تو کب کر رہی ہیں آپ اپنی پریکٹس سٹارٹ؟ گوہر کے گال کھنچتے ہوئے الماری میں تہ شدہ کپڑے رکھتی عیشل کو دیکھا۔
ہمممم۔ ۔ ۔ پہلے سوچا تھا اس کے سال کا ہونے پر کروں گی۔ لیکن اب دل نہیں چاہ رہا۔ الماری کو بند کرتی وہ بیڈ کی طرف آئی۔
کیوں؟ آفندی حیران ہوئے۔
میرا دل چاہتا ہے میں بس ہر وقت اپنے بیٹے کے پاس رہوں اس کا خیال کروں۔ گوہر کی ٹھوڑی چھو کر بولیں۔
اوراس کے خیال کے چکر میں آپ اپنے اکلوتے شوہر کو نگلیکٹ کر رہی ہیں۔ مصنوعی ناراضگی سے بولے۔
کوئی بات نہیں بچوں کے لیے اتنی قربانی تو دے ہی سکتے ہیں۔ آفندی کو دیکھ کر مسکرائی۔
ماں باپ بھی عجیب ہوتے ہیں اپنے بچوں کی خاطر کتنا کچھ قربان کر دیتے ہیں اور سوچتے بھی نہیں مگر اولاد اسے قرابانی ہی نہیں سمجھتی ان کی ہر قربانی ایک تنکے برابر بھی نہیں سمجھتی۔ افسوس سے بولے۔
آپ نے تو ایسا نہیں کیا نا پھر کیوں کہہ رہے ہیں ایسا۔ وہ انکھیں سکیڑ کے بولی۔
پتا نہیں کتنے کیسز آتے ہیں ماں باپ کو گھر سے نکال کر پاگل قرار دے کر چھوڑ جاتے ہیں۔ اسپتال میں ہوئے تازہ تازہ واقع کو سوچ کر افسوس سے نولے۔
اللہ سب کو آپ جیسی اولاد دے میں چاہتی ہوں یہ آپ جیسا بیٹا بنے۔ وہ فخر سے بولی۔
میں اتنا اچھا ہوں مجھے پتا ہی نہیں تھا۔ آفندی اپنی طرف انگلی کیے اترائے۔
تو میرا بیٹا اتنا اچھا ہے نا ۔ ۔ ۔ اماں کمرے کے باہر کھڑی فخس سے بولیں۔
اسلام و علیکم امی کیسے ہیں آپ؟ آفندی ہمیشہ کی طرح احترامً کھڑا ہوا۔
اللہ کا شکر ہے یہ بتا ؤ اس کی سالگرہ کا کیا سوچا۔ وہ قدم قدم چلتی اس کے ہاس آکر سر پر پیار کرتے عیشل کے پاس بیٹھیں۔
امی وہ تو جیسا آپ چاہیں مجھے دراصل لاہور جانا ہے ایک سیمینار میں لیکچر کے لیے بلایا ہے۔ وہ بھی بائیں جانب بیٹھتے بولے۔
لےچر ؟ وہ حیران ہو کے بولیں۔
جی وہ تھلیسیمیا ٹیسٹ جو شادی سے پہلے لازم قرار دیا ہے پنجاب میں اس کے لیے لوگوں کو آویئر کرنے کے لیے سیمینار رکھا ہے۔ ڈئیٹیل بتائی۔
بھائی شادی کے لیے ٹیسٹ کیوں ضروری ہے؟اس کا کیا تعلق ہے؟ وہ سر پر انگلی رکھ کر بولیں۔
ہے نا ۔ ۔ ۔ آپ نے دیکھا ہے کہ بہت سے بچے معزور پیدا ہوتے ہیں وہ صرف اس وجہ سے نہیں کہ خاندان میں شادی ہوئی ہے یہ صرف معروثی بیماری نہیں لوگوں کو اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ تھیلیسیمیا مائنر کے شکار ہیں ایسے لوگ جب شادی کرتے ہیں تو یہ بیماری ماں یا باپ سے بچو میں ٹرانسفر ہو جاتی ہے وہ بھی میجر کی صورت میں تب تک تو دیر ہو جاتی ہے اس لیے پنجاب گورمنٹ نے یہ قانون پاس کیا ہے کہ شادی سے پہلے بلڈ ٹیسٹ کر کے اس بیماری کی جانچ پڑتال کی جائے کپل کی جانب سے تا کہ اس بیماری کو روکا جا سکے۔
لیکن یہ اتنا تو نہیں ہے نا کہ قانون بنا دیا جائے۔
امی یہ تو پرابلم ہے ہم اپنے مسئلوں کو چھوٹا سمجھتے ہیں ڈیلی ٹائمز کے مطابق سو میں سے چھ لوگوں یہ میں میوٹن جین موجود ہے یہ آٹو ریسیسو ڈزیز ہے اگر دو لوگ جو یہ مائنر بیماری کیری کرتے ہوں وہ شادی کر لیں تو پچس فیصد ممکن ہے کہ ان کا بچہ تھلیسیمیا میجر کا شکار ہوگا۔
ہیں؟ منہ پر حیرانگی تھی۔
اچھا آسان لفظوں میں ہر سال چھ ہزار بچے تھیلیسمیا کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں یعنی تقریباً ایک دن میں سترہ بچے۔
اللہ توبہ ۔ کانوں کو ہاتھ لگا کر بولیں۔
جی اور ان بچوں کو ہر ماہ بلڈ ٹرانفر کی ضرورت ہوتی ہے۔اور اہک تھیریپی کی بھی تا کہ ان کی باڈی سے ایکسٹرا آرن نکل سکے۔اگر دیکھا جائے تو ایسے ایک بچے کا ایک سال کا خرچہ تقریباً ایک لاکھ اسّی ہزار ہوتا ہے۔
اچھا لیکن اگر کوئی ایسا جو تھلیسیمیا کا مریض ہو اور شادی کر لے پھر؟
ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جس کی ڈائریکٹر ڈاکٹر شبنم بشیر اور ریپریزنٹیٹو سجادالحسن ہیں وہ یہ مونیٹر کریں گے اگر کوئی ایسا کپل ہوا تو ان کو تقریباً ایک لاکھ جرمانہ ہو سکتا ہے۔
آپ کی بیگم سے ملنے کا شرف چاہتی ہوں
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتی ہوں۔ کلاس کا انتظار کرتی ایک دم بولی۔
پڑھے بغیر میں ڈگری ہولڈر کا خطاب چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں ۔ ہمیشہ کی گردان کو اب دعا کے ہی انداز میں کہا۔
ماہ جبیں سے تمہاری دوستی کا اختتام چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں۔ شیری نے بھی موبائل سے نظریں ہٹا کر کہا تو رضوان کی ہنسی چھوٹ گئی۔
ہیں کیا؟۔ اس نے کیا بگاڑا ہے ؟ دعا نے اگے ہوکر اسے دیکھا۔
وہ مجھے اچھی نہہں لگتی ۔ سادہ سا جواب تھا
اللہ توبہ کس قدر جیلس انسان ہو۔ ۔ ۔ ۔ رضوان نے ہنسی اڑائی۔
کلاس کے بعد لڑ لینا۔ دعا کھڑی ہوئی۔ ۔ ۔
تینوں چلتے کلاس میں آئے اور ہمیشہ کی طرح آخری بینچ پر جا بیٹھے۔
کلاس میں کوئی نظر نہیں آرہا ؟ دعا نے خالی کلاس پر نظر دوڑائی۔
واہ وٹ آ کو انسیڈنس مجھے بھی نہیں آ رہا کہیں ہم اندھے تو نہیں ہو گئے۔ ؟ شیری اپنے دونوں ہاتھ اگے ہوا میں لہرا کے بولا۔
ڈفرو سر نے ای میل کی ہوئی ہے چھٹی کی۔ رضوان موبائل سے ای میل دیکھ کر بولا۔
اللہ ای میل تو آئی تھی مگر دیکھی نہیں میں نے اففف ۔ دعا ماتھے پر ہاتھ رکھ کے بولی۔
اب میں تو چلا گھر ۔ ۔ ۔ رضوان نے فوراً اپنا بیگ اٹھایا۔
میں تو نیند سے ٹُن ہو رہا ہوں ۔ ۔ ۔ ڈرنک اینڈ ڈرائو کا کیس نہ ہو جائے۔ شیری نے بھاگنے کی کوشش کی۔
مجھے اکیلا چھوڑ کے جا رہیے ہو بے مروت لوگو۔ ۔ ۔ دعا نے دونوں کو کھسکتے دیکھ کر کہا۔
بچہ تم نے ٹاپ کرنا ہے ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ ۔ ۔ چلو تمہیں لوبی میں بیٹھا دیتے ہیں ۔ ۔ ڈر ہی نا جاؤ۔ شیری نے سیریس لہجے میں کہا۔
تینوں لوبی کہ طرف ائے جہاں سے شیری اور رضوان بیسمنٹ میں پارکنگ ایریا میں چلے گئے۔
دعا لوبی میں ہہ بیٹھ کر اگلی کلاس کا نتظار کرنے لگی۔
ہائے دعا۔ ابھی اسے بیٹھے دس منٹ ہی ہوئے تھے جب ماہی کی آواز آئی۔
کیسی ہو؟ ماہی نے ہاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
الحمدللہ آپ کیسی ہو؟ دعا نے موبال واپس بیگ میں رکھا۔
گڈ۔ ۔ اور کیا چل رہا ہے۔
سب ٹھیک ۔ ۔
دعا مجھے تمہاری ایک ہلپ چاہیے؟
کیا؟
اساینمنٹ سمجھا دو گی جس کا کل وئوا ہے
ہاں کیوں نہیں
دعا نے اسانمنٹ نکالی اپنے سیل پر اور اسے سمجھائی۔
بمشکل آدھی سمجھائی ہوگی۔جب اس کے فون پر کال آئی۔
اچھا میں باقی بعد میں بتاتی ہوں۔ ۔ کہہ کر۔وہ موبائل کان سے لگائے چلی گئی۔
گوہر بیسمنٹ سے آتے دیکھ اس نے پکارا اور ہاتھ ہلایا وہ جو دائیں جانب مڑ رہا تھا اسے دیکھ کر۔اس کی۔طرف آیا۔
ہائے
سر کے خم سے جواب دیتا وہ اس کے پاس آ بیٹھا۔
دونوں بیٹھ گئے۔
کچھ سوچ رہی ہوں ۔گوہر کے بیٹھتے ہی وہ بولی
ہمم سوچو ۔ سوچنا اچھا ہوتا ہے۔ ۔ ۔ گوہر نے اس کی۔بات کو سرسری سا لیا۔
شیری اور دعا کے بیچ میں۔ اس سے پہلے وہ بات مکمل کرتی گوہر بول پڑا۔
حد ہوتی ہے ماہی وہ دونوں دوست ہیں ۔ ۔ مجھے تم سے ایسی سوچ کی امید نہیں ہے۔ سختی سے ٹوکا۔
میں تو۔ ۔ اس نے دلیل دینی۔چاہی۔ی
میں تو کیا ؟ فضول قسم کی باتیں مت کیا کرو۔ایک دوست بنی ہے وہ بھی گنوا بیٹھو گی۔ کسی پر تہمت مت لگاؤ۔ اب کی بار رخ موڑ کے لہجے کو نارمل کیا۔
شٹ اپ۔ ۔ غصے میں کہتی وہ اٹھ کر چلی گئی۔
اف کہیں دعا سے ہی نہ کہہ دے اس کا کوئی پتا نہیں۔ خود سےسوچ کے وہ کلاس کی طرف بڑھ گیا۔ اس نے سوچا کہ وہ کلاس کے اختتام پر دعا سے بات کرے گا سو کلاس جیسے ہی ختم ہوئی گوہر نے دعا کو جا لیا۔
دعا۔ ۔ ۔ دعا اپنے نام ہر چونک کر مڑی
جی؟
کیسی ہو؟ اسے عین سامنے آرکا۔
یہ پوچھنے کو روکا ہے۔؟ وہ اس وقت شیری اور رضوان کے نہ ہونے پر زرا موڈ سونگز کا شکار تھی۔
ہاں ۔ ۔ ایک آبرو اٹھائی۔
دعا نے اسے گھور کر دیکھا۔
ایک بات کرنی تھی۔ اس کا انداز دیکھ کر وہ مدعے پر آیا۔
کہیں ۔ ۔ گھڑی پرٹائم دیکھتے وہ بولی۔
راستے میں کہوں؟وہاں سٹیئرز پر بیٹھتے ہیں۔ سامنے لوبی کی طرف جاتی سیڑھیوں کی۔طرف اشارہ کیا
مجھے دیر ہو رہی ہے۔
بس پانچ منٹ پلیز ۔
ویسے تو اتنی تیز چلتی ہے اب سانپ سونگ گیا ہو جیسے۔ دل میں سوچا اور دعا سے کہا نہیں۔ میں تمہیں کھا نہیں جاؤں گا۔
ماہی سے دوستی ہو گئی۔؟دعا کے بیٹھتے ہی بولا۔
یہ پوچھنا تھا؟ وہ اس وقت سوال جواب کے موڈ میں نہیں تھی۔
ہاں۔ سادگی سے کہتا وہ اس سے فاصلے پر ایک سیڑھی چھوڑ کر بیٹھ گیا۔
وہ ہمارا پرسنل ۔ ۔ ۔
اوئے بہت سلفش ہو دوستی میں نے کروائی تھی ۔ ۔ اس کی بات کو ٹوک کر بولا
آپ کے کہنے پرنہیں ۔ ۔ جواب بھی فوراً آیا۔
او اچھا ؟ چیلنج انداز میں کہا۔
آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟
پہلے بتاو ہوئی کے نہیں پھر بتاؤں گا۔
ہو گئی۔
ہمم میں جانتا ہوں تم سینسیبل لڑکی ہو لیکن وہ تھوڑی ایمیچور ہے چھوٹی ہے نا اس لیے۔
مجھے کیوں بتا رہے ہیں۔
تم خاموش رہ کر سنو۔ اور بیچ میں ٹوکا مت کرو۔ اب کی بار زرا سختی سے کہا
بدتمیز۔ دل میں سوچا۔
وہ میری کزن ہے
بس کزن ؟ آنکھیں سکیڑیں۔
گوہر نے گھورا۔
اوہ سوری ۔ ۔ ۔
وہ ایکلوتی ہے بس کبھی کبھی سٹوپڈ باتیں کرتی ہے اگنور کرنا ۔ ۔ کبھی کسی سی دوستی نہیں کی اس نے۔ کبھی کچھ الٹا بول دے تو اسے چھوٹا سمجھ کی اگنور کرنا۔ انکل آرمی میں ہیں سو کبھی ایک جگہ نہیں رہے تواس کا کوئی دوست نہیں۔ اس کے پاس بہت کم رشتے ہیں۔ امید کرتا ہوں اپنی چھوٹی بہن ہی سمجھو گی۔
دعا نے کوئی جواب نہیں دیا جاموشی سے کام لیا۔
اوکے آئی نو مجھے دونوں کی دوستی میں نہیں پڑھنا چاہیے۔
تو پھر کیو ں پڑ رہے ہیں۔ دعا نے پھر سے ٹوکا۔
وہ ۔ ۔ ۔ سنو ۔ ۔ کچھ سوچ کر رکا لیکن پھر پکارا۔
کیا؟ وہ حیران ہوئی۔
غصے میں ہو؟
نہیں
پرہشان ہو؟
نہیں۔ آپ کہوں اتنا فری ہو رہے ہیں ہم دونوں میں۔ اب بار دعا کو غصہ آیا۔
گوہر ہو ہنسی آیہ جسے اس نے بمسکل روکا۔۔ فری نہیں کافی ایکپنسو ہو ۔ ۔
اب میں جاوں ؟ دعا کھڑی ہوئی۔
کوئی پریشانی ہو تو کہہ سکتی ہو مجھ سے ۔ پنٹ جھاڑتا وہ بھی کھڑا ہوا۔
اس کے لیے دوست ہیں میرے۔ جواب جتایا گیا تھا۔
اوکے ۔ اب جاو کھڑی کیوں ہو۔ ۔ شیر کو سوا شیر تو دیکھانا ہی تھا
شیری ٹھیک ہی کہتا ہے اس کا دماغ کبھی بھی الٹ سکتا ہے ۔ دیو ۔ ۔ دل میں سوچتی وہ گیٹ کی طرف بڑھ گئی
گھر میں اچھی خاصی تقریب کا انتظام کیا گیا تھا۔
ہر طرف آرمی کے بیٹ مینز کام کرتے دیکھائی دے رہے تھے۔ آرمی کو کک سے کھونا ابا اپنی نگرانی میں بنوا رہے تھے۔
عشل تیار ہو کے گوہر کو اٹھائی نیچے لان میں آئی اماں اسے دیکھ کر اس کی طرف بڑھی
ارے بیٹا گھر کی تقریب تھی یہ نکاب کیوں کر لیا۔
امی میں نے یہ کسی انسان کے ڈر سے نہیں کیا۔ مجھے لگا اگر میں نے اسے اپنایا ہے تو پوری طرح سے کروں اس لیے۔ ۔ آ۔ ۔ اگر آپ کو برا لگا ہو تو ۔ ۔ میں معزرت چاہتی ہوں۔ ۔ ۔ وہ ہچکچائی۔
نہیں کوئی بات نہیں مجھے لگتا ہے ٹھیک ہی کیا۔ میں خوش ہوں اپنے بیٹے کے انتخاب پر۔ ۔ وہ مسکرا کر اگے بڑھیں اور اس کے سر کو پیار کیا۔
عیشل گوہر کواٹھائے کیک کے پاس آئی تو اس اس کی طرف متوجہ ہوئے اس پہلے کوئی کچھ کرتا گوہر نے اپنے ننھے ہاتھ کو گمایا اور کیک پر لگی موم بتی کیک سے نیچے جا گری۔ کوئی ہنس پڑا تو کوئی شاک میں کیک کودیکھنے لگا۔ خیر کیک کا خراب نا ہونا غنیمت جان کر موم بتی بجھانے کی رسم کو ہی ختم قرار دے کر سیدھا کاٹنے کی رسم کی گئی اور اس کے بعد کھانا کھانے کی اسی دوران کچھ تصاویر بھی لی گئیں۔ سب نے اپنی اپنی بساط کو دیکھ کر گفٹ دیے۔ تقریب کے اختتام پر سب اپنے اپنے آشیانے کو چل دیے اور گھر کے لوگ اندر آکے بیٹھے ۔
صلہ بیٹا آج آپ کے ہاتھ کی چائے پینے کا دل چاہ رہا ہے۔
میں؟ ہمم اچھا بنا دیتی ہوں۔ ۔ ۔ صلہ چائے بنانے کچن میں چل دی اور عیشل اللہ حافظ کہتے اپنے کمرے کی طرف۔
ارے عیشل بیٹا زرا ادھر آؤ۔ عیشل واپس مڑی۔
میں یہ دینا بھول گیا تھا۔ عیشل کی طرف ایک لفافہ بڑھایا۔
یہ کیا ہے۔ لفافہ پکڑتے حیران ہوئی۔
بیٹا پہلے جو بھی دعا وہ آپ کے ساس سسر نے اپنے بیٹے کی اولاد کودیا مگر یہ ماں باپ ہونے کی حیثیت سے آپ کے لیے ہے۔ ۔ ۔ مسکرا کر سر پر ہاتھ پیارا۔
وہ شکریہ کہتی چلی گئی۔ مگر انہوں نے اس کی آنکھوں میں آئی نمی دیکھی تھی۔
یہ کیا دیا آپ نے؟ اماں نے حیرانگی سے پوچھا۔
وہ جو گلبرگ لاہور میں پلاٹ لیا تھا نا وہ ۔ ۔ وہ کہتے کمرے کی طرف چل دیے۔
وہ پلاٹ تو آپ نے صلہ کو دیانا تھا عیشل کو کیوں دے دیا۔ کمرے میں آتے ہی پہلا سوال کیا۔
ہاں دینا تو صلہ کو ہی تھا مگر عیشل کودیکھ کر مجھے لگا اس کو زیادہ ضرورت ہے۔ وہسے بھی ہم نے عیشل کو دینا تو تھا ہی کچھ نہ کچھ ۔ ۔ کوٹ اتار کر وہ ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی۔
اور صلہ ۔ ۔ اماں ان کے سامنے آکھڑی ہوئیں۔
ارے اللہ اور دے گا ویسے بھی بھائی ہے اس کا وہ دیگا نہ ۔ ۔ وہ پیچھے مڑے اور مسکرائے۔
لیکن مجھے اچھا نہیں لگا۔ اماں کہہ کر بیڈ پر بیٹھ گئیں۔
صلہ چائے کی ٹرے اٹھائی کمرے کی طرف بڑھی کمرے کو ناک کرنے سے پہلے اپنے نام پر کان کھڑے ہوئے تو وہ رک گئی۔
ارے میری بھولی بیگم صلہ کے پاس ماشاللہ سب کچھ ہے اللہ اسے اور زیاء کو اور دے لیکن عیشل کے پاس ہمارے علاوہ ہےہی کون ایسے موقع پر وہ اپنے ماں باپ کو بہت مس کررہی ہوگی۔ اس نےجتنی عزت ہمیں دی ہے صلہ بیٹی ہو کے بھی نہیں دے سکی۔ اب عیشل کا اتنا حق تو تھا ہی۔ وہ بھی ان کے سامنے آ بیٹھے۔
ہاں لیکن ۔ ۔
لیکن ویکن کچھ نہیں ۔ ۔ ۔ بس چائے بنوا دو اب ۔ ۔ اچھا۔
میرا پلاٹ دے دیا اس کو سمجھتی کیا ہے یہ مجھ سے میرا سب کچھ لے گی ایسا میں ہونے نہیں دوں گی۔ دل میں پلان بناتی چہرے پر بشارت لائی اور دروازے نکل گئی
شمائلہ بیگم دروازہ کھلا دیکھ کر کمرے میں داخل ہوئیں۔ بیڈ پر کاغذات کا ڈھیر دیکھ کر ان کا سر چکرا گیا۔
اف پتہ نہیں اس لڑکا کو کیا ہو گیا ہے اتنا گند پھیلا رکھا ہے اس نے۔ ہر چیرز کو اٹھا کر سمیٹنا شروع کیا سارے پیپرز اٹھا کے سٹڈی ٹیبل پر رکھے ۔ ۔ گھڑی اٹھا کر دراز میں رکھنے کی غرض سے سائڈ ٹیبل کا دراز کھولا تو انکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ گھڑی رکھ کر دراز سے لاکٹ اٹھایا۔ کچھ دیر دیکھتی رہیں
یہ کیا چکر ہے؟ خود سے سوچنے لگیں لیکن پھر واپس رکھ کر دراز بند کر کے کھڑی ہو گئیں۔
اسلام علیکم ماما ۔ ۔ ۔ واش روم سے نکلتے سر خشک کرتے گوہر نے دیکھ کر سلام کیا۔
میں صاف کرنے والا تھا۔ شرمندگی سے بولا۔
سر کے خم سے جواب دیتیں اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ گوہر نے سٹڈی ٹیبل سے چیئر کو کھینچ کے بیڈ کے سامنے کیا اور بیٹھ گیا۔
جی؟
تو کیا سچا؟
تولیہ کرسی کی بیک پر رکھا ۔ کس بارے میں؟
بالکل اپنے باپ پر گئے ہو ؟
آپ غصے میں ہیں۔ ۔؟ ہنسی کو روک کر بولا۔
بات کو گھماؤ مت ۔ ۔ شادی کا کیا سوچا۔ ۔
وہی جو پہلے کہا تھا ابھی نہیں کرنی۔ اس نے صاف گوئی سے کام لیا۔
میں نے جواب نہیں مانگا وجہ پوچھی ہے۔ اس کے چہرے کو انکھوں کے حسار میں لیا جیسے چوری پکڑ لی ہو۔
وجہ میں ڈگری سے پہلے شادی نہیں کرنا چاہتا میں ابھی سٹڈی ہر کونسٹریٹ کرنا چہتا ہوں ۔ ۔ اس نے ٹالنے میں ہی عافیت جانی۔
اچھا پھر ٹھیک ہے میں ایسا کرتیں ہوں صلہ کو کہتی ہوں کہ وہ ڈگری کے فوراً بعد شادی کی تاریخ رکھ لیں۔ ۔ ۔ وہ اسے گھور کے بولیں۔
یار ماما پلیز ۔ ۔ معاملہ الٹا ہو گیا۔
کیا پلیز ؟
ماما میں نے کبھی ماہی کو اس نظر سے نہیں دیکھا
شادی کے بعد دیکھ لینا۔ ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
اب میری بات نہیں سمجھ رہیں۔ وہ بچو کی طرح منہ بنا کر بولا۔
تو سمجھاؤ میں سننا چاہ رہی ۔ سینے پر بازو بانھتے ہوئے بولیں۔
مشکل ہے ماما۔ سر جھکایہ۔
میری پاس بہت وقت ہے۔ وہ خلافِ عادت بولیں۔
ماما وہ زمانہ اور تھا جب پوری زندگی جسے بھائی بہین کہتے رہے اس سے شادی ہو گئی لیکن اب نا ممکن ہے۔ جذبات نہیں بدل سکتے اس معاملے میں۔
اچھا ۔ آبرو اٹھائے۔
ہاں نا ۔ ۔ میں نے ماہی کو ہمیشہ زی جیسا ہی سمجھا چھوٹی بہن کی طرح میں اس کے لیے اپنے جذبات نہیں بدل سکتا ۔ ۔ پلیز ٹائی ٹو انڈر سٹینڈ۔
بس یہی وجہ ہے؟۔ ۔ وہ آنکھیں سکیڑ کے بولیں۔
جی۔ ۔
آئی ہوپ یہی وجہ ہو۔ ۔
ہاہاہا ماما اوکے ۔ ۔ ۔ڈگری کے بعد آپ جس سے کہیں گی میں شادی کر لوں گا ۔ ۔ ایکسپٹ ماہی۔ ۔
وعدہ کررہے ہو؟
اممم ۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔
کونسی میٹنگ ہو رہی ہے یہاں؟۔ آفندی کمرے کے باہے کھڑے ماں بیٹے کو سر جوڑ کے بیٹھے دیکھ کر کھنکدار آواز میں بولے۔
میٹنگ ختم ہو گئی۔ شمائلہ گوہر سے نظریں ہٹا کر بولیں۔
اچھا لگتا ہے مجھ سے خفیہ میٹنگ تھی۔ ۔ اندر قدم رکھتے بولے۔
ہاں کچھ ایسا ہی ہے۔ ۔ گوہر نے بھی ماں کا ساتھ دیا۔
اچھا چلو کوئی بات نہیں ۔ ۔ ایک فیور چاہیے تھا گوہر۔ ۔
جی بولیں۔۔۔ گوہے کھڑا ہوا۔
یاد ہے وہ لڑکی جس نے ڈاکٹر سارہ کا لیپ ٹاپ ٹھیک کیا تھا؟
جی دعا۔ دعا کے نام پر شمائل بیگم نے رخ پھیر کر گوہر کو دیکھا۔
اس کا نمبر وہ مانگ رہی تھیں تمہاری یونیورسٹی میں ہی پڑھتی ہے وہ ۔
جی کلاس فیلو ہے وہ ۔ ۔
کلاس فیلو۔ ۔ شمائلہ بیگم نے دھرایا۔ ۔
جی۔ لیکن نمبر تو نہیں ہے میں ڈاکٹر سارہ کانمبر دے دوں گا وہ کال کر لئ گی۔ گوہر نے غور نہیں کیا کہ اس وقت شمائلہ کے چہرے پر کیا تھا۔
ہاں یہ ٹھیک رہےگا ۔
زبردست موسم ہے چلو آئس کریم کھاتے ہیں۔ شیری نے لوبی سے باہر نکلتے ہی آسمان پر خوبصورت موسم کو دیکھا۔
ہم گھر جا رہے تھے شائد۔ دعا نے اس کے بدلتے تیور دیکھ کر فوراً یاد دلایا۔
جا رہے ۔۔۔۔تھے اب آئس کریم کھا کر جائیں گے ۔ ۔ ۔ چلو شاباش پیسے نکالو۔ ۔ ۔ ہاتھ دعا کی طرف بڑھا کر بولا۔وہ جانتا تھا دعا اپنی چیز ہمیشہ اپنے پیسوں سے ہی لیتی تھی۔ ایک خودمختار عورت کی انا کو گوارہ بھی نہیں کہ وہ کسی اور کے پیسے کو خرچ کرے اسے تو دوسروں پر خرچ کرنے کی عادت ہوتی ہے کسی سے کچھ مانگنا یا ادھار لینا اس کے انا کو ٹھیس پہنچنے کئ مترادف ہے۔
دعا نے اس کی امیچور طبیعت کو دیکھتے ہوئے چاروناچار پیسے نکالے۔
اچھا کیا لو گی تم ؟ پیسے پکڑتے فوراً بولا۔
چوکلیٹ ۔ ۔
اوکے تم بیٹھے میں لے کر آتا ہوں۔ اسے لوبی میں جانے کا اشارہ کر کے وہ فوڈ سٹریٹ کی طرف دوڑا۔ دو چاکلیٹ کپس لیے اور واپس آیا دعا کی آئس کریم اسے پکڑائی۔
ابھی شیری نے ایک سکوپ ہی لیا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ شیری فون کان سے لگایا
ہیلو۔
ہاں ۔ ۔ کیا ؟ نمرہ ڈونٹ وری میں آتا ہوں۔
شیری ۔ ۔دعا نے اسے گھورا
وہ نمرہ کسی پرابلم میں ہے میں دکھتا ہوں۔ اپنی آئس کریم پکڑ کر کے کھڑا ہوا۔
سوری یا جانا میں کل ملتا ہوں۔ دھیان سے گھر جانا اللہ خافظ۔
ابھی وہ اٹھ کے لابی کی چمکتی روشنی سے باہر ہی نکلی تھی کہ گوہر نے پکارا۔
وہ وہیں رک گئی۔
آئس کریم ۔ ۔ اپنی آئس کریم کو دیکھا کر کہا۔
دعا اس کے ہاتھ میں آئس کریم کپ دیکھ کی ہنسی مگر اپنی ہنسی فوراً روکنی چاہی۔
کیا ہوا ہنیسی کیوں؟
نہیں میں۔ ۔
آنکھوں سے ہنسی کا پتا لگ جاتا ہے ۔ ۔ کیوں ہنسی ۔ ۔ وہ ایک قدم آگے بڑھا
آپ کو دیکھ کر لگتا نہیں آپ کھاتے ہوں گے ۔ ۔ وہ آہستہ آہستہ چلنے لگی۔
کیوں میں انسان نہیں۔ ۔ ایک آبرو اٹھائی۔
جی کیوں کہ آپ دیو ہیں۔ دل میں سوچا مگر کہا نہیں
بتاؤ۔ ۔ ۔ وہ آگے آکھڑا ہوا۔
ویسے ہی آپ کے مذاج سے ملتا نہیں آئس کریم کھانا ۔
میں ہمیشہ کھاتا ہوں ماما کے ساتھ۔ وہ یاد کر کے مسکرایہ۔
کارڈ خود بنایا تھا؟۔ سوری کا کارڈ جو دعا نے دیا تھا وہ اس کے ہینڈ میڈ ہونے پر تجسس کا شکار رہا سوچا پوچھ ہی لے۔
کونسا؟ وہ حیران ہوئی
وہ سوری گوہر والا۔ ۔ وہ مسکرایہ
نظریں اٹھا کردیکھا مگر کہا کچھ نہیں
ویسے کافی محنت کی ہوئی تھا خوبصورت تھا وہ مجھے کبھی کسی نے ایسا سوری نہیں کہا۔
نہیں وہ میں نے بہت پیلے بنایا تھا بس اس وقت بازار نہیں جا سکی تو وہی لے لیا۔ ۔ وہ ہڑبڑا کر بولی۔
اچھا۔ ۔ ۔ ہنس کر لمبا کھینچ کر بولا۔
اوکے میں چلتی ہوں۔ ۔ وہ آگے بڑھی۔
ایک منٹ روکو۔ ۔ وہ پھر سے سامنے کھڑا
تمہیں آدھی بات سننے کی بیماری ہے؟
جی؟
تمہارا نمبر چاہیے۔ وہ جھٹکے سے بولا۔
جی؟ ۔ غیر متوقع بات پہ حیران ہوئی۔
ڈاکٹر سارہ کو ۔ ۔ بات کو سمبھالا۔
ہاں دے دیں۔
اب کیا کیسے دوں میں تو ڈیلیٹ کر چکا۔ دل میں سوچا اب کوئی بہانہ بنانے کو دماغ کے گھوڑے دوڑائے۔
جیب میں ہاتھ ڈالا ۔ ۔ کبھی اگے کبھی پچھلی جیسے کچھ ڈھونڈ رہا ہو۔
کیا ہوا۔؟ وہ اس کے چلتے ہاتھ دیکھ کر بولی۔
میرا فون ۔ ۔
کلاس میں چھوڑ آئے ہیں کیا آپ ؟
ہاں شائد زرا کال کرنا ۔ ۔ واہ کیا طرکیب تھی۔
جی ۔ ۔ دعا نے فون نکال کے نمبر ملایا۔
لوبی کے پاس جا کر فون پاکٹ سے نکال کر مسکرایہ۔ ۔
فون وائبریٹ کر کر کے بند ہوا تو جلدی سے نمبر لسٹ میں ایڈ کیا تو فون پھر سے وائیبریٹ ہونے لگا۔
آہ مل گیا۔ دعا کی طرف واپس آکر بولا۔
اتنی جلدی ؟
جلدی سے سوچا۔ ہاں وہ لوبی میں دیا کسی نے ۔
اس کو کیسے پتا آپ کا ہے؟
نہیں رنگ ہو رہا تھا میں نے پہچان لیا ۔ ۔ ۔ لوگ سچ ہی کہتے ہیں ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ ۔
اسے شکریہ کہہ کو اس نے یونیورسٹی سے نکلنے میں ہی عافیت جانی۔
خدا حافظ کہہ کر وہ گھر پہنچا۔
موبائل میں فس بک کو چھانتا اندر داخل ہوا
گوہر جلدی آؤ آئس کریم کھاتے ہیں ۔ شمائلہ بیگم لانچ میں بیٹھی اسی کے انتظار میں تھیں۔ زوہیب کے آرمی جوائن کرنے کے بعد سے انہیں گوہر پر دھیان دینے کا موقع مل گیا ۔
میں کھا چکا۔ بے دھیانی میں کہہ بیٹھا۔
کس کے ساتھ ۔ ۔ وہآنکھیں سکیڑ کے بولیں۔
جی ؟ جلد ہی احساس ہوا کہ وہ کیا کہہ بیٹھا ہے۔
ہمیشہ تو میرے ساتھ کھاتے ہو آج کس نے میری جگہ لے لی۔ دماغ میں ہزارووسوسے سوچتے بولیں۔
آپ کہ جگہ کوئی نہیں لے سکتا ماما۔ وہ بس یونہی یونیورسٹی سے لے لی تھی سوری ۔ وہ شرمندہ سا ہوا۔
ہممم ۔ ۔
میں چلتا ہوں فریش ہونے ۔ وہ آرام سے کسک گیا۔
شمائلہ بیگم گوہر کے بدلتےتاثرات سے پریشان ہوئیں کمرے میں آئیں جہاں آفندی کوئی پریزنٹیشن بنانے میں مصروف تھے۔
آپ کے بیٹے کے ساتھ کچھ مسئلہ ہو گیا ۔ بیڈ پر بیٹھیں۔
کیا مطلب ؟ لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹائے بغیر بولے۔
کوئی لڑکی کا چکر لگ رہا ہے ۔ ۔
آپ اسے جانتی ہیں وہ ایسا نہیں ۔ ۔
مگر ہے تو آپ کا ہہ بیٹا ہے نا۔
کیا مطلب ہے میں لڑکیوں کے پیچے گھومتا ہوں ۔ اب کی بار ہاتھ روک کر شمائلہ بیگم کو دیکھا۔
مجھے کیا پتا جوانی میں تو گھومتے ہوں گے نا۔
اللہ معاف کرے عورتیں کسی بھی عمر کے حصے میں ہوں شک کرنا نہیں چھوڑتیں۔
یہ شک نہیں ہے ۔
اچھا کم سے کم گوہر کے معاملے میں تو شک ہی ہے
بالکل نہیں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میں گھر رہتی ہوں تو میں کچھ نہیں جانتی تو آپ غلط ہیں۔
ساس بہو ڈرامے کم دیکھا کرو۔ وہ پھر سے اپنے لیپ ٹاپ میں مصروف ہوئے۔ اور شمائلہ بیگم غصے سے دوسری طرف منہ کر کے لیٹ گئیں۔
نمرہ تم اس وقت یہاں کیا کر رہی ہوں؟ گاڑی نمرہ کی بتائی جگہ پرروکی اور سامنے نمرہ کو پا کر اس کی طرف بڑھا۔
سب ٹھیک ہے نا؟ اسے کو پریشان دیکھ کر پھر بولا۔
نہیں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے ۔ وہ تو جیسے رونے کو تھی۔
اچھا گاڑی میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ اسے گاڑی کی طرف اشارہ کر کے گاڑی کی فرنٹ سیٹ کہ طرف بڑھا۔
مجھے تمہاری ہلپ چاہیے کر سکتے ہوں ۔ ۔ گاڑی میں بیٹھتے بولی۔
یار تمہیں کہنے کی ضرورت ہے کیا۔ تم کہو۔ ۔ ۔
وہ ۔ ۔ ۔ خرم کو جاب کی ضرورت ہے تم ہلپ کر دوں انکل سے کہہ کر جاب پر لگوادو نا۔ وہ پوریطرح اس کی طرف گھوم کر بولی۔
اچھا۔ ۔ ۔ اس کے لیے بلوایا تھا تم نے ۔ ۔ وہ لڑکا ٹھیک نہیں ہے تمہیں دیکھائی نہیں دیتا۔ شیری کی تیوری چڑھی۔
اس نے کیا بگاڑا ہے تمہارا ۔ ۔
اسے نے ہی تو بگاڑا ۔ ۔ دوست ہیں ہم اس کی وجہ سے ملتی بھی نہیں۔
اس کے بارے میں ایسی باتیں مت کرو۔ وہدفاع کر کے بولی
کیوں اس جاہل کی وجہ سے ۔ ۔
وہ میرا ہزبنڈ ہے اب ۔ ۔ ۔ وہ تلخ لہجے میں بولی ۔ ۔
شیری کو جیسے سانپ سونگ گیا ہو۔ ۔
ہم نے کورٹ میرج کی ہے بابا نا مانتے شائد اس لیے ۔ ۔ ۔ شیری وہ بہت اچھا ہے میرا بہت خیال رکھتا ہے ۔ ۔ شیری میں ۔ ۔ اس کے بغیر نہیں ۔ ۔ رہ سکتی ۔ ۔ انکھیں چھم چھم بہنے لگیں بن بادل برسات کی طرح ۔ ۔ پلیز ڈو سمتھنگ شیری ۔ یو آر مائی اونلی ہوپ ۔ ۔
ہم ۔ ۔ ۔ تم ۔ ۔ رونا بند کرو پہلے ۔ ۔ شیری نے اس کی طرف ٹشو بڑھایا۔
تم کرو گے نا بات ۔ ۔ ۔ انسو صاف کرتے بولی
ہاں کرو گا بابا سے بات۔ ۔ ۔
مجھے گھر جھوڑ دو ۔ ۔ ۔
اوکے کہتا گاڑی اس کے گھر کی جانب موڑ دی۔
عیشل ۔ ۔ فون پرصلہ نے پکارا۔
جی صلہ۔ کیسی ہیں آپ ؟
میں ٹھیک ہوں۔ اچھا اماں ابا نے کب آنا تھا؟
وہ ایک ہفتے کا کہہ کر گئے تھے اب چار دن تو ہوگئے سنڈے کو آجائیں گے۔
اور بھائی۔ ؟
وہ ان کا سیمینار تو تین دن کا تھا آج آخری دن ہے کل ہی آئیں گے اب۔
مجھے تھوڑا فیور چاہیے تھا۔
جی کہیں۔
دراصل ریاء نے ایک پلاٹ بیچا تھا ان کو کسی کام سے جانا پڑ گیا ہے تو سارے پیسے گھر پڑے ہیں میرا دل بہت گھبرا رہا ہے ۔ تم گارڈ کو بیج دو گی دو دن کے لیے۔
ہاں ہاں کیوں نہیں میں بیجتی ہوں آپ پریشان نہ ہوں اللہ مالک ہے۔ فون بند کر کے وہ گوہر کو سنبھالتی وہ گیٹ گارڈ کو صلہ کیطرف جانے کا کہہ کر مڑی۔
باجی صاحب نے یہاں رکنے کا کہا تھا۔ وہ پزل ہوا۔
آپ پریشان نہ ہوں میں بتا دوں گی۔
لیکن ؟
آپ کی وہاں زیادہ ضرورت ہےاب کیا کال کروں ابا کو
نہیں نہیں میرا یہ مطلب نہیں تھا باجی ۔ اچھا میں جاتا ہوں۔ اس کے باہر جاتے ہی عیشل نے دروازہ بند کیا اور کمرے میں آئی جہاں فون مسلسل بج رہاتھا۔ تیز تیز قدم بڑھاتی فون تک پہنچی فون اٹھا کر ہانپتی آواز میں بولی
ہیلو ۔ ۔ جی کون؟
ہیلو جی آپ کے ہزبنڈ ۔ ۔دوسری طرف سے اسی اندازمیں جواب آیا۔
آپ کیسے ہیں؟ گوہر کو بیڈ پر لٹا کر وہ آرام سے بیٹھ گئی۔
اللہ کا شکر آپ اور گوہر کیسے ہیں؟۔
ہم بھی ٹھیک ہیں سیمینار کیسا رہا ؟
وہ گھر پر بتاتا ہوں ابھی بس گاڑی ائیر پورٹ پر بجوا دو پلیز ۔ ۔
جی وہ تو مشکل ہے ۔ ۔ گاڑی ابا اور اماں لے کر گئے ہیں کوئی گاؤں میں شادی تھی۔ ۔ تین دن بعد واپسی ہے
اچھا پھر میں ٹیلسی سے ہی آ جاتا ہوں۔ ۔
جی فلحال تو یہی حل ہے۔ ۔ مگر آپ تو کل آنے والے تھے
کہتی ہیں تو رات ائیرپورٹ پہ گزار لیتا ہوں تا کے کل آ سکوں۔
اللہ میں نے ایسا کب بولا۔
اللہ مجھے تو ایسا ہی لگا۔
آپ ۔ ۔ ۔
اچھا باقی باتیں گھر آکر اللہ حافظ۔
گوہر کو کمرے میں لٹا کر وہ باہر آگئی۔کچن کے طرف موڑی کے آفندی کے آنے تک کچھ بنا لے۔ مگر کچن کے تک پہنچنے پر دروازے کی بل بجی تو وہ دروازے کی طرف گئی۔
ارے اماں آپ ؟
ارے بیٹا چھوٹا ہی گیٹ کھولو۔ ڈرائیورنے واپس جانا۔
جی اچھا۔ آپ لوگ تو سنڈے کو آنے والے تھےسب خیریت ہے نا
ہاں بس میرا دل گھبرایا تو آگئی۔
چلیں میں آپ کے لیے پانی لاتی ہوں
پانی لا کر دیا
عیشل یہ گیٹ کیپر اور گارڈ کہاں ہیں ؟
گیٹ کیپر کوصلہ نے کل چھٹی دی تھی اسے کوئی ایمرجینسی تھی۔ اور گارڈ اسے اپنے گھر کے لیے چاہیے تھا تو اسے وہاں بلایا دودن کے لیے۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ کوئی پراپرٹی بیچی ہے تو پیسے ہیں گھر میں اس لیے۔
اچھا چلو اللہ اپنی امان میں رکھے اسے ۔ عیشل نے بھی ان کی آمین کے ساتھ آٓمین کہا۔
ابا نہیں آئے ۔
ان کے دوست کی بیٹی کی شادی تھی شادی تو ختم ہو گئی لیکن ان کو گھومنے کا پلان تھا مگر میرا دل نہیں کیا رکنے کا سو میں نے کہا میں تو چلی۔ گوہر کہاں ہے؟
اماں وہ سو رہا ہے آپ کیا کھائیں گی میں بنا دیتی ہوں وہ آفندی بھی آنے والے ہیں ۔ ۔
آج تو کڑاہی بنا لو دل چاہ رہا ہے۔ ۔
جی اچھا ۔ ۔ وہ کہتی کچن میں چلی گئی۔
اچانک کوئی گیٹ سے ندر داخل ہوا چہرے پر نکاب باندھے ایا عیشل گیٹ کو لاک کرنا بھول گئی تھی ۔ اندر لانچ میں اماں آنکھیں موندے لیٹی پڑیں تھیں ۔ وہ شخص چلتا ہوا ان کے پاس آیا
اے بڑھیا۔ ۔ ۔ نکاب پوش نے پکارا
اماں ہڑبڑا کر اٹھیں۔ سامنے لمبے چوڑے انسان کو دیکھ کر گھبرائیں۔
کک ۔ ۔ کون ہو ۔ ۔
ربیکہ کہاں ہے؟
کون ربیکہ ۔ ۔ ی۔ ۔ یہاں کوئی ربیکہ نہیں ہے۔
بکواس بند کرو اپنی ۔ ۔ اوپر دیکھتا زور زور سے ربیکہ ربیکہ آواز لگانے لگا۔
آواز سن کر عیشل کیچن سے نکلی ۔ ۔ اماں کے پاس کھڑے آدمی کو دیکھ کر اس کی طرف بڑھی
کون ہیں آپ۔ ۔
پہچانا؟ نکاب پوش نے اپنا نکاب اتارا
ج ۔ ۔ جان بھائی۔ ۔
تجھے کیا لگا میں تجھے ڈھونڈ نہیں سکوں گازلیل انسان
عیشل کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
بھائی میری بات۔سنیں۔
اہاں اب تو سن ۔ آگے بڑھ کر عیشل کو بالوں سے پکڑا
یہ کیا کر رہے ہو ۔ ۔ اماں نے گھبرا کر فون پکڑا۔ جسے دیکھتے ہوئے جان نے عیشل کو چھوڑ کے اماں کو پکڑا۔
اتنی جلدی کیا ہے بڑھیا ۔ ۔
فون ہاتھ سے کھینچ کر دیوار پہ مارا اور دھکہ دے کر اما ں کو نیچھے گرایا وہ کراہ کر فرش پر اوندھے منہ جا گری ۔
جان ۔ ۔ عیشل نے اگے بڑھ کر جان کے منہ پر سناٹے دار تھپڑ رسید کیا اور اماں کی طرف لپکی
اماں اماں۔ ۔ جان نے عیشل کو گردن سے پکڑ کے اٹھایا وہ کسمسائی۔
چھوڑو مجھے جان ۔ ۔
جان نے عیشل کو پکڑے اپنے دائیں پاؤں کی جراب سے جھک کر چاقو نکالا۔
گولی سے مار کر اتنی آسان موت نہیں دوگا۔ کمینی عورت ہمارے خاندان کی عزت اور مزہب کو مٹی میں ملادیا تو نے۔ ۔ چاقو ہوا میں گھما کر عیشل پر وار کرنے کے لیے اس کے طرف تیزی میں لایا۔ عیشل نےدونوں ہاتھوں سے پکڑ کے روکنا چاہا مگر چاکو کی نوک اس کے ہاتھ میں لگنے سے اسےزخمی کرچکی تھی۔ درد سے عیشل کی کراہ نکلی عیشل نےاپنی لات جان کے پیٹ میں ماری جس سے وہ اپنا تووزن برقرار نہ رکھتے ہوئے نہیچے جا گرا۔ عیشل واپس اماں کی طرف مڑی۔
اماں پلیز ۔ ۔ ۔ پلیز اماں اٹھیں۔
انہیں اٹھا کر کھڑا کیا تب تک جان سنبھل چکا تھا واپس چاقو اٹھا کر عیشل کی طرف مڑا اور وار کرنے کو چاقو بڑھایا عیشل مڑی اور سائڈ ہوئی جس سے وہ چاقو کے وار سے بچی مگر چاقو اماں کے پیٹ میں جا لگا۔ اماں کی دردناک چیخ سے جان بھی لڑکھڑایا وہ صرف عیشل کو مارنے آیا تھا اس کے پلان میں اماں گھر پر نہیں تھیں مگر معاملہ الٹا ہوگیا عیشل نے کھینچ کر اپنےبساط کے مطابق مکے جڑھے مگر اس پر جیسے کوئی اثر نہیں ہوا۔ جان مڑا اورچاقو کھینچ کر مارا جو عیشل کے کندھے میں جا لگا وہ کراہ کر نیچے جا گری۔ جان نے لاتوں کی بوچھاڑ شروع کی یکے بعد دیگرے اپنی انا کی تسکن کے دے مارے۔ ابھی وہ جھک کر اٹھانے ہی لگا تھا جب پولیس کے سیرن کی آواز آئی۔ وہ گھبرایا اور بھاگا۔ شائد کسی نے عوتوں کے رونے دھونے کی آواز سن کر پولیس کو بلایا تھا۔ جان نے بھاگنے میں ہی عافیت جانی۔