شہوار بہت خوش تھی اور خوشی کے اثرات اس کے چہرے سے ظاہر ہورہے تھے شہوار کو خوش دیکھ کر کرن بھی خوش تھیں کتنے دنوں بعد وہ یوں ہنس کھیل رہی تھی ورنہ اگرچہ باہر سے انہیں مطمئن کرنے کیلئے ہنستی رہتی لیکن وہ بھی ماں تھیں آنکھوں میں اداسی سمجھ سکتی تھیں
“شہوار ہوگئی ساری پیکنگ؟” کرن اسکے کمرے میں آکر بولیں
“جی ماما” وہ بیگ کی زپ بند کرتی ہوئے بولیں
:یہ لو دودھ پی لو سوئیٹی” وہ دودھ کا گلاس اسکو پکڑاتے ہوئے بولیں جسکو شہوار نے تھام لیا تھا
“ماما فیضی بھائی ساتھ ہوتے کتنا مزہ آتا نا میں انکو بہت تنگ کرتی” شہوار دکھ سے بولی اسکو شایان سے زیادہ فیضان کی یاد ستاتی تھی
” ہاں تم چلو دودھ جلدی ختم کرو پھر جلدی سوجاو تاکہ چار بجے آنکھ کھل سکے” کرن نے موضوع بدل دیا اسکی آنکھوں جو آج خوشی تھی مبادا کہیں وہ ماند نہ پڑ جائے
شہوار نے دودھ ختم کرکے کرن کو دیا اور تو کرن نے اسکو ہگ کر کے ماتھے پر بوسہ دیا اور مسکراتے ہوئے گڈ نائٹ کہہ کر چلی گئیں
________________
سمیہ بیگم گھر آگئیں تھیں
“کیا ہوا تھا آپی؟” عالیہ انکے پاس آئی تو انہوں نے فورا اپنا منہ پھیر لیا انکو سب کچھ دکھاوا لگ رہا تھا
“کچھ نہیں کم از کم مری نہیں ہوں کہ تم کو میری وراثت کی دولت بھی مل جائے” وہ سخت لہجے میں بولیں
“کیسی باتیں کرتی ہیں آپی میں کیوں دولت لوں گی مجھے تو بس آپکی زندگی چاہئیے جانتی ہیں نا آپکے علاوہ میرا کوئی نہیں احمر بھی غصہ کرتے رہتے ہیں” وہ بناوٹی لہجے میں بولیں
“چپ کرو دفع ہوجاو یہاں سے میں اچھی طرح جانتی ہوں تم کیا چاہتی ہو دفع ہوجاو میری نظروں سے اور یاد رکھنا اب میرے پاس تمہیں دینے کیلئے ایک کوڑی بھی نہیں ہے اور نہ اپنی مظلومیت کی داستان سنانا سب جانتی ہوں تم۔کیوں آئی ہو ادھر اور تمہاری بیٹی نے معصوم بچوں کی زندگی برباد کی سب دولت کیلئے لیکن یاد رکھنا اب آج سے تم تمہارا شوہر اور تمہاری بیٹی سے میرا کوئی تعلق نہیں” سمیہ بیگم دھاڑتے ہوئی کہہ رہی تھیں انکی آواز سن کر شایان اور دادی بھی کمرے میں آگئی تھیں
“ارے بہو کیا ہو گیا آرام کرو تم تمہاری صحت کیلئے غصہ کرنا اچھا نہیں” دادی انکو لٹاتے ہوئے بولیں
“دیکھ رہی ہو؟؟ ان لوگوں کے ساتھ ہی برا کیا تھا میں نے تمہاری اندھی محبت کے دھوکہ میں آکر اور اب اب دیکھو۔۔۔” آگے ان سے بولا نہیں گیا تو وہ خاموشی سے لیٹ گئیں اور عالیہ کیلئے اور بے عزتی سہنا مشکل تھی وہ کمرے سے باہر آگئیں جبکہ شایان اپنے ماں کے رویہ پر پہلی دفعہ مسرور ہوا تھا لیکن ظاہر نہیں کیا تھا کچھ بھی ہو شہوار تو اس سے کھو چکی تھی نا
__________________
مصطفی کرن اور شہوار دبئی پہنچ چکے تھے وہاں یہ لوگ مصطفی کے دوست کے بہت اصرار پر انکے گھر ٹہرے تھے
“بہت بہت مبارک ہو مصطفی” طیب اپنے دوست کی کیفیت سمجھتے تھے اسلئیے مبارک باد دی
“شکریہ” مسکراتے ہوئے مبارکباد وصول کی
“فیضان کا کیا ہوا؟” طیب نے پوچھا تو مصطفی ایک دم اداس ہوگئے
” پتہ نہیں اللہ اسکو اپنے حفظ و امان میں رکھے آمین” دکھے دل سے کہا
“فکر نہ کرو اللہ سے ویسے ہی مانگتے رہو ان شاء اللہ وہ بھی مل جائیگا” طیب نے انکے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی تو وہ سر ہلا کر رہ گئے
“چلو کھانا لگ گیا ہوگا آجاو” طیب انکو لے کر لاونچ میں آگئے جہاں کھانا تو نہیں البتہ شہوار، نادیہ، ماریہ اور سفیان کرن اور طیب کی بیوی محفل جما کر بیٹھے تھے
“کیا ہورہا ہے بھئی؟” طیب نے خوشگوار انداز میں کہا
” کچھ نہیں ہم اس چھپکلی کی درگت بنا رہے ہیں” سفیان جو سب سے چھوٹا تھا ہمیشہ نادیہ کو بہت تنگ کرتا تھا
اسکی بات سن کر سب مسکرادئیے
“ہاں بابا اور اس مینڈک کی بھی” نادیہ نے فورا بدلہ چکا دیا
“اچھا بس بس بیگم آپ کھانا لگادیں مصطفی کی صبح میٹنگ ہے”طیب نے مسکراتے ہوئے کہا
اور عافیہ مسکراتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئیں ساتھ میں کرن بھی انکی ہیلپ کروانے اٹھ گئیں
_________________
صبح مصطفی اپنی میٹنگ کیلئے تیار ہورہے تھے جب شہوار آئی
“بابا آج ہم ڈنر باہر کریں گے پلیز”شہوار لاڈ سے بولی
“اچھا بابا کی گڑیا”وہ اسکی ناک دباتے ہوئے بولے
وہ ہنستے ہوئی نادیہ ماریہ کے پاس آگئی
“طیب دعا کرو یار میٹنگ صحیح ہوجائے بہت بڑی کامیابی کا مدار ہے” مصطفی اندر ہی اندر ڈر رہے تھے کچھ دن پہلے انکے بزنس کو نقصان ہونے لگا تھا اب اگر یہ میٹنگ کامیاب نہ ہوتی تو سارا بزنس ڈوب جاتا
“تم فکر نہ کرو سب ٹھیک ہوگا انشاء اللہ” طیب نے انکو تسلی دی
“ویسے سننے میں آیا ہے کمپنی کا مینیجر نرم دل ہے ممکن ہے کامیاب ہوجاوگے” طیب انکو حوصلہ دے رہے تھے
“اللہ کرے” لمبی سانس لے کر سامنے دیکھنے لگے
___________________
“حوریہ” بڑی تائی اسکے کمرے میں آئی تھیں
“جی”حوریہ نے حیرت سے انکو دیکھا آج سے پہلے وہ کبھی اسکے کمرے میں نہیں آئی تھیں
“تمہاری شہوار سے بات ہوتی ہے؟” انہوں نے ایک امید سے پوچھا
وہ۔اپنی غلطی سدھارنا چاہتی تھیں اپنے بیٹے کو خوشی دینا چاہتی تھیں
“کیسے ہوگی تائی وہ تو سب سے ایسے رشتہ توڑ کے گئی ہے جیسے ہمیں کبھی جانا ہی نا ہو” وہ افسردگی سے بولی
“تم فکر نہ کرو میں ضرور اسکو ڈھونڈ لوں گی” وہ ایک عزم کرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں اور حوریہ انکو حیرت سے دیکھتی رہی
“نجانے انکو کیا ہوگیا ہے اللہ کرے سب بہتر ہو” وہ دل میں کہتے ہوئے اپنے کام میں مصروف ہوگئی اب وہ یونی بھی جانے لگی تھی شہوار کے بغیر جانا ادھورا سا لگتا تھا لیکن اس کو اب آگے بڑھنا تھا شایان نے اسکو سمجھایا تھا کہ ایسے رو کر افسردہ رہ کر وہ واپس نہیں آئیگا تم رات کو رو اللہ کے سامنے تمہارے دل کو بھی اطمینان ہوگا اور فیضان بھی آجائیگا بشرطیکہ دعا یقین کے ساتھ مانگی جائے اور پھر اس نے شایان کی بات کر عمل کر لیا تھا اب اسکے دل کو بھی سکون تھا اور ایک یہ امید بھی کہ وہ آجائیگا
“بیک اللہ ٹوٹے دلوں میں رہتا ہے”
________________
“کہاں سے آرہی ہو”؟ رات کے بارہ بجے شایان لان میں بیٹھا تھا تب بینش گیٹ سے اندر آتی دکھائی دی وہ پوچھے بنا نہیں رہ سکا
“مرضی میری تم سے کونسا میرا رشتہ ہے نکاح کر کے بھول ہی گئے ہو اب کیوں حق جتا رہے ہو” وہ بھی ڈھٹائی سے بولی
“ہونہہ حق نہیں جتا رہا نا مجھے شوق ہے بس یہ بتا رہا ہوں ہمارے گھر کی لڑکیاں رات کو اکیلے گھر سے باہر نہیں نکلتیں اور نہ ہی اچھا سمجھا جاتا ہے” وہ اسپاٹ لہجے میں بولا
“میری مرضی میں جو کروں میں اپنی مرضی کی مالک ہوں تم کون ہوتے ہو مجھ پر روک ٹوک کرنے والے” بینش نے نحوت سے کہا
“بھول گئی ہو شاید میں تمہارا شوہر ہوتا ہوں” شایان نے سختی سے کہا
“واہ رے ایسی باتوں پر شوہر بن گئے ویسے پوچھتے بھی نہیں” بینش کا لہجہ اب ہکلانے لگا تھا
“کیونکہ اسمیں میری عزت کا بھی سوال ہے جب فارغ کردوں تب جو مرضی کرتی پھرنا” یہ کہ کر شایان چلا گیا اس کو بینش سے شدید ترین نفرت ہورہی تھی اسی کی وجہ سے اسکی زندگی دور چلی گئی تھی
بینش مسکراتے ہوئے عالیہ کے پاس آگئی
“ارے ماما آپ جارہی ہیں کیا؟” بینش کمرے میں آئی تو انکو پیکنگ کرتے دیکھ کر حیرت سے کہا
“ہاں اور تم کہاں ہو دو تین دن سے؟” انہوں نے ایسے ہی پوچھ لیا لیکن بینش ڈگمگا گئی مگر اپنے آپ سنبھال لیا
“ماما آپ نے ہی تو کہا تھا میں اب کمانا شروع کردوں” بینش بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولی
“ہاں تو؟” عالیہ نے حیرت سے پوچھا
“ہاں تو کما ہی رہی ہوں جاب کرتی ہوں یہ لیں پچاس ہزار کما بھی لئے” وہ بیگ سے پیسوں کی گڈی نکال کر دکھانے لگی
“تین دن میں پچاس ہزار؟؟؟ یہ کیسے ممکن ہے؟؟” عالیہ نے حیرت سے پوچھا
“آپکو آم کھانے چاہیئے پیڑ نہ گنیں” وہ کہتے ہوئے چلی گئی اور عالیہ پہلے حیرت سے پھر خوشی سے پیسوں کی گڈی دیکھنے لگیں
___________________
“مصطفی چلو مینیجر آگئے ہیں” طیب نے آکر اطلاع دی تو وہ اٹھ کر میٹنگ روم میں داخل ہوئے
“کہاں ہے یار؟ مصطفی نے بے زاری سے کہا
“آرہا ہے صبر کرو” طیب بے کہا ساتھ ہی دروازہ کھلا مصطفی کی نظریں اٹھیں اور اٹھی ہی رہ گئیں وہ فیضان تھا انکا بیٹا ہاں وہ اسکو کیسے بھول سکتے تھے انکا جگر کا ٹکڑا تھا وہ۔ مصطفی گر جاتے اگر کرسی نہ تھامتے
دوسری طرف فیضان اپنے باپ کو دیکھ کر حیرت میں تھا اس نے طیب کی طرف دیکھا تو طیب نے اثبات میں سر ہلادیا وہ آگے بڑھا اور بالکل مصطفی کے روبرو کھڑا ہوگیا
“کہاں چلے گئے تھے بابا” کتنے سالوں بعد اسکی آواز سنی تھی کتنا بڑا ہوگیا تھا خوبصورت نوجوان براؤن بال بلیک پینٹ پر وائٹ شرٹ پہنے آستینوں کو ہال فولڈ کئے کتنا حسین لگ رہا تھا
مصطفی آگے بڑھے اسکے چہرے پر ہاتھ پھیرنے لگے گویا یقین کرنا چاہ رہے تھے
“آپکا بیٹا ہی ہوں بابا فیضان ہی ہوں” وہ آنکھوں میں آنسو لئیے دیکھ رہا تھا اور مصطفی نے اسکو بھینچ لیا اور دونوں بے آواز آنسو بہانے لگے
پیچھے کھڑے طیب کی آنکھیں بھی اس خوبصورت ملاپ پر بھیگنے لگیں
“ارے بس بھی کرو میں نے ہی ملوایا مجھے تو بھول ہی گئے ہو؟” کافی دیر جب وہ دونوں روتے رہی تو طیب سے رہا نا گیا جانتا تھا کہ مصطفی کیلئے رونا صحت کیلئے مضر ہے
“کک کیا مطلب تجھے پتہ تھا؟” مصطفی الگ ہوکر حیرت سے پوچھنے لگے
“جی ہاں یہ میرے آفس اپنی کمپنی کی طرف سے ڈیل کرنے آیا تھا میں اسکو پہچان گیا ساری معلومات لیں اور اگلے ہی دن تمہیں یہ کہ کر بلوالیا کہ تمہاری کمپنی کی طرف سے میٹنگ فائنل ہوگئی فیضان کو میں سب بتا چکا تھا یہ بھی تم سے ملنے کو بے تاب تھا اور دونوں مل گئے لیکن مجھ معصوم کو تو بھلا ہی دیا” آخر میں وہ بچوں جیسی صورت بناتے ہوئے بولے جسپر مصطفی نے اپنے اس دوست کو گلے لگالیا زندگی کے ہر موقع پر اس نے ساتھ دیا تھا مصطفی کو طرح طرح کی خوشیاں دی تھیں وہ اپنے اس دوست کے احسان مند ہوتے جارہے تھے
“چلو اب ہٹو بھی جان لوگے کیا؟ اب گھر چلو کوئی میٹنگ وغیرہ نہیں ہے شہوار بھی انتظار کر رہی ہوگی” وہ ماحول کو خوشگوار بنانا جانتے تھے
شہوار کا نام سن کر فیضان چونک گیا
“شہوار” وہ نا سمجھی سے طیب کو دیکھ رہا تھا
“جی ہاں آپکی بہن صاحبہ بھی ایسے فلمی انداز میں ملی تھیں فرق یہ تھا وہ ماما سے اور آپ بابا سے ملے ” طیب مسکراتے ہوئے بولا
فیضان کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اسکو یہ سب ایک خوبصورت خواب لگ رہا تھا جب طیب نے اسکو بابا ماما کے بارے میں سب کچھ بتایا تو وہ بت بن گیا تھا اچانک خوشی مل جانے کی کیفیت اسکے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا اور اب شہوار جسکیلئے وہ راتوں کو اٹھ کر دعائیں مانگتا تھا وہ بھی مل گئی آج اسکی ساری دعائیں سن لی گئی تھیں آج کا دن خوشیوں کا دن تھا وہ مصطفی اور طیب گاڑی میں بیٹھے گھر کی جانب چل دئیے جہاں کے رہنے والے اس اللہ کی قدرت اور زبردست ملاپ سے بے خبر تھے اور فیضان گاڑی میں بیٹھا شہوار کو منانے کے طریقے سوچ رہا تھا یقینا وہ بیت ناراض ہوگی
“آپی ہم جارہے ہیں” عالیہ انکے پاس آکر نحوت سے بولیں
“جاؤ میں نے کب منع کیا ہے” وہ بھی انہی کے انداز میں بولیں “اور ہاں اپنی بیٹی کو ابھی تم نہیں لے جاسکتی” سمیہ بیگم پھر گویا ہوئیں جسپر انکے قدم رک گئے
“کیوں نہیں لے جاسکتی میری بیٹی ہے میں ضرور لے کر جاؤں گی” عالیہ بیگم غصے سے بولیں
“پہلی بات تو وہ اب شایان کی بیوی ہے دوسری بات اگر لے جاسکتی ہو تو لے جاؤ” سمیہ بیگم کی آنکھوں میں عجیب چمک تھی
” کک کیا مطلب کیا کیا ہے آپ نے؟ عالیہ کی زمین کے نیچے سے زمین کھسکنے لگی
“میں نے اسکے ٹکٹس اور پاسپورٹ جلادئے اور وہ اب تب تک اس گھر سے نہیں نکلے گی جب وہ سب کے سامنے فیضان کی بے گناہی کا اقرار نہ کرلے” سمیہ بیگم نے سخت لہجے میں کہا
” آپی آپ ممم میری بیٹی پر الزام لگا رہی ہیں” عالیہ نے تھوک نگلتے ہوئے کہا
“کاش کہ الزام ہی ہوتا میں اس قدر دکھی تو نہ ہوتی جتنا سچ جان کر ہوئی ہوں دفع ہواؤ اب یہاں سے” سمیہ بیگم پر واپس دوڑے پڑنے لگے اور عالیہ خاموشی سے باہر آگئیں پر اب انکو سکون نہیں مل رہا تھا
“کونسی منحوس گھڑی تھی جب میں اس گھر میں آئی تھی ایک تو یہ بینش بھی پتہ نہیں کہاں کہاں غائب رہتی ہے” وہ اپنے آپ سے بڑبڑاتے ہوئے کمرے میں آگئیں
__________________
شایان پارک میں بیٹھا اپنا اور شہوار کے تعلق کے بارے میں سوچ رہا تھا۔اسکی شرارتیں چھیڑ چھاڑ سب اسکو یاد آرہی تھیں دو مہینے سے اس نے اسکی شکل تک نہ دیکھی تھی نہ آواز سنی تھی وہ فیضان کو کال کرتا تھا لیکن وہ بھی پہلے اٹھاتا نہیں تھا پھر موبائل بند جاتا تھا وہ بری طرح مایوس ہو چکا تھا اب کچھ بھی کرنے کو دل نہیں چاہتا تھا آفس بھی دل مار کر جاتا تھا اور رات دیر سے گھر آتا تھا شہوار کے بغیر گھر بھی اجنبی لگنے لگا تھا اسکو شہوار کی باتیں یاد آرہی تھیں
“آپ کتنے ٹوٹے ہوئے ہیں یہ بڑی بات نہیں آپ نے اپنے آپ کو کتنا سمیٹا ہوا ہے یہ بڑی بات ہے” شایان نے جب اسکو اپنی شادی کی بات بتائی تھی تب اس نے یہ جملہ کہا تھا اور بے ساختہ اسکو سینے میں چھپالیا تھا
“تم اپنے آپ کو نہیں سمیٹو گی میں سمیٹوں گا” اسکو پیار کرتے ہوئے بولا تھا تب وہ اداسی سے مسکرادی تھی
“شہوار تمہیں تو اپنا آپ سمیٹنا آتا ہے میں کیسے سمیٹوں؟؟” وہ بڑبڑایا
اور عصر کی اذان سن کر مسجد جانے کیلئے اٹھ گیا اسکو سکون چاہیئے تھا اور وہ صرف اسکے رب کے پاس تھا
جب بھی روئے آنسو چھپا کر روئے
ہم نے کہاں سیکھا ہے غموں کی نمائش کرنا
________________
مصطفی طیب اور فیضان گھر میں داخل ہوئے تو لاونچ میں ماریہ نادیہ سر جوڑے پتہ نہیں کیا باتیں کر رہی تھیں
“السلام علیکم” طیب نے انکو اس قدر “مصروف” دیکھ کر کہا
“ارے بابا وعلیکم السلام” نادیہ نے ایک دم سے اٹھ کر جواب دیا
“سب لوگ کہاں ہیں” طیب نے پوچھا
“ماما اور کرن آنٹی کمرے میں اور شہوار کے سر میں درد ہو رہا تھا تو سوگئی” ماریہ نے تفصیلا جواب دیا
“سر میں درد شہوار کو کہاں ہے؟” فیضان اسکے سر کے درد کا سن کر بے اختیار بولا وہ ایک بار سر کے درد کا نتیجہ جو بھگت چکا تھا
“ارے برخوردار پہلے ماں سے تو مل لو” مصطفی اسکی بے چینی محسوس کرکے بولے اب انکو کیا بتاتا سر درد شہوار کیلئے نقصان دہ ہے
“ماریہ جاؤ انکو بلا کر لاؤ” طیب کے کہنے پر وہ کمرے کی جانب چل دی جبکہ ان تینوں مل نے کر سرپرائیز کا پلین بنالیا
“ارے آپ نے تو کہا تھا میٹنگ ہے اتنی جلدی آگئے” کرن مصطفی کو اتنی جلدی آتا دیکھ کر حیرت سے بولیں جبکہ دروازہ کے پیچھے کھڑے فیضان ماں کی آواز سن کر بے چین ہوا
“میٹنگ ختم ہوگئی تو میں آگیا ” مصطفی اپنے لہجے میں تھکاوٹ لاتے ہوئے بولے
” آپکی طبیعت تو ٹھیک ہے مصطفی صاحب؟” دونوں خواتین پریشان ہو رہی تھیں اور دونوں ہی انجان تھیں
“ارے مصطفی کیا کر رہے” طیب کو انکی ایکٹنگ ایک آنکھ نہیں بھارہی تھی
طیب نے ماریہ کو اوکے کا سگنل دیا تو اس نے مین سوئچ بورڈ بند کردیا
ایک دم لائٹ چلی گئی پورا گھر اندھیرے میں ہوگیا سب اپنی اپنی جگہ پر کھڑے تھے سوائے دو نفوس کے فیضان ماں کے سامنے آگیا اور مصطفی سائڈ پر ہوگئے پھر لائٹیں جلیں روشنیوں میں گھر نہایا کرن نے آنکھیں ملیں سامنے کھڑے فیضان کو دیکھ کر ساکت رہ گئیں
“فیضی” وہ بڑبڑائیں تب مصطفی نے انکے کندھے پر ہاتھ رکھا
“فیضی ہی ہے اپنا فیضی” وہ بھی گلوگیر لہجے میں بولے کرن کی چیخ نکل گئی تب فیضان نے انکو سینے سے لگالیا وہ ان سے بھی لمبا ہوگیا تھا کرن کو یقین نہیں آرہا تھا کہ تقدیر اس قدر مہربان ہو سکتی ہے وہ روئے جارہی تھیں وہاں کھڑے سارے نفوس کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں سب اس ملاپ۔پر خوش تھے سبکو اللہ کی قدرت پر یقین آرہا تھا
“ماما بس کریں” فیضان انکو چپ کرا رہا تھا وہ اس سے الگ ہوئیں
“بیٹا کہاں تھے کیوں گئے تھے؟” وہ روتے ہوئے بولیں
“شکر کریں چلا گیا ورنہ شہوار آپکو کیسے ملتی اور میں طیب انکل کو” وہ مسکراتےہوئے بولا اور کرن تو بس اسکی شکل وجاہت خوبصورتی اور انداز کلام دیکھتی رہ گئیں کتنا بڑا ہوگیا تھا وہ بالکل ایک خوبرو خوبصورت نو جوان
بیٹا تم بیٹھو میں شہوار کو بلا کر لاتی ہوں بہت اداس رہتی تھی تمہارے بغیر
“نہیں ماما اسکو سونے دیں جب اٹھے گی تو مل لوں گا” فیضان جانتا تھا اسکو کچی نیند سے جگانا مضر صحت کے
“اچھا تم فریش ہو لو میں کھانا لگادوں” مسز طیب بولیں وہ اٹھنے لگا لیکن کرن نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا وہ چونک کر مڑا کرن کی آنکھوں میں آنسو تھے اس نے مسکراتے ہوئے واپس انکو سینے سے لگالیا
“یار بابا” وہ بے چارگی سے منہ بناتے ہوئے بولا
“میرا جگر پریشان ہورہا ہے بس کرو کرن” وہ بھی ماحول کو ہلکا کرنا چاہ رہے تھے کرن الگ ہوگئی اور اسکے ماتھے پر بوسہ دے دیا
ممتا کی پیاس کبھی بجھتی نہیں ہے اولاد کو دیکھ کر اسمیں مزید تڑپ پیدا ہوتی ہے یہی حال کرن کا ہورہا تھا اسکو پیار سے دیکھے جارہی تھیں پھر خود ہی نظریں پھیر لیں مبادا کہیں انکی خود کی ہی نظر نہ لگ جائے
“بابا میرے گھر چلیں آپ لوگ میرا سارا سامان ادھر ہی ہے” فیضان نے کہا
“کیوں بھئی فری میں تمہارے گھر چلیں میرا دوست یہیں رہیگا” طیب تو اسکی بات سن کر ہی ہتے سے اکھڑ گئے انکے انداز پر سب مسکرائیے
“اچھا میں ابھی پھر چلا جاتا ہوں آپ لوگ ڈنر میرے گھر کر لیگا اور شہوار کو مت بتائیگا کہ میرے گھر جارہے ہیں اسکو سرپرائیز بھی تو دینا ہے” فیضان نے شہوار کی ناراضگی کے ڈر سے کہا تھا کہ۔وہ آنے سے ہی انکار نہ کردے جبکہ کرن اسکی بات سن کر اداس ہوگئیں
“ابھی تو ملے ہو اتنے سالوں کے بعد اب پھر جارہے ہو” فورا آنکھیں بھیگنے لگیں
“ارے ماما تین گھنٹے کی تو بات ہے چلیں آپ میرے ساتھ چلیں بابا آپ اسکو لے آئیگا کچھ بھی بول کر پلین بنانے میں طیب انکل ویسے ہی ماسٹر ہیں” وہ مسکراتا ہوا بولا
“تم پھر انکو بھی لے جاؤ تاکہ ہم بول دیں کہ دونوں خواتین شاپنگ کرنے گئی ہیں” طیب کے ذہن نے فورا کام کیا اور فیضان داد دیئے بغیر نہیں رہ سکا اور اپنے ساتھ دونوں خواتین کو لیکر چلا گیا
_______________
وہ زمانے بھر کو نکلے محبت بانٹنے
ہم نے بھی ہاتھ پھیلایا بولے تم مستحق نہیں ہو
“واقعی میں فیضان میں آپکی محبت کے لائق نہیں تھی آپ بہت شفاف موٹی کی طرح ہیں میں نے خاموش رہ کر بہت بڑی غلطی کی تھی لیکن ایک بار موقع تو دے دیں” وہ فیضان کے تصور سے مخاطب تھی
تب اس کے دل نے کہا کہ سکون چاہیئے وہ اٹھی اور وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھ کر دعا مانگنے لگی
” اے اللہ اے رحیم آقا اے کریم آقا میرے گناہوں کو معاف کردے تو تو جانتا ہے میں کیوں خاموش تھی تو تو سب جانتا ہے نا پلیز یہ سزا ختم کردیں مجھ میں سکت نہیں مجھ میں ہمت نہیں اب اور سہنے کی آپ تو اپنے بندوں سے محبت کرتے ہے نا پلیز اللہ مجھے فیضان لوٹادیں
ایک آپکا کی تو در ہے جہاں سے خالی ہاتھ نہیں لوٹتے آپکے در کی علاوہ کوئی در نہیں آپ بھی خالی ہاتھ لوٹادیں گے تو کہاں جاؤں گی کس سے مانگوں گی میرا آپکے علاوہ کوئی نہیں پلیز مجھ پر رحم کر مالک۔۔۔۔۔۔” وہ زار و قطار رو رہی تھی اسکے کمرے کا دروازہ کھولے سمیہ بیگم اسکی حالت دیکھ کر ایک اور بار پچھتاوے میں چلی گئیں
________________
“تم دفع نہیں ہوئے اس گھر سے” وہ عالیہ کو دیکھ کر چبھتی نگاہوں سے بولیں
“اپنی بیٹی کو آپ لوگوں کے پاس چھوڑ کر نہیں جاؤں گی” وہ بھی لا پرواہی سے بولیں سچ تو یہ تھا وہ ڈر گئیں تھیں کہیں انکے پیٹھ پیچھے انکی بیٹی کے کوئی مصیبت نہ آجائے اسلیئے رک گئیں تھیں
سمیہ بیگم استہزائیہ انداز میں انکو دیکھ کر چلی گئیں
_______________
“بابا بابا” شہوار شام۔کو اٹھی تو بھاگتی ہوئی مصطفی کے پاس آئی
“جی بابا کی جان” مصطفی اسکو پیار سے دیکھتے ہوئے بولے
“ماما کہاں ہیں” اس نے کرن کی بے موجودگی بری طرح محسوس کی
“وہ اور آنٹی شاپنگ کرنے گئے ہوئے ہیں” مصطفی نے اسکو کہا
“اچھا ہم لوگ کب جائیں گے؟” وہ بہت ایکساٹڈ تھی
“جب میری گڑیا بولے آپ تیار ہوجاو ہم پھر نکلتے ہیں” مصطفی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اسکو ایسے ہی اٹھا کر لے چلیں
“اچھا ویسے ہم۔کہاں جائیں گے” اس نے تجسس سے پوچھا
“ایک جگہ ہے آپ نہیں جانتی وہاں جاکر بہت خوش ہوگی بہت ہی اچھی جگہ ہے” مصطفی نے مسکراتے ہوئے کہا
“اچھا میں بس ابھی تیار ہوکر آئی آپ انکل نادیہ ماریہ کو تیار ہونے کا بولیں” وہ کہہ کر چلی گئی جبکہ مصطفی مستقبل کا سوچ کر ہی مسکرادئیے