یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے ۔۔ ؟؟ ۔۔ بڑے سنجیدہ اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں کیے گئے سوال کے جواب میں امثال میں اتنا بھی حوصلہ نہ تھا کہ سر اٹھا کر اسکی نظر سے نظر ہی ملا سکتی ۔۔۔۔ کتنی دیر گزر گئی دونوں کو خاموشی کی چادر اوڑھے بیٹھے ہوئے ۔۔۔ وہ سر جھکائے آنسو بہاتی رہی اور وہ گال کے نیچے ہاتھ رکھے بیٹھا اسکے جھکے سر اورگاہے بگاہے آنسو صاف کرنے کے لئے اٹھتے ہاتھ کی حرکت کو دیکھتا رہا ۔۔۔۔۔ ۔ “” جانتے ہو مجھے تم بالکل بھی پہلے والے ابسام محسوس نہیں ہوتے ہو ۔۔۔۔۔۔۔ بہت اجنبی سے لگتے ہو ۔ “” ۔۔۔۔ اس نے ماتھے کو مسلا ۔۔۔۔ اور بولا ۔۔ “” کیا اس لئے رو رہی ہو ۔۔۔ ؟؟ .. “” .. ۔۔ اس نے اپنا سر نفی میں ہلایا ۔۔۔۔ “” تو پھر کیوں روتی ہو ۔۔۔ ؟؟ …. “” .. ۔امثال نے دوپٹے کے پلو سے ناک رگڑی ۔۔۔۔ . اور بولی ۔۔۔ “” مجھے خود علم نہیں ہے کہ کیوں میں تمہارے سامنے کمزور پڑ جاتی ہوں ۔۔۔۔ حالانکہ روتی تو میں تب بھی نہیں تھی جب فرید کی اماں مارتی تھی ۔۔۔ تب آنکھ میں ایک آنسو تک نہ آیا تھا جس دن فرید نے دوسری شادی کی تھی ۔۔۔ نہ ہی اس دن رونا آیا جب اس نے طلاق بھیجی پھر تمہارے سامنے آتے ہی کیوں جی چاہتا ہے کہ اتنا روؤں کہ میرا وجود بھی ان آنسوؤں میں بہہ کر ختم ہو جائے ۔۔۔ “”” اس نے سراٹھا کر براہ راست ابسام کی آنکھوں میں دیکھا ۔۔۔۔۔۔ دونوں پلکیں جھپکائے بغیر ایک دوسرے کی نظروں میں دیکھتے رہے ۔۔۔۔۔ ابسام اپنی جگہ ساکت تھا ۔۔۔۔ یکدم اسکے وجود میں حرکت پیدا ہوئی کرسی چھوڑ کر کھڑا ہونے کے بعد اس نے امثال کو ہاتھ سے پکڑ کر کھڑا کیا ۔۔۔۔۔ اور سختی سے اپنے سینے میں بھینچ لیا ۔۔۔۔۔ امثال کے آنسو اب اسکی شرٹ بھگو رہےتھے اور وہ اسکے کان کے قریب سرگوشیاں کررہا تھا ۔۔۔۔ “” ایم سوسوری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو بیت گیا ہوا ہے جاناں! اسکو برا خواب سمجھ کر بھلا دو ۔۔۔۔۔ ۔۔۔”” اس نے امثال کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھاماں ۔۔۔ “” would you give me the houner to take you on a date
۔۔۔ رو رو کر سرخ ہوئے چہرے پر ابسام کی فرمائش پر ہنسی دھنک بن کر پھیلی ۔۔۔۔۔ اسکو ہنستا دیکھ کر جواب میں وہ بھی کھل کر مسکرایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “” سوچا جا سکتا ہے اگر کچھ پتا چلے کہ کہاں لیکر جاؤگے ۔۔۔۔ “” اس نے شرماتے ہوئے کہا تو ابسام اپنی جگہ حیرت سے جم گیا ۔۔۔۔ اور گہری نظروں سے اسکو غور سے دیکھنے لگا ۔۔۔۔ امثال مسلسل نظر چرا رہی تھی ۔۔۔ ہاتھ اٹھا کر ابسام کے چہرے کا رخ دوسری طرف کر دیا ۔۔۔۔ مگر ابسام کی خاموشی اور سنجیدگی میں کوئی فرق نہ آیا تو وہ خود کو اسکے بازوں کے حصار سے نکالنے کی کوشش میں دھمکی آمیز لہجے میں بولی ۔۔۔ “” اگراس طرح سےسے دیکھنا بند نہیں کروگے تو میں تمہارے ساتھ کہیں نہیں جاؤنگی ۔۔۔۔ “” مسلسل اپنے دائیں ہاتھ سے ابسام کے چہرے کو بائیں طرف موڑ کر رکھا۔۔۔۔۔ “” امثال کیا تم مجھ سے شادی کروگی ۔۔۔۔ ؟؟….. “” امثال کی خوبصورت ہنسی جلترنگ بکھیر گئی ۔۔۔۔ “” بدھو ! ابھی تو میں نے ڈیٹ کے لئے ہاں نہیں کیا ۔۔۔۔ تم پرپوزل پر بھی آگئے ۔۔۔ اب سمجھ میں آیا کہ تم ابھی تک کیوں سنگل گھوم رہے ہو ۔۔۔ یونہی پہلی ڈیٹ پر ہی پروپوز کرکے لڑکیاں دوربھگا دیتے ہوگے ۔۔۔۔۔ “”” اس نے امثال کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے اورمسکراتے ہوئے بولا ۔۔۔۔ “” اصل میں پہلا تجربہ ہے۔ اس لئے یہ غلطیاں کر رہا ہوں ۔۔۔۔۔ تم بس شادی کے لئے ہاں کر دو! آئی پرامس کہ تمہارے علاوہ کبھی کسی لڑکی کو پہلی ڈیٹ پر نہ ہی تو پروپوزل دونگا نہ ہی ” آئی لو یو “بولونگا ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ “” امثال نے اپنے بالکل قریب کھڑے اپنے ہینڈسم شوہر کو پہلی دفعہ نظر بھر کر دیکھا ۔۔ جو کہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے دلکشی سے مسکرا رہا تھا ۔۔۔ ۔۔۔ امثال نے سر اثبات میں ہلاتے ہوئے ہاں کر دی ۔۔۔۔۔۔۔ ابسام نے سر پیچھے کو گرا کر اونچی آواز میں ” یپی!!!!” بولا۔۔۔۔ اور امثال کے ماتھے پر بوسہ دیکر اسکو خودمیں چھپا لیا ۔۔۔۔۔۔ بعض دفعہ خوشیاں آنے میں تھوڑی تاخیر کر دیتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر آتی ضرور ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
!!!!! …….
وہ ابھی ابھی شاور لیکر نکلی تھی ۔ گیلے بال پُشت پہ بکھرے ہوئے تھے ۔ گرمی ہونے کے باوجود اُسکو سردی سی محسوس ہو رہی تھی ۔ اسلیے شانوں پہ چادر ڈال کر باہر صحن کے اُس کونے میں بچھی کُرسیوں میں سے ایک پہ آکر بیٹھ گئی جہاں دوپہر میں تو گھنی چھاؤں تھی ۔ پر اب جاتی ہوئی دھوپ کی شُعاعیں اپنی نرمی بکھیر رہی تھیں ۔ ابھی بیٹھی ہی تھی جب امی اندر سے کارڈ لیس فون لئے آئیں ۔ ” ابسام کی کال ہے ۔ بات کرلو ۔ مگر یاد رکھنا آج کوئی اُلٹا سیدھا پروگرام نہ بنانا نہ ہی میں گھر سے باہر جانے دونگی ۔ ” اُسکو فون دیتے ہوئے وآپس اندر چلی گئیں ۔ اُس نے گہرا سانس لیکر فون ہولڈ سے ہٹا کر کان سے لگایا ۔
” تمہیں بڑا شوق ہے نا مجھے میری ماں سے ڈانٹ پروانے کا ۔ ”
” تم تھیں کہاں پچھلے آدھے گھنٹے میں دس کالز کر چُکا ہوں ۔ ”
” ہاں تو انسان تھوڑا عقل کا استعمال کرلے ۔ اگلا بندہ مصروف بھی تو ہو سکتا ہے ۔ ”
” نہیں میں گھبرا گیا تھا کہیں تمہاری طبعیت نہ خراب ہو ۔ ”
” اگر ایسی کوئی بات ہوئی تو آپکی خالہ حضور اُسی وقت آپکو الرٹ کردیں گی ۔ اس لیے ابھی آرام سے اپنے کام کریں ۔”
” شیرو کیسا ہے ؟ زیادہ تنگ تو نہیں کرتا ۔ ”
” نہیں دن میں تو کھیلتا رہتا ہے ۔ بس کبھی کبھار ضد کرتا ہے گود میں اُٹھاؤں ۔ ”
” ابھی کدھر ہے ؟ ۔”
” اپنے ماموں کے ساتھ مٹر گشت کرنے نکلا ہوا ہے ۔ ”
” یار تم گھر واپس کب آؤگی؟ ”
” ظاہر بات ہے ڈلیوری کے بعد آؤنگی ۔ ”
” اور میں اُتنی دیر کیا کرونگا ؟ ”
” بھول رہے ہو تو یاد کروادوں ۔ مجھے امی کے یہاں آئے ہوئے ابھی صرف تین دن ہوئے ہیں ۔ اور تینوں دن تم کسی نہ کسی بہانے سے چکر لگا گئے ہو ۔ اسلیے خود کو زیادہ مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش نہ ہی کرو ۔ ”
” ایک کام تو کرو ۔ ”
” جی فرمائے ۔ ”
” باہر گیٹ پہ آؤ ۔۔”
“Absaam, don’t tell me that you are outside the house! ”
” یار میں نے کھانے کے لیے میز بُک کروایا ہوا ہے ۔ اگر نہ گئے تو دس ہزار کا نُقصان ہوگا ۔ ”
” امی مجھے ابھی وارن کرکے گئی ہیں کہ میں باہر کہیں نہ جاؤں ۔ ”
” تم اُن سے چوری آجاؤ ۔ ”
” ابسام میں تمہاری حرکتوں سے بڑی تنگ ہوں ۔ ”
” امثال ! دل میں تمہارے لڈو پھوٹ رہے ہیں ۔ اس لیے ڈرامہ بند کرو اور باہر آؤ ۔ ”
” واپسی پہ امی کی ڈانٹ تم ہی کھاؤگے ۔ ”
” اُس نے فون بند کیا ۔
اپنی جگہ سے اُٹھی اور دھیمے دھیمے قدم اُٹھاتی اندر چلی آئی ۔ اُسکو دیکھتے ہی امی نے کچن کے دروازے سے سر نکالا ۔
” ہو گئی بات ؟ کیا کہہ رہا تھا؟ ۔۔”
” ہاں جی ہوگئی ہے ۔ کُچھ خاص نہیں بس حال چال پوچھا ۔”
” تم یہ جوس پی لو اور ذرا لیٹ کر کمر سیدھی کرلو آج سارا دن چلتی پھرتی رہی ہو ۔ مجھے تو ڈر ہی آتا ہے ۔ کہا بھی ہے چلو آرام سے جاکر آپریشن کروا کر بچہ گھر لے آتے ہیں ۔ پر تمہیں کون سمجھائے اب ضروری تو نہیں نا کہ پہلا بچہ نارمل ہوگیا ہے تو دوسرا بھی نارمل ہو گا ۔ ڈاکٹر کی دی گئی ڈیٹ سے تین دن اوپر ہو چُکے ہیں ۔ اور یہاں ابھی تک کوئی ہل جُل ہی نہیں ہوئی ۔ ”
” مجھے کیا کہتی ہیں ۔ اپنی نواسی سے پوچھیں ۔ آپ بھی نری ڈرپوک ہیں ۔ لوگ آپریشن سے بھاگتے ہیں ۔ اور آپ نارمل کے نام سے بھاگتی ہیں ۔ ”
” مجھے بس تمہاری فکر ہے ۔ اللہ خیر خیریت سے یہ کام کردے! میں اپنی ذمہ داری پہ تمہیں گھر لائی ہوئی ہوں ۔ میں نہیں چاہتی اللہ معافی کوئی اونچ نیچ ہو ۔ ”
امثال نے آگے بڑھ کر اُنکو گلے لگایا اور گال پہ پیار کیا ۔
” اتنے سارے لوگوں کی دُعائیں میرے ساتھ ہیں، مجھے کُچھ نہیں ہو سکتا ۔ ”
” آمین ۔۔ جاؤ جاکر ذرا لیٹ جاؤ ۔ میں جوس بھیجتی ہوں ۔ ”
” جی اچھا ۔۔۔”
وہ کمرے میں آئی ۔ شال اُتار کر الماری میں لٹکی چادر نکالی ۔ اوڑھ رہی تھی جب نجمہ اندر آئی ۔
” آپ کہاں جارہی ہیں ۔ ”
” نجمہ کو امی نے امثال کی شادی کے بعد کام کے لیے رکھا تھا۔ دن میں وہ گھر کے کام کرتی اور رات سے پہلے اپنے گھر واپس چلی جاتی ۔ سترہ اٹھارہ سال کی بڑی باتونی لڑکی تھی ۔ جس کو بولتا دیکھ کر ہمیشہ امثال کو عاقب یاد آتا ۔ جو اب خیر سے گریجویشن مکمل کرکے ابسام کے توسط سے ایک ادارے میں نوکری کر رہا تھا۔
” اتنا اونچی اآواز میں گلا پھاڑنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ادھر ہی ہوں ۔ تھوڑی دیر کے لیے باہر جا رہی ہوں ۔ تم اُس کُرسی پہ بیٹھ کر دس گھونٹ میں یہ جوس کا گلاس ختم کرو اُس کے بعد باہر جاکر امی کو میرے جانے کی اطلاع کرنا ۔ یاد رکھو اُس سے پہلے شور کیا ناں تو اس عید پہ نیا جوڑا نہیں دلواؤنگی ۔ ”
” پر بڑی بی بی نے مجھ پہ بڑا غُصہ کرنا ہے ۔ ”
” کوئی بات نہیں یہ لو یہ پکڑو ۔”
اُس نے اپنے ہینڈ بیگ میں سے ہزار کا نوٹ نکال کر اُسکے ہاتھ پہ رکھا ۔
” گھر جاتے ہوئے راستے میں آئس کریم لیکر کھا لینا ۔ ڈانٹ کا سارا اثر ختم ہو جائے گا ۔ ”
” آپ نے مجھے رشوت خور بنا دیا ہوا ہے ۔ ”
” یہ رشوت نہیں ہے ۔ ٹپ ہے ٹپ ۔۔ اچھا اب میرے نکلنے کے بعد پچھلا دروازہ بند کرکے تین منٹ بعد کمرے سے نکلنا ۔ ”
وہ چادر سے اچھی طرح اپنے وجود کو ڈھانپنے کے بعد دوسرے دروازے سے نکلنے لگی تو نجمہ بولی ۔.
” جوس تو پیتی جائیں ۔ ”
” تم پیو میں باہر سے پی لونگی ۔ ”
اور آگے بڑھ گئی ۔ بغیر آواز پیدا کئے بیرونی گیٹ کا چھوٹا پٹ کھول کر گردن باہر نکالی ۔
ابسام کی گاڑی تھوڑی دور کھڑی تھی ۔ مگر اُسکو دیکھ کر آگے آکر گیٹ کے سامنے رُک گئی ۔
امثال کے بیٹھتے ہی اُس نے گاڑی آگے بڑھادی ۔ لبوں پہ مُسکراہٹ کھیل رہی تھی ۔ جینز کےاوپر کالی شرٹ میں وہ اپنے آدھے سفید سر کے ساتھ بڑا ہینڈسم لگ رہا تھا ۔
” تھینک یو فور کمنگ! ”
” مجھے تھینک یو مت بولو! بس واپسی پر جو تمہاری پٹائی ہونی ہے اُس کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار رکھو ۔ ”
” بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی ۔ اس وقت ہمارے سامنے بڑی خوبصورت شام ہے ۔ جسے ہم اور خوبصورت بنائینگے ۔ ”
” واہ واہ واہ ۔۔۔ !! کیا کسی شاعر کی روح آن سمائی ہے ۔ ”
” بس جی بیوی کی محبت نے شاعر بنا دیا ہے ۔ مگر کبھی غرور نہیں کیا ۔ ”
” ہم کہاں جارہے ہیں ۔ ”
” ڈیٹ پر ۔۔۔ ”