کب سے کرتی ٹاپنگ سے تھک کر دعا نے زرینہ بیگم کو فون کرنے کے لیے فون اٹھایا۔ لوک سکرین آن کی تو ان گنت فیس بک نوٹیفیکیشنز نے موبائل کی لاک سکرین کے بیک گراؤنڈ کوپہاڑ پر پری برف کی ماند ڈھکا ہوا تھا۔ کیا کریں اتنا اندھا تو عشق بھی نہیں کرتا جتنا اس فیس بک نوٹیفیکشن نے لوگوں کو کر رکھا ہے۔اس کا لوگو دیکھتے ہی انسان موبائل پکڑنے کا مقصد ہی بھول جاتا ہے۔
دعا نے لاک سکرین پر آئے نوٹیفیکشنز میں سے شیری کو نام پر کلک کیا۔ کچھ ہی سیکنڈز میں موبائل کھل گیا اور فیس بک ایک پوسٹ اوپن ہوئی اور کرسر سپیڈ سے نیچے ہوتا شیری کے نائس کے کمنٹ پر جاپہنچا۔ دعا کا دل کو کچھ ہوا تھا۔دعا نے سکرین کو واپس اوپر سکرول کیا۔ سکرول ہوتی سکرین کے ساتھ دل بھی مزید تیزی سے دھڑکنے لگا۔ ایک تصویر میں دو ہنستے مسکراتے چہرے۔
شیری اسے جانتا ہے ؟ دل میں ایک سوال ابھرا ۔ دل کے ساتھ ساتھ سانس بھی تیز ہوا۔ وہ یہ چہرہ نہیں بھول سکتی۔ گوہر نہیں ہوتا تو۔ ۔ ۔ وہ اس کے اگے سوچ نہیں سکی۔ فوراً اٹھی اور واش روم میں جا کے نکاب اتارا اور ڈھیروں پانی کے چینٹے منہ پہ یکے بعد دیگرے مارے۔ یہ خوف سے ہوا تھا یا شیری کا ایسے کسی شخص سے واقف ہونے سے۔ وہ سمجھ نہیں سکی تھی۔
واپس کمرے میں آکر نکاب درست کیا اور موبائل اٹھا کر سوچے بنا اپنے کیبن سے اٹھ کر شیری اور رضوان کے مشترکہ کیبن کی طرف رخ کیا جہاں شیری سیمینار کی تیاری میں مصروف نظر آیا۔
شیری؟ ناک کرتی کمرے میں داخل ہوئی۔
ہاں؟ پیپرز پر کچھ لکتا وہ سیدھا ہوا
میں ۔ ۔ وہ۔ فیس بک دیکھ رہی تھی۔ تم نے ایک پکچر لائک کی ہوئی تھی کون ہےوہ؟۔ تھوڑا سوچ کر بولی
میں نے؟ کونسی؟ اپنی جانب انگلی کا اشارہ کیا۔
یہ والی۔ ۔ ۔ فیس بک آن کر کے تھوڑی دیر ٹائم لائن کھنگالی اور ایک تصویر پر رک کر موبائل شیری کی طرف گھمایا۔
اوہ یہ تو نمرہ ہے۔ ۔ ۔ شیری نے پرسکون سے انداز میں کہا۔
ہاں اور ساتھ کون ہے؟ تم اسے جانتے ہو؟دعا نے فوراً سولات داغے۔
نیو بیچ کا ہے یہ۔ نمرہ کا دوست ہے۔ ۔ ۔تھوڑی دیر خاموشی کئ بعد شیری نے پھر پوچھا
تم کیوں پوچھ رہی تھیں۔؟شیری کے ماتھے پر بل پڑے
نہیں بس ویسے ہی پوچھا تھا۔دعا نے چہرے کو نارمل کیا۔
نمرہ بتا رہی تھی اس نے یونیورسٹی چھوڑ دی
گوہر ہمیشہ ینیورسٹی جانے سے پہلے اپنے رجسٹر سے پچھلا لکچر ریوائز کر لیتا تھا مگر آج خلاف معمول سوچا کہ کیوں نہ لیپ ٹاپ کھول ہی لیا جائے اتنے دن رکھ کر دعا کو واپس کرنا بھی مناسب نہیں تھا۔ گوہر نے اپنے کمرے کا رخ کیا اور الماری میں رکھے لیپ ٹاپ کے ڈبے کو باہر نکالا اور بیڈ پر بیٹھا۔ لیپ ٹاپ کے ڈبے کو کھولا فومنگ شیٹ میں پڑا لیپ ٹاپ نکالنے کے کوشش میں فومنگ شیٹ بھی ساتھ نکل آئی گوہر کے منہ سے بے اختیار گریٹ نکلا۔ لیپ ٹاپ کو الٹ کر دیکھا ایچ پی کی سیونتھ جنریشنز کا بلیک کلر کا لیپ ٹاپ تھا۔مگر اس کے لیپ ٹاپ سے ایک درجے آگے۔
Oh my God! She is totally mad Tubelight.
وہ دیکھ کر بھونچکہ رہ گیا وہ ایکسپکٹ نہیں کر رہا تھا وہ اتنا مہنگا لیپ ٹاپ اسے صرف اپنی غلطی کے پچتاوے میں دے دے گی۔ یہ تو وہ زمانہ ہے جہاں لوگ جان بوجھ کر کی گئی غلطی پر بھی نادم نہیں ہوتے۔ اْنکھیں بند کیں اور ایک لمبا سانس لے کر واپس چیزیں سمیٹنے لگا فومنگ شیٹ کو اٹھایا تو اس کے نیچے ایک کارڈ نظر آیا۔ فومنگ شیٹ سائڈ پر رکھ کر گوہر نے کارڈ اٹھایا۔ سفید کلر کا ہینڈ میڈکارڈ تھا جس پر ریڈ کلر کے لکھے دو حروف Sorry Gohar
بے اختیار گوہر کے چہرے پر مسکراہٹ آکر مدہم ہوئی۔
گوہر بھا ئی جلدی سے ایک پیج دیں؟زی کی آواز پر چونکا اور کارڈ کو جلدی سے تکیے کے نیچے رکھا۔
سٹڈی ٹیبل سے لے لو۔ کارڈ رکھ کرسیدھا ہوا۔زی ٹیبل کی طرف بڑھی۔
ارے میرا یونیورسٹی رجسٹر سے نہ پھاڑ لینا۔ ڈرا میں رِم پڑا ہے پرنٹر پیجز کا اس میں سے نکال لو۔ گوہر نے واپس لیپ ٹاپ کی طرف دیکھا اور اسے ڈبے میں ڈالنے لگا۔
یہ کیا ہے۔ ؟ گوہر کے سامنے ایک لفافہ لہرایا۔ گوہر نے دیکھ کر زی کو دیکھا۔
کدھر سے آیا یہ؟ زی سامنے بیٹھی گھورنے کے انداز میں دیکھ کر بولی۔
مجھے کیا پتا۔ ؟ گوہر نے حیرانی سے دیکھ کر کہا۔
اچھا۔ ۔ ۔ ابھی بابا کو بتاتی ہوں۔ زی فوراًاٹھ کھڑی ہوئی۔
ارے رکو دیکھاو تو سہی۔ گوہر نے جلدی سے لفافہ پکڑا۔
لفافہ کے باہر صرف گوہر لکھا تھا۔۔ گوہر نے پکڑ کے کھولا اور اس میں سے کارڈ نکال لیاجسے زی نے جلدی سے پکڑ کر کھولا۔
ارے یہ تو خالی ہے۔ زی نے گوہر کو دیکھا۔
دکھاؤ۔ گوہر نے اندر سے دیکھا کارڈ مکمل خالی تھی کارڈ کو بند کیا جہاں پرنٹڈ تھینک یو لکھا تھا۔
کس نے دیا۔ ؟
وہ بتا یا تھا نا کسی نے لیپ ٹاپ توڑ دیا تھا اس نے سوری بولا تو میں نے معاف کر دیا اس لیے یہ کارڈ دیا ہے۔ گوہر کے زہن میں جو آیا وہ بول دیا۔
عیشل؟ آفندی نے عیشل کو مدہم آواز سے پکارا۔
آپ کب آئے؟ عیشل نے آنکھیں کھولیں۔
بس ابھی۔ ۔ ۔ کیسی ہو؟ آفندی نے پاس پڑے سٹول پر بیٹھتے پوچھا۔
اللہ کا شکر ہے۔ آپ تو کل آٓنے والے تھے؟۔ عیشل نے تعجب سے پوچھا۔
واپس چلا جاؤں؟ مصنوعی غصے بھرے لہجے میں کہا۔
ارے میں نے یہ کب بولا آپ کو۔ ۔ ۔ وہ ایک دم سیریس ہوئی۔
اب اتنا بھی بے مروت نہیں ہوں کہ بیٹے کی خبر ملے اور میں دیکھنے بھی نہ آؤں۔ آفندی نے بے اختیار عیشل کا ہاتھ تھاما۔
یعنی آپ اپنے بیٹے کے لیے آئیں ہیں بس ۔ ۔ ۔ چلیں ٹھیک ہے پھر آ پ جائیں آپ کا بیٹا کہاں ہے ڈھونڈیں جا کر۔ عیشل نے منہ پھیرا۔
ارے آپ تو ناراض ہو گئی ہیں ۔ دیکھیں میں جب بھی کہتا ہوں آپ کے لیے آیا ہوں تو آٓپ مجھے یہی جواب دیتیں ہیں کہ پتا ہے کچھ نیا کہیں اس لیے کچھ نیا کہنے کی کوشش کی اور آٓپ ناراض ہو گئی۔ آفندی اُٹھ کر دوسری جانب آئے۔
ویسے کہنا پڑے گا بیوی کو کوئی خوش نہیں کر سکتا۔ ۔ ۔ دونوں کانوں کو ہاتھ لگائے۔
کیونکہ آپ لوگ کوشش بھی نہیں کرتے نا۔بیوی تو۔ ۔ ۔ عیشل کا جملہ میں میں ہی رہ گیا ابا کی آواز پر
ارے بیٹا آگئے ۔ ۔ ابا کمرے میں داخل ہوئے۔
جی ۔ آگے بڑھ کر باپ کو گلے لگایا۔
صلہ کہاں ہے؟۔ ۔ پیچھے ہوتے ہوئے یاد کر کے بولا
وہ تو زیاء کے ساتھ اسلامہ باد گئی تھی کہہ رہی تھی آج آئے گی اور اماں تمہاری ہمیشہ کی طرح شاپنگ بس اس بار اہنے لیے نہیں بچے کے لیے۔ ابا بیٹے کو دیکھتے ہوئے بولے۔
ہاہاہا ۔ ۔ ۔
ہمیں کچھ ایمبیسیڈرز بنانے چاہیے۔ ۔ ۔ جو ہمارے کام میں ہلپ کریں۔ میں گیمنگ کرتی ہوں آپ دونوں ویب سائیٹس بناتے ہیں تو ایک ایریا بچ رہا ہے وہ ہے اینڈرائڈ فون۔ یہی سب سے زیادہ فیمس ہے۔ رضوان سے اگلے مراحل ڈسکس کرتے بولی۔
وہ تو ٹھیک ہے دعا لیکن ہائر کرنے پر تم جانتی ہو کتنے پیسے مانگے گے اور فلحال ہم افورڈ نہیں کر سکتے۔ رضوان نے کمپنی کے مشترکہ اکاؤنٹ میں پڑی رقم۔کا سوچ کر کہا۔
ایک آئیڈیا ہے۔ ہمیشہ کی طرح ایک حل سوچ کر بیٹھی تھی ۔
کیا۔؟رضوان مسکرایہ۔
پہلے کی طرح سیمینار لیکن اس بار سیمینار تھوڑا ہمیں بھی فائدہ دے گا۔ نکاب سے مسکراتی آنکھیں جھلکیںَ
کیسے؟ رضوان کے ماتھے کی بل بنے
پہلے تو ہمیں اپنی ایمبیسیڈرز کے لیے ڈفرنٹ یونیورسٹی سے سٹوڈنٹس لینے ہوں گے۔اس کے لیے ہم ایک ایڈ بنائیں گے فیس بک پر اور ویب سائٹ پر بھی کہ ہم ایک تین دن کی ورکشاپ کرنے جا رہے ہیں اس کے لیے ایمبیسیڈرز چاہیے۔ ان کو ہمارے سافٹ ویئر کی جانب سے ایک تو سرٹیفکیٹ دیں گے دوسرا ان کو ڈسکائنٹ بھی ملے گا۔ اور مستقل جاب بھی مل سکتی ہے۔ ہر یونیورسٹی سے کم سے کم ایک سٹوڈنٹ کو سلکٹ کریں گے ۔ سلیکشن کے بعد ہم انہیں ایک میٹنگ میں بلائیں گے۔جس میں انہیں بتائیں گے کہ ہم ایک فری لانسنگ کورس کے لیے ورکشاپ کرنے جا رہے ہیں اس کے لیے وہ اپنے انسٹیٹوٹ سے سٹوڈنٹ کو انفارمیشن دیں جس کے انسٹیٹوٹ سے زیادہ لوگ آئیں گے اس کو آوارڈ اور گفٹ بھی دیں گے۔ جتنے بھی سٹوڈنٹ آئیں گے ان کو کلاس لینے کے لیے چارج کریں گے اور ایمبیسیڈرز فری میں اٹنڈ کریں گے۔ بات ختم کر کے پیج پکڑا۔
واہ دعا کمال ہو تم تو بہت اچھا ائیڈیا ہے۔ بچے گھر بیٹھے کمانا سیکھ جائیں گے اور ہم بھی پیسے کما لیں گے۔ رضوون خوش ہوا۔
آئیڈیا ابھی ختم نہیں ہوا۔پن پکڑ کر دعا نے ساتھ ساتھ لکھنے کا ارادہ کیا۔
لاسٹ کلاس میں ہم سٹوڈنس کو آفر کریں گے کہ وہ ہمارے آکاؤنٹ سے کوئی پراجیکٹ کے لیے بڈ کریں اگر وہ پراجیکٹ مل گیا تو وہ ان کو دے دیا جائے گا اور پیسے فوٹی پرسنٹ ہمارا اور سکسٹی پرسنٹ ان کا ہوگا۔ نظریں صحفے سے ہٹائیں۔
بات تو ٹھیک ہے مگر لاسٹ میں تو ان کو بھی پروفائل بنانا آجائے گی وہ تو اپنئ سے ہی پراجیکٹ لیں گے ہمارے سے شیئر کیوں کریں گے۔ رضوان کو کنفیوژن ہوئی۔
پوائنٹ ہے ۔۔۔ ان کی چونکہ پروفائل نیو ہوگی تو کوئی بھی ان پر اتنی جلدی بھروسہ کر کے پروجکٹ نہیں دے گا۔ ہمارا کام کر کے ہم ان کی پروفئل رینک کر دیں گے اور ان کو بھی پراجکٹ ملنے لگیں گے اور اس بیچ ہمارا کام بھی ہوجائے گا۔ پین واپس ہولڈر میں رکھا۔
گریٹ ہو گیا یہ تو۔ ۔ رضوان نے پین پکڑ کے سمائیلی بنائی۔
شیری نہیں آیا۔یونیورسٹی بھی نہیں آیا تھا۔ پھر سے شیری کی کمی محسوس کر کے بولی۔
فون کیا تھا مگر اس نے پک نہیں کیا شائد بزی ہو۔ رضوان نے مسکرایہ۔
اللہ خیر کرے۔میں کرتی ہوں کال۔ دعا فون ملاتے باہر آگئی۔ فون کی بیل جا رہی تھی مگر اٹھایا نہیں گیا اور فون بج بج کر خوموش ہوا۔ دعا نے کان سے ہٹا کر دیکھ کر سوچا آیا وہ پھر سے کال ملائے یا انتظار کرے۔ تھوڑی دیر دیکھتی رہی نا جانے دل میں کیا آیا تو اس نے پھر سے کال ملائی دوسری ہی بیل پر فون آٹھایا گیا۔
شیری اسلام علیکم کیسے ہو؟ دعا نے بات کا آغاز کیا مگر دوسری جانب خاموشی تھی۔
میں اور رضوان بھائی پریشان ہو گئے سب ٹھیک تو ہے نا ؟ دوسری جانب ایک لمبی سانس لے کر جیسے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی گئی۔ دعا کو لگا کوئی بہت بڑا پرابلم ہوا ہے۔
شیری سب ٹھیک تو ہے ؟ انکل ٹھیک ہیں؟۔ دعا کے اس جملے کے ساتھ ہی بہت سے سسکیاں سنائی دیں۔ دعا ایک دم پریشان ہوگئی اسے تکلیف ہوئی تھی۔
شیری پلیز پریشان مت ہو ۔ میں ابھی آتی ہوں تمہارے گھر۔
میں چلتا ہوں بابا کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ شیری نے جانے کے لیے بیگ اٹھایا۔
اوکے ٹھیک ہے میں سر سے مل کر جاؤں گی انہوں نے بلایا تھا۔ وہ شیری کی طرف مڑی۔
اچھا میں بھی چلتا ہوں۔ رضوان نے بھی شیری کی طرف دیکھا۔
جی جی اب آپ کو بھابی کے ڈر سے جلدی نکلنا چاہیے۔ دعا نے ٹوکا۔
اوئے ڈرتا ورتا نہیں ہوں میں بس پیار کرتا ہوں ۔ ۔ ۔ رضوان جتا کر بولا اور شیری کے ساتھ چل دیا۔
دعا سٹاف بلڈنگ کی طرف بڑھی اور مطلوبہ کیبن پر جا کر ناک کیا۔ ایجازت پا کر وہ اندر داخل ہوئی۔
اسلام و علیکم سر
واعلیکم السلام بیٹھیں۔ سر نے کتاب رکھ کر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
جی سر آپ نے بلایا تھا؟ دعا کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔
بیٹا ایک فیور چاہیے تھا۔ سر کچھ سوچ کر بولے
جی کہیے سر؟
بیٹا آپ لوگوں کے جونیئرز کے لیے میں نے پوسٹر سیشن رکھا ہے مگر کل کسی ذاتی کام کے پیشنظر میں نہیں آسکوں گا تو کل آپ اور آپ کا پوسٹر سیشن کا گروپ مل کر بچوں کو گائڈ کر دے۔ ۔ ۔ ہمیشہ کی طرح اپنے مخصوص دھیمے لحجے میں مخاطب ہوئے۔
اوکے سر جیسا آپ کہیں ہم کر دیں گے ۔ ۔ ۔
میں آپ کو ایک ای میل کر دیتا ہوں کلاس کی ڈیٹیل اور ٹائمنگ کے لیے۔ ۔ وہ لیپ ٹاپ اپنی طرح گھما کر بولے۔
جی سر ۔ ۔ ۔ اب میں چلوں؟۔ ۔ ۔ ریسٹ واچ دیکھ کر بولی
بہت شکریہ بچے۔ ۔ سر عمیر مسکرائے۔
نو پرابلم سر ۔ فی ایمان اللہ۔ کیبن سے نکل کر وہ لوبی کی طرف بڑھتے ہوئے کوریڈور میں پہنچی ۔ ۔ ۔ تیز تیز چلتی ایک بے حد بھینی خوشبو نے اس کے ارد گرد ایک گھیرا سا بنایا انجانے میں قدموں کی تیزی میں خلل پڑا۔
تم اتنا تیز کیوں چلتی ہو؟ کسی کی جانی پہچانی آواز پر وہ رک کر پلٹی۔ ۔
اف یہ اس وقت بھی یہاں ہے۔ ۔ ۔ دل میں سوچ کر کچھ بھی کہے بغیر پھر سے چلنے لگی مگر اس بار اسی تیز رفتار سے چلنا دشوار ہو گیا دھیرے دھیرے چلنا شروع کیا۔
رزلٹ آ گیا دیکھا؟ گوہر نے ساتھ ساتھ چلتے سوال کیا۔
جی۔ ہمیشہ کی طرح مختصر جواب
کتنا سی۔جی۔پی۔اے آیا بھونیں سکیڑے اسے دیکھا۔
۳ـ۷۹
ہے ۔ ۔ وہ جانتی تھی اس بار وہ اپنی ہی ایکسپکٹیشنز سے کم مارکس لائی ہے۔
میرا زیادہ ۔ ۔ گہری مسکاہٹ کے ساتھ مسکرایہ۔
مبارک ہو آٓپ کو۔ ۔
کہا تھا نا اس اگلی بار زیادہ مارکس نہیں لے پاو گی ایٹلیسٹ میرے سے زیادہ نہیں ۔ ۔ ایک آبرو اٹھا کر بولا۔
وہ زرا سا مسکرائی۔جسے وہ نکاب کی وجہ سے نہیں دیکھ سکا۔
اوئے رونے تو نہیں لگیں۔ اسے خاموش پا کر گوہر نے چیڑا۔
No! You Deserve this.
Ahah you really think?
Yes i do.
آپ اس کے حقدار ہیں۔ سر عمیر نے کل ان کی کلاس کو پوسٹر سیشن کی گائیڈنس دینا کا کہا ہے میں آپ کو میل کر دوں کی ٹائمنگ۔ سر کی بات یاد آنے پر بولی۔
اوکے ۔ ۔ سنو گھر جا کر رونا مت ۔ ۔ ۔ وہ اسے چوٹ کر کے میل گیٹ کی طرف مڑ گیا
اب کیسے ہیں انکل ؟ دعا نے صوفہ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
وہ تو ٹھیک ہیں اب ۔ ۔ ۔شیری نے انگلیا مروڑی۔
تم نے کیا ڈیوٹی لگا لی ہے اپنی روز کھانا لانے کی؟۔حمدانی صاحب کمرے سے نکلتے ہوئے بولے
کوئی بات نہیں انکل یہ تو ایک بیٹی کا فرض ہے۔ دعا مسکرا کر کھڑی ہوئی۔
اللہ آپ کو خوش رکھے ۔ اگے بڑ ھ کر دعا کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
خاور کب تک آئے گا بابا؟ شیری نے پچھلے ہفتے سے خاور کی غیر موجودگی سے تنگ آکر پعچھ ہی لیا۔
دو ہفتے کا کہا تھا۔ بہن کی شادی ہے زمہ داریاں بھی تو بہت ہوتی ہیں نا۔ حمدانی صاحب نے خاور کی مجبوری بتائی۔
اچھا اب میں چلتی ہوں اور شیری لیٹ مت ہونا جونیئرز کو گائڈ کرنا ہے ۔ شیری کو تنبیعہ کرتی وہ گھر کے لیے روانہ ہوئی۔ گھر پہنچ کر زرینہ بیگم کو حمدانی صاحب کی طبیعت کی اپ ڈیٹ دی کر وہ کمرے میں آئی عصر کی نماز پڑھ کر فارغ ہی ہوئی تھی کہ دیا نے پکارا۔
کیا؟ جائے نماز تہ کرتی مسکرا کر مڑی
تمہاری طبیعت ٹھیک ہے نا۔ اگے بڑھ کر دعا کے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔
ہاں کیوں؟ہاتھ ہٹا کر کہا۔
مجھے نہیں لگ رہا۔ دیا منہ بنا کر بولی۔
کیا مطلب؟دعا نے حیرانی سے دیکھا۔
مطلب یہ کہ جب سیونتھ میں تم سیکنڈ پوزیشن پہ آئی تھی تم نے رو رو کر امی کو پریشان کر دیا تھا اور دو دن تک کچھ نہیں کھایا تھا۔ مگر اب بڑے سکون سے گھوم رہی ہو؟ وہ دماغ پر انگلی رکھ کر سوچنے کے انداز میں بولی۔
اس وقت میری غلطی تھی میں نے ٹائم مینج نہیں کیا تھا پیپر کا اور ایک کوئسچن رہ گیا اب کی بار کونسا یہ آخری چانس ہے ابھی تین اور چانسز ہیں اور میں وہ کسی اور کو لینے نہیں دوں گی۔ دعا نے پرعزم انداز میں کہا۔
چلو دیکھتے ہیں۔ گڈ لک ۔ ۔ دیا کہہ کر کمرے سے نکل گئی۔
دعا تیار ہو کے یونیورسٹی کے لیے نکل گئی۔ وہ وقت سے پہلے پہنچی جونیئرز کی کلاس میں پندرہ منٹ باقی تھے وہ انتظار کرنے کی غرض سے لوبی میں خالی بینچ پر بیٹھ گئی۔موبائل کھول کر ہمیشہ کی طرح کنڈی کرش کھیلنے کے اپنے پسندیدہ مشغلے میں مصروف ہوئی۔ مشکل سے ابھی پانچ منٹ ہی گزرے تھے کہ کسی نے اسے پکارا۔
دعا۔۔ ۔ ۔۔ دعا نے موبائل سے نظریں ہٹا کر دیکھا۔
جی؟ ماہ جبیں مسکراتی اس کے پاس بیٹھی۔
Congratulations ! I just heard about your highest marks.
Thank you Mehjabeen but someone else got highest Marks then me.
دعا واپس اپنے موبوئل میں مصروف ہو گئی۔
No i mean last time you got highest marks and now 2nd highest. So just wanna say you Congratulations.
ماہ جبیں نے احساس کر کے پھر سے بات کی۔
Thanks.
مصروف سی نظر آتی دعا نے نظریں ہٹائے بغیر کہا۔
If you don’t mind can we both be friends?
دعا کو جملے پر حیرت ہوئی اسے سمجھ نہیں آیا کیا کہے۔
Yeah why not. She really need a friend.
گوہر نے ایک دم سے آکر دونوں کو چونکا دیا۔ دعا بس گوہر کو دیکھ کر رہ گئی۔
اوہ واؤ یہ تو گڈ ہو گیا۔ ماہ جبیں نے ہاتھ دعا کی طرف بڑھایا۔
دعا نے نا چاہتے ہوئے بھی ماہ جبیں سے ہاتھ ملا لیا۔
اسلام علیکم ۔ شیری کی آواز پر سب مڑے۔
واعلیکم السلام ۔ سب نے یک زبان کہا۔
انکل کیسے ہیں ؟ دعا نے شیری کی طرف قدم بڑھا کر پوچھا۔
وہ ٹھیک ہیں۔ کہہ رہے تھے کل کوئی اچھی سی ڈش بنا لانا۔ کوئی کباب وغیرہ ٹاپ۔ چیزیں میں آنٹی کو دے آیا ہوں۔۔ گوہر کودیکھ کر جتایا گیا تھا ۔
اوکے۔ دعا نے موبائل بند کر کے بیگ میں ڈالا۔ شیرے کے ہوتے ہوئے وہ گیم نہیں کھیل سکتے تھی وہ ہمیشہ گیم خراب کر دیاتا۔
اچھا زرا میرے ساتھ سٹیشنری تک چلو۔ شیری نے شاپ کی جانب جاتے راستے کی طرف اشارہ کیا۔
جونیئرز کی کلاس ٹھیک پانچ منٹ بعد ہے۔فی ایمان اللہ ۔ آخری بات کہتی شیری کے ساتھ چل پڑی۔
کیا ہو رہا رھا تھا یہ؟۔ شیری نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا۔
کچھ نہیں وہ ماہ جبیں مارکس پر مبارک دے رہی تھی۔ دعا نے آرام سے جواب دیا۔
لاسٹ ٹائم تو نہیں دی اب کیوں۔؟ شیری نے ناک سے مکھی اڑائی۔
کوئی بات نہیں۔ دعا نے جان چڑئی۔
تم ہاتھ کیوں ملا رہی تھی۔ مگر شیری بھی بال کی کھال اتارکے دم لینے والا تھا۔
ہیں؟ لڑکا تو نہیں تھی وہ جو نہیں ملا سکتی؟ دعا کو ہنسی آئی۔
پھر بھی ؟
کہتی دوستی کر لیں تو گوہر نے آ کر بول دیا بالکل کیوں نہیں۔اب میں کیا منع تو نہیں کر سکتی تھی نا تو پھر میں نے ہاتھ ملا لیا۔ دعا نے ہوری بات بتا دی۔
وہ ماما لگتا ہے دوستی کروانے والا۔ شوخا نہ ہو تو۔ شیری نے اس انداز میں کہا کہ دعا اپنی ہنسی نہ روک سکی۔
ہنسنہ بند کرو زہر لگ رہی ہواس وقت ۔ شیری نے منہ بنا کر کہا۔
اچھا اچھا ۔ ۔ چلو شاپ آ گئی کیا لینا ہے۔ دعا نے اپنی ہنسی ضبط کی۔
لینا تو کچھ نہیں بس دیکھنی تھی شاپ یہیں ہے نا۔ شیری نے مسکراہٹ دبا کر کہا۔
کیا؟ بس اس لیے اتنی دور آئے ۔ اف حد ہے ویسے۔ دعا سر پکڑ کے رہ گئی۔
اچھا چلو کلاس میں چلیں ورنہ دیو نے خونخار جانور کا روپ دہارن کر لینا ہے۔ شیری اپنی ہی بات پر محظوظ ہوا۔
اف اللہ ایسا کیا بگاڑدیا ہے گوہر نے ؟ دعا کو لگا پتا نے گوہر نے اس کا کیا بگاڑ دیا ہے۔
لگتا ہے مجھے وہ ایسا تو کیا کروں اور تم زیادہ سائڈ مت لیا کرو اس چول کی ۔ دعا کا سائڈ لینا اسے برا لگا۔ دونوں چلتے ہوئے جونیئرز کی کلاس میں پہنچے جہاں گوہر اپنا تعارف کروانے میں مصروف تھا اور ساتھ ہی انہیں دیکھ کر ان دونوں کا بھی تعارف کروایا۔ دونوں چلتے روسٹرم کے پاس پہنچے تو گوہر نے اگے بڑھ کر کہا۔
شیری آپ ان کو سرچنگ ٹکنیکس بتا دو دعا فارمیٹنگ سٹینڈرڈز بتائے گی اور میں پریزنٹیشن رولز بتا دوں گے۔
اچھا ۔ ۔ ۔ ہمیں تو پتا ہی نہیں تھا کہ یہ بتانا ہے۔ شیری نے اسے گھورا اور روسٹرم کی طرف بڑھا دعا اور گوہر روسٹرم سے ہٹ کر دیوار کے پاس جا کھڑے ہوئے۔
اسے کیا ہوا ہے؟۔ گوہر نے سرگوشی کی۔
وہ اس کے فادر کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے سو وہ زرا اپ سیٹ ہے۔ دعا نے شیری سے نظریں ہٹائے بغیر کہا۔
ہممم۔ گوہر کو تھوڑا ترس آیا۔ شیری کے بعد دونوں نے باری باری اپنے متعلقہ عنوان کو تفصیل سے بتایا اور کلاس سے باہر نکلے۔
شہریار۔ ۔ ۔ گوہر نے پیچھے سے آٓواز دی۔
شیری نے بغیر کچھ کہے گردن گما کر دیکھا اور رکا۔ گوہر چلتا ہوا نزدیک پہنچا۔
بچے جب پریشان ہوتے ہیں تو بیمار ماں باپ کو زیادہ تکلیف ہوتی جو سراسر ان کو مزید بیماری کر دیتے ہیں انشاللہ آپ کے فادر جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔ گوہر نے شیری کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اس کا ری ایکشن دیکھے بغیر آگے بڑھ گیا۔
شیری میں جانتی ہوں کیوں پریشان ہو مگر ایسے بی ہیو مت کرو کہ کوئی اسے نوٹ کرے ادھے سے زیادہ لوگ اس تکلیف کو سن کر سمجھنے سے زیادہ اس کے تشہیر کرنے میں زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اللہ پر یقین رکھو اس نے یقیناً تمہارے لیے کچھ بہتر سوچا ہے۔
نمرہ اپنے کمرے میں بیٹھی ٹیلی وژن کا ریموٹ تھامے چینل سرفنگ کرنے میں مصروف تھی۔
نمرہ کہایہ سب؟۔ عرفان صاحب نے ایک پیکٹ نمرہ کے سامنے بیڈ پر پھینکا۔
نمرہ نے لفافہ اٹھایہ اور کھڑی ہوئی اس نے اپنے باپ کو اتنے غصے میں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ دھڑکتے دل کے ساتھ اگے بڑھ کر لفافہ کھولا ۔
نمرہ کے سر میں جیسے دھماکہ ہوا یہ پیپرز خرم اور اس کے نکاح کے تھے۔
یہ صلہ دیا تم نے میری محبت اور آزادی کا۔ بے حد غصے میں وہ اگ بگولہ ہو رہے تھے۔
پاپا وہ ۔ ۔ ۔ اس کا دل دہل گیا
بس کرو۔ زلیل کر کے رکھ دیا تم نے مجھے۔ وہ کرسی پر ڈھ سے گئے۔
پاپا خرم برا لڑکا نہیں ہے۔ وہ بہت خودار لڑکا ہے ۔نمرہ نے خرم کا دفاع کرنا چاہا۔
اپنا خرم نامہ بند کرو۔ عرفان صاحب کا سانس غصے کےمارے غصے کے اکھڑنے لگا۔ نمرہ ان کے کمرے کی طرف بھاگی اور ان کا پمپ لا کر دیا۔ پمپ کرتے ہی ان کا سانس کچھ بہال ہوا۔
سوری پاپا مجھ سے غلطی ہوئی۔ پر میں خرم ۔ ۔ کے ۔ ۔ ہاتھ جوڑے گٹھنوں کے بل بہٹھ کر رونے لگی۔ باپ کی حالت ایسی ہوگی اس نے تصور میں بھی نہیں تھا۔
یہ اولاد ہی ہوتی ہے جو ہر بات کو اپنی انا کا مسئلہ بنا کر ہر رشتے سے دستبردار ہونے میں چند منٹ لگانا بھی گوارا نہیں کرتے مگر ماں باپ وہ ایسا چاہ کر بھی نہیں کر سکتے وہ تو اپنی اولاد کے انسوؤں سے ہار مان جاتے ہیں۔
بیٹی کو روتا دیکھ باپ کا دل پگلا۔ کل اسے میرے آفس آنے کا کہنا۔خود کو نارمل کرتے ہوئے بولے۔ مگر دل میں بہت کچھ چل رہا تھا۔
دعا ۔ شیری اور ماہ جبیں پہلی کلاس کے بعد لوبی کی طرف چل پڑے رضوان اکثروبیشتر چھٹیوں پر رہنے کے رکارڈ پورے کرنے میں مصروف آج بھی چھٹی پر تھا۔
دعا تم اگلی کلاس لوگی ۔ شیری نے پوچھا۔
ہاں ۔ ۔ دعا سمجھ گئی وہ کلاس لینے کے موڈ میں نہیں۔
اچھا مجھے نا بابا کو ڈاکٹر پے لے جانا ہے تو میں چلا۔ ۔
چھوٹ کم بولا کرو۔ ۔ ۔
بال پیچھے کرتا وہ ہنستا ہوا کار پارکینگ ایریا کی طرف مڑ گیا۔
دعا وہ میں سوچ رہی تھی کیوں نا تم میرے گھر آو لنچ یا ڈنر کے لیے۔ کلاس کے بعد دعا کے ساتھ چلتے ہوئے ماہ جبیں نے کہا۔
نہیں میں زرا پرسنلی کام کی وجی سے بزی ہوں۔دعا نے فوری نفی کی
ہمم ۔ ۔ ۔ پھر۔ ۔ ۔ جب کبھی فری ہوئی تو ۔ ۔ ۔ بتا دینا۔ ماہ جبیں نے مایوسی سے کہا۔
اوکے۔ دعا بیگ سمبھالتی لوبی کی طرف مڑی۔
دعا کے سقتھ چلنے کے لیے وہ تیز تیز چل رہی تھی۔
یار آہستہ چلو۔ دعا نے اپنے قدم آہستہ کیے۔
دونوں چلتے ہوئے لوبی میں آکر بیٹھ گئیں۔
اچھا تم انگیجڈ ہو؟
نہیں۔ ماہ جبیں کے اس اچانک سوال پر وہ زرا حیران ہوئی اور ساتھ ہی نفی میں جواب دیا۔
کسی میں انٹرسٹیڈ تو ہوں ۔ ماہ جبیں اس کا جواب ہاں میں سوچتے ہوئے مسکرائی۔
نہیں۔ جواب ایک بار پھر نفی میں تھا۔
نفی کے جواب سے تھوڑی دیر وہ چپ ہوگئی مگر پھر سے بولی۔
چلو میں ڈھونڈ دوں گی۔
دعا نے سوچا وہی مخصوص جواب دے مگر وہ ماہ جبیں کے سولوں سے پچنے کے لیے بولی۔
شکریہ یہ فیصلہ میری امی کریں گی۔ یہ حق میں نے ان کو دیا ہے۔
شائد تم برا مان گئی۔؟
دعا کو خاموش پا کر اس نے پھر بات کی تفصیل سے بتائی۔
میں تو بس ایسے ہی پوچھ رہی تھی دوست کو دوست کے بارے میں پتا ہونا چاہیے فیور دے سکتے ہیں نا۔
دعا بس دیکھ کر رہ گئی۔ جیسے سوچ رہی ہو۔ یہ ہمیشہ ہی ایسی باتیں کرتی ہے یا آج کچھ خاص پریپئر ریشن کر کے آئی ہے میرے لیے۔
ویسے آئی ۔ ایم ۔ اینگیجڈ ۔ وہ اپنی بات سے محظوظ ہوئی اور اگے ہو کے دعا کے تاثرات دیکھنے کو منہ موڑا۔
گونگریجولیشنز۔ دعا نے یک لفظی جواب دیا۔
تھینکس۔ اسے لگا دعا پوچھے گی کون ہے مگر دوسری طرف سےاایسا کوئی سوال نا کیا گیا تو وہ خود ہی بول پڑی۔
گوہر سے ۔ اب کی بار دعا نے سر اٹھا کر دیکھا۔
کیا ہوا تم چونک گئی۔ گوہر نے بتایا نہیں۔ ماہ جبیں کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔
ہم نہ تو دوست ہیں نہ گولیگز۔ سی یو لیٹر ۔ دعا فون ہاتھ میں پکڑے کھڑی ہوئی اور بیگ تھام کر چل دی۔
جاؤ جاؤ رو کسی کونے میں بیٹھ کر۔ بالوں کی لٹ پیچھے کرتی اٹھ کھڑی ہوئ
نمرہ نے اٹھتے ساتھ ہی خرم کی طرف جانے کا سوچا۔ یہ نا ہو کے پاپا پھر اپنا فیصلہ بدلیں۔
وہ فریش ہو کر ڈائینگ ٹیبل پر آئی تب تک عرفان صاحب اپنا ناشتہ تقریباً ختم کر چکے تھے۔
وہ پاپا خرم آپ سے آج مل لے؟ نظریں جھکائے بولی
ہممم۔ ۔ ہاتھ صاف کرتے وہ اٹھ گئے۔ نمرہ نے اپنا جوس کا گلاس آدھا کیا اور فوراً گاڑی لے کر خرم کے اپارمنٹ پہنچی۔ لیکن زہن اب بھی اسی بات میں الجھا ہوا تھا کہ نکاح کی بات کیسے پاپا تک پہنچی۔ خرم کے دروازہ کھولنے پر اس نے آؤ دیکھا نا تاؤ فوراً بولی۔
خرم کیا کیا تم نے پاپا کو کیوں بتایا؟
میں کیوں بتاؤں گا۔ وہ حیران ہوا
تو ان کو کیسے پتا لگا؟۔ اندرداخل ہوتے ہوئے بولی
کیا مطلب ہوا کیا ہے ؟ وہ بھی اس کے پیچھے چلتا ہوا صوفے پر آ بیٹھا۔
نمرہ نے کل رات ہونے والے تمام واقع اسے بتایا۔
یہ کیا ہو گیا ؟ یہ بات انہیں ابھی پتا نہیں چلنی چاہیے تھی کم سے کم میری اچھی جاب ہو جانے تک۔ وہ سر پکڑ کے رہ گیا۔
انہہں پتا کیسے چل گیا۔ نمرہ نے پھر اسی سوال کو کیا۔
یہ جا کر ان سے پوچھو ۔ خرم کو قب کی بار غصہ آیا۔
پاپا کی اتنی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔وہ ایستمہ کے مریض ہیں میں انہیں اپنے طریقے سے منا لیتی۔ وہ پریشان ہوئی۔
یار میں کیوں بتاؤں گا ہو سکتا ہے کہ ان کے کسی جاننے والے نے ہمیں کورٹ میں دیکھا ہو اور موقع ملتے ہی اس نے بتا دیا۔ خرم نے ممکنات کو سوچا۔
ہممم ۔۔۔ نمرہ اب ریلکس ہوئی۔
اب پھر کیا ہوگا؟ خرم پریشانی سے سوچنے لگا۔
پاپا تم سے ملنے کا کہہ رہے تھے ۔ تم بس اچھے سے ملنا اور انہیں ایمپریس کر دینا بس پھر سب ٹھیک ہوجائے گا۔اب زرا ٹائم پر جانا یہ نا ہو کہ وہ لیٹ ہونے پر ناراض ہوں۔ پاپا کا فیصلہ سناتے ہوئے وہ پرجوش ہوئی۔
وہ اوکے کہتا الماری سے کپڑے نکال کر واش روم میں گھس گیا۔ اس کے فریش ہو کر نکلنے تک وہ جا چکی تھی۔ اپنا والٹ پکڑتا وہ خود سے ہی باتیں کرنے لگا۔
اس کے لیے مجھے کیا کچھ کرنا ہوگا۔
آفس پہنچ کر ریسپشنسٹ سے عرفان صاحب سے ملنے کا پوچھا۔
سر وہ تو ابھی بزی ہیں مگر ان کا آڈر تھا کہ آپ ان کا ویٹ کر لیں۔ وہ وہیں صوفہ پر بیٹھا ویٹ کرنے لگا۔ ایک گھنٹہ گزرا مگر انتظار تھا کے ختم ہو کے ہی نہیں دے رہا تھا۔ وہ بار بار جا کر پوچھتا مگر ایک ہی جواب سر بزی ہیں۔ وہ نتظار کرتے کرتے تھکنے لگا تھا۔ ساڑھے چار گھنٹے کے بعد ریسپشنسٹ نے پکارا سر آپ اندر جا سکتے ہیں سامنے سے لیفٹ اور تھرڈ روم ۔ وہ اوکے کرتا چل پڑا۔ مطلوبہ کمرے کے سامنے کھڑا ہوا اور ایک گہرا سانس لے کر خود کو کمپوز کیا۔ دروازے پر ناک کر کے ناب گھمائی۔ ایجازت پا کر اندار آیا۔ عرفان صاحب کرسی پر ٹیک لگائے اسے ہی دیکھ رہے تھے۔
ہیلو سر کہہ کر کرسی پر بیٹھنے کی جسارت کی۔
میں نے بیٹھنے کو نہیں کہا۔ کرسی سے آگےجھکے۔
جی؟ ایک دم واپس کھڑا ہوا۔
وہ سامنے بلیک بیگ اٹھا کر لاؤ۔
جی سر کہتا بیگ کی طرف بڑھا اور اٹھا کر واپس ٹیبل کے پاس آیا۔ بیگ خالی معلوم ہوتا تھا۔
اسے نیچے رکھو اور بیٹھ جاؤ۔ جانتے ہو اس میں پانچ سے کے کتنے نوٹ رکھے جا سکتے ہیں۔
نو سر۔ پہلے بیگ کو دیکھا اور پھر عرفان صاحب کو۔
تقریباً ایک کڑوڑ۔ اس کے تاثرات پڑھنے چاہے۔
اوہ۔ ۔ اس کے منہ سے صرف یہی نکلا۔
اندازہ کر سکتے ہو اگر وہ نوٹ ایک ہزار یا پانچ ہزار کے ہوں تو کتنے پیسے ہوں گے۔ ہاتھ تھوڑی کے نیچے رکھ کر خرم کو دیکھنے لگے۔
خرم بے تاثر چہرے کے ساتھ انہیں دیکھنے لگا۔
عرفان صاحب نیچھے جھکے دراز سے چیک بک نکالی۔
جانتے ہو میری بیٹی ایک مہنے میں یا ایک دن میں کتنے خرچ کرتی ہے۔؟ چیک بک کھولی۔
خوشی کا تعلق دل سے ہوتا ہے پیسو سے نہیں۔خرم مسکرایہ۔
کہنے سننے میں یہ باتیں بہت اچھی لگتی ہیں۔ اگر میں رخستی کرتا ہوں۔ کہاں رکھو گے اسے؟ ایک چیک پھاڑ کر علیحدہ کیا۔
سر میں ایک اپارٹمنٹ میں رہتا ہوں مگر اس کا کرایہ خود دیتا ہوں۔ میں جلد ہی ایک بہتر جاب پر موو کر جاؤں گا تب نمرہ کو لے جاؤں گا تب تک وہ میری مانت ہے آپ کے پاس اور مجھے یقین ہے وہ بوجھ نہیں ہوگی آپ پر۔ پر عزم اور دھیمی مسکراہٹ سے بولا۔
کافی اچھی تیاری کے ساتھ آئے ہو۔ ان کے چہرے پر ایک تنزیہ مسکراہٹ آئی۔
یہ بلینک چیک ہے۔ اس میں قیمت لکھو جو چاہے اور اس کے بدلے میں نمرہ کو آزاد کر دو۔ چیک کو میز سے ڈریگ کر کے اس کے سامنے کیا۔
وہ تھوڑی دیر چیک کو دیکھتا رہا پین نکالا نب اماؤنٹ کے بلاک پررکھی تھوڑی دیر سوچا نظریں اٹھائی۔ چیک گمایا اورڈریگ کر کے واپس عرفان صاحب کے سامنے کیا۔
میں نے سوچا مگر مشکل ہے آپ خود ہی اپنی بیٹی کی قیمت لگا دیں۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔
زبان سنبھال کر بات کرو۔ عرفان صاحب نے تیوڑی چڑھائی۔
آپ کو برا لگا مجھے بھی اتنا ہی لگا ہے۔ وہ بے مول ہے اس کا مول لگا کر آپ اس کی توہین مت کیجیے۔ آپ مجھے اس کی زندگی سے نکالنا چاہتے ہیں ٹھیک ہے میں یہ سوچ کر نکل جاؤں گا کہ میںاس کے قابل نہیں اس کو آسائشیں نہیںدے سکتا مگر میری محبت کی آپ قیمت لگا کر اس کی توہین کررہے ہیں۔
اچھا۔ ایک آبرع اٹھا کر بولے۔
میں ایک باپ کی بیٹی سے ملنے آیا تھا اور یہ یقین دلانے آیا تھا میں اس کی بیٹی کو اتنے ہی پیار سے رکھوں گا جیسے اس نے رکھا مگر افسوس یہاں ایک بزنس مین ہے باپ نہیں۔ چلتا ہوں
رضوان۔زیادہ تر کام گھر سے ہی کرتا تھا مگر آج خلافِ معمول آفس میں تھا اور اکاؤنٹس کی چھان بین کرنے کئ بعد دعا کے کیبن میں آیا۔
ارے واہ آپ کہا سے پہنچ گئے ؟ کاغذات میں مصروف دعا نے نظریں ہٹائیں
نہیں تو کیا واپس چلا جاؤں۔ کرسی کھینچ کر بیٹھا۔
ہاہاہا میں نے ایسا نہیں کہا۔ دعا کو ہنسی آگئی۔
اچھا بھابی کیسی ہیں ۔
ویسی ہی حسین ۔ وہ سچ کے مسکرایہ۔
آپ تو پاگل ہی ہو گے ہو رضوان۔شیری نے آتے ہی چوٹ کی۔
جب تمہاری شادی ہوگی نا پھر پوچھوں گا۔ویسے کب کر رہے ہو۔ کرسی شیری کی جانب گھمائی۔
کر لوں گا آپ کو کوئی مسئلہ ہے۔ وہ بھی دوسری کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
ہاں ہے نا ۔ ۔ جب تک ہو گی نہیں مجھے تانے دیتے رہو گے۔ اگے بڑھ کر اس کے ہیئر سٹائل کو خراب کترنا ضروری سمجھا۔
لیکن آپ کونسا اثر ہوتا ہے۔ شیری نے فوراً دبک کر اپنے بال بچائے۔
اوئے دعا تم نے اسے کچھ تمیز ومیز نہیں سکھائی منہ پھٹ ہو گیا ہے کچھ زیادہ ہی۔
اچھا اگر آپ دونوں کی بلی چوہے کی گیم ختم ہو گئی ہو تو کام کی بات کریں۔؟
موصوفہ ہمشیرہ ایجازت ہے۔ رضوان نے شاہانہ انداز میں کہا۔
اچھا اب اگلے مہینے تو پلین نائن ولوں نے ہمیں تخلیا کہہ دینا ہے سکس منتھ کمپلیٹ ہو جانے ہے۔ دعا نے یاد دلایا۔
ایمبیسیڈز رکھنے کی وجہ سے کافی فائدہ ہوا ہے۔ رضوان اکاؤنٹس کی ڈیٹیلز نکالنے لگا۔
تو کوئی اچھی جگہ دیکھتے ہیں آفس کے لیے۔ شیری نے سیریس ہوتے ہوئے کہا۔
میں سوچ رہی تھی کہ بجائے ہم خریدنے میں سارے پیسے لگا دیں ہم رینٹ پر فلحال جگہ لے لیتے ہیں اس سے یہ فائدہ ہوگا۔ ہمارے پاس ایک ختیر رقم بچ جائے گی تو ہم اینڈرائڈ کے لیے ایک مستقل ممبر ہائر کر لیتے ہیں۔
ہاں دعا ٹھیک کہہ رہی ہے اچھی جگہ آفس لینے لگے تو ہمارا سارا پیسہ لگ جائے گا۔ رضوان نے بھی دعا سے اکتفاءِ کیا۔
اوکے میں بابا سے کہتا ہوں وہ کسی ڈیلر سے بات کریں کہ ہمیں کم پیسے میں اچھا آفس مل جائے۔ شیری نے اگلا پلین بتایا۔
ماہ جبیں اور صلہ آج کھانے کے لیے آفندی صاحب کے گھر موجود تھیں۔ کھانے کے بعد سب لان میں چائے کے لیے اکٹھا تھے۔ گوہر سب سے ہٹ کر آسٹریلین طوطوں کے پنجرے کے پاس انہیں دیکھنے میں مصروف تھا۔ ماہ جبیں کو اس کے پاس کھڑے پانچ منٹ ہو چکے تھے مگر اس کا دھیان اب بھی اس پر نہیں پڑا یا شائد وہ اسے اکنور کر رہا تھا۔ آخر کار وہ خود ہی بول پڑی۔
تھنکس بائی دا وے۔ گوہر نے مڑ کر دیکھا
کس لیے؟
میری دعا سے دوستی کے لیے۔ تم نے کہا تبھی اس نے کر لی دوستی۔ منی پر تنز یہ اکسپریشنز تھے۔ مگر گوہر کا دھیان طوطے پر تھا جو اب دانہ کھانے پنجرے میں موجود کپ پر جھکا ہوا تھا۔
اگر اسے نہیں کرنی ہوتی تو میرے خیال سے میرے کیا کسی کے بھی کہنے سے نہیں کرتی۔ وہ اسےدیکھے بغیر بولا۔
اچھا مجھے تو لگا تمہارے کہنے پر کی۔ وہ گوہر کو گھور رہی تھی۔
توجا کر دوستی ختم کر لو۔ گوہر نے قصہ ہی تمام کیا۔
نہیں میرا مطلب وہ نہیں تھا۔ ماہی گھڑبڑائی۔
ہممم۔ ۔ ۔
ویسے کافی انڈر سٹینڈنگ ہو گئی ہے ہماری۔ اس نے جتایا۔
اچھی بات ہے۔ وہ اس کی بے جا باتوں سے تنگ پڑ رہا تھا۔
مجھے دعا کی باتوں سے لگا کہ وہ کسی میں انٹرسٹڈ ہے۔ اس کے چہرے کے تاثرات جاننے کر گردن اگے کر کے دیکھا۔
وہ تمہاری دوست ہے یہ اس کا پرسنل معاملہ ہے مجھے نہیں لگتا تمہیں اس کی پرسنلز مجھے بتانی چاہیے۔ اب کی بار گوہر نے نظروں کا رخ ا س کی طرف کیا۔
وہ تمہاری دوست ہے۔ اس لیے۔ ۔ ۔ اس سے پہلے وہ اپنی بات ختم کرتی گوہر نے اسے بیچ میں ہی ٹوک دیا۔
وہ میری دوست نہیں ہے صرف کلاس فیلو ہے۔ دوست اور کلاس فیلو میں فرق ہوتا ہے مگر لوگ اکثر اس کو ملا دیتے ہیں۔ یہ الگ الگ چیزیں ہیں انہیں الگ ہی رہنے دینا چاہیے۔ اس کی پرسنل لائف میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔