راقم نے یہ کتاب ۱۹۷۰ء میں لکھی تھی مگر اس کی اشاعت چار برس بعد دسمبر ۱۹۷۴ء میں ممکن ہو سکی۔ اس کے دیباچے میں ، میں نے لکھا تھا:
’’ کلام اقبال اور ان کی بعض نظموں کی شرحیں اور خلاصے بازار میں دستیاب ہیں۔ ایک خاص نقطۂ نظر سے‘ ان میں سے بعض کی افادیت سے انکار نہیں مگر یہ شرحیں نظموں کے تنقیدی مطالعے کی ضرورت کو پورا کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ میرے نزدیک نظموں کے تاریخی و سیاسی پس منظر، تہذیبی و ثقافتی عوامل اور فنی محاسن کی نشان دہی کے بغیر ،ان کا صحیح مطالعہ ممکن نہیں جبکہ مذکورہ شرحیں اس پہلو سے قطع نظر صرف لفظی و معنوی تشریح پر زوردیتی ہیں۔
’’ زیر نظر کتاب اقبال اور ان کی طویل نظموں کو سمجھنے اور سمجھانے کی ایسی کوشش ہے جو ایک طالب علم نے طالب علموں کے لیے کی ہے اور اسی لیے اس میں تشریح کا انداز بھی نظر آئے گا۔ البتہ یہ بات ملحوظِ خاطر رہی کہ مطالعہ مربوط، منضبط اور متوازن ہو ، غیر متعلق بحث نہ کی جائے اور نہ کوئی اہم پہلو رہ جائے۔
’’ سیاسی اور تاریخی پس منظرکا طویل حصہ ایک طرح سے ( سواے’والدہ مرحومہ کی یادمیں‘کے) تمام نظموں کا پس منظر ہے ۔ اس کے باوجودکہ ہر نظم کے شروع میں اس کا پس منظر بھی شامل کر دیا گیاہے، کسی بھی نظم کا مطالعہ کرتے ہوئے ابتدائی طویل پس منظر پر نگاہ ڈال لینا مفید رہے گا‘‘۔
اس کتاب کی پذیرائی ، بفضلہ تعالیٰ میری توقع سے کہیں بڑ ھ کر ہوئی۔ اردو کے ممتاز اور سربر آوردہ عالموں اور نقادوں نے اس کاوش کو سراہا اور تحسینی کلمات سے نوازا ( جو اس کتاب کی ایک سابقہ اشاعت میں چھپ چکے ہیں۔) ان میں سے سید نذیر نیازی، پروفیسر طاہر فاروقی ، پروفیسر سید وقار عظیم، پروفیسر عبد الحمید صدیقی ، جناب ماہر القادری اور پروفیسر افتخار احمد صدیقی دنیاے فانی سے رخصت ہو چکے ہیں۔ میں ان کی مغفرت اور ان کی درجات کی بلندی کے لیے دعاگو ہوں۔
اقبال کی طویل نظمیںکی تالیف و ترتیب کی ابتدائی تحریک ڈاکٹر سید معین الرحمن صاحب کی مشاورت سے ہوئی تھی۔محترم ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب نے طبع اول کی اشاعت میں دلچسپی لی اور طبع دوم پر ایک تقریظ بھی لکھی ۔ ان کے علاوہ بھی متعدد اہلِ علم‘ احباب اور طالب علموں نے مشوروں سے نوازا میں ان سب کی توجّہ اور اعانت کا دلی طور پر ممنون ہوں۔
طبع دوم میں نظرثانی کے ساتھ، ایک طویل نظم ’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘ کا اضافہ کیا گیا تھا، اب زیر نظر اشاعت کے موقع پر از سرِ نو ترامیم و اضافے کیے گئے ہیں ۔ امید ہے موجودہ شکل میں اس کتاب سے بہتر استفادہ کیا جا سکے گا۔
رفیع الدین ہاشمی
یکم اپریل ۲۰۰۴ء
وزٹنگ پروفیسر‘ شعبۂ اردو
یونی ورسٹی اورینٹل کالج لاہور