انکل آپ نے اسی مہینے کہ ڈیٹ رکھ لی شیری کو تھوڑا وقت تو دیں۔ انہیں باہر تک چھوڑنے آتے ہوئے بولی
بیٹا جانتی تو ہو اس کے پاگل پن کو۔آج ہاں بولا ہے کل اچانک منع کردے پھر۔ اسے سمجھاتے بولی
اس لیے بہتر ہے دیا کی منگنی بھی ساتھ ہو جائے گی۔ وہ مسکرائے
ساتھ؟ لیکن ۔ ۔ ۔ وہ ششدر رہ گئی۔
بیٹا وہ لوگ بھی انتظار میں ہیں زرینہ بہن بھی یہی چاہتی ہیں میں نے حمزہ لوگوں سے بات کر لی تھی۔ ہو جائے گا بیٹا پریشان مت ہو۔ وہ اسے پیار سے سمجھانے لگے۔
جی۔ اچھا ۔ اسے مجبوراً بولنا پڑا
اللہ حافظ۔ وہ ہاتھ ہلاتے گاڑی میں بیٹھے
وہ بھی ہاتھ ہلا کر ان کی گاڑی کے نکلنے کا انتظارکرنے لگی جیسے ہی گاڑی گیٹ سے نکلی تو وہ بھی واپس پلٹی سب رات کے کھانے کے بعد سب اپنے اپنے کمرے میں جا چکے تھے سو وہ بھی سر جھٹک کر پلٹ گئی۔
دعا۔ جیسے ہی اس نے کمرے میں قدم رکھا گوہر اسی کا منتظر تھا
کیا تم مجھ سے ناراض ہو؟ وہ کھڑا ہوا۔
نہیں۔ وہ مختصر جواب دیتی اپنی سائڈ کہ طرف آئی۔
ہممم بیٹھو۔ اسے اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا
مجھے کام ہے۔ وہ کھڑی کھڑی بولی
بس تھوڑی دیر ایک بات کہنی ہے۔ وہ اس کہ طرف گھوم کر بولا۔
ہمم۔ اپنی سائڈ پر ہی دوسر جانب منہ کیے بیٹھی۔
وہ مجھے معلوم ہے تم پریشان ہو شہریار کے لیے۔
ٹرسٹ می وہ بہت خوش رہے گا۔ وہ دلاسہ تھا۔
زی تھوڑی بچگانہ سی ہے لیکن وہ بہت کیئرنگ بھی ہے۔ دعا میں نے کبھی زی کی کسی بھی خوائش کو ادھورا رہنے نہیں دیا۔ اسے وہ ہر چیز دی ہے جو اس نے چاہی۔ اسے خاموش دیکھ کر وہ پھر بولا
شہریار کو چیز نہیں ہے۔ زبان پھسلی تھی
دعا میں نے یہ تو نہیں کہا۔ وہ تھوڑی دیر خاموش رہا پھر سر جھکا کر بولنے لگا۔
وہ ۔ ۔ میں زی سے بات کرنے گیا تھا کچھ وہ کمرے میں نہیں تھی۔ شہریار کی پکچرز تھی میں بات کیے بنا واپس آگیا۔ دعا وہ بہن ہے میری کچھ غلط نہیں کرے گی لیکن میں کوئی ایسا موقع بھی نہیں دینا چاہتا تھا۔ تم سمجھ رہی ہو نا؟ اب کی بار اس نے سچ کہہ ہی دیا۔
ہممم سمجھ گئی۔ وہ بس اتنا ہی کہہ سکی
دعا آپ کہیں جا رہی ہیں؟ دعا کا پیک بیگ دیلھ کر وہ اندر آئیں
جی ۔ ۔ وہ ۔ ۔ امی کہ طرف۔ وہ ٹھہر ٹھہر کر بول رہی تھی۔
تو آپ اب تک یہی بیٹھی ہیں شام میں تو ڈرائیونگ ٹھیک سے نہیں کر سکو گی کافی رش ہوتا ہے۔ شمائلہ بیگم اس کے پاس ہی بیٹھ گئیں۔
وہ میں گوہر کو کال کر رہی تھی مگر فون بند جا رہا تھا تو میں ان کے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ سر جھکا کے بتانے لگی۔
ہمم کوئی بات نہیں چلی جاؤ۔ وہ مسکرائیں
آپ بتا دیں گی؟ مجھے دو دن کے لیے جانا تھا کچھ چیزیں مینج کرنی تھی۔ وہ تھوڑا ڈر کر بولی
ہاں ضرور ۔ شمائلہ بیگم نے کندے اچکائے
شکریہ۔ وہ چمک کر اٹھی۔
دعا آپ نے بتایا نہیں دیا کی بھی منگنی ہے اسی دن۔ وہ اسے غور سے دیکھتے بولیں۔
وہ ۔ ۔ ۔ انکل نے خود ہی فیصلہ کر لیا۔ میں کچھ اور سوچ۔ ۔ وہ جھجھکی۔
بیٹا میں غلط تھی شہریار نے مجھے پوری بات بتائی اور وہ بات ویسی نہیں تھی جیسی مجھ تک پہنچی شائد جب بات دوسروں کہ زبان سے نکل کردس لوگوں سے ہوتی ہوئی آپ تک پہنچتی تو وہ اس کہ اصل حالت میں نہیں رہتی ماحول کی بہت سی آلودگی اس میں شامل ہو جاتی ہے۔
دعا انہیں حیرت سے دیکھنے لگی۔
بیٹا جب میں اس گھر میں آئی تھی یہ گھر بہت ٹوٹا ہوا تھا مجھے بہت وقت لگا اسے گھر بنانے میں۔ اس گھر کو توڑنے کی کوئی بھی وجہ مجھے بے چین کر دیتی ہے کبھی کبھی ہم سب ٹھیک کونے کی چکر میں کچھ ایسے فیصلے بھی کر لیتے ہیں جن کا درستگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
نہیں آپ نے غلط نہیں سوچا
اب آپ بھی غلط مت سوچیں۔ دیا بھی اس گھر کی ہی بیٹی ہے اسے بھی باعزت رخصت ہونے کا اتنا ہی حق ہے جتنا زری کو۔ مجھے خوشی ہوگی اگر آپ مجھے اس خوشی میں شامل کریں گی۔
آنٹی سوری میں نے کسی غلط نیت سے یہ بات آپ سے نہیں چھپائی
مگر میں نے غلط کیا۔
اب آپ مجھے شرمندہ کر رہی تھی۔وہ نم آنکھوں سے بولی۔
اسلام علیکم ۔دعا کمرے میں نہیں تھی۔ کمرے میں آتے ہی ہمیشہ کہ طرح سلام کرتے داخل ہوا۔
لائبریری، بالکنی اور واش روم وہ کہیں نہیں تھی۔ وہ کہیں بھی تو نہیں تھی۔ اور اب کہ بار وہ پریشانی سے تیز تیز چلتا یہاں وہاں دیکھتا نیچے آیا ۔
کیا بات ہے کیوں اس طرح گھوم رہے ہیں آپ؟ شمائلہ بیگم نے میگزین سے نظریں ہٹا کر دیکھا۔
ماما وہ دعا کہاں ہے؟ ہانپتے بولا۔
وہ تو دو دن کے لیے اپنی امی کی طرف گئی ہے آپ کا فون بند تھا تو کہہ رہی تھی بتا دوں۔ وہ بتا کر واپس میگزین کہ ورق گردانی کرنے لگیں
اوہ میں میٹنگ میں تھا۔ دراصل پروموشنز کے لیے کچھ امپلائز سلکٹ کیے گئے ہیں میرا بھی نام ہے ان کے پریوئس ورک کو دیکھ کر پروموٹ کیا جائے گا۔ وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا بتانے لگا
انشاللہ آپ کی ضرور ہوگی۔ میگشین رکھ کر وہ خوشی سے کھڑی ہوئیں اور اس کا کندھا تھپتھپایا
تھینکس ماما۔ شکریہ کہتا واپس پلٹا۔
میں خانم سے کہتی ہوں کھانا لگائے ۔ وہ لچن کی طرف مڑیں
نہیں دل نہیں چاہ رہا۔ ۔ اب سوؤں گا۔ مایوسی سے بولا۔
اوکے گڈ نائٹ دن۔(Okay good night then)
ہر روز جسے دیکھنے کی عادت ہو وہ۔ایک۔دن نظر نہ آئے تو بے چینی ہوتی۔دعا آج پہلی بار امی کے گھر نہیں رکی تھی مگر اسے فلحال ایسا ہی لگا جیسے پہلی بار گئی ہو۔
کمرے میں آیا بیڈ پردھڑام سے گرا۔
اے اللہ میں کتنا غلط تھا بے شک تیرے ہر کام میں حکمت ہے اور وہ ہر کوئی نہیں سمجھ سکتا میرے مولا میں تیرا جتنا شکر ادا کرو وہ کم ہے تو نے میرے دل میں اس کے لیے نفرت پیدا نہیں کی کیونکہ وہ ۔ ۔ وہ تو تیرے پیارے بندوں میں سے تھی۔ میں تیرا شکر گزرار ہوں تو نے اسے میری قسمت میں لکھا۔ بس اسے میرا ہی رہنے دینا۔ ہارھ منہ پر پھیر آمین بولا۔
ایسا بھی کیا کام پڑگیا جو رات رکنا ضروری تھا۔میرے ساتھ بھی جا سکتی تھی۔منہ بسور کر لیٹ گیا۔
پھر نہ جانے کیا سوجا اٹھا اور الماری میں گھس گیا الماری کی چان بین میں کوئی دس منٹ لگائے اور اپنے مطلوبہ پیپرز نکال کر کھولے
ہیں ؟ یہ خالی کیوں ہے؟ دعا نے ۔ ۔ حق مہر کیوں نہیں لکھوایا؟۔
اسلام علیکم۔ دروازہ کھلتے ہی زرینہ بیگم کو سلام کیا
واعلیکم اسلام کیسے ہو بیٹا۔ انہوں نے اندر آنے کا راستہ دیا
اچھا ہوں آپ بتائیں۔ اندر آیا اور وہیں رک گیا۔
اللہ کا شکر ہے۔ دروازہ بند کر کے مڑی تو وہ بھی ساتھ چل دیا
آنٹی دعا کدھر ہے۔ ڈرائینگ روم میں کھڑا ہوا
بیٹا وہ دیا لوگوں کے ساتھ شاپنگ پر گئی ہے۔ ۔ ۔ آؤ ۔ ۔ آنے والی ہے۔ اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
اچھا۔ وہ سر کھجاتا بیٹھ گیا۔پھر اٹھا اور ان کا سامنے گھٹنے کے بل بیٹھا۔
آنٹی آپ کو کسی بھی چیز کی ضرورت ہے آپ نے مجھے بتانا ہے ۔ میں دیا کا بھی بھائی ہوں۔ وہ ٹھہر ٹھہر کر بولا۔
نہیں بیٹا کسی چیز کی ضرورت نہیں آپ نے پوچھ لیا یہی کافی ہے۔ سر پر پیار کرتے بولیں
بیٹا کہہ کر اپنا بناتی ہیں منع کر کے پرایا بھی کردیا۔وہ مصنوعی خفگی سے دیکھنے لگا
ایسی بات نہیں ہے ضرورت ہوئی تو آپ سے نہیں کہوں گی تو کس سے کہوگی۔ وہ مان سے دیکھنے لگیں۔
امی ۔ ۔کیرم کھیلیں؟ ۔ دانی سیدھا ماں کو دیکھتے اندر آیا۔
میرے ساتھ کھیلو گے۔ گوہر نے آفر کی
نہیں۔دانی نے پہلے تو گھورا پھر ساتھ ہی نفی مہں سر ہلایا
کیوں ؟ آبرو اٹھا کر بولا۔
بس۔ منہ بنا کر کہتا وہ واپس مڑا۔
اچھا مجھے سیکھا دو پھر ۔ زرینہ بیگم کو سر کے اشارہ سے آتا ہوں کا کہہ کر دانی کے پیچھے لپکا۔
آپ کو نہیں آتی۔ وہ حیرات سے مڑا
نہ۔ گوہر نے کندھے اچکائے
اوکے آئیں۔ شان سے کہتا کیرم نکال کر ٹیبل پر رکھی۔
کسی کے دل میں جگہ بنانے کے لیے پہلے اس شخص کے دل میں رہنے والے کے دل میں جگہ بنانی چاہیے اور گوہر وہی کر رہا تھا
گوہر کوئی ایک بھی سٹرائک صحیح نہیں کی کہ کوئی من پاکٹ میں چلی جائے
یار آپ کو تو بالکل بھی نہیں آتی۔ گوہر کو بری طرح کھیلتے دیکھ وہ ہنسنے لگا
دوست بن جاؤ یار سکھا دینا ۔ ۔ گوہر کھیلنے کی کوشش بھی نہیں کر رہا تھا
ہممم۔ وہ سوچنے کے اندازمیں بولا۔پھر اسے مختلف کیرم رولز بتانے لگا اور تھوڑی دیر میں گاڑی کا ہارن بجا۔
واہ آپی آ گئی۔ وہ ایک دم سب چھوڑچھاڑ کے بھاگا۔
اسلام علیکم امی۔ دعا اندرآتے بولی۔
واعلیکم اسلام۔ جواب گوہر نے بہت اونچی آواز میں دیا تھا
آپ؟ وہ اسے دیکھ کر ٹھٹھکی
میں تمہیں لینے آیا تھا۔ وہ چلتا ہوا پاس آیا۔
میں آنٹی سے پوچھ کر آئی تھی رکنے کا۔ اس نے وضاحت دی
لیکن مجھ سے تو نہیں پوچھا نا۔ وہ آبرو اٹھا کر شرارتی نظروں سے دیکھتے سنجیدگی سے بولا۔ دعا نے گردن اٹھا کردیکھا
بیٹا گوہر سے پوچھے بغیر تو نہیں آنا چاہیے تھا نا۔ زرینہ بیگم نے فوراً مداخلت کی۔ دعا نے ماں کو بے بسی سے دیکھا پھر نظریں جھا کر بولی
چلیں؟
گوہر دم سادھے دیکھنے لگا یہ کیا ہو گیا اس نے تو مذاق سے کہا تھا
بیٹا کھانا کھا کر جانا دونوں۔ زرینہ بیگم سمجھ گئی تھی دعا کو برا لگا ہے
نہیں وہیں کھا لیں گے دیر ہو رہی ہے۔ دعا اپنا بیگ اٹھاتے دروازے کی طرف چل دی۔
چلیں ۔ ۔ ۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی گوہردعا کی طرف گھوما
دعا میں نے تو بس۔ ۔ وہ اصل میں کل میں ۔ ۔ ۔
کیا ہم۔سکون سے سفر کر سکتے ہیں۔ بس اتنا کہہ کر وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ اس کے بعد دونوں میں کوئی بات نہیں ہوئی نہ گوہر نے کوشش کی۔ جیسے ہی گاڑی رکی دعا نے اندرجانے کا بھی انتظار نہیں کیا اور اتر کر گیٹ سے اند چلی گئی۔
اسلام علیکم۔
واعلیکم اسلام اچھا ہی ہوا جو آپ آ گئی میں سوچ رہی تھی کل شوپنگ کر لی جائے آپ کو شہریار لوگوں کی پسند پتا ہوگی تو ہلپ کر دیجیے گا۔ اسے دیکھ کر شمائلہ بیگم نے کل کا پروگرام بتایا
جی۔ وہ بس اتنا کہہ سکی
خانم کھا نا لگا دیں دعا سے پوچھ لیں کیا کھائے گی۔گوہر نے دروازے سے آوازلگائی۔
نہیں خانم مجھے بھوک نہیں ہے۔ آہستہ آوازمیں کہتی کمرے کی طرف چل دی۔
اف دعا نے تو کچھ زیادہ ہی برا مان گئی دعا کی امی کے سامنے یوں نہیں کہنا چاہیے تھا مجھے۔ دعا کو جاتا دیکھ زبان دانتوں میں دیے بولا اور فوراً سے پہلے دعا کے پیچھے کمرے میں آیا۔
دعا ایک بات کرنی تھی۔ وہ بیڈ پر بیٹھی تھی
مجھے نیند آ رہی ہے۔ وہ اس سے پہلے کچھ کہتا وہ لیٹ گئی اور کمبل سے منہ کوڈھانپ لیا۔
اوکے۔
گوہر۔ آئینے کے سامنے بال بناتا مڑ کر دیکھنے لگا۔
جی۔ ۔ کتنے عرصے بعددعا نے پکارا تھا
ہاتھ دکھائیں۔ وہ آہستہ سے چلتی پیچھے کھڑی ہوئی
یہ لو۔ وہ مڑ کر مسکرایہ اور ہاتھ بڑھایا۔
سیدھا۔اس کے ہاتھ کو دیکھتے بولے۔
دعا نے اس کے ہاتھ پر ایک مخمل کی ڈبیہ رکھی
یہ لاکٹ؟ گوہر نے اسے کھول کر دیکھا
جی ۔ ۔ جو آپ نے دیا تھا۔ میں نے دھلوایا تھا اور موڈی فائی کرواکر ڈی ہٹا دیا ہے۔ وہ کہہ کر مڑگئی
کیوں؟ وہ مٹھی بند کیے پیچھے آیا۔
زی کودی دیجیے گا۔ آرام سے کہتی اپنا کلچ اٹھانے لگی
میں نے یہ تمہیں دیا تھا۔ تمہیں پر زور دے کر بولا۔
آپ نے کسی کی مدد کر کے نیکی کی تھی ۔ ۔ ۔ اسے مجھے دے کر ضائع مت کریں۔ زخمی مسکراہٹ سے وہ دروازہ کھولنے لگی
دعا؟ وہ اسے دیکھ رہ گیا
آپ ہال میں جائیں میں شہر یار کی طرف سے ہو کر جاؤں گی۔ وہ ایسے بولی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو
چلو میں بھی چلتا ہوں۔ وہ ضبط کرتا بولا
نہیں مجھے امی لوگوں کو بھی پک کرنا ہے آپ کو دیر ہو جائے گی اور آپ کا ہال میں ہونا ضروری ہے۔وہ اپنی بات مکمل کر کے چل دی۔
مرد اکثر چاہتے ہیں کہ کچھ معاملوں عورت ان کے سر پر مسلت نہ ہو ہر وقت وہ خودمختار ہو جائے اور جب وہ بہت سے معاملوں میں خود مختار ہو جائے تو یہ بات بھی ان کے ایگو سے برداشت نہیں ہوتا
دعا نظر نہیں آ رہی کہاں ہے وہ ۔ شیری نے دعا کی غیر موجودگی بھانپ کر دیا سے سرگوشی کی
وہ کھانے کا دیکھ رہی ہے۔ وہ سر سری سا بولی
اچھا میں دیکھتا ہوں۔ وہ آرام سے اٹھنے لگا
او ہیلو کدھر جناب آپ کی شادی ہے۔ دلہن بیٹھی ہے ساتھ آپ کے۔ دیا نے کندھے اچکا کر زی کہ طرف اشارہ کیا۔
میں کونسا شادی سے بھاگ رہا ہوں آتا ہوں بس۔ آبرواٹھا کردیکھا
شہریار کو باہر کی طرف جاتا دیکھ شمائلہ بیگم پریشان سی ہوئی پھر خود ہی اس کے پیچھے چل دیں۔
دعا کونے میں کھانے کی ڈشز چیک کر رہی تھی۔
بہت بزی ہو میری تعریف کرنی چاہیے تھی آج۔ شیری پیچھے آ کر کھڑا ہوا۔
تم یہاں کیا کر رہے ہو۔ وہ آنکھیں پھیلا کر بولی۔
بات کرنی ہے باہر آؤ۔ وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتا بولا
پاگل۔ وہ اسے نظر اندازکرتی واپس مڑی
پلیز۔
اچھا وہ اس کے ساتھ چلتی باہر کی طرف آئی۔
کیا ہے؟ وہ پریشانی سے بولی
بات کیوں نہیں کر رہی مجھ سے۔ اسے گھور کر دیکھا
کام تھا۔ وہ سر جھکائے بولی
دعا۔
دعا کے پھر سے آنسو گرنے لگے۔
یار میں تمہارا دوست ہو تم ایسے رو رہی ہو جیسے میں تمہاری بیٹی ہوں جو رخصت ہو کر کہیں سات سمندر پار جا رہی ہے۔ مذاق سے بولا
شہریار زی معصوم ہے اپنے پاسٹ کو لے اسے شکائت کا موقع مت دینا۔ اسے خوش رہنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا ہر انسان کو ہے۔ وہ آنسو پونچتے رندھائی آواز میں بولی۔
دعا کل تک مجھے لگ رہا تھا کہ میں نے یہ فیصلہ تمہارے کہنے پر کیا ہے بٹ یو نو وٹ۔ ۔ آج بابا کو خوش دیکھ کر جو سکون ملا ہے نہ وہ میں بتا نہیں سکتا۔ اٹ واز مور دن اوسم۔
تمہاری بات مان کر میں کبھی بھی نہیں پچتایا اور مجھے پتا ہے اب بھی نہیں پچتاؤ گا۔
اچھا اب آپ کی بیٹی جائے ۔ وہ اسے چیڑتے بولا۔
فضول باتیں مت کیا کرو۔
شمائلہ کو اس کے دل سے زری کی فکر کرنا بے حد اچھا لگا تھا اور اپنے دیا کو لے کر کیے گئے فیصلے پر وہ لب سے پریشان تھی اب اور بھی پچتانے لگیں
اس وقت دستک کس نے دی ہے۔زرینہ بیگم حیرانگی سے دستک پر چونکی
پتا نہیں امی۔دیا دوبٹہ لیتے جائے نماز پر کھڑی ہوئی۔
اچھا تم نماز پڑھو میں دیکھتی ہوں۔ وہ اٹھ کر گیٹ کھولا تو سامنے گوہر کو دیکھ کر پریشانی سے بولیں
گوہر بیٹا آپ اس وقت۔
جی۔وہ شر مندہ سا اندر داخل ہوا۔
بیٹا کیا ہوا سب ٹھیک ہے نا۔ وہ دروازہ بند کر کے مڑیں۔
جی ٹھیک ہے ۔ وہ بس نمازکے لیے نکلا تھا تو آپ سے ملنے چلا آیا۔ کچھ کہنا تھا آپ سے۔ وہ سر کھجاتے بولا۔
دعا سے کوئی غلطی ہو گئی ہے۔
نہیں وہ غلطیاں کم کرتی ہے اور کرے بھی تو ٹھیک کر لیتی ہے۔وہ سوچ کر مسکرایہ تھا
پھر ؟ وہ آنکھیں سکیڑ کے بولیں۔
آنٹی زی میری صرف بہن نہیں ہے وہ میری بیٹی بھی ہے کل جب وہ مجھ سے دورگئی تب مجھے احساس ہوا کہ آپ پر کیا گزری ہوگی جب دعا آپ سےدورہوئی۔ میں بس آپ سے اس بات کا وعدہ کرنے آیا تھا کہ میں دعا کو بہت خوش رکھوں گا۔ اگر گزرے کسی لمحے میں اسے میری وجہ سے کوئی تکلہف پہنچی ہے تو میں اسے اب دوبارہ ایسی کوئی تکلیف نہیں ہونے دوں گا۔
اچھا ماں والا احساس آپ کو یہاں لے آیا ہے۔ وہ ہنسی تھیں
پتا نہیں شائد۔ ۔ اپنے جزبوں کی یہ تشریح سن کر وہ تھوڑا شرمندہ سا ہوا
فکر نہیں کرو شہریار بہت اچھا لڑکا ہے وہ زری کو بہت خوش رکھے گا۔ اس کے سر پر ہاتھ رکھا
شکریہ بس اس کے لیےدعا کریے گا۔
یہ بھی کوئی کہنے کی بات تھی۔
اسلام علیکم گوہر بھائی۔دیا نے آتے دیکھا
واعلیکم اسلام کیسی ہو۔
بہت پیاری ۔ وہ کندھے اچکا کر بولی
جی جی بالکل۔ وہ ہنسا
بس اب جلدی سے تمہیں بھی یہاں سے بھیج کر میں آنٹی کو اپنے گھر لے جاؤ گا۔ وہ زرینہ بیگم کی کرسی کو پیچھے سے پکڑ کر بولا۔
جی نہیں امی میرے ساتھ میرے گھر رہیں گی۔
ارے مائیں بیٹیوں کے گھر نہیں رہتی
جی بالکل مگر بیٹے کے گھر رہتی ہیں۔ انہیں گلے سے لگا کر بولا۔ اچھا اللہ حافظ چلتا ہوں سب لوگ پریشان ہوں گے۔
تو چوری چھپے نہ آیا کریں نہ اعلان کر کے آیا کریں۔ دیا اس کی تیز پر ہنسے بولی۔
وہ ہنستا ہوا گاڑی میں بیٹھا سپیڈ میں چلانے۔ وہ کتنی دیر بعد اتنا خوش ہوا تھا اور اس کی وجہ دعا تھی۔
گوہر کہاں چلے گئے تھےاسے گھر میں داخل ہوتا دیلھ شمائلہ بیگم مسکرائیں۔
وہ ماما دعا کے گھر گیا تھا۔ وہ پھر شرمندہ سا بولا۔ کھانے کا باکس ٹیبل پر رلھتی دعا ایک دم گھبرا کے دیلھنے لگی۔ اب ان کے دماغ میں کونسا پلین چل رہا ہے مجھ سے چٹکارے کا کہیں امی کو سب۔ ۔ وہ اس کے آگے نہیں سوچ سکی
کیوں کیا ہوا سب خیریت ؟
جی وہ بس آنٹی سے ایک کام تھا۔
آنٹی سے ملنے کا دل چاہا تھا اس لیے گیا۔ دعا کے پاس سے گزرتا سر گوشی میں بولا
اسلام علیکم
افسوس ہوتا ہے کہ آپ کے پاس میرے کام کے لیے نائس کے سوا کچھ نہیں کچھ کے پاس تو یہ بھی نہیں۔ لیکن مجھ پر پرسنل اٹیک کے لیے کافی کچھ ہے کبھی چھوٹی اپیسوڈ کا طنز تو کبھی کب پوسٹ کرو گئی جب کہ ہر پوسٹ پر لکھا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ہر کسی کو کوشش کرتی ہوں جواب دوں اس کے باوجود میں اگر آپ کو ایٹی ٹوڈ لگتا ہے تو اب ہے تو میرے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں۔ آج کمنٹس پڑھ کے لگا مجھے چھوڑ دینا چاہیے لکھنا۔ کسی کی اصلاح کے لیے لکھنا ہی غلط ہے ۔ ۔ ۔ ۔
دعا بیٹا۔وہ لان میں کھڑی پودے دیکھنے میں مصروف تھی جب آفندی صاحب نے آواز دی۔
جی بابا۔ وہ چونک کر مڑی
مجھے آپ کا شکریہ ادا کرنا تھا آپ نے بہت محنت سے فنگشنز کو مینج کیا۔ دعا کے سر پر پیارا پھیرا
بابا وہ فرض تھا میرا۔ وہ مان سے بولی
جیتی رہو ۔ ۔ ۔ مجھے یو۔ایس جانا تھا ایک ٹرینگ ہے تو زرا پیکنگ میں شمائلہ کی مدد کر دیں گی؟ وہ کچھ یاد کر کے بولے۔
بابا آپ کوآنٹی کو بھی لے جانا چاہیے ساتھ انہیں اچھا لگے گا۔ پیچھے شمائلہ بیگم کو آتے دیکھ مسکرائی۔
شمائلہ آپ چلیں گی ساتھ؟ وہ پیچھے دیکھتے شمائلہ سے پوچھنے لگے۔
نہیں میں کیا کرو گی جا کر ویسے بھی گھر رہنے کی عادت ہو گئی ہے۔ وہ حیران ہو کر بولیں۔
آنٹی آپ کو جانا چاہیے میں ہوں یہاں۔ دعا اگے بڑھ کر بولی۔
ہممم چلیں اگر آپ کہتی ہیں تو میں چلتی ہوں۔ وہ سوچ کر مسکرائیں۔
آپ نے کب جانا ہے بابا؟ دعا نے ڈیٹ کا پوچھا
کل ۔
اوکے میں پیکنگ میں آنٹی کے ساتھ ہلپ کر دوں گی
شیری۔ ۔ ۔ شیری۔ ۔ ۔زی نے آواز دی مگر اس پر کوئی اثر نہیں ہوا وہ اب بھی سکون سے سو رہا تھا۔
شیری۔ اب زی نے جھک کر کندھے سے پکڑ کے جھنجھوڑا۔
اف کیا کر رہی ہو۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھا
بابا بلا رہے ہیں تم کو۔ وہ ایک دم سیدھی ہو کر بولی
تم کو؟ آبرو اٹھا کر دیکھا
کیا؟ وہ ایک قدم پیچھے ہوئی
شرم نہیں آتی شوہر کو تم کہتی ہو دعا کو دیکھا ہے آپ جناب کر کے بات کرتی ہے۔ بالوں میں انگلیوں سے ہل چلاتا بولا
مجھ سے نہیں ہوتا میں یہی کہوں گی۔ وہ خفگی سے بولی
توبہ۔ وہ دونوں آنکھیں پھیلا کر بولا
جلدی جاؤ انہوں نے آفس جانا ہے۔ وہ کہہ کر پلٹی
اچھا اچھا جا رہا ہوں تم زراخاور سے کہہ کر چائے بنوا دو۔ آرام سے کہتا وہ اٹھا۔
اوکے کہتی وہ چلی گئی۔
نیچھے آئی مگر خاور کچن میں نظر نہیں آیا تو باہر اسے یہاں وہاں ڈھونڈنے لگی۔
کیا ہوا باجی؟ کپڑے دھوتی خاتون نے پوچھا
وہ خاور کرھر ہے؟
باجی اس کی تو طبیعت خراب ہے وہ اپنے کواٹر میں چلا گیا۔
اچھا کہتی کچن میں آئی سوچا خود ہی بنا دے
چائے میں پتی پہلے ڈالوں یا دودھ؟ خود سے سوچنے لگی۔
سنو۔ شیری نے دروازے سے پکارا
ہاں ؟ وہ الجھن سے مڑی۔
خاور کدھر ہے ؟
وہ کواٹر میں چلا گیا۔ وہ مڑے بغیر بولی۔
اچھا پھر رہنے دو۔ وہ مایوسی سے بولا۔
نہیں میں بنا دیتی ہوں۔ اسے مایوس دیکھ کر وہ فوراً بولی
اوکے پھر لے آنا کمرے میں ہی۔
ایک کپ دودھ ۔ ۔ دو چمچ چینی تو پھر پتی کتنی ڈالوں؟ وہ کھڑی سوچنے لگی
ہاں وہ بھی دو چمچ ہی ڈالنی ہو گی۔
مکسچر بنا کر چولہے پر رکھا جیسے ہی وہ ابلا وہ دیکھ کر حیران ہوئی
ہیں؟ یہ کالی کیوں لگ رہی ہے۔ دودھ اور ڈال دیتی ہوں۔ اسی کے اندر دودھ کی مقدار بڑھائی۔
اب ٹھیک ہے۔ ۔۔ تھوڑا رنگ بدلنے پر خوش ہوئی اور کپ میں سٹین کر کے ڈالی اور کمرے میں لے آئی۔
شیری چائے۔۔ ۔
ارے وا۔ ۔ ۔ چائے کا رنگ دیکھ کروہ کہتے کہتے رکا
کیا ہوا؟ وہ اس کے خاموش ہونے پر ٹھٹھکی۔
نہیں ۔ ۔ نہیں ۔ ۔ کچھ بھی نہیں۔ وہ فوراً سیدھا ہو کر بیٹھا۔
تو پیو نا پھر ۔ ۔ وہ سامنے ہی بیٹھ گئی۔
ہممم۔ شیری نے چھوٹا سپ لیا اور لیتے ہی واش روم بھاگیا۔
کیا ہوا؟ اسے ایسے بھاگتے دیکھ اس نے پریشانی سے پوچھا
یار یہ کیا کیا تم نے ؟ واش روم سے باہر نکل کر دروازے کے پاس کھانستے پوچا
کیا مطلب؟ وہحیران ہوئی۔
تم نے شوگر کی جگہ سالٹ ایڈ کر دیا وہ بھی اچھا کھاسا۔ کوئی بات نہیں۔ ۔ ۔ تم ایسا کرو دعا سے سیکھ لو پہلے۔ وہ ہنستے ہوئے بولا۔ مگر اس وقت وہ زی کا چہرہ دیکھ لیتا تو اس کی ہنسی کو بریک لگ جاتی۔
گوہر ۔ ۔ ۔ آٹھ بجنے پر بھی جب وہ نا اٹھا تو دعا کو آواز دینی پڑی۔ مگر وہ اوندھے منہ پڑا تھا دوسری آواز پر بھی نہیں اٹھا تو دعا تھوڑی ڈر گئی آگے بڑھی۔
گوہر کیا ہوا آپ ۔ ۔ آپ ٹھیک ہیں نا۔ دعا نے کندھا ہلایا۔
اوہ لگاتا ہے بخار ہے تبھی کل آتے ہی لیٹ گئے۔اس کا تپتا کندھا دیکھ پیشانی چیک کی اور جلدی سے باہر بھاگی۔ کچھ سمجھ نہیں آیا تو عیشل کو فون کر کے بلایا ان کی بتائی میڈیسن گیٹ کیپر سے منگوا کر کمرے میں آئی۔
میڈیسن ۔ ۔ ۔ گ۔ ۔گوہر؟ اب کی بار زور سے کند ھے کو جھنجھوڑا
گوہر کراہ کے ساتھ کسمسایا
گوہر میڈیسن ۔ ۔ پلیز اٹھیں۔
وہ سیدھا ہوا اور بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائی۔
گرم دودھ کے ساتھ لیں اچھا لگے گا۔ دودھ کا گلاس اس کی طرف بڑھایا۔ پھر ہاتھ روک کر بولی
ایک منٹ آپ نے رات کچھ کھایا بھی نہیں میں ابھی آتی ہوں آپ جلدی سے منہ دھو لیں۔ گلاس سائڈ ٹیبل پر رکھتی باہر نکلی
جب وہ بریڈ اور جیم لے کر آئی تب تک وہ منہ دھو کر آچکا تھا۔
بریڈ پر جیم لگا کر اس کی طرف بڑھایا تو وہ اسے ہی دیکھ رہا نظریں ملنے پر مسکرایا۔
دعا تم بہت اچھی ہو ۔ ۔ وہ شائد کسی ٹرانس میں تھا
یہ کھا لیں۔ ۔جیم لگا کر بریڈ اس کی طرف بڑھائی
آنٹی کے سامنے شائد کہنا نہیں چاہیے تھا ۔ وہ اب بھی اسے ہی دیکھتا بولا
گوہر ۔ ۔ ہمارے درمیان جو بھی ایشوز ہیں وہ ہمارے درمیان ہی رہے تو بہتر ہے یہ سب آپ کے یا میرے کسی بھی رشتے میں نہیں آنے چاہیے۔ ناشتہ کریں میں آتی ہوں۔ اس سے پہلے گوہر کچھ کہتا وہ اٹھ کر چلی گئی۔
وہ اٹھ کر بالکنی میں ٹھنڈی ہوا لینے نکلا تھوڑی دیر کھڑا رہا جب تھکن محسوس ہوئی تو واپس آکر لیٹ گیا۔
گوہر بیٹا کیا ہوا؟ عیشل نے نم آنکھوں سے دروازے کے پاس کھڑے کھڑے پوچھا
گوہر کو انہیں دیکھ کر غصہ نہیں آیا تھا وہ بس یک ٹک انہیں دیکھنے لگا
گوہر۔ ۔ وہ چند قدم آگے بڑھیں
آپ سے ایک بات پوچھو؟ وہ نظریں نیچے جھکا کر بولا
کیا؟ وہ حیرانگی سے بیڈ کے پاس کھڑی ہوئیں۔
مجھے چھوڑ کر تکلیف نہیں ہوئی آپ کو؟ وہ رندھائی ہوئی آواز سے بولا تھا
گوہر ۔ ۔ وہ دکھ سے اسے دیکھنے لگی
پلیز بس اس سوال کا جواب؟ التجاء امیز لہجے میں بولا
اس تکلیف کو لفظوں میں کیسے بتاؤں۔ وہ اسے بے بسی سے دیکھنے لگیں
تو چھوڑا کیوں؟۔ ۔ ۔ وہ اب بھی نیچے دیکھ رہا تھا
گوہر میں ہمیشہ سے عیشل نہیں تھی ایک ایسے راہ پر چلنے والی عورت تھی جیسے سیدھے راستے کا پتا نہیں تھا جب پتا چلا تو میں نے سیدھا راستہ چنا تمہارے بابا اور دادا نے بہت ساتھ دیا میرا یہ اللہ کا کرم تھا مجھ پر کہ مجھے اچھے لوگ ملے۔ ۔ پر انسان کو پتا نہیں ہوتا وہ انجانے میں کیا گنا ہ کر بیٹھتا ہے شائد مجھ سے بھی ہوئے اس کی سزا تو ملنی تھی میری کمیونٹی مجھے ڈھونڈ رہی تھی ایک دن میرا بھائی آ گیا اس دن تمہاری دادی کی جان گئی گوہر وہ موت میرے حصے کی تھی جو ان کو ملی میں کسی کی موت کی وجہ ہوں یہ احساس مجھے آج تک سکون سے رہنے نہیں دیتا۔ وہ بھاگ گیا اس کا مطلب تھا وہ پھر آ سکتا ہے تمہاری اور تمہارے بابا کی جان میرے لیے اہمیت رکھتی تھی۔ اب کسی بھی رشتے کی موت کی وجہ نہیں بننا چاہتی تھی۔ اس سے لیے چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
آپ مجھے ساتھ بھی تو لے جا سکتی تھیں نا؟ وہ بچو کی ماصومیت سے بولا
میں نے اس راہ کے لیے اپنے سارے رشتے کھو دیے وہ تکلیف کیا ہوتی ہے اسے سہا ہے میں نے۔ میں تمہیں کوئی رشتہ چھن جانے کا دکھ سہتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔
تو اتنے سالوں میں کیوں یاد نہیں کیا ؟ وہ بالکل بچوں کی طرح جراح کر رہا تھا
کوئی ایک ایسا پل نہیں جب یاد نہ کیا ہو اب مجبور ہو گئی تھی بوڑھی ہو گئی ہوں کب مر جاؤں پتا نہیں ۔ ۔ ۔
پلیز ایسا نہ کہیں۔ گوہر نے سر اٹھایا
پاسٹ تھا چھوڑو ۔ ۔ اب کیسا فیل کر رہے ہو؟ وہ آنسو پونچتے بولیں۔
کچھ نہیں میں ٹھیک ہوں ۔ ۔ گہرا سانس لے کر بولا۔
آرام کرو اب ۔ ۔ وہ اسے کے ہاتھ کو تھام کر پیار سے بولیں
میں بالکل ٹھیک ہوں اب ۔ ۔ ۔ آٓپ کو۔ ۔ کیسے پتا لگا؟
دعا کا فون آیا تھا بتایا اس نے شمائلہ اور آفندی گئے ہوئے ہیں تو اس لیے میں آ گئی۔
شکریہ۔ وہ ماں کے ہاتھ کو بہت پیار سے دیکھتا بولا۔ وہ ایک احساس جسے وہ ہمیشہ مس کرتا تھا۔ آج اسے دل سے محسوس کر رہا تھا۔
اس سے بات ہوتی ہے آٓپ کی؟ وہ جانتا نہیں تھا کہ۔دعا ان سے بات کرتی ہے
ہاں تقریباً ہر ہفتے میں ایک دو بار ۔ ۔ وہ سرسری سا بولیں
شکائت کرتی ہوگی میری ۔ ۔ ایک دم پوچھا
نہیں گوہر اس نے آج تک نہیں کی شکائت ۔ ۔ ۔ اس نے ہمیشہ تعریف کی ہے تمہاری۔ ۔ اس کے بال پہچھے کرتیں بولیں
وہ ہلکہ سا مسکرایہ
اچھا آرام کرو میں باہر ہی ہوں ۔ ۔ کہہ کر وہ کمرے سے باہر آئیں۔
اس کامطلب پھوپو مجھ سے جھوٹ بولتی آئیں۔ کاش میں ایک بار بابا کے کہنے پر مل لیتا میں بھی کتنا بے وقوف ہوں ماں کو بھی غلط سمجھتا رہا اسے بھی غلط ہی سمجھ لیا۔ ۔ اپنی ہر غلطی کو ٹھیک کروں گا۔ سر جھٹک کر سو گیا پھر آنکھ خانم کی آواز پر کھلی
گوہر کھانا لاؤں بیٹا ۔ ۔ کچھ دیر بعد خانم نے اس سے پوچھا
کھانا ۔ ۔ ۔ دعا کہاں ہے ؟
وہ آفس گئی ہیں۔
اچھا۔ ۔ ۔ ورک ہولک ۔ ۔ ۔وہ خود سے ہی سوچ کر ہنس دیا۔
اور ماں؟
لیپ ٹاپ کام کر رہی ہیں بلاؤں؟
نہیں ۔ ۔ ابھی بھوک نہیں ہے۔
اچھا بھوک لگے تو بتا دینا۔
کیا کال کروں؟ نہیں شائد اسے لگے میں پھر سے اسے تنگ کر رہا ہوں۔ خود سے ہی سوچ کر سر جھٹک دیا۔
گوہر ؟ عیشل کی پکار پر چونکا
جی؟
میں جا رہی ہوں۔ دروازے کے پاس کھڑے کھڑے بولیں
پھر سے مجھے چھوڑ کر جا رہی ہیں؟
مجھے ایک کام ہے ابھی شام میں آوں گی دعا تھوڑی تک پہنچ جائے گی ۔
اوکے ۔ ۔
اللہ حافظ اپنا خیال رکھنا۔ اسے پیار سے پچکار کر وہ چلی گئیں۔۔
چت لیٹ کر آنکھوں پر ہاتھ رکھا جب فون بجنے پر چونکا۔ اس لگا دعا نے فون کیا ہوگا جھٹ سے فون اٹھا
اففف آفس۔ ۔
کیا؟ ۔ ۔ خوشی کے آثار چہرے پر نمودار ہوئے۔ ۔ اوکے ٹھیک ہے ۔ ۔ فون بیڈ پر رکھا
اسکام علیکم۔اب طبیعت کیسی ہے؟ دعا لیپ ٹاپ رکھتے پوچھا۔
واعلیکم اسلام۔ مجھے لگا آج تم چھٹی کرو گی۔ ۔ شکائیتی نظروں سے دیکھا۔
دعا اس جملے پر ششدر ہو کر مڑی۔
وہ۔ ۔ ۔ آ ۔ ۔ بھوک لگی ہے۔ ۔ ۔ اس کے اس طرح حیران ہونے پر وہ سٹپٹا کر بولا
کھانا یہاں لگاوں یا نہچے ؟ اپنے تاثرات کو نارمل کیا۔
نہیں نیچے ہی کھائیں گے ۔ ۔
اوکے ۔ وہ اوکے کہتی پلٹ گئی۔
دعا ۔ ۔ گوہر نے کچھ کہنے کو لب کھولے مگر وہ جا چکی تھی۔
اف ابھی بھی وہی راولپنڈی سپیڈ ۔ ۔ بیڈ سے اٹھا۔ ۔ میں نے بات کیوں بدلی کہہ دیتا مس کر رہا تھا۔ پھر سر جھٹک کر واش روم کھسا وہ بھی تو کہہ سکتی تھی فکر کرتی ہے۔ ۔ پتا نہیں یہ اتنی پتھر دل ہے یا مجھے لگ رہا ہے۔
فریش ہو کر نیچے آیا تو عیشل ڈائینگ پر بیٹھی تھی۔
کھانا شروع کریں ۔ اسے دیکھتے ہی کہا۔
اپنی بہو سے بھی پوچھ لیں۔ وہ بیٹھتے بولا
وہ کہہ رہی ہے بھوک نہیں ہے۔ ۔ تم کھاؤ۔
وہ جی کہتا بے دلی سے کھانے لگا۔ سنگدل بدتمیز کھانا نا کھاتی ویسے ہی بیٹھ جاتی ۔ ۔ دل میں سوچتا کھانے لگا۔
دعا کدھر ہے خانم؟ کھانا ختم کر کےپوچھا۔
وہ لان میں ہے۔ عیشل نے اس کی بے چینی محسوس کر کے جواب دیا
اٹھ کر لان کی طرف آیا جہاں دعا لان میں پتا نہیں کن خیالوں میں تھی ۔
دعا؟ دور سے ہی پکارا
گوہر کی آواز پر چونکی
جی؟
وہ ۔ ۔ ۔ تم ۔ ۔ مجھے اسلامہ آباد جانا تھا ایک دو ویک کے لیے۔ ۔ گو ہر کو کچھ سمجھ نہیں آیا وہ کیا بولے۔
میں پیکنگ کر دوں گی۔وہ مڑے بغیر بولی اور چلی گئی گوہر چہرہ بھی نہیں دیکھ پایا۔ آج پہلی بار اسے دعا کی شدید خاموشی ویسی ہی بری لگی جیسی اکثر اس کے بولنے پرلگتی تھی۔
گوہر کیا ہوا؟ دعا کو یوں اپ سیٹ جاتا دیکھ کر گوہر سے پوچھا
وہ میری پروموشن ہوئی ہے تو کل مجھے اسلامہ آباد جانا تھا۔ ۔ ۔ آرام سے بولا
اچھا۔ ۔ وہ لمبا کھینچ کر بولی۔
چلو جا کر آرام کرو۔ میں چلتی ہوں۔ ۔ کندھا تھپتھپا کر بولیں۔
رک جائیں پلیز۔ وہ کندھے سے ہاتھ پکڑ کر بولا
لیکن۔ وہ اس کی ضد دیکھ کر سوچ میں پڑ گئیں۔
زی کے کمرے میں سو جائیں نا جانے سے پہلے آپ سے مل کر جانا چاہتا ہوں۔
اچھا۔ وہ ہنسی
جب وہ کمرے میں آیا دعا شائد پیکنگ کر چکی تھی
وہ اندر آیا دعا کو دیکھا ۔ اس کا چہرہ بیمار لگ رہا تھا آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔
پیکنگ ہوگئی۔ اسے دیکھتے ہی وہ جھٹ سے بولی
دعا ۔ ۔ وہ پریشان ہوا
کچھ چاہیے ؟ بیگ کہ زپ بند کرتے پوچھا
تم ٹھیک ہوں ؟ اسے دیکھ کر پریشان ہواتھا
جی۔ ۔ ۔ کھانا کھاچکے؟ میں برتن اٹھا لیتی ہوں ۔ اور وہ چلی گئی۔
اف یہ ایسی کیوں ہے ۔ ۔ اب تو سر پکڑ کے بیٹھ گیا جب وہ کافی دیر تک نہیں آئی تو لیٹ گیا۔ پھر وہ کب سویا اسے پتا نہیں چلا جب آنکھ کھلی وہ صبح کی آزان ہو رہی تھی۔ وہ اٹھا اور نماز کے لیے نکل گیا جب وہ نماز پڑھ کے آیا تو دعا کچن میں ناشتہ بنانے میں مصروف تھی۔وہ سیدھا کمرے کی طرف بڑھا تیار ہو کر نیچے آیا تو عیشل اور دعا ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھیں باتیں کر رہی تھیں
وہ سلام کرتا کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ناشتہ کرتا وہ گائے بگائے دعا کو دیکھتا مگر وہ صرف نظر جھکائے ناشتہ کر رہی تھی۔
اچھا اب میں چلتی ہو اپنا خیال رکھنا دونوں اور گوہر دھیان سے جانا۔ وہ گوہر کے سر پر ہاتھ رکھتی الوداعی مسکراہٹ سے اٹھیں۔ گوہر انہیں گیٹ تک چھوڑنے گیا تب تک دعا برتن سمیٹ کر کچن میں چلی گئی۔
میں جانے لگا تھا۔ کچن میں آکر دعا کو بولا
جی۔ میں نے آپ کی میڈیسن رائٹ زپ میں رکھی ہیں۔
شکریہ دعا۔ وہ قدم قدم چلتا پاس آیا
دعا۔ ایک بات کہو۔ پاکٹ میں ہاتھ ڈالے پیچھے کھڑا ہوا۔
کیا؟ اب دعا نے مڑ کردیکھا۔
میں تم سے۔ ۔ میرا مطلب ۔ ۔ ۔ تم سے ۔ ۔ کچھ کہنا چاہتا تھا مگر واپس آکر کہوں گا انتظار کرنا۔ وہ کہہ کر کچن سے تیزی سے نکل گیا
ایک پل کے لیے ایسا لگا جیسے وہ مجھ سے ہمیشہ کے لیے میرا ساتھ مانگنا چاہتے تھے۔ اسے جاتادیکھ سوچا۔
کبھی کبھی دل و دماغ اتنے خود غرض ہو جاتے ہیں کہ وہ بس وہی سناتےاور دیکھاتے ہیں جس کی انہیں چاہ ہوتی ہے۔ پھر سر جھٹکا اور واپس سنک میں برتن رکھنے لگی۔
کبھی کبھی ہم چھوٹی چھوٹی باتوں کو کہنے کے لیے صحیح وقت کے انتظار میں انہیں دل میں رکھ لیتے ہیں جو وقت کی دھول کے ساتھ رائی سے پہاڑ بن کر دل کو سخت اور سنگدل کر دیتے ہیں ۔