شہوار! شایان اور فیضان آفس سے لوٹے تو دونوں شہوار کے پاس آئے تاکہ اسکو بات بادیں لیکن دونوں نہیں جانتے تھے کہ وہ ڈائری پڑھ چکی ہے جیسے ہی شہوار کے روم میں داخل ہوئے اسکو بیڈ کے پاس گرا ہوا پایا اور سر سے خون بہ بہ کر اب جم گیا تھا فیضان کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے اور شایان کی حالت بھی فیضان سے کم نہیں تھی
“شہوار”فیضان زور سے چیخا اسکے قریب جاکر چہرہ زمین سے اٹھایا تو وہ خون بہ جانے کی وجہ سے زرد ہورہا تھا
“فیضان میں گاڑی نکالتا ہوں تم اسکو لے کر آؤ”شایان نے ہوش مندی سے کام لیا تو فیضان نے شہوار کو دوبٹہ اوڑھایا اور اسکو گود میں لے کر فورا نیچے پورچ کی طرف بھگا شور کی آواز سن کر حوریہ بھی اپنے کمرے سے نکل گئی کیونکہ شہوار کا روم بالکل اسکے روم کے ساتھ ہی تھا شہوار کی حالت دیکھ کر حوریہ کے پاؤں تلے زمین نکل گئی تھی وہ ان کے پیچھے دوڑی جو شہوار کو گاڑی میں ڈال رہے تھے
“میں بھی ساتھ جاؤں گی”حوریہ نے پھولی سانسوں سے کہا تو دونوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ نہایت پریشان کھڑی تھی شایان نے اسکا جانا بہتر سمجھا اور اسکو شہوار کے ساتھ بیٹھنے کو کہا
__________________
“مس شہوار کا برین ہیمریج ہوا ہے اور زخم لگ جانے کی وجہ سے کافی خون بہ گیا ہے جسکیلئے خون کا انتظام کرنا ہوگا”ڈاکٹر اختر جو شایان کے بہترین دوست تھے انہوں نے شہوار کے متعلق بتایا تو فیضان فورا آگے بڑ
“میں دونگا اپنی بہن کو خون”فیضان نے کہا
“آر یو شیور مسٹر فیضان؟” ڈاکٹر نے تصدیق چاہی
“اسمیں شیور کی کیا بات ہے بہن ہے میری اپنی جان بھی دے سکتا ہوں آپ جلدی کریں پلیز”فیضان کافی زید ڈسٹرپ تھا اور اب وہ خون دے رہا تھا اپنے آخری رشتہ بچانے کیلئے۔۔ اپنے جان کو بچانے کیلئے ۔۔۔ اپنے ماما بابا کی نشانے بچانے کیلئے
____________________
شایان نے گھر پر کال کر کے شہوار کی طبیعت کے بابت بتادیا تھا اب سب کے سب ہاسپٹل میں تھے سوائے بڑی تائی اور بینش کے۔شایان کو اپنی ماں کی اس حرکت پر بہت افسوس ہوا.
“شایان بھائی کیا ہوا شہوار کو؟” اریبہ بھی پریشان ہوگئی تھی
“برین ہیمرج” اس نے فقط اتنا ہی بولا
فیضان خون دے کر باہر آیا تو شایان اسکیلئے جوس لے آیا
“اتنا کمزور نہیں ہوا میں ابھی دکھ سہ رہا ہوں نا دیکھو پھر بھی زندہ ہوں”فیضان ٹوٹے لہجے سے بولا
“نا امید مت ہو فیضی انشاء اللہ وہ بالکل ٹھیک ہوجائیگی”شایان نے اس سے زیادہ خود کو تسلی دی
“شایان اسکو ایسی کیا ٹینشن تھی کی اسکو برین ہیمرج ہوگیا؟”فیضان کا ذہن یہیں اٹکا ہوا تھا
“اس نے اسی بات کی ٹینشن لے لی ہوگی جو بات تم صبح ادھوری چھوڑ کر آئے تھے”شایان نے اپنا تجزیہ پیش کیا۔
“او نو اس نے کہیں میری ڈائری تو نہیں پڑھ لی”فیضان بڑبڑایا
“کونسی ڈائری؟”
اسمیں بہت کچھ لکھتا ہوں میں اور شہوار نے شاید نہیں یقینا وہی پڑھی ہے کیونکہ جب میں اسکے پاس جانے سے پہلے بیگ رکھنے کمرے میں گیا تھا تو ڈائری کا کور تکیہ کے نیچے تھا ہوسکتا ہے وہ ٹینشن میں ڈائری کور میں رکھنا بھول گئی ہو اور ڈائری ایسے ہی الماری میں رکھ دی ہو”فیضان نے پر سوچ انداز میں کہا
ابھی وہ دونوں باتیں کر ہی رہے تھے کہ حوریہ شایان کیلئے دادی کا بلاوا کے کر آگئی اور خود فیضان کے پاس بیٹھ گئی۔
کافی دیر دونوں کے پل خاموشی میں گزرے
“ڈاکٹرز نے اب تسلی دے دی ہے نا”حوریہ نے بات کا آغاز کیا
“ہوں”فیضان نے فقط اتنا کہا
“شہوار کو ہوش آگیا” کاشان نے آکر ان دونوں کو خبر دی تو فیضان بجلی کی تیزی سے اٹھا اور روم کی جانب بھاگا
وہ جیسے ہی اینٹر ہوا شہوار کی نظریں اسپر پڑھیں اور شہوار نے نظریں پھیر لیں۔فیضان کے سینے میں کچھ ٹوٹا تھا وہ آگے بڑھا اور شہوار کے برابر میں بیٹھ گیا
“کیسی ہو؟”اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ شہوار کے آنسو بہنے لگے
“شہوار”فیضان نے اسکا ہاتھ پکڑا
“ناراض ہو بھائی سے؟”فیضان نے بھرائی آواز میں پوچھا شہوار کا چہرہ ہنوز دوسری طرف تھا
“میں جانتا ہوں تم نے میری ڈائری پڑھ لی اپنا وعدہ توڑ دیا نا”فیضان نے اسکا چہرا اپنی طرف موڑنے ہوئے کہا
“شہوار آئی ایم سوری مجھے تمہیں بتا دینا چاہئے تھا لیکن میں تمہیں دکھ دینے سے ڈرتا تھا شہوار میں تمہاری آنکھوں اداسی تک نہیں دیکھ سکتا”اور یہی پہلا موقع تھا جب فیضان کی آنکھوں سے ایک آنسو کا قطرہ شہوار کے ہاتھ پر گرا۔اور شہوار تڑپ کر رہ گئی۔
“بھائی”شہوار کی نحیف آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی تو فیضان نے سر اٹھایا
“ہوں”ابرو اچکا کر پوچھا
“مجھے لگتا ہے ماما بابا زندہ ہیں”شہوار خلا میں گھورتی ہوئی بولی
“تم آرام کرو شہوار اس بارے میں مت سوچو”فیضان جانتا تھا وہ حد سے زیادہ حساس ہے فضول سوچیں اسکیلے خطرے کا باعث بن سکتی تھیں
“نہیں بھائی کوئی بھی والدین اپنی اولاد کو اسطرح چھوڑ کر نہیں جاتے کہ اپنا جسم اپنی لاش بھی دور کرلیں”شیوار کی آنکھیں بھیگنے لگیں اور فیضان کو یہ ٹینشن تھی کہ اگر اس نے مزید سوچنا شروع کردیا تو خطرہ ہوسکتا ہے جبکہ جبکہ ڈاکٹرز نے اسکو ریلیکس رکھنے کو کہا تھا فیضان نے جانے میں عافیت جانی اگر وہ بیٹھا رہتا تو شہوار اور باتیں کرتیں وہ اٹھنے لگا جب شہوار نے اسکا ہاتھ پکڑ کر روک لیا
“آرہا ہوں گڑیا دادی کو بھیجتا ہوں بہت پریشان ہیں میں تمہارے لئے جوس لاتا ہوں” فیضان اسکو تسلی دے کر چلا گیا اور باقی سب اندر آگئے۔
اسکی ساری رات ہاسپٹل کے کاریڈور میں بیٹھی گزر گئی تھی وہ شہوار کے پاس اسکے بعد سے نہیں گیا ہاں البتہ اس نے سب کو یہ کہ کر بھیجا تھا کہ اسکو باتوں میں لگائے رکھیں پھر ڈاکٹرز نے اسکو سکون کا انجیکشن لگادیا اور وہ سوئی تھی جبکہ فیضان کاریڈور میں بیٹھا سوچوں میں گم تھا
“فیضان” اسکو اپنے قریب ہی حوریہ کی آواز آئی فیضان نے سر اٹھایا تو وہ ٹرے لے کر کھڑی تھی
“میں آپکے لئے ناشتہ لے کر آئی ہوں آپ نے صبح سے کچھ نہیں کھایا”حوریہ اسکے پاس بیٹھتی ہوئی بولی
“مجھے حاجت نہیں حوری” شہوار سے سن کر وہ بھی اسکو حوری کہنے لگا تھا
“پلیز تھوڑا سا میرے لئے”وہ بہت مان سے بولی تو فیضان نے سر اٹھا کر اسکو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی
فیضان نے اسکے ہاتھ سے ٹرے لے کی اور اسمیں رکھے باکسس کھولنے لگا
“بائے دا وے ناشتہ لائی کہاں سے ہو” فیضان نے سرسری سا پوچھا
“گھر سے”حوریہ نے فقط اتنا کہا
“کس نے بنایا”وہ نجانے کیا سننا چاہ رہا تھا
“میں نے اپنے پیارے پیارے ہاتھوں سے”حوریہ نے ماحول خوشگوار کرنا چاہا
“اچھا تبھی پراٹھے تمہارے ہاتھ کی خوبصورتی دیکھ کر جل گئے ہے نا”فیضان نے بھی خوشگواریت سے کہا
“جی نہیں غور سے دیکھیں بالکل براؤن ہیں کلر ڈارک ہونے سے جلتا تھوڑی ہے”حوریہ نے ہنستے ہوئے کہا
“مذاق کر رہا تھا۔دادی جان کیسی ہیں”فیضان نے دادی کے بارے میں پوچھا جنکو بہت مشکلوں سے کل رات گھر بھیجا تھا۔
“اب ٹھیک ہیں ورنہ بہت زیادہ پریشان ہوگئی تھیں شہوار کی حالت کا سن کر”حوریہ نے جواب دیا
“اور باقی سب کہاں ہیں”فیضان ساتھ ساتھ ناشتہ بھی کر رہا تھا
“اریبہ ثمرہ آپی ارسلان کاشان بھائی مما شہوار کے پاس ہیں لیکن ابھی وہ جاگی نہیں ہے باقی شانی بھیا بابا اور تایا آفس میں اور دادی کو ڈرائور ادھر لارہا ہے”حوریہ نے تفصیلا جواب دیا
“گھر میں دو نفوس اور بھی ہیں”حوریہ جانتی تھی وہ بینش کا ذکر پسند نہیں کرتا اور بڑی تائی کا رویہ اسکو پسند نہیں تھا اسلئے جان بوجھ کر اس نے انکا ذکر نہیں کیا اب فیضان نے خود پوچھا تو بتانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا
“وہ دونوں شاپنگ پر گئی ہیں”حوریہ نے ہلکی آواز میں کہا
“ہونہہ”فیضان سر جھٹک کر ناشتہ کرنے لگا
“میں شہوار کے پاس جاتی ہوں اب اٹھ گئی ہوگی آپ بھی ادھر آجائیگا کل بہت دفعہ پوچھ چکی ہے”حوریہ نے اٹھتے ہوئے کہا جب فیضان نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا
“حوری مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میں تمہارے لئے کیا محسوس کرتا ہوں لیکن اتنا جانتا ہوں کہ تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو اور شہوار کا خیال رکھنے کیلئے اور اسکو ایک بہن کا پیار دینے کیلئے میں تمہارا بہت شکر گزار ہوں”فیضان نے گھمبیر لہجے میں کہا اور حوریہ کو اسکا معصومانہ اقرار اچھا لگا
“اسمیں شکریہ کی کوئی بات نہیں اور شکریہ اپنوں کو نہیں کرتے فیضی”وہ یہ کہ کر بھاگ گئی جبکہ فیضان مسکرانے لگا
___________________
“شہوار تھوڑا سا اور پی لو گڑیا”یہ چھوٹی تائی تھیں جو شہوار کو زبردستی سوپ پلا رہی تھیں۔جب سے شہوار کو برین ہیمرج ہوا تھا وہ کافی زید خیال رکھ رہی تھیں کیونکہ وہ طبیعتا ایک ملنسار خاتون تھیں انکو شہوار سے کوئی خاص چڑ بھی نہیں تھی لیکن انہوں نے کبھی اسکو پیار بھی نہیں دیا تھا لیکن اب انہوں نے شہوار کی جگہ حوریہ کو خواب میں دیکھا تو اندر تک بدل چکی تھیں اور اب وہ شہوار کو بالکل حوریہ کی طرح بیٹی سمجھ رہی تھیں۔
“نہیں چھوٹی تائی بس”شہوار نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا جسپر چھوٹی تائی نے بھی سوپ کا پیالہ واپس رکھ دیا
“شہوار ایک بات بولوں”چھوٹی تائی اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں جس سے شہوار کو بہت سکون مل رہا تھا
“ہوں”شہوار نے آنکھیں موند لیں تھیں
“تم مجھے حوریہ کی طرح مما کہا کرو”ربیعہ بیگم نے پیار سے کہا ۔شہوار نے چوپٹ آنکھیں کھول دیں اور انکو حیرت سے دیکھنے لگیں
“ایسے مت دیکھو گڑیا تم بالکل حوریہ کی طرح ہو میرے لئے تم نے بہت دکھ اٹھائے لیکن اب کوئی دکھ میں تمہیں آنے نہیں دوں گی تم بہت اچھی لڑکی ہو گڑیا مجھ سے بہت بڑی کوتاہی ہوگئی بیٹا مجھے معاف کردو میں بھابھی کی باتوں میں آجایا کرتی تھی لیکن اللہ گواہ ہے میرے دل میں کبھی بھی تمہارے لیے یا فیضان کیلئے میل نہیں آیا بس اپنی ذمہ داری بھول گئی تھی اب احساس ہورہا ہے”تائی کا لہجہ آبدیدہ ہورہا تھا
“ارے یہ آپ کیا کہ رہی ہیں مما میرے دل میں آپکیلئے کوئی شکایت نہیں ہے”شہوار خوشی کے آنسو لئے ان سے لپٹ گئی اور ربیعہ بیگم اسکے مما کہنے پر کھل اٹھیں تھیں
“اچھا تم آرام کرو بیٹا میں تھوڑی دیر میں کھانا لے کر آتی ہوں” وہ اسکو لٹاتے ہوئے بولیں شہوار نے سر ہلادیا تائی چلی گئیں اور دور کھڑے فیضان اپنے بہن کے دل میں خوشی محسوس کر کے مسکرادیا تھا
وہ شہوار کے پاس آیا تو وہ چھت پر دیکھے مسکرا رہی تھی
“بڑی خوش ہو بھئ”فیضان اسکے پاس بیٹھتے ہوئے گویا ہوا
“بھیا بھیا ایک بات بتاوں” خوشی کے مارے شہوار کی آنکھیں نم ہونے لگ گئیں حساس لوگوں کی یہی تو پریشانی ہے ہر بات پر آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔
“بس بس سب سن لیا میں نے”فیضان اسکے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا۔
“کیسی ہو سوئٹی” شایان اچانک روم میں داخل ہوا اسکے ہاتھوں میں خوبصورت گلابوں کا گلدستہ تھا
“ٹھیک ہوں بیسٹی”وہ بھی اسی کے انداز پر بولی شایان اور فیضان کھل کر مسکرائے۔
یار جلدی ٹھیک ہوجاو آفس کا کام اکیلا سنبھالتا ہوں یہ نکما ادھر ہی بیٹھا رہتا ہے”شایان ہنستے ہوئے بولا
“میرے بھائی نکمے نہیں ہیں”شہوار تو ہتھے سے اکھڑ گئی
“ہاں بھئ دنیا بھر کے مصروف انسان ہیں تمہارے بھائی وزیر اعظم کو بھی ان سے اپائنٹمنٹ لینا بڑے گا”شایان برا سا منہ بناتے ہوئے بولا جسپر شہوار کی ہنسی نکل گئی۔
“میرے بھائی بہت اچھے ہیں”شہوار کی آنکھوں بھائی کیلئے واضح محبت تھی جسپر فیضان کا سر فخر سے بلند ہوگیا۔
“ہاں دنیا میں یہی ایک اچھا کوئی اور تو دکھتا نہیں آپکو”شایان نے مذاق میں دل کی بات کہ دی
“سب دکھتے ہیں اور بھی لوگ اچھے ہیں لیکن میرے بھائی سے اچھا کوئی نہیں”وہ بچوں جیسے انداز میں بولی۔وہ دونوں مسکرا دئے تھوڑی دیر بعد باقی سب کزنز بھی آگئے تھے اور شہوار کافی ریلیکس فیل کر رہی تھی۔
__________________
شہوار گھر آگئی تھی لیکن اب بھی اس پر نقاہت طاری تھی ربیعہ بیگم اسکا خوب خیال رکھ رہی تھی دادی بھی اسکے پاس ہی بیٹھی رہتیں سارے کزنز اسکے ارد گرد جمع رہتے علاوہ بڑی تائی کے وہ دیکھنے بھی نہیں آئی تھیں اور بینش حوریہ اور فیضان کو دیکھ دیکھ کر جلتی تھی
___________________
فیضان کمرے میں داخل ہوا تو ٹھٹھک گیا وہ شاید نہیں یقینا بینش تھی
“تم ادھر کیا کر ہی ہو؟”فیضان کے ماتھے بر بل آگئے
اسکی آواز پر بینش نے مڑ کر دیکھا اور نہایت زہریلے انداز میں مسکرائی۔بینش کا لباس اتنا بے ہودہ تھا کہ فیضان نے فورا نظریں پھیڑ لیں
“تمہارا انتظار”وہ اٹھتے ہوئے بولی فیضان کافی ضبط کر رہا تھا
“چلی جاؤ یہاں سے”فیضان کی آواز میں غصہ اور سر کی رگیں غصے سے پھول گئیں تھیں اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ اسکا مار مار کر برا حال کردے
“ہائے فیضی تمہیں میری خوبصورتی کیوں نہیں دکھتی”وہ قریب آتے ہوئے بولی تو فیضان اسکے لہجے پر ٹھٹھک گیا وہ بری تھی لیکن اتنی بری کہ ڈرنک کرتی ہوگی یہ اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا فیضان کا ضبط جواب دے گیا۔
“چلی جاؤ یہاں سے”فیضان دھاڑا
“کیوں جاؤں میں آئی تمہارے لیے ہوں” وہ ڈھٹائی سے بولی تو فیضان کا ہاتھ اٹھ گیا اور اسکے گالوں پر نشان چھوڑ گیا
“یہ تھپڑ اب تمہیں یہاں آنے سے روک دیا گا اگر تم میں تھوڑی بھی غیرت ہوگی”فیضان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس لڑکی کو زندہ جلادے
“ہاں یہ تھپڑ زندگی بھر یاد رہے گا اور تمہیں اسکی قیمت چکانا ہوگی”وہ کہتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئی اور فیضان سر پکڑ کر بیڈ پر بیٹھ گیا