اسلام و علیکم دعا نے اندرداخل ہوتے ہی اپنی عادت کے مطابق سلام کیا۔
جی بی بی کیا مسئلہ ہے؟ سامنے کرسی پر براجمان لمبی گھنی موچوں میں لال آنکھیں لیے وہ کرسی پر آگے کو چھکا۔
جی میرا نام دعا ہے دعانے اپنا نام بتانے کے فوراً بعد یہاں وہاں کی بات کرنے کی بجائے سیدھی میں بات کی یعنی دیا والا سارا واقع بتا یا ۔
اچھا تو آپ کو واقعی ہی لگتا ہے آپ کی بہن کو نہیں پتا وہ کہا ہے۔ ؟ وکیل مشتاق نے انکھیں سکیڑ کر پوچھا ۔
جی۔ دعا نے عتماد بھرے لہجے میں کہا جبکہ وہ اندر سے بری طرح خائف تھی۔
ہو سکتا ہے اس کی دو ست بھاگ گئی ہو ۔ کہنیاں میز پر ٹکائے وہ دعا کو تقریباً گھورتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
دعا کی اٹھی نظریں جھک گئیں ۔ ۔ ۔ اسے دکھ ہوا کوئی بغیر جانے کیسے کسی پر انگلیی اٹھا سکتا ہے۔
مرد ویسے تو آزاد خیال ہوتے ہیں مگر صرف اپنی حد تک وہ لڑکی جو ان کے۔ساتھ گھومے وہ سہی جو کسی اور کے ساتھ ہو اسے دنیا کی بد ترین لڑکیوں میں شمار کر بڑے چین سے سوتے ہیں
مرد کو کیا کہیں جب عورتیں ہی عورت کے عزت سرے بازار رسوا کر دینے میں اپناثانی نہیں رکھتیں۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں ہمارے علاوہ نا تو کوئی نیک دکھتا ہے نہ ہی کوئی اچھا انسان ۔ ہماری دنیا میں سے شروع ہو کر میرا پر ختم ہو جاتی ہے۔
جو ہم کریں وہی سہی باقی سب غلط اوربرا۔ وہ تمام لڑکیاں جو گھر میں رہتی ہیں ان کے مطابق گھر سے نکل کر کام یا کالج جانے والی لڑکیاں بہت بری ہوتی ہیں۔ وہ جن کے پاس فون نہیں ان کے مطابق فون
استعمال کرنے والی لڑکیاں بہت بری۔ وہ جو فون استعمال کرتی ہیں لیکن کوئی سوشل سائٹ استعمال نہیں کرتیں ان کے لیے سوشل سائٹ استعمال کرنے والی لڑکیاں بری ہیں۔ ہم اپنے اندر جھانک کے کیوں نہیں دیکھتے ؟ کیوں یہ نہیں سوچتےکہ کسی دوسرے پر جب انگلی اٹھاتے ہیں تو ہمارے اپنے ہی ہاتھ کی تین انگلیاں ہماری طرف اٹھی ہوتی ہیں تو کیااس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریباں میں تیں دفعہ دیکھنا ہے۔
کیا اللہ ایسے لوگوں کے دلوں کو قفل لگا دیتا ہے کیا یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے اللہ کہتا ہے
صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لاَ يَرْجِعُونَ ﴿١٨﴾
ترجمہ : وہ اندھے ہیں بہرے ہیں گونگے ہیں تو سمجھنے والے نہیں .۔
اللہ جی مجھے ان لوگو ں میں نہ رکھنا جن کو لیے یہ ایت ہے۔
صبح سات بجے سے نکلی وہ کتنے ہی وکیلوں سے مل چکی تھی مگر ہر ایک کا ایک ہی جواب
سوری ابھی تو مشکل ہے آج آخری دن ہے عید کے بعد آئے گا۔
مشکل سے ایک ہی ملا تھا وہ بھی ایسا کے مدد کرنے کی بجائے عجیب مشورے دے رہا تھا۔
اللہ جی پلیز آپ ہی مدد کریں یا کسی کو بھیج دیں ۔ ۔ ۔
محترمہ آپ میرا وقت ضائع کرنے آئی ہیں؟ وکیل مشتاق نے دعا کو خاموش پا کر آواز دی۔
آ ۔ ۔ ہم ۔ ۔ ۔ جی وہ ایم سوری ۔ ۔ ۔ دعا ہجکچائی
دیکھیں میرا مشورہ ہے کہ آپ اپنی بہن کو لے جائیں وہ بیان لکھیں گے تو ہم دوسری پارٹی کے پاس چلیں جائیں گے آپ ان سے معافی وغیرہ مانگ لینا اور انہیں کچھ دے دلانے کا بھی کہ دیں گے اور پولیس کو بھی کچھ دے دلا کر معاملہ رفع دفع ہو جائے گا۔
مارے غصے کے دیا کا چہرہ سرخ ہوا شائد مدمقابل نکاب کی وجہ سے دیکھ نہیں سکا۔
جب میں آپ کو بتا چکی ہوں میری بہن نے کچھ نہیں کیا تو ہم معافی کوں مانگے گے۔
آپ کو شرم آنی چاہیے رمضان جیسے مقدس مہینے میں آپ مجھے رشوت دینے کے مشورے دے رہے ہیں ۔ دعا کواحساس نہیں ہوا کے وہ کتنی ہارش ہو گئی تھی۔
او بی بی آواز نیچے رکھو اپنی اور یہ لیکچر کہیں اور جا کے دینا
کونسی دنیا میں رہتی ہیں آپ ؟
یہ وہ دنیا ہے جہاں جھوٹ کو سچ بنانا اسان ہے اور سچ کو ثابت کرنا کے لیے ثبوتوں کر ضرورت ہوتی ہے۔ وکیل مشتاق کرسی جھوڑ کر کھڑا ہوا۔ چلتا ہوا اس کی کرسی کے پاس آیا۔
دیکھو اپنی ضد چھوڑو آج جمعہ ہے آج آگر بیل نا ہوئی تو کل پرسوں کورٹ بند ہے پھر عید کی چھٹیاں ہیں عید کے بعد ہی ہوگا کچھ پھر ۔ میں کہہ رہاں ہوں ہاتھ پاوں چوڑو ان کے بس۔
وکیل صاحب اگر مجھے آپ کی ضرورت پڑی تو میں آپ کو بتا دوں گی۔ وہ کھڑی ہوئی اور باہر آ گئی بار کورٹ سے ۔ ۔ ۔
تکلیف اوردرد اس قدر تھا کہ وہ ضبط کے باوجود انکھو ں سے انسو روک نا سکی ۔ موٹے موٹے آنسو اس کے نکاب میں جزب ہونے لگے۔ اس کا جی چاہا سب کے سامنے سڑک پر دھاڑیں مار مار کر روئے۔ لیکن وہ تو عورت تھی اسے ہی تو سب سمبھالناں تھا اسے ہی تو سب ٹھیک کرنا تھا اسے ہی تو مسئلے حل کرنے تھے۔
یہ عورت ہی تو ہوتی ہے جو وقت آنے پر کبھی باپ بن جاتی ہے تو کبھی بھائی اسے شوہر کی لاج بھی رکھنی ہے اور بھائی کی عزت بھی۔ مگر دنیا اسے نازک کا ٹیگ لگا کر ہر مصیبت اکیلے حل کرنے کے لیے آگے کردیتی ہے۔
باجی رکشہ چاہے؟ کسی رکشے والے نے پاس آ کر پوچھا۔
وہ جو اپنی سوچو ں میں چلتی نا جانے کہا پونچی ہوئی تھی آٓٓواز پر چونکی۔
پرس کھولا اور فون تلاش کرنے لگی کافی دیر تلاش کے بعد اسے احساس ہوا کہ فون وہ گھر بھول اْئی ہے۔
بابا ؟ شہری نے مصروف حمدانی صاحب کے کمرے میں جھانکا۔
آو ۔ ۔ ۔ آج یہاں کسے آ گئے۔؟ وہ جو عینک چڑھائے اخبار گردانی کر رہے تھے بیٹے کے اْنے پر اخبار سائڈ کر رکھا تا کہ وہ بیٹھے کے توجہ نا دینے والے گلے کو دھو سکیں۔
بزی ہیں ؟ شہری نے پوچھنا ضروری سمجھا۔
کوئی کام تھا؟
وہ میں سوچ رہا تھا کہ عید پر سب دوستوں کو گھر انوائٹ کروں آپ گھر پر ہوں گے؟
کمرے میں اْتے ہی وہ ان کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا۔
بیٹا مجھے تو ایک میٹنگ کے لیے کینڈا جانا ہے۔ مگر تم دوستوں کو جب چاہے بلاو۔ شہری بیٹا میں۔ ۔ ۔ اگلا جملہ معزرت بھرے لہجے میں بولا
کوئی بات نہیں بابا میں سمجھ سکتا ہوں۔ شہری نے انہیں بیچ میں ہے روک کرکہا۔
کیا بات ہے آجکل میرا بیٹا اتنا سمجھدار کیسے ہو گیا ہے؟ حمدانی صاحب اپنے بیٹے کے سمجھ جانے پر زرا حیران ہوئے
بس ایسے ہی۔ وہ مسکرایہ
کافی بدل گئے ہو چھا اثر ہے کوئی خاص وجہ؟ ۔ وہ بھی مسکرا دیے
نہیں کچھ خاص ہوا تو آپ تک بات پہنچ جائے گی اچھامیں سب کو بتا دیتا ہوں عید کا پلان ۔ ۔ ۔وہ کہہ کر درووزے کی طرف بڑھا۔ ایک دم مڑا
بابا آپ نے کب جانا ہے ؟
کل شام کو ۔ ۔ ۔ وہ واپس اخبار پکڑتے بولے۔
اوکے کہتا وہ کمرے سے نکل گیا۔
فون بل جا رہی ہے پر پتا نہیں دعا اٹھا کیوں نہیں رہی۔ دیا بار بار فون ملاتی کمرے میں ٹہل رہی تھی۔ تنگ آکر وہ دعا کے کمرے میں آکر بیٹھ گئی۔
میں ہمیشہ اپنی بہن سے جلتی آئی کبھی اس کی زہانت کو لے کر تو کبھی امی کو اسے زیادہ اہمیت دینے پر ۔ ۔ ۔ میں یہ کیوں نہیں سوچ سکی وہ یہ سب ڈیزرو کرتی تھی۔
وہ اپنی انکھوں پر ہاتھ رکھے اپنی سوچوں میں گم تھی تبھی فون کی گھنٹی بجی تو وہ ایک دم چونک گئی۔
اف یہ دعا اپنا فون گھر بھول گئی۔
دیا یہاں وہاں فون دیکھنے لگی کہ اسے دیا کے سٹڈٓی ٹیبل پر پڑا مل گیا۔
موبائل کی سکرین روشن ہوئی ۔
دیا چلتے ہوئے ٹیبل تک اْئی تو موبائل کی روشن سکرین پر شہریار حمدانی جگمگا رہا تھا۔ وہ دیکھ کر کمرے سے باہر نکلی مگر کسی خیال سے وہ واپس مڑی اور جلدی۔سے فون کو اٹھایا مگر فون بند ہو چکا تھا۔
افسوس کرتے اس نے فون واپس رکھ دیا تو فون پھر سے بجنے لگا
دیا نے فوراً کال رسیو کی۔
ہیلو۔
اسلام علیکم کیسی ہو دعا۔ دوسری طرف سے آواز آئی۔
جی میں دیا ہوں ۔ وہ سوچ سوچ کے بول رہی تھی۔
اچھا کیسی ہو؟شہری نےپوچھا
میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں۔ دیا نے جلدی سےسوچا کیا وہ بتادے یا نہیں
میں بہت اچھا اور سچا انسان ہوں حد سےزیادہ حسین۔ اچھا دعا کہا ہے ؟ شہری نے ہمیشہ کی طرح اپنی تعریف کرنا ضروری سمجھا
وہ وکیل ڈھونڈنے گئی ہے۔
کیا مطلب ؟ کیا ہواسب ٹھیک ہے نا؟ شہری کوایک دم پریشانی نے گھیر لیا۔
آپ گھر آ سکتے ہیں پلیز ۔ ۔ ۔ فون پر بات کرنا اس نے مناسب نہیں سمجھا۔
اچھا میں آتا ہوں ۔ فون بند کرتے اپنی گاڑی کی چابی اٹھاتے وہ کمرے سے باہر آیا۔
کچن میں جھانکا جہاں خاور حسبِ معمول کھڑا کام میں مصروف تھا۔
یار خاور میں ایک کام سے باہر جا دہا ہوں بابا پوچھے تو بتا دینا ۔ شہری بغیر سنے نکلا
کیا بات ہے آجکل آپ گھر میں کم اور باہر زیادہ ہوتے ہیں ۔ خاور بھی اپنے آپ میں کمال تھا۔
تم ایسے پوچھ رہے ہو جیسےتم میری بیوی ہو۔ شہری مڑا اور گھور کر بولا۔
اللہ نا کرے میں نے لڑکی سے شادی کرنی آپ جیسے بندکوں کے سردار سے نہیں ۔ ۔ ۔ خاور منہ بنا کر بولا۔
ہیں ؟ کونسی بندوکیں ؟ وہ حیران ہوا
وہی جو آپ منہ میں لیے پھرتے ہیں ہر وقت مجھ پر تانے رکھتے۔ شہری نے گھورا تووہ منہ لٹکا کر بولتا وہ۔واپس کچن میں گھس گیا
مصروفیت ہے اتا ہوں میں۔
آپ اپنی مصروفیت گھر کیوں نہیں لے آتے۔ خاور مصروفیت پر زور دے کر بولا۔
مگر کوئی واپس جملہ نا پا کر سمجھ گیا کہ شہری جلدی میں نکلا ہے اس نے آٓخری جملہ ۔سنا ہی نہیں
دیا مجھے پہلے یہ سب کیوں نہیں بتایا اسی وقت کال کرتے جب وہ دانی کو لے کر گئے ۔شہری دیا کی ساری بات سن کر بولا۔
میں کالج میں تھی اس وقت ۔ ۔ ۔ دونوں ڈرائنگ روم میں بیٹھے دعا کا انتظار کر رہے تھے۔
میں نے دعا کو کہا تھا آپ کو بتا دے پر اس نے منا کر دیا۔ وہ سر جھکائے بولی۔
حد ہوتی ہے ویسے آنے دو زرا اس کی کلاس لیتا ہوں میں۔ اسے دعا کی بےوقوفی پر غصہ آرہا تھا۔
اچھا یہ بتاو اس کا نکاح اس کی مرضی سے ہوا تھا؟ شہری نے ایک دم خیال آنے پرپوچھا۔
اس نے ایک دفعہ سرسری زکر کیا تو تھا وہ کسی میں انٹرسٹڈ ہے وہ یہ نکاح نہیں کرنا چاہتی ۔ ۔ ۔ دیا نے بغیر کسی ہجکچاہٹ کے کہہ دیا۔
کوئی اندازہ کہ وہ کون ہے جس میں وہ انوالوڈ تھی۔ ؟
میں زیادہ نہیں جانتی مگر اتنا پتا ہے کہ اس کے گھر والے اسے اہمیت نہیں دیتے بس وہ جوٹویشنز پڑھا کے پیسے کماتی ہے بس وہ انہی کے لیے اس سے زرا بات کر لیتے ہیں۔ مگر فیس بک پر پرنس چارمنگ ہے وہ اس کو بہت زیادہ پسند ہے وہ اس سے اچھی باتیں کرتا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اسی میں انٹرسٹڈ ہو لیکن مجھے کنفرم نہیں ہے۔ شہری نے سوچ کرزرا ٹھہر کر پوچھا
اچھا اس کے گھر میں کون کون ہے؟
مجھے بس اس کی مدراور بھابی کا پتہ ہے مگر نام کبھی نہیں بتایا اس نے باقی گھر والوں کا بھی اس نے کبھی نام نہیں لیا۔
Hmm i feel that its planned act and she was playing very smartly.
شہری ٹھوڑی پر انگلی رکھے حتمی فیصلے کے انداز میں بولا۔
اتنے میں ڈور بیل بجی۔
دعا ہوگی میں دیکھتی ہوں ۔ دیا دروازے کی طرف مڑی
نہیں رکو میں کھولتا ہوں لڑ کیاں دروازہ نہیں کھولتی تم جا کرپانی لے آو اس افلاطون کے لیے۔
شہری نے جا کر دروازہ کھولا ۔ وہ جواپنے دھان اندر داخل ہونے کو تھی اس کا دوسرا قدم ہوا میں ہی معلق ہو گیا۔
چلو شاباش یہاں نہیں بے عزتی اندر جا کے کر لینا۔اور دورازہ ٹھیک سے بند کر کے آنا ۔ اپنی بات مکمل کر کے وہ اندر چلا گیا۔
دعا دروازے بند کرتی مرے ہوئے قدموں سے چلتی اندر آئی۔
پہلے پانی پیو پھر بولنا۔شہری نے اس کی طرف پانی بڑھایا۔
پانی پکڑتے اسے دانی شدت سے یاد آیا وہ جو ہمیشہ اس کے لیے پانی لیے کھڑا ہوتا تھا۔ وہ جو آپی کہتے نہیں تھکتا تھا۔ وہ آج وہاں تھا جہاں اسے ہونا نہیں چاہیے تھا۔
نا چاہتے ہوئےبھی اس کے آنسو پھر سے بہنے لگے۔
Dua please Be brave سب ٹھیک ہو جائے گا۔
تم پریشان مت ہو میں ابھی بابا سے بات کرتا ہوں۔ وہ فون ملانے لگا۔
شہری پلیزان سے مت کہنا ورنہ میں کبھی ان سے نظریں نہیں ملا سکوں گی۔ دعا نے رندھائی ہوئی آواز میں کہا۔
اچھا نہیں بتاتا تو پھر کیا کرنا ؟وکیل ملا؟ دعا کو روتے دیکھ اس نے کچھ دیر ارادہ ترک کیا۔
کوئی بھی نہیں ملا شہری۔ سب عید کی وجہ سے جا ۔ ۔ ۔ وہ ابھی اپنی بات مکمل کر بھی نہیں سکی کہ فون بجنے لگا۔
امی ہیں ۔ ۔ ۔ کہتے وہ باہر نکلی۔
یار دیا تمہاری بہن بہت ہی پاگل ہے ۔ شہری دیا کی طرف مڑا۔
وہ بجپن سے ہی۔ایسی ہے ہر چیز خود ہی کرنا چاہتی ہے وہ کبھی سکول یا کالج کی باتیں بھی گھر نہیں کرتی۔دیا نے اس کے باری میں مزید انکشاف کیا۔
دعا امی نے کیا کہا۔ دیا نئ اسے اندر آتے دیکھ جلدی سے پوچھا۔
وہ امی کہہ رہی ہیں کہ وہ لوگ بھی پولیس سٹیچن پہنچ گئے ہیں اور ایس ایچ او کہہ رہا ہے کہ اگر اب بھی لڑکی نے بیان نہیں دیا خودآکر اریسٹ کر کے لے آو گا اسے۔ دعا سر پکڑکے بیٹھ گئی
تو پھر اب ؟ شہری نے تشویش سے پوچھا۔
میں لے کر جاوں گی میں نے منا کیا لیکن امی غصہ کررہی ہیں۔ دعا نے اٹھتے ہوئے کہا۔
اوئے مینٹل ہو کیا بیٹھ جاو چپ کر کے یہاں ۔ ۔ ۔ شہری کواس کی پھرتی پر غصہ آیا۔
میں جاتا ہوں ساتھ کوئی مسئلہ ہوا بھی تو بابا کو کال کر لوںگا۔شہری نے کہا اور اپنا فون پکڑا۔
شہری۔ اس نے بے چارگی سے کہا۔
دعا بہت ہی ڈھیٹ لگی ہو قسم سے ۔ ۔ ۔ کہہ رہا ہو نا
اب افطاری میں لے جاوں گا وہاں روزہ بھی افطار ہونے والا ہے تم دروازے کے پاس رکو تمارے لیے بھی پکڑا دیتا ہوں۔شہری دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔
شہری اس کی ضرورت نہیں ہے۔دعا نے منت بھرے لہجے میں کہا۔
زیادہ مدر ٹریسا نا بنو تم ۔ ۔ ۔ سب ٹھیک ہو جائے گا
ہیلو گوہر کیسے ہو؟ مہ جبیں نے اتے ہی گوہر کے کندھے پر ہاتھ رکھا
میں ٹھیک ہوں۔ گو ہر نے ماہی کا ہاتھ کندھے سے جھٹکا اور کھڑا ہو گیا
ماہی میں تھوڑا بزی ہوں کوئی کام ہے تمہیں؟ ہمیشہ کی طرح بغیر ایجازت کسی کے کمرے میں آنے پروہ تھوڑا خفہ ہوا
کام کے بغیر نہیں آسکتی کیا۔ وہ سوال کرتی اس کے پاس گئی۔
گوہر تم جانتے ہو میں کیوں آتی ہوں اب کوئی دل کواچھا لگے تو کیا کریں۔ وہ چلتے ہوئے گوہر کے سامنے آکھڑی ہوئی۔
تو اپنے دل کو سمجھا لو۔ گوہر نے اپنے ازلی لاپرواہی انداز میں کہا۔
اب اگر کسی سے محبت ہو جائےتو۔ ۔ ۔ وہ جو اپنی رو میں بول رہی تھی گوہر کی آواز پر رکی۔
فضول بکواس مت کرو مہ جبیں ۔ ۔ ۔ اور جاو یہاں سے۔ ۔ گوہر دروازے کہ سمت اشارہ کرتا بولا۔
گوہر بچپن سے لے کر آج تک میں نہیں تمہارے علاوہ کبھی کسی کے بارے میں نہیں سوچا۔ مہ آج حساب کتاب تمام کرنے کے موڈ میں تھی۔
ماہی میں شادی کرنا ہی نہیں چاہتا اور اگر کرتا بھی تو وہ کم سے کم تم نہیں ہو سکتی۔اپنا وقت برباد مت کرو میں کبھی شادی نہیں کروں گا ۔وہ مزید برہم ہوا۔
لیکن ۔ ۔ ۔
بات ختم تم جا سکتی ہو۔ ۔ وہ دروازے کی طرف اشارہ کرتا اسے گیٹ اوٹ کہنے کے انداز میں گھورا
شہری نے گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولا تو دیا نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
میں نے سیٹ پر کسی ڈیناسار کو نہیں بیٹھانا ۔ ۔ ۔ اب گھورنا بند کرو اور بیٹھ جاو۔
دیا خاموشی سے بیٹھ گئی۔
اچھا ایک بات کا خیال رکھنا وہ لوگ جو بھی پوچھیں اس کا سچ جواب دینا اس کے کسی دوست یا گھر والے کی کوئی ریائت کرنے کی ضرورت نہیں ۔ جو بھی ہو گبھرانا مت اور نہ ہی ڈرنا ۔ اگر ضرورت پڑی تو میں بابا کو بھی کال کر دوں گا۔
And i will promise you. I will not let you to stay her for the night.
شہری نے دیا کو بھروسہ دلایا۔
Thank you so much sheharyar.
دیا نے مشکور نظروں سے دیکھا
You can call me Sheri not Sheharyar.
وہ ڈرائو کرتا بولا۔
وہ اوکے کہتی سامنے دیکھنے لگی۔
لمبی خاموشی کی وجہ سے شہری جھنجلایا۔
ایسے چپ رہو۔گی تو مجھے نیند آجائے گی ایکسیڈنٹ ہوگیا تو میں زمہدار نہیں پہلے بتا رہا ہوں میں۔ شہری ماحول کی تلخی دور کرنے کی غرض سے بات کو مزاح کا رنگ دیتے بولا۔
تو میں کیا بات کروں؟ وہ اپنے خیالات کا تسلسل ٹوٹنے پر اس کی طرف دیکھتے بولی۔
اچھا یہ بتاو آنٹی نکاب نہیں کرتی تم بھی نہیں کرتی تو دعا کیوں کرتی ہے کوئی خاص ریزن ۔ وہ دعا سے بھی ہوچھنا چاہتا تھا مگراس کی ہمیشہ سے ایکریزرو سی طبیعت کی وجہ سے وہ اکثر باتیں نہیں کہتا تھا اس سے کہ کہیں ناراض ہی نا ہو جائے۔
سکول میں اس کی کوئی دوست تھی اقراء وہ لوگ مولوی ٹائپ تھے۔اور دعا کو وہ اچھی لگتی تھی بس اس کے کہنے ہر دعا نے لینا شروع کردیا اور پھر کبھی چھوڑا نہیں۔دیا نے پوری وجہ بتائی۔
ہیں بس یہ وجہ ہے۔؟ وہ حیران ہوا
جی ۔ ۔ ۔ بس کچھ چیزوں پر ضدی ہے وہ ۔
اچھا اگر اس کے ہزبنڈ نے کہہ دیا چھوڑنے کو تو؟
آپ ابھی تک نہیں جان سکے وہ نہیں چھوڑے گی۔ وہ تو اس دن آپ اچانک آگئے ورنہ وہ نہیں اتارتی آپ کے سامنے نکاب۔ ویسے وہ کہتی ہے وہ شادی نہیں کرے گی کبھی بھی۔
ہیں بھلا وہ کیوں؟ اسے دعا ہمیشہ حیران کردیتی تھی ۔
پتا نہیں اس کی اپنی ہی ایک دنیا ہے پہلے مجھے سمجھ نہیں آتی تھی اب آنے لگی ہے۔ دیا نے اپنے گزشتہ رویے کو سوچتے ہوئے کہا۔
مطلب ؟ شہری پوری گردن گھماکر بولا۔
ارے آپ تو سچ میں مروانے کے موڈ میں ہو پلیز آگے دیکھو نا۔دیا شہری کا دھان بھٹکتے دیکھ کر حیران ہوئی۔
تو پھر بتاو نا ٹھیک سے۔ شہری کے تجسس میں مزید اضافہ ہوا۔
آپ ایسے پوچھ رہےہو جیسے آپ نے رشتہ کروانا ہے اس کا۔ اس نے مزاکن کہا۔
وہ بھی ہو جائے گا تم وجہ بتاو۔
آپ دعا نامہ دعا سے کیو ں نہیں سنتے؟
وہ بتاتی کب ہے کچھ ۔ وہ منہ بنا کر بولا۔
ماہی کیا ہوا ؟ کیوں رو رہی ہو؟ صلہ اپنی اکلوتی بیٹی کو روتی دیکھ پریشان ہوئی۔
ممی کیا کمی ہے مجھ میں ؟ ماہی نے کرسی سے کھڑے ہو کر ماں کو روتے ہوئے کہا۔
کوئی کمی نہیں ہے ۔ صلہ نے حیرانگی سے جواب دیا۔
نہیں ممی آپ ۔ ۔ آپ دیکھ کر بتا و مجھے ؟ ماہی ان کے پاس آکر کھڑی ہوئی۔
کمی میری بیٹی تو دنیا کی حسین ترین لڑکی ہے ؟ صلہ نے ہاتھ پکڑ کے پیار سے بیٹی کو کرسی پر واپس بٹھایا۔
تو اسے کیوں نہیں دکھتا ؟ وہ صلہ کا ہاتھ پکڑ کے بولی
ممی آپ نے ہمیشہ مجھے کہا کہ گوہر میرا ہے میں ہی اس کی بیوی بنو گی۔ مگر وہ مجھے دیکھتا بھی نہیں ۔ وہ رندھائی ہوئی آواز میں کہا۔
تو وہ تمہارا ہی ہوگا۔ میں کہہ رہی ہوں نا۔ صلہ نے ہمیشہ کی طرح اسے آس دلائی۔
پچھلے چند مہینوں میں وہ ہر وقت اس بہن جی کے ساتھ گھومتا رہتا ہے۔ جیسے ہمارا نوکر بھی منہ نا لگائے۔ اس نے ہمیشہ کی طرح انا پرست لہجے میں کہا۔
کیا مطلب کون ہے وہ؟ صلہ کو ایک دم پریشانی لاحق ہوئی۔
ہے ایک لڑکی اپنے آپ کو کچھ زیادہ ہی نیک پارسا سمجھتی ہے۔ انکھوں سے انسو صاف کیے۔
تو دوستی کر لواس سے ۔ ۔ صلہ نے بیٹی کو غور سے دیکھا۔
کیا مطلب؟وہ نا سمجھی کے انداز میں دیکھنے لگی۔
جب کوئی حدسے زیادہ سر چڑھنے لگے تو اسے خود سے سہارا دے کر انطا ہونے میں مدد کرو جب وہ اپنی منزل کے قریب ہو تو اسے ایسے گرو کہ وہ اپنی نظروں میں بھی گرے اوردوسروں کی بھی نظروں سے بھی ۔ دوسروں کی نظروں سے گرنے والا پھر بھی ہمت کر کے اٹھ سکتا ہے مگر اپنی نظروں میں گرنے والا کبھی نہیں اٹھ سکتا۔ وہ ایسے بولی جیسے کوئی تجرنہ کار ہو۔
ممی لیکن گوہر۔ ماہی نے کچھ کہنا چاہا۔
ابھی تو چند مہینے ہی ہوئے ہیں نا گوہر کو میں اچھی طرح جانتی ہوں وہ ایسے ہی کسی پر اعتبار نہیں کرتا تم ان کے درمیان اعتبار بڑھنے سے پہلے ہی نفرت پیدا کر دو۔
میں جلد بھی آفندی بھائی سے بات کرتی ہوں تم دونوں کے رشتے کی۔
کیا سچ میں امی ۔ ۔ مہ جبیں انہیں پیار سے گلے لگارہی تھی۔
آو آج تمہیں پاپا سے ملنے جانا ہوگا اور ہمارے رشتے کی بات کرنی ہوگی۔ وہ اکسائٹڈ ہوتے ہوئےاپنی خواہشات کے ہمسفر کو دیکھتے ہوئے بولی۔
کیا؟ ۔ ۔ مدمقابل حیران ہوا۔
جی ہاں اور اپنے پیرنٹس کو بھی لے کر آنا رات کا ڈنر میرے گھر۔ وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئےاس نے محبت سے دیکھا۔
اسے خاموش دیکھ کر وہ پریشانی سے گویا ہوئی۔
کیا ہوا تم اتنے پریشان کیوں ہو؟
جان تم جانتی ہو میری مدر نہیں ہیں اور میرے والد کبھی اس رشتے کو نہیں مانہیں گے وہ کسی اور سے میری شادی کروانا چاہتے ہیں جو انہیں جہیز میں بہت کچھ دے لیکن میں ایسا نہیں چاہتا۔ میرے لیے جہیز ایک لعنت ہے ۔ ۔ ۔ باوقار دکھنے والا اس کا خیالی محرم سے مشاہبت رکھتا وہ شخص اداس معلوم ہوتا تھا۔
مائی ڈیئر یہی بات تو مجھے پسند ہے اور جب میں یہ پاپا کو بتاتی ہوں وہ فخر کرتے ہیں میرے انتخاب پر۔ وہ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیررہی تھی۔
یہ جان کر وہ شادی کے لیے کیسے مانیں گے؟ وہ آنکھیں چرا کر بولا۔
انہوں نے آج تک میری کوئی بات نہیں ٹالی ۔ ۔ ۔ بس تم اچھے سے تیار ہو کر آنا۔
نہیں ابھی نہیں ۔ ۔ ۔ وہ اسے دیکھ کر دکھ سے بولا۔
کیا تم مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتے؟ وہ دم ڈر سی گئی وہ جیسے دنیا میں سب سے زیادہ چاہنے لگی تھی وہ اس سے کہیں دو نہ چلا جائے۔
بالکل کرنا چاہتا ہو ں تمہارے علاوہ میں کسی کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔میرے بس میں ہو تو ابھی اسی وقت کر لوں تم سے شادی۔ وہ اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے بولا۔
تو پھر کیا مسئلہ ہے ابھی میں؟
وہ حیران ہوئی
میں نے شادی سے منا کر دیا تو پاپا نے میرا سب کچھ بند کروا دیا میری پاکٹ منی مجھے ہاسٹل تک سے نکلوا دیا۔ میرے پاس اب پیسے بھی نہیں ہیں کہ کچھ خرید لوں ۔ ۔ ۔ وہ ہاتھ جھاڑتا اٹھ بیٹھا
تو میں ہوں ابھی مال جا کر کچھ خرید لیں گے ۔ ۔ ۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کے اسے روکنے لگی۔
نہیں میں یہ سب اپنے پیسوں سے کرنا چاہتا ہوں سب اپنے لیے بھی اور تمہارے لیے بھی۔ وہ ہاتھ چھڑا کر اگے کو قدم بڑھانے لگا۔
یہ بھی تو اپنے ہی ہیں ۔ ۔ ۔ کیا میں اور تم الگ الگ ہیں ؟وہ واپس ساکنے آ رکی۔
اچھا میری کوئین مگر فلحال میں یہ ادھار لوں گا جاب ملتے ہی واپس کردوں گا۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کے محبت سے بولا۔
اف ادھار کیسا۔میرا جو کچھ بھی ہے وہ تمہارا ہی تو ہے۔ ۔ ۔وہ اس کی آنکھوں می دیکھتے ہوئے بولی۔
اچھا ۔ ۔ ۔ سب کچھ میرا ہے ۔ ۔ ۔ وہ مزید اس کے قریب اکر بھنویں اچکا کر بولا۔
اف پاپا کی کال ہے ۔ ۔ ہاتھ چھوڑو۔ وہ فون کی گھنٹی بجنے پر فون کو دیکھنے لگی۔
اف تمہارے والد بھی نا ہر وقت ڈسٹرب کرتے رہتے ہیں ۔ اس نےنہ چاہتے ہوئے بھی ہاتھ چھوڑ دیا
دیا ۔ ۔ گھبرانا نہیں میں ہوں نا؟ شیری دیا کا یوں قدم روکھتے دیکھ کر اسے حوصلہ دینے کی غرض سے بولا۔
دونوں چلتے ہوئے پولیس سٹیشن کے اندر داخل ہوئے سامنے ایک ٹیبل پر شائد کوئی انسپکٹر موبائل میں ہاتھ پکڑے کچھ دیکھنے میں مصروف تھا شیری چلتا ہوا اس کے پاس آیا۔
اسلام و علیکم سر میں وہ دیا کیس کے لیے آیا ہوں بیان دلوانا ہے۔ ۔ ۔
انسپکٹر نے فون ٹیبل پر پٹکا اور کرسی پر سیدھا ہوا اور زرا غور سے اپنے سامنے جینز اور ٹی شرٹ بہترین برینڈڈ پہنے لڑکے کو دیکھا اپنے براؤن رنگ کے لیدر جیکٹ کے ایک جیب میں ایک ہاتھ ڈالےدوسرا ٹیبل پررکھے بال جیل سے سپائک بنائے اسے باوقار انداز میں دیکھتا کہہ رہا تھا۔
تو یہ ہے وہ بی بی ۔ ۔ ۔ انسپکٹر دیا کو گھورنے کے انداز میں جائزہ لینے لگا۔ سر پر کریب کا دبٹہ اوڑھےبلیو اور وائٹ شارٹ شرٹ کے ساتھ سفید ٹاؤزر میں شیری کے پیچھے چھپنے کی کوشش میں تقریباً اس کے پیچھے کھڑی تھی۔
ابھی ایس ایچ او قاسم گشت پر ہیں وہی دیکھیں گے بیٹھ جائیں آپ۔ انسپکٹر واپس اپنا فون پکڑ نے لگا۔
جنا ب ان کی والدہ اور بھائی کہا ہیں ہم مل سکتے ہیں ان سے؟
انسپکٹر نے لڑکے کے انداز گفتگو سے سوچا لگتا ہے کافی اونچا خاندان ہے نہیں تو لوگوں کی آواز نہیں نکلتی یہاں ۔ہاں سامنے کمرہ ہے ایس ایچ او کے آفس میں ہیں وہ۔
شیری دیا کو چلنے کا اشارہ کر کے اس کے پچھے پیچھے کمرے میں داخل ہوا۔
زرینہ بیگم کرسی پر بیٹھی دانی کا سر اپنی گود میں رکھے سہلا رہی تھی۔
دونوں طرف خاموشی پا کر شیری نے پکارا
آنٹی؟
زرینہ بیگم نے سر اٹھایا۔
بیٹا آپ یہاں ؟ وہ حیران ہوئی
شیری چلتا ہوا ان کے پاس آیا ان کے قدموں میں بیٹھا
آنٹی پریشان مت ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا میں ہوں نہ ۔۔ ۔ شیری دلاسہ دینے کے انداز میں گویا ہوا۔
اس کی وجہ سے زندگی نے ہمیں اس موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جہاں آج تک ہماری سات نسلیں بھی نہیں آئی اور اس لڑکی نے ۔ ۔ ۔
آنٹی ایسی باتیں نہ کریں فلحال ہمیں اس پرابلم سے نکلنا ہے ۔ ۔ ۔ شیری نے ان کی بات کاٹی۔
شیری بھائی یہ آپ کو بھی رکھ لیں گے آپ کیوں آئے۔ دانی معصومیت سے دیکھتا بولا۔
ارے کس نے کہا یہ اب تو ہم گھر جائیں گے دعا آپی کے پاس ۔ ۔ ۔ شیری نے رخسار کو چھو کر تصلی دی۔
اتنے میں ایس ایچ او صاحب اندر آئے اور ساتھ شائد گمشدہ لڑکی کے والد اور والدہ بھی کمرہ میں داخل ہوئے۔
قاسم صاحب اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے سب کو دیکھا۔
اسلام و علیکم میرا نام ایس ایچ او قاسم ہے میں جانتا ہوں آپ کی نظروں میں پولیس والوں کی شخصیت کوئی اچھی نہیں ہے مگر میں اپنے اللہ کو حاضر ناظر جان کر روزہ کی حالت میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ جو بھی گنہگار ہوگا اسے مجھ سے برا انسان کوئی نظر نہیں آئے گا اور بے گناہ کو میں کسی بھی صورت کسی مصیبت میں نہیں جانے دوں گا میں ایک پانچ وقتہ نمازی انسان ہوں جھوٹ نہیں چلے گا جھوٹ سے سخت نفرت ہے مجھے۔ ہاں جی مداعی کیا الزام لگایا ہے آپ نے۔ ۔ ۔
صاحب جی اس لڑکی نے ہی ہماری ادیبہ کو کہیں کردیا ہے ۔ یہ ۔ ۔ یہ ہی ہے ساراسارا دن اس کو فون کرتی رہتی ۔ ۔ ۔تھی اس کا نکاح ہوا تھا اور اس نے اسے پتا نہیں کہا۔ ۔ ۔ خاتون اپنے دل پر ہاتھ رکھے رک رک کر بول۔رہی تھی غالباً سانس کو تکلیف ہو رہی تھی۔
یہ جھوٹ بول رہی ہیں میں نے کچھ نہیں کیا۔ دیا خاتون کی بات مکمل کرنے سے پہلے بول اٹھی
قاسم صاحب اپنی کرسی سے اٹھے اور دیا کی کرسی پر چھکے۔
تمہیں بولنے کی ایجازت کس نے دی یہاں صرف وہ بولے گا جسے میں کہوں گا سمجھ آئی۔اتنی گرجدار آواز تھی کہ کمرے میں موجود ہر شخص کا دل دہل گیا۔
تو آپ کو بس اس لڑکی پر شک ہے ؟ وہ واپس خاتون کی طرف مڑ کر بولے
جی یہ ہی ہے اس کی فیس بک کی دوست نہیں تو میری بیٹی تو تیسری کے بعد مدرسے پڑھنے لگی اب تو اس نے قرآن حفظ کیا ہوا ہے اس کے علاوہ تو کوئی اس کی دوست نہیں ہے۔ وہ مزید۔سانس کو سنبھالنے لگیں
ہممم اچھا نکاح اس کی مرضی سے ہوا تھا۔ ؟ قاصم صاحب اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے بولے
ہاں ہاں میری بہن کے بیٹے سے ہوا ہے نکاح اس کا ۔
ایک حولدار اند پانی کا گلاس لایا اور کھجوریں بھی ۔
سر جی روزہ افطار ہونے کو ہے ۔
ٹھیک ہے ٹھیک ہے جاو تم ۔قاسم صاحب اپنے کام میں مگن اسے جانے کو اشارہ کیا۔
تو آپ کے گھر سے کیسے کوئی لے گیا اسے ۔ وہسوچنے کے انداز میں نظر آئے۔
صاحب جی گوشت لینے گئی تھی وہ جب دوگھنٹے تک نہیں آئی تو ہم نے ڈھونڈا نہیں ملی پھر ہم نے کیس کیا ہے جی ہمیں شک ہے اس نے ہی اگواہ کر وایا ہے۔ وہ کہتے ساتھ ہی رونے لگی
ہمیں ہماری بیٹی چاہیے ہمارے بیٹی کس حال میں ہو گی مجھے تو شوگر ہے میں کیا کرو۔ ۔ ۔ خاتون مزید رونے لگیں۔
ٹھیک ہے اب آہ جا سکت۔ ۔ ۔
ساتھ ہی روزہ افطار ہونے کا علان ہوا تو قاسم صاحب نے اپنا روزہ افطار کیا اور سب کو دیکھا آپ بھی کر لیں ۔ ۔ ۔
جی صاحب ہم تو گھر جا کے ہی کریں گے۔ خاتون اپنے میاں کا ہاتھ پکڑ کر کھڑی ہوئی اور چل دی ۔
سر وہ ۔ ۔ ۔ شیری نے کھڑے ہو کر کچھ کہنا چاہا۔
بر خوردار آرام سے جاو افطاری کا سامان لے آو ۔ ۔ ۔
جی میرے پاس ہے۔ شیری نے یاد آنے پر کہا
چلواچھی بات ہے افطاری کرو اور آرام سے بیٹھو یہاں میں نماز پڑھ کے آتا ہوں پھر سنو گا آپ لوگوں کی ۔ ۔ قاسم نے پانی کا گلاس ختم کیا اور نکل گیا شیری اس کے پیچھے اپنی گاڑی سے افطاری نکالنے لگا۔
افطاری تھامے وہ واپس آیا تو انسپکٹر نے اسے روکا۔
اوئے لڑکے بات سن ۔ ۔ ۔
شیری چلتا ہوا پاس آیا
جی۔
دیکھو اگر چاہتے ہو نا کہ معاملہ رفع دفع ہو جائے تو بس سر کے زرا ہاتھ پر کچھ رکھ دو کچھ تیس چالیس رکھو گے تو ہی معاملہ ٹھیک ہوگا سمجھے کے نہیں۔ انسپکٹر کان میں سرگوشی کرنے کے انداز میں گویا تھا۔
جی میں سمجھ گیا۔ شیری سر ہلاتا واپس ایس ایچ او کے آفس میں گھس گیا۔
انسپکٹر واپس آیا اوئے لڑکے فون یہاں دو۔ ۔ ۔ روب دار آواز میں کہتااسےدیکھنے لگا۔
یہ میرا ہے ۔ شیری نے فون جیب میں کھتے ہوئے کہا۔
ایس ایچ او آئیں گے تو لے لینا۔ واپس ۔ ۔ ۔ انسپکٹر نے ہاتھ آگے بڑھایا۔
شیری نے غور سے دیکھا اور فون تھما دی
میرے مزہب میں وہ ہے جو دینا کے کسی مزہب میں نہیں مس رابیکہ۔ ۔ وہ آنکھیں پھیلا کر بولا۔
اچھا کیا ہے آپ کے مذہب میں جو میرے میں نہیں ؟ وہ جتا کر بولی
مس رابیکہ میرے مزہب میں آفندی ہے جو مستقبل کا بہترین ڈاکٹر ہے ۔ بولو ہے کوئی ایسا آپ کے مزہب میں؟ وہ کتابیں ٹیبل پر رکھتے ہوئے کرسی پر براجمان ہوا
وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔
ہاں یہ تو ہے مان گئی آپ کو۔ وہ مشکل سے اپنی ضبط کرنے لگی۔
Okay jokes apart but you know what is the wao factor in my religion? اب کی بار وہ سنجیدہ ہوا۔
What?
ہر مزہب خوبصورت ہے میں کسی مزہب کو برا نہیں کہتا کیوں کہ یہ میرے اللہ نے کہا ہے کہ کسی مزہب کوبرا مت کہو۔ ہر مزہب پیار کر نا سکھاتا ہے ۔ وہ ڈاکٹر آفندی کی بات کاٹ کر بولی۔
میرا مزہب کونسا نفرت کرنا سیکھاتا ہے۔
اف لڑکی بہت جلدی ہے بولنے کی سن تو لو پہلے میری ۔ ۔ ۔ مصنوعی ناراضگی دیکھا کر پھر بات کا آغاز کیا۔
ہر مزہب ایک جیسی تعلیم دیتا ہے محبت کا اور انسانیت کا مگر وہ جو میرے مزہب کو سب سے الگ بناتا ہے وہ میرا اللہ ہے۔
ہر مزہب کہتا ہے اچھے کام کرو برائی سے بچو لیکن میرا مزہب کہتا نہیں کر کے دیکھاتا ہے
ہر مزہب کا خدا اپنے بندوں کو سیدھا رستہ کیا ہے بتانے کے لیے ان کے لیے ہدائت دینے والے نہیں بھیجتا مگر میرا اللہ ہر زمانے میں یہ کرتا ہے ۔ رابیکہ کو چیلنج کرتی نگاہوں سے دیکھا۔
سب سہی مگر عورت کو کیا دیتا ہے غلامی اور مرد کے ہاتھو تزلیل جو باقی مزہبوں میں ہے۔ لیکن میرے مزہب میں یسوع مسیح کے بعد میری کی جو عزت ہے اتنی عزت دیتا ہے۔ وہ بھی ہار ماننے والی نہیں تھی
اس دنیا کی بات کرو تو میرا مزہب ہی وہ پہلا مزہب ہے جس نے عورت کوزندہ درگور کرنے کو گناہ سے تشبہ دی۔ مگر میں اس دنیا کی مثال نہیں دوں گا۔ یہ زندگی تو بس تھوڑی سی ہے شائد ساٹھ ستر سال مگر وہ جو قیامت کے بعد کی ہمشہ کی زندگی اس میں جو عورت کو مقام دیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔
دنیا کے ہر انسان کو اس کی ماں کے نام سے بلایا جائے گا یہ عزت اور وقاردیا ہے میرے اللہ نے اور اس کے شوہر پر وہ برتری دی ہے کہ وہ اپنی بیوی سے ملنے کے لیے بھی اس کی ایجازت کا طلبگار ہوگا۔ وہ چاہے توایجازت دے اور چاہے تو اسے سالوسال انتظار میں رکھے ۔ اب بولوں ہے کوئی جواب ۔ ایک آنکھکی آبرو اٹھا کے دیکھا۔
میں نے تو سنا کہ شوہر کے پاس بہت سی حوریں ہوں گی اور وہ بہت خوبصورت ہوں گی تو پھر اسے بیوی کے ملنے اور نہ ملنے سے فرق تھوڑی پڑے گا۔ رابیکہ اداسی سے بولی۔
ارے ہاں وہ تو میں بھول ہی گیا۔ حوریں بھی ہوں گی وہاں تو ۔ ۔ ۔ مسکاہٹ دبا کر دیکھا
مگر پتا ہے ہر حور ایک سے بڑھ کر ایک ہوگی خوبصورت مگر اللہ نے بیوی کو ان کی سردار بنایا ہوگا یعنی اس کی خوبصورتی ان سے بھی کئی گنا زیادہ ہوگی۔ رابیکہ کے چہرے پر ایک جاندار مسکاہٹ آئی جسے وہ دیکھ کر مزید بولا۔
ویسے اللہ نے یہ ٹھیک نہیں کیا۔ اب بیوی دنیا میں بھی جان کو عزاب اور وہاں تو سر ہی چڑھ جائے گی ۔ وہ منہ بنا کر کہتا اٹھ بیٹھا۔
کیا مطلب ہے آپ کا ؟ وہ ایک دم اپنی بڑی بڑی آنکھو ں کو سکیڑ کر کھڑی ہوئی ۔
ہاہاہا مزاق تھا میں تو چاہتا ہوں کہ مجھے جو اس دنیا میں ملے اس کا ساتھ مجھے میری حوروں کی سردار ہونے تک ہو۔ چلو کیفے چلیں بھوک لگی ہے ۔
دنیا والی بیوی ہی تو ملے گی جنت میں۔ ساتھ ساتھ چلتی وہ بولی
نہیں ضروری نہیں ہے بیوی کی موت کے ساتھ ہی نکاح ٹوٹ جاتا ہے ہاں البتہ شوہر کی موت کی صورت میں چار ماہ دس دن رہتا ہے پھر ٹوٹ جاتا ہے۔ آفندی ہمیشہ کی طرح اس کی معلومات میں اضافہ کرتا تھا۔
تو قیامت کے دن پھر شادیاں ہوں گی؟ وہ مزید پوچھنے لگی
ہاں بالکل سب انسانوں کو نئے سرے سے ان کے ہمسفر دیے جائیں گے اور یہ رشتے ہمیشہ کے لیے قائم رہیں گے اور اسی وقت کے لیے تو اللہ نے کہا ہے
اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ وَالْخَبِيْثُوْنَ لِلْخَبِيْثٰتِ۰ۚ وَالطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيْنَ وَالطَّيِّبُوْنَ لِلطَّيِّبٰتِ۰ۚ اُولٰۗىِٕكَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا يَقُوْلُوْنَ۰ۭ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ۲۶ۧ
۲۶۔ خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے ہیں، یہ ان باتوں سے پاک ہیں جو لوگ بناتے ہیں، ان کے لیے مغفرت اور باعزت روزی ہے۔
26۔
زبردست ۔ ۔ ۔ رابیکہ بے حد خوش ہوئی
لیکن میرا ایک سوال ہی کیا میں پوچھوں؟۔ ۔ ۔ وہ آج اپنے دل میں وسوسوں کی طرح آنے والے ہر سوال کا جواب جاننا چاہتی تھی جنہیں وہ۔اس ڈر سے لوگوں سے پوچھنے سے ڈرتی تھی کہ لوگ مجھے سمجھے بغیر غلط اور منافق نہ کہیں
ہاں پوچھیں آپ کے سولوں کے جواب دینے کے لیے ہی تو میں اس دنیا میں آیا ہوں ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر آفندی نے کچھ اس انداز سے کہا کہ اسے لگا جیسے وہ برا مان گئے ہوں
او کے سوری میں بس ۔ ۔ ۔ وہ زرا سا شرمندہ ہوئی۔
مزاق تھا ۔ ۔ ۔ وہ اپنے سامنے گولڈن بالوں اور سفید رنگت کی لڑکی کو دیکھتے بولے۔
لوگ اکثر اپنے دل میں دوسروں کے مطلق آنے والے خیالات کا اظہار کر کے جزبات کو ٹھیس پہنچاتےہیں اورپھر اپنے آپ کو زہنی سکون دینے کی لیے اسے مزاق کا نام دےدیتے ہیں۔رابیکہ کوویسے ہی برا لگا تھا۔
رابیکہ میں نے دل سے کہا ہے مجھے آپ کے سوالات کا جواب دے کر اچھا لگتا ہے اس سے مجھے خود بھی احساس ہوتا ہے کہ میرا اپنے اسلام کو کتنا جاننا ہے اور کتنا اور جاننا رہ گیا ہے جب میں کسی سوال کا جواب نہیں دے پاو گا تو میں اس کے مطلق پڑھوں گا۔ اچھا سوری اگر برا لگا ہو تو۔ وہ واقع ہی اس لڑکی کو دکھ نہیں دینا چاہتے تھے۔
ایٹس اوکے ۔ وہ سر جھکائے بولی۔
تو پھرسوال پوچھو۔
ہر انسان کو اس کے اچھے یا برے عمال کی وجہ سے جنت یا دوزخ ملے گی تو پھر وہ بچے جنہوں نے ابھی کناہ ہی نہیں کیا یا پیدا ہوتے ہی مر گئے ان کو کیا سیدھے جنت ملے گی؟ وہ جواب جننے کے تجسس میں تیزی سے بولی۔
جی ہاں ان کو سیدھے جنت ملے گی اوران کا مقام بھی ہوگا ان کی ایک خاص عمر ہوگی اور بچیوں کو حوروں کا عہدہ ملے گا اور بچوں کو غلماں کا عہدہ دیا جائے گا۔