“میں کیسے تمہیں بتاؤں کہ میری محبت تمہارے لیئے آہستہ آہستہ عشق میں تبدیل ہورہی ہے میری صبح تمہیں دیکھ کر ہوتی ہے رات کو تمہاری تصویر دیکھ کر سوتا ہوں جس دن تم مجھے اگنور کرتی ہو میں اندر تک ٹوٹ جاتا ہوں لیکن تم سے اظہار نہیں کر سکتا کیونکہ میں جانتا ہوں تم میری ماں کی وجہ سے مجھ سے بھی نفرت کرتی ہو اور اپنی محبت کی نا قدری مجھ سے برداشت نہیں” شایان شہوار کی تصویر جو اس نے اسکے کمرے سے لے لی تھی ہاتھ میں لئے سوچوں میں گم تھا وہ جانتا تھا کہ اسکی ماں شہوار سے نفرت کرتی ہیں اور اسکی وجہ یہ تھی کہ سمیہ بیگم مصطفی کیلئے اپنی بہن کا رشتہ لے کر آئی تھیں لیکن مصطفی نے کرن سے شادی کرلی تو سمیہ بیگم کے دل میں کرن کیلئے کدورت پیدا ہونے لگی جو نفرت کی حد تک پہنچ گئی کیونکہ جب شہوار پیدا ہونے والی تھی تو اس وقت سمیہ بیگم بھی امید سے تھیں لیکن چونکہ انکے مقابلے میں کرن کمزور تھیں تو ساس کی توجہ کرن کی طرف زیادہ تھی جو ان سے برداشت نہیں ہوتی تھی اور جب شہوار پیدا ہوئی تو ساس کی توجہ کاشان سے زیادہ شہوار کی طرف تھی اسی بنا پر شہوار سے انکو نفرت ہونے لگی یہ سب باتیں شایان کو پتہ تھیں لیکن دل کا کیا کرتا جو اسکو ہر وقت شہوار سے اظہار محبت کرنے پر مجبور کرتا تھا۔
وہ تصویر رکھ کر ٹیرس میں آگیا جہاں شہوار پہلے سے کھڑی تھی اسکو اپنی قسمت پر بہت پیار آیا
“شہوار یہاں کیوں کھڑی ہو؟” شایان پوچھے بغیر نہیں رہ سکا۔
” ایسے ہی”اسکو شک ہوا شہوار کی طبیعت ٹھیک نہیں کیونکہ پہلے دفع اس نے صحیح سے جواب دیا تھا
“آج تو قسمت ہی نرالی ہے”(شایان نے دل میں سوچا اور مسکرادیا۔)
“طبیعت ٹھیک ہے تمہاری؟” شایان تھوڑا پریشان ہو گیا
“جی” شہوار نے اسی پر اکتفا کیا۔
“شہوار کیا ہم بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں؟”یہ پہلا موقع تھا جب شایان اور شہوار اتنی “تفصیلی”بات کررہے تھے۔
“جی”شہوار نے کہا اور وہیں رکھی کرسی پر بیٹھ گئی۔اور شایان کا تو جیسے منوں خون بڑھ گیا۔
“کیا ہم دوست بن سکتے ہیں؟” شایان نے ابتدا کی جسپر شہوار کافی حیران ہوئی۔
“جی کیا؟”شہوار نے آنکھیں پٹ پٹا کر پوچھا۔شایان کو اسکے انداز پر ہنسی آگئی۔
“اتنی مشکل اردو بھی نہیں بولی”شایان نے مسکراتے ہوئے کہا اور شہوار اسکو دیکھتی رہ گئی۔
“اے کیا دیکھ رہی ہو؟”شہوار کو اپنی طرف دیکھتا پاکر اس نے پوچھا شہوار ہر بڑا گئی۔
“آپ ہنستے ہوئے اچھے لگتے ہیں”وہ ایسی ہی تھی منہ پر بات کر دیتی تھی جو اسکے دل میں ہوتا تھا
شایان اسکے منہ سے اپنی تعریف سن کر مسکرایا
“تو کیا ہماری دوستی ہوسکتی ہے؟” شایان نے اپنا سوال واپس دہرایا
“ہاں ایک شرط پر؟”شہوار نے با قاعدہ انگلی سی “ایک” کا اشارہ کیا
“ہاں بولو”شایان نے دلچسپی سے پوچھا
“آپ اپنا غصہ ناک پر نہیں رکھیں گے کیونکہ مجھے آپ کے غصہ سے بہت ڈر لگتا ہے”شہوار نے مسکینی صورت بنائی جسپر شایان نے قہقہہ لگایا
“ہاں نہیں رکھوں گا ناؤ وی بیکم فرینڈز؟شایان نے ہاتھ بڑھایا تو شہوار نے “فرینڈز”کہتے ہوئے ہاتھ ملا لیا۔
“اب بتاؤ میری دوست اتنی اداس کیوں کھڑی تھی؟”شایان نے مان سے پوچھا
“پتہ نہیں فیضی بھائی کو کیا ہوگیا جب سے آئے ہیں بات نہیں کر رہے انکا موڈ بھی آف ہے اور کچھ بتا بھی نہیں رہے”شہوار تقریبا رونے والی ہوگئی تھی
“ارے اسمیں پریشانی کی کیا بات ہوسکتا ہے آفس کی کوئی ٹینشن ہو آج کل ویسے بھی اسپر آفس کے کام کا برڈن ہے تم پریشان نہیں ہو ٹھیک ہوجائیگا”شایان کو اسکی پریشانی کی وجہ معلوم تھی وہ جانتا تھا فیضان بینش سے خائف رہتا ہے اور جو آج ہوا وہ فیضان اسکو بتا چکا تھا لیکن پھر بھی شہوار کو مطمئن کرنے کیلئے یہ وجہ بتائی جو کہ سچ بھی تھی۔
“اچھا اب میں چلتی ہوں کل بات کریں گے” شہوار اٹھتے ہوئے بولی
“سنو”شایان نے اسکو پکارا
“تم مجھے “بیسٹی” بولا کرو”شایان نے مسکراتے ہوئے اپنی خواہش کا اظہار کیا
“کیوں بھلا”شہوار کو تشویش ہوئی۔
“مجھے اچھا لگے گا” شایان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“اوکے اینڈ تھینکس” شہوار نے مسکراتے ہوئے کہا
“تھینکس کس بات کا
“دوستی کیلئے”اور مسکراتی ہوئی چلی گئی اور شایان بھی اپنی قسمت پر مسکرا دیا
___________________
“بھائی!!”شہوار صبح فیضان کے کمرے میں داخل ہوئی وہ آفس کیلئے تیار ہو رہا تھا
“جی بھائی کی جان؟” اسکے طرز تخاطب پر شہوار کو اطمینان ہوا کہ اب اسکا موڈ ٹھیک تھا
“آپکو کل کیا ہوا تھا؟”شہوار نے روہانسے انداز میں کہا
“کچھ نہیں گڑیا آفس کا کام زیادہ ہے نا تو سر میں درد ہو رہا تھا”
“آپ مجھے بتا دیتے میں سر دبا دیتی اتنا پریشان ہوئی تھی میں”شہوار نے مسکینی صورت بنائی
“ارے میری گڑیا”فیضان کو بے اختیار اسپر پیار آیا
اچھا بتاؤ کیوں آئی تھی؟فیضان نے پوچھا
“بھائی مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے لیکن وعدہ کریں آپ میری بات مانیں گے؟”شہوار کی عادت تھی جب بھی فیضان سے کوئی بات منواتی اس سے ہاتھ ملا کر پہلے وعدہ لیتی تھی
“پہلے کبھی انکار کیا ہے جو اب کروں گا؟” فیضان نے اسکے سر پر چپت لگاتے ہوئی کہا
“وعدہ کریں نا”شہوار نے لاڈ سے کہا
“اچھا میری ماں وعدہ اب فرماؤ”
“بھیا ہمارے ماما بابا کی قبر کہاں پر ہے مجھے انکی قبر پر جانا ہے جب سے انکا اکسیڈنٹ ہوا میں کبھی نہیں گئی” شہوار کے سوال پر فیضان کے چہرے پر اذیت کے تاثر ابھرے
“انکی قبر نہیں ہے”فیضان کا لہجہ سپاٹ تھا اور شہوار حیرانی سے اسکی شکل دیکھ رہی تھی جہاں واضح اذیت کے آثار تھے
کیا مطلب بھائی؟” شہوار نے حیرانی سے پوچھا
“شام کو بتاؤنگا گڑیا ابھی آفس کیلئے لیٹ ہورہا ہوں”۔اور شہوار مزید کوئی سوال کرتی فیضان اسکو لیکر ناشتہ کی ٹیبل پر آگیا۔
وہ شدت سے فیضان کا انتظار کر رہی تھی اسکو تجسس ہو رہا تھا کہ آخر سب کی قبریں ہوتی ہیں میرے والدین کی کیوں نہیں ہے؟
آج فیضان معمول سے زیادہ لیٹ ہوگیا تھا جسپر شہوار کو بہت غصہ آرہا تھا
“فیضی بھائی مجھے بتانا ہی نہیں چاہتے تبھی جان بوجھ کر لیٹ آئیں گے”
وہ دل میں طرح طرح کے خیالات سوچنے لگی اور فیضان کے کمرے میں آگئی
“کیوں نا میں فیضی بھائی کی ڈائری پڑھ لوں ضرور وہ بات بھی اسی میں لکھی ہوگی”وہ جانتی تھی فیضان اپنی زندگی کی اہم مواقع ڈائری میں لکھا کرتا تھا لیکن وہ واحد چیز تھی جس کے بارے میں فیضان نے شہوار سے وعدہ لیا تھا کہ اسکی ڈائری کے بارے میں نہ کسی کو بتائیگی اور نہ خود کبھی لے گی اور اسی ڈائری کی وجہ سے فیضان نے پہلی بار اسکو ڈانٹا تھا
“شہوار ابھی معاف کر رہا ہوں لیکن آئندہ اس ڈائری کو ہاتھ بھی مت لگانا”وہ پہلی بار اسکی ڈائری کو ہاتھ لگا رہی تھی تب فیضان نے یہ کہا تھا اور اسکے اسوقت کوئی تجسس نہیں تھا کیونکہ شہوار کو بس یہ خیال تھا کہ فیضان نے اسکو ڈانٹا ہے اب اسکو ناراض ہونا ہے لیکن اب اسکو تجسس ہورہا تھا آخر اس ڈائری میں کیا تھا کہ فیضان ہاتھ بھی لگانے نہیں دیتا تھا
“اب میں اسکو پڑھوں گی بھلے بھائی ڈانٹیں”اس نے دل میں سوچتے ہوئے ڈائری کھول لی
___________________
“کیا ہوا فیضان؟ گھر نہیں جانا کیا” رات کے دس بجے بھی جب فیضان آفس میں بیٹھا رہا تو شایان نے اسکے پاس آکر تشویش سے پوچھا
“کچھ نہیں یار تھوڑی دیر میں جاؤں گا”فیضان نے اپنا سر دباتے ہوئے کہا۔
“ہوا کیا ہے کوئی پریشانی ہے کیا؟”شایان اسکا بہترین دوست بھائی اور کزن تھا یہ کیسے ممکن تھا فیضان کی پریشانی میں وہ پریشان نہ ہوتا
“یار شہوار نے آج وہ بات کہ دی جسکا مجھے ہمیشہ سے ڈر لگا رہتا تھا۔”فیضان کی آواز نہایت بھرائی ہوئی تھی
“کیا بات؟”شایان کو تجسس ہوا
“وہ ماما بابا کی قبر پر جانا چاہتی ہے اور میں نے اسکو بول دیا کہ انکی قبر نہیں ہے اب وہ وجہ پوچھ رہی ہے میری کچھ سمجھ نہیں آریا کیا کروں اسکو دکھ میں نہیں دیکھ سکتا”فیضان کے چہرے پر واضح اذیت کے آثار تھے جسکو دیکھ کر شایان نے ہونٹ بھینچ لیئے۔
“تم کہو تو میں بتاؤں اسکو؟” شایان نے اسکی تکلیف محسوس کرتے ہوئے پوچھا
“تم سے وہ عام بات نہیں کرتی یہ کیسے سنے گی؟فیضان نے اسکو دیکھتے ہوئے کہا جو اس بات پر مسکرا دیا تھا
“مسکرا کیوں رہے ہو؟” فیضان نے ایسے پوچھا جیسے اسکی دماغی حالت پر شبہ ہو
“تمہیں اس نے نہیں بتایا کہ ہماری اللہ کے فضل و کرم سے دوستی ہوگئی ہے جب۔۔۔۔ پھر شایان نے کل والی ساری بات بتادی جسکو سن کر فیضان کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا
“ایسے کیا دیکھ رہے ہو اب چلو میں بات کر لوں گا اس سے تمہارے لیٹ ہوجانے کی وجہ سے وہ پریشان بھی ہوگی”شایان اسکو اٹھاتے ہوئے بولا
“او نو”فہضان کو کچھ دن پہلے کی بات یاد آئی جب وہ بارش کی وجہ سے لیٹ ہوگیا تھا تو شہوار کی کیا حالت ہوئی تھی وہ فورا اٹھا اور دونوں گاڑی کی جانب چل دیئے
________________
“٢٢ جون ١٩٩٩
آج صبح میں بہت خوش تھا کیونکہ میں نے اسکول میں اول پوزیشن لی تھی ماما بابا بہت خوش ہوئے تھے اور انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا کہ کل وہ مجھے ڈنر پر لے جائیں گے کیونکہ آج انہیں بابا کے دوست کی شادی میں جانا ہے۔
جب شام میں ماما وائٹ فینسی سوٹ پہن کر آئیں تو بہت خوبصورت لگ رہی تھیں میں نے بے اختیار انکو گلے لگایا اور پتہ ہے انہوں نے کیا کہا مجھے
“فیضی گلے تو ایسے لگا رہے ہو جیسے آخری بار مل رہے ہو اور تب میں ہنس دیا تھا
“ارے بہو!نظر اتار لینا” دادی نے پیچھے سے آکر انکو ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا
“ارے امی جان میری نظر اتارنے کیلئے آپ ہیں نا”ماما نے لاڈ سے کہا تھا اور پھر دادی نے انکی نظر اتاردی اور ڈھیر سارا پیار کیا
اسوقت نجانے میرا دل چاہا کہ ماما نہ جائیں میرے پاس ہی رہیں لیکن پھر بابا ماما مجھے شہوار کا خیال رکھنے کو کہ کر چلے گئے جو کہ اسوقت سو رہی تھی۔
رات کی بارہ بجے گھر کے فون پر کال آنے لگی میں نے فون اٹھایا تو انہوں نے کسی بڑے کو فون دینے کو کہا میں نے تایا کو بلایا انہوں نے کال سنی تو کچھ دیر تک ساکت بیٹھے رہے
“ارے بتاو بھی عثمان کیا ہوا ہے کیوں ایسے بیٹھے ہو؟” دادا نے پوچھا تو تایا ہوش میں آئے اور انکی نظریں جب دادا سے ملیں تو آنکھوں میں آنسو آگئے لیکن وہ ابھی بتانا نہیں چاہتے تھی کیونکہ بابا سب سے چھوٹے ہونے کی وجہ سے دادا دادی کے لاڈلے تھے
بھائی آب میرے ساتھ آئیں بابا آپ پریشان نہیں ہوں بس آفس میں مسئلہ ہوگیا ہے اسی لئے پریشان ہوگیا تھا۔”وہ بڑے تایا کو لیکر باہر چلے گئے اور کسی کو نہیں پتہ میں بھی ان کے پیچھے چلا گیا
“کیا ہوا ہے عثمان؟” اب تو بڑے تایا بھی پریشان ہو رہے تھے
“بھائی مصطفی اور بھابھی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے اور وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے”چھوٹے تایا کہنے کے ساتھ ہی بڑے تایا کے گلے لگ کر رونے لگ گئے اور میں میرے آنسو رک گئے۔۔۔ آنکھیں جم گئیں۔۔۔ حلق خشک ہوگیا۔۔۔جسم جامد یوگیا۔۔۔دنیا اجنبی لگنے لگی۔۔میرے سامنے ماما کا خوبصورت چہرہ گھومنے لگا بابا کی میرے ساتھ شرارتیں انکی مسکراہٹیں گھومنے لگی بابا کی آواز کانوں میں گونجنے لگی
“بھئی ہم باپ بیٹے کم دوست زیادہ ہیں”
“میرا بیٹا میرا غرور ہے”
ماما کا پیار ماما کی باتیں ماما کا خیال رکھنا سب گھومنے لگا تب میں زور سے چیخا
“نہییییں” میں نے زمین پر بیٹھتے ہوئے کہا اور میں نے دیکھا تھا دونوں تایا میرے طرف آئے تھے اور مجھے سنبھالنے لگے تھے
میں بھی آپ لوگوں کے ساتھ جاؤں گا”میری ضد پر دونوں تایا مجھے بھی ہاسپٹل کے گئے لیکن وہاں کی خبر نے مجھے ہوش سے بیگانہ کردیا
“ایکسیڈنٹ بہت خطرناک ہوا ہے انکا کچھ نہیں بچا جو ہم آپکو ڈیڈ باڈی دکھا سکیں یہ تابوت ہے اسکو بند کردیا ہے اسمیں صرف اعضاء ہیں” ڈاکٹر کی بات سن کر میں ہوش کھو بیٹھا اور مجھے نہیں پتہ اسکے بعد کیا ہوا۔۔۔۔۔ جب میں نے آنکھ کھولی تو شہوار مجھے اٹھا رہی تھی
“فیضی بھائی اٹھیں نا یہ سب مہمان کیوں آرہے ہیں اور ماما بابا بھی ابھی تک نہیں آئے آج ہم آپکے رزلٹ کی ٹریٹ لینگے نا ہم ماما بابا کو خوب سارا تنگ کریں گے ٹھیک ہے؟۔۔۔وہ کہتی جارہی تھی اور میں اسکی شکل دیکھ رہا تھا جب اچانک ماما کا جملہ میرے کانوں میں گونجا
“فیضی شہوار کا خیال رکھنا”اور اس دن کے بعد سے میں نے شہوار کو سینے سے لگایا اور اسکا خیال رکھنے لگا
“شہوار ماما بابا اب نہیں آئیں گے۔۔”میں اسکے سامنے رونا نہیں چاہتا تھا میں اسکا بڑا بھائی تھا مجھے اسکو سنبھالنا تھا اور شہوار کو جب بات سمجھ آئی تو وہ خوب روئی میں نے اسکو بہت سنبھالا اور اب وہ میری جان سے بھی بڑ ھ کر ہے بس اس بات کا ڈر ہے کہ وہ ماما بابا کی قبر کی متعلق نہ پوچھ لے کیونکہ ابھی اسکو میں نے کہ دیا کہ اسکے اٹھنے سے پہلے ہی دفن کردیا۔
اب میرے آنسو تھم گئے جتنا لکھنا تھا لکھ چکا صبح شہوار کو اسکول کیلئے بھی اٹھانا ہے اسلیئے باقی باتیں پھر کبھی۔۔۔
شہوار ڈائری پڑھ کر فارغ ہوئی تو اسکے پورے گال اور آنکھیں آنسو سے بھیگی ہوئی تھیں۔وہ ڈائری رکھ کر اپنے کمرے میں آگئی اور روتے روتے کب بیہوشی ہوئی اسکو نہیں پتہ چلا