بیٹھیں بیٹا۔ وہ سر جھکائیں ڈرانگ روم کے وسط میں کھڑی تھی۔
وہ آرام سے چلتے سامنے سنگل صوفہ پر بیٹھ گئی۔
تو اب بتائیں کیوں انکار کیا آپ نے ؟ وہ اس کی بے چینی محسوس کر سکتی تھیں۔
وہ ۔ ۔ ۔ الفاظ جیسے ختم ہو گئے ہو۔
کیا میرے بیٹے میں کوئی برائی نظر آئی آپ کو؟ وہ مسلسل اسے دیکھ رہی تھیں۔
نن۔ ۔ ۔ نہیں ۔ وہ جھجکی
تو پھر ؟ ایک آبرو اٹھائی۔
شائد آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔ وہ بس اتنا سوچ سکی
تو آپ صحیح سمجھا دیں۔ وہ مسکرائیں
دیکھیں ۔ ۔ ۔ ہمارا سٹیٹس۔ ۔ ۔ کچھ کہنا چاہا
سٹیٹس کیا ہوتا ہے؟ چیلنچنگ انداز میں کہا۔
میں نے بھی یہی کہا تھا۔ دیا کی زبان پھسلی۔ سوری۔ فوراً غلطی پر پشیماں ہوئی۔
آں ہاں صحیح بات کہی آپ نے دیا۔ وہ مسکرائیں
اس کے علاوہ کوئی برائی۔ اب وہ اس کے سامنے کھڑی ہوئیں۔
نہیں۔ اس نے مختصر جواب دیا۔
تو پھر میں ہاں سجھوں۔ وہ اس کے پاس آبیٹھیں اور اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔
دعا کو لگا وہ بالکل گوہر جیسی باتیں کرتی ہیں اپنی منمانی ۔ ۔
لیکن ابھی مجھے کچھ وقت درکار ہے ۔ زرینہ بیگم نے ٹوکا۔
وقت۔ ۔ شمائلہ بیگم نے ان کی جانب دیکھا
جی جی بالکل آپ کہ بیٹی ہے تحقیق آپ کا حق ہے آپ جتنا چاہیں وقت لیں۔ آفندی نے فوراً معاملے نی نزاکت کو سنبھالا۔
اتنے میں دروازے پر بیل ہوئی تو دیا اٹھ کر دروازہ کھولنے گئی۔
سوری زرینہ آپا لیٹ ہو گئے ہم ۔ حمدانے صاحب اندر داخل ہوتے ہی لیٹ آنے پر معزرت کی۔
کوئی بات نہیں بھائی صاحب۔ زرینہ بیگم اٹھ کر لھڑی ہوئیں۔
بیٹھیں۔ ان سے ملیں یہ مسٹر اینڈ مسز آفندی ہیں۔ زرینہ بیگم نے دونوں کا تعارف کروایہ۔
شیری سب کو سلام کرتا مسکرایہ اور یہ جا وہ جا۔
شیری ۔ جیسے ہی باہر نکلا دیا نے پکارا۔
ہائے کیسی ہو۔ شیری نے ہاتھ لہرایا
اچھی ہوں اور آپ۔ وہ مسکرائی
میں بھی دعا کدھر؟ دعا کو ادھر ادھر دیکھنے کے لیے نظریں گھمائیں۔
وہ کچن میں گئی ہے ۔ دیا نے اطلاع دی۔ وہ اوکے کہتا کچن میں داخل ہوا جہاں وہ لچھ نرتن سمیٹنے میں مصروف تھی۔
دعا۔ دروازے کے پاس کھڑے کھڑے آواز لگھائی۔
ہممم۔ وہ مڑے بغیر بولی۔
تو پھر تم نے انکار نہیں کیا۔ وہ ایک قدم اندر آیا۔
انہوں نے وجہ ہی نہیں چھوڑی ۔دعا نے مڑ کردیکھا۔
اگر نہہں چاہتی تو منع کر دو۔ وہ سائڈ پر پڑے سٹول کو لھینچ کر اس پر بیٹھ گیا۔
وہ ڈبڈبائی آنکھوں سے دیکھنے لگی۔
مگر تم منع نہیں کرو گی جانتا ہوں میں۔ وہ سر جھٹک کر بولا۔
کیا مطلب ؟ وہ حیران ہوئی۔
رہنے دو تم سن نہیں سکو گی ۔ وہ سر نفی میں ہلا کر بولا۔
نہیں تم بتاؤ۔ وہ سلب چھوڑ کے اس کے سامنے آکھڑی ہوئی۔
یو لائک ہم ۔ ۔ وہ دھیمے لہجے میں بولا۔
ن۔ ۔نو۔ ۔ چہرہ واپس مڑا کر گھوم گئی۔
دعا تم انکار کرو گی تب بھی سچ نہیں بدلے گا۔وہ سٹول سے کھڑا ہوا۔
مجھے نہیں معلوم تم کیا بول رہے ہوں۔ وہواپس برےن سمیٹنے لگی۔
اچھا چھوڑو۔ ۔ ۔ یہ بتاؤ کہ تم خوش ہو ۔ وہ جانتا تھا بحث کا کوئی فائدہ نہیں
پتا نہیں شیری میرا دل بہت پریشان ہے۔ کام کرتے ہاتھ رکے
کیوں؟
وہ گوہر ۔ ۔ ۔ وہ اب بھی گوہر کے اوپشنز والے رویے سے پریشان تھی
دعا اونرز سے جانتا ہوں اسے وہ بہت بدلیحاظ اور بدتمیز ہے مگر وہ اپنے سے جڑے لوگوں کے لیے اچھا ہے وہ جیسے ماہ جبیں کو سپورٹ کرتا ہے اس ۔ ۔ اس نے دل سے کہا۔
یاد آیا ماہ جبیں اور گوہر کی منگنی ہوئی تھی پھر یہ۔ ۔ وہ ایک یاد آنے پر مڑی
کیا؟ کس نے بولا تم کو؟
ماہ جبیں نے ۔ ۔ ۔
تو تم اس لیے پریشان ہو ۔ ۔ جیلس ہو ۔ ۔ وہ مسکرایہ
شیری۔ اس نے غصے میں دیکھا۔
یار وہ جھوٹ بول رہی ہوگی اگر ایسی بات ہوتی تو وہاں سے رشتہ کیوں آتا اور اگر آیا ہے تو وہ بات ختم ہو گئی ہوگی۔ وہ ایک ویلسیٹلڈ پرسن ہے تم خوش رہوگی۔ اس نے پیار سے سمجھایا
آپ دونوں کو میلو ڈرامہ ختم ہو گیا ہو تو زرا بڑو کی پارٹی میں جائیں بلاوا آیا ہے۔ دیا نے سرگوشی میں اطلاع فی
دونوں چل کر ڈرائنگ روم میں آئے۔
دعا بیٹا یہ میرے اور آفندی کہ طرف سے۔ شمائلہ بیگم نے ایک لفافہ اس کے ہاتھ پررکھا
بہت جلد ہم تاریخ لینے آئیں گے۔ اپنا پرس اٹھا کر بولیں
بھائی جان آپ کو ماما بلا رہی ہیں۔زی دروازے پہ ہی بول کر غائب ہوئی۔
میں آتا ہوں۔ ریموٹ نیچے رکھ کر اٹھ بیٹھا۔
ناک کر کے اندر آیا۔
اسلام و علیکم ۔ سامنھ ماں کو نا پا کر وہہں رکا
کیسے ہو بیٹا ۔ آفندی نے اس کہ ہجکچاہٹ کو نوٹ کیا۔
ٹھیک ۔ وہ باپ سے ہمیشہ نروس ہو جاتا تھا
ماما نے۔ ۔ ۔ ۔بلایا تھا۔ ۔ مجھے
بیٹھوں آتی ہیں۔ وہ کمرے کے انرونی سٹور سے اندر داخل ہوئیں۔
ہاں جی جناب ۔
اسلام و علیکم ماما۔ وہ مڑا اور مسکرادیا۔
ہم بتائیں کب فارغ ہوں گے آپ ۔ اسے کو دیکھتے بیڈ پر آ بیٹھیں۔
کیا مطلب ؟ بھنوؤں کو جمبش دی۔
آپ کہ شادی کی تاریخ رکھنی ہے ۔ وہ مسکرائیں
جب آپ کہیں۔ وہ سر جھکا گیا۔
اچھا جیتے رہو۔ ۔ اچھا وہ سامنے ٹیبل پر ایک تصویر ہے زرا لے کر آئیں
جی کرتا ٹیبل کی طرف مڑا اور الٹی پڑی تصویر کو پکڑا
پلٹ کر دیکھیں ۔
گوہر نے چلتے چلتے تصویر کا رخ موڑا ۔ ایک پل کو قدم ساکت ہوئے۔ یہ آنکھیں ۔ ۔ ۔ دماغ میں جھماکا ہوا۔ یہ انکھیں تو ۔ ۔ ۔پھر خیال کو رد کیا اور ان کی طرف بڑھا
کیا ہوا پسند نہیں آئیں ۔ ۔ اس کا رلنا انہوں نے نوٹ کیا۔
ایسی بات نہیں ہے۔ تصویر ان کی طرف بڑھائی۔
تو رکے کیوں ۔ انہوں نے انگلی رکھ کر تصویر اسے کے ترف دھکیلی۔
وہ مجھے لگا میں نے دیکھا ہے کہیں ۔ وہ واپس تصویر کو دیکھنے لگا۔
کہاں۔ ۔ ۔ یونیورسٹی میں ۔ وہ مسکراہٹ روک کر بولیں۔
نہیں ۔ ۔ ۔ آنکھیں ۔ ۔ ۔ ملتی ہیں شائد کسی سے۔
انہوں نے آفندی کو دیکھ کر چلینچ بھری نگاہ سے دیکھا۔
دعا نام ہے اس کا۔ انہوں نے دھماکہ کیا۔
گوہر نے غیر یقینی سے ماں کو دیکھا
آپ تصویر لے کے جا سکتے ہیں۔
جی کہتا کمرے سے نکلا تیز قدموں سے چلتا اپنے کمرے میں آیا۔ اسے لگا سانس رل جائے گی۔ جلدی سے کھڑکی کھولی تازہ ہوا گہرے سانس لے کر اند کھینچی ۔نظریں اٹھاکر بے بسی سے آسمان کو دیکھا۔
اے میرے مالک آپ نے تو نیک مرد کے لیے نیک عورت رکھی ہے تو پھر میرے لے ایک مکار عورت کیوں۔ میں نے تو کبھی کسی سے بے ایمانی نہیں کی کسی سے ماکاری نہیں۔ پھر ۔ ۔ ۔ پھر مجھے ایک بے ایمان کا ساتھ ۔ ۔ ۔ میرے اللہ میں نے محبت بھی ایمانداری سے کی اور نفرت بھی۔ اللہ آپ نے مجھے اس قابل کیوں نہیں سمجھا کہ مجھے ایک ایماندر عورت ملتی۔ اگر یہ میرے کسی کردا گناہ کی سزا ہے تو میں اسے بھگتوں گا تیرے سامنے سرخرو ہونے کے لہے اور اگر یہ میری آزمائش ہے تو میں اس سے نکلنے کے لیے تجھ سے بھیک مانگتا ہوں مجھے اس آزمایش سے نکال دے۔ تیرے سوا کوئی مجھے اس مصیبت سے نکال نہیں سکتا بس اس مصیبت سے نکلنے کے لیے کن فیکون کہہ دے میرے مالک میری دعا تیرے کن کی محتاج ہے اور ہمیشہ رہے گی۔
ہم۔اکثر نعمتوں کو مصیبت سمجھ کر اللہ سے انہیں بدلنے کی ضد لگا بیٹھتے ہیں جس میں ہمارا ہی نقصان ہوتا ہے۔ مگر ایک وہی تو ہے جو سب جانتا ہے ہمارا فائدہ کس میں ہے اور نقصان کس میں۔
اے ابنِ آدم!!
ایک تیری چاہت ہے…. اور ایک میری چاہت ہے
مگر ہوگا وہی…. جو میری چاہت ہے!!
اگر تو نے خود کو سپرد کردیا اُس کے…. جو میری چاہت ہے
تو میں بخش دوں گا تجھ کو…. جو تیری چاہت ہے!!
اور اگر تونے نافرمانی کی اُس کی…. جو میری چاہت ہے
تو میں تھکا دوں گا تجھ کو اُس میں…. جو تیری چاہت ہے
اور پھر ہوگا وہی…. جو میری چاہت ہے!!
وہ بس یہی چاہتا ہے ہم اس کی نا فرمانی نہ کریں۔ وہ بے شک حق ہے
میں دعا سے ملنا چاہتا ہوں ایک بار۔ کچن میں ماں کے پیچھے کھڑے گوہر نے جیسے ضد سے کہا۔آفس سے ایک دم اٹھ کر گھر چلاآیا۔
شمائلہ نے مڑ کر دیکھا
پلیز ایٹس آ ریکوئسٹ۔ ۔ منت بھرے لہجے میں پکارا۔
ٹھیک ہے میں بات کروں گی ۔ وہ واپس چولہے کی طرف مڑیں
ابھی ۔ ۔ وہ زور دے کر بولا۔
گوہر۔ ۔ وہ حیرانگی سے دیکھنگ لگیں۔
پلیز۔ ۔ ۔
اچھا رکو۔ وہ سر ہلا کر باہر نکلا۔ دعا کی امی کو فن ملایا۔ بات کی اور کچن سے باہر آئیں تو وہ ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھا نہیں ہی دیکھ رہا تھا
اچھا دعا کے آفس جانا پڑے گا۔ انہیں لگا وہ نہیں جائے گا۔
اوکے کہتا باہر نکلا۔
جوہر ٹاؤن کا شفاف ایریا پہنچ کر وہ نیچے اترا شمائلہ بیگم کے میسج کیے ایڈریس پر گاڑی روک کر اترا۔ دعا نے آفس کا نام پڑھ کر اندر داخل ہوا
جی میم تو اس کمرے میں ہیں۔ رسیپشنسٹ نے بتایا۔وہ مطلوبہ کمرے کی طرف بڑھا اس کے سامنے کھڑے ہو کر ایک گہرا سانس لے کر ناک کیا۔
وہ لیپ ٹاپ میں سر دیے بیٹھی تھی ناک پر کم ان کہا
وہ چلتا اندر آیا
جانی پہچانی مہک گردن جھٹکے سے اٹھائی
کھڑی ہوئی۔ احترامً کھڑی ہوئی تھی یا گھبراہٹ سے وہ نہیں جانتی تھی۔
وہ چلتا آیا کرسی کھینچ کر بیٹھا مگر وہ کھڑی رہی ساکتبالکل غیر متہرک
تمہارا آفس ہے بیٹھ جاؤ۔ اسے سانس روکے دیکھ کر بولا
آ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ وہ الجھن میں بیٹھی۔
کچھ لیں گے آپ ؟ وہ گڑبڑا کے بولی
نہیں۔ وہ سنجیدگی سے اسے دیکھتا بولا۔
وہ نروس ہو رہی تھی
ک ۔ ۔ کیسے ہیں۔ وہ واپس لیپ ٹاپ پر نظریں گھاڑ کر بولی۔
دیکھ نہیں رہا۔ رویہ دوٹوک تھا۔
ایک بات کہنے آیا تھا۔
ک ۔ ۔ کہیں۔ ۔ اسے سمجھ نہیں آیا وہ لڑکھڑا کیوں رہی تھی۔
اس شادی کا اقرار اپنی مرضی سے کیا ؟۔
کیا مطلب؟
مطلب صاف ہے اپنی مرضی سے کیا تھا یا زبردستی
اس میں زبردستی کی کوئی بات نہیں ہے میری ماں میرے لیے غلط فیصلہ نہیں کر سکتیں مجھے یقین ہے
کیتنا یقین ہے
خود سے زیادہ
اگر میں کہو شادی کے بعد نکاب چھوڑ دو تو
آپ ایسا نہیں کہیں گے
تمہیں یقین ہے؟
جی۔ لہجہ ہتمی تھا
تمہیں کتنا یقین ہے۔ آبرو اٹھائی
سوفیصد۔ اب کی بار نظریں اٹھائیں۔
اسے زیرو فیصد کرنے میں مجھے ایک منٹ بھی نہیں لگے گا۔ وہ انگلی اٹھا کر بولا۔
آپ ایسا نہیں چاہیں گے ۔ بہت بھرم سے کہا
مجھ پر اتنے یقین کی وجہ؟ کرسی پر ٹیک لگائے وہ ایک دم سیدھا ہوا۔
مجھے اللہ پر یقین ہے وہ ایسا نہیں چاہیں گے۔
یہاں اللہ کی نہیں میری بات ہو رہی ہے
اللہ اپنی چاہ دوسروں کہ مرضی بنا دیا کرتے ہیں اور وہ اپنے ہی حکم کو رسوا ہونے نہیں دہتے۔ وہ بے شک ہر چیز پر قادر ہیں۔
بے شک۔ چلتا ہوں۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ جانے کیا جاننے آیا تھا۔
اسے جاتا دیکھا کچھ کہہ نہیں سکی۔
ماما نہیں ہو سکتا۔ معمانی ایسا کیسے کر سکتی ہیں؟ وہ بیڈ کے ساتھ زمین پر گھٹنوں میں سر دیے بے یقینی سے بال پکڑے بیٹھی تھی۔۔
اس نے ٹھیک کیا۔ صلہ نے ہاتھ سر پررکھا۔
ماما؟ اس نے دکھ سے سر اٹھایا۔
دیکھو۔جب تک وہ لڑکی اس کے دل میں ہوگی وہ اسے بھولے گا نہیں اس کے دل سے نکالنا ضروری ہے اسے ۔ اسے گلے لگایا
کیا مطلب ہے آپکا ؟ وہ ایکدم سیدھی ہوئی۔
تم نے بے وقوفی کی مگر اب مت کرنا۔ وہ اس کا منہ اپنے ہاتھوں میں لے کر بولیں
میں نے مس انڈر سٹینڈنگ پیدا کی تھی مگر وہ۔ ۔ ۔
محبت اس سے کرو جسے آٓپ اپنا بنا سکو ۔اگر وہ کسی اور کا ہونے لگے تو اسے برباد کر دو۔ پھر جب وہ ٹوٹے گا تو صرف تمہارا ہوگا۔
اب ایسا ہی ہوگا میں دعا کو جھوڑوں گی نہیں۔ وہ آنسو پونچ کر بولی۔
لیکن عقل سے کام لینا۔اس کے پیشانی کو پیار کیا۔
میں نے سب پتا کروا لیا ہے۔ میرے دیکھنے میں تو اللہ کا شکر ہے سب ٹھیک ہی ہے کوئی مسئلہ وغیرہ نہیں۔ حمدانی صاحب ہاتھ میں چائے کا مگ پکڑے زرینہ بیگم کو تحقیقی تفصیل سے آگاہ کر رہے تھے۔
جی تو پھر میں شادی کی تاریخ کے لیے کہہ دوں۔ انہوں نے سولیہ انداز میں پوچھا
ہاں میرا خیال ہے جتنا جلدی ہو مناسب رہیے گا کیونکہ مجھے گوہر کی مدر کے رویے سے لگا وہ جلدی چاہتی ہیں۔ لیکن دعا کی مرضی پوچھنا بھی ضروری ہے۔
ہاں مجھے بھی یہی لگا تھا۔ وہ بھی سوچ کر بولیں۔
اسلام وعلیکم حمدانی انکل ۔ مدہم سی آواز میں کہتی وہ اندر آئی۔
واعلیکم اسلام بیٹا کیسی ہو۔ انہوں نے اٹھ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا
الحمداللہ آپ ؟
اللہ کا شکر ہے۔بیٹا آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہے نا؟ واپس بیٹھتے بولی۔
وہ خاموش تھی
بیٹا کوئی بات ہے تو بتائیں۔ اسے خوموش دیکھ کر بولے
میں بتاؤں بابا؟ شیری نے آتے ہی دعا کو دیکھا
اف یہ کہیں الٹا سیدھا ہی نہ بول دے۔ اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی۔شیری کو گھورا
میں پہلے سے بتا دوں اس کی جلدی شادی کر دیں اور چلتا کریں تا کہ میں کچھ دن آفس میں رعب جما سکوں ورنہ یہ ہر وقت میرے سر پر سوار رہتی ہے۔ شریر مسکراہٹ سجائے وہ زرینہ بیگم کے پاس جا بیٹھا۔
دعا کی جان میں جان آئی۔
پچھلے تیس منٹ سے انتظار کرتا اب تنگ آچکا تھا۔ پارلر کا دروازہ کھلا۔تو وہ بھی گاڑی سے نکل کے باہر آیا اگلی سیٹ کا دروازہ کھول کر اسے بیٹھنے کو کہا۔ اس کے بیٹھنے کے ساتھ ہی ڈرئیونگ سیٹ سنبھالی پھر منہ دعا کی طرف کیا۔
اچھی لگ رہی ہو۔ وہ یک ٹک اسے دیکھتا گیا پہلی بار اسے میک اپ میں دیکھا تھا بہت مختلف لگ رہی تھی۔
شکریہ۔ گہرا سانس لے کر مسکرائی۔
نروس ہو ؟ کانپتے ہاتھ دیکھے۔
ہممم۔
میں تمہیں بالکل مس نہیں کروں گا۔ واپس گاڑی کی طرف متوجہ ہو کر اسے سٹارٹ کی۔
میں بھی۔ مسکراہٹ روک کے بولی۔
آئی ہیٹ ہم ۔ ۔ ۔
گوہر نے کیا کہہ دیا۔ وہ انجانے میں اسے پروٹیکٹ کر رہی تھی۔
ایک واحد دوست رہ گئی تھی جس سے میں ہر چیز شیئر کر لیتا تھا اس نے مجھ سے وہ چھین لی۔ ماصومیت منہ پہ سجا ئی۔
وہ ہنسی۔میں مرنے تھوڑی جا رہی ہوں بس شادی ہو رہی ہے۔
پکا نا۔ تصدیق چاہی
ہاں۔ وہ ہاتھ اٹھا کے بولی جیسے گواہی دے رہی ہو۔ مطلوبہ ہال میں پہنچ کر اس نے زرینہ بیگم کو کال ملائی۔ چند منٹوں میں وہ ہال سے نکل آئی۔
آگئے ۔ پچھلی سائڈ سے جانا ہے وہ سٹنگ روم میں۔ شیری کو بتایا اور دعا کو لے کر کمرے میں چلی آئیں۔ اسے صوفے پر بٹھایا۔
ماشاللہ ۔اس کا چہرے دونوں ہاتھوں میں لے کر وہ کتنی ہی دیر اسے دیکھتی رہی۔ دعا کے انسو نکلنے کو تھے۔
رونا نہیں ہے۔ دعا بیٹا مجھ سے ایک وعدہ کرو ۔ وہ اس کا ہاتھ تھام کر بولیں۔
کیسا وعدہ ؟ لمبا سانس لے کر انسو اندر اتارے۔
بیٹا یہ رشتہ بہت نازک سا ہوتا ہے لیکن اسے مضبوط صرف عورت بناتی ہے۔ کبھی کبھی انسان ایسے مسئلوں پھنس جاتا ہے جہاں یا تو مان بچایا جا سکتا ہے یا اپنا رشتہ لیکن تم وعدہ کرو تم جھک جاؤ گی مگر رشتہ ٹوٹنے نہیں دو گی۔ وہ اسے پیار سے سمجھا رہیں تھیں۔
امی میں پوری کوشش کروں گی جہاں تک ممکن ہو میں رشتے کو ترجیع دوں۔ تسلی دلوائی۔
باہر شیری نے دعا کے کمرے کی طرف بڑھتے دیا کو دیکھ کر اس کے رول ہوئے بالوں کی لٹ کھینچی
اف اللہ کیا مصیبت ہے؟۔ وہ سی کر کے رہ گئی۔
کہاں بھاگ کے جا رہی ہو۔ ہنسی روکی۔
دعا سے ملنا ہے بال چھوڑو آپ ۔ وہ لٹ کو پکڑ کے بولی۔
اچھا چھوڑ دیتا ہوں ۔ لٹ چھوڑی
مجھے اپنی بہن سے ملنا ہے آپ کون ہوتے ہیں روکنے والے۔ کمرے پے ہاتھ رکھا۔
اوئے اتنی مشکل سے پارلر سے لے کر آیا ہوں اب رولا کر تم اس کا اتنا مہنگا میک اپ خراب مت کرنا۔ دروازے کے سامنے ہاتھ رکھ کر کھڑا ہوا۔
میں تو رلاؤں گی مزا آئے گا۔ وہ چڑانے والے انداز میں بولی اور اس کا ہاتھ ہٹاہا۔
امی آپ مہمان دیکھیں جا کر ۔ دروازہ کھول کے آواز لگائی۔
اف اللہ انسان کی بچی لگ رہی ہو آج۔ دعا پر نظر پڑتے بولی۔ دعا نے بولنے کے لیے لب کھولے۔
آ ہا بولنا مت تمہاری بیس خراب ہو جانی ہے۔ دعا نے کھلے لب بند کیے۔
کتنا اچھا ہوگا نہ اب پورے کمرے پرراج کروں گی۔ محظوظ ہو کر بولی
اسلام وعلیکم ۔ رضوان بیگم کے ہمراہ اندر آیا۔
ماشاللہ اچھی لگ رہی ہوں۔ انابیہ اس کے سامنے آ کر بیٹھی۔
نظر مت لگا دیجیے گا میری بہن کو۔ دیا نے چیڑا۔
انہوں نے ماشاللہ کہا ہے۔ پیچھے سے کسی کی آواز آئی۔
کون ہو تم یہاں کس نے بلایا چلو نکلو یہاں سے۔ آواز پر مڑی اور اس کے عین سامنے آ کھڑی ہوئی۔
دیا بھائی ہے میرا۔ انابیہ نے اسے چیل کی طرح چھپٹتے دیکھ کر فوراً بتایا۔
اوپس ۔ ۔ ۔ آپ ملیں میں بعد میں آتی ہوں۔ اس کے سامنے سے کھسکی
اوپس نہیں سوری۔ ۔ ۔ سرگوشی کے انداز میں بولا۔
وہ گھور کے نکل گئی۔
شیری ہال میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔۔ کھانا لگ چکا تھا۔
دیا کو ڈھونڈنے کو اس نے یہاں وہاں دیکھا دور کہیں وہ نظر آئی تو وہ اس کی طرف تیزی سے نکلا۔
مڑا ہی تھا کہ کسی سے ٹکرایہ۔
اوہ سوری ۔ ۔ بول کر ایک قدم اگے ہواتو کچھ پاؤں کے نیچے محسوس کر کے رکا۔
میرا موبائل توڑدیا جاہل ۔ ۔ وہ تقریباً چیلانے والے انداز میں بولی۔
کیا کہا؟ شیری نے گھور کر دیکھا۔
جاہل۔ بات کو دھرایا۔
اچھا ۔ ۔ شیری نے پاؤں کا دباؤ بڑھا کر رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ اور اگے چل دیا اور دیا کے پاس پہنچا۔
یاردیا جلدی سے چلو دعا کو بھی کھانا کھلا دو۔
ڈالے گا کون ؟ واپس مڑ کر بولی
تم اور کون ؟ اس کی جانب انگلی دیکھا کر بولا۔
جی نہیں میں کیسے اٹھاؤ گی آپ لے کو آؤ میں دروازہ کھولوں گی نہ ۔ اپنی بات کر کے وہ نکل گئی
بدید ہو اپنی بہن جیسی۔ پیچھے سے آواز لگائی۔
وہ ہنستی ہوئی ہال میں ملحقہ کمرے کہ طرف بڑھی تو دروازے کے پاس زمیں پر زی کو بیٹھے دیکھا۔
ہائے کیا ہوا۔ نیچھے چھکی۔
میرا فون ٹوٹ گیا۔ فون اٹھا کے دیا کے سامنے کیا۔
اوہ یہ تو اچھا خاصہ ٹوٹ گیا ہے۔ اتنی زور سے گرا تھا کیا؟۔فون دیکھ کر بولی جس کی سکرین مکمل ٹوٹ چکی تھی۔
نہیں اس نے پاؤں رکھا ہے۔ دکھ سے بولی۔
کوئی جاہل ہی ہے۔ دیا نے تبصرہ کیا۔
ہاں۔ چلو آؤ ۔ آپ کو سس سے ملاؤ۔ اسی اٹھا کر بولی۔
بھابھی سے؟ وہ ایک دم خوش ہو کر بولی۔
جی۔ ایک آنکھ دبا کر بولی۔دونوں کمرے میں داخل ہوئیں جہاں انابیہ سے کچھ بتا رہی تھی۔
اللہ آپ تو بڑی کیوٹ ہیں۔ زی چلتے سامنے آئی۔
وہ ہلکا سا مسکرائی۔
کھانا حاضر ہے۔ شیری ٹرے اٹھائے کمرے میں داخل ہوا۔
تم۔ زی نے مڑ کے دیکھا
تم یہاں کیا کر رہی ہوں۔ اسے دیکھ کے بولا۔
ایک منٹ ایک منٹ۔ یہ زری ہیں دولہے کی بہن ۔ دیا نے تعارف کرایا۔
پہلے بتا دیتے نہ یہ شادی نہیں ہونے دینی تھی میں نے۔ وہ اسے چڑانے کے انداز میں بول کر اگے بڑھا۔
کیا مطلب ہے آپ کا۔ دونوں ہاتھ کمر پررکھے
جاؤ نہیں بتاتا۔ وہ اترا کر بولا۔
تم تو۔ ۔ ۔ وہ چھپٹی۔
شیری ۔ دعا کی آواز پردونوں مڑے۔ لڑو تو مت۔
ہاں دعا پہلے ہی پریشان ہے تم لوگ ڈراؤ تو مت ۔ ۔ ۔ انابیہ نے مداخلت کی
اتنا رش کر رکھا ہے آپی پہ ۔ ۔ ۔ دانی اندر آیا
آپی کے چہیتے ہم جا رہے ہیں تم لوگ رہو یہاں۔ دیا زی کا ہاتھ پکڑ کے باہر نکل گئی۔
رسمیں تقریباً ختم کر کے دعا کو گوہر کے کمرے میں لے جایا گیا مگر گوہر ابھی باہر ہی بیٹھا تھا۔
گوہر بہت بہت مبارک ہو۔ ماہی اس کے پاس بیٹھی۔
شکریہ۔وہ سامنے دیکھتے بولا۔
اتنے چھپے رستم نکلے بتایا بھی نہیں۔ وہ اس کی طرف منہ کیے بولی
گوہر نے مسکرانے کی کوشش کی۔
اچھا ہوا دعا نے بتا دیا ورنہ ۔ ۔ ۔ رونگی سے بولی
کیا؟ وہ اس کی جانب رخ موڑ کے بولا۔
یہی کے تم نے اسے پرپوز کیا تھا۔ مگر اس نے منع کیا۔ اس پر اتنا فدا تھے کہ تم نے اس کے پاؤں پڑ کے منایا۔ مسکراہٹ طنز بھری تھی۔
اس نے یہ کب بتایا؟۔ حیرت سے آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
ابھی تمہارے کمرے میں چھوڑ کے آئی تھی تب بتایا۔وہ واپس سیدھی ہوئی۔
گوہر کی رگیں تن گئیں۔
اس نے ثابت کر دیا وہ کتنی اچھی ہے تمہارے منانے کے باوجود اس نے تم سے آنٹی کو بھی جھکایا۔ ویسے ماننا پڑے گا۔ کمال ہے وہ۔ وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اٹھ کر چلی گئی۔
گوہر کا بس نہیں چل دہا تھا کہ اس وقت وہ دعا اس کے سامنے ہو اور وہ اس کو مار ڈالے۔ ماں کے کہنے پر وہ اپنے کمرے کی جانے بڑا۔ دروازے کے سامنے رکا۔
دعا میں تمہیں تمہارے جھوٹ کے لیے کبھی معاف نہیں کرونگا۔
ناب گھما کر دروازہ کھولا۔ قدم جیسے بھاری ہوئے۔ مگر قدم اٹھایا اندر آیا۔ پہلی بار اپنے ہی کمرے سے وحشت سی محسوس ہوئی۔ وہ دشمنِ اول سر جھکائے بیٹھی تھی۔ اس کے قدموں کی چاپ سے ہلی۔ وہ چلتا ہوا بیڈ کے پاس آیا۔ دو منٹ کو رک کے اسے دیکھا۔ غصہ مزید بڑھ گیا۔ واپس مڑا کوٹ اتار کھڑکی کے پاس پڑے صوفے پر اچھالا۔واپس چلتا بیڈ پر اس کے عین سامنے آ بیٹھا۔
گو ہرنے بولنے کہ لیے لب کھولے جیسے لفظوں کو ترتیب دینے میں چند ساعتوں گزر گئی۔
تو تم جیت گئی ہاں۔ غصے اور صدمے کی ملی جلی کیفیت سے وہ گویا ہوا۔
جی؟ ۔ سوالیہ انداز سے وہ نظریں جھکائے بولی
ہا۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ۔ ۔ تم اپنی جھوٹی انا اور ذات کے ڈراومے کے لیے اس حد تک گر سکتی ہو۔۔ ۔ ۔۔تم پوری دنیا کو بے وقوف بنا سکتی ہو لیکن مجھے نہیں بناسکتی ۔
اپنے غصے کو دبانے میں وہ مزید وحشت ناک ہوتا جا رہا تھا۔
آپ ۔ ۔ کیا بول رہے ہیں؟۔ ۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔
کیا اب بھی کچھ کہنے کی ہمت ہے تم میں؟ وہ اٹھ کر کھڑا ہوا۔
آ آپ ۔۔ آپ شائد ۔ ۔ ۔ غلط سمجھ رہے ہیں ۔ وہ رندھائی ہوئی آواز میں بامشکل اتنا ہی بول سکی۔
شٹ اپ۔ وہ دھاڑا تو وہ سہم گئی۔
آنسو بہنے لگے۔ وہ چپ ہوا اور کہیں غائب ہوا۔ وہ کتنی ہی دہر حیراتوں کے سمندر میں غوطہ زن رہی۔
کہیں شیری کا اندازہ غلط تو نہیں۔ ماہ جبیں والی بات صحیح۔ دماغ میں بار بار ایک ہی خیال آیا تو اس کے آنسو مزید تیزی اختیار کر گئے
دور کہیں سے آواز آئی تو وہ ہڑبڑا کے اٹھی کمرا مکمل تاریخیوں میں ڈوبہ کسی غار کا نقشہ پیش کر رہا تھا۔آواز تیز سے تیز تر ہوتی گئی۔ وہ ایک دم اٹھی نگے پاؤں اندھیرے میں ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارے ایک دم کمرے کا لیمپ چلا تو وہ پیچھے مڑی۔
الماری میں رکھا کے سامان۔ اندھے منہ پڑا بولا
وہ واپس مڑی اکماری کھولی جہاں اس کا بیگ پڑا تھا دعا نے جلدی سے فون نکالا اسے سائلنٹ کیا۔ الماری بند کی اور واپس مڑی۔ مگر گوہر پتا نہیں کب اٹھ کے عین پیچھے کھڑا ہوا۔وہ ایک دم اسے سامنے دیکھ کر ڈر کے الماری سا جا لگی۔
گوہر اگے بڑھا دائیاں ہاتھ الماری سے ٹکایا آگے جھکا۔
یہ فون۔اس وقت کیوں بجھ رہا ہے؟ مدہم سی آوازمیں زرا سخت لہجے میں بولا۔
الارم ۔ ۔ ۔ نماز ۔ ۔ ۔ نماز کے لیے لگایا تھا۔ خود کو سنبھال کر دبی سی آواز میں بولی۔ گوہر نے مڑ کے گھڑی کہ طرف دیکھا پانچ بج رہے تھے۔ پہچھے ہوا سر جھٹکا اور واش روم منہ گھس گیا۔ دعا نے شکر کا سانس لیا۔
کچھ دیر بعد وہ واش روم سے نکلا اور باہر چلا گیا۔ دعا نے وضو کیا نماز پڑھی۔ کچھ پل یونہی بیٹھی رہی۔ آنکھیں بند کی رات کا سارا منظر آنکھوں میں گھوم گیا۔ ہاتھ اٹھائے۔
ساتوں آسمانوں کے مالک تو سب جانتا ہے تجھ سے کچھ بعید نہیں میری مدد کر مجھے نہیں معلوم وہ میرے دل کے کس کونے میں بسا ہے۔ بسا ہے بھی یا نہیں تو بہتر علم رکھتا ہے۔ اللہ جی مجھے کسی سیراب کے پیچھے خواری کی آگ میں جلنے سے بچا میں تجھ سے تیری تمام خوبیوں تیری تمام تر رحمتوں اور عظمتوں کے واسطے رحم کی بھیک مانگتی ہوں یہ رشتہ تیری رضا جوڑا ہے مجھے ہمت دے میں سے جڑا رہنے دوں۔ جو نہ مانگا اور جا نہ مانگ سکی بن مانگے عطا فرما بے شک تو عطا کرنے والا بڑا مہربان ہے۔ آ
گوہر کی آنکھ کھلی وہ کب مسجد سے آ کر بیڈ پر بیٹ کے سویا اسے اندازہ نے ہوا۔ اب آنکھ کھلنے پر تیزی سے اٹھا۔
اف کہیں ماما یا بابا کو ہی نہ بتا دے۔ تیزی سے کمرے کے باہر قدم رکھا مگر پھر رکا
اچھا ہے بتا دے میں اس کہ طرح ڈرامہ نہیں کر سکتا۔ میری سرد مہری سے تنگ آ کر خود ہی چلی جائے گی میں کیو برا بنو۔واپس مڑا اور صوفے پر بیٹھ گیا۔
گوہر کو بلا لاؤ آپ کے گھر سے ناشتہ آنے والا ہے۔ شمائلہ بیگم کہ آواز پر چونکی۔
جی میں؟
ہاں جی بھابی آپ ۔ پیچھے سے زی کہیں سے ٹپکی۔
وہ سر جھکا کر اٹھی کمرے کی جانب دیکھا۔ ہمت اکٹھی کی اوپر جانے کی۔
بھابی میرے بھائی اکثر گم ہو جاتے ہیں تو آپ کی آدھی انرجی انہیں ڈھونڈنے میں لگا کرے گی تو آپ نا روز جوس کی مقدار میں اضافہ کر لیا کرنا۔ وہ ہنستے ہوئے بولی۔
وہ اس کی بات پر ہنسی اور کمرے کی طرف بڑھی۔ وہ بیڈکراؤن سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے بیٹھا تھا۔
اف اللہ اس دیو کو اٹھاؤں کے نہیں؟ آنکھیں بند کر کے سوچا
میرے سر پہ کیوں کھڑی ہو؟۔ ۔ شائد اس کے قدموں کی چاپ سے آنکھیں کھولی تھیں
نیچے جانا ہے۔ ہمت کر کے بولی۔
جاؤ۔ اس نے واپس آنکھیں بند کی۔
آپ کو ناشتے کے لیے بلا رہے ہیں؟ وہ ایک قدم۔آگے آئی۔
مجھے بھوک نہیں ہے ۔ بھنوؤں نے حرکت کی جیسے چڑا ہواس بات سے۔
لیکن ۔ ۔ ۔ دعا نے کچھ کہنا چاہا
جاؤ کہہ دو جا کر۔ ۔
خود جا کر کہہ دیں۔ اس نے انکھیں کھولیں مگر تب تک وہ کمرے سے نکلتی نظر آئی۔
سپیڈ۔ ۔ ۔ باقی منہ میں ہی دبا کر اٹھ گئی