اسلام و علیکم شیری کیسے ہو؟
میں بالکل ٹھیک آپ سنائیں؟ آپ تو ایسے بزی ہوئے میسجز سے بھی گئے۔
ہاہاہا اب بیوی خوبصورت ہو تو پھر تمہیں کیوں یاد کروں۔ ۔ رضوان خوش ہع کر بولا۔
ہاں یہ بھی ہے ما شاللہ بھابی پیاری ہیں۔ ۔ شیری نے سوچ کر کہا
اور اوپر سے ہم پختون عاشق مزاج ہوتے ہیں ۔ ۔ اپنے پختون ہونے کا خاصہ بتاتے ہوئے مسکرایہ۔
آپ کی شکل سے تو لگتا تھا لیکن نام اور باتوں سے کبھی نہیں لگا۔ رضوان کی اچھی اردو سے کوئی کہہ نہیں سکتا کہ وہ پختون ہے
دعاکا خیال اتے ہی شیری نے جلدی سے پوچھا۔
دعا کا کیا جی پی اے آیا ہے؟
پتا نہیں میری کوئی بات نہیں ہوئی لیکن تھوڑی دیر پہلے میسج دیکھا تھا کہ آ رہی ہے۔ رضوان نے ٹائم دیکھتے ہوئے کہا۔
اسلام علیکم ۔ ۔ ۔ دعا نے دونوں کو ساتھ کھڑے دیکھا توان کی طرف آگئی۔
واعلیکم سلام کیسی۔ہوں ؟ جی۔پی اے کیا آیا۔؟شیری نے اب کی بار بھی اسی جلدی سے پوچھا۔
اللہ کا شکر ہے
GPA 3.89آیا ہے
واہ یعنی گوہر سے زیادہ اس کا GPA 3.88ہے
اچھا میرا ۳۔۵۵ہے
اور شیری کا ۳ـ۷۸ ہے
مبارک ہو ۔ ۔ ۔ مجھے سر عمیر سے ملنے جانا تھا اپنے ٹیسٹ کلیکٹ کرنے تو میں آتی ہوں
او کے ہم تب تک دیکھتے ہیں آگے کونسے کورسس آفر ہوئے ہیں۔
دعا نے لوبی کی طرف جانے کی بجائے فوڈ سٹریٹ کا راستہ اختیار کیا۔
بیک سائڈ سے ہوتے ہوئےوہ سٹاف بلڈنگ کی طرف بڑھی ہی تھی کہ کسی نے آواز دی اور وہ رک گئی۔
محترمہ آپ کو کافی دیر سے آواز لگا رہا تھا۔ کم سنتی ہو کیا؟ وہ مڑی نہیں تھی تو گوہر کو ہی گھوم کر اس کے سامنے آنا پڑا
آ ۔ ۔ ۔ وہ ۔ ۔ میں نے سنا نہیں تھا۔ گو ہر کو سامنے پا کر وہ بوکھلا گئی۔
ہمم سر سے ملا تھا ابھی میں بتایا انہوں نے ہائیسٹ جی پی اے مس دعا حمید کا ہے۔ ویسے آج تک ہوا نہیں ایسا۔ کوئی مجھ سے زیادہ جی پی اے لے۔
کبھی کبھی کچھ چیزیں پہلی دفعہ ہوتی ہیں۔ دعا کو لگا وہ اسے ٹونٹ کر گیا ہے
اور آخری دفعہ بھی۔گوہر نے جیسے بات کو مکمل کیا۔
اف اس شخص کے ساتھ پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے۔ کسی حال میں بھی خوش نہیں ہوتا کچھ کہہ دو تب بھی انا کا مسئلہ بنا لیتا ہے اورنہ کہو تب بھی۔ دیو کہیں کا۔ دل میں کوس رہی تھی جب قس نے اس راستے کی طرف سے انے کا سوچا۔
ویسے کونگریجولیشنز دعا اس سمسٹر میں ہائیسٹ جی پی اے لینے کے لیے۔ اسے خاموش پا کر وہ خود ہی بول پڑا۔
شکریہ۔ ۔ ۔ یک لفظی جواب یعنی بات ختتم
ہممم اگلی بار ایسا نہیں ہوگا چاہے جینا پڑھ لو۔ آنکھوں پر گوگل چڑھاتا اس کے اگے سے نکل گیا۔
*** *** *** *** ***
رابیکہ آپ دو دن سے نہیں آئیں سب ٹھیک ہے۔ لیب کوٹ اتار کر کرسی پر ڈالا اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
رابیکہ کو خاموش پا کر وہ پھر سے خود ہی بولنے لگا
ارے آپ کوکیا ہوگیا جناب ؟ آپ خاموش ہوتی ہیں تو مجھے اچھا نہیں لگتا۔
میری اینگیجمنٹ تہ ہو گئی ہے۔ ۔ ۔ رابیکہ افسردگی سے بولی۔
آفندی کو ایک دم خاموشی اور حیرانگی نے گھیر لیا۔ چند سعاتیں یوں ہی گزر گئی۔
کیا آپ خوش ہیں؟ ڈرتے ہوئے بے اختیار پوچھ لیا۔
نہیں۔
تو پھر گھر میں بتا دیں۔ دل میں شکر ادا کیا
وجہ کیا بتاؤں ؟ سر اٹھا کر بولی۔
کہ آپ کو پسند نہیں۔ چٹکی بجا کر بولے۔
کسوئی بھی بات اس رشتے کو نہیں روک سکتی۔ وہ مایوسی سے بولی۔
وہ ۔ ۔ ۔
کیا ہوا آپ مجھ پر بھروسہ کر سکتی ہو۔ ۔ ۔
میں نے اسلام قبول کیا ہے اور گھر پر سب کو شک بھی ہو گیا ہے کم سے کم میں اب ایک کرسچن سے شادی تو نہیں کر سکتی۔اپنی پریشانی بتائی۔
کیا؟ کب کیا ؟ مجھے بتایا تو نہیں ۔ ۔ ۔ آفندی کو حیرانگی ہوئی ۔
لاسٹ ائر جب آپ سے بات ہوئی تھی کچھ سولات جن کی وجہ سے میں سوچ میں تھی کہ کیا اسلام قبول کرنا ٹھیک ہے یا نہیں ۔ آپ سے بات کر کے مجھے ان کے جوابات مل گئے اور تبھی کر لیا تھا قبول۔وہ مدہم آواز میں بولی۔
تب بھروسہ نہیں تھا اب تو ہو گیا ہے نا یا اب بھی نہیں ہے؟ وہ زرا ناراضگی سے بولے۔
ہے تبھی تو بتایا ہے ۔ ۔ ۔ پلیز بتائیں میں کیا کروں۔ وہ ہاتھ مڑوڑتے بولی۔
میں کیسا لگتا ہوں؟ آفندی ایک دم اس کے سامنے کھڑے ہو گئے
میں پریشان ہوں آپ کو اپنی تعریف کر رہےہیں۔وہ سر جھکا کر بولے
مجھ سے شادی کرو گی؟وہ آخر وہ کہہ بیٹھا جو ہمیشہ سے کہنا چاہتے تھے۔
کیا؟وہ ایک جھٹکے سے کھڑی ہوئی
میں ایک بہت اچھا تو نہیں تھوڑا بہت مسلمان ہوں۔ اب بھی چہرے پر مسکراہٹ لیے ہوئےتھے۔
آفندی میں اپنے ساتھ کسی دوسرے کو مصیبت میں کیوں ڈالوں۔ جبکہ ہماری کمیونٹی جاننے کے بعد مجھے اور میرے ساتھ جڑے اس معاملے میں ہر۔شخص کو زندہ درگور کر دے گی۔رابیکہ کو لگا اس کا دوست اپنی دوستی کی خاطر ہمدردی دیکھا رہا ہے
مصیبت؟ میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم میں کب سے ایسا چاہتا ہوں مگر میں نے اگر کبھی بھی کسی سے۔شادی کا سوچا تو وہ آپ ہیں رابیکہ۔ وہ سامنے ٹیبل سے ہٹ کر رابیکہ کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
رابیکہ کو ایک دم چپ لگ گئی آفندی اسے خاموش پا کر پھر بولے
پلیز مجھے غلط مت سمجھیں
اپنا اور میرا سٹیٹس جانتے ہیں آپ ۔ دوستی میں اوقات نہیں دیکھی جاتی لیکن رشتہ اوقات دیکھ کر ہی کیا جاتا ہےاس ایک ظالم المیہ نے سفید پوش لوگوں کی بیٹیوں کو تنہائی اختیار کرنے پر مجبور کر رکھا ہے
میرے لیے وہ معنی نہیں رکھتا۔ آفندی نے اس کی آنکھوں میں تحریر اس انکہے جملے کو پڑھا
مجھے تو ابھی میری کوئی پہچان بھی نہیں دریافت ہوئی جب ہوئی تو میں اس حال میں ہوں کہ نہ تو خود کو کسی سے بچا سکتی ہو اپنے ایمان کا تو کچھ پتا ہی نہیں مجھے۔ وہ افسردگی سے بولی
مجھے معلوم ہے ۔ ۔ ۔ آفندی بھی ہارماننے ولا شخص نہیں تھا
کیا۔ ؟ رابیکہ کی آنکھیں چمکیں۔
میری بیوی کو کسی کی نظر دیکھنے کی بھی جرت نہیں کر سکتی ۔ لہجے میں ایک عزم تھا وور تحفظ بھی
آف۔۔۔ندی ۔ وہ کہنا چاہتی تھی کچھ مگر الفاظ کبھی کبھی انسان کو گونگا بھی کر دیتے ہیں
کیا مجھ میں کوئی کمی ہے؟۔ آفندی نے وہ پوچھا جس کا جواب وہ جانتا تھا کبھی بھی انکار میں نہیں ہوگا۔
نہیں ۔ ۔ ۔ میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے نہ میرے بھائی مانے گے پاپا مان بھی جائے تب بھی۔ ۔ ۔ انکار ہوا نہیں اقرار ہو نہیں سکا
اس سب کو چھوڑو بس اتنا بتاو مجھ سے شادی کرو گی؟
آپ اچھے ہیں لیکن آپ کی زندگی۔ ۔ ۔ وہ جانتی تھی وہ کس کمیونٹی سے تعلق رکھتی تھی اگر کسی کو پتا لگا تووہ اپنے ساتھ اپنے مسیحا کی بھی زندگی کو نقصان پہنچا دے گی۔
وہ تو میرےسامنے ہے۔ ۔
میرے گھر چلو بابا بتائیں گے کے آگے کیا کرنا ہے
وہ اگر نا مانے تو ۔ انکار نہیں تھا اور اقرار کی کوئی حیثیت نہیں رہی تھی۔
ایسا نہیں ہو۔سکتا وہ پہلے سے ہی جانتے ہیں
جی؟اسے حیرت کا جھٹکا لگا۔
ہاں جی پورے ہسپتال کو پتا ہے۔سوائے آپ کے خیر اب پتا لگ گیا ہے تو معملہ حل ہوا۔ بلا کا اطمنان تھا
*** *** *** *** ***
Excuse me is that anything problem
دعا نے کافی دیر سے کھڑی اس لڑکی کو پریشان دیکھا تو پوچھا۔
غصہ میں تھی شائد۔No
۔ کافی دیر سے کھڑی ہیں آپ یہاںAre you sure?
دعا کو لگا کہ شائد کسی پرابلم میں ہے
آپ بھی تو کھڑی ہیں۔ٹکا سا جواب دیا۔
میں اپنی سسٹر کا ویٹ کر رہی ہوں شاپنگ کرنے۔جانا ہے ہم نے۔ کہا میں آپ کی ہلپ کروں؟دعا نے اسے بتایا تا کہ شائد وہ پریشانی بتا دے اس کی بوڈی لینگوئچ میں زرا سا ڈر تھا
وہ مجھے گھر جانا ہے ۔ لیکن پیسے نہیں ہیں میرے پاس۔ بولی تو آواز میں پچپنا اور امیچیورٹی تھی۔
مجھ سے لے لیں ۔ دعا نے پیار سے کہا
نہیں میرے بھائی ناراض ہوں گے۔وہ پھر کچھ ٹہر کر بولی
تو آپ رکشہ کریں اور لے جائیں اپنے گھر اور گھروالے پیسے دے دیں گے۔ دعا نے حل بتایا
ہاں یہ تو سوچا ہی نہیں میں نے تھینکس۔ وہ چٹکی بجا کر بولی اور رکشے کی طرف بڑھ گئی۔ ایک دو رکشوں کو روکا بات ہوئی لیکن کچھ نہ بنا تو واپس گھومی جہاں دعا اپنے موبائل میں مصروف تھی۔ لڑکی بڑھی جہاں دعا کھڑی تھی۔
ایک اور پرابلم ہو گئی ہے۔ دعا کے پاس پہنچتے ہی وہ چھٹ سے بولی
کیا؟دعا نے موبائل سے سر اٹھا کے کہا۔
رکشے والے پراپرایڈریس مانگتے ہیں میرے پاس تونہیں ہے۔ وہ منہ لٹکا کر بولی
تو آئی ڈی کارڈ پر ہوگا دیکھ لو۔ دعا کو لگا وہ ایک بہت
ہی پیمپرڈ لڑکی ہے
میرا تو بنا ہی نہیں نیکسٹ ائر بنے گا۔ وہ کچھ سوچ کر بولی
ہممم تو فون کر لیں ۔ دعا نے پھر سے مشورہ دیا
اتنے میں دیا بھی آگئی اور آتے ہی بولی چلیں
ایک منٹ دیا۔
میرے پاس فون بھی نہیں ہےوہ شاید میں نے اپنا بیگ گم کردیا۔اب کی بار وہ رونے کے انداز میں بولی
میرےفون سے کرلیں نمبر تو ۔ ۔ ۔ یاد ہے۔ دعا نے اپنا فون اس کی طرف بڑھایا
مجھے بھائی کا یاد ہے کر لوں کال پلیز؟۔ فون پکڑکے بولی
اوکے شیور۔ دعا کی آنکھیں بتا رہی تھی کے وہ مسکرائی ہے
لڑکی نے فون ملایا بات کی اور دعا کی طرف آئی۔
وہ میرے بھائی لینے آ رہے ہیں آپ رک جائیں گی تب تک۔؟دعا کو فون پکڑاتے بولی۔
ضرور ۔ دعا نے فون پکڑا۔
میرق نام زری ہے۔ زی نے مسکرا کے کہا اور شکریہ ادا کیا۔
کوئی بیس منٹ کے بعد ایک بلیک مرسڈیز آئی اور رکی جس میں سے گوہر پریشانی سے بہت تیزی سے نکلا
اسلام و علیکم یہاں کیسے پہنچ گئی؟
وہ۔ زی نے کچھ کہنا چاہا
اچھا گاڑی میں بیٹھوں۔ وہ گاڑی کی طرف اشارہ کر کے بولا۔
ان سے ملیں ان کے نمبر سے فون کیا تھا میں نے۔ ۔۔ ۔ نام تو میں نے پوچھا ہی نہیں۔ اس نے گوہر کا دھیان دعا کی طرف مبزول کروایا۔
دعا ۔ گوہر دعا کی طرف مڑا اور نکاب میں جھانکتی سیاہ بڑی بڑی میک اپ سے آری آنکھیں دیکھ کر بے اختیار بولا۔
آپ کو کیسے پتا۔ زی حیران ہوئی
یہ میری کلاس فیلو ہیں۔ وہ گوگل اتار کر بولا۔
اوہ اچھا ۔ وہ حیرانی سےدونوں الفاظ کو لمبا کھینچ کے بولا۔
Okay nice to meet you. Fe Aman Allah!
دعا نے مختصر بات کی اور دیا کا ہاتھ پکڑ کر چل دی۔
گوہر نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا مگر تب تک مڑ کر آگے چل دی اور زی بھی گاڑی میں بیٹھ چکی تھی۔
راولپنڈی ایکسپریس سے بھی تیز چلتی ہے ۔ منہ میں بڑبڑاتا گاڑی کی طرف بڑھا اور ڈریونگ سیٹ سنبھالی۔
وہ میری شزا سے لڑائی ہو گئی تھی اور فون اور پرس بھی اسی کی گاڑی میں رہ گیا۔تھوڑی خاموشی کے بعد زی نے بولنا شروع کیا۔
آئندہ ایسی بے وقوفی مت کرنا۔گوہر نے سامنے سے نظر ہٹائے بغیر کہا۔
اوکے۔ ۔ وہ آپ کی فیلو اچھی تھیں ۔ زی نے دعا کے باری میں سوچ کر تعریفی انداز میں کہا
مجھے نہیں لگتی۔ گوہر نے نظر ہٹا کر زی کو دیکھا
کیوں ؟ زی کو لگا کہ وہ مزاق میں کہہ گیا
اس بار اس کا جی پی اے مجھ سے زیادہ آیا ہے۔ اسے آج دعا کا اس سے پوائنٹ ون زیادہآنا کچھ بھایا نہیں تھا۔ وہ پچپن سے اب تک اپنے کلاس کا چہیتا اور ہر کلاس میں اول آنے والا انسان تھا پچھلی بار کا گولڈمڈلسٹ بھی۔
کیا ؟ یہ کیسے ہو گیا ۔۔ زی نے حیران یو کر پوری گردن گما کر دیکھا
پتا نہیں۔
یعنی اس بار گولڈ میڈل انہیں ملے گا اور آپ کو رول آف آنر میڈل سے گزارا کرنا پڑے گا۔ بھائی کی بیچارگی دیکھ کر وہ ایک دم ہنس دی۔
اس بار آئیں ہیں مارکس اگلی بار میرےآئیں گے۔گوہر نے مسکرا کر چیلنچنگ لہجے میں کہا
اور اگر نا آئے تو؟زی نے ممکنات کا دہرانہ ضروری سمجھا۔
تو۔ ۔ ۔ وہ ایک ابرو اٹھا کر بولا۔
تو آپ ایک کام کرنا۔ زی آنکھیں سکیڑ کر بولی
کیا؟
ان سے شادی کر لینا گولڈمیڈل بھی گھر اور میڈل والی بھی۔
*** *** *** *** ***
رابیکہ۔ کسی نے آواز دی تو ایک دم وہ رک گئی جیسے سانس ہی کسی نے روک دی ہو۔ آفندی کے بابا ایک آرمی آفیسر تھے تو ان کے کہنے پر آفندی نے رابیکہ کا نام بدل کرایک مسلم نام عیشل رکھا اور اسی نام سے نکاح نامہ اور شناختی کارڈ بھی بنا لیا۔بابا کے علاوہ کوئی اس گھر کا شخص نہیں جانتا تھا یہ پہچان۔
رابیکہ نے ہر وہ چیز جو ایک مسلمان عورت کو اپنانی چاہیے اپنا لی تھی۔ ایمان سے لے کر پردے تک۔
ہم جنہیں ایمان وراثت میں ملتا ہے ان سے زیادہ ایمان کی پاسداری نومسلم رکھتے ہیں۔ وہ ایک نومسلم تھی ۔ اسے ایمان وراثت میں باپ دادا سے تھالی میں نہیں ملا تھا اس نے ایمان اپنی قسمت اور اپنے رشتوں سے لڑکے لیا تھا اپنا آپ اور اپنے رشتے گوا کر ملا تھا
اور اج چھ ماہ بعد کسی نے اسے پھر سے اسی نام سے پکارا تھا۔
وہ ایک جھٹکے سے مڑی اور اپنی اکلوتی نند صلہ کو دیکھ کر گھبرائی اسے ہر ایک نے قبول کیا تھا مگر صلہ کو نجانے کیا بیر تھا۔
تو تم اس گھر کو دھوکہ دے رہی تھی۔ ابھی بھائی جان کو بتاتی ہوں۔ صلہ واپس آفندی کے کمرے کی طرف بڑھی۔
پلیز صلہ میری بات سنیں۔عیشل نے بھی اسے کے پیچھے چلنا شروع کیا۔
تم نے میرے بھائی کو بےوقوف بنایا ہے مگر مجھے نہیں بنا سکتے تمہارا بھانڈا تو ابھی پھوڑتی ہوں۔رکے بغیر تیز تیز چل رہی تھی۔
وہ سب جانتے ہیں۔ ۔ ۔ عیشل کو اعتراف کرنا پڑا۔
صلہ رکی کیا کہا تم نے؟
وہ جاتے ہیں سب ۔ ۔ ۔
تو تم نے ان پر جادو کر رکھا ہے ہاں۔
آپ غلط سمجھ رہی ہیں وہ مجھے۔
ارے جانتی ہوں میں تم جیسی لڑکیوں کو میں امیر لڑکوں کو پھسا کر اپنے خوبصورتی کیش کرواتی ہو تاکہ پوری زندگی عیش کر سکو۔
عیشل نے کبھی اس قدر بے عزتی کبھی محسوس نہیں کی اس کا دل چاہا یہ زمیں پھٹ جائے اور وہ سما جائے اس میں۔ آنسو آنکھوں میں بھرنے لگے تھے۔
میں یہ ہونے نہیں دوں گی تم اس گھر میں زیادہ دیر نہیں ٹکو گی۔ میں دیکھتی ہوں کیسے رہتی ہو۔اس گھر میں۔
آپ ایسا کیوں کر رہی ہیں ؟
اوقات کیا ہے تمہاری جانتی ہوں ۔ ۔ تمہاری قوم گھٹر صاف کرتی ہے ہمارے۔ ایک تنزیہ مسکاہٹ سجی تھی۔
بالکل ٹھیک کہا آپ نے مگر مجھے فخر ہے اس قوم پر وہ بھیک نہیں مانگتی محنت کرتی ہے آپ کا ایمان کے مکمل کرتی۔ صفائی آپ کے ایمان کا حصہ ہے جسے وہ پورا کرتے ہیں اور اگر نا کریں تو آپ ادھا ایمان کہا لے کر جائیں گے۔
یار رضوان تمہیں کیا لگتا ہے کہ کیا ہم اس بزنس کو کامیاب کر سکتے ہیں؟شیری نے ٹیبل پر بزنس پرپوزل رکھتے ہوئے کہا
ہو جائے گا انشاللہ ۔ رضوان نے ہمت بندھائی۔
دعا کیا بات ہے خاموش کیوں ہو؟ رضوون نے دعا کو خاموش دیکھ کر کہا۔
آپ کو معلوم ہے رضوان بھائی میں جب جھوٹی تھی تو ایک دن ہمارا ٹرپ یہاں اْیا تھا پہلی دفعہ اس بلڈنگ کودیکھ کر میرے دل میں خیال آیا تو میں نے اسی وقت اللہ سےدعا کی کہ۔اللہ مجھے بھی ایک بزنس دے میں بھی ایسی بلڈنگ میں آفس بناؤں گی۔ میری کلاس فیلوز نے بہت مزاق اڑایا تھا۔ اور آج جب میں نے اس بلڈنگ میں قدم رکھا تو میرے۔دل میں بس ایک ہی۔آواز آئی اللہ تیرا شکر ہے۔ میری دعا قبول ہوئی۔اس کی گہری کالی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے
دعا جب اللہ سے کچھ مانگوں وہ دیر ضرور کرتا ہے مگر دیتا ہے۔ رضوان اٹھ کر اس کے سامنے کھڑا ہوا۔
بے شک وہ سنتا ہے ۔ ۔ ۔ اچھا پلیز یہ میلو ڈرامہ ہم کل مل کر کریں گے ابھی تو یار یہ سوچوکہ کھانا کیا ہے میرا تو مارے بھوک سے پیٹ میں انتریوں نے توفانِ بدتمیزی مچھا رکھا ہے۔شیری بیٹ پر ہاتھ پھیرتے بولا۔
اف کبھی تو کھانے کا نہ سوچا کرو ۔ رضوان نے ہمیشہ کی اس کی بھوک کی رٹ سے تنگ آکر کہا۔
اب میں چھوٹا جو ہوں تم دونوں سے چلو شوباش بل کس نے دینا ہے وہ بھی سوچ لو میں نہیں دینے والا۔ شیری کوٹ پکڑ کر باہر نکلا۔
چلیں میں دے دوں گی۔ وہ مسکرا کر بولی
نہیں ہم آمریکن سسٹم کریں گے اپنا اپنا اورشیری کا شیئر کر لیں گے ۔ اوکے ۔ رضوقن بھی نشست سے کھڑا ہوا۔
اوکے آپ لے آئیں میں انتظار کر رہی ہوں
*** *** *** *** ***
تمہارا دماغ ٹھیک ہے ؟ کس نے بولا تمہیں فون آن کرنے کو؟حبیب اللہ نے کمرے میں آتے ادیبہ کے ہاتھ میں فون کی سکریں آن دیکھ کر کہا
وہ میں نے ہمارے نکاح کی تصویریں دیکھنیں تھی۔وہ معصومیت سے بولی
احمق بند کرو فون پہلے۔ اس سے پہلے وہ کچھ کہتے حبیب اللہ نے خود ہی فون پکڑکے آف کر دیا۔
پاگل ہو اب تک تمہارے گھر والوں نے گمشدگی کی ریپورٹ کر دی ہوگی۔ ۔ ۔ پولیس ڈھونڈرہی ہوگی بے وقوف خوتون۔حبیب اللہ تھوڑا غصے میں بولے اور اٹھ کھڑے ہوئے
اچھا نا آپ تو ناراض ہی ہو گئے اب بند کر دیا فون ۔ادیبہ بھی اٹھ کر ان کے پاس چلی گئی۔
سنیں ۔ اس کے انچے اورچھوڑے شانے پر ہاتھ رکھا۔
ہاں ۔ حبیب نے مڑ کردیکھا۔
آپ مجھ سے کتنی محبت کرتے ہیں؟رشتہ پرانا ہو یا نیا۔ مضبوط ہو یا کمزور۔ رشتے میں کیا اہمیت ہے اس کی وہ جانتا ہے لیکن انسان کبھی کبھی وہ ہی مخصوص الفاظ بار بار سننا چاہتا ہے۔ صرف دل کو سکون پہنچانے کی غرض سے
ہیں؟ جب عورت مرد کی دسترس میں آجائے تب ان کے لئے ایک لفظ ان کی چاہ کے خلاف باربار دھرانا محض مصیبت لگتا ہے چاہے وہ سچ ہو یا جھوٹ۔
آپ جب مجھے قرآن حفظ کروارہے تھے نا تب آپ کتنی پیاری باتیں کرتے تھے۔اب شادی کے بعد نہیں کرتے۔ نظریں زمیں پر ٹکیں تھیں۔
اب پتا تو ہے پھر بار بار کیا کہنا ۔ وہ جھنجھلا کر بولے
اچھا ایک بات بتائیں ۔ میرا تو آپ سے نکاح ہو گیا تھا لیکن وہ زکریا سے بھی ہوا تو ۔۔۔۔اچانک یاد آنے پر پوچھا
ارے ہمارے نکاح تو پہلے ہو ہی گیا تھا بعد کے نکاح کی کوئی حیثیت نہیں ہے نا وہ تمہارے مرضی سے ہوا ۔۔چہرے پر نرمی لا کر بولے
آپ مجھے اپنے گھر کب لے کر جائیں گے؟ ہر دن نئی جگہ رہ کر وہ تھک گئی تھی شائد اب وہ اپنے گھر رہنے کا سکون کیا ہوتا ہے جاننا چاہتی تھی
لے جاؤں گا ابھی نہیں۔ ۔ ۔ کہہ کر وہ باہر کی طرف نکلےاور دروازے کے پاس رک کر بولے
اچھا اب دوبارہ فون آن مت کرنا۔
جی۔
*** *** *** *** ***
شیری ؟ شیری موبائل پر مصروف تھا جب نمرہ کی آواز پر چونک کر کھڑا ہوا۔
ارے نمرہ ۔ میں تمہیں ہی میسج کرنے لگا تھا ۔ فون کی سکرین اس کی طرف لہرائی جہاں اس کے نام کا کانٹکٹ لسٹ شو ہو رہا تھا۔
دیکھا تم نے پکارا اور ہم چلے آئے۔میں نے تمہیں کسی سے ملوانا تھا۔وہ مسکرا کر بولے اور تقریباً کھینچ کر ساتھ لے جانے لگی
کس سے؟اچھا یار ہاتھ تو چھوڑو دیلھ رہے ہیں سب ۔ وہ ہاتھ چھڑا کر بولا۔
اف دیکھنے دو دوست کا ہی ہاتھ پکڑا ہے کسی کو بل آتا ہے تو آنےدو۔اور وہ کوئی خاص ہے چلو وہ کیفے میں ہے ۔ کلچ سمبھالتی بولی۔
تو اسے یہاں لے آتیں۔ وہ چلتے چلتے رکا۔
نہیں تم چلو ۔ ضدی بچے کی طرح منہ بنا کر بولی۔
اچھا بابا چلو ۔ ۔ ۔ پچلے پانچ سالوں سے جانتا تھا اسے اس کی بہترین دوست جسے وہ کبھی منا نہیں کرسکتا تھا سو جھٹ سے مان گیا
اچھا میں نے موبائل کمپوٹنگ رکھا ہے تم بھی رکھ لو پھر دونوں ایک ساتھ ہوں گے۔شیری نے اپنا نیا سبجکٹ بتایا۔
میں نےتو رکھ لیے سبجکٹ ۔ وہ جھجھک کر بولی
مجھے بتایا بھی نہیں۔ وہ زرا سہ خفہ ہوا
اب بتا رہی ہوں نا۔ معزرت انداز میں دیکھتی بولی
کیا رکھا ہے؟
خرم کو ہی پتا ہے وہ جو رکھے گا وہی ۔ شیری کو جھٹکا لگا۔ پرانے دوست یوں ساتھ ہو کر بھی دور ہونے لگیں تو دل دکھنے لگتا ہے
*** *** *** *** ***
عیشل ۔ ۔ ۔ آفندی ابھی ابھی عید کی نماز پڑھ کر کمرے میں آکر دیکھا جہاں عیشل بیڈ کے کونے میں بیٹی آنسو بہا رہی تھی
جی؟عیشل نے فوراً آنسو صاف کر نے کی ناکام کوشش کی۔
آپ رو رہی ہیں؟ کیا ہوا ۔ وہ کب سے آئی تھی جھوٹی جھوٹی باتوں پر رو پڑتی تھی۔ کبھی پیار سے بلانے پر تو کبھی کسی کی بے پناہ عزت کر جانے پر ۔ وہ جانتا تھا اب بھی کوئی ایسی ہی بات تھی
کچھ نہیں۔ وہ پھر آنسو پونچنے لگی
عیشل کسی نے کچھ کہا ہے ؟ وہ ہمیشہ ہی اس سے یہ سوال کرتا وہ جانتا تھا اس کی ماں اور بہن کو وہ پسند نہیں تھی مگر اس کی خوشی کے لیے ہی دونوں جانب خاموشی تھی۔
نہیں تو ۔وہ ہمیشہ سے ہی آفندی سے گھر میں ہونے والی کوئی بھی تلخ بات چھپا جاتی تھی ۔
تو پھر رو کیوں رہی ہو۔ غور سے آنکھوں میں جھنکا۔
آپ نہیں سمجھیں گے۔
نہیں آپ مجھے سمجھائیں۔ میں سمجھ بھی لوں گا ۔ عیشل کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر تحفظ کا احساس دلایا
ایک لفافہ آفندی کی طرف بڑھایا۔ تو آفندی نے پکڑ کر کھولا جس میں بیس ہزار روپے تھے۔
یہ؟سوالیہ انداز میں دیکھا۔
یہ بابا نے دیے مجھے عیدی۔ تھوڑے وقفے کے بعد بھرائی ہوئی آواز میں بولی
ہاں تو ۔ مرد عورت کے جزبات سمجھنے میں دیر لگا دیتا ہے
میں نے بولا تھا نا آپ نہیں سمجھیں گے۔ وہ اپنی عیدی واپس کینچ کردراز میں رکھتے میں پھیر کر کھڑی ہوئی۔
یارآپ کچھ سمجھاو گی تو سمجھوں گا نا۔ آفندی نے ہاتھ پکڑ کر واپس بیٹھا دیا۔
میرے پاپا نے بھی اتنی عیدی کبھی نہیں دی کیوں کے ان کے پاس اتنی ہوتی ہی نہیں تھی۔ آپ کو معلوم ہے آفندی میں نے یہ اکسپکٹ نہیں کیے تھے اور جب انہوں نے میرے۔سر پر ہاتھ رکھ کر یہ دے نا تو مجھے میرے پاپا بہت یاد آئے۔یہ پیسے معنی نہیں رکھتے وہ عزت اور تقریم معنی رکھتی جس سے انہوں نے مجھے یہ دیے۔وہ آفندی کو دیکھتے بڑے مان سے بولی
ہممم میں سمجھ گیا۔ سر ہالتے بولے
کیا؟
یہی کہ ابھی جو عیدی میں نے دینی ہے وہ نہ دوں ۔ کہہ کر وہ آئینے کے سامنے آکر بال برش کرنے لگے
کیوں؟ عیشل اٹھ کے پاس آئی۔
ورنہ اس پر آپ رو رو کر میرے گھر میں سیلاب لے آو گی اور مجھ کو تو تیرنا بھی نہیں آتا۔
*** *** *** *** ***
دعا کلاس کے انتظار میں بیٹی اپنے لیپ ٹاپ میں مصروف تھی ای میل چیک نہیں کر سکی کیوں کہ آج کلاس کینسل ہو چکی تھی مگر وہ انجان تھی۔
ارے واہ اتنی ماڈرن یونیورسٹی میں نکاب؟مصروف سی نگاہ اٹھائیں اور لیپ ٹاپ بند کیا۔
ارے ارے آپ تو گھبرا ہی گئیں۔ وہ چلتا ہوااس کے پاس آیا۔
دعا اپنی چیزیں سمیٹتی کھڑی ہو گئی۔
تم کہیں کال گرل تو نہیں گاہک پھسانے کے لیے ایسی یونیورسٹی میں ایڈمشن لیا ہے ۔ چلو مجھے پہلا گاہک سمجھ لو۔ ۔ اس نے آگے بڑھ کر ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی
دعا نے مدِمقابل کے ہاتھ پکڑنے کی غرض سے بڑھائے ہاتھ کو بھانپ کر فوراً دوڑ لگائی۔
اس قدر تزلیل تیز تیز بھاگتی اس کے آنسو بھی اس کی سپیڈ سے بہہ رہے تھے لوبی میں پینچتے ہی اس نے یہاں وہاں دیکھا جو سنسان نظر آ رہی تھی ۔ ۔ ۔ دعا نے آیت الکرسی کا ورد کرنا شروع کر دیا۔
آج بس آج ہی تو وہ وضوع کیے بغیر نکلی تھی اور ایت الکرسی بھی پڑھنا بھول گئی آج وہ اللہ کی پناہ لینا بھول گئی تھی۔
وہ تیزی سے بھاگی اور لوبھی سے باہر نکل کر مڑی ہی تھی کہ کسی۔سے بری طرح ٹکڑائی اور زمیں پر گھرنے سے پہلے ایک اور چیز زمیں پر گری اور سیڑیوں سے آگے لڑکھتی
ماربل کے فرش سے ہوتی ہوئی اینٹوں پر جاگری اور دو ٹکٹے ہوئی ۔ دعا کی بہتی آنکھوں نے اس چیز کا پیچا کیا وہ لیپ ٹاپ تھا۔
دکھتا نہیں ہے تمہیں؟ بے حد غصیلی آواز میں کہہ کر دعا کی طرف بڑھا
دعا نے روانگی سے بہتی آنکھیں معزرت خاہ انداز میں اٹھائیں
گوہر نے ایک نگاہ اس کی سرخ آنکھوں پر ڈالی کچھ کہنے کے لیے کھولے گئے لب واپس بند کر دیا۔
دعا آہستہ سے کھڑی ہوئی۔
لگی تو نہیں؟ گوہر نے دعا کے کراہ کر اٹھنے پر فوراً پوچھا۔
دعا کو خامعش پا کر وہ سیڑھیاں اتر کر اپنے لیپ ٹاپ کی طرف آیا اور اٹھا کر گیٹ کی جانب چل پڑا۔
*** *** *** *** ***