اپنی کتاب “جب دریا خشک ہو جائیں گے” میں فریڈ پئیرس بہت تفصیل سے ذکر کرتے کہ آنے والی برسوں میں تیس ممالک ایسے ہیں جن کو پانی کی بڑے بحران کا سامنا ہو گا۔ ہم اپنے اہم ترین تاریخی دریاوٗں ۔۔۔ دریائے نیل، دریائے کولاریڈو، دریائے زرد اور دریائے سندھ ۔۔۔۔ سے اس قدر پانی استعمال کر رہے ہیں کہ سمندر تک کم ہی پانی پہنچتا ہے۔
اچھی خبر یہ ہے کہ، تیل کے برعکس جو کہ بالآخر محدود ہے، پانی مسلسل جاری ہائیڈرولوجیکل سائیکل کا حصہ ہے۔ یہ کسی نہ کسی طریقے سے، کہیں نہ کہیں واپس لوٹتا ہے۔ یہ ضرورت سے زیادہ مقدار میں آ سکتا ہے، کم میں آ سکتا ہے، غلط وقت پر آ سکتا ہے لیکن واپس آتا ہے۔ بری خبر یہ ہے کہ کم، زیادہ، غلط وقت پر، کے علاوہ ایک اور مسئلہ بھی ہے۔ یہ آلودہ بھی ہو سکتا ہے۔ اور آخر میں یہ کہ اگرچہ یہ درست ہے کہ زمین پر بہت سا پانی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میں سے تقریباً تمام پانی ہمارے استعمال کے لئے بے کار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روسی ہائیڈرولوجسٹ آئیگور شکلومانوف کے تخمینے کے مطابق تقریباً 97 فیصد نمکین سمندری پانی ہے جو گھریلو استعمال یا زراعت کے لئے بے کار ہے۔ 1 فیصد کے قریب نمکین زمینی پانی ہے۔ تقریباً اڑھائی فیصد کے قریب پانی، جو نمکین نہیں، اس کا بڑا حصہ اینٹارٹیکا، گرین لینڈ یا پہاڑوں کے گلیشئیرز کی صورت میں ہے۔ میٹھے زمینی پانی کا 0.7 فیصد زیرِ زمین ہے۔ جبکہ دنیا کے تمام دریا اور جھیلیں اور دوسرا سطحی پانی ملا کر صرف 0.008 فیصد پانی رکھتے ہیں۔ جبکہ آبی بخارات، بادل اور بارش تمام زمینی پانی کا صرف 0.0001 فیصد۔
شکلومانوف کے اعداد سے تین نکات سامنے آتے ہیں۔سب سے پہلے تو یہ کہ پانی کے اہم ترین ذرائع ۔۔۔ دریا، جھیل اور بارش ۔۔۔ اصل میں پانی کی نایاب شکل ہیں۔ پانچ ہزار کے نوٹ میں سے صرف چالیس پیسے۔
دوسرا نکتہ یہ کہ دریا، جھیل اور بارش سے کہیں زیادہ پانی گلیشئیرز میں یا زیرِ زمین ایکویفائرز میں موجود ہے۔ اور یہ بھی انسانیت کے لئے انتہائی اہم ہیں۔
تیسرا نکتہ ۔۔۔ اور اس کو عام طور پر پالیسی ساز اور سائنسدان فراموش کر دیتے ہیں ۔۔۔ یہ کہ یہ اعداد انسانی واٹر سپلائی کی مکمل کہانی بیان نہیں کرتے۔
پانی ایک گردش میں رہنے والا ریسورس ہے۔ یہ زمین کے ہائیڈرولوجیک سائیکل میں ری سائیکل ہوتا رہتا ہے۔ بہہ جانا، اڑ جانا، کئی جگہوں پر ذخیرہ ہو جانا (جیسا کہ برف میں) اس کا حصہ ہے۔ عملی طور پر پانی کی throughput اتنی ہی اہم ہے جتنا اس کا حجم۔ مثلاً، دریاوٗں میں ایک وقت میں جتنا پانی موجود ہے، یہ قلیل مقدار ہے لیکن کسی قدیم گلیشئیر یا ایکویفائیر کے مقابلے میں یہ بہت تیزی سے نیا آتا رہتا ہے۔ پانی کا ایک قطرہ ایک قدرتی دریا میں چند روز گزارتا ہے جبکہ گلیشئیر، زیرِ زمین پانی یا سمندر کے گہرے کرنٹ میں یہ صدیوں یا لاکھوں سال بھی رہ سکتا ہے۔ اور یہ اس پیراڈوکس کی وضاحت کرتا ہے کہ دنیا کے دریاوٗں میں پانی کی کل مقدار صرف دو ہزار کیوبک کلومیٹر ہونے کے باجوجود ان سے سالانہ لیا جانے والا پانی اس سے دگنا ہوتا ہے۔
اور یہ وجہ ہے کہ بارش اور سطح کا پانی زمینی ایکوسسٹم اور انسانی کے لئے اس قدر اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی تیزرفتار تھروپُٹ انہیں قیمتی بناتی ہے۔ لیکن چونکہ ان کی مقدار اس قدر کم ہے اس لئے اس میں معمولی تبدیلی بہت کچھ بدل دیتی ہے۔ سمندر یا گلیشئیر کے برعکس فضا اور دریا کے پاس ذخیرے کی کوئی معنی خیز صلاحیت نہیں۔ اور اس باعث زمینی زندگی سیلاب اور خشک سالی سے متاثر ہوتی ہے جبکہ سمندری زندگی نہیں۔ ٹیونا مچھلی کو بہت سی پریشانیاں ہیں لیکن خشک سالی اس میں سے نہیں۔
اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے ہم نے دنیا بھر میں ڈیم، ذخائر، جھیلیں اور تالاب بنائے ہیں۔ لیکن انتہائی بڑے انجینرنگ پراجیکٹس کے بعد ہم جتنا پانی ذخیرہ کرتے ہیں، یہ دو سال کی سپلائی سے کم ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...