقت نے تمہیں بد دل کیا؟ کیا تم یہ سوچتی ہو کہ کاش یہ نہ ہی ہوتا ؟؟ ”
” استغفراللہ! ۔۔۔ کیا اول فول بول رہے ہو ۔ شیرو میری سب سے بڑی خوشی ہے ۔ وہ جتنا مرضی شرارتی ہے ۔ مجھے پھر بھی جان سے بڑھ کر عزیز ہے ۔ میں تو ماں ہوں ۔ تم بتاؤ نا! تمہارے آفس کے ڈاکیومنٹس پر اُس نے چائے گرا دی تھی ۔ کیا اس بات پہ تمہیں اُس سے نفرت ہوئی ؟ ۔۔ ”
” ابسام کی مسکراہٹ م اور گہری ہوئی ۔
” وہ ایک بہت ہی کانفیڈینشل فائل تھی ۔ جس کی اور کاپی بھی میرے پاس نہیں تھی ۔ اُس کے ضائع ہونے پر میرا نقصان بھی ہوا تھا ۔ مگر آئی مسٹ سے ۔۔۔۔ “مجھے شیرو سے پہلے دن جیسی ہی محبت ہے ۔ جو ہر گُزرتے دن کےساتھ زیادہ تو ہوتی ہے ۔ کم نہیں اُس کے بغیر میں اپنی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ ”
یونہی باتوں باتوں میں اُنہوں نے کھانا ختم کیا ۔ بیرا آکر برتن لے گیا ۔ اور اُن کو میٹھا دے گیا ۔
جب وہ فالودے کے پیالے سے لطف اندوز ہو رہی تھی ۔ وہی لڑکی وآپس آئی ۔ اُسکے پیروں کو پانی میں سے نکال کر تولیے سے خُشک کیا پھر ایک صوفے کی اونچائی کے سٹول پر رکھ کر دھیرے دھیرے مالش کرنے لگی ۔
امثال کو اتنا سکون آیا ۔ بے اختیار آنکھیں بند ہو رہی تھیں ۔ ابسام اُسکو صوفے کی پُشت سے ٹیک لگاتے دیکھ کر ہنستے ہوئے بولا ۔
” لگتا ہے ۔ میری پلاننگ کام کر رہی ہے ۔ تمہیں یہ سب اچھا لگ رہا ہے ۔ ”
” صرف اچھا لگنا بہت چھوٹا کمپلیمنٹ ہے ۔ مجھے تو لگ رہا ہے ۔ جنت میں بیٹھی ہوئی ہوں ۔ بیسٹ ڈنر ہے ۔ تھینک یو ۔۔۔ !! ۔۔۔ ”
” یو آر موسٹ ویلکم ۔۔ مگر ایک بات ابھی بتانی باقی ہے ۔ ”
” وہ کیا ؟ ۔۔ ”
” میں نے یہ کاٹج کرائے پہ لیا ہے ۔ ”
” اسکی کیا ضرورت تھی ۔ ”
” بس ایسے ہی، مجھے ایک ہفتے کی چھٹیاں ہیں ۔ سوچا آب و ہوا تبدیل کی جائے ۔ ”
” واہ ! کیا شاہانہ انداز ہے ۔ تم جو سوچ رہے ہو ناں ۔ تمہاری اور میری ماں نے وہ ہونے نہیں دینا ۔ ”
ابھی اُسکی بات منہ میں ہی تھی ۔ جب ابسام کے فون کی گھنٹی بجی ۔۔۔۔
” لو جی! ہوگئی دشمنوں کو خبر ۔۔۔۔ ”
اُس نے بڑبڑاتے ہوئے فون جیب سے نکالا اور سکرین امثال کے سامنے کی ۔۔۔
جس پہ امی حضور لکھا آرہا تھا ۔
اُسکی شکل دیکھ کر امثال کی ہنسی چھوٹ گئی ۔ چلو رانجھے!! فون اُٹھاؤ ۔۔۔ ”
ابسام نے اُسے مصنوعی گھوری سے نوازتے ہوئے فون کان سے لگایا ۔
” جی امی جی ۔۔۔ ”
” جی امی جی کے بچے! کوئی عقل ہے یا سارا سر دھوپ میں سفید کیا ہے ؟ ۔۔ ”
” امی میری عمر صرف اٹھائیس سال ہے ۔ اب سر وقت سے پہلے سفید ہوگیا تو میں کیا کروں ۔ ”
” بڑی باتیں آتی ہیں۔ کدھر ہے وہ ؟ ۔۔ ”
” کون ۔۔ ؟ ”
” تمہاری بیوی اور کون ۔ ”
” اوہ! وہ ۔۔۔۔۔ یہ میرے پہلو میں بیٹھی دانت نکال رہی ہے ۔ ”
امثال نے ایک ہاتھ اُسکے بازو پہ جڑا ۔۔
” کُچھ دن سکون سے نہیں نکال سکتے ہو ۔ ”
” میں تو بڑا خوش ہوں کہ یہ اپنی ماں کے گھر گئی ہوئی ہے ۔ میں بھی زرا آزادی سے چار دن انجوائے کرونگا ۔ مگر اسکو سمجھائیں ابھی آدھے گھنٹے پہلے فون کرکے بولی میرا فالودہ کھانے کو بڑا دل کر رہا ہے ۔ کہیں باہر لے جاؤ ۔ اب اگر بات نہ مانتا تب بھی اس نے طعنے مارنے تھے ۔ ”
” خالہ یہ جھوٹ بول رہا ہے ۔ امی سے پوچھ لیں ۔ کس نے کس کو فون کیا تھا ۔ ”
” امثال وہ تو پاگل ہے ۔ تم ہی خیال کر لیا کرو ۔ اللہ معافی دے! یہ دن یوں لور لور پھرنے کے نہیں ہیں ۔ ”
” امی فکر نہ کریں ۔ کسی فوڈ شاپ وغیرہ پہ نہیں ہیں۔ بڑی پُر سکون جگہ پہ لایا ہوں ۔ ڈاکٹر بھی قریب ہی ہے ۔ آج رات یہ یہیں پر ہے ۔ آپ خالہ کو بھی بتا دینا ۔ ٹینشن نہ لیں۔ میں ہوں ناں ۔ ”
” کیسے ٹینشن نہ لوں ۔ تم اپنی تو بات ہی نہ کرو ۔ بیوقوف کہیں کے ۔ ”
امثال نے دونوں بازو ہوا میں بلند کرکے بغیر آواز کے نعرہ مارا ۔۔۔ ” یاہو ۔۔۔۔ ”
جبکہ وہ مسکین سی صورت بنائے اپنی امی کو منانے کی کوشش کر رہا تھا ۔
” کیا بات کرتی ہیں ۔ ماں آپ نے ہی میری صلاحیتوں کی تعریف نہیں کرنی تو دوسرے لوگ کیا میری قدر کریں گے ۔ میرے آفس میں مجھ سے زیادہ ذمہ دار آدمی کوئی نہیں ہے ۔ اور آپ ہر دفعہ لا ہ پاہ کے میری ہتھ پکڑا دیتی ہیں ۔ دشمن آپکی بات سے بہت خوش ہو رہے ہیں۔ اُسکا اشارہ امثال کی جانب تھا۔
دوچار تسلی کے بول بولنے اور تین چار وعدے کرنے کے بعد ماتھے سے ان دیکھا پسینہ صاف کرتے ہوئے بولا ۔۔
” آج آپکے چھوٹے بیٹے کا انٹرویو تھا ۔ کیسا گیا ؟”
” اللہ جانے کیسا گیا ہے ۔ وہ تو ایسے تھکا ہوا آیا تھا جیسے انٹرویو دیکر نہ آیا ہو ۔ بلکہ کسی میراتھان میں دوڑ کر آیا ہے ۔ آتے ساتھ سو گیا پھر اُٹھ کر شام سے باہر نکلا ہوا ہے ۔ ابھی تک واپسی نہیں ہوئی ۔ ”
” ثمرہ کی کال آئی تھی ۔ کہہ رہی تھی ۔ امی کو بتا دینا کل مری سے واپس آرہی ہوں ۔ یاد سے میری ساس کو فون کردیں کہ ثمرہ کو دو ماہ کے لئے میکے بھیج دیں ۔ ”
” یہ لڑکی بس میری ناک کٹوائے گی ۔ دو ہفتے مری رہ کر بھی اسکا دل نہیں بھرا ۔ ساس اسکی بچاری بیمار عورت ہے ۔ گھر میں لاکھ نوکر سہی پر اسکی ضرورت سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ تم نے کہہ دینا تھا۔ آرام سے اپنے گھر بیٹھو ! جب خیر سے میرے فلک شیر کا بھائی یا بہن آجائے تو دیکھنے آجانا ۔ ”
” یہ نیک کام آپ خود ہی کیجئے گا ۔ میں تو کہتا ہوں ۔ بچاری کے پاس یہ جو چار دن آزادی کے ہیں ۔ اسکو گھومنے پھرنے دیں۔ جب عبداللہ کی سکولنگ سٹارٹ ہو گئی ۔ پھر کہاں ایسے آیا جایا کرے گی ۔”
” ابسام تم اپنے بہن بھائی کی صفائی دینے میں ہمیشہ سے ماہر ہو ۔ میں کونسی اُس کی دشمن ہوں ۔ پر انسان کو تھوڑا سوچ سمجھ سے کام لینا لینا چاہیے ۔ ساس کی طبیعت بہتر ہو تو جتنے دن مرضی چاہے ہماری طرف رہ لے ۔ کون روک رہا ہے ۔ اچھا! اب تم اُسکا خیال رکھنا میں فون بند کر رہی ہوں ۔ ”
” اپنی بہن کو بھی بتا دیجئے گا ۔ یہ نہ ہو دو منٹ بعد اُنکی آدھے گھنٹے کی کال آجائے ۔ میرا ڈنر درمیان میں ہی پگھل رہا ہے ۔ ”
” وہ بہت غُصے میں ہے ۔ کال نہیں کریں گی ۔ سیدھی چھترول کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ خُدا حافظ ۔۔ ”
ماں کو جواب میں اللہ حافظ بول کر فون صوفے پر رکھتے ہوئے بولا ۔۔۔
” ان لوگوں کے لیے میں نے اپنی اسلام آباد والی جاب چھوڑ دی ۔ اپنا ذاتی گھر کرائے پہ دیکر مستقل انکے ساتھ رہ رہا ہوں ۔ پھر بھی یہ لوگ راضی نہیں ہوتے ۔ ”
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...