دعا ایف۔ سیونٹین کا بیچ مل کے گیٹ ٹو گیدر کررہا ہے اپشنز پے ۔ شیری نے لیپ ٹاپ میں سر دیے بیٹھی دعا کو پکارا۔
نہیں مجھے نہیں جانا۔ لیپ ٹاپ پر نظریں جمائے اس نے جھٹ سے انکار کیا۔
کیوں؟ ٹیبل کے سامنے ہی کرسی کھینچ کر بیٹھا۔
میں کیا کروں گی جا کر ۔ دعا نے نظریں ہٹا کر کہا۔
مجھے تو جانا ہے نا ۔ ۔ بچوں کی طرح منہ بنا کر بولا۔
تو تم جاؤ کس نے روکا ہے ۔ واپس لیپ ٹاپ پر جھکی۔
یار آخری دن ہے اس کے بعد پیپرز ہو جانے ہیں پھر تو کوئی کسی سے ملے گا بھی نہیں۔پلیز انجوائے کریں گےسب۔ لیپ ٹاپ کھینچ کر بولا۔
اچھا میں سوچوں گی۔ پہلے اسے دیکھا پھر تنگ آ کر بولی۔
سوچنا وچنا بعد میں ڈن کرو ابھی۔ لیپ ٹا ہاتھوں میں دبا کر بولا۔
کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ؟ وہ بے بسی سے بولی
یہی کہ مسئلہ ہے کہ رضوان بھابی کے ساتھ بزی تم لیپ ٹاپ کے ساتھ۔ میں معصوم کدھر جاؤ۔ لیپ ٹاپ ٹیبل پر رکھا۔
تم اگر معصوم ہو نا تو دنیا تمام ہے تم۔ دعا کے ماتھے پر بل پڑے۔
چل ککڑی جلو مت تم ۔ ۔ چل رہی ہو کہ نہیں؟
نہیں۔ یک لفظی جواب دے کر دعا نے لیپ ٹاپ واپس کھینچا۔
تمہارے جتنی بدید دوست میں نے کبھی نہیں دیکھی ۔ وہ بس دیکھ کر رہ گیا۔
دیکھو گے بھی نہیں۔
بھاڑ میں جاؤ تم ۔ ۔ وہ غصے میں اٹھ کر چلا گیا۔
وہ بس دیکھتی رہ گئی۔ دو منٹ بعدرضوان اندر داخل ہوا۔
اوئے اسے کیا کہا ہے منہ بھلا کر بیٹھا ہے۔ کچھ پیپرز ہاتھ میں اٹھائے وہ اندر آ کر کرسی پر بیٹھا۔
کیا کہا اس نے۔ ایل ۔سی۔ڈی بند کر کے بولی۔
میں نے بولا زرا یہ ڈیٹیل دعا کو دو کہتا خود جا کے دو نوکر نہیں ہوں۔
ہاہاہا ۔ ۔ وہ بیچ کا گیٹ ٹو گیدر کا پلان تھا تو میں نے منع کردیا۔
میں بھی منع ہی کیا تم تو چلی جاؤ پتا تو ہے تمہیں وہ پہلے ہی پریشان ہے۔ اس کا دھیان اگر اس میں لگتا ہے تو لگنے دو۔
اوکے چلی جاؤں گی۔
اچھا میں نے اینڈروئڈ ڈیویلپر اور گار ڈ کے لیے اشتہار دیا تھا لچھ سی ویز ملی تھیں پرسوں انٹر ویو کے لیے آئیں گے لوگ تو زرا ٹائم سے ریڈی ہو جانا میٹنگ روم میں اور اسے بھی منا لینا
ماشاللہ اچھے لگ رہے ہو۔ گوہر آئینے کے سامنے کھڑا بال بنا رہا تھا۔
تھینک یو ماما ۔ ۔ شمائلہ بیگم کی آواز پر وہ مڑا۔
کہیں جا رہے ہو؟ چلتے اندر آئیں۔
وہ آج ہمارا بیچ لنچ کرنے اوپسنز جا رہا ہے ۔ ۔ ۔تو اس لیا تیار ہو گیا آفس سے سیدھا وہیں جاؤں گا ۔ ان کی طرف مکمل گھم کر بولا۔
آپ نے کب سے گیدرنگ شروع کر دی۔ آبرو اٹھا کر بولیں۔
آپ ہی تو کہتی ہیں گھلا ملا کرو سب سے ویسے بھی سیشن اینڈ ہو جائے گا ۔ ۔ ۔
ہمممم ۔ ۔ میں کہنے آئی تھی کہ ماہی آئی ہے اسے تم سے کچھ ہلپ چاہیے۔
وہ اوکے کہتا ان کے پیچھے لان میں آ گیا۔لان میں ماہی ہاتھ میں کچھ کاغز پکڑے بیٹھی تھی۔
بیٹوں تم دونوں میں زرا جوس لاتی ہوں۔
میں کافی دوفعہ آچکی مگر تم گھر پر نہیں ہوتے
ہم بس کام ۔ ۔ جلدی بتاؤ کیا کام کے مجھے آفسسے لیٹ ہو رہا ہے۔
یہ پوائنٹ کلیر نہیں ہواتھا مجھے۔ ماہی نے پیپرز اس کے طرف بڑھائے اور ایک پوائنٹ پر انگلی رکھی۔ گوہر نے انکھوں سے گوگلز اتار کر پیپرز پکڑے۔ پوائنٹ دیکھا اور اس کو جلدی سے آسان ورڈنگ میں تیز تیز بتانے لگا۔
سمجھ آگئی۔ اسے بتا کر پیپرز اس کی طرف بڑھائے۔
ایک منٹ دیکھانا زرا۔ ۔ ۔ پیپرز پکڑاتے کچھ خیال آنے پر اس نے واپس پکڑے
یہ تمہارے پاس کیسے آئے؟پیپرز پہچان کر بولا۔
یہ تو دعا کے پاس تھے لیکن تمہارے پاس کیسے آئے۔
وہ دعا پھاڑرہی تھی لابی میں تو میں نے بولا اسے لوبی میں نہ پھاڑے کہتی تم پھینک دینا ڈسٹبن میں۔ میں نے پکڑ لیے پھردیکھا کہ یہ تو کام کے ہیں سو رکھ لیے۔ اسائنمنٹ تھی شائد اچھی بنی ہوئی ہے۔
میں تمہیں ایماندار سمجھتا تھا دعا تم ٹاپ پوزیشن کے لیے ایسی حرکت کرو گی یقین نہیں آتا۔ گوہر کے دماغ میں بار بار یہی خیال آیا مگر وہ ماہی سے کچھ بھی نہیں کہہ سکا مارے غصے کے چہری سرخ ہوا اور وہ رکے بغیر تیز تیز قدموں سےچلتا گاڑی کی طرف بڑھ گیا
دوپہر کے دو بجنے کو تھے وہ ابھی بھی یونہی بیڈ پہ لیٹا پڑا تھا آفس بھی نہیں گیا تو دعا کی مسلسل کالز کو اگنور کر رہا تھا جو صبح سے آ رہی تھیں۔ اب پچلے دس منٹ سے رنگز کا سلسلہ پھر شروع ہوا ایک بار دیکھا دعا کا نام دیکھ کر فون واپس رکھ دیا۔
شیری بھائی وہ نیچے۔ ۔ ۔ خاور جلدی سے آیا اور شیری کو بیڈ پر آڑھا ترچھا پڑے دیکھ کر کچھ کہنا چاہا
ہاں نیچے بھی فون ہے لیکن میں سنے کو موڈ میں نہیں ہوں۔ وہ منہ بھسوڑے بولا۔
نہیں وہ ۔ ۔ نیچے۔ ۔ باہر سے ہی بولا۔
کہاں نا نہیں سننا اکیلا چھوڑ دو مجھے۔ ہاتھ ہانکھوں پررکھے
دعا باجی آئی ہیں۔ وہ جھٹ سے بولا۔
آنکھیں کھلیں۔ وہ ایک دم بستر سے اٹھ کر بیٹھا۔
وہ نیچے ہے؟
کہنا تو یہی تھا آپ ایسے پڑے تھے جیسے کوئی ناکام عاشق ہوتا ہے۔
اچھا اچھا۔ وہ جلدی سے اٹھا چپل پہن کر نیچے دوڑا۔
تم یہاں کہا کررپی ہو؟۔دعا کو لاؤنچ میں میگزین کی ورق گردانی کرتےدیکھ جھٹ سے بولا۔
بیس منٹ ہیں تمہارے پاس جلدی سے تیار ہو کر آؤ۔ میگزین سے نظریں ہٹائے مسکراہٹ دبا کر بولی۔
یہ کیامزاق ہے۔ چہرے کے تاثرات زراڈھیلے پڑے ۔
اوپشنز والے ہمارے لیے بیٹھے نہیں رہیں گے جلدی کرو دو منٹ ویسٹ کر دیے ۔ ۔ وہ اٹھ کر کھڑی ہوئی۔ ہمیشہ کی طرح بلیک ابایہ اور نکاب۔
لیکن تم تو۔ ۔ ۔ اسے سمجھ نہیں آیا کیا بولے
سرپریئزبھی کچھ ہوتاہے۔ پانچ منٹ ویسٹ۔ وہ گھڑی دیکھ کر بولی۔ یہ سوچ کر کہ دعا کاارادہ بدلے وہ فوراً کمرے کی طرف بھاگا۔ تقریباً پندرہ منٹ میں تیارہوکر وہ نیچے آیا۔
واہ بڑی تیزی دیکھائی ہے ۔ وہ ہنسی تھی۔
میں کونسا لڑکی ہوں جو آدھا دن لگاتا تیار ہونے میں۔ وہ سر پر کیپ پہن کر بولا۔ دونوں چلتے باہر آئے گاڑی کی طرف بڑھتے ہی شہری نے دعا کو گھورا
ڈرائیور نہیں ہوں میں سمجھ آئی۔
جی ماہبدولت آ گئی۔ وہ سمجھ گئی تھی وہ اسے پیچھے بیٹھنے پر منع کر رہا تھا۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے ایک گہری سانس لی۔ جیسے شیری نے دیکھ کر اس کی طرف مڑی کر مسکرایا۔
میں جانتا ہوں تم نے کیا سوچا۔ اور میں اس کے لیے انشاللہ کہو گا۔
شیری میں یہ اپنے لیے نہیں امی کے لیے چاہتی ہوں
میں جانتا ہوں۔
گاڑی بڑی سہولت سے اپنی راہ پرگامزن تھی۔
ویسے تم نے بھی ماہ کبیں سے خباثت سیکھ ہی لی۔
اف خدایہ کیوں جلتے ہو تم اس بے ضرر لڑکی سے ۔ دعا کو اس کے خلاف سننا اچھا نہیں لگا۔
اس نے ایک دفعہ میری اور نمرہ کی لڑکی کروائی تھی۔ وہ منہ بنا کر بولا۔
دعا کچھ بول نہیں سکی۔
بیچ کے تقریباً سب ہی لوگ موجود تھے۔ اچا نک رافیل کھڑا ہوا۔
ہیلوسب میری طرف دھیان دیں ۔ تیز آوقز پر سب اپنے اپنے ٹیبل سے اس کی طرف مڑے۔
تو بات کچھ یوں ہے کہ گیدرنگ کا آئڈیا میرا تھا سو میں ہی۔ہوسٹ ہوں ۔
اچھا تو پھر ہمارا بل بھی آپ ہی دو گے ۔ ہے نا؟ شیری نے فوراً جواب دیا۔
نہیں مسئلہ یہ ہے آپ سب ان مہمانوں میں سے ہیں جن کا انا کبھی خوشی نہیں دیتا تو لحٰظہ اپنے بل خو دیں نہیں تو اپنا بندو بست کر لیں کسی کے پاس پیسے ویسے نہ ہوائے تو میں نے کسی کو پہچاننا وہ نہیں سیدھا مکر جاؤں گا۔ وہ ڈھٹائی سے بولاتو سب کا قہقہہ گونجا۔
چلو سب آرام سے بیٹھ جاؤ ۔ میں بہت کچ مزے کا سوچا ہے تو پہلے اپنی اپنی چونچ کو زرا بند رکھیں۔ وہ مسکراہٹ دبا کر اب اپنی ٹیبل سے اگے دمیان میں آ کھڑا ہوا۔
اچھا جی تو بات یہاں تک پہنچی ہے کہ ہم سب اکھٹا ہوئے ہیں ۔ ۔ اس سوچ کے ساتھ کہ ایک۔دوسرے کو اچھی طرح الوداع کریں گے۔ تو جھوٹے موٹے جس کے جو بھی جھگڑے ہیں وہ معاف کریں اور اگے بڑھیں۔ چلیں ایک ایک کر کے بتانا شروع کریں کس کا کس کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟
ہر کوئی اپنا اپنا اپنا چھوٹا موٹا مسئلہ بتانے لگا۔ بظاہر معمولی سے بات کبھی کبھار انسان کو اتنا رنج دیتی ہیں کہ اگر اسے اسی وقت ختم نہ کیا جائے تو تمام عمر کے لیے ایک تلخ یاد بن کر ہمارے اندر ناسور کی شکل اختیار کر لیتی۔
سب سے ایک ایک کر کے پوچھا گیا۔ سب ہی کوئی نہ کوئی چھوٹی موٹی بات دل میں رکھ کر بیٹھا تھا۔ جیسے بہت پیار سے حل کیا گیا مذاق اور محبت کے ساتھ۔
شیری نے ماہ جبیں سے اپنے اور نمرہ کی لڑاکی کا زکر کیا تو پہلے تع حیران ہوئی پھر مجھے اندازہ نہیں ہوا کہ ایسا ہوگا میرا یہ انٹینشن نہیں تھا کہہ کر بات ختم کی۔
گوہر پر آنے پر گوہر نے بس اتنا کہا۔ مرا مسئلہ میں خود حل کر لوں گا تھنکس۔
میرے دماغ میں ایک بات آئی ہے۔ ۔ ۔
کس کا جس سے کوئی لوشو کا چکر ہے بتا دو پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی۔
سب نے اپنے اپنے کرشز کا زکر کیا مگر نام لہے بغیر۔
اچھا جی کرشز ہیں یا نہیں یہ الگ بات ہے یہ بتائیں کہ شادی اینج یا لو ؟ رافیل پوری تیاری کے ساتھ آیا تھا۔
تقریباً ہر کوئی ایک جواب کےساتھ حاضر تھا کہ پسند کریں گے مگر پیرنٹس کی مرضی کے ساتھ۔
رافیل نے باتوں کے اختتام پر سب کو پھر سے اپنی جا نب متوجہ کیا۔
میں سب کو ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ میں اونرزسے ہی اسی یونیورسٹی میں ہوں بہت اچھا وقت گزرا مگر اس بار جو سب سے ہٹ کر ہوا وہ یہ تھا کہ میں ہمیشہ دیکھا گوہر ہی ٹاپ پر رہا مگر اس بار کسی اور نے ٹکردی یہ بات اچھی بات تھی۔ اچا اچھا جوک تھا یہ۔
دعا یو آر بیسٹ سٹوڈنٹ ائی ایور سی۔ اور میرے لیے یہ بات بہت الگ اور ناقابلِ قبول تھی کہ کوئی پرداہ کر کے ابھی اتنا آگے جا سکتا ہے ۔ یو ڈیزرو اونر فار دس۔
وہ مسکرا کر چلتا ہوا دعا کی طرف آیا۔ ایک کرواؤن اس کی طرف بڑھایا ۔ یہ ہماری پوری کلاس کہ طرف سے تمہارے لیے۔
You Deserve to be called the queen of this batch.
وہ اٹھ کر لھڑی ہوئی تو چند لمحوں کے لیے وہ یونہی کھڑی رہی انکھیں بھیگیں۔
شیری نے جلدی سے اس کے ہاتھ سے کراؤن پکڑ کے دعا کے سر پر رکھا۔
کچھ کہودعا۔ شیری بلو تو وہ درمیان میں آئی۔
مجھے نہیں معلوم میں اس قابل ہوں یا نہیں لیکن مجھے اس نکاب کی وجہ سے اتنی عزت ملی یہ میرے اللہ کا احسان ہے اور اس کے لیے آپ سب کا شکریہ۔
گوہر آپ بھی کچھ کہو۔ رافیل نے گوہر کو پکارا۔
گوہر چلتا ہوا ان کے پاس آیا۔ دعا کو مکمل اگنو کیا اس کی طرف دیکھا بھی نہیں جسے دعا نے بھی۔محسوس کیا۔
مجھے کو ئی لمبی بات نہیں کہنی بس اتنا کہو گا میں جس بھی رینک پر آؤں میں جانتا ہوں وہ رینک میں نے ایمانداری سے حاصل کیا ہوگا مگر میں ان لوگ کے لیے افسوس کا اظہار ضرور کروں گا کہ وہ کیسے سکون میں رہیں گے جو بے ایمانی کرتے ہیں اس چیز کو حاصل کرنے کے لیے۔
گوہر کی بات ختم ہونے دعا نے کہنا شروع کیا۔
Gohar good luck!May the best person will get the top rank In Shaa Allah.
وہ جو اپنی جگہ کی طرف مڑنے لگا تھا اس کی بات پر رکا واپس مڑا اور بولا۔
Ahah! Most cheated one will get.
اسے یونہی شش و پنج میں چھوڑ کر اپنی سیٹ کی طرف بڑھ گیا۔
قسم سے یار یہ ہمیشہ ہو کچھ عجیب کہتا ہے میں بھی کہو ابھی تک کہا کیوں نہیں۔ گوہر کے جاتے ہہ شیری نے دعا کے کان میں سر گوشی کی ۔
گوہر؟ وہ کھڑکی سے باہر جھانکنے میں مصروف تھا۔
جی؟شمائلہ بیگم کی آواز پر پیچھے مڑا۔
بزی ؟ دروازے کے پاس کھڑے کھڑے پوچھا۔
نو۔ وہ دو قدم آگے آیا۔
کیسے ہو بیٹا ؟ وہ چلتے اندر آئیں
ٹھیک ہوں ماما۔ وہ ان کے سامنے جھکا
ایک بات کرنی تھی؟ شمائلہ بیگم نے کندھے پر پیار کیا۔
کیا سوچا؟اسے غور سے دیکھتے بیڈ پر بیٹھیں۔
کس بارے میں؟ آنکھیں سکیڑ کر وہ بھی ساتھ بیٹھا۔
جس کا وعدہ کہا تھا؟ وہ مسکرائیں۔
جی ؟ وہ تو بھول ہی چکا تھا۔
آپ نے وعدہ کیا تھا کہ میں جس سے کہوں گی شادی کرو کر لو گے۔ وہ دھیمے لہجے میں بولیں۔
وہ کچھ دیر کو خوموش ہوا۔ جی ۔ ۔۔ ۔ ۔ مجھے یاد ہے۔
اب یہ دو پکچرز ہیں دیکھ لو کون پسند ہے ۔ وہ ایک لفافہ اس کی طرف بڑھا کر بولیں۔
ماما میں نے یہ آپ پر چھوڑا ہے۔ آپ جس سے کہیں گی میں کر لوں گا۔ وہ انہیں دیکھے بغیر بولا۔
میں تو چاہتی ہوں آپ ماہی سے کرو شادی۔۔ وہ اسے بغور دیکھے بولیں۔
اس نے بے بسی سے دیکھا۔ ایک گہرا سانس لیا۔ گردن جھکائی۔تھوڑی دیر خاموشی کے بعد ٹہر کر بولا۔ ۔ اوکے مجھے اعتراض نہیں۔
آپ اسے خوش رکھوگے؟ لفوفہ سائڈ پررکھا
وعدہ نہیں کرتا مگر میں ایمانداری سے نبھاؤں گا۔ الفاظ کا چناؤ بہت سوچ سمجھ کر کیا۔
ٹھیک ہے۔ پھر تیار رہو اپنا وعدہ پورا کرنے کے لیے۔ مجھے یقین ہے آپ میرا سر نہیں جھکاؤ گے۔ وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اٹھ کر چلی گئیں
صلہ کہاں ہیں ؟ شمائلہ بیگم صوفہ پر بیٹھتے ماہی سے مخاطب ہوئیں۔
وہ تو گروسری کرنے گئی ہیں۔ ماہی ان کے سامنے سنگل صوفے پر براجمان ہوئی۔
اچھا ۔ ۔ وہ یہاں وہاں نظر دوڑانے لگیں۔
اور کیسا رہا ایم۔فل ۔ ۔ چھت کو دیکھتے ماہی کو مخاطب کیا۔وہ بہت عرصے بعد آئیں تھیں۔
اچھا تھا ۔ ۔ وہ سر سری انداز میں بولی۔
دوست بنائے ۔ ۔ اب کی بار اسے دیکھا۔
نہیں ۔ ۔ وہ کچھ سوچ کر بولی۔
اور گوہر نے؟ وہ آنکھیں ماہی پر ٹکا کر بولیں۔
اس نے بھی نہیں بنایا۔
مگر وہ تو بتا رہا تھا ایک لڑکی۔ ۔ ۔ وہ ایک آبرو اٹھا کر بولیں۔
اوہ دعا ۔ ۔ ۔وہ دوست نہیں تھی بس کلاس فیلو۔ ماہی نے بات کاٹی
اچھا ۔صرف کلاس فیلو۔ ۔ وہ محظوظ ہوئیں۔
جی ۔ ۔ عجیب سی ہے اولڈ فیشن مڈل کلاس ٹائپ سی۔ لہجے میں حقارت کی امیزش تھی۔
کہاں رہتی ہے وہ ۔ ۔ ۔ انہوں نے آنکھیں سکیڑیں۔
پتا نہیں ۔ ۔ ۔ آپ کیوں پوچھ رہے ہیں۔
نہیں میں کیوں پوچھو گی بس ویسے ہی بات سے بات نکل آئی تو پوچھ لیا
سنیں؟ دبٹہ سائڈ پر رکھ کر بیڈ پر بیٹھی
ہممم۔ ۔ ۔ کتاب مہں سر دیے مصروف سی آواز میں بولے۔
مجھے دعا کے گھر کا ایڈریس چاہیے۔ گردن گھما کر دیکھا
کون دعا ؟ ماتھے پر بل ڈالے کتاب سے نظریں ہٹائے بغیر بولے۔
گوہر کی کلاس فیلو۔ ۔
تو آپ اسی سے پوچھ لیں۔ صفحہ پلٹا۔
نہیں آپ پتا کریں۔ بالوں کا جوڑابنانے لگیں۔
میں کہاں سے پتا کروں؟۔ اب کی بار وہ نظریں ہٹا کر بولے۔
ڈاکٹر سارہ کو دیا تو تھا نمبر آپ نے ۔انہیں پتا ہوگا ۔ انہوں نے یاد دلایا۔
یار تو آپ سیدھا گوہر سے پوچھ لیں۔ اس کی کلاس فیلو ہے پتا ہی ہوگا۔ کتاب پر پھر سے نظریں جمائیں۔
اگر آپ نے میرا کام نہیں کرنا تو بتا دیں ٹال مٹول مت کریں۔ وہ کمبل اوڑھ کر دوسری طرف منہ کر کے لیٹ گئیں۔
آپ ہر وقت مجھ سے اتنا ناراض کیو ں رہتی ہیں۔ کتاب سائڈ ٹیبل پر رکھ کر وہ ان کی طرف مڑے
میں نہیں ہوتی آپ کرتے ہیں۔ ۔ ۔ بچو کی سی ضد سے بولیں۔
آپ نہیں پوچھیں گے؟ کروٹ لیں کر سیدھا چھت کو گھورتے بولیں۔
سارہ اس وقت نائیٹ شفٹ پر ہے اب میں اس وقت کال کر کہ یہ پوچھوں؟ وہ حیران ہوئے ۔
مت پوچھیں۔ چھت پر نظریں جمائیں۔
اچھا بابا پوچھ دیتا ہوں۔ ہر بار کی طرح ہار مان کر بولے۔ فون ملا کر ڈاکٹر سارہ سے بات کی۔
وہ تھوڑی دیر تک میسج کر کے دیں گیں ایڈریس۔ موبائل سائڈ پر رکھا۔
ویسے کیا کریں گی آپ اس کا؟
کسی کی عقل ٹھکانے پر لانی ہے۔
کیا؟
وقت آنے پر بتا دوں گی۔ لائیٹ بند کر دی۔
اسلام علیکم ۔ دروازے پر ہی وہ مسکرائیں۔
جی کون ؟ سامنے ہائی ٹیل میں لڑکی آنکھیں کھول کر بولیں۔
مجھے دعا سے ملنا ہے ۔ چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ سجائے بولیں۔
وہ تو گھر پر نہیں ہے؟ وہ بغیر کسی تمحید کے بولی۔
ان کی مدر ہیں؟ سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
جی آجائیں۔ نفیس سی عورت کو دیکھ کر انہیں اندر آنے کو راستہ دیا۔
آپ بیٹھیں میں بلاتی ہوں۔ انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھا کر وہ اندر گئی۔
امی نماز پڑھ رہی ہیں آپ کچھ لیں گی؟ دومنٹ کے بعد آ کر اطلاع دی۔
نہیں۔ دعا کہاں ہیں ویسے ؟ کمرے کا جائزہ لیتے بولیں
جی وہ اپنے آفس گئی ہے۔ دیا ان کی طرف بڑھی۔
کیسا آفس ؟ وہ زرا حیران ہوئیں۔
وہ اپنی کمپنی کھولی ہے ایک سافٹ وئیر ہاؤس۔ وہ مسکرا کر بتانے لگی۔
ہم اچھا۔ وہ امپریس ہوئیں۔
میں نے پہچانا نہیں آپ کو۔ دیا نے کھڑے کھڑے پوچھا۔
میں گوہر کی مدر ہوں۔ وہ مسکرائیں
اچھا گوہر بھائی۔ وہ ایک دم خوش ہوئی۔
آپ جانتی ہیں گوہر کو۔ وہ حیران سی ہوئیں۔
جی ایک بار ملاقات ہوئی ہے۔
کب؟ متھے پر بل پڑے۔
آپ کی برتھ ڈے کے لیے گفٹ لینا تھا تو دعا سے ہلپ لی تھی انہوں نے۔ وہ یاد کر کے مسکرائی۔
شمائلہ کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑی۔اچھا
لیں امی آ گئیں۔
آپ کو پہچانا نہیں میں نے۔ پردہ ہٹاتے وہ اندرداخل ہوئیں۔
میں گوہر کی مدر ہوں ۔ وہ کھڑی ہوئیں۔
اچھا۔ وہ اچھا کو کھینچ کر بولیں۔ بیٹھیں آپ۔
دعا سے ملنا تھا مجھے ۔ وہ صاف سیدھے لہجے میں بولیں۔
ابھی تو مشکل ہے وہ تو چار بجے تک آتی ہے۔ دیاکودیکھا۔
اس کی کہیں منگنی وغیرہ کی ہے آپ نے ؟
ابھی تو ڈھونڈ رہے ہیں۔
اتنی میں ڈور بیل بجی تو دیا اٹھی۔ میں دیکھتی ہوں
دعا ؟ وہ اس وقت غیر متوقعہ آمد سے حیران ہوئی۔
یار وہ ایک فائل گھر رہ گئی تھی ۔ وہ تیزی سے اندر آئی۔
تم سے ملنے بھی کوئی آیا ہے۔
ہیں؟
تم مل لو میں فائل لے کر آتی ہوں۔
اسلام وعلیکم۔
شمائلہ بیگم نے سامنے مکمل ابایہ پہنے لڑکی کودیکھا۔
سوری میں نے پہچانا نہیں آپ کو۔
میں گوہر کی مدر ہوں شمائلہ آفندی۔
او اچھا ۔ ۔ ۔ وہ پزل سی ان کی طرف آئی۔
نکاب میں رہتی ہو گھر میں بھی؟
نہیں۔ وہ ۔ ۔ ۔ میں ۔ ۔ دعا نے نکاب نیچے کیا۔
اپنی امی سے شکل ملتی ہے تمہاری۔ دعا کے ہاتھ پکڑا۔
معاف کیجیے گا میں زرا جلدی میں تھی کیا آپ کو مجھ سے کام تھا۔
نہیں فلحال تو نہیں آپ جاؤ آپ کی امی سے کچھ کام ہے ابھی تو۔
یہ دیکھیں۔تصویر آفنفی کو دیکھا کر بولیں۔
یہ کون ہے ؟ تصویر پکڑے غور سے دیکھا
اس گھر کی ہونے والی بہو۔ وہ مسکرائیں
پہلے گوہر کی تو ہوجائے۔ تصویر واپس شمائیلہ کی طرف بڑھائی
یہ گوہر کے لیے ہی ہے۔ تویر واپس پکڑی
یہ کیا کہہ رپی ہیں آپ ۔ ۔ آپ اچھی طرح جانتی ہیں صلہ نے گوہر اور ماہی کی شادی کے لیے بات کی تھی۔ شمائلہ کو بے یقینی سے دیکھا۔
لیکن میں نے ہاں نہیں کیا تھا۔ وہ گردن گھما کر بولیں۔
لیکن میں صلہ کو کہہ چکا ہوں کہ ماہی اس گھر کی بہو بنے گی۔ لہجہ حتمی تھا۔
تو اب منع کردیں۔ وہ بھی اپنی بات منوانے کا ہنر جانتی تھیں۔
شمائلہ اب حد کر رہی ہیں آپ۔ شادی ماہی سے ہوگی بات ختم۔ وہ اٹھ کر لھڑے ہوئے۔
آفندی صاحب آپ اپنے وعدے سے پھر نہیں سکتے آپ نے مجھے اس گھر کے ہر فیصلے کا اختیار دیا ہے۔ تو۔ ۔
لیکن میرے بیٹے کی زندگی کا فیصلہ نہیں دیا۔ انہوں نے بات کاٹی۔
وہ اٹھ کر ان کے سامنے آئیں کچھ دیر انہیں دیکھتی رہیں۔ جی وہ آپ کا اور عیشل کا بیٹا ہے ۔ مگر اسے پالا میں نے ہے آپ نے نہیں۔ برسو اس کی ہر تکلیف میں میں نے اس کا ساتھ دیا آپ یا عیشل نے نہیں اسے پیار دیا ہے اور آج آپ مجھے بتائیں گے اس پر حق ہے یا نہیں۔ اس پر حق ہے میرا۔ وہ مجھے میرے بیٹے سے زیادہ عزیز ہے ۔ ایک بات یاد مت بھولیں۔ آپ نے اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کے مجھے ہر فیصلے کا اختیار نہیں دیا۔ میں نے آپ کے دل کے بٹوارے کے سمجھوتے پر یہ اختیار دیا گیا ہے۔
تو اب آپ بدلہ لیں گی؟ انہوں نے آج پھر سے وہی کھائی محسوس کی جہاں وہ بیس بائیسسال پہلے کھڑے تھے۔
میں۔آپ سے کسی چیز کا بدلہ نہیں لے رہی۔
تو پھر مجھ سے جڑا یہ رشتہ کیوں دور کرنا چاہتی ہیں وہ تو دوست ہے نا آپ کی۔ رشتوں کا واسطہ دینا چاہا۔
اس لیے ہی منع کیا ہے جو میں نے سہا ہے وہ میں ماہی کے لیے نہیں چاہتی آپ میں صبر تھا آپ نے رشتے کو کمپرومائز سے نبھایا بس دل پر کمرومائز نہیں کیا گوہر ایسا نہیں کرے گا میں جانتی ہو اسے۔ وہ واپس بیڈ پر ۶بیٹھیں۔ وہ جانتی تھیں وہ اپنی بات منواچکی ہیں۔
کیا مطلب ہے آپ کا ؟
گوہر دعا کو پسند کرتا ہے وہ کبھی ماہی کو خوش نہیں رکھ سکے گا نہ خود رہے گا ایسے رشتے سے کیا ملے گا ۔
گوہر نے ایسا بولا ہے؟
کیوں آپ نے اس کی خاموشی محسوس نہیں کی وہ پھر سے چپ سا ہو گیا ہے جب سے یونیورسٹی ختم ہوئی ہے۔۔ جا کر اس کی الماری میں رکھے کارڈ دیکھیں وہ نکلیس دیکھیں جو اس نے اپنے بیڈ سائڈ ٹیبل میں رکھا ہے۔
آفندی صلہ کو سمجھا دوں گی میں لیکن گوہر اور ماہی کی خوشیوں پر کوئی کومپرومائز نہیں کرو گی۔
دعا۔ وہ دعا اور دیا کے مشترکہ کمرے میں آئیں۔
جی؟
دیا تم زرا باہر جاؤ۔ اند آتے ہی دیا کو حکم دیا۔
امی میں بچی تھوڑی ہوں اور مجھے معلوم ہے آپ نے کیا بات کرنی ہے۔ وہ بھی ان کے پا س آبیٹھی۔
اف توبہ اجکل کی نسل کو تو شرم چھو کر بھی نہیں گزری۔
ہی ہی ہی ۔ ۔ میری پیاری امی بات کریں ٹائم ویسٹ نا کریں۔ اس نے پیار سے گلے میں ہاتھ ڈالے۔
گوہر کی ماں تمہارا رشتہ لینے آئیں تھیں۔ بغیر کسی تمہید کے بولیں۔
دوسری طرف مکمل خاموشی۔
میں نے سوچنے کا وقت لیا ہے۔ تم بتاؤ کیا جواب دوں؟ وہ اس کا ہاتھ تھام کر بولیں۔
امی آپ کو انکار کردینا چاہیے۔ اس نے ہاتھ واپس لیا اور نظریں جھکائیں۔
وہ کیوں؟ اتنے پیارے تو تھے گوہر بھائی۔ دیا نے مداخلت کی۔
تم چپ کرو دیا۔ اس انکار کہ وجہ۔ دیا کو گھورا۔
امی ان کے اور ہمارے سٹیٹس میں بہت فرق ہے اگر ہم زمین ہیں تو وہ آسمان۔ گہرا سانس خارج کر کے بولی۔
اف دعا تمہاری کمپنی اتنی اچھی چل رہی ہے سٹیٹس ہمارا بھی برا نہیں ہے اور آگے چل کر اور بڑھ جائے گا۔ وہ جھنجلا کے بولی۔
میں دیا سے متفق ہوں۔ زرینہ بیگم نے بھی دیا کی تائید کی۔
امی انسان کے پاس جتنا مرضی پیسا آ جائے آسمان میں اڑنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم یہ بھول جائیں کہ ہمیں زمین پر پیر ضرور رکھنے ہیں۔ اپنا آپ نہیں بھولنا چاہیے۔
لیکن وہ بھی تو سوچ سمجھ کر ہی آئی ہوں گی نا۔ دیا پھر سے بولی۔
اچھا پھر پرسوں آئیں گے وہ لوگ تو تم نہ جانا آفس بات کلیئر ہو جائے تو اچھی ہے۔
جی بہتر ۔
گوہر ۔ آفس سے آتے وہ بغیر یہاں وہا دیکھے کمرے کی طرف بڑھا تو شمائلہ بیگم نے آواز دی۔
ہمم۔ اس کے قدم رکے۔
ادھر آؤ۔ بیڈ پر بیٹھے آواز دی۔
جی۔ وہ چلتا ہوا ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔
کیا بات ہے پریشان ہو؟ وہ اس کے چہرے کا جائیزہ لینے لگیں
نہیں بس سر میں درد ہے ۔ ۔ ۔
بیٹھوں میں آتی ہوں۔ تھوڑی دیر بعد وہ گرم دودھ اور میڈیسن لے آئیں۔
لو یہ پیوں اچھا فیل کرو گے۔ ٹرے اس کی جانب ٹیبل پر رکھا۔
شکریہ ماما۔اس نے گلاس پکڑا۔
اچھا میں نے صلہ کو منع کر دیا۔ گولی منہ میں رکھتے وہ ایک دم رکا۔
ایک اور لڑکی دیکھی ہے میں نے اچھی لگی مجھے ۔ ۔ وہ مسکرائیں
تھینک یو ماما ۔ ۔ ۔ شکر کا سانس لیا۔
اب اس کے بارے میں نہیں پو چھو گے؟
دیکھتے ہیں اللہ نے میرے لیا کیا چنا ہے سر پرائیز سہی۔
میں نے سوچا تھا نام بتا دوں گی لیکن چلو اب وہ بھی سر پرائیز سہی۔
ہاہاہا یہ بھی ہے ۔ وہ کھل کے ہنسا تھا۔