شہوار نادیہ ماریہ تیار ہوکر پورچ میں آئیں
“چلو بچوں ماشاء اللہ میری بیٹی کتنی پیار لگ رہی ہے” مصطفی صاحب نے اسکو پیار سے دیکھتے ہوئے کہا
“اچھا نا بابا چلیں نا” شہوار بہت خوش تھی
گاڑی چلتے چلتے ایک گھر کے سامنے رکی تو شہوار حیرت سے پہلے گھر پھر بابا کو دیکھنے لگی
“یہ کونسی جگہ ہم تو ڈنر کرنے آئے تھے نا بابا” وہ حیرت سے بولے تو طیب اورمصطفی ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرادیئے اور شہوار حیرت ہی حیرت میں تھی
“بابا ہم نے ڈنر کرنے جانا تھا نا” وہ گاڑی سے اترتے ہوئے حیرت سے بولی کہیں بابا غلط نہ سمجھیں
“ہاں بیٹا اندر تو چلو یہاں کھانا ہی کھائیں گے” بابا نے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا تو وہ خاموش ہوگئی البتہ حیرت زدہ تھی
گھر کی بیل بجائی تو دروازہ کرن نے کھولا یہ شہوار کیلئے دوسرا بڑا دھچکا تھا
“ماما آپ یہاں کیا کر رہی ہیں” وہ حیرت سے بولی تب مصطفی نے آگے بڑھ کر اسکی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا
“بابا یہ کیا کر رہے ہیں” شہوار چلائی ہاتھ ہٹانے کی کوشش کرنے لگی لیکن انہوں بھی ہاتھ نہیں ہٹایا
اور ایسے ہی اسکو اندر لے آئے
“چلو اب دیکھو” بابا نے ہاتھ ہٹایا تو سامنے کھڑے مسکراتے فیضان کو دیکھ کر وہ ششدہ رہ گئی
“فیضی بھائی” وہ بڑبڑائی فیضان مسکراتے ہوئے آگے بڑھا اسکو سینے سے لگانے پر شہوار فورا پیچھے ہوگئی
“نہیں نہیں آپ میرے بھائی نہیں وہ مجھے چھوڑ کر جا چکے ہیں” وہ رونے لگ گئی فیضان سے اسکا رونا دیکھا نہیں جارہا تھا اس نے زبردستی شہوار کو پکڑ کر سینے سے لگالیا اور شہوار بھی بھائی کے کشادہ سینے پر سر رکھ کر رونے لگی
بہن بھائی کے اس پیار کو لوگ تو کیا آسمان بھی رشک بھری نظروں سے دیکھ رہا تھے
__________________
“کھانا خوشگوار ماحول میں کھانا گیا آج فیضان خود ماں اور بہن کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلا رہا تھا طیب نے بولا بھی انکو کھانے دو تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا
“اتنے سالوں اور مہینوں کی پیاس ایسے تو نہیں بجھ سکتی نا” اور سب مسکرادئے
“چلو فیضان تم پیکنگ کرلو ہم کل کراچی جارہے ہیں” مصطفی نے کہا تو فیضان نے چونک کر انکو دیکھا
“بابا ابھی ایک ہفتہ تو دیں مجھے بزنس وائینڈ اپ کرنا ہوگا” فیضان نے سوچتے ہوئے کہا وہ شہوار کو ساتھ لگائے ہوئے تھا اور وہ بھی بڑے مزے سے اس سے لگ کر بیٹھی تھی
” چلو پھر میں کرن اور شہوار چلے جاتے ہیں تم ایک ہفتے میں آجانا کیونکہ میری جاب کا بھی مسئلہ ہے” مصطفی صاحب بولے تو شہوار جو بیٹھی تھی ایک دم فیضان کے اور قریب ہوگئی
“میں بھیا کے ساتھ آؤں گی” وہ رونی صورت بنا کر بولی فیضان اسکے پیار پر مسکرایا اور جھک کر ایک بوسہ دیا اسکو اپنی بہن جان سے زیادہ عزیز تھی
“اور میں بھی فیضی کے ساتھ آؤں گی” کرن نے بھی بولا تو مصطفی تو ہتے سے اکھڑ گئے
“واہ بھئ واہ فیضان کے ملتے ہی نہ باپ یاد رہا نا شوہر بیگم آپ بھی یہاں رک جائیں گی تو وہاں کیا پڑوسن کے گھر پر رک کر کھانا پانی کروں گا” مصطفی جلے کٹے انداز پر بولے جسپر سب ہنس دئیے
“او یار بابا جیلس ہونا اچھی بات نہیں ہوتی” وہ بھی فیضان تھا
“تجھے تو میں۔۔” وہ اپنے صوفے سے اٹھنے لگے تب شہوار اچھل کر انکے پاس آئی انکو واپس بٹھایا
“بھیا ابھی ملے ہیں نا اسلئے ماما ایسے کر رہی ہیں اور میں تو بھیا کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتی نا اسلئے کہہ رہی ہوں” شہوار ایسے بولی جیسے چھوٹے بچے کو سہلا رہی ہو اسکا انداز دیکھ سب کے قہقہہ گونجے تھے
چاند بھی آج اس گھرانے کے مل جانے پر مسکرارہا تھا
________________
کہاں ہے تو کی ترے انتظار میں
تمام رات سلگتے رہے دل کے ویرانے
حوریہ نے آج پھر شہوار کے موبائل سے فیضان کو کال کی لیکن آج وہ حیرت زدہ رہ گئی کال اٹھالی گئی تھی اور آواز آواز شہوار کی تھی وہ اسکو پکارنے لگی لیکن شہوار نے فورا کال کاٹ دی
“شہوار تم تو کم از کم اپنی دوست کو سمجھو” وہ بڑبڑائی
“وہ کیوں سمجھے گی تم نے کونسا اسکو سمجھا اسکا ساتھ دیا تم۔نے بھی تو اسکو اکیلا چھوڑ دیا تھا” اسکے دل نے کہا اور وہ وہیں گھٹنوں میں سر رکھ کر رودی
_______________
“بھیا آپکی حوریہ سے بات ہوتی ہے؟” وہ فیضان کے کمرے میں بیٹھی تھی جب وہ واشروم سے نکلا تب فورا اس نے یہ سوال کیا اس نے حوریہ کی کال اسی لئے اٹھائی تھی کیونکہ وہ واشروم میں تھا
“نہیں اور نہ میں کرنا چاہتا ہوں” فیضان شیشے کے سامنے کھڑا بال بناتا ہوا اسپاٹ لہجے میں بولا
“اسکی کال آئی تھی” شہوار منمنائی
“تو” ایک لمحے کیلئے فیضان کے ہاتھ رکا
“میں نے کاٹ دی بات نہیں کی” وہ جلدی سے معصومیت سے بولی
” مطلب تم۔نے کال اٹھا لی تھی” فیضان ایک دم اسکی طرف مڑا
“و وہ بھیا مجھے پتا نہیں تھا” وہ منمنائی
“شہوار حد ہوتی ہے پوچھ لیتے ہیں پہلے” وہ سخت لہجے میں بولا جو شہوار کو نا گوار گزرا
“ہاں تو میں نے کونسا اس سے بات کی ہی جو آپ ایسے ڈانٹ رہے ہیں یاد رکھیں میرے ماں باپ۔زندہ ہیں میں انکو بھی بول سکتی ہوں” شہوار غصہ سے کہتے ہوئے جانے لگی فیضان نے فورا اسکا ہاتھ پکڑ لیا
” ڈانٹا کب ہے ہاں؟” مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا آج کل وہ اسے بہت پیاری لگ رہی تھی ماں باپ کے ہونے کا احساس اور اسکا مان شہوار کے چہرے سے ٹپکتا تھا
“اور کیا کیا ہے؟” وہ منہ بسورتے ہوئے بولی
“اچھا سوری” فیضان دونوں کان پکڑتے ہوئے مسکراتے ہوئے بولا
“سوری قبول کرنے کیلئے ایک شرط ہوتی ہے یاد ہے؟” وہ شرارتی انداز میں بولی تب فیضان نے بے ساختہ اپنا ہاتھ سر پر مارا
“کھلاؤں گا کل آئس کریم” وہ ہنستےہوئے بولا اور شہوار بھائی کے گلے لگ کر گڈ نائٹ کہتی ہوئی چلی گئی
______________
صبح کرن اور مصطفی کو دونوں بھائی بہن ائرپورٹ چھوڑنے گئے کرن کی آنکھیں بار بار بھیگ رہی تھیں
“بیٹا جلدی آنا اب اور انتظار نہیں ہوتا ” وہ بھیگے لہجے میں بولیں اور فیضان کو پیار کیا
“اس گڑیا کا بھی خیال رکھنا” وہ شہوار کو پیار کرتے ہوئے بولیں اور انکے اس جملے پر فیضان کے نیچے سے زمیں کھسکنے لگی لیکن اس نے اپنے آپکو نارمل رکھا
“ماما میں ایک ہفتے سے پہلے آنے کی کوشش کروں گا” اب وہ بھی اکیلا رہتے رہتے تھک گیا تھا
اور دونوں الوداعی کلمات کہتے ہوئے اندر کی طرف بڑھ گئے
شہوار اور فیضان واپس آرہے تھے
“بھیا ایک کپ آئس کریم آپ پر قرض ہے” شہوار سنجیدگی سے بولی فیضان کی ہنسی نکل گئی
“ابھی کھاوگی؟” فیضان کے پوچھنے پر شہوار نے اثبات میں سر ہلایا تو فیضان نے گاڑی پارلر کی طرف موڑ دی
“بھیا جلدی کریں میں نے ناشتہ بنادیا” فیضان صبح آفس جارہا تھا تو شہوار نے زبردستی خود اسکا ناشتہ بنایا
“آرہا ہوں بہنا” فیضان کہتا ہوا باہر آیا تو وہ مکمل گھریلو حلیہ میں تھی
” بالکل ماسی لگ رہی ہو” فیضان اسکے سر پر چپت لگاتے ہوئے بولا اور ماسی کے لقب سے شہوار تو جل بھن گئی
“خود ہونگے ماسا میں تو بابا کی پرنسس ہوں” وہ ایک ادا سے بولی فیضان کا قہقہہ گونجا
“ہائے ہائے بابا کی پرنسس کبھی پرنسس دیکھی ہیں ایسی نہیں ہوتیں بے چاری تمہیں دیکھ کر تو بھاگ ہی جائیں گی” فیضان افسوس سے بولا
“بھیا آپ زیادہ فری نہیں ہوئیں ایک تو آپ کے لئیے ناشتہ بناؤں اوپر سے آپ” وہ رونی صورت بناتے ہوئے بولی
“میں نے تو کہا تھا میں باہر سے لے آونگا لیکن محترمہ کو اپنے گڑ دکھانے کا شوق تھا” فیضان نے اسکو چڑاتے ہوئے کہا یہ سچ تھا شہوار ایک مہینے میں اپنی ماں سے بہت کچھ سیکھ چکی تھی
“آپ جائیں لے آئیں اپنے لئیے ناشتہ میں یہ خود کھالوں گی” وہ پلیٹس اپنی طرف کر کے بولی
“اب میں اکیلے تمہارا پیٹ خراب تو نہیں ہونے دوں گا ویسے ہی اتنی نازک سی ہو” فیضان کو اسکو چڑانے میں مزہ۔آرہا تھا
” آپ آپ آپ مجھ سے بات نہیں کریگا اب” وہ کہتے ہوئے کرسی سے اٹھ گئی فیضان نے فورا اسکو پکڑ لیا
“اب بیٹھ جاؤ مجھے دیر ہورہی ہے آئس کریم نہیں کھلا سکتا” فیضان جانتا تھا اسکے راضی ہونے کی شرط ہمیشہ آئس کریم ہوتی ہے وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض بھی اسی لئے ہوتی تھی کہ بدلہ میں آئس کریم جو ملتی تھی وہ چپ چاپ بیٹھ گئی
“بھیا سنیں” کچھ لمحوں بعد شہوار کی آواز آئی فیضان نے سر اٹھا کر دیکھا تو وہ مسکینی صورت بنائی ہوئی تھی
“سنائیں” فیضان نے مسکراہٹ روکتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو آپس میں ملا کر ٹھوڑی کے نیچے رکھا اور پوری طرح اسکی طرف متوجہ ہوگیا
“ٹھیک ہے ابھی میں دوستی ہوجاتی ہوں لیکن شام میں دوبارہ اسی بات پر کٹی ہوجاوں گی پھر آپ آئسکریم کھلائیگا میں دوستی ہوجاوں گی” وہ بچوں جیسے انداز میں بولی فیضان کو اسپر بے اختیار پیار آیا
“اچھا جی” وہ مسکراتے ہوئے ناشتہ کی طرف متوجہ ہوگیا
ناشتہ کرکے فیضان جانے لگا تو ساتھ میں شہوار بھی اٹھنے لگی وہ حیرت سے اسکو دیکھنے لگا
“تم کہاں جارہی ہو بہن؟” وہ حیرت سے بولا
” میں گھر پر اکیلی رہوں گی کیا؟” وہ معصومیت سے بولی تو فیضان نے بے ساختہ اپنا ہاتھ سر پر مارا
“تو تم میرے ساتھ آفس جاوگی” اسکو شہوار کی دماغی حالت پر شبہ ہو رہا تھا
“ہاں تو آپکے کیبن میں بیٹھوں گی” وہ بھی شہوار تھی جو آج اسکو پاگل کرنے پر تلی ہوئی تھی
“تم تم پاگل تو نہیں ہوگئی ہو؟؟ تم میرے ساتھ آفس جاوگی؟؟؟””” فیضان اسکے پاگل پن کی تصدیق کرنے لگا
“ہان نا اب گھر پر اکیلی تو نہیں رہوں گی نا” وہ آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے بولی
“تمہیں آفس نہیں ڈاکٹر کی ضرورت ہے شہوار تم نا پاگل ہوگئی ہو؟” فیضان دماغ کے پاس انگلی لے جا گھماتے ہوئے بولا
“اچھا تو پھر آپ مجھے طیب انکل کے گھر چھوڑدیں” اسکی بات کر فیضان نے لمبا سانس لیا اور ہونٹ سکوڑ کرلمبا سانس لیا
“چلو پاگل” وہ آگے بڑھتے ہوئے بولا
“میں پاگل نہیں ہوں”اسکے پیچھے پیچھے چلتی ہوئی بولی شہوار کو اپنے اوپر یہ لقب اچھا نہیں لگا
فیضان نے اسکو طیب انکل کے گھر چھوڑ دیا اور خود آفس کیلئے روانہ ہوگیا
__________________
“کرن ماں سے ملنے کو دل مچل رہا ہے” مصطفی اداس سے لہجے میں بولے
“یم چلتے ہیں جب بچیں آئیں گے تب تک ہم ساری غلط فہمی دور کردیں گے شہوار نے تو صاف وہاں جانے سے انکار کردیا اور فیضان کا بھی اس ٹاپک سے موڈ آف ہوگیا تھا” کرن نے تفصیلا بتایا
“ایڈریس کہاں سے لاؤں گا؟” وہ پریشانی۔سے بولے
” میرے پاس ہے میں نے باتوں باتوں میں شہوار سے ایڈریس پوچھ لیا تھا” کرن چہکتے ہوئے بولیں
“ارے واہ کبھی کبھی تم عقلمندوں والا کام کر دیتی ہو” مصطفی صاحب خوشی سے بولے سر اٹھا کر دیکھا تو کرن انکو خشمگیں نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں
“کیا ہوا؟” وہ چونکتے ہوئے بولے
“میں کبھی کبھار نہیں ہمیشہ عقلمندوں والا کام کرتی ہوں” وہ جتاتے ہوئے بولیں
“ہاں اپنی نظر میں” وہ بڑبڑائے
“کیا بولا؟” کرن انکے ہونٹوں کی جنبش دیکھتے ہوئے بولیں
“کچھ نہیں کچھ نہیں تم ایڈریس لاؤ ہم ابھی جارہے ہیں” مصطفی سے اب اور صبر نہیں ہورہا تھا
“اچھا میں تیار ہوکر آتی ہوں” کرن انکو ایڈریس کی پرچی دیتے ہوئے تیار ہونے چل دیں
إس گھر سے أس گھر تک کا سفر جان لیوا تھا طرح طرح کے خدشے دونوں کو ستا رہے تھے
“پتہ نہیں اماں پہچانیں گی بھی یا نہیں؟” دل سے آواز آتی
“ماں کبھی بچوں کو بھولتی نہیں” دماغ فورا جواب دیتا
ہزاروں وہموں اور خدشوں کے ساتھ یہ سفر اختتام پذیر ہوا۔دونوں کی دل کی دھڑکنیں معمول سے زیادہ تیز تھیں
گاڑی سے نکل کر گھر کے دروازہ پر پہنچ کر مصطفی نے پیچھے کھڑی کرن کو دیکھا جنہوں نے اثبات میں سر ہلایا تو مصطفی نے کانپتے ہاتھوں سے گھر کی بیل بجائی
“جی آپ کون؟” شایان نے دروازہ کھول کر ان دونوں
کو دیکھ کر پوچھا جو حیرت سے اسکو دیکھ رہے تھے
“شانی” مصطفی اسکو دیکھ کر بڑبڑائے شایان انکے منہ سے اپنا نام سن کر چونکا وہ اسکو دیکھے دیکھے لگ رہے تھے
“آپ کون؟” اس نے چونکتے ہوئے کہا
“تت تم شانی ہو نا میرے بھتیجے مم میں مصطفی چاچو کو نہیں پہچانے؟” مصطفی گلوگیر لہجے میں بولے
“چاچو؟؟؟” وہ حیرت زدہ تھا
“انکا تو انتقال۔۔ آپ کیسے۔۔شکل بھی ملتی۔۔۔یہ کیا ہورہا ہے” شایان حیرت سے بے ترتیب جملے بول رہا تھا
“اندر تو آنے تو سب بتاؤں گا” وہ خوشی سے بولے
شایان انکو سیدھا اپنے روم میں لے گیا جسکا دروازہ لان سے بھی کھلتا تھا
کمرے میں پہنچ کر پہلے شایان نے انکو جوس دیا پھر انکے سامنے بیٹھ گیا
“کتنے بڑے ہوگئے ہو شانی” کرن نے اسکے سر پر ہاتھ پھیر کر بولا تو وہ مسکرادیا وہ بے تاب تھا سننے کیلئے مصطفی نے اسکے بے تابی دیکھ کر ساری روداد سنانا شروع کردی اور وہ ہمہ تن گوش کو کر سننے لگا
__________
“شہوار ہم کل جارہے ہیں کراچی” واپسی پر گاڑی میں شہوار کو کہا تو وہ حیرت سے اسکو دیکھنے لگی
“آپکے آفس کا کام ہوگیا؟”وہ حیرانی سے اسکو دیکھتے ہوئے بولی کہاں تو ایک ہفتہ مانگا تھا کہاں تین دن میں ہوگیا
“ارے پاگل لڑکی ایک ہفتہ تو احتیاطا بولا تھا کام ہوگیا ہم بنا بتائے ہی چلے جائیں گے اچھا ہے ماما بابا خوش ہوجائیں گے” شہوار نے بھی اسکے بات سے اتفاق کیا اور خاموشی سے باہر دیکھنے لگی
“اترو نا” گاڑی گھر کے دروازہ پر کھڑی ہوگئی فیضان اترنے لگا شہوار کو خاموشی سے اطمینان سے بیٹھا دیکھ کر حیرت سے بولا
“آپ کو نہیں لگتا آپ کچھ بھول رہے ہیں؟” شہوار نے ابرو اچکا کر کچھ خفگی سے کہا
“کیا بھول رہا ہوں؟” وہ حیرت سے بولا
“بھیا صبح میں نے کہا تھا میں شام میں ناراض ہوجاوں گی” وہ جھنجھلا کر بولی
“افوہ صاف بولو نا آئس کریم کھانی ہے” فیضان گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے بولا تو شہوار اس سے لپٹ گئی
“بھیا آپ بہت اچھے ہیں” وہ جذب سے بولی
“اچھا اچھا ابھی ہٹو مجھے پتہ ہے میں بہت اچھا ہوں” وہ مسکراتے ہوئے بولا اور فرضی اتراتے ہوئے کالر جھاڑا
“ہونہہ خوش فہمی” وہ منہ موڑ کر دوسری طرف دیکھنے لگی فیضان کا قہقہہ گونجا
“شہوار زندگی کتنی حسین لگنے لگی ہے نا؟” فیضان یک دم سنجیدہ پر مسکراتے ہوئے بولا
“ہاں ماں باپ دنیا کی بہت بڑی نعمت ہوتے ہیں دنیا کی کوئی مشکل مشکل نہیں لگتی میرا دل چاہتا ہے میں چیخ چیخ کر یہ اعلان کروں جسکے ماں باپ ہیں وہ انکی قدر کریں اگر یہ نعمت چھن گئی تو پچھتانے کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا” شہوار کے لہجے میں خوشی سے نمی سی آگئی تھی
فیضان بھی اسکی بات سن کر مسکرادیا اب انکی زندگی میں خزاؤں کے بعد بہار آرہی تھیں