“جب ہم شادی سے واپس آرہے تھے تو ہماری گاڑی کی ٹکر ایک ٹرک سے ہوگئی تھی ٹرک الٹ گیا تھا شاید اور ہماری گاڑی ڈھلان میں گڑ گئی تھی تمہاری ماما کا چہرہ بالکل جل گیا تھا اور کھال اکھڑ گئی تھی اور میرے سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے میں بھی بے ہوش تھا تب شادی سے واپسی پر میرے جگری دوست طیب کا بھی وہاں سے گزر ہوا اس نے ہم دونوں کو دیکھا تو فورا ہسپتال لے گیا ہماری حالت اتنی نازک تھی کہ طیب کو امریکہ جانا پڑا وہاں اسکے جاننے والے ڈاکٹرز تھے وہاں پہنچ کر میں ایک مہینے میں ٹھیک ہوگیا لیکن تمہاری ماما چار سال کومے میں رہیں میں ہمت ہار چکا تھا میرے پاس موبائیل نہیں تھا کہ تم لوگوں کو کال کر سکتا اور گھر کے فون پر میں طیب کے موبائیل سے کال کرتا لیکن جواب موصول نہیں ہوتا میں اپنی زندگی گویا ہار چکا تھا کرن بھی چار سال سے کومے میں تھی اور میرے بچے بھی مجھ سے جدا تھے ماں کی یاد الگ ستاتی تھی۔۔۔میں صرف اللہ کا ہوکر رہ گیا میں نے بہت مانگا بہت مانگا رو رو کر کرن کی زندگی اور اپنی اولاد کے ملاپ کیلئے التجائیں کیں پھر وہ دن بھی آیا جب میری ساری دعائیں سن لی گئیں اور کرن کو ہوش آگیا لیکن اسکی سانسیں اکھڑ رہی تھیں میں سجدہ میں گرگیا میں گڑگڑایا زندگی میں پہلی بار بہت رویا تھا تب اسکو شاٹ دئیے گئے اور یہ اللہ کے فضل و کرم سے زندگی کی طرف لوٹ گئی ہم چھ سالوں کے بعد اسلام آباد آئے گھر آیا تو پتہ چلا تم لوگ جا چکے تھے میں بے بسی کی حد پر تھا فیضان اور تمہاری شکل دیکھنے کیلئے ہم ترستے تھے بہت روتے تھے تم لوگوں کی تصویروں سے باتیں کرتے تھے پھر میری پوسٹنگ کراچی میں ہوگئی پچھلے سال ادھر آیا تو کرن نے بھی اپنے آپکو مصروف رکھنے کیلئے یونی جوائن کرلی ایک دوسرے کا غم بانٹتے بانٹتے ہم امید کھو چکے تھے پھر جب اس نے پہلی دفعہ تم کو دیکھا اور مجھے بتایا تو میں یقین نہیں کر رہا تھا کیونکہ میں زندگی میں خوشیوں سے مایوس ہو چکا تھا اور اب اب مجھے سمجھ نہیں آرہا کی رب کا کیسے شکر ادا کروں اس نے آج تک میری کوئی دعا رد نہیں کی مجھے بے حد پیار آریا ہے اس پر سچ ہے وہ ستر ماؤں سے بھی زیادہ محبت کرنے والا ہے” شہوار کے مسلسل اصرار پر مصطفی نے روتے ہوئے اپنی آب بیتی سنائی اور آسمان زمین پر اس گھر کو مسکراتا دیکھ رہا تھا جسکی دیواریں بھی کچھ دن پہلے اداس تھیں مصطفی شہوار کو مسلسل اپنے ساتھ لگائے بیٹھے تھے اس سے پہلے کرن نے شہوار سے ملاقات اور اس پر گزری قیامت اور فیضان کی جدائی کے بارے میں بتا چکی تھیں۔۔پھول کی پتیاں جڑ رہی تھیں بس ایک پتی کی کمی تھی جسکے بارے میں مصطفی کو یقین تھا وہ بھی مل جائیگا
“پھر وہ ٹکڑے کس کے تھے؟کافی دیر ہعد شہوار نے سوال کیا
“شاید اسی ٹرک ڈرائیور کے کیونکہ وہ بالکل الٹ چکا تھا اور میرا موبائیل ادھر ہی گر گیا تھا اسی لئے تم لوگوں کو کال کر کے بتایا ہوگا” مصطفی صاحب نے مسکرا کر کہا۔
__________________
“بینش بیٹا مجھے چائے بناؤ سر میں بہت درد ہورہا ہے” سمیہ بیگم نے بینش کو کہا جو ٹی وی دیکھ رہی تھی
“خود بنائیں خالہ میں کوئی نوکر ہوں اس گھر کی” بینش کے لہجے پر سمیہ بیگم کے چودہ طبق روشن ہوگئے اور بے یقینی سے اسکو دیکھتی رہیں جو دوبارہ ٹی وی کی جانب متوجہ ہوگئی تھی
وہ کچھ دنوں سے محسوس کر رہی تھیں کہ بینش ان سے بہت حقیرانہ انداز میں بات کر رہی تھی
وہ شایان کی حالت سے ویسے ہی پریشان تھیں نہ کسی سے بات کرتا تھا نہ کسی کے پاس بیٹھتا تھا مسکرانا تو جیسے اسکو بھول گیا تھا اپنے آپکو بے حد مصروف کرلیا تھا اور اب بینش کا رویہ انکی سر کی نسیں پھٹنے لگیں اوہ دکھتے سر کے ساتھ کچن میں چائے بنانے چل دیں
____________________
“شایان بیٹا کھانا کھالو” سمیہ بیگم اکیلے بہت پریشان تھیں ان سے اپنے بیٹے کی یہ حالت دیکھی نہیں جارہی تھی
“کہا نا نہیں تو نہیں اکیلا چھوڑ دیں مجھے” وہ بیزار سے لہجے میں بولا تو سمیہ بیگم نا چاہتے ہوئے بھی اپنے کمرے میں آگئیں
شایان گھر پر کم ہی رہتا تھا آج اسکو شدید بخار تھا تو گھر پر رہنا پڑ رہا تھا وہ اٹھا اور گاڑی کی چابی لیکر پورچ میں آیا
“ارے شایان کہاں جارہے ہو؟ عالیہ نے اسکو دیکھتے ہی کہا
“کہیں بھی نہیں” وہ جیسے اپنے آپ سے بولا
” تم کیوں اپنے آپکو تباہ کر رہے ہو ایک بدکار لڑکی کیلئے” عالیہ کے لہجے میں چبھن تھی
“بس بس بہت ہوگیا بدکار شہوار نہیں آپکی بیٹی ہے جس نے خود فیضان کو کمرے میں بلایا تھا اور میں تھپڑ کا نشان دیکھ کر سمجھا کہ واقعی فیضان غلط ہے لیکن وہ صحیح تھا دوسروں پر الزام لگانے سے پہلے اپنے گریبان میں بھی جھانک لینا چاہئیے تاکہ بعد میں پچھتاوا نہ ہو اور آئندہ فیضان اور شہوار کے بارے میں آپکے منہ سے ایک لفظ نہ سنوں” وہ انگلی اٹھا کر سخت لہجے میں بولا اور تیز تیز قدم اٹھاتا گاڑی کی جانب چل دیا اور عالیہ نخوت سے منہ موڑ کر اندر چلی گئیں
________________________
“کیا ہوا سوئٹی؟”شہوار کو اداس بیٹھا دیکھ کر کرن نے پوچھا
” کچھ نہیں بھائی بہت یاد آرہے ہیں میں پتہ نہیں کیسے ہونگے میں اپنا موبائیل بھی اس گھر میں بھول گئی کہ کال کرسکتی جب انکو پتہ لگے گا کہ آپ دونوں مل گئے ہیں وہ کتنا خوش ہونگے نا” شہوار اداس سے لہجے میں بولی کرن نے اسکو اپنے ساتھ لگالیا
“مصطفی کہ رہے تھے ہم اس گھر میں جائیں گے پھر تم۔اپنا موبائیل لے لینا اور فیضان کو کال کر لینا” شہوار انکی بات سن کر ایک جھٹکے سے الگ ہوئی
“اس گھر میں میں مر کر بھی قدم نہیں رکھوں گی ماما وہ۔لوگ اپنے نہیں ہیں جہاں میرے بھائی اور میری ذات کو داغ دار بنایا گیا اور انکی وجہ سے میرا بھائی مجھے چھوڑ کر چلا گیا میں اس گھر میں کبھی قدم نہیں رکھوں گی” وہ اٹل لہجے میں بولی
“پر شہوار مصطفی کو اپنی ماں اور بھائی سے تو ملنا ہے نا برسوں سے انکا انتظار کرہے تھے” کرن اسکو سمجھانے کی کوشش کرنے لگیں
“آپ۔اور بابا چلے جائیں لیکن نہ میرا بتائیگا نہ میں جاؤں گی” وہ کہتے ہوئے انکی گود میں لیٹ گئی تو کرن بھی اسکے سر پر ہولے ہولے ہاتھ پھیرنے لگیں
____________________
سارے وہم بس تیرے ہیں ہم کہاں تجھے بھول پائیں گے
آج تفصیل نہیں بس اتنا سنو!قسم سے بہت یاد آتے ہو
حوریہ ڈائری کھول کر فیضان کے اسکیچس دیکھ رہی تھی اب وہ بھی اداس تھی بے انتہا اسکی خاموشی کو فیضان نے غلط سمجھا تھا کوئی نہیں جانتا تھا وہ کیوں خاموش تھی
فیضان کو اسکے بعد سے اس نے بہت کالز کیں لیکن اس نے فون نہیں اٹھایا
“حوری” شایان اسکے کمرے میں آیا
“جی بھائی” ڈائری بند کرکے اسکی طرف متوجہ ہوئی دونوں کے غم ایک جیسے ہی تو تھے شایان بھی اسکو بالکل بہنوں کی طرح چاہتا تھا اور دونوں اب ایک دوسرے کے غم بانٹتے تھے
“اداس ہو؟” شایان نے اداسی مسکراہٹ سے پوچھا
“اب زندگی میں اداسی کے علاوہ اور ہے ہی کیا؟” وہ دکھے دل سے بولی
“میں نے بہت دعائیں مانگی ہیں ان شاء اللہ فیضان اور شہوار ہمیں مل جائیں گے” اسکے لہجے میں ایسا یقین تھا کہ حوریہ بھی حیران رہ گئی تھی اور چپ چاپ نے دیکھنے لگی
اب بولنے کو کچھ ہوتا ہی نہیں تھا بس آنسو ہی دل ہلکا کر لیتے تھوڑے گال بگھو لیتے ورنہ زندگی بے مقصد گزر رہی تھی وہ اسکو گڈ نائٹ کہتا ہوا چلا گیا اب اکیلے بھی ضبط کرنا مشکل تھا
__________________
“ارے تم کیوں اتنا خوش رہتی ہو اداس رہا کرو تاکہ تمہاری بہن کو تم پر رحم آئے” احمر عالیہ سے گویا ہوا اور چائے دینے آنے کیلئے سمیہ بیگم کا دروازہ پر ہی ہاتھ رک گیا
“مجھے سمجھ نہیں آرہا میں شایان کو کیسے کنٹرول کروں” انکی آواز ابھری
“کیوں کیا ہوا؟” احمر نے حیرانی سے پوچھا جواب میں دوپہر میں شایان کی گئی گفتگو احمر کے گوش گزار دی
“پاگل جب پتہ ہے کہ شہوار کی برائی اس سے برداشت نہیں ہوتی پھر کیوں بولا غصہ تو ہوگا نا” احمر کو اب غصہ آنے لگا تھا
“ویسے بینش والا معاملہ کیا تھا؟” احمر نے پوچھا
“میں نے پوچھا تھا اس سے تو ہنستے ہوئے کہنے لگی اس نے خود نے ہی فیضان کو بلایا تھا” عالیہ بیگم ہنسنے لگیں
“سچ ہم پر گئی ہے ہماری بیٹی بھی” احمد نے گویا فخر کیا سمیہ بیگم کیلئے اپنا وجود سنبھالنا مشکل ہوگیا وہ بھاری قدموں کے ساتھ واپس ہوگئیں
کبھی کبھی اپنے بھی دھوکہ دے دیتے ہیں اور کبھی غیر بھی اپنے بن جاتے ہیں۔کبھی کبھی انسان زندگی میں وہ غلطیاں کرتا ہے کہ زندگی بھر پچھتانے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا سمیہ بیگم کو اب اندازہ ہورہا تھا کہ شہوار کیا تھی اور بینش کیا ہے رات کو عالیہ کے الفاظ سن کر وہ بہت روئی تھیں تب بھی انکے آنسو انہوں نے پونچھے جنکو وہ زندگی بھر اذیت دیتی رہی تھیں
” کیا ہوا سمیہ؟” بڑے تایا کب سے انکو روتا دیکھ رہے تھے اب انہوں نے پوچھ ہی لیا جو بھی تھا آخر کو تھیں تو انکی شریک حیات ہی
وہ جواب دینے کے بجائے روتی رہیں
“ارے کچھ بتاؤ تو سہی؟” تایا ابا بھی اب پریشان ہوگئے تھے آج سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا
وہ انکے کندھے پر سر رکھ کر رونے لگیں
“مجھے معاف کردیں پلیز مجھے معاف کردیں میں نے آپکو بہت اذیت دی کبھی سکون نہیں دیا بیوی ہونے کا حق ادا نہیں کیا پلیز میں ہاتھ جوڑتی ہوں” وہ روتے روتے معافی مانگ رہی تھیں
” میں کیوں معاف کروں گا معاف تو وہ کریگی جسکے ساتھ تم نے برا کیا” بڑے تایا بھی اداس ہوگئے تھے انکو شہوار بہت عزیز تھی اور اب اسکو یاد کرتے کرتے ہی اداس ہوجاتے تھے
“میں اس سے بھی معافی مانگ لوں گی” وہ ایک عزم کرتے ہوئے لیٹ گئیں لیکن گناہ انسان کو سکون تھوڑی لینے دیتا ہے وہ تو لمحہ لمحہ ڈستا ہے انکو بھی شہوار کے الفاظ یاد آرہے تھے
“آپ کرلیں ان سے شادی تائی جیسی بھی ہیں مجھے پھر بھی ان سے محبت ہے” کیسے اس نے اپنی خوشی کو مار کر انکی خواہش کو مقدم کیا تھا اپنا شوہر خود کسی کے سپرد کرنا کوئی آسان نہیں تھا جبکہ آپس میں محبت بھی ہو وہ اٹھ کر بیٹھ گئیں
” مجھے تب بھی ان سے محبت ہے” آواز انکے ارد گرد گونج رہی تھی آنسو ٹپ ٹپ گر رہے تھے
“مجھے تب بھی ان سے محبت ہے” انہوں گھبرا کر ہاتھ کانوں میں ڈال لئے اور زار و قطار رونے لگیں بڑے تایا بھی انکی اس حالت سے پریشان ہوگئے تھے
“کیا ہوا سمیہ؟” وہ گھبرا کر پوچھنے لگے لیکن سمیہ بیگم۔بے ہوش ہوگئیں وہ اور شایان جلدی انکو ہسپتال لے جانے لگے
“ارے کیا ہوا آپی؟” عالیہ جو بینش سے بات کر کے اپنے کمرے میں جارہی تھیں سمیہ بیگم یہ حالت دیکھ کر پوچھنے لگیں
“کچھ نہیں” شایان بے رخی سے جواب دیا اور چلتا چلا گیا
______________
“میں سوچ رہا ہوں مجھے آفس کے کام سے دبئی جانا ہے کیوں نہ شہوار اور تم بھی چلیں وہ بھی فریش ہو جائیگی” مصطفی کے کہنے کی دیر تھی کہ شہوار انکے بانہوں میں جھول گئی
“سچ نا بابا مجھے جانا ہے مجھے جانا ہے” شہوار بہت زیادہ ایکسائیڈ تھی
“بالکل سچ بیٹا” مصطفی نے اسکو پیار کرکے کہا
“کب جائیں گے؟” شہوار کے لہجے میں جلد بازی تھی
“پرسوں ” مصطفی نے کہا
“پرسوں جانا ہے اور آپ۔اب بتا رہے ہیں گھر کون سمیٹے گا” کرن کمر پر ہاتھ رکھ کر بولیں
“ایک تو بس ہماری بیوی کو لڑائی کا موقع چاہئیے” مصطفی صاحب نے شہوار کو آنکھ مار کر کہا وہ بھی ہنس دی
” میں ہیلپ کروائوں گی ماما” شہوار نے انکی پریشان حل کی۔
“ٹھیک ہے آؤ آج ہم کچن سمیٹ لیں پھر کل پیکنگ کرلیں گے” کرن مصروف سے انداز میں بولیں شہوار بھی انکے پیچھے چل دی
“مجھ معصوم کو اکیلا چھوڑ کر کہاں جارہے ہو؟” مصطفی دونوں کو جاتا دیکھ کر بولے
” بابا آپ گیم کھیل لیں نا” شہوار نے ایسے کہا جیسے وہ کوئی چھوٹے بچے ہوں
“ارے جاؤ جاؤ لڑکی ورنہ تمہاری ماں آجائیگی مجھے قتل کرنے” انہوں نے بے چارگی سے کہا تو شہوار ہنستی ہوئی چلی گئی جبکہ مصطفی فیضان کی تصویر دیکھنے لگے
“کتنا اچھا دوست تھا تو فیضی” وہ بڑبڑائے اور آنکھوں کی نمی صاف کر کے اٹھ گئے
_________________
فیضان اپنے کمرے میں بیٹھا تھا اور یادیں ساتھ نہیں چھوڑ رہی تھیں اسکو شہوار کی بے حد یاد آرہی تھی
“نجانے تم کہاں ہوگی شہوار” وہ اداسی سے بولا اب اسکے دل میں سکون نہیں آتا تھا وہ اسکی یادوں سے نکل نہیں پاتا تھا اسکی شرارتیں ناراضگیاں فرمائشیں کچھ بھی تو نہیں بھولتا تھا اسے
یہ تک یاد تھا ایک دفعہ شہوار سے اپنے جانے کا ذکر کیا
“شہوار اگر میں نہیں ہونگا تو تمہارا کیا ہوگا؟” وہ اکٹر اس سے کہتا
” آپ کہاں جائیں گے؟” وہ بھی تو ڈر جاتی تھی
“ایسے ہی کبھی تمہیں میرے بغیر جینا پڑ جائے تو”
“مجھے پتہ ہے زندگی میں ایسا کوئی موقع نہیں آئیگا جب آپ نہ ہوں” وہ کہ کر اسکے سینے سے لگ گئی کتنا مان تھا اسکو اور اب فیضان نے سارا مان توڑ دیا تھا وہ اداسی سے مسکرادیا اور آنکھوں کی لالی اور مزید لال ہوگئی
_______________
“شہوار کو لے آؤ شایان میں اسکے سامنے ہاتھ جوڑوں گی مجھے معاف کردیگی” سمیہ بیگم کو ہوش آیا تو شایان کو گم صم بیٹھا دیکھ کر گویا ہوئیں ان سے اپنے بیٹے کی اداسی اور خاموشی نہیں دیکھی جاتی تھی
“کہاں سے لاؤں چھوڑ کر جا چکی ہے ہر کونے میں اسکو ڈھونڈا ہے نہیں ملی وہ” شایان کے لہجے میں تھکن تھی کتنا ناراض تھی اس سے ہاں ناراض ہی تو تھی اس سے۔۔۔دنیا سے۔۔۔۔اپنے آپ سے
“کوشش کرو شایان مل جائیگی” سمیہ بیگم نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا جبکہ شایان نے ہاتھ فورا کھینچ لیا
بیٹے کی اس بے اعتنائی پر وہ دکھ سے اسکو دیکھنے لگیں
_________________
“فیضان میرے گناہ کی اتنی بڑی سزا مت دیں پلیز فیضان واپس آجائیں میں نہیں جی پارہی میں مر جاؤں گی فیضان” وہ آج بھی رو رہی تھی کئی دنوں سے اسکی یہی حالت تھی نہ کھانے کا ہوش نہ پینے کا ہر وقت آنکھیں لال رہتی تھیں
“حوریہ؟” اریبہ نجانے کب آئی تھی اور حوریہ کو مخاطب کیا
“ہوں” جھکے سر کے ساتھ ہی جواب دیا تھا
“اتنا مت اداس ہو آجائیں گے فیضان بھائی مامی بہت پریشان ہیں تمہارے لیئے رو رہی ہیں اپنے آپکو اذیت دے کر تم ساتھ میں اپنے چاہنے والوں کو بھی اذیت دے رہی ہو”اریبہ اسکو سمجھاتے ہوئے بولی
“میں چاہے جانے کے لائق نہیں” وہ مایوسی سے بولی
” ایسے مت بولو مایوسی کفر ہے انشاء اللہ وہ آجائیں گے تم۔بس اپنے آپکو ٹھیک کرلو کم از کم اپنے والدین کیلئے” اریبہ سے مامی کی یہ حالت دیکھی نہیں گئی تھی کتنا اداس تھیں وہ حوریہ کیلئے
“کوشش کروں گی” حوریہ کمزور سی آواز میں بولی تو اریبہ نے آگے بڑھ کر اسکو ساتھ لگالیا اور حوریہ آنسو بہانے لگی دل۔ہلکا کرنے لگی
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...