آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں ۔۔ ؟؟ ۔ بھلا ایسا کیسے ممکن ہے ۔۔ ؟؟ ۔ سبھی لوگ آج عید کے ڈنر پر ساجدہ کی طرف انوائٹ تھے ۔ تب الماس کی شادی کو دو سال ہو چکے تھے اور وہ اپنی ساس سسر اور بچے سمیت موجود تھی ۔ امثال کے دھدیال سے پھوپھیاں چاچو حتی کے دونوں طرف کی پوری فیملی جمع تھی جب عجاز صاحب نے سب کے سروں پر بمب پھوڑا ۔۔”” مجھے آپ سب لوگوں کی تھوڑی سی توجہ چاہئے ۔ “” جب وہ اپنی سیٹ سے کھڑے ہو کر بولے تو بچوں سمیت بڑوں کی توجہ بھی حاصل ہو گئی ۔۔ “” اصل میں امثال کے لئے ایک بہت اچھا رشتہ آیا ہے ۔ لڑکا سول انجینئر ہے میرے دوست کا بیٹا ہے ۔ “” وہ بول رہے تھے اور باقی وہاں موجود ہر بندے کو جیسے سانپ سونگھ گیا ۔۔ سب سے پہلے عمارہ کو بولنے کا ہوش آیا ۔۔ “” آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں ۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ۔۔ ؟؟ “” انہوں نے اس دفعہ براہ راست عمارہ سے ہی بات کی ۔۔ “” دیکھو عمارہ تم خود سمجھدار ہو تمہارے بیٹے کی تو ابھی تعلیم بھی مکمل نہیں ہوئی اور کیا گارنٹی ہے کہ کل کو کوئی نوکری کرے گا یا نہیں تم لوگوں کے پاس سوائے سکندر کی آمدنی کے اور تو کوئی زریعہ بھی نہیں ہر والدین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لئے بہتر سے بہترین کا انتخاب کریں ۔ ابسام اور امثال کا رشتہ آگے چل کر اتنا کامیاب ہوتا دیکھائی نہیں دیتا ۔ میاں بیوی میں سے کسی ایک کو تو سنجیدہ مزاج ہونا چاہئے ۔ یہاں ابسام امثال سے بھی دو ہاتھ آگے ہے ۔۔ “” سکندر اور ابسام تو دونوں سر جھکا کر عجاز کی باتیں سن رہے تھے مگر عمارہ نے تھل تھل بہتے آنسو پلو سے صاف کئے ۔ “” عجاز بھائی جب شادی کا وقت آئے گا ابسام ایسا تھوڑی رہے گا اور میرا بیٹا ماشااللہ بہت زہین ہے دیکھ لیجیے گا بہت توقی کرے گا ۔ “” اعجاز نے انہیں درمیان میں ہی ٹوک دیا ۔۔ “” سکندر عمارہ کو سمجھاو پاگلوں جیسی باتیں نہ کرے ۔ میں مہینے دو میں امثال کی شادی فرید کے ساتھ کر رہا ہوں ۔۔ تمہارے بیٹے کو اسٹبلش ہونے کے لئے سالوں درکار ہیں اور میں کسی سراب کی امید میں اپنی بیٹی کو نہیں بیٹھا سکتا۔۔۔ اور آپ سب لوگوں کے سامنے بات کرنے کا مقصد ہی یہی تھا کہ دوبارہ کوئی مجھ سے اس موضوع پر بات نہ کرے کیونکہ یہ میرا آخری فیصلہ ہے ۔۔ ‘” سکندر اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے تو عمارہ اور بچوں کو بھی چلنے کا اشارہ دیا ۔۔ ‘” عجاز بھائی آپکی ہر بات اپنی جگہ درست مگر اچھا ہوتا اگر آپ بچوں کی خوشی کا خیال کر لیتے ۔۔۔ “” سکندر کی بات پر اعجاز کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی ۔ “” سکندر امثال میری بیٹی ہے اور میں اسکی رگ رگ سے واقف ہوں اگر اس بات میں زرا سا بھی مجھے شک ہوتا ناں کے امثال کی مرضی باپ کے سوا ہوگی تو یوں تم سب لوگوں کے سامنے اس طرح کھل کر بات نہ کرتا ۔۔۔۔ “” باپ کے یہ افاظ امثال کے جلتے ہوئے دل پر ٹھنڈی برف بن کر ایسے گرے کے ہر جزبہ مر گیا ۔ اندر باہر پر سکون خاموشی چھا گئی ۔ رات کو سونے کے لئے اپنے کمرے میں آئی تو الماس نے اسے اسکا فون تھمایا جس پر پندرہ کے قریب ابسام کی مس کالیں آئی ہوئی تھیں ۔۔ اس نے سارے لاگ کلیئر کر دیئے سارے میسج پڑھے بغیر ڈلیٹ کرتے ہی اپنا فون ہمیشہ کے لئے بند کردیا ۔ساجدہ سر کھپا کھپا کر تنگ آگئیں تو خاموشی سے ہتھیار ڈال دئیے اور رہ گئی امثال تو اس نے باپ کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہی نہیں تھے ۔ اس دن صبح الماس نے اسکے کمرے میں آکر اطلاع دی کہ آج اسکا لہنگا خریدنا ہے تو امی اسکو ساتھ چلنے کا بول رہی ہیں جلدی تیار ہو کر آو ۔۔۔ امثال نے کوئی سوال جواب نہ کیا تیار ہو کر الماس اور امی کے ساتھ چل دی ۔۔۔ الماس نہ جانے کن انجان اور قدرے سنسان رستوں سے گاڑی بھگا رہی تھی ۔۔ مارکیٹ کا راستہ تو دوسری جانب تھا ۔ اور جب اس نے گاڑی روڈ پر ہی ایک طرف کھڑی کر دی اور وہاں سکندر ماموں کی گاڑی پہلے سے کھڑی دیکھ کر امثال کو اپنا گلا خشک ہوتا محسوس ہوا ۔۔۔ اس نے شکوہ بھری نظروں سے الماس کو دیکھا ۔ جس نے جواب میں کندھے اچکا دئیے ۔۔ امی الماس کے ساتھ آگلی سیٹ پر تھیں ۔ ابسام آکر پیچھلی سیٹ پر امثال کے برابر بیٹھ گیا ۔۔۔ کچھ لمحے وہ امثال کو اپنی سرخ ہوتی آنکھوں سے گھورتا رہا ۔۔ جبکہ امثال نے ایک دفعہ بھی اسکی طرف نہ دیکھا ۔۔۔ “” تو اب میں اتنا برا ہو گیا ہوں کہ نہ تم مجھ سے بات کرنا پسند کرو نہ ہی میری شکل دیکھنا چاہتی ہو ۔۔۔ “” ابسام کے لہجے میں غصہ تھا ۔”” تمہیں اس طرح سے یہاں مجھے روکنا نہیں چاہئے تھا ۔۔ “” وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولی تو جواب میں وہ پھٹ پڑا ۔۔۔”” فون میرا تم اٹھاتی نہیں ہو گھر تمہارے آنے کی مجھے اب اجازت نہیں ہے تو اور میں کیا کروں ۔۔۔ “” امثال مسلسل باہر دیکھ رہی تھی ۔ “” تم اچھی طرح جانتے ہو میرے ابو اپنا فیصلہ بدلنے والوں میں سے نہیں ہیں ۔ جو بات انہوں نے کر دی ہے وہی فائنل ہے ۔ اس حقیقت کو مان لو اور آئندہ مجھ سے کزن کی حثیت سے ملنے تم میرے گھر بھی آسکتے ہو مگر اور کسی تعلق کو حوالہ بنا کر مجھے یوں چوروں کی طرح نہ ملنا ۔۔۔۔ “” ابسام نے زور زور سے اپنا سر اثبات میں ہلایا ۔۔ “”تم باپ بیٹی تو بڑے با اصول لوگ نکلے بھائی ۔۔ ۔ اگر تمہیں یاد ہو تو مجھ سے تمہارا جو تعلق ماضی میں جوڑا گیا تھا وہ بھی تمہارے باپ کی مرضی سے جڑا تھا ۔ پھر وہاں تم نے اس سے کیوں نہیں پوچھا کیوں اب زبان سے پھر گیا ۔۔۔ “” دونوں اس بات سے بے پرواہ بولتے جارہے تھے کہ اگلی سیٹ بیٹھیں ساجدہ کتنی مشکل سے اپنی ہچکیاں دبا رہی تھیں ۔ ااس دفعہ اس نے ابسام کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا ۔۔۔ “” ابسام سکندر تمیز سے بات کرو ۔۔۔ اور کونسا میں تمہارے نکاح میں رہی ہوں ۔۔۔ منگنی تھی تمہارے ساتھ میری اور جانتے ہو منگنی کی شرعی کوئی حثیت نہیں ہوتی ۔ کیا میں نے آج تک کبھی تم سے کسی قسم کا کوئی جزباتی پن کا اظہار کیا ۔۔۔ جہاں تک رہی مزاق کی بات تو کزن ہونے کی حثیت سے وہ سب کے ساتھ میرا رویہ ہمیشہ ایک سا رہا ہے ۔۔ ہاں اگر کوئی ابھی بھی مجھے چننے کا حق دیتا تو میں اپنی خالہ کی بہو بننا پسند کرتی ۔۔۔ مگر یہاں ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے اسلئے آئندہ اس موضوع کو مت چھیڑنا ۔۔۔ “” اپنی بات بڑے تحمل اور مضبوط لہجے میں پوری کرنے کے بعد اس نے رخ موڑ لیا۔۔۔ ابسام تھوڑی دیر تک خاموشی سے اسکی کہی سب باتوں کو اپنے اندر جزب کرتا رہا ۔۔۔ بل آخر دھیمے لہجے میں بولا ۔۔ “” عاشق تو میں تمہارا تھا ہی نہیں کہ اب تمہاری شادی کے روز خودکشی کی کوشش کرو یا ناکام عاشقوں کے جیسے دکھی گانے سن سن کر روں ۔۔۔ پر جانتی ہو میری انا کو بہت ٹھس پہنچی ہے اور اس وقت شدید بلبلاہٹ کا شکار ہے ۔۔۔ جی چاہتا ہے کہ تمہیں جان سے مار دوں یا کم از کم ان لوگوں کو ہی کچھ کہہ سکوں جنہوں نے یہ نام نہاد شوشا چھوڑا تھا ۔۔۔ “” اپنے پیچھے گاڑی کا دروازہ اس قدر زور سے بند کرکے گیا امثال اپنی جگہ اچھل کر رہ گئی ۔ اگلے چند سیکنڈوں میں ابسام کی گاڑی دھول اڑاتی ہوئی منظر سے غائب ہو گئی ۔۔۔۔ امثال جو ابھی تک بڑی مضبوطی سے کھڑی تھی ایک دم سے پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فرید میں ہر وہ خوبی تھی جو اسکو ظاہری طور پر پر کشش بناتی ۔۔ وہ تنہا دو مربع اراضی کا مالک تھا ۔ دو عدد نئے ماڈل کی بڑی گاڑیاں اسکی زاتی ملکیت تھیں ۔ اچھا کھانا اعلیٰ اوڑھنا شادی کے شروع کے دنوں میں جتنی دفعہ وہ میکے آئی خوب پھل مٹھائیوں سے لدی ہوئی آتی۔ یہ اتنی بڑی گاڑی سمیت ڈرائیور کے چھوڑنے اور لے جانے آتی ۔ مگر فرید مصروفیت کہ بنا پر صرف ایک دفعہ ہی آیا ۔۔ امثال کے بے ساختہ قہقہے جن سے ماں کا دل ہمیشہ ڈولتا تھا اب دھیمی سی مسکراہٹ میں بدل گئے ۔ پہلے تو مہینے میں ایک چکر لگا ہی لیتی تھی پھر دو دو مہینے گزر جاتے فون تک نہ کرتی ماں باپ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر فون کرتے تو نوکر جواب دیتے بی بی فرید صاحب کے ساتھ باہر گئیں ہیں ۔ ماں باپ یہی سوچ کر پر سکون ہو جاتے کہ اپنے گھر خوش اور مگن ہے چلو جب فرست ہوگی ملنے آجائے گی ۔ جتنی دفعہ آتی اسکی صحت پہلے سے بھی مرجھائی ہوئی ہوتی مگر ہر دفعہ مسکر کر ماں باپ کو تسلیاں دیکر مطمئن کر جاتی ۔ ایک سال کا عرصہ یونہی سامنے نظر آنے والی حقیقتوں کو جھٹلاتے گزرا ۔۔۔ دوسری طرف عمارہ اور سکندر امثال کی شادی کے تین ماہ بعد ہی ملتان سے لاہور شفٹ ہوگئے تھے ۔ دونوں گھروں میں آنا جانا ملنا ملانا سب گئے دنوں کی باتیں ہو گئیں ۔ عمارہ اور سکندر نے تو کسی قسم کے فیملی فنکشن میں شرکت بھی مصروفیت کی بنا پر ترک کر دی ہوئی تھیں ۔۔ کبھی کسی جگہ فوتگی وغیرہ پر بھی بہنوں بہنوں کا سامنا ہو جاتا تو ایک دوسرے سے سلام بھی نظریں چراتے ہوئے لی جاتی ۔ الماس کا ویزہ آگیا تھا اور وہ بچوں سمیت میاں کے پاس جانے کی تیاریوں میں تھی ۔ امثال کے گھر فونپہ فون کیا مگر ہر دفعہ ملازم اٹھا کر کوئی نہ کوئی بہانا بنا دیتا ۔ پھر خود ہی دو دن بعد آگئی ۔ عام سا سوٹ تھا جسکا رنگ اڑ کر بد رنگ ہو چکا تھا ۔ پیروں میں عام سی گھر میں پہنی جانے والی چپل چہرے پہ بے رونکی اور آنکھوں میں دنیا بھر کی ویرانی ۔ ساجدہ نے بے اختیار روتے ہوئے اسے گلے سے لگا لیا ۔۔۔ “” یہ کیا اپنی حالت بنا لی ہوئی ہے ۔ ؟؟ “” اس نے ماں سے نظر چرائی ۔ “” مجھے اپنا کوئی جوڑا دیدیں یا الماس آپا کا کوپرانا جوڑا پڑا ہو تو وہ دیدیں میں ابو کے گھر آنے سے پہلے بدل لیتی ہوں آپ بھی انکو کچھ مت بتائیے گا ۔۔ اصل میں فرید کی اماں نے مجھے آنے کی اجازت دی تو میں نے جلدی میں کپڑے بھی نہ بدلے کہ کہیں پھر وہ اپنا فیصلہ نہ بدل لیں ۔۔ کبھی کبھی وہ بہت سخت رویہ اپنا لیتی ہیں ۔ “” وہ ایک ٹرانس میں بول رہی تھی اور ساجدہ کے آنسو بھل بھل بہہ رہے تھے ۔ “” مجھے پتا تھا تم وہاں خوش نہیں ہو ۔۔ “” ساجدہ ہچکیوں کے درمیان بولیں تو امثال نے تیزی سے انکے ہونٹوں پر اپنا ہڈیاں نکلا ہاتھ رکھ دیا ۔ “” نہ امی پلیز ایسا نہ بولیں میری اتنے عرصے کی محنت پر پانی پھر جائے گا امی میری ساس کو میری پہلی منگنی کا علم نہیں ہے اگر بھنک بھی پڑی نا تو میری نیک نامی پر دھبہ لگ جائے گا ۔۔ اور یقین مانیں میں خوش ہوں ۔ سب کو خوش رکھنے کی پوری کوشش بھی کرتی ہوں۔ مگر وہ لوگ پھر بھی ناراض ہی رہتے ہیں ۔ اصل میں جو انکا مطالبہ تھا وہ پورا کرنے سے میں نے انکار کر دیا اسلئے ناراض ہوکر فرید نے دوسری شادی کر لی ۔ مگر آپ فکر نہ کریں تھوڑا غصے والا ہے کبھی کبھی ہاتھ اٹھا لیتا ہے مگر دل کا برا نہیں ہے ۔۔ “” وہ تو جیسے بہت عرصے بعد بیٹھی تو دل کا سارا غبار نکا کر اٹھتی مگر دروازے کے قریب کو کھڑا کھڑا لہرا کر گرا تھا ۔ وہ امثال کا باپ تھا ۔ اس دن انکو پہلا ہارٹ اٹیک آیا تھا ۔ الماس کا جانا فلحال ملتوی ہوگیا ۔ سب کی توجہ اعجاز کی طرف ہوگئی جو ایک دن میں ہی بوڑھے ہوگئے ۔ کچھ بہتر ہوکر گھر آئے اور فرید کے باپ جو کہ انکا اپنا دوست رہا تھا اپنی بیٹی کا قصور جاننا چاہا تومعلوم ہوا فرید چاہتا تھا کہ امثال اپنے باپ کی جائیداد میں اپنا حصہ طلب کرے جسکو سنتے ہی امثال نے قطعاً انکار کر دیا ۔ اسکو اسکے انکار کا مزا چکھانے کے لئے اپنی گرل فرینڈ سے شادی کر لی تھی ۔ اور اب اس گھر میں امثال کی حثیت نوکروں سے زیادہ نہ تھی ۔ اور یہ سب امثال کے انکار کا نتیجہ تھا اگر اچھی بیوی ثابت ہوتی تو بھلا فرید کو کیا پڑی تھی دوسری شادی کرنے کی اوپر سے شادی کو سوا سال ہونے کو آیا تھا اپر ابھی تک امثال کی جانب سے کوئی خوش خبری نہ ملی جبکہ دوسری بیوی سے فرید کو آتے ہی اچھی خبر ملی تھی ۔ امثال کے ساس سسر نے رات کو فون پر اعجاز اور ساجدہ کو انکی بیٹی کی نالائقیاں گنوائیں اور دن چڑھتے ہی فرید کی طرف سے رجسٹری سے طلاق وصول ہوگئی ۔ جس باب کو اعجاز نے بڑی خوشی سے شروع کیا تھا اور انکی بیٹی نے اپنا خون دے کر لکھا تھا وہ یونہی خاموشی سے ختم ہوگیا ۔الماس امریکہ چلی گئی ۔ ٹیپو اپنی پڑھائی میں سر دےکر اور بھیخاموش ہوگیا ۔ اور امثال ساری ہمتیں مجتمہ کرکے اپنے ماں باپ کو سنبھالنے لگی ۔ کبھی کبھی سب سے چھپ کر رو بھی لیتی ۔ ایک دن امی سے بولی ۔۔ “” کیا میں نوکری کرکے کسی ہوسٹل ممیں رہ لوں ۔۔ ؟؟ “” اسکی عدت پوری ہوئے بھی مہینے گزر چکے تھے ۔ ساجدہ ا سکی بات پر ہقہ بقہ رہ گئیں ۔ “” ایسی بات کیوں کی تم نے ۔۔۔ ؟؟ “” وہ بے بسی سے ماں کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔۔ “” اصل میں لوگ تو یہی سمجھتے ہوں گے نہ کہ میرے جیسی لاپرواہ اور ماہی منڈا سی لڑکی کی شادی اگر ٹوٹی ہے تواس میں میرا ہی قصور ہوگا مجھے سنجیدگی سے رشتے نباہنے آئے ہی نہیں ہونگے ۔۔ اس لئے اگر میں ہاسٹل میں رہوں گی تو کسیکو کیا پتا چلے گا لوگ پوچھیں تو کہہ دیا کرنا کہ سسرال میں ہے ۔۔۔ “” ساجدہ نے اپنی اس بیٹی کی شکل دیکھی جسکو شادی سے پہلے انڈہ تک ابالنا نہ آتا تھا ۔ جس نے اپنے کپڑے تک نہ کبھی خود سے دھوئے نہ استری کئے تھے ۔ جو کھانا بھی ماں سے نکلوا کر کھاتی ۔ آج سارے گھر کی صفائیاں وہ دن اگنے سے پہلے کر دیتی ۔ ماں باپ بھائی کے کپڑے دھونے اور استری کرنے کے بعد انکے کمرے میں تیا ر ملتے ۔ کھانا تینوں وقت کا عین ٹائم پر تازہ گرم گرم ملتا ۔ وہ سر سے پاوں تک بدل گئی ہوئی تھی ۔ کبھی سارا سرا دن گزر جاتا اسکی آواز سننے کو نہ ملتی ۔ ساجدہ جب بہت دیر تک اسکو اک ٹک غور سے دیکھتی رہیں تو اس نے انکا بازو کھینچ کر متوجہ کیا ۔۔ “” امی آپ نے جواب نہیں دیا ۔۔ “” ساجدہ چونک کر کھڑی ہوئیں ساتھ ہی اسکا بھی بازو پکڑ کر کھڑا کر لیا اور لیجا کر اعجاز کے سامنے کھڑا کر دیا اور بولیں ۔۔ “” امثال آج میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں کہ مجھے تم پہ فخر ہے کہ تم میری بیٹی ہو ۔۔ تمہاری شادیکرتے وقت غلطی ہم لوگوں سے ہو گئی تھی ان لوگوں کو پرکھنے میں اور میں تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میری بیٹی اتنی معاملہ فہم ہے اپنے مسائل خود ہی خاموشی سے حل کرتی رہی مگر تم یہ بھول گئیں کہ صبر بھی اک حد تک کیا جاتا ہے اچھا ہوا ان لوگوں نے خود سے طاق بھیج دی کیونکہ میرا اور تمہارے ابو کا تمہیں وہاں واپس بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔ تمہیں سر جھکا کر شرمندگی کی زندگی گزارنے کی کوئی ضرورت نہیں ایسا تو وہ کریں جو غلط تھے میری جان تمہارا تو کہیں کوئی قصور ہے ہی نہیں ۔۔ تم ہاسٹل میں رہنا چاہتی ہو رہ لوتمہارے ابو داخلہ کروا دیں گے تم نوکری کرنا چاہتی ہو کر لو مگر لوگوں کے ڈر سے نہیں جو بھی کرنا ہے اپنی مرضی اور خوشی کے لئے کرو ۔۔۔۔لوگوں کی ہمیں کبھی کوئی پرواہ نہیں رہی ۔ “” ساجدہ بولرہی تھیں اور اعجاز اس دوران خاموشی سے سر جھکا کر کھڑی امثال کا جائزہ لیتے رہے ۔۔ پھر نرمی سے اسے مخاطب کرتے ہوئے اپنے برابر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔ وہ ویسے ہی چپ چاپ ان کے پاس بیٹھ گئی ۔ اعجاز نے شفقت سے اسے اپنے ساتھ لگایا ۔۔ “” نوکری کرنا چاہتی ہو تب بھی کوئی مسئلہ نہیں مگر اگر آگے پڑھنا چاہو تب بھی میں تمہارا داخلہ کر وا دیتا ہوں ۔ “” اس نے نفی میں سر ہلایا ۔ “” فرید کی امی کہتی تھیں کہ میں بہت کوڑھ مغز ہوں کہیں کوئی چیز رکھ دوں تو یاد نہیں رہتا کہاں رکھی تھی ۔ کھانا پکانے کھڑی ہوتی ہوں تو نہ جانے کہاں کھو جاتی ہوں ۔ کہ کھانا جل جائے تو مجھے بدبو تک نہیں آتی ۔۔ ابو سچ بتا رہی ہوں وہ یہ سب باتیں جھوٹ میں کہتی تھیں مجھے فرید سے ڈانٹ پڑوانے کے لئے مگر ابو مجھے لگتا ہے اب ان کی کہی باتیں سچ ہوتی جا رہی ہیں ۔ میں اب کام پہ اور زیادہ توجہ دیتی ہوں ۔ اور پڑھائی تو مجھ سے اب کبھی نہیں ہو سکے گی ۔ میں تو نوکری بھی نہیں کر پاونگی ۔ کیونکہ یہ دونوں کام ذمہ داری والے ہیں ۔ اور ابو جی مجھے نہیں لگتا کہ میں کوئی ذمہ داری اٹھانے کی اہل بھی ہوں ۔ وہ تو لوگوں کی باتوں کی وجہ سے میں نے سوچا نوکری کے بہانے منظر سے ہٹ جاتی ہوں ۔۔ “” اسکی باتوں نے اعجاز اور ساجدہ کے دل پر خنجر چلائے تھے مگر دونوں ہی اسکے سامنے نارمل رہے اپنے آنسو اندر ہی پی گئے ۔۔ کچھ دیر خود کو حوصلہ دے لینے کے بعد اعجاز گلا صاف کرتے ہوئے بولے ۔۔ “”میں نے کل گھر واپسی پر دیکھا تھا یہ جو پیچھلی گلی میں ایک نیا کوچنک سینٹر کھلا ہے ناں وہاں پر پرائمری کے بچوں کے لئے میتھ کی ٹیوٹر کے لئے کی ضرورت ہے اور میری بیٹی کا تو سپیشل سبجکٹ ہی یہی رہا ہے ۔۔ میرا تو خیال ہے وہیں جوائن کر لو کسی غریب کا بھلا ہو جائے اور اگر نہیں تو پھر بیسٹ آئیڈیا ہے کہ صنعت زار میں داخلہ لے لو نئے دوست بناو گزرے وقت اور لوگدونوں کو بھول جاو ۔۔۔ “” اس نے صاف انکار کرنا چاہا مگر ابو نہ مانے ۔۔ “” تم یہ جو وقت گھر پہ سارا وقت خاموشی سے کاموں میں مگن گزارتی ہو نہ یہ تمہارے زئہن کو گھن آلود کر رہا ہے ۔۔ تمہارے پاس اگر کوئی اور آئیڈیا ہے تو بتاو ورنہ یہ جو دو مشورے میں نے دئیے ہیں ان میں سے ایک چن لو ۔۔ “” وہ تھوڑی دیر سنجیدگی سے ابو کا چہرہ دیکھتی رہی ۔۔۔ پیچھلی گلی میں تو قدم رکھے بھی زمانے بیت گئے تھے ۔ پیچھلی گلی کا نام سن کر ہی آنکھوں کے سامنے کئی یادیں اور چہرے گھوم گئے ۔ اس نے دھمیے سے اپنا فیصلہ سنا دیا ۔۔۔ “” صنعت زار ۔۔۔ “”
۔ ایک دن ٹیپو کے ساتھ جاکر ساری معلومات لے آئی انٹیریر ڈیزائننگ میں چھ ماہ کا ڈپلومہ کورس کروایا جا رہا تھا ۔ اسی میں داخلہ کروا آئی ۔ مصروف تو پہلے بھی رہتی تھی ۔ اب اور بھی مگن ہو گئی ۔ زندگی آہستہ آہستہ کسی ڈگر کو چل ہی پڑی تھی ۔ فارغ وقت میں ٹیپو کی فرمائش پر نئے نئے کھانوں کے تجربے ہونے لگے ۔۔ فون پر الماس کو گھر میں پردے اور کارپٹ کے کلر سکیم پر مشورے دئیے جانے لگے ساجدہ کی کوششوں سے جو اسے وقتاً فوقتاً کبھی لاڈ سے کبھی سختی سے کھانے کی چیزیں کھلاتی رہتی تھیں اب دوبارہ سے چہرے پہ گلابی پن چھلکنے لگا تھا ۔ اسکے لباس بھی ساجدہ خود نہ لاکر تیار کرواتیں تو اسے خود ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی ۔ اس طرح کی چھوٹی چھوٹی کئی اور باتیں ساجدہ الماس کے سامنے شئیر کرکے رو پڑتیں کہ اسے اپنی ہم عمر لڑکیوں کے جیسے بننے سنورنے کا کوئی شوق و چاہت ہی نہ رہی تھی ۔ الماس جواب میں انہے تسلی دیتی کے وقت کے ساتھ ٹھیک ہو جائے گی ۔ جیسے بھی تھا زندگی پر سکون ہو ہی گئی تھی کہ لاہور سے ایک پتھر آیا اور طوفان ہی اٹھا گیا ۔
عمارہ اور سکندر نے ساڑھے تین سال بعد انکے گھر کی دہلیز پار کی اور ان تین سالوں کی مسافت تیس سالوں کے برابر محسوس ہوئی تھی ۔ آتے ہی انہوں نے سیدھے لفظوں میں کہا۔۔ “” اعجاز بھائی ہمارے بیٹے کی امانت آپ کے گھر تھی جو غلطی سے آپ نے غلط پتے پہ بھیج دی ۔ آج ہم اسے آپ سے دوبارہ مانگنے آئے ہیں ۔ ہمیں ہاں یا نہ نہیں چاہئے بس یہ بتا دیں کہ ہم بیٹی کو لینے کس دن آئیں ۔ ۔ “” ان لوگوں کی اعلیٰ ظرفی پر اعجاز کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ ساجدہ تو جیسے پھر سے دنیا پہ آگئیں ۔ الماس ،ٹیپو،ثمرہ ،اور واصف کی تو جیسے عید ہو گئی ۔ مگر امثال نے سنا تو ہتھے سے اکھڑ گئی ۔ اسکا اس رشتے سے صفا چٹ انکار سب کی منتوں سے بھی نہ بدلا لاڈ پیار سے سمجھانے سے ڈانٹنے سے پر اس پر کسی کی کسی بات کا کوئی اثر نہ ہوا ۔۔۔ وہ نرم ھو پیار کرنے والی امثال ضدی اور ہٹ دھرم ہو گئی ۔ اسکی فکر نے انہی دنوں اعجاز کا آئی سی یو کا دوسرا چکر لگوا دیا ۔۔ اور کسی کے آگے نہ ہارنے والی امثال باپ کے پیار کے آگے ہار مان گئی ۔ اپنی برادری اور خاندان کے لوگوں کی موجودگی میں امانت اپنے اصل حق دار کو مل گئی ۔ جہاں کا ٹکڑا تھا آخر وہیں آلگا ۔ مگر وہ دونوں اک دوسرے کے لئے اجنبی ثابت ہوئے ۔ امثال نے شادی والے روز کپڑے تو پہن لئے مگر میک اپ کروانے سے انکار کر دیا۔۔ مہندی تک نہ لگائی ۔ تو دوسری طرف بھی ساری فیملی خوب بن ٹھن کر رعب سے آئی سوائے اس کے جسکا نکاح تھا ۔ ابسام نے نہ گلے میں مالا پہنی نہ ہی نیا سوٹ یا جوتے پہنے وہی کئی دفعہ کا پہنا سادہ سا شلوار سوٹ پہن کر نکاح پڑھوانے آگیا ۔۔ امثال کے کانوں تک کئی جملے پہنچے کسی نے کہا “” لگتا نہیں کہ ابسام اپنی رضامندی سے آیا ہے ۔۔ “” کوئی بولی ۔۔ “”ارے تم نے دیکھا وہ کتنا سنجیدہ اور چپ بیٹھا تھا ۔ “” پر ایک فقرہ اسکی دور ونزدیک کی تقریباً ہر کزن نے آکر اس سے کہا تھا ۔۔ “” ہائے اللہ امثال تمہارا دولہا تو اتنا سوبر اور باوقار لگ رہا ہے ۔۔۔ “” اور اس سوبر اور باوقار نظر آنے والے دولہے نے نکاح کے وقت ڈیڑھ کڑوڑ کا حق مہر نہ صرف لکھوایا بلکہ اپنی جیب سے حق مہر کا چیک نکال کر نکاح خواہ کے سامنے رکھ دیا ۔ سارے حال میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں ۔ اور جب وہ چیک امثال تک آیا توہین کی شدت سے چہرہ خون رنگ ہو گیا ۔ جی چاہا بھرے مجمے میں جاکر اس چیک کے ٹکرے ٹکرے کرکے اسکے منہ پہ مار آئے ۔ مگر ایسا کر نہ پائی ۔ اور رخصت ہوکر لاہور آگئی ۔ جہاں اسکا دل و جان سے استقبال ہوا ۔ یہ الگ بات کے دولہا سارے منظرکے دوران سرے سے ہی غائب رہا پھر بھی امثال نے ایک نظر تک نہ اٹھا کر دیکھا ۔ گھر پہ محمان نہ ہونے کے برابر ہی آئے تھے ورنہ زیادہ ہال سے ہی چلے گئے تھے ۔ اور جو مہمان تھے وہ بھی نیچے ہی سماگئے ۔ اوپر والا پورا پورشن صرف امثال اور ابسار کے حولے کر دیا ۔۔ وہ کمرے میں بند ہو گئی اور دولہا میاں سیٹنگ روم میں بیٹھے مزے سےسی این این پہ آنے والا خبر نامہ دیکھتے دیکھتے وہیں سو گئے ۔ اور دو دن بعد اپنا بیگ پکڑے واپس اسلام آباد ڈیوٹی پہ جا حاضری دی ۔ دونوں کی جو بیگانگی اور لا تعلقی پہلے دن تھی شادی کے چھ ماہ بعد تک بھی وہ قائم تھی ۔
☆☆☆☆☆☆☆
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...