٭تعارف اور پس منظر
انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسے میں ’’ شکوہ‘‘ پڑ ھی گئی تو وسیع پیمانے پر اس کی اشاعت ہوئی۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ ’’شکوہ‘‘ کا انداز اور لہجہ قدرے گستاخانہ ہے۔چنانچہ اس کی تلافی کے لیے، اور یوں بھی شکوہ ایک طرح کا سوال تھا جس کا جواب اقبالؔ ہی کے ذمے تھا، ڈیڑھ سال بعد انھوں نے ’’جوابِ شکوہ ‘‘لکھی۔ یہ ۳۰ نومبر ۱۹۱۲ء کو ایک جلسۂ عام ( بہ سلسلہ امدادِ مجروحینِ بلقان) میں پڑ ھی گئی جو نمازِ مغرب کے بعد باغ بیرون موچی دروازہ منعقد ہوا تھا۔
میاں عطاء الرحمن کی روایت ہے کہ جب اقبال کے مد ّاحوں کوخبر ملی کہ انھوں نے ’’شکوہ‘‘ کا جواب لکھا ہے تو اس خبر سے ہر طرف جوش امید پھیل گیا اور شاید اسی سے فائدہ اٹھانے کی غرض سے مولانا ظفر علی خاں زمیندار والوں نے موچی دروازے کے باہر باغ میں ایک عظیم الشان جلسے کا اہتمام کیا اور اعلان ہوا کہ اس میں اقبال کی نظم ہوگی ۔ شایقین کا ایک جمّ غفیر باغ کے پنڈال میں جمع ہوا ۔ میں خود اس جلسے میں موجود تھا۔ اقبال نے نظم پڑھی۔ہر طرف سے بے پناہ داد ملی۔ ایک ایک شعر نیلام کیا گیا اور ایک گراں قدر رقم بلقان فنڈ کے لیے جمع ہو گئی۔ ( سیارہ ،اقبال نمبر :۱۹۷۷ئ،ص ۱۰۹)
’’شکوہ‘‘ کی طرح زیر مطالعہ نظم کے ترجمے بھی کئی زبانوں میں ملتے ہیں۔ ضرار احمد کاظمی آرٹسٹ نے اس نظم کو بھی مصور کیاتھا۔
نظرثانی میں اس کے بعض اشعار میں ترمیم کی گئی اور کئی بند نظم سے خارج کر دیے گئے۔ بعض بندوں کی ترتیب بھی بدل دی۔ سرود رفتہ میں چارخارج شدہ بند ملتے ہیں۔
’’ جوابِ شکوہ‘‘ اور ’’ شکوہ‘‘ کے درمیان ڈیڑ ھ سال کا وقفہ ہے۔ یہ عرصہ دنیا کے مسلمانوں کے لیے نئے مصائب اور نئی پریشانیاں ساتھ لایاتھا۔ جنگ ہاے بلقان (۱۳- ۱۹۱۲ئ) اور کان پور میں شہادتِ مسجد کے دردناک واقعات نے ہندی مسلمانوں کو افسردہ اور دل گرفتہ کر دیا تھا۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے :
یورپ کی مسیحی طاقتیں ترکی کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کا زیادہ سے زیادہ حصہ خصوصاً ترکی کا یورپی علاقہ جو صدیوں سے عثمانیوں کی مسلم سلطنت کا حصہ تھا ،اس سے چھین لینا چاہتی تھیں۔ اکتوبر ۱۹۱۲ء میں بلقانی ریاستوں ( بلغاریہ، یونان، سرویااور مونٹی نگرو) نے ترکی پر حملہ کر دیا۔در پردہ برطانیہ ان کی پشت پناہی کر رہا تھا۔ بلقانی ریاستوں کی تقریباً تین لاکھ متحدہ فوج کے مقابلے میں ترکی سپاہیوں کی تعداد ایک لاکھ تھی۔ مزید برآں بلقانی فوجیں تربیت و تنظیم کے اعتبار سے بھی ترکوں پر فائق تھیں۔ اس نازک موقع پر ترکی فوج کے یہودی اور عیسائی سپاہیوں نے میدانِ جنگ سے راہِ فرار اختیار کی۔ان کی غداری سے ترکوں کی پوزیشن اور بھی کمزور ہو گئی۔ بلقانی فوجیں ترکوں کو پے در پے شکست دیتی ہوئی ۸ نومبر کو سالونیکا پر قابض ہو گئیں۔ جلد ہی انھوں نے بحیرہ ایجین کے تمام عثمانی جزیروں پربھی قبضہ کر لیا۔
۳۰ مئی کو صلح نامۂ لندن پر دستخط ہوئے جس کی رو سے ترکی کو اینوس اور میڈیا کے درمیانی خطے کے مغربی جانب سب علاقے چھوڑنے پڑے۔ بحیرۂ ایجین کے جزائر سے بھی دستبردار ہونا پڑا۔ اسی اثنا میں مال غنیمت کی تقسیم پر بلقانی اتحادیوں کے درمیان جھگڑا ہو گیا۔ ترکی نے موقع غنیمت جان کر ادرنہ، ڈیموٹیکا اور قرق کلیسا واپس لے لیے۔ تاہم اس جنگ میں سلطنت عثمانیہ کا کم و بیش ساڑھے پانچ لاکھ مربع میل رقبہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اس سارے عرصے میں جنگِ بلقان کی مختلف لڑائیوں اور معرکوں کی تفصیل ہندستانی اخبارات میں شائع ہوتی رہیں ۔ ہندی مسلمان اپنے ترک بھائیوں کی شکست پر بہت مضطرب ہوئے۔ ترکوں کی مدد کے لیے چندہ جمع کرنے کی مہمیں چلائی گئیں۔ ( جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے ’’جوابِ شکوہ‘‘ کے موقع پر انجمن حمایتِ اسلام کے جلسے میں جو رقم جمع ہوئی، وہ بھی بلقان فنڈ میں دے دی گئی۔)
شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ نے ڈیڑھ لاکھ کی خطیر رقم جمع کرکے بھیجی ۔ مدد حاصل کرنے کے لیے ترکی سے ہلال احمر کا ایک وفد یہاں آیا۔ مولانا ظفر علی خاں نے ترکی کا دورہ کیا۔ ہندستان سے ہزاروں مسلمان ترکوں کے شانہ بشانہ لڑائی کے لیے ترکی جانا چاہتے تھے مگر انگریزوں نے اجازت نہ دی۔ البتہ مولانا محمد علی جوہرؒ نے ڈاکٹر مختار احمد انصاری کی قیادت میں ایک طبی وفد ترکی بھیجا جو خاصی رقم بھی ساتھ لے کر گیا۔
فکری جائزہ
یہ نظم درحقیقت’’شکوہ‘‘ کا جواب ہے۔ ’’ شکوہ‘‘ میں مسلمانوں کی حالتِ زبوں بیان کی گئی تھی اور اس کی وجہ پوچھی گئی تھی۔ پھر وہاں مایوسی اور دل شکستگی کی ایک کیفیت تھی، ’’جوابِ شکوہ‘‘ اس کیفیت کی توجیہ ہے اور ’’ شکوہ‘‘ میں اٹھائے جانے والے سوالات کے جوابات دیے گئے ہیں۔ ’’ جوابِ شکوہ‘‘ میں اسلامی تاریخ کے بعض واقعات اور جنگِ بلقان کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں۔ نظم کے موضوعات و مباحث کا مطالعہ و تجزیہ کرتے ہوئے ہم آسانی کی خاطر اسے ذیل کے عنوانات میں تقسیم کریں گے:
۱: شکوہ کی اثر انگیزی بند: ۱-۵
۲: جوابِ شکوہ کی تمہید بند: ۶
۳: حالت زار کے حقیقی اسباب بند ۷- ۱۷
۴: اسلاف سے موازنہ بند: ۱۸- ۲۵
۵: پرامید مستقبل بند: ۲۶- ۳۱
۶: دعوتِ عمل بند: ۳۲- ۳۶
٭تمہید، شکوہ کی اثر انگیزی:
انسان نے اللہ تعالیٰ سے جو شکوہ کیا تھا ،پہلے پانچ بندوں میں ( جو نظم کا تمہیدی حصہ ہے) اس کا ردّ ِ عمل اور اثرانگیزی بیان کی گئی ہے۔ اقبال بتاتے ہیں کہ میرا نالۂ بے باک اس قدر بھر پور اور پر تاثیر تھا کہ آسمانوں پر بھی اس کی بازگشت سنی گئی۔ آسمانوں اور اس کے باسیوں (فرشتے، چاند، ستارے، کہکشاں وغیرہ) میں میرے گستاخانہ شکوے سے ایک کھلبلی مچ گئی اور یہ ان کا موضوع سخن ٹھہرا۔ چونکہ عام حالات میں ایک انسان سے یہ توقع نہیں ہوسکتی کہ وہ اللہ کے سامنے ایسی گستاخی کی جرأت کرے ، اس لیے اہل آسمان حیران تھے کہ کون نادان خدا کے حضور شوخی کا مرتکب ہورہا ہے مگر جلد ہی انھیں معلوم ہو گیا کہ یہ حرکت کرنے والے حضرتِ انسان ہیں۔ فرشتوں کو اس بات کا افسوس تھا کہ پستی کایہ مکین بات کرنے کا سلیقہ بھی نہیں جانتا۔
انسان کے متعلق فرشتوں کا یہ طرز فکر بعینہٖ وہی ہے جو تخلیق آدم ؑکے وقت تھا، جب فرشتے انسان کی نیابتِ الہٰی پر حیران ہوئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ خلیفہ دنیا میں فتنہ و فساد اور خوں ریزی کا مرتکب ہوگا۔ جہاں تک شوخی و گستاخی کا تعلق ہے، اس ضمن میں عابد علی عابد کہتے ہیں: ’’علامّہ مرحوم سے بہت پہلے صوفیہ اپنی شطحیات( صوفیوں کی لاف زنی) میں اس سے زیادہ گستاخانہ انداز تخاطب اختیار کر چکے ہیں‘‘۔ ( شکوہ، جوابِ شکوہ: ص ۵۶)
بہر حال انسان کے نعرۂ مستانہ کا اثر یہ ضرور ہوا کہ خود اللہ تعالیٰ نے ’’شکوہ‘‘ کے حسنِ ادا کو سراہا اور پھر اس کا جواب مرحمت فرمایا:
شکر شکوے کو کیا حسنِ ادا سے تونے
ہم سخن کردیا بندوں کو خدا سے تو نے
٭جوابِ شکوہ کی تمہید:
چھٹے بند میں خدا کی طرف ’’ شکوہ‘‘ کا حوالہ دے کر جواب دیا گیا ہے۔’’شکوہ‘‘ میں شاعر نے مسلمانوں کی بدحالی و بے چارگی کا سبب خدا کے عدم لطف و کرم کو قرار دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم تو عنایات و مدارات کرنے پر تلے بیٹھے ہیں ، کوئی سائل ہے اور نہ امیدوار لطف و کرم یعنی طلب صادق موجود نہیں، ورنہ انسان کی ہر آرزو پوری ہو سکتی ہے ۔ اگر مسلمان اپنی نیت میں اخلاص اور عمل میں کھرا پن پیدا کریں تو خاکستر سے بھی ایک نیا جہان پیدا ہو سکتا ہے۔’’ شان کئی‘‘سے مراد کیانی خاندان کے بادشاہوں جیسی عظمت اور شان و شوکت ہے۔ اس خاندان نے ایک طویل عرصے تک ایرانِ قدیم پر حکومت کی ۔ آخری مصرعے: ’’ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں‘‘میں اشارہ ہے کولمبس ایسے باہمی اور مہم جو لوگوں کی طرف ہے۔ کولمبس نے محض اپنی مہم جوئی کی بدولت ایک نئی دنیا یعنی براعظم امریکا دریافت کیا۔ یہ بند اللہ کے جوابِ شکوہ کی تمہید ہے۔
٭حالت زار کے حقیقی اسباب:
اب ( بند ۷- ۱۷) مسلمانوں کی حالت زبوں کے حقیقی اسباب کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ اقبال کے نزدیک اس کا بنیادی سبب مذہب سے بے اعتنائی ہے ، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی صفوں میں فکری اعتبار سے الحاد و کفر اور لادینیت کی تحریکیں پروان چڑ ھ رہی ہیں۔ وہ اپنے فرائض ادا کرنے سے جی چراتے ہیں اور ان کے اندر مذہب کی حقیقی روح ختم ہو گئی ہے۔
’’شکوہ‘‘ میں مسلمانوں نے دہائی دی تھی کہ ہم نے باطل کو صفحۂ ہستی سے نیست و نابو د کرکے قرآنی تعلیمات پھیلانے اور کعبۃ اللہ کو آباد کرنے کی عظیم الشان خدمت انجام دی ہے ۔ یہاں ( ۱۱ ویں بند ) میں اس دعوے کی تردید کی جارہی ہے۔ استفہامیہ انداز کی وجہ سے تردید کا رنگ طنزیہ ہے۔ درحقیقت نظم کے اس حصے میں اقبال ؒ نے امت ِ مسلمہ کی فکری و اعتقادی گمراہیوں ، کج رویوں اور عملی کمزوریوں کو بڑے مؤ ثر اندازمیں بے نقاب کیا ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کی صدیوں کی غلامی اور اس کے زیر اثر پروان چڑ ھنے والی ذہنی حالت کا کچا چٹھا کھولا ہے اور ایک ہمدردڈاکٹر کی طرح اس کا آپریشن کیا ہے۔ یہ مسلم دورِ انحطاط کا مرثیہ ہے۔ خاتمے پر جب اقبال یہ کہتے ہیں:
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟
تو پڑ ھنے اور سننے والا تڑپ کر رہ جاتا ہے۔ اس حصے میں اقبال نے ابراہیم علیہ السلام اور آزر کی تلمیحات استعمال کی ہیں ۔ آزر ، حضرت ابراہیم ؑ کے باپ تھے جو قرآن حکیم کے مطابق بت پرست تھے( سورۃ الانعام: ۷۴) اور عام روایت کے مطابق بت گر بھی۔ ( یہ لفظ ’’ذ‘‘ کے بجاے ’’ز‘‘ سے لکھنا صحیح ہے کیونکہ قرآن پاک میں ’’ز‘‘ سے مرقوم ہے)۔
نویں بند میں:’’کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے‘‘سے تہجد اور سحر خیزی کی اہمیت جتلا نا مقصود ہے۔ قرآن پاک میں ہے: اِنَّ نَاشِئَۃَ اللَّیْلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطْأً وَ اَقْوَمُ قِیْلًا (سورۃ المزمل: ۶)بلاشبہہ شب کا اٹھنا نفس کو خوب ہی روندنے والا ہے اور نہایت ہی درست ہے اس وقت کا ذکر۔
اقبال مہاراجا سرکشن پرشاد کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:’’ صبح چار بجے ، کبھی تین بجے اٹھتا ہوں ۔ پھر اس کے بعد نہیں سوتا۔ اس وقت عبادتِ الہٰی میں بہت لذت حاصل ہوتی ہے‘‘ ۔دراصل سحر خیزی اقبال کا معمول تھا اور وہ دیارفرنگ میں بھی اس معمول پر قائم رہے :
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی
امت ِ مسلمہ میں سحر خیزی سے عمومی غفلت پائی جاتی ہے۔ اس لیے وہ کم نصیب اور محروم ہے : ’’کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی‘‘ اور ۱۱ ویں بند میں :’’ہاتھ پر ہاتھ دھر ے منتظر فردا ہو‘‘کا معنی خیز اشارہ تقدیر و توکل کے اس ناقص تصو ّر کی طرف ہے، جس نے مسلمانوں کو بے عمل بنا دیا اور وہ ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ رہے۔ خانقاہی تصو ّف انسان کو عضو معطل بناتا ہے، اس لیے اقبال اس کے سخت خلاف ہیں:
کہ رسم خانقاہی ہے فقط اندوہ و دل گیری
٭اسلاف سے موازنہ:
مسلمانوں کی زبوں حالی کے سلسلۂ بیان میں ان کی انفرادی و اجتماعی خامیوں کو مزید اجاگر کرنے کے لیے نظم کے اگلے حصے ( بند: ۱۸- ۱۹) میں اقبال ؔنے مسلمانوں کے اسلاف کا ذکر چھیڑا ہے ۔ ان کے نزدیک ہمارے اسلاف اپنے اخلاق و کردار، علم و فضل اور گفتار و کردار کے اعتبار سے اس قدر بلند مرتبت اور عظیم تھے کہ ہمارے او ر ان کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے۔
بند ۲۳- ۲۴ میں اقبال نے جدید تعلیم اور اس کے زیر اثر پیدا ہونے والی معاشرتی اور مجلسی خرابیوں پر تنقید کی ہے ۔یہ صورت حال منطقی ہے۔ توجیہ یہ کی ہے کہ اگر بیٹا نکھٹو ہو تو میراث سے عاق کر دیا جاتا ہے ۔ مسلمانوں کے ساتھ یہی کچھ ہوا ہے۔ ان کی موجودہ حالت کا اسلاف سے موازنہ کرتے ہوئے ایک شعر میں نتیجے کو بڑی خوب صورتی سے بیان کر دیا ہے:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
آخری ( ۲۵ واں بند) ایک انتباہ ہے مسلمانوں کے لیے۔ یہاں اقبال نے قدرت کے تکوینی نظام کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ دورِجدید نے دنیا کی ہرقوم کو آزمایش کے پل صراط پر لا کھڑا کیا ہے ۔ اسے بخیر و عافیت عبور کرنے کے لیے قومی بیداری اور اجتماعی کردار کی ضرورت ہے۔ جو قوم عہد ِ نو کے تقاضوں کا ساتھ نہیں دے سکتی ، زمانہ اسے برق بن کر بھسم کر دیتا ہے اور امت ِ مسلمہ بھی اس آزمایش سے دو چار ہے۔ اس سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہونے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مسلمان اپنے ایمان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سی پختگی ، عزم اور یقین پیدا کریں، تاکہ زمانے کی برق و آتش زنی ان کے لیے گل وگلزار ثابت ہو۔
٭پر امید مستقبل:
’’شکوہ‘‘ مسلمانوں کے انحطاط کا مرثیہ تھا ’’ جوابِ شکوہ‘‘ میں ان کی پستی اور حالت زبوں کومزید تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس سے دلوں میں مایوسی کی کیفیت پیدا ہونا قدرتی ہے۔ اس کیفیتِ یاس کو زائل کرنے کے لیے اقبال مسلمانوں کو اطمینان دلاتے ہیں کہ ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ رہنا مردانگی نہیں ۔ بند ۲۶- ۳۱ میں انھوں نے مختلف مثالوں اور تاریخی واقعات کے ذریعے اس امر پر زور دیا ہے کہ :
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
جس دور میں اقبال نے یہ نظم لکھی، عالم اسلام میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جو مسلمانوں کے لیے بظاہر مایوس کن تھے، مثلاً: ۱۳- ۱۹۱۲ء میں ریاست ہاے بلقان نے ترکی پر حملہ کر دیا:(ہے جو ہنگامہ بپا یورش بلغاری کا) اور ترکی کو پے در پے ہزیمت اٹھانی پڑی۔ اسی طرح ایران بھی غیر ملکی طاقتوں کی گرفت میں تھا۔ چند سال پہلے روس اور برطانیہ نے ایک معاہدہ کرکے ایران میں اپنے اپنے حلقہ ہاے اثر متعیّن کر لیے تھے۔ اب ایران پر روسی دباؤ بڑھتا جارہا تھا۔ اقبال نے مسلمانوں کی ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو اس صورت حال سے دل شکستہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ قوموں کی تاریخ میں نشیب و فراز تو آتے رہتے ہیں۔ یہ نتیجہ اقبال نے تاریخ سے اخذ کیا ہے اور اس کے لیے ان کے پاس کچھ وجوہات ہیں:
۱۔ اسلام دوسرے مذاہب سے اور مسلمان دوسری اقوام سے مختلف حیثیت کے مالک ہیں۔ اسلامی تحریک کے پس منظر میں سیکڑوں برس کی جدو جہد ، کشمکش اور طاقتور عوامل کارفرما ہیں۔ ’’پھل ہے یہ سیکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا‘‘سے مراد ہے کہ نخل اسلام کی نشوونما اور ارتقا میں ان بے شمار فرزندان توحید کی کوششوں کو دخل ہے جنھوں نے علوم و فنون، حکومت و سیادت اور جنگ و جدل کے میدان میں مستحکم روایات قائم کیں اور تاریخ میں اَن مٹ اور یادگار نقوش چھوڑے ۔
۲۔پھر عصر حاضر میں یورپ کی تباہی کا سبب قوم پرستی(Nationalism)کی لعنت ہے مگر اسلام کے نزدیک قوم پرستی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ملت اسلامیہ خود کو کسی ایک جغرافیائی خطے یالسانی اور نسلی گروہ تک محدود نہیں سمجھتی اس کے نزدیک:’’ہر ملک ، ملک ماست کہ ملک خداے ماست‘‘۔
۳-ملت اسلامیہ کو فنا ہو جانے کا اس لیے بھی کوئی خطرہ نہیں کہ اس کے پاس جذبۂ عشق ( بانگِ درا) جیسی قیمتی متاع ہے اوردوسری قومیں اس سے محروم ہیں۔
۴۔ بسااوقات انسان کی ظاہر بین نگاہیں احوال وواقعات کی تہ میں چھپے ہوئے حقیقی عوامل کا پتا لگانے سے قاصر رہتی ہیں۔ کسی مسلم علاقے پر کوئی آفت ٹوٹتی ہے تو مسلمان سمجھتے ہیں کہ شاید وہ نیست و نابود ہو رہے ہیں۔ اقبال کے نزدیک یہ عین ممکن ہے کہ ظاہر ی آفت ان کے لیے کسی وقت باعثِ رحمت ثابت ہو۔ اس کا پس منظر یوں ہے کہ ۶۱۶ھ میں چنگیز کی فوجوں نے سمرقند، بخارا اور ماوراء النہر کے علاقوں کو روند ڈالا، شہر اجڑ گئے اور شہروں کے شہر پیوندِ زمین ہوگئے۔ پھر ایک زمانے میں تاتاریوں نے ہلاکوخان کی سر کردگی میں بغداد پر حملہ کرکے اسے تباہ کر دیا مگر خدا کی شان کہ ہلاکو خان کے بیٹے اباقاخان نے ایک مسلمان بزرگ خواجہ شمس الدین کو اپنا وزیر اعظم اور اپنے بیٹے کا اتالیق مقرر کیا۔ جب اس کا یہ بیٹا نکودارخان بادشاہ بنا تو اس نے اسلام قبول کر لیا اور اپنا نام احمد خان رکھا۔ پھر اس کے جانشینوں میں غازان خان اسلام لایاتو اس کے ساتھ دس ہزار تاتاری بھی مشرف بہ اسلام ہوئے اور اسلام کو ایران کا شاہی مذہب قرار دیا گیا۔ تاتاریوں کے اسلام لانے سے مسلمانوں کی بڑی دھاک بیٹھ گئی ۔ مغلیہ خاندان نے جو تاتاریوں کی نسل سے تھے، ہندستان میں مسلم عظمت و سطوت کے ان مٹ نشانات یادگار چھوڑے:’’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘‘ کا اشارہ اسی طرف ہے۔
۵۔مسلمانوں پر جو قیامتیں ٹوٹ رہی ہیں، وہ ایک طرف ان کے ایمان کی آزمایش ہے تو دوسر ی طرف ان کے جذبۂ عمل کے لیے مہمیز۔ یہ مصائب و آفات انھیں خوابِ غفلت سے جھنجوڑنے کا باعث ہوں گے اور وہ ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ دشمن کے مقابلِ صف آرا ہوں گے۔
ان وجوہات کی بنا پر اقبال مسلمانوں کے درخشاں مستقبل کے بارے میں بہت پرامید ہیں ۔ کہتے ہیں:
رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنّابی ہے
یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے
مسلمان عالم مایوسی میں سر چھپاتا پھرتا تھا مگر اقبال کے نزدیک یہ ہمت ہار کر بیٹھ رہنے کا نہیں ، میدانِ عمل میں نکلنے کا وقت ہے۔ وہ مسلمانوں کو ان کے اہم فرض کی طرف متوجّہ کرتے ہیں:
وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے
٭دعوتِ عمل:
درخشاں مستقبل سامنے ہے اور مقصد زندگی( نورِ توحید کا اتمام) بھی واضح، چنانچہ اب اقبال مسلمان کو دعوت عمل دیتے ہیں۔ ( بند ۳۲- ۳۶) اقبال کی پکار یہ ہے کہ اے مسلمانو! ہماری قو ّت کا راز جذبۂ عشق میں پوشیدہ ہے ، جس کا سرچشمہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے۔ بند ۳۳- ۳۴ میں اقبال نے اس حقیقت پر زور دیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی ہی باعث ِ کون و مکاں ہے ۔ اشارہ ہے اس قول کی طرف جو حدیث ِ قدسی کے طور پر معروف ہے:
لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ… اگر آپؐ نہ ہوتے تو میں افلاک کو تخلیق نہ کرتا۔
اس لیے اے مسلمانو! تم بھی رسول خداؐ کا پیغام اطراف عالم میں پھیلانے کی بھرپورکوشش کرو۔ ۳۴ ویں بند کے آخری شعر کی تلمیح قرآن پاک کی سورۃ اَلَمْ نَشْرَحْ سے لی گئی ہے ۔معنی ہے :’’اے نبیؐ، ہم نے تیرے ذکر کو رفعت و بلندی بخشی…‘‘۔
اقبال کی اس دعوتِ عمل کا مرکزی نکتہ چونکہ عشق رسولؐ ہے ، اس لیے نظم کے آخری حصے میں جذبۂ عشق سے سرشار وہی والہانہ کیفیت موجود ہے جو آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرکرتے ہوئے اقبال پر عموماً طاری ہوتی تھی۔ مؤذّنِ رسول حضرت بلالؓ ،عشق رسولؐ کا ایک مثالی پیکر تھے اور ان کا تعلق افریقہ کی سرزمینِ حبش سے تھا۔ اس لیے تذکرۂ حبّ ِ رسولؐ کے ضمن میں بلالی دنیا( حبش) کا ذکر بھی آیا ہے۔ ’’کالی دنیا‘‘ کاکنایہ حبش (Ethopia) کے لیے ہے ۔ اس بند ( ۳۵) میں یہ اشارہ بھی ہے کہ سر زمین افریقہ میں لوگ جوق در جوق حلقہ بگوشِ اسلام ہورہے ہیں۔ آخری بند میں حق کے لیے جد وجہدوعمل پر زور دیتے ہوئے لڑائی کے ہتھیاروں کی نشان دہی بھی کی ہے۔ اقبال کے نزدیک راہِ حق کے مجاہدوں کو عقل و عشق کے اسلحے سے لیس ہونا چاہیے۔ ان کا مقصود خلافت ِ الہٰی ہے ۔ ان کا سب سے بڑا ہتھیار ’’حبّ ِ رسولؐ ‘‘ہے:’’کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں‘‘کا مفہوم ہے کہ اگر مسلمان آپؐ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرکے صحیح معنوں میں مسلمان بن جائے تو پھر تقدیر بھی اس کے سامنے سر نگوں ہو جائے گی۔ یہ دنیا ہی نہیں، پوری کائنات اس کے تصرف میں ہوگی۔ یعنی:
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کارآفریں ، کارکشا ، کارساز
فنی تجزیہ
’’جوابِ شکوہ‘‘ مسدس ترکیب بند کی ہیئت میں ۳۶ بندوں پر مشتمل ہے۔ یہ بحرِ رمل مثمن مخبون مقطوع میں ہے۔ بحر کے ارکان یہ ہیں:فَاعِلَاْتُنْ فَعِلَاْتُنْ فَعِلَاتُنْ فِعْلُن
اس نظم کے فنی پہلو کی توصیف میں بھارت کے معروف نقاد ڈاکٹر عبدالمغنی لکھتے ہیں:
’’شاعری کی زبان و بیان کا استعمال اس ملی نظم میں اس شان سے ہواہے جس کا اظہار کسی بھی انسانی موضوع کی فنی نقش گری میں ہو سکتا ہے۔ ’ جوابِ شکوہ‘ ایک بڑی کامیاب ، حسین ، پر اثر اور اہم شاعرانہ تخلیق ہے ، جس کے ارتعاشات ’خضرراہ‘ اور ’طلوعِ اسلام‘سے آگے بڑ ھ کر ’ ساقی نامہ‘ ،’ذوق و شوق‘ اور ’ مسجد قرطبہ‘ کے مصرعوں اور شعروں میں محسوس کیے جائیں گے‘‘۔
٭انداز اور لہجہ:
نظم کا انداز دوسر ی طویل نظموں کے برعکس براہِ راست خطاب کا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمان امت یا بحیثیت مجموعی امتِ مسلمہ کو خطاب کرتے ہوئے ’’ شکوہ ‘‘ کا جواب دیا گیا ہے۔ براہِ راست انداز تخاطب کی وجہ سے نظم میں علامتی اور ایمائی رنگ بہت ہی معمولی ہے اور اسی لیے’’ شمع اور شاعر‘‘ جیسی نظم کے برعکس ’’ جوابِ شکوہ‘‘ میں تغزل کا پہلو تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ ۳۶بندوں کی طویل نظم میں صرف ۲،۳ بند ایسے ہیں جن میں تغزل کی جھلک ملتی ہے۔
نظم کا لہجہ اول تا آخر یکساں نہیں ہے۔ بعض حصوں میں لہجہ دھیما اور فہمایش کا ہے۔ جہاں مسلمانوں کی فکری اور عملی گمراہیوں کی نشان دہی کی گئی ہے ، وہاں تنقیدی لہجہ ہے۔ کہیں اس تنقیدی لہجے میںطنزیہ رنگ بھی جھلکتا ہے ۔ خصوصاً بند ۱۱ اور ۱۴ میں، جہاں استفہامیہ انداز میں ان خوبیوں کو، جنھیں ’’ شکوہ‘‘ میں مسلمان نے اپنے کارناموں (credit)کے طور پر پیش کیا تھا ، شاعر مسلمان کی خامیاں(dis-credits)بنا کر پیش کرتا ہے۔ بعض حصوں ( بند ۱۳،۱۵،۱۶،۲۰)میں تاسف کا لہجہ پایا جاتا ہے ۔ اسی طرح جہاں اللہ تعالیٰ’’جوابِ شکوہ‘‘ کا آغاز کرتے ہیں تو اس سے ایک شان جلالی ٹپکتی ہے۔ ۲۶ویں بند سے شروع ہونے والے حصے میں مایوس اور غم زدہ مسلمانوں کو تسلی و اطمینان دلانے اور پریشان کن حالات میں ان کی ڈھارس بندھانے والا لہجہ ملتا ہے۔ ۳۲ ویں بند سے آخر تک جہاں اقبالؔ مسلمانوں کو دعوتِ عمل دیتے ہیں ، نظم کا لہجہ قدرے پرجوش ہے ۔ مگر یہاں جوش و خروش کی وہ کیفیت نہیں جو مثلاً’’ طلوعِ اسلام‘‘ کے آخری حصے میں پائی جاتی ہے، اسے دھیمے جو ش سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
٭ڈرامائی کیفیت:
نظم کے پہلے پانچ چھے بندوں میں اہل آسماں پر ’’ شکوہ‘‘ کا ردّ ِ عمل دکھایا گیا ہے۔ یہاں ایک طرح کی ڈرامائی کیفیت موجودہے۔ شاعر نے پیرگردوں ،‘ سیاروں، چاند ، کہکشاں اور فرشتوں کی زبانی اس ڈرامے کے مختصر مکالمے کہلوائے ہیں۔ ان مکالموں اور گفتگو کا تحیر اور استفہامیہ انداز ڈرامائیت کو بڑ ھا دیتا ہے۔ ڈرامے کے کلائمکس پر ایک آواز آتی ہے ، جو اہل ِ آسماں کے سوالات کا جواب ، ایک طویل مکالمے کی صورت میں دیتی ہے۔ یہ آواز اس ڈرامے کا آخری اور سب سے اہم کردار ہے۔
٭دیگر فنی محاسن:
اندازِ بیان ، لہجے اور ڈرامائی کیفیت کی خوبیوں کے علاوہ ’’ جوابِ شکوہ‘‘ بعض ایسے فنی محاسن سے مزین ہے جو اسے حسن ِ بیان کا شاہ کار بناتی ہے۔ چند پہلوملاحظہ ہوں:
الف: حسن بیان : جس سے ’’ شکوہ‘‘ کیا جائے، جواب میں اس کی طرف سے بالعموم عذر و معذرت پیش کی جاتی ہے مگر ’’ جوابِ شکوہ‘‘ کاحسن بیان ملاحظہ ہو کہ اس میں ’’ شکوہ‘‘ کرنے والے پر اس کا شکوہ لوٹا دیا گیا ہے۔ گویا شکوہ کرنے والے کا منہ بند کردیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں خصوصاً مندرجہ ذیل اشعار اور مصرعے قابلِ ملاحظہ ہیں۔ ان میں پوشیدہ طنز کی کاٹ اور اثر انگیزی کا جواب نہیں :
شور ہے ہوگئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود؟
وضع میں تم ہو نصارا تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟
ایک جگہ موجود ہ مسلمانوں کا موازنہ ان کے اسلاف سے کیا ہے۔ یہ شعر ایجازو جامعیّت کا ایک خوبصورت نمونہ ہے:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
مسلمانوں کے شکوے کے جواب میں یہ ایک شعر ہی کافی ہوتا کیونکہ استدلال لاجواب ہے:
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر قابلِ میراثِ پدر کیوں کر ہو
ب: تصویر کاری اور تشبیہ کی مثالیں ’’ جواب ِشکوہ ‘‘ میں بہت منفرد ہیں:
کشتی ِ حق کا زمانے میں سہارا تو ہے عصرنو رات ہے، دھندلا سا ستارا تو ہے
نخل اسلام نمونہ ہے برومندی کا
پھل ہے یہ سیکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا
ج: چند نئی تراکیب جو ’’ جوابِ شکوہ‘‘ میں ملتی ہیں : صہیلِ فرسِ اعدا، مردمِ چشمِ زمیں، غیریک بانگِ درا، برق طبعی، شعلہ مقالی، قدسی الاصل، داناے رموزِ کم وغیرہ۔
د:صنعت گری کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
۱ ۔ صنعت تلمیح:
تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا
______
رفعت ِ شانِ رفعنا لک ذکرک دیکھے
______
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
۲۔ صنعت طباق:(دو ایسے الفاظ کا استعمال جو معنی کے اعتبار سے ایک دوسرے کی ضدہوں):
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ ، دین بھی ایمان بھی ایک
۳۔ صنعت مراعاۃ النظیر:
حرم پاک بھی ،اللہ بھی،قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
۴۔ صنعت ترافق: ( جس مصرع کو چاہیں ، پہلے پڑ ھیں معنی میں کوئی فرق نہیں آتا):
غافل آداب سے، سُکّانِ زمیں کیسے ہیں؟
شوخ و گستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں؟
۵۔ صنعت ترصیع: (دو مصرعوں کے زیادہ یا تمام الفاظ کا ہم قافیہ ہونا):
سیکڑوںنخل ہیں ، کاہیدہ بھی بالیدہ بھی ہیں
سیکڑوں بطن چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں
۶۔ صنعت تاکید الذم بما یشبہ المدح : (ہجو یا مذمت کی تاکید ایسے لفظوں سے جو مدح سے مشابہت رکھتے ہوں):
ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا
لاکے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا
۷۔ صنعت اطراد:(جس کی مدح یا مذمت کی جائے ،اس کے نام کے ساتھ اس کے باپ کا نام بھی مذکور ہو) :
بت شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا براہیم پدر اور پسر آزر ہیں
_______
’’جوابِ شکوہ‘‘ فکرو خیال کی جدت کے ساتھ فنی اعتبار سے بھی اقبالؔ کا حسین و جمیل تخلیقی پیکر ہے۔ تاثرکی شدت اور گہرائی نظم کے ہر حصے میں موجود ہے ۔ اختتام خصوصاً بہت بامعنی ، بلیغ اور بے نظیر ہے۔ آخری شعر :
کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
پوری نظم کا حاصل ہے۔ امت ِ مسلمہ کے شکوے کے جواب میں صرف یہی شعر ہی کافی ہو سکتا تھا۔